مسئلہ
ترک رفع یدین
(حدیث
ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )
مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ الفتحیہ احمدپور شرقیہ (ماخوذ: مجلہ راہ ہدایت)
حدیث:
حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن
عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا
اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ
یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ
ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ
اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل
الْکوْفۃِ۔
( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دوسرا نسخہ ۱؍۳۵)
ترجمہ: عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والی نماز پڑھاؤں؟پھر
انہوں نے نماز پڑھی اور صرف پہلی مرتبہ رفع یدین کیا۔فرمایا : اس باب ( ترک رفع
یدین ) میں براء ابن عازب سے بھی مروی حدیث ہے۔ ابو عیسیٰ ( امام ترمذی رحمہ اللہ
) نے فرمایا:ابن مسعود کی حدیث حسن ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ،
تابعین میں سے بے شمار اہلِ علم یہی کہتے ہیں اور یہی قول سفیان اور اہلِ کوفہ کا
ہے ۔
اس حدیث کی سند کے رواۃ درج ذیل ہیں۔
ھناد ۔
وکیع۔
سفیان۔
عاصم بن کلیب مسلم
عبد الرحمن بن اسود
۔
علقمہ ۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ۔
ان میں سے
اکثر بخاری و مسلم کے راوی ہیں اور بعض صرف مسلم کے۔ حاصل یہ کہ اس سند کے سب راوی
قابل اعتماد اور مستند ہیں۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو صحابی رسول (
صلی اللہ علیہ وسلم ) ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں بلکہ اُن کا شماراُن صحابہ کرام میں
ہے جو شروع زمانہ اسلام میں مسلمان ہوئے۔
سیدنا عبد
اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث :نسائی:۱؍۱۱۷...۱۲۰، ابوداود: ۱؍۱۰۹،...
مسند احمد : ۱؍۳۸۸، ۴۴۲... مصنف ابن ابی شیبہ :۱؍۲۳۶... السنن الکبری للبیہقی
:۲؍۷۸... شرح معانی الاثار للطحاوی : ۱؍۱۵۴ وغیرہ کتب حدیث میں ہے ۔
حدیث
ابن مسعود کی سند پر اعتراضات کا جائزہ
اس حدیث کی
سند پر غیرمقلدین کے مختلف اعتراضات ان کی کتابوں میں نظر آئے ۔یہاں ہم اُن کے
اعتراضات نقل کرکے اُن کاعلمی جائزلیتے ہیں۔ہم ان شاء اللہ خود غیرمقلدین کی
کتابوں سے ہی ان اعتراضات کا بے حیثیت ہونا نقل کریں گے۔ وباللہ التوفیق
پہلا
اعتراض: یہ حدیث عاصم بن کلیب کی وجہ سے ضعیف ہے
مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ سند کا مدار عاصم بن کلیب پر ہے اور
وہ منفرد ہے۔امام ابن المدینی نے کہا ہے کہ جب وہ منفرد ہو تو قابلِ احتجاج نہیں۔
‘ ‘
( مقالات ِ اثری :۲؍۱۱۳)
مولاناداود ارشد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’
اسے بیان کرنے میں عاصم منفرد ہے اور امام علی بن مدینی کہتے ہیں کہ جب عاصم منفرد
ہو تو حجت نہیں ہوتا ۔ ‘‘
(حدیث اور اہل ِ تقلید :۱؍۷۲۲)
جواب:
حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ عاصم بن کلیب : صدوق رمی
بالارجاء۔(تقریب
التہذیب : ۳۰۷۵) یہ صحیح مسلم کے راوی ہیں ...معلوم ہوا کہ یہ سند صحیح ہے۔ ‘‘
( نماز میں ہاتھ باندھنے کاحکم
اور مقام صفحہ ۱۴، مکتبہ اسلامیہ)
علی زئی دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’ عاصم بن کلیب اور ان کے والد کلیب
دونوں جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہیں۔‘‘
( علمی مقالات : ۱؍۴۲۵ ،مکتبہ اسلامیہ)
شیخ کفایت اللہ سنابلی غیرمقلد’’ عاصم بن کلیب کا تعارف ’’
عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:
’’ آپ بخاری
تعلیقا، مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ آپ بالاتفاق ثقہ ہیں۔ امام ابن سعد رحمہ اللہ
( المتوفی :۲۳۰) نے کہا: ’’ کان ثقہ یحتج بہ ‘‘ یہ ثقہ
تھے ،ان سے حجت لی جائے گی۔ [ الطبقات الکبریٰ ط دار صادر: ۶۶؍۲۴۱]۔ ٭امام ابن
معین رحمہ اللہ ( المتوفی :۲۳۳) نے کہا: ’’ عاصم بن کلیب ثقۃ مأمون‘‘ عاصم بن
کلیب ثقہ اور مامون ہیں۔[ من
کلام یحیٰ بن معین فی الرجالص: ۴۶]۔٭امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی : ۲۴۱) نے
کہا :’’ثقۃ ‘‘ آپ ثقہ
ہیں۔ [ العلل و معرفۃ الرجال للامام احمد
روایۃ المروزی و صالح والمیمونی الفاروق ص ۱۶۴]۔٭امام عجلی رحمہ اللہ ( المتوفی : ۲۶۱) نے کہا:
’’ثقۃ‘‘ آپ ثقہ ہیں ۔ [ تاریخ الثقات للعجلی، ص: ۲۴۲] ۔ ٭امام یعقوب بن
سفیان الفسوی رحمہ اللہ (المتوفی : ۲۷۷) نے کہا: ’’ثقۃ ‘‘ ، آپ ثقہ ہیں۔ [ المعرفۃ والتاریخ : ۳؍۹۵]۔‘‘
( انوار البدر صفحہ ۶۰)
سنابلی صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’ تنبیہ: ابن الجوزی رحمہ اللہ
(المتوفی: ۵۹۷) نے کہا: ’’ قال
ابن المدینی لا یحتج بہ اذا انفرد ‘‘ ابن المدینی نے کہا: جب یہ منفرد ہوں تو ان سے حجت
نہیں لی جائے گی۔ ‘‘ [الضعفاء
والمتروکین لابن الجوزی: ۲؍۷۰] ابن الجوزی کی اسی بات کو امام ذہبی اور ابن حجر
رحمہما اللہ نے بھی نقل کیا ہے۔ [میزان
الاعتدال للذھبی : ۲؍۳۵۶، فتح الباری لابن حجر: ۱؍۴۵۷]۔ عرض ہے کہ ابن
الجوزی نے کوئی حوالہ نہیں دیا ہے اور نہ ہی کہیں پر اس قول کی کوئی سند موجود ہے
بلکہ ابن الجوزی سے قبل کسی نے بھی ابن المدینی سے یہ بات نقل نہیں کی ہے۔ البتہ
یعقوب بن شیبہ السدوسی (المتوفی :۲۶۲ھ ) نے کہا : ’’ قال علی ابن المدینی : وعاصم بن کلیب صالح لیس ممن یسقط
ولا ممن یحتج وھو وسط‘‘ علی بن المدینی نے کہا: عاصم بن کلیب صالح ہے یہ نہ تو
ساقط لوگوں میں سے ہے، نہ ہی قابل حجت لوگوں میں سے بلکہ درمیانی درجے کا ہے۔ [ مسند عمر بن
الخطاب لیعقوب من شیبۃ ص۹۴] امام ابن المدینی کے اس ثابت شدہ قول سے واضح ہوگیا
کہ آپ عاصم کو علی الاطلاق ناقابلِ حجت نہیں مانتے کیوں کہ آپ اسے ساقط لوگوں میں
سے بھی نہیں مانتے بلکہ درمیانی درجے کا راوی مانتے ہیں یعنی یہ راوی امام ابن
المدینی کے نزدیک حسن الحدیث درجے کا ہے۔ ابن الجوزی نے لگتا ہے کہ ابن المدینی کا
یہی قول نقل کیا ہے لیکن صحیح طورسے نقل نہ کر سکے اور بات کچھ سے کچھ ہو گئی۔
واللہ اعلم۔ نیز دیگر ائمہ کی صریح توثیق کے مقابلہ میں اس طرح کی جرح کی کوئی
حیثیت بھی نہیں ہے۔ نیز ابن المدینی سے پہلے فوت ہونے والے امام ابن سعد رحمہ اللہ
نے کہا: یحتج بہ یعنی ان سے
حجت لی جائے گی، کمامضی ۔ دیکھئے : ص ۶۰۔ ‘‘
( انوار البدر صفحہ ۶۱)
قارئین کو
ہم یہ بات بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ بہت سے غیرمقلدین ایسے ہیں جنہوں نے عاصم بن
کلیب کی وجہ سے ترک رفع یدین کی حدیث کو ضعیف کہا مگر جہاں خود کو ضرورت پڑی وہاں
عاصم بن کلیب کی روایت سے استدلال کر لیا ۔
مولانا
داود ارشد غیرمقلد نے اپنی کتاب ’’ حدیث اور اہلِ تقلید ‘‘ میں سینے پر ہاتھ
باندھنے کے حوالہ سے ابن خزیمہ سے حدیث وائل سے استدلال کیا جس کی سند میں عاصم بن
کلیب ہے ۔ ( حدیث اور اہلِ تقلید :۱؍۴۱۸)
اسی کتاب
میں ترک رفع یدین کی حدیثوں کو ضعیف بتانے کے لیے عاصم بن کلیب پر جرح کر دی ۔
(حدیث اور
اہلِ تقلید :۲؍۷۲۲)
دوسرا اعتراض:اس حدیث کو ابن مبارک نے غیر ثابت
کہا ہے
سیدنا عبد اللہ بن
مبارک رحمہ اللہ نے اس حدیث کے متعلق کہا کہ یہ ثابت نہیں ہے ۔
جواب:
سیدنا عبد
اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کی جرح کسی قولی حدیث پر ہے کیوں کہ ان کے الفاظ اس طرح
ہیں:
’’ لم یثبت حدیث ابن مسعود ان
النبی صلی اللہ علیہ وسلم لم یرفع یدیہ الا فی اول مرۃ۔(ترمذی )
ابن مسعود کی حدیث کہ نبی صلی اللہ علیہ
وسلم سوائے پہلی بار کے رفع یدین نہیں کیا، ثابت نہیں۔
اگر اس جرح کو فعلی حدیث پرمان لیں تو اس
کا جواب یہ ہے کہ کسی دَور میں امام ابن مبارک رحمہ اللہ کی تحقیق یہی ہوگی کہ یہ
حدیث ثابت نہیں۔ جب کہ بعد میں تحقیق بدل گئی اور انہوں نے نہ صرف اس کو ثابت
تسلیم کیا بلکہ خود اسے روایت بھی کیا اورشاگردوں کو یہ حدیث پڑھائی ہے جیسا کہ
نسائی کی سند میں خود ابن مبارک اس حدیث کے راوی ہیں۔
امام ترمذی رحمہ اللہ نے ابن مبارک کی
جرح نقل کرنے کے باوجود حدیث کو حسن اور ایک نسخہ کے مطابق حسن صحیح کہا جس کا
مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اس جرح کو اہمیت نہیں دی۔ اہمیت نہ دینے کی دو وجہ ہو سکتی
ہیں ایک یہ کہ جرح کسی قولی حدیث پر ہے، نہ کی فعلی پر ۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ
سیدنا عبد اللہ ابن مبارک رحمہ اللہ نے اپنی بات سے رجوع کر لیا تھا۔
مولانا عطاء اللہ حنیف غیرمقلدنے حدیث ابن مسعود کے متعلق
نقل کیا:
’’ ان الحدیث ثابت ، بلاشبہ یہ
حدیث ثابت ہے۔ ‘‘
( التعلیقات السلفیہ علی سنن النسائی : ۱؍۱۲۳)
حافظ زبیر
علی زئی غیرمقلد کہتے ہیں کہ اگر کوئی مصنف کسی کی عبارت نقل کرکے مخالفت نہ کرے
تو یہ اس کے ساتھ موافقت کی دلیل ہوتی ہے۔ (علمی مقالات :۶؍۱۳۰)
مزید یہ کہ
غیرمقلدین کی گواہیاں موجود ہیں کہ سیدنا عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی
ترک رفع یدین کی حدیث صحیح اور ثابت ہے جیسا کہ ہم اپنے ایک مضمون میں یہ حوالے
نقل کر چکے ہیں۔ گویا غیرمقلدین بھی نہ صرف یہ کہ سیدنا عبد اللہ ابن مبارک کے قول
لم یثبت کو اہمیت
نہیں دے رہے ۔بلکہ اس قول کے برخلاف ’’یہ حدیث صحیح و ثابت ہے ‘‘ کا اظہار کر رہے
ہیں۔
تیسرا
اعتراض:یہ حدیث تدلیس سفیان کی وجہ سے ضعیف ہے
اس حدیث کی سند میں سفیان ثوری مدلس ہے اور مدلس
جب عن سے حدیث بیان کرے تو وہ ضعیف ہوتی ہے۔ یہ حدیث بھی سفیان نے عن سے بیان کی
ہے ۔
جواب:
غیرمقلدین
کی قدیم کتابوں میں یہ اعتراض نہیں اُٹھایا گیا۔میری معلومات کے مطابق سب سے پہلے
اس اعتراض کوصاحب ’’ التنکیل‘‘ شیخ عبد الرحمن معلمی نے کیا، پھر اسے حافظ زبیر علی
زئی نے نور العینین وغیرہ کتابوں میں شہرت دینے پہ جُت گئے۔مگر خود اُن کے اپنے
غیرمقلدین نے اس اعتراض کو فضول قرار دے کرجھٹک دیااور اسے جھٹکنے والوں میں علی
زئی صاحب کے اساتذہ بھی شامل ہیں۔حوالہ جات ملاحظہ ہوں۔
حافظ زبیر علی زئی کے استاذ محترم مولانا محمد
گوندلوی غیرمقلد ’’مدلسین کے طبقات ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:
’’ حافظ ابن حجر نے طبقات المدلسین میں
ان کے پانچ مراتب بیان کئے ہیں؛ (۱) جس سے بہت کم تدلیس ثابت ہو جیسے یحیٰ بن سعید
انصاری ہیں۔ (۲) جس کی تدلیس کو ائمہ حدیث نے برداشت کیا ہواور اپنی صحیح میں اس
سے روایت بیان کی ہو کیوں کہ اس کی تدلیس اس کی مرویات کے مقابلہ میں کم ہے۔ اور
وہ فی نفسہ امام ہے جیسے ثوری یا وہ ثقہ سے ہی تدلیس کرتا ہے جیسے کہ ابن عیینہ ہے
۔ ‘‘
( خیر الکلام صفحہ ۴۷)
گوندلوی صاحب دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
’’ سفیان دوسرے طبقہ کا مدلس ہے۔ طبقات
المدلسین ص۹۔ دوسرے طبقہ کے مدلسین کے متعلق حافظ ابن حجر نے لکھا ہے ائمہ حدیث نے
ان کی تدلیس برداشت کی ہے اور ان کی حدیث صحیح سمجھی ہے کیوں کہ یہ لوگ امام تھے
اور تدلیس کم کرتے تھے جیسے امام ثوری ہیں یا صرف ثقہ سے تدلیس کرتے تھے جیسے ابن
عیینہ ہیں ۔‘‘
( خیر الکلام صفحہ ۲۱۴)
علی زئی صاحب نے
گوندلوی صاحب کی یوں مدح سرائی کی :
’’شیخ الاسلام ، حجۃ الاسلام ، شیخ
القرآن و الحدیث، الامام، الثقۃ، المتقن، الحجہ، المحدث، الفقیہ، الاصولی، محمد گوندلوی رحمۃ اللہ علیہ‘‘
( فاتحہ خلف الامام صفحہ ۱۱)
علی زئی کے استاذشیخ بدیع الدین راشدی
غیرمقلد نے سفیان ثوری کے عنعنہ کے متعلق لکھا:
’’ سوال: سفیان مدلس ہے اور روایت عن سے
کر تا ہے ۔ جواب: اوّلاً: اس کی عنعن بوجہ مرتبہ ثانیہ ہونے کے معتبر ہے قال ابن
حجر فی طبقات المدلسین ، ص: ۲۔‘‘
(نشاط العبد بجھر ربنا لک الحمد مندرج مقالاتِ
راشدیہ : ۲؍۱۹۳)
دوسری جگہ سفیان کے عنعنہ کی بابت لکھا:
’’ ائمہ نے
اگرچہ ان کی عنعنہ کو لے لیا ہے مگر... ‘‘
( مقالاتِ راشدیہ : ۵؍۱۷۶)
شیخ بدیع الدین
اپنے خطبات میں سفیان کی معنعن روایت کی بابت کہتے ہیں:
’’ اس کی سند بالکل صحیح ہے اور اگر
کوئی کہے کہ اس کی سند میں سفیان ثوری واقع ہیں اور وہ مدلس ہیں تو اس کا جواب دو
طرح سے ہے : اولا : یہ کہ سفیان ثوری طبقہ اولیٰ کے مدلسین میں سے ہیں اور بقاعدہ
محدثین ان کی تدلیس مقبول ہو گی چاہے سماع کی تصریح نہ بھی کریں ملاحظہ ہو طبقات المدلسین لابن حجر۔‘‘
(خطباتِ راشدیہ : ۱؍۲۶)
شیخ بدیع الدین نے سفیان کی عنعنہ والی روایت کے متعلق لکھا:
’’ یہ حدیث
بالکل صحیح اور سالم ہے ۔‘‘
( مقالاتِ راشدیہ : ۲؍۹۷)
شیخ بدیع الدین کے متعلق علی زئی صاحب لکھتے ہیں:
’’اگر مجھے رکن و مقام کے درمیان کھڑا
کر کے قسم دی جائے تو یہی کہوں گا کہ میں نے ……شیخ بدیع الدین شاہ سے زیادہ عالم و
فقیہ کوئی انسان نہیں دیکھا۔‘‘
(علمی مقالات : ۱؍ ۵۰۵)
علی زئی کے استاذ مولانا محب اللہ شاہ راشدی غیرمقلد لکھتے
ہیں:
’’
حافظ ابن حجر طبقات المدلسین میں دوسرے مرتبہ کی وضاحت میں فرماتے ہیں : من احتمل
الائمۃ تدلیسہ واخرجوا لہ فی الصحیح لامامتہ وقلۃ تدلیسہ فی جنب ما روی کالثوری ، دوسرا
مرتبہ وہ ہے جن کی تدلیس کو ائمہ حدیث نے برداشت کیا ہے اور اپنی صحاح میں ان کی
روایات نکالی ہیں ان کی امامت اور قلت تدلیس کی وجہ سے جیسا کہ امام ثوری ۔ ‘‘ پھر
آگے جا کر حافظ صاحب نے دوسرے مرتبہ کے مدلسین کے نام گنوائے ہیں وہاں بھی امام
سفیان ثوری رحمہ اللہ کے متعلق امام المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ کا قول نقل
فرماتے ہیں : ما اقل
تدلیسہ ، امام ثوری
کی تدلیس کتنی قلیل ہے۔ ‘‘ جب ائمہ فن کی تصریحات سے معلوم ہوگیا کہ امام ثوری
رحمہ اللہ کی تدلیس بہت قلیل و نادر ہے اور وہ اس تدلیس قلیل کے باوصف حجۃ و ثبت
ہیں اور محدثین کے مابین متفق علیہ ہے اور محدثین نے ان کی احادیث کی اپنی صحاح
میں تخریج کی ہے۔ تو آپ ڈاکٹر [ابو جابر عبد اللہ دامانوی غیرمقلد (ناقل)] صاحب کی
یہ علت کوئی وزن نہیں رکھتی۔‘‘
( مقالاتِ راشدیہ : ۱؍۳۰۲)
مولانا محب اللہ شاہ راشدی نے سفیان کی
تدلیس کے مضر نہ ہونے پر علی زئی کی تردید میں ایک مفصل مضمون ’’تسکین القلب
المشوش باعطاء التحقیق فی تدلیس الثوری والاعمش ‘‘عنوان سے
لکھا۔اس کے تعارف
میں غیرمقلدین کے لکھاری الازہری لکھتے ہیں:
’’ جماعت کے معروف محقق محترم جناب
زبیرعلی زئی صاحب حفظہ اللہ نے شاہ صاحب رحمہ اللہ کے مضمون ’’ ایضاح
المرام واستیفاء الکلام، علی تضعیف حدیث النھی عن الانتعال فی حالۃ القیام‘‘ پر تنقید
فرمائی ... تو شاہ صاحب رحمہ اللہ نے ان کے رَد میں ایک مقالہ بنام ’’ تسکین
القلب المشوش باعطاء التحقیق فی تدلیس الثوری والاعمش‘‘تحریر فرمایا اور جہاں جہاں
محترم زبیر علی زئی صاحب نے اختلاف کیا، آپ نے ان کا علمی تعاقب فرمایا اور ثابت
کیا کہ یہاں الاعمش اور امام ثوری رحمہ اللہ کی تدلیس مضر نہیں ہے۔‘‘
( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍ ۳۰۴)
محب اللہ صاحب لکھتے ہیں:
’’ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کے متعلق
تو بلاشبہ میں نے لکھا ہے کہ چوں کہ یہ طبقات المدلسین مؤلف حافظ ابن حجر رحمہ
اللہ میں یہ مرتبہ ثانیہ میں مذکور ہے۔ لہذا اس کا عنعنہ مقبول ہے۔ ‘‘
( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍ ۳۰۵)
محب اللہ صاحب
لکھتے ہیں:
’’ہم یہ بھی کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ
امام ثوری رحمہ اللہ کو مرتبہ ثانیہ میں اور قتادہ ثالثہ میں شامل کرنے میں بھی
امام حاکم رحمہ اللہ سے بطریق اولیٰ غلطی ہو گئی ہے۔ ‘‘
( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍ ۳۰۸)
محب اللہ صاحب لکھتے ہیں:
’’لیجئے صاحب! امام ابن معین بھی امام
ثوری کی احادیث کو محتج بہ قرار دیتے
ہیں گووہ ثقہ سے تدلیس ہو یا غیر ثقہ سے۔ کیوں کہ ’’ یدلس ‘‘ عام لفظ ہے اور امام موصوف کی اس عبارت سے معلوم
ہوگیا کہ امام ثوری ؒ مدلسین کے مرتبہ ثانیہ میں داخل ہیں، یعنی جن کی عنعنہ
روایات بھی، ان کی امامت و جلالت اور قلت تدلیس کی وجہ سے مقبول ہیں۔ اب یہ موقف
صرف حافظ ابن حجر۔ یا علائی اور حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہم کا نہ رہا بلکہ ان کے ساتھ
امام ابن معین جیسے جرح و تعدیل کے امام بھی شامل ہیں لیکن آں محترم دوست نے اپنے
موقف کے اثبات کے لیے امام ابن معینؒ کے ہم پلہ کسی امام کا نام نہیں لیا۔ فللہ الحمد والمنۃ ‘‘
( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍ ۳۱۷)
محب اللہ صاحب
لکھتے ہیں:
’’لب لباب یہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ
اللہ نے جو امام ثوری رحمہ اللہ وغیرہ جیسے ائمہ کو جو دوسرے مرتبہ میں داخل کیا
ہے اس کی بنا امام المحدثین بخاری کی مذکورہ عبارت پر ہے، یعنی امام ہمام رحمہ
اللہ فرماتے ہیں کہ سفیان ثوری کی تدلیس بالکل کم ہے اور جس امام کی تدلیس بہت کم
ہو، اس کی روایات ائمہ حدیث تدلیس کے باوجود قبول کرتے آئے ہیں۔ نوٹ: حافظ ابن حجر
رحمہ اللہ کی یہ عبارت ’’ طبقات المدلسین ‘‘ میں ہے۔ ‘‘
( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍ ۳۲۶)
محب اللہ صاحب لکھتے ہیں:
’’جب ائمہ
حدیث نے امام ثوری کی معنعنہ روایات قبول
کی ہیں تو آپ کو کیسے حق حاصل ہوتا ہے کہ ان سب ائمہ کے خلاف امام ثوری کی معنعنہ روایات کو مردود قرار دیں؟‘‘
( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍ ۳۰۴)
محب اللہ صاحب
لکھتے ہیں:
’’حدیث کی بہت سی کتابیں ہیں جن میں
امام ثوری رحمہ اللہ کے واسطہ سے کئی روایات ملتی ہیں جن کے بارے میں ان کے ائمہ
مصنفین کا یہی ارشاد ہے کہ وہ صحیحہ یا حسنہ ہیں۔ مثلاً امام ترمذی رحمہ اللہ کی
’’ الجامع ‘‘ اور ابتداء سے لے کر عصر
حاضر تک کے شراح نے ان ائمہ کی تصریح کو بحال رکھا ہے۔ ملاحظہ ہو علامہ مبارک پوری
کی کتاب ’’ تحفۃ الاحوذی ‘‘ اور علامہ
شمس الحق عظیم آبادی کی کتب ابوداود کی شرحیں اور دارقطنی پر تعلیق وغیرھا
من الکتب۔لیکن محترم
[ علی زئی ( ناقل ) ] کے موقف کی بناء پر ایسی بہت سی روایات ضعیف ٹھہریں گی۔ ‘‘
( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍ ۳۲۸)
محب اللہ صاحب لکھتے ہیں:
’’اگر [ علی زئی کے ( ناقل )]اس موقف کو
سامنے رکھ کر ہم دواوین حدیث کو تلاش کرنا شروع کردیں تو بہت سی روایات جن کو سلف
سے لے کر خلف تک صحیح و متصل قرار دیتے آتے ہیں ان میں سے اچھی خاصی تعداد ضعیفہ
بن جائے گی۔ ‘‘
( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍ ۳۰۴)
محب اللہ صاحب لکھتے ہیں:
’’جی حضرت! آپ ذرا تدبر سے کام لیں۔
امام ثوری کو مرتبہ ثانیہ میں داخل کرنے پر حافظ ذہبی، ابن حجر اور علائی متفق ہیں
اور ان کا یہ موقف دلائل پر مبنی ہے۔ انہوں نے اپنی رائے نہیں پیش فرمائی بلکہ
ائمہ حدیث سے یہ اتفاق نقل فرمایا کہ انہوں نے امام ثوری کی تدلیس کو محتمل سمجھا
ہے اور ان کو قبول کیا ہے ،آپ امام ابن معین کا اختلاف پیش نہیں کر سکتے ۔‘‘
( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍۳۲۹)
محب اللہ صاحب لکھتے ہیں:
’’امام ثوری رحمہ اللہ ان ضعفاء سے
تدلیس کرتے تھے۔ جن کے صحاح وضعاف روایات کے امتیاز کا ان کو ذوق و ملکہ حاصل تھا۔
کما قال
الذھبی فی المیزان جیسا جرح و تعدیل وغیرہ میں منقول ہے کہ ثوری سے پوچھا گیا
کہ آپ جابر جعفی سے روایت کیوں کرتے ہیں، تو فرمایا میں ان کی صحیح حدیث و ضعیف
میں امتیاز کر سکتا ہوں۔ امام شعبہ وغیرہ دوسرے ائمہ حدیث ضعاف سے روایات کرتے تھے
تاکہ ان کا حال اچھی طرح معلوم ہو جائے۔ امام ثوری کی ان ضعاف سے تدلیس کی ایک وجہ
معقول یہ بھی ہے کہ اس ضعیف راوی سے جو روایت انہوں نے لی وہ ہے تو صحیح، یعنی اس
کا متن کسی دوسرے طریق سے صحیح طور پر وارد ہے لیکن انسان پر بسا اوقات نسیان طاری
ہو جاتاہے یا اس سے فی الوقت ذہول ہو جاتا ہے اور اس حدیث کو اس وقت بیان کرنا بھی
ضروری ہوتاہے لہذا وہ اس ضعیف راوی سے ہی یہ صحیح المتن روایت لے آتاہے اور چوں کہ اس راوی ضعیف کے نام لینے سے
یہ صحیح المتن روایت بھی
شاید مسترد کر دی جائے۔ اس خدشہ سے وہ ان کا نام نہیں لیتا اور تدلیس کردیتا ہے۔
اس لیے کہ انہیں یقین تھا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ بہرحال ان حفاظ کے اس موقف ( ثوری
کو مرتبہ ثانیہ میں داخل کرنا)پر تدبر سے کام لیاجائے تو اور بھی دلائل مل سکیں گے
لہذا ان کا موقف صحیح ہے اور اس پرکوئی غبار نہیں۔ ‘‘
( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍ ۳۲۹)
محب اللہ صاحب ’’ حافظ ذہبی اور حافظ علائی ‘‘ کے متعلق
لکھتے ہیں:
’’یہ دونوں حافظان،امام ثوری رحمہ اللہ
کی معنعن روایات کے مقبول ہونے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ہم نوا ہیں۔اور اسی
وجہ سے علائی نے بھی انہیں مرتبہ ثانیہ میں ذکر فرمایا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ان
تینوں حفاظ کی پشت پر متقدمین ائمہ حدیث بھی ہیں۔ امام ابن معین رحمہ اللہ جو مطلق
مدلسین کی روایات جو مصرحہ بالسماع نہ ہوں حجت نہیں سمجھتے، انہوں نے بھی امام
ثوری رحمہ اللہ کو مستثنی کرایا (ان کا قول کا گزر چکا ) میری بات کو اگر آ پ
عمومی رنگ دینا ہی چاہتے ہیں تو آپ بھی ان تینوں حفاظ: ذہبی، علائی، عسقلانی رحمۃ
اللہ علیہم کے متفقہ فیصلہ کے خلاف متقدمین ائمہ حدیث سے ایسی تصریحات پیش فرمائیں
جن سے بالوضاحت معلوم ہو جائے کہ وہ خصوصیت سے امام ثوری کی معنعن روایات کومسترد کر دیتے تھے
والا فلا بالجملہ آپ کے پاس کوئی ٹھوس دلیل ہے ہی نہیں جن کی بنا ء پر امام ثوری
رحمہ اللہ کی معنعنہ روایات کو مسترد کر دیا جائے۔
آپ نے صرف بعض ائمہ حدیث کا یہ قول نقل فرمایا ہے کہ معنعنہ روایت صرف اس کی مقبول ہوگی جو ثقہ سے تدلیس کرتا
ہولیکن یہ دلیل بچند وجوہ مخدوش ہے۔ ( تفصیل گذر چکی ہے ) بایں ہمہ ہر کیلئے یا
اصول سے کچھ مستثنیات بھی ہوتے ہیں اور ہم نے امام ثوری کے مستثنی ہونے پر دلائل
پیش کر دیئے اور آپ کا موقف بے دلیل ہی رہا۔ امام ثوری کے متعلق بحث کا اختتام ہو
رہا ہے لہذا میں اپنے محترم دوست [ علی زئی (ناقل )] کو یہ گذارش کرنے کی جرأت
کررہاہوں کہ آپ جیسے اہلِ علم کو یہ قطعی زیب نہیں دیتا کہ سب کو ایک ہی لاٹھی سے
ہانکتے رہیں۔ ‘‘
( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍ ۳۳۰)
محب اللہ صاحب لکھتے ہیں:
’’امام ثوری رحمہ اللہ متفقہ طور پر ثقہ
، حجت، متقن امام اور امیر المؤمنین فی الحدیث ہیں۔ اس
جلالت وامامت کے ساتھ اقل التدلیس ہیں اور ائمہ حدیث نے ان کی غیر مصرح بالسماع روایات کو
بھی محتمل قرار دیا ہے اور ان میں سے کسی نے بھی امام ثوری رحمہ اللہ کا نام لے کر
یہ نہیں فرمایا کہ ان کی غیر مصرح بالسماع روایات مقبول نہیں۔ اَب ایسے امامت کی
اعلیٰ سطح پر فائز شخصیت کو آپ نیچے گرا کر ایسی سطح پر لا کھڑا کریں کہ اس میں
اور بقیہ بن الولید جیسے ضعفاء (مجاہیل اور کذابین سے تدلیس کرنے والوں، تدلیس التسویۃ کا ارتکاب
بھی کرتے ہوں، صدوق سے اوپر ان کا درجہ بھی نہ ہو) میں کوئی فرق نہ کریں کیوں کہ
بقیہ بھی جب تصریح سماع کرے تو اس کی روایات بھی مقبول ہوتی ہیں۔ اب آپ ہی فرمائیں
کہ واقعتاً ثوری رحمہ اللہ اور بقیہ ایک ہی سطح پر ہیں اور ان دونوں کا ایک ہی
مقام ہے .. . لہذا میری گذارش یہ ہے کہ محترم اپنے موجودہ موقف پر تدبر و قائل سے
نظر ثانی فرما کر اس سے رجوع فرما لیں۔ ‘‘
( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍۳۳۱)
محب اللہ صاحب لکھتے ہیں:
’’محترم [ علی زئی (ناقل )]نے بلا تدبر
محض عجلت پسندی میں امام ثوری اور اعمش رحمہما اللہ کی سب معنعنہ روایات کو ضعیف قرار دے دیا،
حالاں کہ تحقیق اس کے خلاف تھی۔ اگرمحترم کا موقف اختیار کیا جائے تو صحیحین کے
سوا اور سب روایات جو حدیث کے دوسرے دواوین ہیں اور جن کی تصحیح ائمہ حدیث کرتے
آئے ہیں وہ سب کی سب بلا استثناء ( امام ثوری و اعمش کی وجہ سے) ضعیف قرار پائے گی
اور اس طرح حدیث کا ایک بڑا ذخیرہ ضعیف قرار پا کر سرد خانے میں رکھ دئیے جانے کے
ہی قابل بنتا۔ وھذا کما تری اور اس پر طرہ یہ کہ آ پ نے اپنے موقف کے اثبات میں
ایسے دلائل کا سہارا لیا جو آپ کی علمی شان سے بمراحل بعید تھے۔بس یہی بات تھی جس
نے اس موضوع پر مجھے قلم اُٹھانے پر آمادہ کیا۔ اور الحمد للہ ثم الحمد للہ میں نے
اس کا جواب تحریر کرکے پورا کردیا۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فضل سے میں اس پر
مطمئن بھی ہوں۔‘‘
( مقالات ِ راشدیہ : ۱؍۳۳۱)
یہ مضمون
علی زئی کی زندگی میں شائع ہوگیا تھا اور اُن کے مطالعہ میں بھی آیا جیسا کہ خود
انہوں نے اس کا اعتراف کیا ہے ۔ ( علمی مقالات :۱؍۴۹۸)
مولانا محب اللہ
شاہ صاحب کے متعلق علی زئی صاحب لکھتے ہیں:
’’اگر مجھے رکن و مقام کے درمیان کھڑا
کر کے قسم دی جائے تو یہی کہوں گا کہ میں نے شیخنا محب اللہ شاہ سے زیادہ نیک،
زاہد اور افضل،اورشیخ بدیع الدین شاہ سے زیادہ عالم و فقیہ کوئی انسان نہیں
دیکھارحمہما اللہ۔‘‘
(علمی مقالات : ۱؍ ۵۰۵)
مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ امام عبد الرزاق اور ابن ابی شیبہ ؒ
بواسطہ سفیان ثوری عن الصلت بن الربعی اور وہ سعید ؒ بن جبیر سے نقل کرتے ہیں کہ
انہوں نے فرمایا اذ لم سمعک الامام فاقرأ(مصنف : ص۱۳۲ج ۲، ابن ابی شیبہ
: ص ۱۴۹ ج ۲ )... اس کی سند بھی صحیح ہے۔‘‘
( توضیح الکلام صفحہ ۴۸۶)
اس عبارت میں اثری صاحب نے سفیان ثوری کی عن والی سند کو ’’
صحیح ‘‘تسلیم کیا ہے۔
شیخ کفایت اللہ
سنابلی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ سفیان ثوری رحمہ اللہ قلیل التدلیس یعنی بہت کم
تدلیس کرنے والے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا ما اقل
تدلیسہ قلیل التدلیس یعنی سفیان ثوری رحمہ اللہ کی تدلیس بہت ہی کم ہے۔ (العلل
الکبیر للترمذی ص ۳۸۸) حافظ ابن حجر نے بھی یہی بات کہی ہے دیکھئے ص ۸۹۔ لہذا ان
کا عنعنہ مقبول ہے یہی وجہ ہے کہ سفیان ثوری کی احادیث کو ائمہ نقد جب ضعیف کہتے
ہیں تو سفیان ثوری رحمہ اللہ کے عنعنہ کو علت نہیں بناتے ہیں بلکہ دیگر علل کی
بنیاد پر تضعیف کرتے ہیں۔ چنانچہ سنن ابو داود وغیرہ میں سفیان ثوری ہی کے طریق سے
ایک روایت آئی جس سے احناف ترک رفع الیدین پر استدلال کرتے ہیں یہ روایت اس لئے
ضعیف ہے کیوں کہ محدثین نے اس پرجرح مفسر کر رکھی ہے۔ اس میں سفیان ثوری کا عنعنہ
بھی ہے لیکن اس حدیث کی تضعیف کے لئے اسے بنیادی علت قرار دینا درست نہیں ہے۔ غور
کرنے کی بات ہے محدثین کی ایک بڑی جماعت نے عدم رفع الیدین والی اس حدیث کو ضعیف
تو قرار دیا ہے لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی اس کے ضعیف ہونے کی وجہ یہ نہیں
بتائی ہے کہ اس میں سفیان ثوری کا عنعنہ ہے۔ محدثین کی ایک کثیر تعداد کا اس حدیث
کو ضعیف قرار دینا اس کے باوجود بھی سفیان ثوری کے عنعنہ سے تعرض نہ کرنا یہی اس
بات کی زبر دست دلیل ہے کہ سفیان ثوری کا عنعنہ محدثین کے نزدیک مضر نہیں ہے کیوں
کہ وہ قلیل التدلیس ہیں۔ ‘‘
( انوار البدر صفحہ ۱۴۹، ناشر اسلامک انفارمیشن
سینٹر ممبئی )
مولانا
خبیب اثری غیرمقلد نے مسئلہ تدلیس کے حوالہ سے علی زئی کے خلاف مفصل مضمون تحریر
کیا ۔ اس مضمون کے چند اقتباس ملاحظہ ہوں ۔
خبیب صاحب لکھتے ہیں:
’’ ثوری قلیل
التدلیس ہیں، لہذا ان کا عنعنہ سماع پر محمول کرتے ہوئے قبول کیا جائے گا۔ ‘‘
( مقالاتِ اثریہ صفحہ ۲۲۲)
خبیب صاحب
نے ’’ مقدمہ اکمال المعلم للقاضی عیاض صفحہ ۳۴۸‘‘
کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
’’ جن جن روایات میں ابن عیینہ اور ثوری
وغیرہ اور اُن کے مدلسین نے تدلیس کی ہے جو صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں۔محدثین کو ا
س بارے میں شک نہیں(انہیں تدلیس شدہ روایات کا بخوبی علم ہے ) جمہور اس (مدلس کی
معنعن روایت ) کو قبول کرتے ہیں، جن کے بارے میں معروف ہے کہ وہ صرف ثقہ سے روایت
(تدلیس ) کرتاہے۔ ‘‘
( مقالاتِ اثریہ صفحہ ۲۷۰)
خبیب صاحب لکھتے ہیں:
’’گزشتہ صفحات میں امام بخاری رحمہ اللہ
کا سفیان ثوری کے متعلق یہ قول ’’ ما اقل تدلیسہ ؟‘‘ ان کی تدلیس کتنی تھوڑی ہے۔
‘‘ گزر چکا ہے جو نص قاطع ہے کہ اہلِ اصطلاح تدلیس کی قلت و کثرت کا اعتبار کرتے
ہیں۔ اگر وہ سبھی مدلسین کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہیں تو امام بخاری رحمہ اللہ
کو یہ صراحت کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی کہ وہ نہایت کم تدلیس کرتے ہیں؟ اس حوالے سے
راقم الحروف نے اپنے سابقہ مضمون میں تقریبا پونے دو صفحات پر مشتمل بحث لکھی۔
سوال یہ ہے کہ کیا امام بخاری رحمہ اللہ اہلِ اصطلاح نہیں؟ کیا امام بخاری رحمہ
اللہ، امام ابن المدینی رحمہ اللہ، یحیٰ بن معین رحمہ اللہ، احمد بن حنبل رحمہ
اللہ اور دیگر کبار ائمہ کی اصطلاحات سے ناواقف تھے؟ کیا ان سبھی محدثین کا موقف
یکساں نہ تھا؟۔‘‘
( مقالاتِ اثریہ صفحہ۳۰۳)
غیرمقلدین
کی دوغلہ پالیسی
غیرمقلدین
سینے پر ہاتھ باندھنے کے حوالہ سے ابن خریمہ سے جو روایت پیش کرتے ہیں اس کی سند
میں بھی سفیان ثوری کا عنعنہ موجود ہے پھر بھی غیرمقلدین اس حدیث سے نہ صرف
استدلال کیا کرتے ہیں بلکہ انہیں اس کے صحیح ہونے کا دعویٰ بھی ہے ۔حوالہ جات
دیکھئے :
( شرح مشکوۃاردو:
۱؍ ۳ؤ۳۵۲مولانا محمد صادق خلیل )
(رسائل ثنائیہ صفحہ
۵۷ مولانا ثناء اللہ امرتسری )
( جنازے کے مسائل
صفحہ۷۸،دار الدعوۃ
السلفیۃ شیش محل روڈ
لاہور)
مولانا داود ارشد
غیرمقلدلکھتے ہیں :
’’ صحیح حدیث میں نماز میں سینہ پر ہاتھ
باندھنے کا ذکر ہے ۔ حضرت وائل بن حجر رضی
اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ...‘‘
(تحفہ حنفیہ صفحہ ۱۲۲)
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ صحیح حدیث
میں آیا ہے کہ عن وائل بن حجر ....‘‘
( اہلِ حدیث کا مذہب صفحہ ۸۱)
ابن خزیمہ
میں مذکور سینے پر ہاتھ باندھنے والی سفیان ثوری کی معنعن روایت ہے جو مؤمل بن
اسماعیل کی وجہ سے ضعیف ہے، کئی غیرمقلدین نے مؤمل مذکور کو ضعیف کہا ہے جیسا کہ
بندہ نے اپنی کتاب ’’ زبیر علی زئی کا تعاقب ‘‘ میں حوالہ جات جمع کر دئیے ہیں۔
ابن خزیمہ
کی سفیان کے عن والی اس روایت کے متعلق مولانامحمود احمدمیر پوری غیرمقلد لکھتے
ہیں:
’’ ہاتھ باندھنے کے سلسلے میں جتنی بھی
احادیث وارد ہوئی ہیں ان سب میں سب سے زیادہ صحیح حدیث یہی ہے جس میں سینے پرہاتھ
باندھنے کاذِکر ہے ۔‘‘
( فتاویٰ صراط مستقیم صفحہ۱۷۴،
مکتبہ قدوسیہ لاہور ، اشاعت ۲۰۱۰ء )
حافظ محمد اسلم حنیف (جامعہ محمدیہ اہلِ حدیث لیاقت پور )
لکھتے ہیں:
’’ سینے پر ہاتھ باندھنے کی سب سے زیادہ
صحیح روایت حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی ہے ... صحیح ابن خزیمہ ۲۴۳؍۱‘‘
( نماز جنازہ کے احکام و مسائل صفحہ ۷۰، ناشر جامعہ محمدیہ اہلِ حدیث لیاقت پور ضلع رحیم یار
خاں )
اسلم حنیف
اورمیر پوری کی تصریح کے مطابق سینے پر ہاتھ باندھنے کی بابت سب سے زیادہ صحیح
حدیث سفیان ثوری کے عن والی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب انہیں اختصارمطلوب ہو تو
اسی روایت کے ذِکر کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں۔ چنانچہ فاروق اصغر صارم غیرمقلدلکھتے
ہیں:
’’ جگہ کی کمی کی وجہ سے صرف ایک روایت
پیش کی جاتی ہے۔ ‘‘
( اہلِ تقلید
کی طرف سے سوالات اور اہلِ حدیث کی طرف سے اُن کے جوابات صفحہ ۲، ادارہ احیاء
التحقیق الاسلامی گوجرانوالہ )
پھر صارم
صاحب نے ابن خزیمہ سے حدیث وائل لکھی، جس کی سند میں سفیان ثوری کا عنعنہ ہے۔گویا
غیرمقلدین کے پاس سینے پر ہاتھ باندھنے کے حوالہ سے بقول اسلم حنیف اور میر پوری
سب سے زیادہ صحیح روایت سفیان ثوری کی تدلیس والی ہے۔ کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ
سفیان ثوری کی عن والی روایت اُن کا مستدل ہو تو اسے سب سے زیادہ صحیح باور کراتے
ہیں اور جب یہ اہلِ سنت احناف کے دلائل میں آئے تو ضعیف اور قابلِ رد بن جاتی ہے۔
وکیل ولی قاضی غیرمقلد ( رکن شوری جمعیت اہلِ حدیث حیدر آباد )نے غیرمقلدین کے اس
طرز عمل کو دوغلہ پالیسی قرار دے کر کہا کہ اس دو رخے منہج کی وجہ سے اہلِ حدیث کو
خفت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے غیرمقلد علماء سے کی گئی ملاقاتوں کو
بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’کئی علماء سے بالمشافہ بات چیت ہوئی
اور مشہور مسائل تدلیس اورمروجہ حسن لغیرہ کی حجیت و عدم حجیت پر بات ہوئی تو اُن
علماء کے پاس اطمینان بخش جواب نہیں تھا۔ کہیں کثرت طرق کی بنا پر کسی روایت کو
حسن منوانے کی کوشش کی جاتی اور جب ہم فضیلت پندرہ شعبان جیسی روایت جو کثیر الطرق
ہوتی پیش کرتے تو اُس کی ایک ایک سند کو ضعیف ثابت کرکے رد کر دیا جاتا۔ کہیں صحیح
ابن خزیمہ کی وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی سینے پر ہاتھ والی روایت کو سفیان ثوری
رحمہ اللہ کے عنعنہ کے باوجود صحیح باور کروایا جاتا اور مخالفت میں جامع ترمذی کی
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی عدم رفع الیدین والی روایت کو سفیان ثوری
رحمہ اللہ کے عنعنہ کی وجہ سے رد کر دیا جاتا۔ یہ ہے وہ دو رُخا منہج جس سے ہمیشہ
دعوتی میدان میں اہلِ حدیث کو خفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ‘‘
(اشاعۃ الحدیث ، اشاعت ِ خاص
بیاد زبیر علی زئی صفحہ۵۵۳)
غیرمقلدین
کی دو رخی پر مذکورہ عبارت پڑھنے کے بعد ایک اور عبارت بھی پڑھیں اس دو رخی میں
بھی ترک رفع یدین پر ضعف کی چھاپ کا تذکرہ ہے۔
حافظ شبیر احمد جمالی غیرمقلد(مدرس نواب شاہ سندھ ) لکھتے
ہیں:
’’مروجہ حسن لغیرہ کی حجیت کے دعوے دار
اپنے اصولوں کے تحت ان روایات کو حسن لغیرہ ماننے کے لیے قطعا تیارنہیں ۔ ان کے
اصول پر ان روایات کا ضعف خفیف ہے نہ کہ شدید۔ عدم رفع االیدین کی روایات۔ عبد
اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی عدم رفع الیدین کی روایت ( سنن ابی داود : ۷۴۸، سنن
ترمذی: ۲۵۷، السنن الکبری للبیہقی ۲؍۱۸۵، دار الحدیث قاہرہ ) ضعف: سفیان ثوری کی
تدلیس ( جو کہ ضعف خفیف ہے نہ کہ شدید ) براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی عدم رفع
الیدین کی روایت ( سنن ابی داود : ۷۴۹) ضعف: یزید بن ابی زیادہ کا ضعیف ہونا، یہ
بھی ضعف خفیف ہے، کیوں کہ یزید تو غیر اصول میں صحیح مسلم کا راوی ہے۔ ( میزان
الاعتدال ۴؍۲۸۸، دار الفکر ) آلِ تقلید کی طرف سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما
کی پیش کی جانے والی رایت ( السنن الکبری للبیہقی: ۵؍۱۹۷، ۱۹۸) ضعف: ایک سند میں
ابن جریج کا عنعنہ دوسری سند میں محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کا ضعیف ہونا۔
یہ ضعف بھی خفیف ہے نہ کہ شدید ۔ کیوں کہ ابن جریج تو امت کے ایک ثقہ فقیہ ہیں۔ (
تقریب التہذیب ص ۴۰۸)ابن ابی لیلیٰ پر بھی خفیف جرح ہے۔ بیہقی کہتے ہیں: ’’غیر قوی
فی الحدیث ‘‘ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : ’’ صدوق سیء الحفظ ‘‘ (السنن الکبری
للبیہقی۵؍۱۶۸، تقریب التہذیب : ۵۸۱)حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف سے
واقفیت رکھنے والے خوب سمجھتے ہیں کہ یہ جرح خفیف ہے نہ کہ شدید۔ اسی طرح عدم رفع
الیدین کی کئی ضعیف روایات کتب حدیث میں موجود ہیں۔ معلوم نہیں کہ ضعیف خفیف+ ضعیف
خفیف=صحیح یا 1\2+1\2=1کا نعرہ لگانے والے اپنا یہ اصول ادھر کیوں بھول جاتے ہیں
؟؟ دھڑلے سے کہتے ہیں کہ عدم رفع الیدین کی تمام روایات مردود ہیں۔ انہیں چاہیے کہ
ایسا نہ کہیں بلکہ اصول کی پاس داری کریں ضعیف+ضعیف=حسن کہہ کر صحیحین وغیرہ کی
روایات سے تطبیق دینے کے لیے کوئی دوسرا اصول وضع کر ڈالیں۔ شعبان کی لیلۃ النصف
کے فضائل کی روایات شیخ [ زبیر علی زئی ( ناقل )] نے مثال بھی ارشاد فرمائی کہ یہ
روایت بھی کافی طرق سے منقول ہیں، بلکہ علامہ ابن دبیثی رحمۃ اللہ علیہ ( المتوفی
۶۳۷) نے تو ایک مکمل کتاب بھی لکھ رکھی ہے۔ جوبنام ’’لیلۃ النصف من شعبان ‘‘ مکتبہ مؤسسہ
قرطبہ سے مطبوع ہے۔اس میں بھی کافی روایات علامہ ابن دہیثی نے نقل کی ہیں۔ یہ سارے
ضعیف خفیف کے حامل طرق یقوی
بعضھا بعضا ‘‘ کے گن
گانے والوں کے نزدیک حسن لغیرہ بھلا کیوں نہیں بن جاتے ؟...یہاں یہ الگ بات ہے کہ
مفاد کی حد تک اس اصول پر چلا جائے جب مفادات پر زد پڑے تو اسے نظر انداز کر دیا
جائے۔‘‘
(اشاعۃ الحدیث ، اشاعت ِ خاص
بیاد زبیر علی زئی صفحہ ۲۱۱،۲۱۲)
چوتھا اعتراض: سیدنا عبد اللہ ابن
مسعود سے بھول و خطاء ہو گئی
مولانا محمد جونا
گڑھی غیرمقلد لکھتے ہیں :
’’ سنو! حضرت عبد اللہ ؓ نے یہاں بھول
اور نسیان سے کام لیا ہے، جس طرح اور بھی بعض مسائل میں آپ سے سہو و نسیان ثابت
ہے۔‘‘
( دلائل محمدی صفحہ ۸۷)
مولانا محمد اسماعیل سلفی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ یہ سوچنا چاہیے کہ ممکن ہے عدم رفع
کا راوی کسی وجہ سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رفع الیدین کرتے دیکھ ہی نہ سکا
ہو یا اس کو نسیان تو نہیں ہوا وہ بھول ہی گیا ہو۔ ‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کا طریقۂ نماز صفحہ ۵۶)
مولانا عبد المتین میمن جونا گڑھی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’جب عبد اللہ بن مسعود ؓ نماز میں ان
باتوں کو بھول گئے تو پھر رفع یدین کا بھول جانا کیوں نہیں ہو سکتا ؟‘‘
( حدیث ِ نماز صفحہ ۱۲۶)
مولانا بدیع الدین
راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ جب ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نماز
وغیرہ میں اس طرح کی بھول ہو سکتی ہے تو رفع الیدین کے بارے میں کیوں نہیں ہو سکتی
؟‘‘
( فتاویٰ راشدیہ :۵؍۲۵۹)
جواب:
آلِ
غیرمقلدیت نے جو بار بار سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف حدیثوں کے
بُھلا دینے کی
نسبت کی ہے اس پر
ہم اپنی طرف سے کچھ کہنے کی بجائے ان کے طبقہ میں ’’ حافظ ‘‘ کی شہرت پانے والے
جناب شیر محمد کا تبصرہ نقل کردیناکافی سمجھتے ہیں انہوں نے لکھا:
’’ نام نہاد جما عت المسلمین رجسٹر د (
فر قہ مسعو دیہ ) کے امیر دوم محمد اشتیاق نے بغیر کسی شرم کے لکھا ہے کہ ’’ اور
ویسے بھی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے حافظہ میں بھول واقع ہو گئی تھی
جس کی وجہ سے یہ مسئلہ اور بھی بے حقیقت ہو جا تا ہے ‘‘ ( نماز کے سلسلہ میں یو سف
لدھیانوی صاحب کے چند اعتراضات اور ان کے جو ابات ص ۲۸) اشتیاق کی یہ جر ح بالکل
با طل اور مر دود ہے ‘‘
( ماہنا الحدیث : شمارہ نمبر ۳۸ صفحہ ۶۴)
یہ تحریر ماہ نامہ’’ الحدیث ‘‘ کی ہے ۔ اس کے مدیر حافظ
زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ ہمارے اس رسالے میں راقم الحروف اور
حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ کا متفق ہونا ضروری ہے ۔ ‘‘
(مقالات الحدیث صفحہ ۱۱)
چوں کہ شیر محمد صاحب کی مذکورہ بالا تحریر پر
زبیر علی زئی اور ندیم ظہیر کو بھی اتفاق ہے اس لیے یہ کہنا صحیح ہے کہ ان تینوں
کے نزدیک سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف بھول کومنسوب کرنا بے شرمی
کا کام ہے، یہ جرح ہے اور باطل و مردود قسم کی جرح ہے ۔
یہاں ہمارا اِک سوال ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن
مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف بھول کی نسبت کرنے پر آپ نے نام نہاد جماعۃ المسلمین کے
امیر اشتیاق صاحب کو بے شرم اور صحابی پر باطل و مردود جرح کرنے والا قرار دیا ہے
جب کہ آپ کے آلِ غیرمقلدیت نے بھی تو سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف
بھول کو منسوب کیا ہے، ان کے لیے کیا حکم ہے؟
پانچواں
اعتراض : معوذتین کے انکار کی طرح ترک رفع یدین بیان کرنا بھی غلط ہے
مولانا عبد المتین
میمن جونا گڑھی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ رفع یدین کرنا رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم ... سے صحیح طور پر ثابت ہے اور عبداللہ
بن مسعود ؓ کا اس کوبھول جانا کچھ تعجب نہیں
کیوں کہ عبد اللہ بن مسعود ؓ قرآن میں معوذتین ( قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ
برب الناس) کا ہونا بھول گئے تھے جس پر سارے مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ ‘‘
( حدیث ِ نماز صفحہ ۱۲۶)
سیدنا عبد
اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پراس طرح کا اعتراض دوسرے غیرمقلدین نے بھی کر رکھا
ہے۔
جواب:
(۱)نواب صدیق حسن
خان غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ قال النوی وفی ھذا الحدیث دلیل
واضح علی کونھا من القرآن ورد علی من نسب الی ابن مسعود خلاف ذالک قال فی المفتاح
وما نسب الی ابن مسعود لا یصح بل تواتر عنہ عندنا انھما من القرآن ولا یتم ختم
القرآن الا بھما و صحت الاحادیث بذالک من طرق وانعقد اجماع المسلمین علی ذلک۔‘‘
( نزل الابرارصفحہ ۱۴۴)
ترجمہ: نووی نے کہا: اور اس حدیث میں
واضح دلیل ہے اس پر کہ وہ (معوذتین ) قرآن میں سے ہیں اور اس کی تردید ہے جس نے
ابن مسعود کی طرف اس کے خلاف منسوب کیا۔ اس (نووی) نے مفتاح میں کہا جو بات انکار
معوذتین کی ابن مسعود کی طرف منسوب کی جاتی ہے، صحیح نہیں بلکہ ہمارے نزدیک اُن سے
تواتراً ثابت ہے کہ وہ دونوں قرآن میں سے ہیں اُن کے بغیر قرآن ختم ہی نہیں ہوتا
اور یہ حدیثیں کئی طرق سے صحیح ثابت ہو چکیں اور معوذتین کے قرآن ہونے پر تمام
مسلمانوں کا اجماع ہے ۔
نواب صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’ وقد اخرج الطبرانی فی الاوسط
باسناد رجال ثقات من حدیث ابن مسعود مرفوعا عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لقد
انزل علی آیات لم ینزل علی مثلھن المعوذتین۔‘‘
(نزل الابرارصفحہ ۱۴۴ )
ترجمہ:
امام طبرانی نے اپنے کتاب ’’ الاوسط ‘‘ میں حدیث کا اخراج کیا جس کے تمام راوی ثقہ
ہیں۔ ابن مسعود فرماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھ پر قرآن کی چند
ایسی آیات نازل ہوئی ہیں کہ ان جیسی نازل نہیں ہوئیں، وہ معوذتین ہیں۔
تنبیہ:’’نزل
الابرار‘‘ کے حوالے حضرت مولانا حبیب اللہ ڈیروی رحمہ اللہ کی کتاب ’’نور الصباح
فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح ‘‘ جلد ۱ صفحہ ۱۳۵سے منقول ہیں۔
(۲) مولانا امین اللہ پشاوری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر صریح
بہتان ہے کہ انہوں نے ان (دو) سورتوں کا انکار کیا ہے۔ ‘‘
( حقیقۃ التقلید و اقسام المقلدین صفحہ ۲۰۷)
(۳)مولانا محمد حسین میمن غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ عبد اللہ بن مسعود کا سورۃ الفلق اور
سورۃ الناس سے انکار نہیں تھا بلکہ ان سے سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کا قرآن ہونا
ثابت ہے کیوں کہ سیدنا عاصم کی قراء ت ابو عبد الرحمن سلمی زربن حبیش اور ابو عمر
الشیبانی سے منقول ہے اس میں سورۃ الفلق اور سورۃ الناس موجود ہیں کیوں کہ یہ وہ
قراء تیں ہیں جو عبد اللہ بن مسعود سے ثابت ہیں لہذا یہ کہنا کہ سیدنا عبد اللہ بن
مسعود رضی اللہ عنہ قراء ت کا انکار کرتے تھے، درست نہیں۔ ‘‘
(احادیث متعارضہ اور ان کا حل صفحہ ۱۵، ۱۶...
ادارہ تحفظ حدیث فاونڈیشن )
(۴)حافظ شیر محمد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’سیدنا
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے فضائل بے شمار ہیں۔ آپ بدری صحابی اور السابقون الاولون
میں سے ہیں۔ جوبد نصیب لوگ معو ذتین وغیرہ کی وجہ سے آپ(ابن مسعود) پر کلا م کرتے
ہیں انہیں خود اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے۔ ‘‘
( ماہنا الحدیث : شمارہ نمبر ۳۸
صفحہ ۶۴)
پہلے ہم
نقل کر آئے ہیں کہ الحدیث رسالہ کے مضمون حافظ زبیر علی زئی اور حافظ ندیم ظہیر کے
اتفاق اور
ان کی تصدیق سے
شائع ہوتے ہیں لہٰذا غیرمقلدین کی ان تثلیث کے نزدیک سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی
اللہ عنہ پر معوذتین کی وجہ سے کلام کرنے والے ’’بد نصیب‘‘ ہیں اور انہیں اپنے ’’
ایمان ‘‘ کی فکر کرنی چاہیے۔
تنبیہ : حافظ شیر محمد غیرمقلد کی ’’
الحدیث ‘‘والی مذکورہ عبارت اُن کی کتاب ’’ فضائل صحابہ صفحہ ۱۱۱‘‘ میں بھی موجود
ہے۔
(۵) فتاوی ابن تیمیہ میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ
عنہ کے متعلق لکھا ہے :
’’ فمن قدح فیہ او قال ھو ضعیف
الروایۃ فھو من جنس الرافضۃ،جس نے ان میں عیب نکالا یا ان کو ضعیف الروایۃ کہا تو
وہ رافضیوں کی جنس میں سے ہے۔ ‘‘
( فتاوی ابن تیمیہ جلد ۴؍۳۲۴)
قارئین
کرام ! حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی سند پر غیرمقلدین کے اعتراضات اور پھر
ہماری طرف سے ان کے جوابات پڑھ کر آپ جان گئے ہوں گے کہ ان میں کوئی معقول اور
وزنی بات نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کراچی کے مشہور غیرمقلد مسعود احمد نے کھلے
لفظوں کہہ دیا کہ اس حدیث کی سند میں کوئی خدشہ نہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’ یہ صحیح ہے کہ امام ترمذی نے اس حدیث
کو حسن کہا ہے، اور یہ بھی صحیح ہے کہ حسن کا درجہ صحیح کے بعد ہے، اس حدیث کی سند
بے شک حسن بلکہ صحیح ہے۔ سند میں کوئی خدشہ نہیں،نہ سند پر کسی نے کوئی خاص جرح ہی
کی ہے،اس حدیث پر جو کچھ جرح ہوئی ہے وہ بلحاظ متن ہوئی ہے۔ ‘‘
( خلاصہ تلاش حق صفحہ ۸۱)
مسعود صاحب
کا اس حدیث کی سند کو ’’صحیح ‘‘ بتانا تو یقینا درست ہے، البتہ اُن کی طرف سے متن
کو مجروح قرار دینا بلا دلیل ہے ۔
بہت سے غیرمقلدین نے ترک رفع یدین کی حدیث ابن
مسعود رضی اللہ عنہ کو صحیح تسلیم کیا،حوالہ جات ہمارے دوسرے مضمون میں مذکور ہیں۔
ان کا اس حدیث کو صحیح قرار دینا بھی دلیل ہے کہ اس حدیث کی سند پر کئے جانے والے
اعتراضات میں کوئی وزن نہیں۔
فائدہ
:
سیدنا عبد
اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث ترک رفع یدین پرغیرمقلدین کوئی معقول اور
بادلیل اعتراض پیش نہیں کر سکے اور جو اعتراضات کئے انہیں خود ان کے اپنے
غیرمقلدین نے رَد کر دیا ہے۔جب معترضین اپنے مقصد کے حصول میں ناکام ہوئے تو یوں
اعتراض کر چھوڑاکہ اس حدیث کی رُو سے تو عیدین اور وتروں کا رفع یدین بھی ترک کر
دینا چاہیے، تم یہ رفع یدین کیوں کرتے ہو۔( نور العینین وغیرہ )
جواب: محدثین اس حدیث کو رفع یدین عند الرکوع کا ترک بتانے کے
لیے لائے ہیں یا اثباتِ رفع یدین عند الرکوع کے معارضہ میں اسے پیش کیا۔ مثلاً
امام نسائی رحمہ اللہ نے حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو رفع یدین عند الرکوع کے
ترک اور رخصت والے باب میں درج کیا ہے۔
( سنن نسائی :۱؍۱۱۷،۱۲۰ )
میری
معلومات کے مطابق محدثین نے حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو عیدین کی زائد تکبیروں
والے رفع یدین اور وتروں والے رفع یدین کی نفی کے لیے پیش نہیں کیا۔لہذا اس حدیث
کو وتروں اور عیدین کے رفع یدین کے ترک پر چسپاں کرنا فہم محدثین کے خلاف ہے۔جب کہ
معترضین کو یہ بھی اعتراف ہے کہ محدثین حدیث کے مطلب کو دوسروں سے زیادہ جانتے
ہیں۔
چنانچہ زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں ـ:
’’ محدثین
کرام جو فہم حدیث کے سب سے زیادہ ماہر تھے ۔‘‘
( توضیح الاحکام :۳؍۱۸۹)
علی زئی صاحب لکھتے ہیں:
’’ جس طرح جوہر کے بارے میں جوہری، طب
کے بارے میں طبیب، انجن کے بارے میں انجینئر وغیرہ کی بات تسلیم کی جاتی ہے اسی
طرح حدیث کے بارے میں اہل الحدیث (محدثین ) کی بات حجت ہے فن میں فن والے کی بات
ہی مانی جا سکتی ہے دوسرے کی نہیں ‘‘
( علمی مقالات :۲؍۶۵)
علی زئی صاحب لکھتے
ہیں:
’’ اور یہ ظاہر ہے کہ فقہائے محدثین
اپنی بیان کردہ احادیث کا تفقہ سب سے زیادہ جانتے ہیں ۔ ‘‘
( علمی مقالات : ۳؍۸۳)
مزید عرض
یہ ہے کہ اگر آپ کے بقول اس سے وتروں اور عیدین کے رفع یدین کا ترک ثابت ہوتا ہے
تو جن جن غیرمقلدین نے حدیث ابن مسعود کو صحیح کہا ہے اُن سے مطالبہ کریں کہ وہ
رکوع کے رفع یدین کو ترک کرنے کے ساتھ وتروں اور عیدین کا رفع یدین بھی چھوڑدیں۔
یہاں علی زئی صاحب کی درج ذیل عبارت ذہن میں رہے:
’’ امام شافعی نے فرمایا: اور جب رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک حدیث کی سند صحیح و متصل ثابت ہوجائے تو یہ سنت ہے۔ ‘‘
( علمی مقالات : ۶؍۴۴۹)
ترک
رفع یدین کو قسمیں اُٹھاکر غیرثابت کہنے والے غیرمقلد خطیبوں : یوسف پسروری اور
سبطین شاہ کو منہ توڑ جواب
غیرمقلدین کا ترک رفع یدین کی
حدیث کوثابت مان کر
ترک کی تائید کرنا اوراس پہ عمل پیرا ہونا
حدیثوں کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ رسول
اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر اونچ نیچ ، سجدوں میں اور بوقت رکوع رفع
یدین کرنا ثابت ہے مگر بعد میں ان سب مقامات کے رفع یدین کو چھوڑ دیا تھا صرف شروع
والا رفع یدین اختیار فرمایا۔ترک رفع یدین پر لکھی گئی کتب میں ایسی حدیثوں کو جمع
کر دیا گیا ہے جن سے یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف شروع میں
رفع یدین کیا ، پھر نہیں کیا۔دیکھئے درج ذیل کتب:
۱۔ نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح ، تالیف حضرت
مولانا حافظ حبیب اللہ ڈیروی رحمہ اللہ ۔
۲۔جزترک رفع یدین مؤلفہ حضرت مولانا عبد الغفار ذہبی رحمہ
اللہ۔
۳۔تسکین العینین فی ترک رفع الیدین تالیف : مولانا نیاز
احمد اوکاڑوی حفظہ اللہ۔
ہم اپنے اس
مختصر مضمون میں ترک رفع یدین کی حدیثوں کا استیعاب نہیں کر سکتے۔ اس لیے صرف ایک
حدیث درج کرکے اس کی تصحیح غیرمقلدین کی زبانی نقل کریں گے۔ پھر مزید یہ کہ
غیرمقلدین کی طرف سے ترک رفع یدین کی تائید اور اُن کا اس پر عمل پیرا ہونا خود
اُن کی اپنی تحریروں سے ثابت کریں گے ان شاء اللہ۔اُمید ہے کہ غیرمقلدین کے یہ
حوالہ جات یوسف پسروری اور سبطین شاہ وغیرہ غیرمقلد خطیبوں کی قسموں کو بے حیثیت
اور فضول ظاہر کے لیے کافی ہیں۔یوسف پسروری اور سبطین شاہ میں اگر ہمت ہے تو ہمارے
اس مضمون کا جواب لکھیں ۔
حدیث نبوی :
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
الا
اُصلّیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلّٰی فلمْ یرْفعْ
یدیْہِ اِلَّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ ۔ ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دوسرا نسخہ
۱؍۳۵)
ترجمہ: کیا
میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والی نماز پڑھاؤں؟پھر انہوں نے نماز پڑھی
اور صرف پہلی مرتبہ رفع یدین کیا۔
حدیث
ابن مسعود کے صحیح ہونے پرابن حزم اور غیرمقلدین کے حوالے
اس حدیث کو
بہت سے محدثین نے صحیح قرار دیا مگر ہم’’ والفضل ما شھدت بہ الاعداء ،فضیلت تو وہی ہے جس کی مخالف
بھی گواہی دے ‘‘ کے پیش نظرغیرمقلدین کے حوالہ جات نقل کرتے ہیں۔ ان حوالہ جات سے
پہلے علامہ ابن حزم ظاہری کا حوالہ بھی اس وجہ سے نقل کر دیتے ہیں کہ غیرمقلدین نے
انہیں اپنا ’’غیرمقلد‘‘ لکھا ہوا ہے ۔ وباللہ التوفیق ۔
(۱)علامہ ابن حزم
ظاہری اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:
’’اِنَّ ھذا الْخبْر صحِیْحٌ ، بلاشبہ یہ
حدیث صحیح ہے ‘‘(المحلی: ۴؍۸۸)
چوں کہ اُن
کے نزدیک ترک رفع یدین کی حدیث صحیح ہے اس لیے ترک رفع یدین والی نماز کوانہوں نے
’’ نماز ِ نبوی ‘‘ قرار دیا۔ ان کے الفاظ یہ ہیں ـ:
’’اِنْ لَّمْ نرْفعْ فقدْ صلّیْنا
کما کان رسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُصلی، اگر ہم رفع یدین نہ کریں تو
یقینا ہم نے ایسی نمازپڑھی جیسی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے ۔
(المحلی: ۳؍۲۳۵)
ابن حزم کو
عام لوگ ظاہری کہتے ہیں مگر غیرمقلدین انہیں اپنا ہم مذہب کہتے ہیں۔ حافظ زبیر علی
زئی نے انہیں ’’ غیرمقلد ‘‘ لکھا ہے۔( مقالات :۲؍۲۴۵)
(۲)محمد ناصر الدین البانی غیرمقلدنے حدیث ابن مسعود رضی
اللہ عنہ کے بارے میں لکھا:
’’ والْحقُّ انَّہ حدِیْثٌ صحِیْحٌ
وَ اسْنادُہ صحِیْحٌ علی شرْطِ مُسْلِمٍ وَّ لمْ نجدْ لِمنْ اعلَّہ حُجَّۃ
یَّصْلُحُ التَّعلُّقُ بِھا وَرُدَّ الْحدِیْثُ مِنْ اجلھا ۔‘‘
( تحقیق مشکوۃ المصابیح :۱؍۲۵۴)
ترجمہ:
اور حق بات یہی ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے اور
جن لوگوں نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے ہمیں ان کی کوئی ایسی دلیل نہیں ملی جس
سے استدلال درست ہو اور اس کی وجہ سے حدیث کو رد کیا جا سکے۔
(۳)علامہ احمد شاکر غیرمقلداِس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ ھُوَ حدِیْثٌ صحِیْحٌ وَحسَّنہُ
التّرْمِذِیُّ، یہ حدیث صحیح ہے اور اسے ترمذی نے حسن قرار دیا ہے ۔
(حاشیہ محلی ابن حزم :۴؍۸۷)
علامہ احمد شاکر دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:
’’ ھذا الْحدِیْثُ صحَّحہُ ابْنُ
حزْمٍ وَّغَیْرُہٗ مِن الْحُفَّاظِ وَھُوَ حدِیْثٌ صحِیْحٌ وَما قالوْہ فِیْ
تعْلِیْہ لَیْس بِعِلَّۃٍ۔‘‘
( شرح ترمذی :۳؍۳۵)
ترجمہ: اس حدیث کو ابن حزم وغیرہ حفاظ
حدیث نے صحیح کہا اور واقعۃًیہ حدیث صحیح ہے اور لوگوں نے اس حدیث کو ضعیف بنانے
کے لیے جو کچھ کہا وہ ضعف کی دلیل نہیں ہے۔
حافظ زبیر
علی زئی غیرمقلد کی زیر ادارت نکلنے والے رسالہ ’’ الحدیث ‘‘ میں سیدنا عبد اللہ
بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ترک رفع یدین کی حدیث کے بارے میں لکھاہے :
’’ امام ابن حزم رحمہ اللہ، علامہ
البانی رحمہ اللہ ، علامہ احمد شاکررحمہ اللہ نے اس کی تصحیح یا تحسین کی ہے ۔ ‘‘
(مقالات الحدیث :۴۶۵)
علی زئی صاحب لکھتے ہیں:
’’ شیخ احمد
شاکر اور البانی وغیرھما کا صحیح قرار دینا ‘‘(توضیح الاحکام :۲؍۸۱)
مذکورہ
عبارتیں نقل کرنے کی غرض یہ بتانا ہے کہ علی زئی کو بھی معلوم تھا کہ ابن حزم،
البانی اور احمد شاکر نے حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو صحیح کہا ہے۔
البانی اور
احمد شاکر نے نہ صرف یہ کہ ترک رفع یدین کی حدیث ابن مسعود کو صحیح تسلیم کیا بلکہ
اس سے بڑھ کر یوں بھی لکھ دیا کہ جن لوگوں نے اس حدیث کے ضعیف ہونے کا دعویٰ کیا
ہے اُن کے پاس ضعف کی ایک بھی دلیل نہیں۔ یاد رہے کہ غیرمقلدین نے اپنی کتابوں میں
اعتراف کیا ہوا ہے کہ جرح وہی معتبر ہوتی ہے جو مفسراور مبین السبب ہو ، لہذا جو
لوگ اس حدیث کے ضعیف ہونے کا دعوی رکھتے ہیں اُن سے ہمارا مطالبہ ہے کہ اس حدیث کی
سند پر جرح مفسر ، مبین السبب پیش کریں۔
(۴)محمد خلیل ہراس غیرمقلد اِس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ ھُوَ حدِیْثٌ صحِیْحٌ وَحسَّنہُ
التّرْمِذِیُّیہ حدیث صحیح ہے ،ترمذی نے اسے حسن کہا ہے۔ ‘‘
( حاشیہ محلی ابن حزم :۲؍۲۹۲)
(۵،۶)شعیب ارناؤط غیرمقلد اور زہیر الشاویش غیرمقلد اِس
حدیث کے متعلق کہتے ہیں:
’’ حسَّنہ التّرْمِذِیُّ وَ
صحَّحہُ غیْرُوِاحِدٍ مِن الْحُفَّاظِ وَما قالُوْہ فِیْ تعْلِیْلِہ لَیْسَ بِعِلَّۃٍ ۔
امام ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے اور بے شمار
حفاظ حدیث نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور جو بعض لوگوں نے اس حدیث میں علتیں نکالی
ہیں وہ غلط ہیں کیوں کہ اس میں کوئی بھی علت نہیں۔‘‘
( شرح السنۃ ۳؍۲۴بحوالہ نور
الصباح :۱؍۹۲)
(۸)ابو عبد الرحمن محمد عبد اللہ پنجابی غیرمقلد کہتے ہیں
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ سے رفع یدین چھوڑنے کی روایت صحیح ہے محصلہ۔( عقیدہ
محمدیہ :۲؍۶۱۱بحوالہ نور الصباح :۱؍۹۴)
(۷)شیخ عبد
المحسن العباد غیرمقلد اِس
حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :
’’ وَاسْنادُ
ھذا الْحدِیْثِ مُسْتقِیْمٌ ... فیَکُوْن
الْحدِیْثُ حسنا‘‘ اور اس حدیث کی سند صحیح ہے پس یہ حدیث حسن درجہ کی ہے ۔
( شرح ابی داود للعباد ۱؍۲۵۴بحوالہ تسکین العینین صفحہ
۲۷۴)
(۹)عقیل احمد بن حبیب اللہ غیرمقلد (فاضل جامعہ اسلامیہ
مدینہ منورہ )اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:
’’اس کی سند صحیح ہے۔ اس حدیث کو ترمذی
نے حسن اور ابن حزم نے صحیح کہا ہے ...شیخ البانی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ثابت
ہے اس کی سند میں کوئی کلام نہیں ہے۔ ‘‘
(تخریج و تعلیق حدیث ِ نماز
:۲۳۱ طبع سلفی دار الاشاعت دہلی )
(۱۰)حافظ عمران ایوب غیرمقلد نے پہلے علامہ ابن حزم ظاہری
سے نقل کیا: ’’ یہ خبر صحیح ہے ‘‘ پھر اپنی طرف سے لکھا:
’’ حدیث صحیح ہے۔‘‘ ( فقہ
الحدیث :۱؍۳۹۹)
لاہوری صاحب نے اس مقام پر حاشیہ میں لکھا:
’’ شیخ احمد شاکر ؒ نے اسے صحیح کہا ہے۔ [
التعلیق الترمذی(۲؍۴۱) شیخ شعیب ارنوؤط ،شیخ عبد القادر ارنوؤط اور زھیر شاویش
وغیرہ نے بھی اسے صحیح کہاہے۔ [ التعلیق علی شرح السنۃ (۳؍۲۴) ‘‘
(حاشیہ: فقہ الحدیث :۱؍۳۹۹)
(۱۱)غیرمقلدین کے
شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی کہتے ہیں:
’’علمائے حقانی پر پوشیدہ نہیں کہ رکوع
میں جاتے وقت اور رکوع سے اُٹھتے وقت رفع یدین کرنے میں لڑنا جھگڑنا تعصب سے خالی
نہیں ہے کیوں کہ مختلف اوقات میں رفع یدین کرنا اور نہ کرنا دونوں ثابت ہیں اور
دونوں طرح کے دلائل موجود ہیں۔ ‘‘
(فتاویٰ نذیریہ :۱؍۴۴۱)
آگے حدیث ابن مسعود
رضی اللہ عنہ پر بحث کرتے ہوئے لکھا:
’’ ابن حزم نے اس حدیث کو صحیح کہااور
ترمذی نے حسن۔ قصہ مختصر رفع یدین کا ثبوت اور عدم ثبوت دونوں مروی ہیں۔ ‘‘
(فتاویٰ نذیریہ :۱؍۴۴۴...
فتاویٰ علمائے حدیث :۳؍۱۶۰)
غیرمقلدین کی زبانی میاں صاحب کا مقام ملاحظہ فرماتے چلیں:
’’ شیخ الکل حضرت مولانا سید نذیر حسین
صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ جن کا ثانی متاخرین محدثین میں اب تک کوئی نہیں
پیدا ہوا۔ ‘‘
( فتاویٰ علمائے حدیث : ۳؍۲۳۶)
(۱۲،۱۳)مذکورہ بالا فتویٰ میاں صاحب کا تحریر کردہ ہے۔ اس
پر محمد عبد القادر اور محمد اسماعیل نامی دو شخصوں کے دستخط بھی ہیں ۔
(۱۴)غرباء اہلِ حدیث کے ’’امام ‘‘ عبد الستار لکھتے ہیں:
’’اہلِ حدیث کے نزدیک تو صحاح ستہ کی کل
احادیث اپنے اپنے موقع پر قابل عمل و لائق تسلیم ہیں۔ ‘‘
( فتاویٰ ستاریہ :۲ ؍۵۷ )
فتاویٰ ستاریہ کی
مذکورہ عبارت حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد نے بھی نقل کی ہے۔ (علمی مقالات :۲؍۲۸۰)
(۱۵)صحیفہ اہلِ
حدیث میں لکھا ہے:
’’ کتب ِ صحاح ستہ اسلام کے دفاتر اور
اصول ہیں۔شرق و غرب نے ان کی صحت پر اتفاق کیا ہے ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی : ۱۳۵۵ھ
ذیقعدہ صفحہ۳۱)
ترک رفع
یدین کی حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ صحاح ستہ میں سے نسائی، ابوداو اور ترمذی میں
موجود ہے جب کہ ابو داود :۱؍۱۰۹ میں ترک رفع یدین کی سیدنا براء ابن عازب رضی اللہ
عنہ سے مروی حدیث بھی ہے اور غرباء اہلِ حدیث کے امام مولانا عبد الستار کے نزدیک
صحاح ستہ کی سب حدیثیں صحیح اور قابل عمل ہیں۔
اسی طرح
صحیفہ اہلِ حدیث کی تصریح کے مطابق صحاح ستہ کی حدیثوں کے صحیح ہونے پر مشرق اور
مغرب کے محدثین کا اتفاق ہے۔
(۱۶)غیرمقلدین کے ترجمہ و تخریج سے شائع ہونے والی نسائی
میں ترک رفع یدین کی حدیث ابن مسعود کے بارے میں ’’ صحیح ‘‘ لکھا ہے۔ ( نسائی
مترجم،حدیث:۱۰۲۷، باب ترک ذلک صفحہ ۶۳۹... اشراف مراجع، تقدیم عبد الرحمن بن عبد
الجبار الفریوائی،مکتبہ بیت السلام )
ترک
رفع یدین کی تائید غیرمقلدین کے قلم سے
(۱)ابو شاکر اللہ عبد الرحیم بن طالب جان صاحب غیرمقلد
(مہمند ایجنسی ) لکھتے ہیں:
’’رفع یدین کرنا اور نہ کرنا دونوں صحیح
ہے کیوں کہ یہ حق ہے یعنی رفع یدین کرنا اور نہ کرنا دونوں محمد رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم سے نقل ہے۔ ‘‘
(تنبیہ الغافلین صفحہ ۱۹، ناشر ایوب مکتبہ پشاور
بحوالہ دو ماہی ترجمان پشاور جمادی الاول و جمادی الثانی ۱۴۴۰ھ )
(۲)غیرمقلدین کے امام علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں:
’’ابو حنیفہ ؒ نے جو روایت کی وہ یہی ہے
کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی پھر ہاتھ اُٹھائے مگر شروع میں اوراس
سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ رفع یدین مستحب نہیں ہے بلکہ صرف اس قدر نکلتا ہے کہ آں
حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کبھی اس کو ترک کیا اور مستحب وہی کام ہوتا ہے جس
کو کبھی آپ ؐ نے کیا، کبھی ترک کیا۔ کیوں کہ اگر ہمیشہ آپ ؐ اس کو کرتے اورکبھی
ترک منقول نہ ہوتا تو رفع یدین واجب ہو جاتا... امام طحاوی ؒ علماء حنفیہ میں سے
اس مطلب کو سمجھ گئے اور انہوں نے حضرت ابن مسعود ؓ کی حدیث سے استدلال کیا عدم
وجوب رفع پر اور یہ استدلال صحیح ہے اور اہلِ حدیث رفع یدین کے استحباب کے قائل
ہیں۔ ‘‘
( رفع العجاجۃ عن سنن ابن ماجۃ : ۱؍۴۳۷)
علامہ وحید الزمان دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’ بھلا رفع یدین کرنا یا نہ کرنا، آمین
پکار کریا آہستہ کہنا،ہاتھ زیر ناف یا سینے پرباندھنا یہ بھی ایسی چیزیں ہیں جن کے
لیے مسلمان سے فتنہ و فساد اور ان کی عزت اور جان پر صدمہ پہنچایا جاوے۔ ارے احمق!
ذرا تم غور کرو یہ تو سب طرح ہماری شریعت میں جائز ہے اور ہر ایک طرح آنحضرت صلی
اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔پھر کیا تم سنت نبوی پر عمل کرنے والوں کو مارنا چاہتے
ہو۔‘‘
( رفع العجاجۃ عن سنن ابن ماجۃ : ۲؍۳۷۴)
وحید الزمان دوسری
جگہ لکھتے ہیں:
’’ شیطان کا تسلط اُس پر ہے جو مستحبات
اور مندوبات اور سنن کا ادا کرنا واجب کی طرح لازم سمجھے اور نہ کرنے والے کو
ملامت کرے مثلاً رفع یدین نہ کرنے والے یا آمین بالجہر نہ کہنے والے کو یا
دسترخوان پر نہ کھانے والے کو یا بیعت توبہ نہ کرنے والے کو کیوں کہ یہ سب امور
مستحب اور مندوب ہیں اگر کسی نے نہ کیا تو اُس پر کچھ ملامت نہیں۔ ‘‘
( لغات الحدیث :۱؍۶۳، جع )
وحیدالزمان ہی
لکھتے ہیں:
’’ محبت اور اتفاق اور ہمدردی کے ساتھ
جو اختلاف ہو وہ ضرر نہیں کرتا جیسے صحابہ اورتابعین کا طریق تھا کوئی رفع یدین
کرتا، کوئی نہ کرتا۔ کوئی آمین پکارکر کہتا، کوئی آہستہ کہتا۔ کوئی سینہ پر ہاتھ
باندھتا، کوئی ناف پر۔ کوئی آٹھ رکعت تراویح پڑھتا، کوئی بیس رکعت۔کوئی جوتے
اُتارکر نماز پڑھتا ،کوئی جوتے سمیت اور اس اختلاف کے ساتھ آپس میں وہ ہمدردی اور
محبت تھی کہ ایک مسلمان دوسرے پرجان دیتا تھا اُس کو اپنا بھائی سمجھتا تھا۔ ‘‘
( لغات الحدیث : ۱؍۱۱۵ ،خل )
(۳)رئیس محمد ندوی غیرمقلدنے سجدوں کے رفع یدین کے اثبات
اور ترک کی احادیث میں تطبیق دیتے ہوئے لکھا:
’’یہ معلوم ہے کہ بعض صحابہ کی طرف
منسوب روایات میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ بوقت تحریمہ تو رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم رفع الیدین کرتے تھے مگر تحریمہ کے علاوہ نماز میں کہیں اور جگہ دوبارہ
نہیں کرتے تھے۔ان روایات کے مختلف جوابات میں سے ایک جواب اہلِ علم نے یہ دیا ہے
کہ بوقت رکوع رفع الیدین فرض و واجب نہیں صرف مسنون و غیرمؤکدہ سنت جس کا کبھی
کبھار ترک کر دینا بلاکراہت درست و جائز ہے اس لیے آپ ؐ فی الواقع کبھی کبھار بوقت
رکوع رفع الیدین نہیں کرتے ہوں گے جسے دیکھنے والے نے سمجھ لیا کہ یہی آپ کا ہمیشہ
والا معمول ہے اور آپ ہمیشہ رکوع کے وقت رفع الیدین کے بغیر نماز پڑھنے کا اہتمام
کرتے اور معمول رکھتے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ بوقت رکوع رفع الیدین کی نفی والی
روایات اور اثبات والی احادیث کے درمیان تطبیق کی یہ صورت سب سے زیادہ بہتر ہے جس
کی بدولت نفی و اثبات والی احادیث میں سے کسی کا رد وابطال لازم نہیں آتا اور
دونوں قسم کی احادیث اپنی جگہ پر بر قرار رہی ہیں۔بعینہ یہی موقف ہماری نظر میں
تحریمہ و رکوع کے علاوہ نماز کے دوسرے مواقع پر رفع الیدین کے اثبات و نفی میں
وارد شدہ بظاہر مختلف و متعارض احادیث کے سلسلے میں ہے اور یہی موقف ہماری نظر میں
صحیح و درست ہے جس کے ذریعہ اس سلسلے میں وارد شدہ اثبات و نفی والی جملہ احادیث
اپنی جگہ پر برقرار رہتی ہیں اور مردود و باطل و متروک نہیں قرار پاتیں۔‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کاصحیح طریقہ ٔ نماز صفحہ ۳۵۴)
ندوی صاحب نے بالآخر تسلیم کر ہی لیا کہ رکوع کے
رفع یدین کو چھوڑ دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
(۴)کسی منکرحدیث نے طعنہ دیا:
’’پھر نماز کے اندر بار بار اختلاف کی
بھر مار۔ کبھی نیت کبھی ہاتھ باندھنے کے متعلق علی صدرہ اورکہیں تحت السرۃ، آمین
بالجہر ، رفع یدین، فاتحہ خلف الامام وغیرہ۔سوال پیدا ہوتا ہے کیا نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم پچاسوں قسم کی نماز رنگ برنگ پڑھتے ہوں گے؟ ان ہی ملاؤں نے مذہب
اسلام کوپارہ پارہ کرکے رکھ دیا ہے اور اپنی الگ الگ ٹولی، ایک اینٹ کی الگ مسجد
بنا ڈالی ہے۔ ‘‘
اس منکر حدیث کو
جواب دیتے ہوئے مولانا صفی الرحمن مبارک پوری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’باقی رہا نماز کے بعض جزوی اور فروعی
مسائل میں ہمارے درمیان بالکل معمولی اور ناقابل ذِکر قسم کا اختلاف تو ایسے
اختلاف کا اچھالنا اور اسے پچاسوں قسم کی ’ ’ رنگ برنگ ‘‘ نماز سے تعبیر کرنا
منکرین حدیث کی فطرت کی کجی کی علامت ہے۔ دنیا کا کوئی انسان جو سمجھ بوجھ اور
فطرت کی سلامت روی سے محروم نہ ہو اس بات سے انکار کی جرآت نہیں کر سکتا کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ نے تئیس سالہ پیغمبرانہ زندگی میں اگر گنجائش اور بیان جواز کے
لیے نماز کے بعض عمل کی دو دو صورتیں اختیار کی ہوں تو یہ کوئی بعید بات نہیں بلکہ
عین ممکن ہے ۔ خود قرآن مجیدمیں قسم کے کفارے میں کی تین تین صورتیں رکھی گئی ہیں۔
کفارۂ ظہار کے لیے بھی تین صورتیں رکھی گئی ہیں۔ نماز تہجد کے لیے تین اختیاری
اوقات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ حاجی کے لیے یوم النحر (دس ذی الحجہ ) کے بعد منٰی
میں دو دن ٹھہرنا بھی درست قرار دیا گیا ہے اور تین دن ٹھہرنا بھی۔ پس اگر ایک عمل
کے لیے ایک سے زیادہ صورتوں کا جواز کوئی قابلِ اعتراض بات ہے تو قرآن کے بیان کئے
ہوئے ان مسائل کی بابت کیا ارشاد ہے؟ اگر قابل اعتر اض نہیں تو پھر ہماری [
مسلمانوں کی ( ناقل )] نماز کے ان معمولی اور ناقابلِ ذِکر اختلاف کو اُچھا ل کر
اس پر جملہ بازی کرنا اگر فطرت کی کجی کی علامت نہیں تو پھر اسے علم ودیانت کے کس
خانہ میں شمار کیا جا سکتا ہے ؟۔‘‘
( انکار ِ حدیث حق یا باطل؟
صفحہ۹۵، تنظیم الدعوۃ الی القرآن والسنۃ راولپنڈی )
مبارک پوری
صاحب نے صاف اعتراف کیا ہے کہ رفع یدین اور اس کا ترک وغیرہ کئی مسائل ہیں جن کے
دونوں پہلو شریعت سے ثابت ہیں۔
مبارک صاحب
کی اس عبارت کے پیشِ نظر ہم کہتے ہیں کہ جس طرح منکرین حدیث کا ان مسائل پر جملہ
بازی کرنا علم و دیانت کے خلاف ہے ،اسی طرح غیرمقلدین کا ان میں سے ایک پہلو کو
اختیار کرکے دوسرا پہلوکے عاملین کومخالف حدیث کہنا اس سے بھی زیادہ علم و دیانت
کی خلاف ورزی ہے۔ اور قسم اُٹھاکر دوسری قسم کی حدیثوں کی نفی کرنا قبیح ترین حرکت
ہے۔
(۵)غیرمقلدین کی کتاب ’’ درس بخاری ‘‘ میں لکھا:
’’ یہاں یہ سوال اُٹھایا جا سکتا ہے کہ
اگرتبدیلی ممکن نہیں تو پھر اختلاف کیسے ظہور پذیر ہوا۔ جو آ ج ہم دیکھتے
ہیں۔مسلمان مختلف مکاتیب فکر کے پیرو ہیں۔ اسی نماز ہی کو دیکھ لیں اس میں کوئی
آمین بالجہر کا قائل ہے تو کوئی آہستہ آمین کہنے پر مُصر ہے۔ کسی نے حالت ِ نماز
میں ہاتھ سینے پرباندھ رکھے ہیں، کسی نے زیر ناف ہاتھ باندھنے ضروری قرار دے رکھا
ہے اور کسی نے سرے سے باندھنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی۔ کچھ ایسے ہیں کہ رفع
الیدین کرتے ہیں اور کچھ دوسرے نہیں کرتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سارے کام فعل ہیں
اور سنت سے ثابت ہیں... اسی طرح اذان، اقامت کے مسائل ہیں۔ ان تمام مسائل میں
اختلاف جواز کا نہیں بلکہ اختیار کا ہے اور دونوں طرح جائز ہے کوئی اِس طرح کرے
اور کوئی اُس طرح کرے۔ ‘‘
( درس بخاری
صفحہ ۸۱ افادات مولانا محمد گوندلوی،مرتبہ منیر احمد السلفی، ناشر اسلامک پبلیشنگ
ہاؤس قذافی سٹریٹ اردو بازار لاہور)
(۶)مولانا محمد گوندلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ اگر اہلِ حدیث بوجہ تحقیق رفع الیدین
نہ کرے اور آمین بالجہر نہ کہے یا فاتحہ خلف الامام میں تشدد نہ کرے تو بھی اہلِ
حدیث ہی رہتا ہے۔ ‘‘
( الاصلاح صفحہ ۱۳۲ طبع دوم جنوری؍۲۰۱۱ء ، ام
القری پبلی کیشنز )
غیرمقلدین
کے ہاں ’’ اہلِ حدیث ‘‘ کا مطلب حدیث پر عمل کرنے والا ہے۔لہذا رفع یدین نہ کرنے،
آہستہ آمین کہنے اور فاتحہ نہ پڑھنے کی صورت میں بھی انسان حدیث پر عامل ہے۔
گوندلوی صاحب لکھتے
ہیں:
’’ اس [ نماز ( ناقل )] کے محسوس حصہ
میں کچھ اختلاف بھی ہے مثلاً ہاتھ باندھنے اور چھوڑنے اور رفع یدین کرنے اور نہ
کرنے، آمین بالجہر کہنے اور آہستہ کہنے اورہاتھ زیر ناف باندھنے یا اوپر باندھنے،
مگر یہ سب امور سب کے نزدیک سنت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح سے نماز پڑھی ہو۔ جس طرح کسی نے دیکھا اور آگے جا کر
نماز پڑھی، پھر اس کو دیکھنے والوں سے اسی طرح طریقہ چلا آیا، یہاں تک یہ زمانہ
آیا۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے صرف ہاتھ باندھ کر نماز پڑھی ہو، مگر دیکھنے
والوں میں سے بعض نے سنت سمجھ کر غفلت کی بناء پر چھوڑ دیا ہو، پھر وہاں سے سلسلہ
چل کر اس زمانہ میں پہنچ گیا ہو۔ یہی حال دوسرے امور اختلافیہ کا ہے۔ ‘‘
( دوام حدیث : ۲؍ ۲۸۰)
گوندلوی
صاحب کی تصریح کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوطرح سے نماز پڑھی رفع
یدین کے ساتھ اور ترک رفع یدین کے ساتھ بھی۔
(۷)حافظ صلاح الدین یوسف غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ صرف نماز کا اختلاف ہی دیکھ
لیجئے۔ہاتھ باندھنے کی صورت میں : سینے پہ باندھنے جائیں یا ناف کے نیچے یا چھوڑ
کر نماز پڑھی جائے ؟ رفع الیدین کیا جائے یا نہ کیا جائے ؟ اعتدال ارکان ضروری ہے
یا نہیں کسی کے نزدیک ضروری ہے ،کسی کے نزدیک نہیں ۔خلف الامام سورۃ فاتحہ پڑھنی
ہے یا نہیں ؟ ایک کے نزدیک فرض ہے ، جب کہ دوسروں کے نزدیک غیرضروری ۔ اسی طرح مرد
اور عورت کی نماز کا مسئلہ ہے ایک فریق ان کے طریقہ نماز میں فرق کا قائل ہے جب کہ
دوسرا فریق سوائے دو تین باتوں کے ارکان نماز ادا کرنے میں کسی فرق کا قائل نہیں
... اگر نماز کا اثبات صرف عملی تواتر سے ہوتا تو طریقہ نماز میں یہ اختلاف قطعاً
نہیں ہوتا۔ فریقین دلائل کا انبار اور کتابوں کا ڈھیر جمع نہ کرتے۔ پھر تو ان کی
صرف ایک ہی دلیل ہوتی کہ نماز کا فلاں عمل یا فلاں طریقہ نسل در نسل ، جیلا بعد جیل
،ا سی تواتر سے نقل ہوتا آرہا۔‘‘
( فتنہ غامدیت ،ایک تحقیقی و
تنقیدی جائزہ صفحہ ۶۷)
اس عبارت
میں ’’ فریقین دلائل کا انبار ‘‘ پہ نگاہ رہے۔ اس میں اعتراف ہے کہ ترک رفع یدین
والے فریق کے پاس دلائل کا انبار ہے۔
(۸)مولانانور حسین گرجاکھی غیرمقلد نے نسائی :۱۵۹، بیہقی
:۲؍۷۸، ابو داودصفحہ ۱۱۶، کنزالعمال :۴؍ ۲۱۱ اور حازمی صفحہ ۸۵ سے حدیث نقل کی پھر
یوں تبصرہ کیا:
’’ اس حدیث سے نماز کی ابتدائی حالت
معلوم ہو گئی کہ شروع[ زمانہ کی ( ناقل )] نماز میں رفع یدین صرف تکبیر تحریمہ کے
وقت تھا اور رکوع میں تطبیق تھی۔ اس حدیث پر عبد اللہ بن مسعود ؓ اور ان کے بعض
اصحاب کا عمل رہا۔ اب اس کے بعد جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تطبیق کو
منسوخ فرما کر گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کا حکم صادر فرمایا اور بحکم خدا تعالیٰ رکوع
جانے اور سر اُٹھانے کے وقت رفع یدین کرنا شروع کیا تو ... جن کو حکم ثانی نہ
پہنچا وہ ابتدائی دونوں حکموں پر تازندگی خود بھی عامل رہے اور یہی تعلیم دوسروں
کو بھی دیتے رہے جیسے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ۔ ‘‘
( قرۃ العینین صفحہ ۹۵)
گرجاکھی
صاحب کے بقول شروع زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کا رفع یدین نہیں
کرتے تھے۔ لہذا’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر کبھی رکوع کا رفع
یدین نہیں چھوڑا ‘‘ دعویٰ کرنا غلط ہوا، پھر اسی دعویٰ کو حلفیہ بیان کرنا مزید
جسارت ہے۔
(۹)مولانا ثناء اللہ امرتسری غیرمقلد نے ترمذی والی حدیث
ابن مسعود کے جواب میں لکھا:
’’
اس کا جواب یہ ہے کہ ابن مسعود ؓ کی حدیث سے نسخ ہونا ثابت نہیں ہوتا،اس لیے کہ
ممکن ہے ابن مسعودؓ کے نزدیک جیسا کہ ہمارا مذہب ہے رفع یدین ایک مستحب عمل امر ہو
جس کے کرنے پر ثواب ملتا ہے اور نہ کرنے پر نماز کی صحت میں کوئی خلل نہیں آتا۔ ‘‘
( اہلِ حدیث کا مذہب صفحہ ۷۳ )
یہ عبارت’’ فتاویٰ علمائے حدیث :۳؍۱۵۴، مکتبہ اصحاب الحدیث
‘‘ میں بھی درج ہے ۔
امرتسری صاحب آگے لکھتے ہیں ـ:
’’ اگر اس قسم کی روایات خود آنحضرت صلی
اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہو ں کہ حضور ؐ نے سوائے اول دفعہ رفع یدین نہیں کی تو
بھی نسخ نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ سنت خاص کر مستحب امر کے لیے تو دوام فعل ضروری
نہیں۔ دوام تو موجب وجوب ہے۔ سنت یا مستحب تو وہی ہوتا ہے کہ فعل مرۃ و ترک اخری (
کبھی کیا ہو، اور کبھی چھوڑا ہو ) جس کو اہلِ معقول کی اصطلاح میں مطلقہ عامہ کہنا
چاہیے اور یہ تو ظاہر ہے کہ مطلقہ عامہ کی نقیض مطلقہ عامہ نہیں ہوتا فافہم۔‘‘
( اہلِ حدیث کا مذہب صفحہ ۷۴)
مذکورہ عبارت’’ فتاویٰ علمائے حدیث :۳؍۱۵۵، مکتبہ اصحاب
الحدیث ‘‘ میں بھی ہے۔
(۱۰)غیرمقلدین کی طرف سے شائع شدہ نسائی مترجم میں سیدنا
عبد اللہ ابن مبارک والی سندسے مروی حدیث ابن مسعود کی بابت ’’ صحیح ‘‘ لکھا ہے ۔
اور پھر ’’فائدہ ‘‘عنوان قائم کرکے لکھا:
’’ ایسا ہو سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اُٹھتے وقت رفع الیدین نہ
کرتے رہے ہوں، کیوں( کہ ) یہ فرض و واجب تو ہے نہیں، اس لیے ممکن ہے بیان جواز کے
لیے کبھی آپ نے رفع الیدین نہ کیا ہو، اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اسی حالت میں
آپ کو دیکھا ہو۔ ‘‘
( نسائی
مترجم :۱؍۳۹ ۶ حدیث: ۱۰۲۷... اشراف ، مراجعہ اور تقدیم عبد الرحمن بن عبد الجبار
الفریوائی )
(۱۱)غیرمقلدین کے فتاویٰ میں لکھاہے :
’’ حافظ ابن قیم ؒنے زاد المعاد میں
لکھا ہے کہ قنوت کا مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ اور یہ اختلاف اختلاف مباح سے ہے اس کے
کرنے والے اور نہ کرنے والے پرکوئی ملامت نہیں ہے جیسے نماز میں رفع یدین کرنا اور
نہ کرنا اور مانند اختلاف تشہد اور اذان او راقامت کے اَور مانند اختلاف حج کے جو
افراد اور قران اور تمتع ہے۔ سلف صالحین نے دونوں طرح کیا ہے ۔اور دونوں فعل ان
میں مشہور اور معروف تھے۔ بعض سلف صالحین نماز جنازہ میں قراء ت پڑھتے تھے اور بعض
نہیں پڑھتے تھے جیسے کہ بسم اللہ کو نماز میں کبھی اونچی پڑھتے اورکبھی آہستہ دعاء
افتتاح پڑھتے، کبھی رفع یدین رکوع کو جاتے اور اُٹھتے اور تیسری رکعت کے لیے کھڑے
ہوتے تینوں وقت کرتے، کبھی نہ کرتے۔کبھی دونوں طرف سلام پھیرتے،کبھی ایک طرف۔ کبھی
امام کے پیچھے قراء ت پڑھتے، کبھی نہ پڑھتے۔ اور نماز جنازہ میں کبھی سات تکبیریں
کہتے، کبھی پانچ، کبھی چار۔ سلف صالحین میں ہر طرح کے کرنے والے موجود تھے۔ یہ سب
اقسام اصحاب رضی اللہ عنہم سے ثابت ہیں۔ ‘‘
(حاشیہ : فتاویٰ علمائے حدیث : ۳ ؍ ۱۵۲ ، مکتبہ
اصحاب الحدیث )
اس عبارت
میں منجملہ باتوں کے ایک یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام اور اسلاف سے ترک رفع یدین پر
عمل پیرا رہنا ثابت ہے ۔
(۱۲)مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ رفع یدین ارکان نماز میں سے نہیں،اس
کا کرنا نہ کرنا برابر ہے، نماز کی صحت پر اس سے کوئی اثر نہیں پڑتا ہے لیکن سوال
یہ ہے کہ ....‘‘
( حاشیہ :اُسوۂ حسنہ ترجمہ ھدی الرسول صفحہ ۹۰)
(۱۳)قاری کفایت اللہ ( غیرمقلد) نے حافظ زبیر زئی علی زئی
کو خط لکھا:
’’ میں نے درس بخاری میں علامہ گوہر
رحمن صاحب مرحوم ( غیرمقلد)سے مسئلہ رفع الیدین میں استفادہ کیا تھا، ان کی
تقریروں سے میں نے اندازہ لگایا تھا کہ رفع الیدین و عدم رفع الیدین دونوں کی
حیثیت مساوی ہے۔ مگر آپ کی کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ مقابلہ 70 اور 30 کا
ہے۔‘‘
( اشاعۃ الحدیث ، اشاعت خاص بیاد حافظ زبیر علی
زئی صفحہ ۶۱۱،مکتبہ اسلامیہ)
گوہر صاحب
سے کئے گئے استفادہ کے مطابق رفع یدین کی طرح اس کا ترک بھی ثابت ہے، حیثیت میں
دونوں برابر ہیں۔ عبارت کے اگلے حصہ میں تیس فی صد مان لینا بھی غنیمت ہے۔
(۱۴)غیرمقلدین کی ایک عربی کتاب میں لکھا ہے:
’’ فنقُوْلُ انَّ النَّبِیَّ صلی
اللہ علیہ وسلم شرَع کُلَّ مِن الْھیْئاتِ الثّلاثِ الرَّفْعُ عِنْد تکْبِیْرَۃِ
الْاِحْرَامِ فقطْ لِحدِیْثِ ابْنِ مسْعُوْدٍکما ھُوَ مذْھبُ الْحنفِیَّۃ
وَالرَّفْعُ عِنْد الرُّکُوْعِ وَالرَّفْع مِنْہُ وِعِنْد الْقِیَامِ اِلی
الرَّکْعۃ الثَّالِثۃ ایْضا لِحدِیْثِ ابْنِ عُمرَ کما ھُوَ مذْھبُ الْجُمْھُوْرِ
وَالرَّفْعُ عِنْد کُلِّ خَفْضٍ وَرَفْعٍ لِحدِیْثِ مالِکٍ فالْکُلُّ سُنَّۃٌ ولا
تثْرِیْبَ علی منْ رَفعَ اوْ لمْ یَرْفعْ ۔
(الْاِخْتِیَارَاتُ الْفِقْھِیَّۃُ مِنْ خِلالِ کِتابِ صَفۃُ
صلوۃِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۳۴۴، دار ابن حزم)
ترجمہ:ہم کہتے ہیں کہ بلا شبہ نبی صلی
اللہ علیہ وسلم نے تینوں حالتوں میں سے ہر ایک کو مشروع فرمایا: رفع یدین فقط
تکبیرۃ تحریمہ کے وقت ،حدیث ابن مسعود کی وجہ سے جیسا کہ وہ حنفیہ کا مذہب ہے۔ اور
رفع یدین رکوع کے وقت اور اس سے اُٹھتے ہوئے اور تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے وقت،
حدیث ابن عمر کی وجہ سے جیسا کہ یہ جمہور کا مذہب ہے۔ اور رفع یدین ہر جھکنے اور
اُٹھنے کے وقت حدیث مالک کی وجہ سے۔ پس یہ سب طریقے سنت ہیں ،لہذا اس پر کوئی
الزام نہیں جو رفع یدین کرے یا نہ کرے۔
فائدہ:مولانا شاہ اسماعیل دہلوی صاحب لکھتے ہیں :
’’ فلایلام تارکہ وان ترکہ مدۃ عمرہ ۔‘‘
( تنویر العینین بحوالہ الروضۃ
الندیۃ صفحہ۹۶ )
ترجمہ: رفع یدین کے تارک کو ملامت نہیں
کی جا سکتی اگرچہ ساری عمر اسے چھوڑے رکھے ۔
غیرمقلدین کے ہاں مولانا شاہ اسماعیل دہلوی ’’
اہلِ حدیث ‘‘ شمار ہوتے ہیں۔ اس پر اُن کی بیسیوں عبارتیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
غیرمقلدین کے
ہاں ترک رفع یدین پر عمل
(۱) مولانا ثناء
اللہ مدنی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’والدین کی دلجوئی کے لیے ترک رفع
الیدین کی گنجائش ہے ...ہمارے بعض اسلاف تبلیغی مصلحت کے پیشِ نظر ترک ِرفع پر
عامل تھے۔ ‘‘
( الاعتصام مئی ۱۹۹۰ء صفحہ۹
بحوالہ حدیث اور اہلِ حدیث صفحہ۱۱۴)
یہاں یہ
بات قابل ِ غور ہے کہ رفع یدین کے چھوڑنے پر غیرمقلد مفتی نے محض بعض اسلاف کا عمل
پیش کیا ہے۔ بعض اسلاف کی پیروی میں رفع یدین چھوڑ دینا غیرمقلدین کے ہاں اتباع
کہلائے گا یا وہ اسے تقلید کا نام دیں گے ؟
اس عبارت
میں یہ بھی ہے کہ ترک رفع یدین پر عمل پیرا عام غیرمقلد نہیں بلکہ اُن کے اسلاف
ہیں۔
(۲)خواجہ عطاء
الرحمن غیرمقلد لکھتے ہیں ـ:
’’مولاناخالد صاحب(گرجاکھی) نے بتایا ہے
کہ والد ( نور حسین گرجاکھی )صاحب نے ایک دن تہجد کی نماز میں اپنے استاد مولانا
علاؤ دین صاحب کے ساتھ باجماعت ادا کی تومولانا علاؤ دین صاحب کو تہجد میں رفع
الیدین کرکے نماز پڑھتے دیکھا، حالاں کہ مولانا دن کی نمازوں میں رفع الیدین نہ
کرتے تھے۔میں نے پوچھا تو فرمانے لگے بیٹا یہ سنت سے ثابت ہے لیکن میں دن کو اس
لیے نہیں کرتا تاکہ لوگ بدک نہ جائیں، کہنے لگے ایک دن میں اپنے استاد حضرت مولانا
غلام رسول ؒ صاحب قلعوی کے ساتھ اکیلا نماز پڑھ رہا تھا تو انہوں نے بھی رفع
الیدین کیا۔ میں نے پوچھا تو انہوں نے فرمایا بیٹایہ سنت رسولؐ ہے۔ ہم لوگ صرف اس
لیے نہیں کرتے کہ لوگ بدک نہ جائیں اور ہماری تبلیغ میں رکاوٹ نہ ہو۔ ‘‘
(سوانح مولانا نور حسین گرجاکھی صفحہ ۱۲ بحوالہ
حدیث اور اہلِ حدیث صفحہ۱۱۴)
(۳)غیرمقلدین کے ہاں ’’امیر المجاہدین ‘‘ کا لقب پانے والے
فضل الٰہی وزیر آبادی ایک عرصہ تک اپنی مسلکی سنتوں؍اپنے امتیازی مسائل کے تارک
رہے اور انہوں نے اس کا خودہی اعتراف و اعلان کیا۔ وہ کہتے ہیں :
’’ میں نے ریفرنڈم جیتنے اور شمالی
سرحدی صوبہ کو پاکستان میں شامل کرنے کی غرض سے رفع الیدین، سینے پر ہاتھ باندھنے،
آمین اونچی کہنا چھوڑ دیا۔ میرے متعلق کہا گیا کہ امام کی اقتداء میں فضل ِ الہی
کا اگر مُنہ ہلتا ہے تو یہ سورۃ فاتحہ پڑھتا ہوگا اور یہ پکاوہابی ہے لہٰذا میں نے
کچھ عرصہ کے لیے فاتحہ خلف الامام بھی چھوڑ دی۔‘‘
(علمائے دیوبند اور انگریز صفحہ ۱۵۳بحوالہ توضیح
الکلام پر ایک نظر صفحہ ۱۴)
(۴)ڈاکٹر حافظ محمد
زبیر غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ میں رفع یدین کے ساتھ نماز پڑھتا ہوں
اور یہی درست سمجھتا ہوں کہ رفع یدین کرنا چاہیے لیکن بعض اوقات ایسا ہو جاتا ہے
کہ کسی حنفی مسجد میں امام مسجد موجود نہیں ہے، بعض نمازیوں نے مجھے نماز کے لئے
آگے کر دیا تو اَب میں نے ان کا لحاظ کیا اور حنفی طریقے سے نماز پڑھا دی۔یہ منہاج
کی نرمی ہے۔ ‘‘
(آسان دین صفحہ ۲۳، دار الفکر الاسلامی لاہور)
(۵)مولانا عنایت اللہ اثری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ مولوی عبد الوہاب نے مجھ سے فرمایا
کہ مولوی عبد الحکیم نصیر آبادی جب فلاں جگہ جاتے ہیں تو وہاں کے احناف کی خاطر
رفع الیدین چھوڑ دیتے ہیں۔ ‘‘
(الجسر البلیغ صفحہ ۲۳مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلد دوم )
(۶)قاضی عبد الاحد
خان پوری غیرمقلد کے حالات میں لکھا ہے:
’’ احناف کی مساجد میں وہ آمین بالجہر
اور رفع یدین بھی نہ کرتے تھے کیوں کہ اصل مقصد آپ کے سامنے توحید تھا۔ ایک دفعہ
ایک طالب علم خان پور سے آیا۔آپ نے اس سے کہاکہ اس مسجد میں آمین بالجہر نہ کہنا،
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین بالجہر اور رفع یدین کی وجہ سے ہجرت نہیں کی تھی
بلکہ توحید کی خاطر کی تھی۔ ‘‘
(تذکرہ علمائے خان پور صفحہ ۳۸)
مذکورہ
عبارت محمد اسحاق بھٹی غیرمقلد کی کتاب ’’ چمنستان حدیث صفحہ ۲۱۸‘‘ میں بھی منقول
ہے۔بھٹی صاحب نے اس کی تردید نہیں کی۔حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد کا اصول ہے کہ
کوئی مصنف کسی عبارت کو نقل کرکے اس کی تردید نہ کرے تو اس کی طرف سے موافقت ہوا
کرتی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’حافظ ابن حجر نے حافظ ابن حزم کی
مخالفت نہیں کی لہذا یہ اُن کی طرف سے ابن حزم کی موافقت ہے۔‘‘
(علمی مقالات :۶؍۱۳۰)
(۷)علی حسن خان غیرمقلد اپنے والد نواب صدیق حسن خان کے
متعلق لکھتے ہیں:
’’ والا جاہ مرحوم نماز پنجگانہ حنفی
طریقہ پر پڑھتے تھے البتہ ان کو فاتحہ خلف الامام اور اول وقت کا خاص اہتمام مد
نظر رہتا تھا۔ ‘‘
(مآثر صدیقی :۴؍۶۳)
علی حسن
خان کی تصریح کے مطابق فاتحہ خلف الامام اور اول وقت نماز پڑھنے کے علاوہ باقی
نماز نواب صاحب حنفی طریقہ کے مطابق پڑھتے تھے۔ جس کا لازمی نتیجہ ہے کہ وہ رکوع
کا رفع یدین نہیں کرتے ہوں گے۔اس عبارت کے پیش نظر دوسرے مسائل :ہاتھ ناف کے نیچے
باندھنا، آہستہ آمین کہنا،سجدہ جاتے ہوئے ہاتھوں سے پہلے گھٹنے رکھنا، جلسہ
استراحت نہ کرنااور تورک نہ کرنا وغیرہ مسائل بھی نواب صاحب کے مختار شمار ہونے
چاہئیں۔
مآثر صدیقی
کے حوالہ کے بعد’’ نزہۃ الخواطر‘‘ کی عبارت بھی پڑھ لیں ۔ اس میں نواب صاحب کے
متعلق لکھا ہے:
’’ العجب انہ کان یصلی علی طریقۃ
الاحناف فلایرفع الایدی فی المواضع غیر تکبیرۃ التحریمۃ و لا یجھر بآمین بعد
الفاتحۃ ولایضع یدہ علی صدرہ ۔
( نزہۃ الخواطر:۸؍ ۱۹۱بحوالہ
نور الصباح :۲؍۲۲۰)
ترجمہ:تعجب کی بات ہے کہ وہ احناف کے
طریقہ پر نماز پڑھا کرتے تھے اس لئے تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر مقامات میں رفع
یدین نہیں کرتے تھے، نہ ہی فاتحہ کے بعد آمین اونچی کہتے اور نہ ہی ہاتھ سینے پر
باندھتے۔
بلکہ نواب
صاحب نے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے صاحب زادے شاہ رفیع الدین رحمہ اللہ
سے نقل کیا:
’’ ان آخر الامرین ترک الرفع ولا
یدری مدۃ الترک فیحتمل انہ ترکہ فی ایام المرض۔ ‘‘
( الروضۃ الندیۃ صفحہ ۹۵)
ترجمہ: دو امروں( رفع یدین کرنے اور
چھوڑنے)میں سے ترک رفع یدین آخری عمل ہے ، رفع یدین کے ترک کی مدت معلوم نہیں۔
احتمال یہ ہے کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مرض الوفات میں اسے چھوڑ دیا تھا۔
(۸)مولانا عبد
الغفار دہلوی غیرمقلد مسئلہ رفع یدین کے متعلق لکھتے ہیں:
’’آہ! آج بعض اہلِ حدیث بھی اس سنت کو
چھوڑے بیٹھے ہیں یعنی اس طرح رفع یدین کرتے ہیں جیسے کسی کو اشارہ سے بلا رہے ہوں۔
‘‘
( رفع الیدین صفحہ ۴)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں