نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 6 : کتنی چوری پر ہاتھ کاٹا جائے گا؟


 اعتراض نمبر 6

پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔

مسئله :6

کتنی چوری پر ہاتھ کاٹا جائے گا؟

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم 

عن عائشه عن رسول الله ﷺ قال لا تقطع يد السارق الابربع دينار فصاعدا ترجمہ: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چور کا ہاتھ دینار کے چوتھے حصے ( تین درہم) کے برابر چوری کرنے یا اس سے زیادہ کی چوری کرنے کی وجہ سے کاٹا جائے گا۔

(البخاري ج 2 كتاب الحدود باب قول الله والسارق والسارقة فاقطعوا ايديهما صفحه 1004 ، 1003- رقم تحديث 6790) 

(مسلم 27 كتاب الحدود باب حد السارق ونصابها صفحه 63. واللفظ لمسلم رقم تحديث 4400

فقه حنفی

و اذا سرق العاقل البالغ عشرة دراهم او ما يبلغ قيمة عشرة دراهم مضروبة من حرز لا شبهة فيه وجب عليه القطع

 (هداية اولين 2 كتاب السرقة صفحه 537) 

جب عاقل اور بالغ دس درہم کی چوری کرے گا یا ایسی چیز کی چوری کرے گا جس کی قیمت دس درہم ہے، تو اس کا ہاتھ کا ٹناا واجب ہے۔

(فقہ وحدیث ص 45)

جواب:

امام ابو حنیفہ نور اللہ مرقدہ کے موقف کی دلیل یہ ہے کہ نصاب سرقہ کے باب میں اصل کی حیثیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو حاصل ہے کہ چوری کرنے والے کا ہاتھ ایک ڈھال کی قیمت سے کم مال میں نہ کاٹا جائے۔ ( نسائی ج 2 ص 223 )

اور اس اصولی حکم پر ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی میں عمل ہوا۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نام کے زمانے میں کسی چور کا ہاتھ ایک لاٹھی یا ڈھال کی قیمت سے کم میں نہیں کاٹا گیا۔ (صحیح بخاری کتاب الحدو د پارہ 27) 

ان دو احادیث سے معلوم ہوا کہ ڈھال کی قیمت پر ہاتھ کاٹا جائے گا۔

اب یہ معلوم کرتا ہے کہ ڈھال کی قیمت کیا ہے۔ حضور اکرم نام کے زمانہ میں ڈھال کی قیمت کے متعلق روایات مختلف آئیں ہیں۔ وہ ہم

یہاں درج کرتے ہیں۔

1۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت جس میں ربع دینار ( یعنی تین درہم) کا ذکر آیا ہے وہ راشدی صاحب نقل کی ہے۔ 

2۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کاٹا ایک ڈھال کے چورانےمیں جس کی قیمت پانچ درہم تھی۔

(نسائی ج2صفحہ 257 )

3۔ حضرت قتادہ سے روایت ہے میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا کہتے تھے ایک شخص نے ڈھال چرائی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اس کی قیمت لگائی گئی پانچ درہم پھر اس کا ہاتھ کاٹا گیا۔ ( نسائی ج 2 ص 257)

4۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا بہت عرصہ نہیں گزرا میں بھول گئی چوتھائی دینار میں ہاتھ کاٹا جائے گا یا زیادہ میں۔

 ( نسائی ج 2 ص 257)

5۔ حضرت سلیمان بن یسار نور اللہ مرقدہ نے کہا نہ کاٹا جائے ہاتھ کا پنجہ گر پنجے میں

( یعنی پانچ درہم کی مالیت میں) (نسائی مترجم جلد 3 ص 353 فرید بک سٹال لاہور )

6۔ حضرت عروہ رضی اللہ عنہ بھی سے روایت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے نہ کاٹا جائے ہاتھ مگر ڈھال کی چوری میں یا اس کی قیمت کے برابر دوسری چیز میں۔ عروہ نے کہا ڈھال چار درہم کی ہوتی ہے۔ 

( نسائی مترجم جلد 3 ص 353)

7۔ حضرت ایمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ نہیں کٹوایا چور کا مگر ڈھال کی قیمت 

(نسائی ج 2 ص 225)

8۔ حضرت ایمن سے روایت ہے چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا ڈھال کی قیمت میں اور ڈھال کی قیمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک دینار تھی اور عشرة دراهم

(یا دس درہم)

( نسائی ج 2 ص 225)

9۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے تھے ڈھال کی قیمت ان دنوں دس درہم تھی۔ (نسائی)

10۔ حضرت عطا نور اللہ مرقدہ نے کہا کم سے کم جس میں ہاتھ کاٹا جائے ڈھال کی قیمت ہے اور وہ ان دنوں میں دس درہم تھی۔

(نسائی جلد 3 ص 453) 

(مصنف ابن ابی شیبہ ج 9 ص 474 مصنف عبدالرزاق ج 10 ص 233)

 ان متعارض روایات میں تطبیق دینا ضروری ہے چنانچہ علمائے احناف نے ان میں یوں تطبیق دی ہے کہ ڈھال کی قیمت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مختلف اوقات میں بدلتی رہی ہے۔ ابتدا میں ڈھال کی قیمت ربع دینار ( تین درہم) تھی اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانے میں حکم دیا کہ ربع دینار کی چوری میں چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ پھر ڈھال کی قیمت بڑھ کر پانچ درہم ہو گئی ابن عمررضی اللہ عنہ کی دوسری روایت میں اس کا ذکر ہے۔ پھر اس کے بعد ڈھال کی قیمت اور بڑھ کر درس درہم ہوگئی ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ایمن رضی اللہ عنہاکی روایات میں اس زمانے کا ذکر ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے مثال کے طور پر پہلے اونٹوں کے سستا ہونے کی وجہ سے دیت چار سو درہم تھی بعد میں اونٹوں کے مہنگا ہو جانے کی وجہ سے یہ آٹھ سو درہم ہوگئی۔

 (سنن ابی داؤد ج 1 ص 279)

چونکہ سب سے آخر میں ڈھال کی قیمت دس درہم ہو گئی تھی اس لئے امام ابو حنیفہ نور اللہ مرقدہ کا فتوی یہ ہے کہ دس درہم سے کم مال میں چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جا سکتا۔ اس فتوے کے حق میں مزید روایات حسب ذیل ہیں۔

1۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ فرماتے تھے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ڈھال کی قیمت دس درہم تھی۔ ( نسائی جلد 3 ص 453)

2۔ عمرو بن شعیب اپنے والد سے وہ اپنے دادا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ڈھال کی قیمت دس درہم تھی۔ (نسانی ج)

3۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا چور کا ہاتھ دس درہم سے کم نہیں کاٹا جائے گا۔

 (کتاب الاثار امام محمد ص 109)

4۔ حضرت ابن عباس میں اللہ سے مروی ہے کہ چور کا ہاتھ ڈھال سے کم قیمت کی چیز میں نہ کاتا جائے۔ اور ڈھال کی قیمت دس درہم ہے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ ج 9 ص 474)

5۔حضرت عمرو بن شعیب نور اللہ مرقدہ اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہا کرتے تھے کہ ڈھال کی قیمت دس درہم ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 9 ص 474 مصنف عبد الرزاق ج 10 ص 233)

6۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہاتھ نہ کاٹا جائے گا سوائے ایک دینار کے یادس : درہم کے۔ مصنف ابی شیبہ ج 9 ص 474 مصنف عبدالرزاق ج 10 ص 233)

 7۔ حضرت ابو جعفرنور اللہ مرقدہ سے روایت ہے کہ ڈھال کی قیمت ایک دینار ہے جس میں ہاتھ کاٹاجاتا ہے۔

8۔ حضرت عبداللہ نور اللہ مرقدہ نے فرمایا کہ ہاتھ نہیں کاٹا جاتا مگر ڈھال ( کی قیمت ) میں راوی نے کہا کہ میں نے ابراہیم سے کہا کہ اس کی کیا قیمت ہے (ابراہیم نے ) کہا کہ ایک دینار۔

 (مصنف ابن ابی شیبہ ج 9 ص 475 منف عبدالرزاق ج 10 ص 234)

9۔ عمرو بن شعیب نور اللہ مرقدہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں سعید ابن المسیب نور اللہ مرقدہ کے پاس گیا اور میں نے ان سے کہا کہ آپ کے ساتھی عروہ بن زبیر محمد بن مسلم زہری، ابن یسار نور اللہ مرقدہ کہتے ہیں کہ ڈھال کی قیمت پانچ درہم ہے؟ (میرے اس سوال کے جواب میں سعید بن المسیب نور اللہ مرقدہ نے ) کہا کہ رہی یہ بات ( ڈھال کی قیمت والی ) تو اس بارے میں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم چلی آرہی ہے کہ ڈھال کی قیمت دس درہم ہے۔

 (مصنف ابن ابی شیبہ ج 9 ص 474)

10۔ قاسم بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ ایک آدمی کو جس نے کپڑا چرایا تھا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا تو انہوں نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کپڑے کی قیمت درس درہم سے کم ہے۔ چنانچہ تحقیق کی گئی تو اس کپڑے کی قیمت آٹھ درہم نکلی پس حضرت عمر نے اس کا ہاتھ نہیں کاٹا۔

(مصنف ابن ابی شیبہ ج 9 ص 474 مصنف عبد الرزاق ج 10 ص 233)

11- حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دس درہم سے کم میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔

(نصب الرایہ332 )

12۔ حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے وہ اپنے دادا ( عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ) سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دس درہم سے کم میں نہیں ہاتھ نہیں کاٹا جا سکتا۔ ( نصب الرايه ج ص )

13۔ عن ابى المسيب قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا سرق السارق ما يبلغ ثمن المجن قطعت يدها و كان ثمن المجن عشرة دراهم

(مصنف عبدالرزاق ج 10 ص 233)

ابن المسیب رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب چور کوئی ایسی چوری کرے جس کی قیمت ڈھال کی قیمت تک پہنچتی ہو تو اس کا ہاتھ کاٹا جائےاور ڈھال کی قیمت دس درہم تھی 

14۔ عن على قال لا يقطع فی اقل من دينار او عشرة دراهم 

(مصنف عبدالرزاق ج 10 ص 233) حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دینار یا دس درہم سے کم مال کی چوری پر ہاتھ نہ کاٹا جائے۔

15۔ عبد اللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ دس درہم سے کم میں ہاتھ نہ کاٹا جائے۔

16۔ حضرت عبداللہ بن عمر و ابن العاص رضی اللہ عنہ رسول اللہ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ چور کاہاتھ دس درہم سےکم مال میں نہ کاٹا جائے۔

فقہ حنفی کا مسئلہ ان احادیث آثار کے مطابق ہے۔ رہی وہ روایت جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے وہ پہلے دور کی ہے اس لئے ان دلائل کے مقابلہ میں ہمارے نزدیک قابل عمل نہیں۔ ویسے بھی شریعت اسلامیہ کسی انسان پر ظلم و زیادتی نہیں کرتی اور حدود نافذ کرنے میں ہمارے اسلامی جنون میں بہت ہی احتیاط سے کام لیا جاتا ہے۔ اسلام کا منشاء کسی کو بلا وجہ بےکا ر کرنے کا نہیں۔ جب تین اور دس درہم کی روایات موجود ہیں۔ تو احتیاط اور شک شبہ سے پاک دس درہم والی بات ہی بہتر معلوم ہوتی ہے۔ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عمل خاص کر خلیفہ راشد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا عمل دس درہم والی روایت کے مطابق پایا گیا اس لئے امام ابو حنیفہ نور اللہ مرقدہ نے اس روایت پر عمل کیا جس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عمل کیا۔ اور جو آخری زمانہ سے تعلق رکھتی تھی۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...