نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اللہ تعالی کی " صفات متشابہات " اور سلفیوں اور موجودہ غیر مقلدوں کے عقائد



...................................................................................

اللہ تعالی کی  " صفات متشابہات "   اور سلفیوں اور موجودہ غیر مقلدوں کے عقائد 

......................................................................

ماخوذ : اللہ تعالی کی
" صفات متشابہات " 
اور سلفیوں اور موجودہ غیر مقلدوں کے عقائد

تصنیف : ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب رحمہ اللہ

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

 دیگر مضامین کیلئے دیکھیں  ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" ،  

اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

 باب : 1

[ اللہ تعالیٰ کی صفات متشابہات ]

ابتداء میں مسلمان اپنے عقائد میں بھی رسول اللہ ﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے طریقے پر تھے۔ پھر جب کچھ گمراہ اور بدعتی لوگوں نے اپنی جماعتیں بنائیں اور اپنے لیے نئے نام اختیار کیے یا دوسروں نے ان کو دیے تو اہل حق نے اپنے لیے حدیث کے مطابق اهل السنة و الجماعة کا نام اختیار کیا۔ اہل السنة میں سے عقائد کے علم میں دو حضرات نمایاں حیثیت کے گذرے۔ ایک ابو منصور ماتریدی رحمہ اللہ تھے اور دوسرے ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ تھے۔ اہل السنة اپنے آپ کو ان کی نسبت سے اشعری اور ماتریدی کہنے لگے۔ کبھی دونوں ہی کواشاعرہ کہہ دیا جاتا ہے۔

[ اللہ تعالی کی صفات ]

اہل سنت اشاعرہ و ماتریدیہ کے نزدیک اللہ تعالی کی صفات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

1- صفات ذاتیہ:

وہ صفات جن کی ضد کے ساتھ اللہ تعالی متصف نہیں ہوتے ۔ یہ بنیادی صفات یا امہات الصفات کہلاتی ہیں۔ وہ صفات یہ ہیں: 

حیات علم ، قدرت ، ارادہ،سمع ، بصر، کلام اور تکوین ، حیات کی ضد عدم یا موت ہے اور علم کی ضد جہالت ہے اور قدرت کی ضد عجز و کمزوری ہے۔ اللہ تعالیٰ حیات کے ساتھ متصف ہیں لیکن اس کی ضد جو عدم یا موت ہے اس کے ساتھ متصف نہیں ۔ اللہ تعالٰی علم کے ساتھ متصف ہیں لیکن اس کی ضد کے ساتھ جو جہالت ہے متصف نہیں۔

2- صفات فعلیہ :

 وہ صفات جن کی ضد کے ساتھ بھی اللہ تعالی متصف ہوتے ہیں جیسے زندگی دینے کی ضد موت دینا ہے اور اللہ تعالیٰ دونوں کے ساتھ متصف ہیں کہ زندگی بھی دیتے ہیں اور موت بھی دیتے ہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ عزت بھی دیتے ہیں اور ذلت بھی دیتے ہیں جبکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اشاعرہ صفات فعلیہ کو صفت قدرت کے تحت لیتے ہیں جبکہ ماتریدیہ ان کو صفت تکوین کے ماتحت کہتے ہیں۔

3-صفات متشابہات :

جیسے ید ( ہاتھ ) ساق ( پنڈلی ) قدم ( پاوں ) استواعلی العرش ( عرش پر قرار پکڑنا )وغیرہ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایسی صفات ہیں جن کا ظاہری مطلب مراد نہیں ہے۔

[ اللہ تعالیٰ کی صفات متشابہات کے بارے میں درج ذیل اقوال ہیں: ] 

1۔ اشاعرہ و ماتریدیہ کے متقدمین کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں لیکن ان کا ظاہری معنی مراد نہیں ہے اور ان کا کوئی معنی متعین کیے بغیر ہم ان کی مراد کو اللہ کے حوالے کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک ان کے جو بھی معنی ہیں وہ اللہ تعالی کی شایان شان ہیں۔ صفات متشابہات کے بارے میں اس نظریے کو تفویض کہاجاتا ہے۔

2۔ اشاعرہ و ماتریدیہ کے متاخرین کے نزدیک بھی اصل تفویض ہے لیکن چونکہ اسلاف سے بعض جگہ تاویل منقول ہے اس لیے یہ حضرات عوام کو گمراہوں کی گمراہی سے بچانے کے لیے تاویل کرنے کو جائز کہتے ہیں۔ یہاں تاویل سے مراد ہے ظاہری معنی کو چھوڑ کر اللہ تعالی کی شایان شان کوئی اور مطلب لینا۔

3۔ بدعتی فرقہ معتزلہ کے نزدیک ان صفات کی تاویل واجب ہے۔

4۔ سلفیوں کے نزدیک ان کے ظاہر ہی معنی مراد ہیں۔ اسی لیے وہ تاویل کو تحریف اور تفویض کو تعطیل کہتے ہیں۔ کیونکہ جب ان صفات کا ظاہری معنی ہی لینا مراد ہو تو

 مرادی معنی کو چھوڑ کر کوئی دوسرا معنی لینا تحریف ہے اور کوئی بھی معنی مراد نہ لیں تو یہ معنی کو معطل کرتا ہے۔ غرض سلفیوں کے نزدیک یہ متشابہات نہیں ہیں بلکہ ان میں سے کچھ یا تو صفات ذاتیہ ہیں جیسے ہاتھ پاؤں چہرہ وغیرہ جو اللہ تعالی کی ذات سے کبھی جدا نہیں ہوتیں اور ان میں سے کچھ صفات فعلیہ ہیں مثلا عرش پر استواء اور آسمان دنیا پر نزول ۔ یاد رہے کہ سلفیوں کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی صفات فعلیہ ان کی مشیت و ارادے کے تابع ہوتی ہیں مثلاً وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عرش کو چھوڑ کر یا اس پر قائم رہتے ہوئے آسمان دنیا کی طرف نازل ہوتی ہے تو اپنے ارادے سے نازل ہوتی ہے اور واپس عرش پر جاتی ہے تو اپنے ارادے سے جاتی ہے۔

 باب :2

سلفی کون ہیں اور ان کی تاریخ کیا ہے؟

ابتداء میں یہ کچھ حنبلی تھے جنہوں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے عقیدے سے انحراف کیا اور خود اپنے بنائے ہوئے عقیدے کو امام احمد اور صحابہ و تابعین کی طرف منسوب کیا۔ علامہ ابن جوزی (597ھ ) جو خود حنبلی ہیں لکھتے ہیں:

” میں نے اپنے بعض حنبلی اصحاب کو دیکھا کہ انہوں نے عقائد کے باب میں ایسی باتیں کہی ہیں جو درست نہیں ہیں۔ یہ اصحاب ابن حامد (403ھ )، ان کے شاگرد ابو یعلی ( 458ھ ) اور ابن زاغونی (527ھ ) ہیں۔ ان کی کتابوں نے حنبلی مذہب کو عیب دار کیا ہے۔ ان لوگوں نے عوامی انداز اختیار کیا اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو محسوسات (یعنی مخلوقات) پر قیاس کیا۔ انہوں نے یہ حدیث دیکھی کہ اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف اعضاء کی نسبت دیکھی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے ان کی ذات پر زائد صورت کا، چہرے کا، دو آنکھوں کا منہ کا، کو بے کا، داڑھوں کا، چہرے کی چمک کا ، دو ہاتھوں کا ہتھیلی کا، چھنگلی کا، انگوٹھے کا ، سینے کا، ران کا ، پنڈلیوں کا اور دو پاؤں کا اثبات کیا اور کہا کہ ہم اللہ کے لیے سر کا اثبات نہیں کرتے کیونکہ ہم نے کسی نص میں سر کا ذکرنہیں پایا۔ ان لوگوں نے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ چھوتے ہیں اور چھوئے جاسکتے ہیں اور وہ بندے کو اپنی ذات کے قریب کر لیتے ہیں اور بعض تو کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی سانس بھی لیتے ہیں۔

ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات میں الفاظ کے ظاہری معنی کو لیا ( مثلاًید اور قدم اور وجہ کے ظاہری و حقیقی معنی کو لیا جو ذات کے اعضاء ہیں ) اور ان کو انہوں نے صفات کہا جو خود ایک بدعت ہے اور اس پر ان کے پاس کوئی نقلی و عقلی دلیل نہیں ہے۔ اور انہوں نے ان نصوص پر توجہ نہیں کی جو تقاضا کرتی ہیں کہ ظاہری معنی کے بجائے ایسے معنی لیے جائیں جو اللہ تعالیٰ کے شایان شان ہوں اور انہوں نے اس طرف بھی توجہ نہیں کی کہ حادث ہونے کی علامتوں کی وجہ سے ظاہری معنی لغو ہیں ۔ پھر ان کو صفات مان لینے کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم ان کے ظاہری اور معروف معنی لیں گے اور لغوی توجیہ بھی نہ کریں گے۔ اور ظاہری معنی وہ ہوتے ہیں جو انسانوں میں معروف و مشہور ہیں اور لفظ کو جہاں تک ہو سکے اس کے ظاہری اور حقیقی معنی میں لیا جائے ۔ اور اگر کوئی مانع ہو تو پھر مجاز کی طرف جائیں۔ پھر وہ تشبیہ سے بچنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اپنے سے تشبیہ کی نسبت کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صرف ہم ( سلفی ہی ) اہل سنت ہیں حالانکہ ان کے کلام میں صریح تشبیہ پائی جاتی ہے۔

پھر عوام کی ایک تعداد ان لوگوں کی پیروی کرنے لگی۔ میں نے ان خواص و عوام دونوں کو سمجھایا کہ اے حنبلیو ! تم اہل علم اور اہل اتباع ہو اور تمہارے بڑے امام احمد بن حنبل کا یہ حال تھا کہ حکومت کے حکم پر کوڑے مارنے کے لیے جلاد ان کے سر پر ہوتا تھا پھر بھی وہ یہی کہتے تھے کہ میں وہ بات کیسے کہوں جو اسلاف نے نہیں کہی۔ لہذا تم ان کے مذہب و مسلک میں بدعتیں داخل نہ کرو ۔ پھر تم حدیثوں کے بارے میں کہتے ہو کہ ان کے بھی ظاہری معنی لیے جائیں گے ۔ تو قدم ( پاؤں) کا ظاہری معنی تو عضو ہے۔ یہ تو عیسائیوں کی طرح ہوا کہ جب حضرت عیسی علیہ السلام کو روح اللہ کہا گیا تو ان ناہنجاروں نے یہ عقیدہ بنالیا کہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت روح ہے جو حضرت مریم علیہا السلام میں داخل ہوئی۔ اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مقدس ذات سمیت عرش پر مستوی ہوئے تو انہوں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو محسوسات کی مثل لیا حالانکہ واجب ہے کہ جس عقل سے ہم نے اللہ کو اور اس کے قدیم وازلی( ہمیشہ ہمیش سے ) ہونے کو پہچانا اسی عقل کو ہم (صفات کو سمجھنے میں ) مہمل نہ

چھوڑیں.. تو تم اس نیک اور اسلاف کے طریقے پر چلنے والے (یعنی امام احمد بن حنبل) کے مذہب ومسلک میں وہ کچھ داخل مت کرو جو اس کا حصہ نہیں ہے ۔ تم لوگوں نے اس مذہب کو بڑا گندا لباس پہنا دیا ہے جس کی وجہ سے حنبلی کو مجسم (یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے جسم ثابت کرنے والا ) سمجھا جانے لگا۔ پھر تم نے اپنے اختراعی مذہب کو یزید بن معاویہ کے لیے عصبیت ( وحمایت ) کے ساتھ مزین کیا ( اور اس کو فضیلت دار قرار دینے لگے) حالانکہ تم جانتے ہو کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس پر لعنت کرنے کو جائز کہا ہے۔ اور ابو محمد تمیمی تمہارے امام ابو یعلی کے بارے میں کہتے تھے کہ انہوں نے امام احمد کے مذہب کو ایسا برا دھبہ لگایا ہے جو  قیامت تک دھل نہیں سکتا ۔“

 باب:3

[سلفیوں کی تاریخ کے تین ادوار]=

سلفیوں کی تاریخ کے تین دور ہیں:

پہلا دور

یہ ابن حامد ، ابو یعلی اور ابن زاغونی کا دور ہے جن کے بارے میں ابھی علامہ ابن جوزی کا تبصرہ نقل ہوا۔

دوسرا دور

یہ ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد ابن قیم کا دور ہے۔ ابن تیمیہ نے اپنی زبان سے اور اپنے قلم سے اپنے عقائد کو جو کہ آگے ذکر ہیں اور زیارت قبور کے لیے سفر کو یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی نیت سے سفر کرنے کی ممنوعیت کو اور ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرنے کو ) پوری شد و مد سے پھیلانے کی کوشش کی۔ اور سلفیت جو کہ مرور زمانہ سے کمزور پڑ چکی تھی اس کو دوبارہ زندہ کیا۔ ابن قیم رحمہ اللہ کے قصیدہ نونیہ پر علامہ عثیمین (جن کی وفات ابھی چند سال پہلے ہوئی ہے۔ ان ) کی شرح میں ہے۔

ثم جاء شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله تعالى و الذي ظهر رحمه الله في وقت قل فيه و استغرب من هو على منهج اهل السنة و الجماعة فضلا عن وجود من يجهر بذلك فالهمه الله الحق وصدع به وتصدى لمن خالف ذلك و اظهر الادلة الواضحة التي تدل على ما ذهب اليه و كتب فى ذلك مؤلفات كثيرة مختصرة و مبسوطة

( ترجمہ: پھر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا دور آیا اور وہ بھی ایسے وقت میں که سلفی قلیل تھے اور غیر معروف ہو چکے تھے ، کوئی ایسا نہ تھا جو سلفیوں کے عقائد کا بر ملا اظہار کرتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ابن تیمیہ کے دل میں حق کا الہام کیا اور انہوں نے اس کا اعلان کیا اور جو ان کے مخالف تھے ان کے درپے ہوئے ۔ ابن تیمیہ نے اپنے عقیدے پر واضح دلائل قائم کئے اور مختصر اور طویل بہت سی کتابیں لکھیں )۔

تیسرا دور

یہ موجودہ سعودی حکومت کا دور ہے۔ اس دور سے پہلے زمانہ کے بارے میں شیخ عبد اللہ بن عبد الرحمن ابابطین (وفات 1282ھ ) لکھتے ہیں:

اعلم ان اكثر اهل الامصار اليوم اشعرية 

(اثبات الحد لله : 200) 

( ترجمہ: جان لو کہ موجودہ زمانے میں ملکوں میں اکثریت اشاعرہ و ماتریدیہ کی ہے)

۔ چونکہ محمد بن عبدالوہاب ابن تیمیہ کے معتقد تھے اس لیے ان کے خاندان میں ابن تیمیہ اور سلفیوں کی فکر موجود تھی۔ سعودی دور کا ڈھانچا دو بنیادوں پر ہے۔ ملک کے سیاسی و انتظامی امور آل سعود کی ذمہ داری میں ہیں اور ملک کے مذہبی امور آل شیخ محمد بن عبدالوہاب کی ذمہ داری میں ہیں۔ ملکی سطح پر مذہبی اختیار کی وجہ سے سلفیوں کو اپنے افکار اپنے ملک میں بھی اور دیگر چھوٹی عرب ریاستوں میں بھی پھیلانے کا موقع ملا اور انہوں نے اس کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔ یہ ہم نے محض قیاس آرائی نہیں کی بلکہ عبد اللہ بن عبد المحسن ترکی اور شعیب ارنوط شرح العقيدة الطحاویہ کے اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں:

ابن تیمیہ کے زمانہ کو گذرے ہوئے تقریبا چار صدیاں گزر چکی تھیں لیکن یہ چار صدیاں حق کے ( کچھ نہ کچھ ) داعیوں سے خالی نہیں رہیں جو اہل السنۃ والجماعة (یعنی سلفیوں) کے عقائد پر قائم رہے۔ لیکن بارہویں صدی ہجری کے نصف ثانی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کا اہل سنت ( یعنی سلفیوں) کے عقائد کے پھیلنے میں اور فہم وتطبیق میں سلفیوں کے منہج کو اختیار کرنے میں بڑا اثر ہوا۔ یہ واقعہ جزیرہ عرب  میں سعود کی حکومت کے قیام کا تھا جس نے اس اصلاحی دعوت کی مدد کا عزم کیا ہوا تھا۔ اس دعوت کی پکار امام شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے لگائی۔ یہ دعوت تھی لوگوں کو کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کی طرف پلٹنے کی اور سلف صالحین کے طریقے کو اختیار کرنے کی اور شریعت الہی کے ساتھ مطابقت کو لازم پکڑنے کی ۔ اس دعوت کو جمنے کے لیے وہ اسباب میسر آئے جو اس سے پہلے کی اور اس کے بعد کی بہت سی دعوتوں کو میسر نہیں آئے۔ یہ محض اللہ کا فضل ہے۔ ان میں سے ایک بڑا سبب حکومت اور سلطنت ہے۔ اس خاص سبب سے جو اللہ تعالیٰ نے مہیا فرمایا پہلی سعودی حکومت کے بانی اور امام اور مجاہد محمد بن سعود رحمہ اللہ کے عہد میں اور ان کے بعد ان کے بیٹوں اور پوتوں کے عہد میں اصلاحی دعوت نے قوت اور جماؤ حاصل کیا یہاں تک کہ چودھویں صدی کے شروع میں ملک عبدالعزیز بن عبد الرحمن آل سعود کو حکومت ملی تو ان کی حکومت نے اہل سنت ( سلفیوں) کے عقائد کی تبلیغ میں ضروری طریقہ کار کی طرف اور لوگوں کو شریعت الہی کے مطابق عمل کرنے کی طرف اور شریعت کے موافق لوگوں میں فیصلہ کرنے کی طرف توجہ کی۔

ہمارے مشائخ مثلاً محمد بن عبداللطیف، سعد بن حمد بن عتیق، عبداللہ بن عبدالعزیز عنقری، عمر بن محمد بن سلیم اور محمد بن ابراہیم بن عبداللطیف رحمہم اللہ فرماتے ہیں: پھر جب بہت سے لوگوں نے اس نعمت کی قدر نہیں کی اور اس کا لحاظ نہیں کیا تو ان میں اختلاف اور تفرقہ پیدا ہوا اور دشمنوں کو تسلط حاصل ہوا، اور بہت سے لوگ اپنے سابقہ طریقوں کی طرف لوٹ گئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے آخر میں امام عبدالعزیز بن عبد الرحمن آل فیصل کے غلبہ کی شکل میں احسان فرمایا۔ اللہ ان کی مدد فرمائے اور ان کو تو فیق عطا فرمائے اور ان کے دور میں اللہ نے احسان فرمایا کہ اس اسلامی دعوت اور ملت حنیفی کو فروغ حاصل ہوا اور اس کے مخالفوں کا قلع قمع ہوا۔ اور جب ملک عبدالعزیز نے اپنی حکومت کو توحید کو اور نجات دلانے والے عقائد کو جہاں اپنے ملک میں مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیاوہیں اپنے ملک سے باہر بھی ان کی ترویج کے لیے دو طریقے اختیار کئے۔

1۔ داعی بھیجے۔

2۔ توحید خالص اور سلفی عقیدہ پر مشتمل کتابوں کو پھیلایا ۔ (43-41)


[تنبيه]

برصغیر کے غیر مقلد حضرات پہلے اشاعرہ کے اصول پر تھے لیکن پھر انہوں نے بھی آہستہ آہستہ اپنا تعلق ابن تیمیہ سے اور سعودی حکومت سے جوڑ لیا اور یہ تک بھول گئے کہ خود ان کے بڑے مثلاً شیخ نذیرحسین دہلوی، مولانامحمد حسین آزاد شمس الحق عظیم آبادی اور مولانا عبدالرحمن مبارک پوری سلفی عقائد کے حاملین کو کیا سمجھتے تھے اور سلفی اب ان کے بڑوں میں سے مولا نا عبد الرحمن مبارک پوری کی تحفة الاحوذی کی اور مولاناشمس الحق عظیم آبادی کی عون المعبود کی کیا گت بنارہے ہیں۔ ان حضرات کے وہ عقائد جو اشاعرہ کے موافق ہیں سلفی ان کونشان زد کر کے یہ بتارہے ہیں کہ یہ گمراہی ہے۔

ان تمام کاوشوں کے باوجود سلفی اب بھی اقل قلیل ہیں اور امت کا سواد اعظم اب بھی اشاعرہ و ماتریدیہ پرمشتمل ہے۔

 باب:4

[ سلفی خود کو اهل السنة والجماعة اور اشاعرہ و ماتریدیہ کو گمراہ اور بدعتی کہتے ہیں ]

اوپر یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات متشابہات کے بارے میں سلفیوں کا عقیدہ درست نہیں لیکن سلفی دعویدار ہیں کہ اہل سنت صرف وہی ہیں اور ان کے برعکس اشاعرہ و ماتریدیہ (جو اصل اہل سنت ہیں ) وہ بدعتی ہیں بلکہ جو سلفی متشدد ہیں وہ اشاعرہ و ماتریدیہ کی تکفیر تک کرتے ہیں۔ اشاعرہ و ماتریدیہ میں سے متقدمین اور متاخرین صفات متشابہات میں تفویض کرتے تھے یعنی یہ کہتے تھے کہ ہم ان صفات کو مانتے ہیں لیکن ہم ان کا معنی نہیں جانتے ، اللہ تعالی ہی ان کو جانتے ہیں لہذا ہمارا ان پر ایمان ہے لیکن ہم یہ نہیں کہتے کہ ان کا یہ مطلب ہے بلکہ ان سے جو مراد ہے ہم اس کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر تے ہیں۔ اس کو اشاعره و ماتریدیہ تفویض یعنی اللہ کے سپرد کرنا کہتے ہیں لیکن سلفی اس کو تعطیل کہتے ہیں یعنی ظاہری معنی کو معطل کرنا اور ان کو اختیار نہ کرنا۔ پھر جب گمراہ فرقوں نے صفات متشابہات کے ذریعے سے عوام کو گمراہ کرنا شروع کیا جیسا کہ خود سلفی بھی کرتے ہیں تو اشاعرہ و ماتریدیہ کے متاخرین نے لوگوں کو گمراہ عقیدوں سے بچانے کے لیے تاویل کرنے کو اختیار کیا جس کو سلفی تحریف یعنی معنی مراد کو تبدیل کرنا کہتے ہیں۔ سلفیوں کے نزدیک تعطیل و تحریف کے درمیان جو فرق ہے اس کو بیان کرتے ہوئے علامہ عثیمین لکھتے ہیں :


تحریف دلیل میں ہوتی ہے اور تعطیل مدلول و مراد میں ہوتی ہے مثلاً جب کوئی یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول بَل يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ  کا مطلب ہے اس کی دو تو تھیں، تو شخص دلیل میں تحریف کرتا ہے اور صحیح مراد کو معطل کرتا ہے کیونکہ یداہ سے مراد حقیقی ہاتھ ہیں۔ تو اس شخص نے مرادی معنی کو معطل کیا اور غیر مرادی معنی کو ثابت کیا۔ اور جب کوئی یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ بَلْ يَدَاهُ مُبْسُوطَتَانِ سے کیا مراد ہے اور میں اس کی مراد کو اللہ پر چھوڑتا ہوں ، نہ میں اس سے حقیقی ہاتھ ثابت کرتا ہوں اور نہ کوئی دوسرا معنی لیتا ہوں تو یہ تعطیل ہے تحریف نہیں کیونکہ تحریف میں لفظ کے معنی کو بدل دیا جاتا ہے اور اس کا مطلب کچھ اور بتایا جاتا ہے جبکہ تعطیل یہ ہے کہ آدمی اس کا معنی ہونے کے باوجود کوئی بھی معنی مراد نہ لے۔ اہل سنت ( یعنی سلفی ) تحریف اور تعطیل دونوں طریقوں سے بری ہیں۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ لفظ کے حقیقی معنی ومراد کو معطل کر کے کوئی دوسرا معنی مراد لیا جائے ۔ دوسرا طریقہ اہل تفویض کا ہے۔ سلفی معنی کو اللہ تعالیٰ پر نہیں چھوڑتے بلکہ کہتے ہیں کہ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ سے اللہ کے دو حقیقی ہاتھ مراد ہیں نعمت اور قوت مراد نہیں ہے۔ غرض اہل سنت (یعنی سلفی ) نہ تحریف کے قائل ہیں اور نہ تفویض کے۔ بہر حال اس میں شک نہیں کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اہل سنت کا (یعنی سلفیوں کا ) طریقہ تفویض کا ہے تو وہ غلط کہتے ہیں کیونکہ اہل سنت ( یعنی سلفیوں) کا طریقہ یہ ہے کہ وہ مرادی معنی کو ثابت مانتے ہیں البتہ اس کی کیفیت ( شکل وصورت) کو تفویض یعنی اللہ کے حوالے کرتے ہیں ..  اس سے معلوم ہوا جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں، معنی مراد میں تفویض کرنا ( جیسا اشاعرہ و ماتریدیہ کے متقدمین کرتے ہیں ) سب سے برا بدعتی قول ہے“۔

 (شرح عقیدہ واسطیہ : 44) 

علامہ خلیل ہراس یہی بات ابن تیمیہ کی کتاب عقیدہ واسطیہ پر اپنی شرح میں لکھتے ہیں: کلام میں تحریف اس کو کہتے ہیں کہ ظاہر معنی کو چھوڑ کر ایسے کسی دوسرے معنی کو اختیار کرنا جس پر لفظ کی دلالت مرجوح درجہ میں ہو لہذا کلام میں ایسے قرینہ کا ہونا ضروری ہے جو واضح کرے کہ دوسرا معنی مراد ہے۔ کلام میں تعطیل سے یہاں مراد ہے صفات الہی کی نفی کرنا اور ذات خداوندی کے ساتھ ان کے قیام کا انکار کرنا۔ تحریف اور تعطیل میں فرق یہ ہے کہ تعطیل میں اس معنی حق کی نفی کی جاتی ہے

جس پر کتاب وسنت دلالت کرتی ہیں اور تحریف میں نصوص کی ان باطل ، معانی کے ساتھ تفسیر کی جاتی ہے جن پر کتاب وسنت دلالت نہیں کرتیں ۔ جو شخص باطل معنی کا اثبات کرے اور معنی حق کی نفی کرے اس نے تحریف و تعطیل دونوں کا ارتکاب کیا۔ اور جو کتاب وسنت میں وارد صفات کی نفی کرے بایں طور کہ دعوی کرے کہ ان کے ظاہری معنی مراد نہیں ہیں لیکن کسی دوسرے معنی کی تعین بھی نہ کرے تو یہ تعطیل ہے تحریف نہیں ہے اور لوگ اس کو تفویض کہتے ہیں۔


یہ کہنا کہ سلف کا مذہب تفویض ہے جیسا کہ ان کی طرف متاخر اشاعرہ وغیرہ نے منسوب کیا ہے یہ درست نہیں ہے کیونکہ سلف معنی کے علم کو تفویض نہیں کرتے تھے اور نہ ایسا کلام پڑھتے تھے جس کا معنی وہ سمجھتے نہ ہوں بلکہ وہ کتاب وسنت کی نصوص کے معنی کو سمجھتے تھے اور اللہ عزوجل کے لیے ان کا اثبات کرتے تھے پھر اس کے بعد صفات کی کنہ وحقیقت یا ان کی کیفیات کو تفویض کرتے تھے جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ عرش پر اللہ کے استوا کی کیا کیفیت ہے تو انہوں نے فرمایا استوا کا معنی تو معلوم ہے کیونکہ بلند ہونے کو اور قرار پکڑنے کو کہتے ہیں اور کیفیت نا معلوم ہے. بلا کیفیت“ کہنے سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ کیفیت یعنی شکل وصورت کی سرے سے نفی کرتے تھے کیونکہ کسی نہ کسی کیفیت کا ہونا تو ناگزیر ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ کیفیت کے علم کی نفی کرتے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی کیفیت کو صرف اللہ ہی جانتے ہیں کوئی اور نہیں جانتا“۔ (شرح عقیدہ واسطیہ : 22-20)

[ سلفیوں کی تصریحات جن میں اشاعرہ و ماتریدیہ کو بدعتی اور فاسق کہا گیا ہے ]

 علامہ عثیمین کے استاد علامہ سعدی اشاعرہ کی تکفیر نہیں کرتے البتہ ان کو گمراہ کہتے ہیں،

وہ لکھتے ہیں:

اسی لئے خوارج معتزلہ اور قدریہ وغیرہ بدعتیوں کی مختلف قسمیں ہیں ۔ ان میں کچھ تو وہ ہیں جو یقیناً کافر ہیں جیسے عالی جہمیہ جواللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کی نفی کرتے ہیں اس کے باوجود کہ ان کو علم ہے کہ ان کی بدعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی باتوں کے خلاف ہے۔ یہ لوگ جانتے بوجھتے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے ہیں ۔ اور ان میں کچھ وہ ہیں جو گمراہ اور فاسق بدعتی ہیں جیسے وہ خارجی جو تاویل کرتے ہیں ۔ یہ رسول کی تکذیب نہیں کرتے ( کیونکہ رسول کی بتائی ہوئی باتوں کو مانتے ہیں لیکنن ان کا مطلب غلط لیتے ہیں ) اور (اس لئے ) وہ اپنی بدعت کی وجہ سے گمراہ ہیں لیکن پھر بھی اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں ۔ اسی وجہ سے خوارج کے بدعتی ہونے کا اور ان کے حق سے نکلنے کا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین متفقہ حکم لگاتے ہیں جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ خارجی اسلام سے خارج نہیں ہیں اس کے باوجود کہ وہ مسلمانوں کی جان و مال کو مباح سمجھتے ہیں اور کبیرہ گناہوں کے مرتکب کیلئے شفاعت کا انکار کرتے ہیں اور دین کے بہت سے اصول کا انکار کرتے ہیں لیکن چونکہ وہ تاویل کرتے تھے اس وجہ سے ان کی تکفیر نہیں کی جاتی ۔ اور جوان سے کمتر درجے کے بدعتی ہیں جیسے کہ بہت سے قدری اور کلابی اور اشاعرہ تو یہ اصول میں قرآن وسنت کی مخالفت کرنے کی وجہ سے بدعتی اور گمراہ ہیں اور ان کے آپس میں چند درجے ہیں“ ۔ (شرح قصیدہ نونیہ : 296/4)

ابن تیمیہ لکھتے ہیں:

و الاشعرى و امثاله برزخ بين السلف والجهمية، اخذوا من هؤلاء كلاماً صحيحاً، و من هؤلاء اصولا عقلية ظنوها صحيحة و هي فاسدة، فمن الناسمن مال اليه من الجهة السلفية، ومن الناس من مال اليه من الجهة البدعية كأبي المعالی و اتباعه (مجموع فتاوی 16/471)

 ترجمہ: اشعری اور ان جیسے حضرات سلفیوں اور جہمیوں کے درمیان کا ایک طبقہ ہیں۔ سلفیوں سے انہوں نے کچھ باتیں لیں اور جہمیہ سے کچھ عقلی اصول ان کو صحیح سمجھ کر لیے حالانکہ وہ حقیقت میں فاسد تھے۔ تو کچھ لوگ اشعری کی طرف سلفیت کی جہت سے مائل ہوئے اور کچھ لوگ ان کی طرف بدعت کی جہت سےمائل ہوئے مثلاً ابوالمعالی اور ان کے پیروکار )

 اما المتاخرون فانهم والوا المعتزلة وقاربوهم اكثر و قدموهم على اهل السنة والاثبات و خالفوا اولیهم 

(197- فتاوی کبری 5115 )

( ترجمہ: متاخرین اشاعرہ نے معتزلہ سے تعلق بڑھایا اور ان کی فکر کے قریب ہوئے اور ان کو سلفیوں پر مقدم کیا اور اپنے متقدمین کے خلاف روش اختیار کی ) ۔

 فعلم ان هولاء (يعنى متاخرى الاشاعرة) حقيقة باطنهم باطن المعتزلة والجهمية المعطلة و ان كان ظاهرهم ظاهر اهل الاثبات كما ان المعتزلة عند التحقيق حقيقة امرهم امر الملاحدة نفاة الاسماء و الصفات بالكلية وان تظاهروا بالرد عليهم ( 197 بيان تلبيس الجهمية) 

(ترجمہ: اس سے معلوم ہوا کہ متاخرین اشاعرہ کی حقیقت یہ ہے کہ اندر سے وہ معتزلہ اور جہمیہ کی طرح ہیں جو صفات کی نفی کرتے ہیں اگرچہ اوپر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صفات کو مانتے ہیں جیسا کہ معتزلہ حقیقت میں اندر سے ملحدوں کی طرح ہیں

جو اسماء وصفات کی بالکلیہ نفی کرتے ہیں اگرچہ بظاہر ملحدوں پر رد کرتے ہیں)۔ 

 فعامة ماذمه السلف والائمة وعابوه على المعتزلة من الكلام المخالف للكتاب و السنة و الاجماع القديم لكم منه اوفر نصيب بل تارة تكونون اشد مخالفة لذلك من المعتزلة و قد شاركتموه في اصول ضلالهم التي فارقوا بها سلف الامة وائمتها و نبذوا بها كتاب الله وراء ظهورهم ... وانتم شركاؤهم في هذه الاصول كلها و منهم اخذتموها و انتم فروخهم فيها (ص 197- فتاوی کبری 324)


( ترجمہ: سلف اور ائمہ نے قرآن وسنت اور اجماع کے مخالف کلام کی وجہ سے معتزلہ کی جو مذمت کی اور ان پر عیب لگایا اور ان کی تکفیر کی تو (اے متاخرین اشاعرہ) تمہارے لئے اس مذمت اور عیب کا زیادہ حصہ ہے لیکن کبھی تو تمہاری مخالفت معتزلہ کی مخالفت سے زیادہ سخت ہو جاتی ہے۔ تم ان کی گمراہی کے اصول میں ان کے شریک ہوئے جن سے امت کے اسلاف اور اس کے ائمہ ان سے جدا ہوئے اور جن کی وجہ سے معتزلہ نے کتاب اللہ کو اپنے پس پشت ڈالا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان تمام اصول میں تم معتزلہ کیساتھ ہو۔ یہ اصول تم نے ان ہی سے  لئے اور تم ان ہی کے انڈےبچے ہو۔)

باب:5

[ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک سلفیوں کے مسلک سے مختلف ہے ]

[امام احمد استواء کے ساتھ ذات کی قید نہیں لگاتے]

سألوه عن الاستواء فقال استوى على العرش كيف شاء و كماشاء بلا حد وصفة يبلغها واصف ذكره الخلال في السنة (اثبات الحدلله ص 217)

( ترجمہ: امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے استواء کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے عرش پر استوا کیا جیسے چاہا بغیر حد کے اور بغیر صفت کے جس تک کوئی پہنچ سکے۔)

[ امام احمد تاویل کرتے ہیں ]

1۔ حكى حنبل عن الامام احمد انه سمعه يقول احتجوا على يوم المناظرة فقالوا تحبى يوم القيامة سورة البقرة و تحبى سورة تبارك قال فقلت لهم انما هو الثواب قال الله جل ذكره و جاء ربك و الملك صفا صفا و انما تاتى قدرته


( العقيده و علم الكلام ص 504) 

(ترجمہ: امام احمد رحمتہ اللہ علیہ نے ذکر کیا کہ مناظرہ کے دن فریق مخالف نے میرے خلاف یہ دلیل دی کہ حدیث میں ہے کہ سورہ بقرہ اور سورہ تبارک قیامت کے دن آئیں گی۔ میں نے جواب دیا کہ اس سے مراد ان کا ثواب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ جَاءَ رَبُّكَ وَ الْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا یعنی اس کی قدرت آئے گی )۔


 2 ۔ قال ابن حزم الظاهرى روينا عن الامام احمد بن حنبل رحمه الله في قوله تعالى وجاء ربك انما معناه جاء امر ربك كقوله تعالى هل ينظرون الا ان تاتيهم الملائكة او ياتى امر ربك و القرآن يفسر بعضه بعضا هكذا نقله ابن الجوزي في تفسيره زاد المسير 

(العقيده و علم الكلام ص 504)

( ترجمہ: ابن حزم ظاہری نے نقل کیا کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے وجاء ربک اور تمہارا رب آیا کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے کہ تمہارے رب کا حکم آیا جیسا کہ اس آیت میں ہے : هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَن تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَاتِيَ أَمُرُ رَبِّكَ (نحل: 33) 


(وہ نہیں انتظار کرتے مگر اس کا کہ آئیں ان کے پاس فرشتے یا آئے تمہارے رب کا حکم ۔ ) اور قرآن کا ایک حصہ دوسرے کی تفسیر کرتا ہے۔ اسی طرح سے ابن الجوزی نے اپنی تفسیر زاد المسیر میں نقل کیا ہے۔)

ان روایتوں کے مطابق امام احمد رحمتہ اللہ علیہ نے تاویل کا طریقہ اختیار کیا ہے۔

[امام احمد رحمہ اللہ تفویض کرتے ہیں]

لما كل الامام احمد عن احاديث النزول والروية و وضع القدم و نحوها قال نومن بها و نصدق بها و لا كيف و لا معنى 


(اثبات الحدلله ص 219,218)

ترجمہ: امام احمد رحمتہ اللہ علیہ سے نزول، رویت اور پاؤں رکھنے کی حدیثوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: ہمارا ان پر ایمان ہے اور ہم ان کی تصدیق کرتے ہیں بغیر کیفیت کے اور بغیر معنی کے۔)


3۔ وكان الامام احمد رحمه الله يقول امروا الاحاديث كماجاءت و على ما قال جرى كبار اصحابه کابراهيم الحربی و ابی داؤد والاثرم و من كبار اتباعه ابو الحسن المنادى وكان من المحققين و كذلك ابو الحسين التميمي و ابو محمد رزق الله بن عبد الوهاب و غيرهم من اساطين الائمة في مذهب الامام احمد و جروا على ما قاله في حالةالعافية و فى حالة الابتلاء...... 

(العقيده وعلم الكلام 285)


  ترجمہ: امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ احادیث کو ایسے ہی چلاؤ جیسی کہ وہ ہیں۔۔۔ یعنی ان کے کسی بھی معنی کی تعیین کئے بغیر۔۔۔ اور جیسے انہوں نے فرمایا ان کے بڑے شاگردوں نے ویسا ہی طریقہ اختیار کیا مثلاً ابراہیم حربی ، ابو داؤد اور اثرم نے اور ان کے بڑے پیروکاروں میں سے ابوالحسین منادی نے جو کہ محقق لوگوں میں سے تھے۔ اسی طرح ابوالحسن تمیمی اور ابومحمد رزق اللہ بن عبد الوہاب وغیرہ نے جو امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کے مذہب کے ستونوں میں سے تھے انہوں نے بھی موافق و مخالف ہر قسم کے حالات میں اسی طرح عمل کیا۔ )

[ہم کہتے ہیں]


اس سے معلوم ہوا کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے اصحاب جو کہ حنبلی مذہب کے بڑے ستونوں میں سے تھے وہ ابن حامد ، ابو یعلی اور ابن زاغونی کی باتوں سے متفق نہیں تھے۔ علاوہ ازیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ابن زاغونی وغیرہ کی باتیں خود امام احمد سے ثابت نہیں۔ اگر ہوتیں تو یہ حنابلہ اختلاف نہ کرتے بلکہ ان کو ضرور ذکر کرتے ۔

[امام احمد صفات متشابہات کی تفسیر میں سلفیوں سے اختلاف کرتے ہیں]

1۔ طبقات الحنابلہ میں امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کا یہ عقیدہ مذکور ہے۔

اللہ تعالیٰ کے دو ہاتھ ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں ان کی صفات ہیں کام کرنے کے اعضاء نہیں ہیں اور اللہ مرکب نہیں ہیں۔ اور وہ نہ جسم ہیں اور نہ اجسام کی جنس سے ہیں اور نہ محدود دو ترکیب کی جنس سے ہیں اور نہ ابعاض ہیں اور نہ جوارح اور نہ ان پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ اور نہ اللہ کی کہنی ہے اور نہ بازو ہے۔ اور نہ ہاتھ کے لفظ کا استعمال جن جن معانی کا تقاضا کرتا ہے ان میں سے ہیں سوائے ان کے جن کا ذکر قرآن پاک میں آیا ہو یا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث میں ہو“۔


نیز امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ولا يجوز ان يقال استوى بمماسة ولا بملاقاة تعالى الله عن ذلك علوا كبيرا ۔ 

(بحوالہ اہل السنتہ الاشاعرة ص: 93)

(ترجمہ: یہ کہنا جائز نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عرش کو چھو کر یا اس کے ساتھ لگ کر استوا کیا۔ اللہ تعالیٰ تو اس سے بہت بلند و بڑے ہیں۔)

جان لو کہ اصحاب حدیث میں سے سلف نے دیکھا کہ معتزلہ علم کلام میں غلو سے کام لے رہے ہیں اور ان سنتوں کی مخالفت پر کمر بستہ ہوئے ہیں جن کو وہ ائمہ راشدین کے زمانے سے جانتے چلے آئے ہیں اور انہوں نے دیکھا کہ مسئلہ تقدیر میں بنوامیہ کے حکمران معتزلہ کی تائید کرتے رہے اور بنو عباس کے کئی حکمرانوں نے صفات الہی کی نفی میں اور قرآن کے مخلوق ہونے میں معتزلہ کی ہم نوائی کی تو وہ قرآن پاک کی متشابہ آیات اور متشابہ حدیثوں کے بارے میں اہل السنۃ والجماعة کے مذہب و طریقہ کو ثابت کرنے میں متحیر ہوئے۔


امام احمد بن حنبل، دلود بن علی اصفہانی اور سلف کے بعض ائمہ نے پچھلے سلف اور اصحاب حدیث مثلا امام مالک اور مقاتل بن سلیمان کے طریقے کو سلامتی کا طریقہ سمجھ کر اسے اختیار کیا اور کہا کہ قرآن وسنت میں جو کچھ وارد ہوا ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ہم صفات متشابہ کے معنی کے در پے نہیں ہوتے کیونکہ ہمیں اس بات کا قطعی علم ہے کہ اللہ عز وجل کسی بھی مخلوق کے مشابہ نہیں ہیں اور ذہن میں اللہ تعالیٰ کی ان صفات کے بارے میں جو تخیل پیدا ہوتا ہے وہ ذہن کی احتراع ہے جو خود مخلوق ہے۔ اور وہ حضرات تشبیہ سے اس حد تک بچتے تھے کہ کہتے تھے کہ جو کوئی یہ قرانی الفاظ خَلَقَت بِيَدَى (میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا) پڑھتے ہوئےاپنے ہاتھ کو حرکت دینے یا یہ حدیث کہ "قلب المومن بين اصبعين من اصابع الرحمن " ( مومن کا دل رحمان کی انگلیوں میں سے دوانگلیوں کے درمیان ہے ) روایت کرتے ہوئے اپنی دوانگلیوں سے اشارہ کرے تو واجب ہے کہ اس کا ہاتھ اور اس کی دو انگلیوں کو کاٹ دیا جائے اور ان حضرات نے کہا کہ ان آیات کی تفسیراور تاویل کرنے میں وہ دو وجہ سے توقف کرتے ہیں۔


1- متشابہ کے معنی و تاویل کے در پے ہونے سے قرآن پاک میں ممانعت ہے۔

 فاما الذين في قلوبهم زيغ فيتبعون ما تشابه منه ابتغاء الفتنة و ابتغاء تاويله و ما يعلم تاويله الا الله والراسخون في العلم يقولون امنا به كل من عند ربنا و ما يذكر الا اولوا الالباب

تو وہ لوگ جن کے دلوں میں کمی ہے وہ متشابہات کے پیچھے لگتے ہیں گمراہی پھیلانے کی غرض سے اور غلط مطلب ڈھونڈنے کی غرض سے حالانکہ ان کا مطلب سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا اور مضبوط اعلم والے کہتے ہیں ہم یقین رکھتے ہیں اس پر سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور (سمجھانے سے ) صرف وہی سمجھتے ہیں جو عقل والے ہیں ۔ 


2۔ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ تاویل ظنی ہوتی ہے اور صفات الہی میں ظن سے کچھ کہنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ ہم ظن سے کس معنی کی تعیین کریں جو اللہ تعالیٰ کی مراد کے موافق نہ ہو۔ اس سے تو ہم ربیع و کجی میں پڑ جائیں گے۔ لہذا ہم راسخون فی العلم کے طریقے پر چلتے ہوئے ان ہی کی بات کرتے ہیں کہ کل من عند ربنا ( ہر بات کا علم ہمارے رب کے پاس ہے ) ہم متشابہ آیات کے ظاہر ( الفاظ ) پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کے باطن (یعنی ان کے معانی ) کی تصدیق کرتے ہیں جو اللہ کے ہاں ہیں اور ہم ان کے معنی کے علم کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرتے ہیں اور ہم ان کے معنی کو جاننے کے مکلف بھی نہیں ہیں کیونکہ ان کے معنی کو جاننا نہ ایمان کی شرط ہے اور نہ اس کا رکن ہے اور ان میں سے بعض حضرات نے صفات متشابہات میں اس حد تک احتیاط کی کہ وہ قرآن وحدیث کے عربی لفظ مثلا ید ، وجہ اور استویٰ کا کسی دوسری زبان میں ترجمہ تک نہیں کرتے تھے اور اس کو جیسے وہ وارد ہے اسی طرح ذکر کرتے تھے ( یعنی اردو میں بیان کرتے ہوئے ید کو ید ہی کہتے تھے ) ۔ یہ طریقہ واقعی سلامتی والا  ہے اور تشبیہ سے خالی ہے۔

[سلفیوں اور موجودہ غیر مقلدین کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے حقیقی ہاتھ ، پاؤں،انگلیاں، آنکھیں اور کان وغیرہ ہیں]

سلفیوں کا عقیدہ ہے کہ جیسے انسان کے اعضاء و جوارح اور آلات ہیں اسی طرح اللہ تعالی کے بھی حقیقی ہاتھ ، پاؤں انگلیاں ، آنکھیں، کان اور چہرہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے یہ اعضاء ہمیشہ ہمیشہ سے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھوں سے عمل کرتے ہیں ، اپنے کان سے سنتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں البتہ ان اعضاء کی کیفیت یعنی شکل وصورت نا معلوم ہے۔ سلفی حضرات ان اعضاء کو اعضاء نہیں کہتے صفات ذاتیہ کہتے ہیں۔ علامہ عثیمین عقیدہ واسطیہ کی شرح میں یوں لکھتے ہیں:

 سلفی حضرات ان صفات کو جن سے اللہ تعالیٰ ہمیشہ متصف رہے اور رہیں گے صفات ذاتیہ کہتے ہیں۔ ان کی پھر وہ دو قسمیں کرتے ہیں:

1 - معنویہ جیسے حیات علم ، قدرت اور حکمت وغیرہ

2 - خبر یہ جیسے اللہ تعالیٰ کیلئے وجہ (چہرہ) ، ید ( ہاتھ ) ، اصابع (انگلیاں)،ساق ( پنڈلی)، قدم (پاؤں) ، جنب ( پہلو ) عین ( آنکھ ) اور اذن (کان)وغیرہ۔

ذاتیہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ صفات اللہ تعالیٰ کی ذات سے کبھی جدا نہیں ہوتیں اور اللہ تعالیٰ ان سے ہمیشہ متصف رہتے ہیں۔

خبر یہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے خود ان کی خبر دی ہے ورنہ اپنی عقل سے ہم ان کو معلوم نہیں کر سکتے تھے۔ ان کے برخلاف صفات ذاتیہ معنویہ مثلاً علم سمع و بصر پر اگرچہ نقلی دلائل موجود ہیں لیکن ہم اپنی عقل سے بھی ان کا ادراک کر سکتے ہیں ۔

صفات ذاتیہ خبریہ سے ان کے حقیقی معنی مراد ہیں یعنی جو انسانوں میں ان کے عضاء کہلاتے ہیں۔ البتہ ان کو اللہ تعالیٰ کے اجزاء و ابعاض کہنا درست نہیں کیونکہ جزو اور بعض ایسی چیز کو کہتے ہیں جو کل سے جدا ہو سکتی ہیں جبکہ یہ صفات اللہ تعالیٰ سے کبھی جدا نہیں ہوتیں“ ۔ 

(شرح عقیدہ واسطیہ : 51)

غرض مذکورہ صفات ذاتی خبر یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ سے ہیں یعنی یہ نہیں کہ وہ پہلے نہ تھیں اور بعد میں کسی وقت حاصل ہوئیں اور اللہ تعالی سے یہ کبھی جدا بھی نہیں ہوتیں۔ 

ابن قیم اپنے قصیدہ نونیہ میں لکھتے ہیں :

يتقدس الرحمن جل جلاله 

عنها وعن اعضاء ذي جثمان

(رحمن جل جلاله لوازم جسم سے اور اعضاء جسم سے پاک و منزہ ہیں )

اس کی شرح میں علامہ عثیمین لکھتے ہیں۔

 ” ابن قیم کے الفاظ اعضاء ذی جثمان میں وجہ (چہرہ)، ید ( ہاتھ )،عین ( آنکھ ) قدم (پاؤں) اور ساق ( پنڈلی ) شامل ہیں کیونکہ یہ جسم والے کے اعضاء ہیں۔ کیا اللہ ان سے پاک و منزہ ہیں۔ ابن قیم کے کلام سے بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اعضاء سے پاک ہیں لیکن ہمیں ابن قیم کے بارے میں نصف النہار کے نکلے سورج کی طرح معلوم ہے کہ وہ چہرے، ہاتھ ، آنکھ ، پاؤں اور پنڈلی کی صفات کا اللہ تعالیٰ کیلئے یقینا اثبات کرتے ہیں۔ لہذا ان کی بات کا حاصل یہ ہے کہ وہ اعضاء کی نفی نہیں کرتے بلکہ اعضاء کے ان خصائص کی نفی کرتے ہیں جو انسان میں پائی جاتی ہیں مثلا یہ کہ وہ انسان کے جسم سے جدا ہو سکتے ہیں۔ تو کیا اللہ تعالیٰ میں یہ اعضاء ان سے جدا ہوتے ہیں یا نہیں ۔ چونکہ اللہ تعالیٰ میں ان کا اللہ سے جدا ہو نا ممکن نہیں اسی لئے علماء کا قول ہے کہ اللہ کے ید وغیرہ کو اللہ کا بعض کہنا جائز نہیں کیونکہ بعض اس کو کہا جاتا ہے جو کل سے جدا ہو سکے اور اللہ سے کوئی جزو جدا ہو سکے یہ محال ہے اس لئے ہم شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی اس عبارت میں جو ان کی کتاب عقیدہ تدمریہ میں ہے دقت نظر پاتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا اللہ کی صفات کچھ وہ ہیں جو معنی ہیں اور کچھ وہ ہیں جن کا مسمی و مصداق اللہ کے اعتبار سے اعضاء ہیں جیسے ید (ہاتھ ) کہ ہمارے اعتبار سے اسکا مسمی و مصداق ایک عضو ہے۔ لیکن اللہ کے اعتبار سے ہم اس کو نہ عضو کہتے ہیں، نہ جزو کہتے ہیں اور نہ بعض کہتے ہیں۔ ہم ان کو صفات کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کیلئے حقیقی (اور ظاہری ) معنی میں ثابت ہیں اور ان کا مسمی و مصداق ہمارے اعتبار سے ابعاض اور اجزاء اور اعضاء ہیں جبکہ اللہ تعالٰی کے اعتبار سے ان کو ابعاض ، اجزاء اور اعضاء نہیں کہا جاتا )۔ 

(شرح قصیدہ نونیه: 345/1)

 ابن تیمیہ لکھتے ہیں:

فان قال هذه معان وتلك ابعاض قال له الرضا والغضب و الحب معان واليد والوجه وان كان بعضا فالسمع والبصر و الكلام اعراض لا تقوم الا بجسم فان جازلك اثباتها مع انها ليست اعراضا و محلها ليس بجسم جاز لي اثبات هذه مع انها ليست ابعاضا۔

واقعہ یہ ہے امر معنوی یا جارحہ ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ مخلوق میں امور معنوی بھی موجود ہیں اور جوارح بھی ۔ اگر امور معنویہ پر مشتمل نصوص سے ظاہر معنی مراد لینے سے تشبیہ لازم نہیں آسکتی تو جوارح والے نصوص کے ظاہری معانی سے کیسے تشبیہ لازم آجاتی ہے؟ پھر اگر اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور انسان کی ناقصہ ہے تو ید ، حب ،بغض وغیرہ اللہ تعالیٰ کے کامل نہیں اور انسان کے ناقص ۔ دونوں کی حیثیت ایک جیسی نہیں ۔ یہی امام صاحب (ابن تیمیہ ) کا کہنا ہے۔ یہ ان کی گرفت اشاعرہ پر ایسی ہے کہ اس سے وہ بھی نہیں نکل سکے۔ (ص436)

[اللہ تعالیٰ کے ہاتھ]

لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَى کے تحت علامہ عثیمین لکھتے ہیں :

" فيها اثبات اليدين لله سبحانه و تعالى اليدين اللتين بهما يفعل كالحلق هنا اليدين اللتين بهما يقبض و الارض جميعا قبضته يوم القيامة و بهما ياخذ فان الله تعالى ياخذ الصدقة فيربيها كما يربى الانسان فلوه قال اهل العلم: وكتب الله التوراة بيده و غرس جنة عدن بیده فهذه ثلاثة اشياء كلها كانت بيد الله تعالى

( 158 شرح عقيده واسطيه)

( ترجمہ: قرآن پاک کے ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کیلئے دو ہاتھوں کا ذکر ہے جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ کام کرتے ہیں جیسا کہ یہاں تخلیق کے عمل کا ذکر ہے اور جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام زمینوں کو مٹھی میں لے لیں گے اور جن کے ذریعہ سے اللہ تعالٰی صدقہ کو پکڑتے ہیں اور اس کو بڑھاتے ہیں جیسا کہ انسان اپنے بچھیرے کی پرورش کرتا ہے اور اس کو بڑھاتا ہے۔ اہل علم کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو رات اپنے ہاتھ سے لکھی اور جنت عدن کے درخت بھی اپنے ہاتھ سے لگائے ۔ تو یہ کل ملا کر تین چیزیں ہوئیں جواللہ تعالی کے ہاتھوں سے وجود میں آئیں۔"

[اللہ تعالیٰ کی آنکھیں]

 علامہ عثیمین لکھتے ہیں:

( قوله: عينان (ناظرتان هذا الذي اجمع عليه اهل السنة ان لله عينين ناظرتين ينظر بهما عزو جل 

(شرح القصيدة النونية 325 ج 4)

 ( ترجمہ: اہل سنت یعنی سلفیوں کا اس پر اتفاق ہے کہ اللہ کی دو آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہیں ۔ )

يقول المعطلة ان اهل السنة يقولون ان الله لايرى بعيان و هذاكذب عليهم هم يقولون ان الله يرى بالعيان و من انكر الروية فهو على خطر 

(شرح القصيدة النونية ص 289 ج 4)

( ترجمہ: معطلہ اہل سنت یعنی سلفیوں کی طرف اس بات کو منسوب کرتے ہیں کہ اللہ تعالی آنکھوں سے نہیں دیکھتے۔ یہ ان پر جھوٹ ہے اور وہ اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور جوکوئی اللہ تعالیٰ کے دیکھنے کاانکار کرے اس کا تو ایمان خطرے میں ہے ) ۔

علامہ خلیل ہراس اپنی شرح کے صفحہ 45 پر لکھتے ہیں:

سنن ابی داؤد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت " إِنَّ اللهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا“ پڑھی اور اپنا انگوٹھا اپنے کان پر رکھا اور اپنی انگشت شہادت کو اپنی آنکھ پر رکھا۔

حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کان سے سنتے ہیں اور اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ تو یہ حدیث ان بعض اشاعرہ کے خلاف حجت و دلیل ہے جو اللہ تعالیٰ کے کان سے مراد مسموعات کا علم لیتے ہیں اور ان کی آنکھ سے مبصرات کا علم لیتے ہیں۔ ان اشاعرہ کی یہ تفسیر غلط ہے کیونکہ اندھا آدمی آسمان کے وجود کا علم رکھتا ہے حالانکہ اس نے آسمان کو دیکھا نہیں ہوتا اور بہرا آدمی آوازوں کے وجود کو جانتا ہے حالانکہ اس نے ان کو سنا نہیں ہوتا۔“

[اللہ تعالی کا چہرہ]

وجہ ( چہرے) کا معنی معلوم ہے لیکن اس کی کیفیت نامعلوم ہے۔ دیگر صفات کی طرح ہم اللہ کے چہرے کی کیفیت نہیں جانتے ۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کیلئے چہرے کو حقیقی معنی میں ثابت مانتے ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ کیلئے چہرے کا ثبوت اس آیت سے لیتے ہیں ويبقى وَجُهُ رَبِّكَ ( اور باقی رہے گا تیرے رب کا چہرہ ) اور ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا چہرہ مخلوق کے چہروں کی طرح نہیں ہے کیونکہ فرمان الہی ہے لیس کمثلہ شی ( اس کی مثل کوئی شے نہیں ہے ) اور ہم اس کے چہرے کی کیفیت سے لاعلم ہیں ۔ " چہرہ بھی اللہ تعالیٰ کی صفات ذاتیہ خبریہ میں سے ہے جن کے سمی و معنی ہمارے اعتبار سے ابعاض واجزا ہیں ۔ ہم ان کو صفات ذاتیہ معنویہ نہیں کہتے کیونکہ اس صورت میں ہماری موافقت ان لوگوں کے ساتھ ہو جائے گی جو تحریفانہ تاویل کرتے ہیں اور ہم ان کو اللہ ( کی ذات ) کا بعض حصہ اور جزو بھی نہیں کہتے کیونکہ اس طرح کہنے سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے بارے میں نقص و کمی کاوہم ہوتا ہے۔“

[اللہ تعالیٰ کے پاؤں اور قدم ]

علامہ عثیمین لکھتے ہیں:

و هو قوله الا تزال جهنم يلقى فيها و هي تقول هل من مزيد حتى يضع رب العزة فيها رجله وفى رواية عليها قدمه فينزوى بعضهاالى بعض فتقول قط قط

(بخاری و مسلم شرح العقيدة الواسطية ص 269) 

( ترجمہ: رسول اللہ ا کا ارشاد ہے کہ جہنم میں لوگوں کو ڈالا جاتا رہے گا اور وہ کہتی رہے گی کہ اور لاؤ اور لاؤ اور جب مزید کوئی جہنم میں ڈالنے کیلئے نہ رہے گا تب بھی وہ یہی کہتی رہے گی یہاں تک کہ رب العزت اس پر اپنا پاؤں رکھیں گے تو اس کے حصے آپس میں ملنے لگیں گے اور وہ کہے گی بس بس (اے رب میرے اندر مزیدگنجائش نہیں رہی ) ۔

و الكرسى قال ابن عباس انه موضع قدمي الله عز وجلو ليس هو العرش بل العرش اكبر من الكرسى و قدورد عن النبي ان السماوات السبع بالنسبة للكرسى كحلقة القيت في فلاة من الارض وان فضل العرش على الكرسي كفضل الفلاة على هذه الحلقة (98)

( ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ کرسی اللہ کے دو پاؤں کی جگہ ہے اور کرسی بعینہ عرش نہیں ہے بلکہ عرش کرسی سے بہت بڑا ہے ۔ نبی ﷺ نے فرمایا سات آسمان اور سات زمینیں کرسی کے مقابلہ میں ایسی ہیں جیسے کوئی چھلا جو ریگستان میں پڑا ہو۔ اور عرش کی فضیلت کرسی پر ایسی ہے جیسے ریگستان کی چھلے پر ۔ ) فنحن نومن بان الله بائن من خلقه ......... و نومن بان الله فوق

العرش استوى عليه وان الكرسى موضع القدمين 

(قصيده نونيه ص305 ج 1) 

(ترجمہ: ہم ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے جدا ہیں ... اور ہماراایمان ہے کہ اللہ تعالی عرش کے اوپر ہیں اور اس پر مستوی ہیں اور یہ کہ کرسی اللہ کےقدموں کی جگہ ہے)۔

علامہ خلیل ہراس عقیدہ واسطیہ پر اپنی شرح میں لکھتے ہیں:

ان كرسيه قد وسع السماوات و الارض جميعا والصحيح في الكرسى انه غير العرش و انه موضع القدمين و انه في العرش كحلقةملقاة في الفلاة (ص:36)

(ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی کرسی تمام آسمانوں کو اور زمین کو گھیرے ہوئے ہے صحیح بات یہ ہے کہ کرسی عرش سے علیحدہ شے ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے قدموں کی جگہ ہے۔ اور کرسی عرش کے مقابلہ میں ایسے ہے جیسے ریگستان میں پڑا ہواچھلا ) ۔“

[سلفیوں کے مذکورہ بالا عقیدے پر علامہ زاہد کوثری کا تبصرہ ]

علامہ زاہد کوثری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اسلاف میں سے جس نے عین ( آنکھ ) اور ید (ہاتھ ) کو صفت کہا تو صفت کے لفظ سے انہوں نے جارحہ یعنی ذات کا حصہ کہنے سے براءت کا اظہار کیا ہے بلکہ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ عین یعنی آنکھ سے مراد ایسا معنی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہے۔ ایسے ہی ید ( ہاتھ ) کا معاملہ ہے۔ ہم اس کے معنی مراد کی تعیین نہیں کرتے کہ ہم کہیں کہ آنکھ سے مراد دیکھنا ہے یا حفاظت کرتا ہے اور ہاتھ سے مراد قدرت یا نعمت یا خاص عنایت ہے کیونکہ وہ احتمالی معنی جو تنزیہ الہیہ کے موافق ہوں ان میں سے کسی ایک کی تعیین کرنا اللہ تعالیٰ کی مراد پر زبر ہستی کرنا ہے اور ان کا ہاتھ اور آنکھ کوصفت کہنا اس بات پر واضح دلیل ہے کہ ان کو یقین تھا کہ ہاتھ اور آنکھ اللہ تعالیٰ کی ذات کے اجزاء نہیں ہیں اور( سلفیوں کی طرح ) جو کہے کہ اللہ تعالی کا ہاتھ ہے جس سے وہ پکڑتا ہے اور آنکھ ہے جس سے وہ دیکھتا ہے تو اس نے ان صفات کو آلات و جوارح کے قبیل سے بنایا اور اس نے سلف صالحین کی مخالفت کی ۔ حديث يمين الرحمن ملأى سخاء (رحمان کا دایاں ہاتھ سخاوت سے بھرا ہوا ہے) کے بارے میں کلام کرتے ہوئے امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ: اس حدیث کو ائمہ حدیث نے روایت کیا ہے۔ اس کے معنی کی تفسیر و تاویل یعنی حقیقی یا مجازی معنی کی تعیین کئے بغیر ہمارا اس پر ایمان ہے۔ بہت سے ائمہ حدیث مثلاً سفیان ثوری، مالک بن انس ،سفیان بن عیینہ اور عبداللہ بن مبارک رحمہم اللہ سے منقول ہے کہ ان باتوں کو جیسی وہ ہیں (یعنی ان کے حقیقی یا مجازی معنی کی تعیین کئے بغیر ) روایت کریں گے اور ان پر ایمان رکھیں گے اور یہ ( بھی ) نہیں پوچھیں گے کہ ان کی کیفیت کیا ہے۔ ابن قیم اور ابن تیمیہ کی بات امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ کی بات سے بہت مختلف ہے۔ ( کیونکہ امام ترمذی رحمہ اللہ ان کے معنی کی تعیین نہیں کرتے خواہ حقیقی ہوں یا مجازی ہوں جب کہ ابن تیمیہ اور ابن قیم ان کے حقیقی معنی کی تعین کرتے ہیں ) ۔ ہاں کبھی کبھی یہ دونوں اپنے کلام میں چہرے، آنکھ اور ہاتھ کوصفات کہتے ہیں لیکن ان کے کلام کا سیاق وسباق ڈنکے کی چوٹ بتاتا ہے کہ ان سے ان دونوں حضرات کی مراد اجزائے ذات ہیں، وہ معانی مراد نہیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہوں جیسا کہ سلف صالحین کہتے ہیں۔ اور ان دونوں نے اپنی اصطلاح بنالی ہے کہ صفت ایسے معنی کو کہا جائے جو جز وذات کو بھی شامل ہو ۔ ان کی یہ اصطلاح اہل علم کے عرف کے خلاف ہے ورنہ اہل حق کے خلاف ان کے تشدد کی کوئی وجہ نہ ہوتی۔ ابن تیمیہ اپنی کتاب اجوبہ مصریہ میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالی آسمانوں کو اور زمین کو اپنے دونوں ہاتھوں سے جو کہ ہاتھ ہی ہیں پکڑ لے گا۔ اس تصریح کے بعد ابن تیمیہ کا اور ان کے پیروکاروں کو جو کہ سلفی اور غیر مقلد ہیں . ان کو  صفات کہنا کیا نفع دے گا“

باب : 7

[استواء علی العرش]

سلفیوں اور غیر مقلدوں کا عقیدہ ہے کہ آسمانوں کو درست کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی ذات سمیت عرش کے اوپر ہوئے بلکہ بہت سے سلفیوں کے نزدیک اس پر بیٹھ گئے ۔ اور ان کے پاؤں کرسی پر ہیں۔ عرش پر بیٹھے ہونے کی حالت میں دوممکنہ صورتیں ہیں: 

1 - عرش پر چار انگلی کی جگہ بچتی ہے۔ 

2 عرش پر چار انگلی کی جگہ بھی نہیں بچتی ۔ 

ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس صورت کو ترجیح دی ہے اور علامہ عثیمین بھی اسی کو ترجیح دیتے ہیں اور کہتے ہیں:

وان كان عزوجل اكبر من العرش ومن غير العرش

( ترجمہ: اگرچہ اللہ عز وجل عرش اور غیر عرش سب سے بڑے ہیں ) ۔

پھر جب اللہ تعالیٰ کی ذات عرش سے بھی بڑی ہے تو نہ جانے ان کی ذات کا کتنا حصہ عرش سے باہر نکلا ہوا ہو گا۔ علاوہ ازیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھے ہوں

تو ان کی ذات کے بوجھ سے عرش چر چر کرتا ہے۔

ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالی نبی ﷺ کو اپنے ساتھ عرش پربٹھائیں گے۔

[تنبيه]

غور طلب بات یہ ہے کہ جب عرش پر چار انگلی کی جگہ بچتی ہے تو کس کی انگلیوں کا اعتبار ہے اللہ تعالیٰ کی انگلیوں کا یا انسان کی انگلیوں کا۔ اگر اللہ کی چار انگلیاں مراد ہیں تو وہ تو شاید پورے عرش سے بڑی ہوں اور اگر انسان کی چار انگلیاں مراد ہوں تو وہ جگہ اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ کوئی انسان اس پر بیٹھ نہیں سکتا۔ اور اگر ابن تیمیہ کی اس بات کو لیں کہ اللہ تعالیٰ کے عرش پر بیٹھے ہونے کی حالت میں کچھ جگہ نہیں بچتی تو رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالی عرش پراپنے ساتھ کیسے بٹھا ئیں گے۔

[سلفیوں کے نزدیک استوار صفت فعل ہے 

علامہ  عثیمین  لکھتے ہیں ]

انه من الصفات الفعلية لانه يتعلق بمشيئته و كل صفة تتعلق بمشيئته فهى من الصفات الفعلية واهل السنة والجماعة يومنون بان الله تعالى مستو على عرشه استواء يليق بجلاله و لا يماثل استواء المخلوقين

(شرح العقيده الواسطيه ص 204)

( ترجمہ: استواءعلی العرش اللہ تعالیٰ کی صفات فعلیہ میں سے ہے کیونکہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی ہر وہ صفت جس کا تعلق اس کی مشیت سے ہو وہ اس کی صفات فعلیہ میں سے ہوتی ہے۔ اہل السنتہ والجماعة [ جن سے مراد سلفی اور غیر مقلدین ہیں ان ] کا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مستوی ہوئے ہیں ایسے استوا کے ساتھ جو ان کی شایان شان ہے اور جو مخلوق کے استوا کی مثل نہیں ہے)۔

[ہم کہتے ہیں]

اس حد تک تو بات درست ہے لیکن اس کے بعد سلفی حضرات استواء کا ظاہری مطلب لیتے ہیں اور اپنے اصل عقیدے پر آتے ہیں:

[استواء کے معانی]

 علامہ عثیمین لکھتے ہیں :

و قد ورد عن السلف فى تفسيره اربعة معان الاول علاء و الثاني ارتفع و الثالث صعد و الرابع استقر لكن علا و ارتفع و صعد معناها واحد و اما استقر فهو يختلف عنها 

( شرح العقيدة الواسطيه لعثيمين 204)

( ترجمہ: استوا کی تفسیر میں سلف سے جو معانی منقول ہیں وہ چار ہیں (1) علا(2) ارتفع (3) صعد (4) استقر ۔ پہلے تین کا تو ایک ہی معنی ہے یعنی بلند ہوا ۔ رہا چوتھا یعنی اسقر قرار پکڑا ، بیٹھا تو وہ پہلے تین سے مختلف ہے۔)

[ہم کہتے ہیں]

ابن تیمیہ اور ابن قیم اور ان کے پیروکار استوا کا مطلب بیٹھنے کا بھی کرتے ہیں۔ابن تیمیہ کہتے ہیں

فما جاءت به الآثار عن النبي من لفظ القعود والجلوس في حق الله تعالى الحديث جعفر بن ابی طالب رضی الله عنه ، و حديث عمر الخطاب رضى الله عنه وغيرهما اولى ان لا يماثل صفات اجسام بن العباد
(بحواله اثبات الحد لله ص 76)

(ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے بارے میں جلوس اور قعود کے الفاظ جو نبی اسے حضرت جعفر بن ابی طالب اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما وغیرہ کی حدیثوں میں وارد ہیں تو یہ اس کے زیادہ لائق ہیں کہ وہ بندوں کی جسمانی صفات کے مثل نہ ہوں)۔

ابن قیم اپنے قصیدہ نونیہ میں کہتے ہیں:

ولقد اتى ذكر الجلوس به وفي اثر رواه جعفر الرباني

(بحوالہ اثبات الحد لله ص 77)

( ترجمہ: اور اس میں جلوس ( یعنی بیٹھنے ) کا ذکر بھی آیا اور حضرت جعفر کی روایت میں بھی اس کا ذکر ہے۔

علامہ عثیمین کہتے ہیں۔

عربی زبان میں استوا علی الشی کا معنی استقرار اور بیٹھنا بھی آتا ہے

کیونکہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے لتستووا على ظهوره اب بتاؤ کہ انسان جانور کی پشت پر بیٹھا ہوتا ہے یا کھڑا ہوتا ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ بیٹھا ہوتا ہے۔ لیکن کیا یہ بھی صحیح ہوگا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے عرش پر استوا میں بیٹھنے کو ثابت کریں۔ یہی حل نظر ہے۔ اگر یہ ثابت ہو کہ سلف نے اس کی تفسیر بیٹھنے سے کی ہے تو ہم اس کو قبول کریں گے کیونکہ وہ لوگ ہم سے زیادہ علم والے تھے“

[ہم کہتے ہیں]

 چونکہ سلفی سلف سے بیٹھنے کا معنی بھی نقل کرتے ہیں اس لیے نتیجہ یہ نکلا کہ سلفیوں کے نزدیک بیٹھنے کا معنی کرنا بھی جائز ہے۔ محمود دشتی کی کتاب میں ہے:

و اما تفسيره بالجلوس فقد نقل ابن القيم في الصواعق عن خارجة بن مصعب في قوله تعالى الرحمن على العرش استوى قوله و هل يكون الاستواء الا الجلوس و قد ورد ذكر الجلوس في حديث اخرجه الامام احمد عن ابن عباس رضى الله عنهما مرفوعا و الله اعلم 

( مقدمه اثبات الحد لله محمود دشتی ص 81) 

( ترجمہ: ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الصواعق میں اللہ تعالیٰ کے فرمان الرحمن علی العرش استوی کے بارے میں خارجہ بن مصعب کی یہ بات نقل کی که استوا کا تو مطلب ہی بیٹھنا ہے۔ ایک حدیث جس کو امام احمد رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن عباس کے واسطے سے رسول اللہ سے روایت کیا ہے اس میں جلوس یعنی بیٹھنے کا ذکر ہے ) ۔

پھر جب اس بات کا ذکر ہوا کہ استواء کا مطلب بیٹھنا بھی ہے تو سلفی آگے اس بات، کے قائل ہیں کہ اللہ تعالی جب عرش پر ہوں تو ان کی ذات کے بوجھ کی وجہ سے عرش چر چر کرتا ہے۔

 ابن تیمیہ نے قاضی ابو یعلی کی یہ بات نقل کی:

اعلم انه غير ممتنع حمل الخبر على ظاهره ان ثقله يحصر لعنت الرحمن اذ ليس ذلك مما يحيل صفاته

 (بيان تلبيس الجهمية بحواله اثبات

الحد الله ص 166)

( ترجمہ: جان لو کہ خبر کو اس کے ظاہری معنی پر محمول کرنا محال نہیں ہے یعنی یہ کہ عرش پر بوجھ رحمان کی ذات کی وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ یہ ایسی صفت نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے محال ہو ) ۔

[علامہ عثیمین کے استاد شیخ عبد الرحمن سعدی لکھتے ہیں]

فثبت انه استوى على عرشه استواء يليق بجلاله سواء فسر ذلك بالارتفاع او بعلوه على عرشه او بالاستقرار او الجلوس فهذه التفاسير و اردة عن السلف فنثبت لله على وجه لا يماثله و لا يشابهه فيها احد و لا محذور في ذلك اذا قرنا بهذا الاثبات نفى مماثلة المخلوقات 

(الاجوبة السعدية الكويتية بحواله اثبات الحد الله 61)

(ترجمہ: پس ثابت ہوا کہ اللہ اپنے عرش پر اپنی جلالت شان کے مطابق مستوی ہوئے خواہ اس کی تفسیر ارتفاع کے ساتھ کی جائے یا عرش پر بلندی کے ساتھ کی جائے یا قرار پکڑنے یا بیٹھنے کے ساتھ کی جائے۔ یہ سب ہی تفسیریں اسلاف سے ملتی ہیں لہذا یہ سب اللہ کیلئے اس طرح سے ثابت ہیں کہ ان میں کوئی دوسرا اللہ کی مثل یا مشابہ نہیں ہے۔ غرض جب ہم ان کے اثبات کے ساتھ اس کو ملائیں کہ کوئی مخلوق اس کی مثل نہیں ہے تو اس کی ممنوعیت کی کوئی وجہ نہیں بنتی ۔“ پھر ان حضرات کے نزدیک جب اللہ تعالی عرش پر بیٹھتے ہیں تو پورے عرش پر سما جاتے ہیں چار انگلی کے برابر بھی جگہ نہیں بچتی۔

" عن عمر رضى الله عنه قال اتت امرأة النبي ﷺ فقالت ادع الله ان يدخلني الجنة فعظم الرب وقال ان كرسيه فوق السماوات و الارض وانه يقعد عليه فما يفضل منه مقدار اربع اصابع ـ

 ( اثبات الحد الله محمود دشتی ص 149)

( ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور درخواست کی کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے جنت میں داخل فرمائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے رب تعالیٰ کی عظمت بیان کی اور فرمایا اللہ تعالیٰ کی کرسی ( یعنی عرش ) آسمانوں کے اور زمین کے اوپر ہے اور وہ اس پر بیٹھتے ہیں تو چار انگل کے برابر بھی جگہ نہیں بچتی

بعض حضرات نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ عرش پر جو جگہ بچتی ہے وہ صرف چار انگل کے برابر ہوتی ہے۔ ابن تیمیہ نے پہلے معنی کو ترجیح دی ہے۔

" و اذا حمل اللفظ الأول على ان ما هى النافية تعارض اللفظان و احتيج الى الترجيح و الى ذلك ذهب شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله و رجح رواية النفى بكلام طويل في مجموع الفتاوى 

(اثبات الحد لله، حاشيه ص 153)

( ترجمہ: جب پہلے لفظ کو اس پر محمول کیا جائے کہ مانفی کیلئے ہے تو دونوں لفظوں کے درمیان ترجیح کی ضرورت ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ نے اسی کو اختیار کیا اور نفی کی روایت کو اپنے مجموع الفتاوی میں ترجیح دی۔“

پھر ان حضرات کے نزدیک اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کو اپنے ساتھ اپنے عرش پر بٹھائیں گے۔ ابن تیمیہ مجموع الفتاوی میں لکھتے ہیں:

" اذا تبين هذا فقد حدث العلماء المرضيون و اولياؤه المقبولون ان محمدا رسول الله ﷺ يجلسه ربه على العرش وهذا ليس منا قضا للشفاعة لما استفاضت بها الاحاديث من ان المقام المحمود هو الشفاعة باتفاق الائمة من جميع من ينتحل الاسلام و يدعيه لا يقول ان اجلاسه على العرش منكر و انما انكره بعض الجهمية

 (اثبات الحد الله حاشيه 194) 

(ترجمہ: جب یہ بات واضح ہوگئی تو جان لو کہ پسندیدہ علماء اور اللہ کے مقبول اولیاء نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ رب تعالیٰ نبی ﷺ کو اپنے عرش پر بٹھائیں گے۔ یہ حدیث شفاعت کبری کے مخالف نہیں ہے جس کے بارے میں حدیثیں مشہور ہیں که مقام محمود سے مراد شفاعت ہے اور ائمہ کا اس پر اتفاق ہے ۔ رسول اللہ ﷺ عرش پر بٹھانے کا سوائے بعض جہمیہ کے کسی نے انکار نہیں کیا۔"

سعودیہ کے سابق مفتی محمد بن ابراہیم آل الشیخ مقام محمود کے بارے میں کلام کرتےہوئے لکھتے ہیں: 

قيل الشفاعة العظمی و قیل اجلاسه معه على العرش كما هو المشهور من قول اهل السنة والظاهر انه لا منافاة بين القولين فيمكن الجمع بينهمابان كلاهما من ذلك (أى المقام المحمود) و الاقعاد على العرش ابلغ 

(اثبات الحد الله حاشيه ص 194)

ترجمہ: ایک قول یہ ہے کہ مقام محمود سے مراد شفاعت کبری ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا نبی ﷺ کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھانا ہے۔ اہل سنت (سلفیوں ) سے یہی دوسرا قول مشہور ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ دونوں قولوں کے درمیان کچھ منافات نہیں ہے اور دونوں کو جمع کرنا ممکن ہے کہ مقام محمود میں یہ دونوں باتیں داخل ہیں اور عرش پر بٹھانے میں درجہ زیادہ ہے۔“

[تنبيه]

مشہور غیر مقلد عالم مولانا یوسف صلاح الدین اپنے تفسیری حواشی میں لکھتے ہیں: یہ بھی ممکن ہے کہ اس عرش سے مراد وہ عرش ہو جو فیصلوں کے لیے زمین پررکھا جائے گا جس پر اللہ تعالیٰ نزول اجلال فرمائے گا۔“

[ہم کہتے ہیں]

 کہ اس عبارت سے یہ مسئلہ اور سنگین ہو جاتا ہے کیونکہ اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نبی ﷺ کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھائیں گے تو وہ کونسا عرش ہوگا ؟ پورے عالم کو گھیر نے والے عرش پر یا قیامت کے دن زمین پر رکھے جانے والے عرش پر جو کہ پہلے عرش سے بہت ہی چھوٹا ہو گا ۔ اگر پہلا عرش ہو تو فرشتے جو خود عالم کا حصہ ہیں اورمخلوق ہیں وہ اس کو اٹھا کر کہاں لے جائیں گے۔ اطراف عالم سے عالم کے اندر اتنی بڑی چیز کو کیسے لے جائیں گے ۔ اور اگر دوسرا جو چھوٹا عرش ہے وہ مراد ہو تو اس پر اللہ تعالیٰ کیسے بیٹھیں گے جب بڑے عرش پر پہلے ہی کچھ جگہ نہیں بچتی تو اللہ تعالیٰ اس سے کہیں چھوٹے عرش پر کیسے سمائیں گے۔ اگر کوئی کہے کہ آسمان دنیا پر جیسے نزول فرماتے ہیں اسی طرح اس چھوٹے عرش پر نزول فرمائیں گے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آسمان دنیا پر نزول کا جو مطلب سلفی لیتے ہیں وہ ہمیں تسلیم ہی نہیں ہے۔

[باندی والی حدیث اور استواء علی العرش]

ایک حدیث میں جو یہ ہے کہ باندی نے کہا اللہ تعالیٰ آسمان میں ( یعنی آسمان پر ) ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے نکیر نہیں فرمائی اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات آسمانوں پر یعنی عرش پر ہے درست اور حتمی نہیں کیونکہ :

1۔ اس حدیث میں ذات کی قید کچھ مذکور نہیں ہے۔

3۔ قرآن پاک میں ہے "وَ هُوَ اللهُ فِی السَّمَاوَاتِ وَ فِي الْأَرْضِ“ (سوره انعام: 3) (وہ اللہ آسمانوں پر بھی ہے اور زمین پر بھی ہے ) تو کیا اللہ تعالیٰ کی ذات متعدد ہے کہ ایک آسمان پر ہے اور ایک زمین پر ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ اس لئے کسی صفت یا بجلی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے آسمانوں پر ہونے کو مرادلیا ہے۔ اس صفت یا تجلی کے اعتبار سے اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں پر بھی ہیں اور زمین پر بھی ہیں یعنی ہر جگہ ان کی تجلیات ہیں تو یہ بھی غلط نہیں ہے۔ 

3۔ جو شخص ان پڑھ اور جاہل ہو اور اس کو علم حاصل کرنے کی فرصت نہ ملتی ہو یا یہ کہ اس کی و عقل و سمجھ کم ہے اس سے اس کی سمجھ کے مطابق بات قبول کر لی جاتی ہے جب کہ صاحب علم اور دانش مند سے وہ بات قبول نہیں کی جاتی۔ دیکھئے باندی نے جو جواب دیا کہ اللہ آسمان میں ہیں (فی السماء ) حالانکہ سلفیوں کے اعتبار سے بھی دیکھیں تو یہ جواب پھر بھی ناقص ہے کیونکہ صحیح جواب تو یہ ہوتا کہ اللہ عرش کے اوپر ہیں جب کہ لا علم باندی کے فی السَّمَاءِ کہنے سے اس کی مراد یہ ہوسکتی تھی کہ اللہ آسمانوں کے اندر ہیں یا آسمانوں کے اوپر ہیں یا محض بلندی پر ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی معنی بھی وہ نہیں ہے جو سلفیوں کے لیے دلیل بن سکے۔ ایک اور حدیث جو بخاری اور مسلم میں مذکور ہے اس میں ہے کہ ایک شخص جس نے نافرمانی میں زندگی گزاری تھی جب اس کی موت کا وقت آیا تو ( اپنی پچھلی زندگی کو یاد کر کے اس پر اللہ کے خوف کا بہت زیادہ غلبہ ہوا اور آخرت کے انجام سے بہت خوفزدہ ہوا اور اس نے اپنی ناسمجھی سے یہ خیال کیا کہ دوبارہ اٹھنا اس صورت میں ہوگا جب لاش کو صحیح و سالم دفن کیا جائے اور اگر اس کو جلا کر راکھ کر دیا جائے اور راکھ کو بکھیر دیا جائے تو پھر دوبارہ اٹھنا نہ ہو گا۔ اسی خیال سے ) اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ جب میں مر جاؤں تو تم مجھے جلا کر راکھ کر دینا، پھر تم میری اس راکھ میں سے آدھی تو کہیں خشکی میں بکھیر دیا اور آدھی کہیں دریا میں بہا دینا ( تا کہ میرا کہیں نشان بھی نہ رہے اور میں جزا و سزا کے لیے دوبارہ زندہ نہ کیا جاؤں۔ اس نے کہا کہ میں ایسا گناہگار ہوں کہ اللہ کی قسم اگر خدا نے مجھے پکڑ لیا تو وہ مجھے ایسا سخت عذاب دے گا جو دنیا جہان میں کسی کو بھی نہ دے گا۔ جب وہ مرگیا تو اس کے بیٹوں نے اس کی وصیت پر عمل کیا۔ ( جلا کر اس کی راکھ کچھ ہوا میں اڑا دی اور کچھ دریا میں بہادی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دریا کو حکم دیا تو اس نے اپنے میں موجود راکھ کے تمام اجزاء کو جمع کر دیا اور زمین کو حکم دیا تو اس نے اپنے میں موجود تمام اجزاء کو جمع کر دیا ( اللہ تعالیٰ نے اس کو دوبارہ زندہ کیا) پھر اس سے پوچھا تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے عرض کی اے میرے مالک ! تو خوب جانتا ہے کہ تیرے ڈر سے ہی میں نے ایسا کیا تھا۔ اللہ تعالٰی نے اس بندے کو (اس کی خدا خوفی اور آخرت کے خوف کی وجہ سے ) بخش دیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مذکورہ شخص نے یہ خیال کیا تھا کہ جلا کر راکھ کر دینے اور راکھ کو بکھیر نے کے بعد اللہ تعالیٰ کو اس پر قدرت نہ ہوگی ۔ یہ عقیدہ و خیال غلطی اور گمراہی تھا لیکن کم سمجھ اور کم علم شخص سے اللہ تعالیٰ نے اس پر مواخذہ نہیں فرمایا بلکہ اس کی خدا خوفی کودیکھ کر اس کو معاف کر دیا ۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

و قوم نقصت عقولهم كاكثر الصبيان و المعتوهين و الفلاحين و الارقاء وكثير يزعمهم الناس انهم لا باس بهم و اذا نقح حالهم عن الرسوم بقوا لا عقل لهم فاولئك يكتفى من ايمانهم مثل ما اكتفى رسول الله من الجارية السوداء سألها این الله فاشارت الى السماء 

(حجة الله البالغه ص117 حصه اول)

(ترجمہ: اور کچھ لوگ کم عقل ہیں جیسے اکثر بچے اور کم عقل لوگ اور کسان اور باندی غلام۔ ان میں سے بہت سوں کے بارے میں لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ ٹھیک ٹھاک لوگ ہیں لیکن جب ان لوگوں کے حال کی تحقیق کی جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ رسوم ورواج سے ہٹ کر یہ لوگ عقل سے بالکل خالی ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے ایمان پر اس طرح سے اکتفا کیا جاتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے جب حبشن باندی سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہیں تو اس کے اس جواب پر کہ اللہ آسمان میں ہیں اکتفا کیا اور فرمایا کہ یہ مومن ہے۔

کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اگر ابن تیمیہ، ابن قیم عثیمین خلیل ہراس اور عطاء اللہ حنیف صاحبان جو کہ بڑے علامہ ہیں ایسا عقیدہ رکھتے اور ایسی وصیت کرتے تو کیا ان کے ساتھ بھی ویسا ہی کیا جاتا جیسا کہ حدیث میں مذکور شخص کے ساتھ کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔

[آسمان دنیا کی طرف اللہ تعالیٰ کا نزول]

حدیث میں وارد ہے کہ جب رات کا ایک تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہے کوئی دعا کرنے والا کہ میں اس کی دعا قبول کروں، ہے کوئی مجھ سے سوال کرنے والا کہ میں اس کو دوں، ہے کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والا کہ میں اس کو بخش دوں 

( بخاری ومسلم )

اشاعرہ و ماتریدیہ جو اصل اہل سنت ہیں ان کے متقدمین کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے منزہ ہیں کہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوں یا اتریں لہذا آسمان دنیا کی طرف نزول ان کی ایک صفت ہے جس کی حقیقت کو ہم نہیں جانتے بس اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔ ان کے برخلاف سلفی حضرات اترنے کا ظاہری معنی لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات سمیت آسمان دنیا پر اترتے ہیں۔ 

علامہ عثیمین عقیدہ واسطیہ پر اپنی شرح میں لکھتے ہیں:

 نزوله تعالی حقیقی

 اللہ تعالیٰ کا نزول حقیقی ہے۔

بهذا يتبين لكل انسان قرأ هذاالحديث ان المراد بالنزول نزول الله نفسه ولا نحتاج ان نقول بذاته ما دام الفعل اضيف اليه فهوله لكن بعض العلماء قالوا ينزل بذاته لانهم لجاؤا الى ذلك لان هناك من حرفوا الحديث و قالوا الذي ينزل امر الله 

(شرح العقيده الواسطية ص 260) 

( ترجمہ: ہر اس شخص پر جس نے یہ حدیث پڑھی واضح ہو گیا کہ نزول خود اللہ ( کی ذات ) کا نزول ہے اس لئے اس کے ساتھ بذاتہ کی قید لگانے کی ضرورت نہیں ۔ جب تک فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے تو نزول اللہ ہی کا ہے لیکن بعض علماء نے یہ قید لگائی اور کہا وہ بذاتہ نازل ہوتا ہے۔ وہ اس لفظ کے لگانے پر اس وجہ سے مجبور ہوئے کہ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے حدیث میں تحریف کی اور کہا کہ اللہ نہیں اترتا بلکہ اللہ کا امر اترتا ہے ) 

[علامہ عثیمین مزید لکھتے ہیں ]

استواء علی العرش فعل ہے صفت ذات نہیں ۔ اور میری رائے ہے کہ ہمیں یہ حق نہیں ہے کہ ہم اس پر بات کریں کہ آسمان دنیا کی طرف نزول سے کیا عرش اللہ سے خالی ہو جاتا ہے یا خالی نہیں ہوتا بلکہ ہمیں اسی طرح سکوت کرنا چاہئے جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس بارے میں سکوت کیا۔

اہل سنت ( یعنی سلفیوں ) کے علماء کے اس کے بارے میں تین قول ہیں: 

ایک قول یہ ہے کہ عرش خالی ہو جاتا ہے، 

دوسرا یہ کہ خالی نہیں ہوتا

 اور تیسرا قول یہ ہے کہ توقف کیا جائے ۔ 

اپنے رسالہ عرشیہ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ نزول سے اللہ تعالیٰ کا عرش خالی نہیں ہوتا کیونکہ عرش پر استوا کے دلائل بھی محکم ہیں اور خود یہ نزول کی حدیث بھی محکم ہے اور اللہ عزوجل کی صفات کو مخلوق کی صفات پر قیاس نہیں کیا جاسکتا لہذا ہم پر واجب ہے کہ ہم استوا کی نصوص کو بھی محکم باقی رکھیں اور نزول کی نص کو بھی محکم باقی رکھیں اور ہم کہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پرمستوی ہیں اور ( ساتھ ساتھ ) آسمان دنیا پر نازل بھی ہوتے ہیں۔

[ہم کہتے ہیں]

ابن تیمیہ اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عرش پر بیٹھی ہوئی نہیں بلکہ عرش سے بھی اوپر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عرش تو اللہ کی ذات سے خالی ہے۔ پھر ان کا یہ کہنا کہ آسمان دنیا پر نزول سے ان کا عرش ان سے خالی نہیں ہوتا کچھ عجیب سی بات ہے۔ علامہ عثیمین قصیدہ نونیہ پر اپنی شرح میں لکھتے ہیں:

ہمارے لئے اس بات کو جاننا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آسمان دنیا کی طرف نزول کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علو کا وصف ختم ہو جاتا ہے۔ وہ عالی بھی ہیں اور نازل بھی ہیں کیونکہ ان کی تمام صفات میں کوئی شے ان کی مثل نہیں۔ لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کے نزول سے عرش خالی ہو جاتا ہے کیونکہ وہ صفت ذاتی نہیں ہے؟ یا عرش خالی نہیں ہوتا ؟ اس بارے میں ( سلفی ) علماء کے تین قول ہیں ۔ کچھ کا یہ قول ہے کہ عرش خالی ہو جاتا ہے اور کچھ کا قول ہے کہ عرش خالی نہیں ہوتا اور تیسرا قول توقف کرنے کا ہے۔

پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نزول فرماتے ہیں تو کیا ان سے علو کی صفت ختم ہو جاتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ علویعنی سب کے اوپر ہونے کی صفت تو صفت ذاتی ہے جو اللہ کے لئے لازمی ہے۔ اور اللہ اس سے کبھی جدا نہیں ہوتے ۔ ایک اور سوال یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کے نزول سے ان کا عرش خالی ہو جاتا ہے؟ یہ سوال اس وجہ سے پیدا ہوا کہ استواعلی العرش صفت فعل ہے جس کو اللہ تعالیٰ جب چاہتے ہیں کرتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اس مسئلہ میں ( سلفی ) علماء کے تین قول ہیں ۔ کچھ کہتے ہیں کہ ہاں عرش خالی ہو جاتا ہے۔ اور کچھ کہتے ہیں کہ نہیں عرش خالی نہیں ہوتا۔ یہ دوسرا قول شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا اختیار کردہ ہے۔ اور اللہ ہر چیز پر قادر ہیں لہذا وہ اپنے عرش پر قائم رہتے ہوئے آسمان دنیا پر نازل بھی ہیں کیونکہ ( مخلوق میں تو تناقض اور محال کا ثبوت جائز نہیں لیکن اللہ تعالیٰ تو سب سے انوکھے ہیں ) اور کوئی مخلوق سے ان کے مشابہ نہیں ہے۔ کچھ سلفی حضرات کہتے ہیں کہ ہم توقف اور سکوت کو اختیار کرتے ہیں۔

علامہ عثیمین کہتے ہیں کہ میرے نزدیک درست یہ ہے کہ ہم سکوت کریں اور اس بارے میں کچھ کلام نہ کریں کیونکہ اگر اس پر مزید تفصیل بہتر ہوتی تو سب سے پہلے اس کو صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ۔ لہذا بہتر بات یہ ہے کہ ہم اس بارے میں سکوت کریں اور اس سے اعراض کر لیں۔

[ہم کہتے ہیں]

1 - علامہ عثیمین توقف اور سکوت کرنے کو درست کہتے ہیں جس کے مفہوم مخالف سے یہ مطلب نکلا کہ ان کے نزدیک شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی بات کو ترجیح حاصل نہیں ہے ۔ 2 ۔توقف اور سکوت کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ عرش کے خالی ہونے یا نہ ہونے میں سے آدمی کسی ایک کو ترجیح نہ دے سکے یا ترجیح تو دے سکتا ہے لیکن اسلاف سے کوئی نص نہ ہونے کی وجہ سے خاموش رہے اور علامہ عثیمین نے اپنے قول کی دلیل میں اسی کو ذکر کیا ہے کہ اس بارے میں نص موجود نہیں ہے۔ جب اس بارے میں نص نہیں ہے تو پہلے دو قول کی بنیاد محض عقل و قیاس رہی حالانکہ سلفی یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ محض عقل سے وہ کسی عقیدہ کو ثابت نہیں مانتے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جہاں اپنا موقع آتا ہے وہ لفظوں کے چکر میں الجھا کر محض عقل سے بھی عقیدہ بنا لیتے ہیں۔

سکوت اور توقف کرنے والوں کو چھوڑ کر ہم باقی دوقولوں کو دیکھتے ہیں: 

 جو سلفی اس بات کے قائل ہیں کہ اس وقت عرش خالی ہو جاتا ہے ان پر یہ اعتراضات پڑتے ہیں۔

1۔ چونکہ آسمان دنیا عرش کے پھیلاؤ سے بہت ہی چھوٹا ہے اور جہت تحت میں اللہ تعالیٰ کی ذات عرش کے برابر یا تقریباً برابر ہے اور باقی جہات میں جو اللہ کی ذات کی حد ہے وہ کسی انسان کو معلوم نہیں صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے اس لئے آسمان دنیا پر نزول صرف اسی وقت ممکن ہے جب اللہ تعالیٰ کی ذات کا حجم و پھیلاؤ ہزاروں لاکھوں گنا کم

ہو جائے اور ایسا اللہ تعالیٰ کے اپنی ذات کو سکیٹر نے سے ہو سکتا ہے۔ 

2۔ اس صورت میں خالق مخلوق میں سما جاتا ہے اور اس کے لئے یا تو اللہ تعالیٰ کے عالم میں حلول کرنے کو ماننا ہوگا یا خالق و مخلوق میں اتحاد ہو جانے کو ماننا ہوگا حالانکہ یہ دونوں باتیں اللہ تعالیٰ کیلئے محال ہیں۔

3۔ سلفیوں کا یہ عقیدہ ٹوٹتا ہے ک اللہ تعالیٰ عالم سے مباین اور علیحدہ ہیں ۔

 4۔ سلفی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بوجھ سے ان کا عرش چر چراتا ہے۔ جب آسمان دنیا عرش الہی کے سامنے ایک نازک سا کھلونا بھی نہیں بنتا تو وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا بوجھ کیسے  برداشت کرتا ہے؟

 باب:9

[سلفیوں کے نزدیک اللہ تعالی کی ذات کی کیفیات]


مولانا عطاء اللہ حنیف نے ابن تیمیہ کی یہ بات نقل کی ہے:

کیفیت صفت کا علم تو کیفیت موصوف کے تابع اور فرع ہے ۔ جب موصوف (ذات) کی کیفیت کا پتہ نہیں تو صفات کی کیفیت کا پتہ کیسے چل سکتا ہے۔ 

(حیات شیخ الاسلام ابن تیمیہ۔ حاشیہ ص 429)

علامہ خلیل ہراس لکھتے ہیں :

لا يعلم كيفية ذاته وصفاته الاهو سبحانه 

(شرح العقيدة الواسطية 22)

 ترجمہ: اللہ تعالی کی ذات وصفات کی کیفیت کو صرف اللہ ہی جانتے ہیں کوئی اور نہیں جانتا۔

[ہم کہتے ہیں]

 1 - ابن تیمیہ اور خلیل ہراس کی ان عبارتوں سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کی ذات کی کیفیت انسانوں کو معلوم نہیں لیکن یہاں خلیل ہراس یہ بتاتے ہیں کہ اللہ تعالی کا بڑا حجم ہے جو عرش کے اوپر خلا میں سمایا ہوا ہے جس کو لا مکاں سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔

2۔ اس کے علاوہ اللہ تعالی کی ذات کے بارے میں سلفی جو کچھ کہتے ہیں وہ بھی اللہ تعالی کی ذات کی کیفیت کا بیان ہے اگرچہ اس کیفیت کی اپنی کیفیت انسان کو معلوم نہ

ہو ۔ مثلا سلفی حضرات یہ کہتے ہیں:

1۔ اللہ تعالی کے دو ہاتھ ہیں جن سے وہ کام کرتے ہیں۔

2۔ اللہ تعالی کی دو آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہیں۔

3۔ اللہ تعالی کے دو پاؤں ہیں جن کا محل کرسی ہے اور اللہ تعالی قیامت کے دن اپنا ایک پاؤں جہنم کے اوپر رکھیں گے۔

4۔ اللہ تعالی کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں۔

5۔ اللہ تعالی کا چہرہ ہے ، منہ ہے، کوا ( حلق کے اندر لٹکا ہوا گوشت ) ہے۔

6۔ اللہ تعالی کی چھنگلی ہے اور انگوٹھا اور تھیلی ہے۔

7- اللہ تعالی عرش کے اوپر بیٹھے ہیں۔ 

8- اللہ تعالی کی ذات آسمان دنیا پر نازل ہوتی ہے ۔ پھر یا تو عرش کو خالی چھوڑ دیتی ہے، یا عرش پر رہتے ہوئے آسمان دنیا کی طرف پھیل جاتی ہے ، یا عرش پر بھی رہتی ہے اور آسمان دنیا میں بھی آجاتی ہے جبکہ بیچ کی جگہ اللہ تعالی کی ذات سے خالی رہتی ہے۔

9۔اللہ تعالی کی ذات بوجھ والی ہے اور اللہ تعالی کے بوجھ سے عرش چرچراتا ہے۔ 

10 - اللہ تعالی کی ذات کی حدود بھی ہیں۔

غرض یہ سب اللہ تعالی کی ذات کیفیات ہی تو ہیں لیکن سلفی ان کو صفات کہہ کر خود اپنےآپ کو غلط فہی میں مبتلا کیسے ہوئے ہیں۔

 باب:10

[امام مالک رحمہ اللہ کے ذکر کردہ ضابطے کی حقیقت]

علامہ عثیمین لکھتے ہیں: 

امام مالک رحمہ اللہ سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: استوی علی العرش کے بارے میں پوچھا گیا کہ استواء کی کیا کیفیت تھی ۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اپنا سر جھکا لیا یہاں تک کہ ان کی پیشانی پر پسینہ آ گیا۔ پھر سر اٹھایا اور فرمایا استواء مجہول نہیں ہے یعنی معنی کے اعتبار سے معلوم ہے کیونکہ عربی لغت میں استوی علی کا معنی علو اور بلندی ہے۔ لہذ ا فرمایا استواء مجہول نہیں ہے اور کیفیت غیر معقول ہے یعنی اس کو عقل سے نہیں جان سکتے کیونکہ عقل کیفیت کا ادراک نہیں کر سکتی ۔ تو جب کیفیت کو بتانے والی کوئی نقلی و عقلی دلیل نہیں ہے تو ضروری ہے کہ کیفیت کے بارے میں سوال نہ کیا جائے اور اس پر ایمان رکھا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں اس کے ذریعہ سے خبر دی ہے۔ غرض اس کی تصدیق کرنا واجب ہے اور اس کی کیفیت کے بارے میں سوال بدعت ہے کیونکہ وہ لوگ جو ہم سے زیادہ علم کے حریص تھے یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم انہوں نے جب اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنا تو انہوں نے اللہ کی عظمت اور استواء علی العرش کے معنیٰ کو جان لیا اور اس بات کو بھی جان لیا کہ استواء کی کیفیت کے بارے میں سوال نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کوئی اس کا ادراک نہیں کر سکتا۔ لہذا جب ہم سے یہ سوال کیا جائے گا تو ہم کہیں گے کہ یہ سوال کرنا ہی بدعت ہے۔

اور امام مالک کا قول اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کے لیے میزان ہے لہذا اگر تم سے پوچھا جائے کہ مثلاً اللہ تعالی آسمان دنیا کی طرف اترتے ہیں تو کیسے اترتےہیں؟ تو تم جواب میں کہو کہ نزول غیر مجہول ہے اور کیفیت غیر معقول ہے اور اس پر ایمان رکھنا واجب ہے اور اس کے بارے میں پوچھنا بدعت ہے۔'' 

( شرح عقیدہ واسطیه 47)

یہی بات ایک غیر مقلد عالم مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانوی نے حیات شیخ الاسلام ابن تیمیہ پر اپنے حاشیہ میں کہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

" بحث ..... صفات خبر یه ..... ید ( ہاتھ ) ، استواء، نزول وغیرہ میں ہو رہی ہے۔ امام صاحب (ابن تیمیہ ) کا کہنا ہے کہ اشاعرہ صفات ذات ... حیات، علم ، قدرت وغیرہ کو جن اصولوں سے حقیقت تسلیم کرتے ہیں اسی اصل سے ان کو دوسری صفات محبت، ید، استواء وغیرہ کو ماننا لازم ہے جس کو دونوں جگہ دخل ہے، تاویل کریں تو سب جگہ کریں، نہ کریں تو کہیں بھی نہ کرنی چاہیے، آدھا تیترآدھا بٹیر، یہ کیا ہے؟“۔

[ہم کہتے ہیں]

ہمیں یہ تسلیم ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کا قول تمام صفات الہیہ کے لیے معیار و میزان ہے لیکن اس بات پر متنبہ ہونا ضروری ہے کہ ان کا قول صفات کے بارے میں ہے ذات کے اعضاء واجزاء کے بارے میں نہیں کیونکہ اجزاء واعضاء صفات نہیں ہوتے لیکن سلفی اور غیر مقلدین اجزائے ذات کو صفات باور کرانے پر مصر ہیں۔ غرض امام مالک رحمہ اللہ کا ضابطہ صفات مثل استواء ، حیات اور کلام وغیرہ میں تو چلتا ہے ہاتھ ، پاؤں اور چہرے وغیرہ میں نہیں چلتا کیونکہ وہ حقیقت میں صفات نہیں ہیں اجزائے ذات ہیں۔ اجزائے ذات کو سلفی اگر صفات کہیں تو اس سے حقیقت تو نہیں بدلے گی۔

 باب: 11

[سلفیوں کے نزدیک اللہ تعالیٰ کو عالم سے باہر ہونا چاہیے لیکن وہ اس کے اندر بھی ہیں]

[علامہ عثیمین لکھتے ہیں]

فنحن نؤمن بان الله بائن من خلقه ... و نؤمن بان الله فوق العرش استوى عليه

(ترجمہ: ہم ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے جدا ہیں ....... اورہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی عرش کے اوپر ہیں ) ۔

علامہ عثیمین یہ بتانا چاہتے ہیں کہ عالم کل کا کل اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور اس عالم کی جو خارجی تہہ ہے وہ عرش الہی ہے اور اللہ تعالیٰ چونکہ عرش سے بھی کچھ اونچے ہیں یا عرش پر بیٹھے ہیں تو ان کی ذات تمام مخلوق سے جدا ہوئی۔

لیکن سلفی اس عقیدے کو بھی بلا کسی تردد کے مندرجہ ذیل طریقوں سے توڑتے ہیں: 

1۔ کرسی عرش کے اندر کی چیز ہے اور مخلوق ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے پاؤں رکھنے کی جگہ ہے۔ علامہ خلیل ہراس عقیدہ واسطیہ پر اپنی شرح میں لکھتے ہیں:

ان كرسيه قد وسع السماوات و الارض جميعا و الصحيح في الكرسى انه غير العرش و انه موضع القدمين وانه في العرش كحلقة ملقاةفي الفلاة

( ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی کرسی تمام آسمانوں اور زمین کو گھیرے ہوئے ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ کرسی عرش سے علیحدہ شے ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے قدموں کی جگہ ہےاور کرسی عرش کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے ریگستان میں پڑا ہوا چھلا ) ۔

2۔ جب تہائی رات رہ جاتی ہے تو اللہ تعالی عرش سے آسمان دنیا پر اتر آتے ہیں یا پھیل کر اس تک پہنچ جاتے ہیں۔ عرش اور عرش کے اندر جو کچھ ہے چونکہ سب اللہ تعالیٰ کی

مخلوق ہے تو اللہ تعالیٰ مخلوق میں داخل ہوئے مخلوق سے باہر نہ ہوئے۔

3- ابن تیمیہ سمیت تمام سلفی اس بات کے قائل ہیں کہ قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ کو جو مقام محمود عطا ہو گا اس کے دو معنی ہیں

 (۱) شفاعت کبری اور (٢) اللہ تعالی کے عرش پر بیٹھنے کا اعزاز ۔ 

مشہور غیر مقلد عالم مولانا یوسف صلاح الدین اپنے تفسیری حواشی میں لکھتے ہیں " یہ بھی ممکن ہے کہ اس عرش سے مراد وہ عرش ہو جو فیصلوں کے لیے زمین پر رکھا جائے گا جس پر اللہ تعالی نزول اجلال فرمائے گا اور ظاہر ہے کہ یہ عرش اس بڑے عرش کے اندر ہوگا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات عالم سے مباین اور جدانہ ہوئی بلکہ اس کے اندر ہوئی۔ میدان حشر بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہو گا اور عرش کے گھیراؤ کے اندر ہو گا اللہ تعالیٰ جب قیامت کے دن نزول اجلال فرمائیں گے تو عالم کے اندر داخل ہو جائیں گے جدا نہیں رہیں گے۔

4 اللہ تعالیٰ جہنم پر اپنا پاؤں رکھیں گے ۔ جہنم بھی عالم کا ایک حصہ اور مخلوق ہے۔ تو اللہ  تعالی کا پاؤں مخلوق سے جدا نہ ہوا۔


[سلفی اور کرامیہ]


کرامیہ ایک گمراہ فرقہ تھا۔ اس فرقے کے لوگ محمد بن کرام کے پیروکار تھے۔ اس کی گمراہی کا سبب اس کے مندرجہ ذیل عقائد تھے ۔ سلفیوں کے عقائد کرامیہ کے عقائد کے تقریباً برابر ہیں۔ اس مماثلت کے ہوتے ہوئے سلفیوں اور غیر مقلدین کے راہ حق سےباہر ہونے کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا دشوار نہیں ہے۔

محمد بن کرام نے تصریح کی کہ اللہ تعالی عرش پر استقرار کئے ہوئے ہیں وہ اپنی ذات کے ساتھ جہت فوق میں ہیں اور وہ عرش کی اوپری سطح کے ساتھ مس کرتے ہیں اور وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل بھی ہوتے ہیں۔

پھر بعض کرامیہ کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کل عرش کو گھیرے ہوئے نہیں ہیں جب کہ بعض کا دعویٰ ہے کہ عرش کی کچھ جگہ خالی نہیں رہتی جب کہ دیگر بعض کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ جہت فوق میں ہیں اور عرش کے محاذی ہیں اس کو مس نہیں کر رہے۔

پھر تیسرے قول والوں کا آپس میں اختلاف ہے۔ ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور عرش کے درمیان اتنا فاصلہ ہے کہ اگر تمام جہان کے جواہر کو رکھ دیا جائے تو ان کے واسطے سے اللہ تعالیٰ کی ذات کا عرش کے ساتھ اتصال ہو جائے گا جب کہ بعض کا کہنا ہے کہ ان کے درمیان کا فاصلہ لامتناہی ہے اور عالم سے اللہ تعالیٰ کی مباینت اور علیحدگی ازلی ہے۔

اکثر کرامیہ اللہ تعالیٰ کے لیے جسم کا لفظ بولتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جسم سے ہماری مراد یہ ہے کہ وہ خود قائم ہیں یعنی قائم بذاتہ ہیں۔ یہی ان کے نزدیک جسم کی تعریف ہے۔ اللہ کے لیے حدو انتہا کے بارے میں بھی ان کا اختلاف ہے۔ بعض کرامیہ تمام چھ جہتوں میں اللہ تعالی کو محدود مانتے ہیں، بعض جہت تحت میں محدود مانتے ہیں جب کہ بعض اللہ تعالیٰ کو کسی بھی جہت میں محدود نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اللہ عظیم ہیں۔

کرامیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ حوادث کا قیام اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ پھر جن کا حدوث اللہ تعالیٰ کی ذات میں ہوتا ہے ان کا سبب اللہ کی قدرت ہے اور جن کاحدوث اللہ تعالیٰ کی ذات سے جدا ہوتا ہے ان کا سبب ایجاد ہے۔ کرامیہ اللہ تعالیٰ کے لیے صفات کا اثبات کرتے ہیں اور کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ علم سے عالم ہیں، قدرت سے قادر ہیں، حیات سے جی ہیں اور مشیت سے ارادہ کرنے والے ہیں۔ یہ تمام صفات قدیم اور ازلی ہیں اور اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہیں۔ کبھی یہ اللہ کی صفات میں سمع و بصر کا اضافہ کرتے ہیں اور کبھی یدین ( دو ہاتھوں کا) اور وجہ (چہرے) کا اضافہ بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ صفات بھی قدیم ہیں اور اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ قائم ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ ہے دیگر ہاتھوں کی طرح نہیں اور اللہ کا چہرہ ہے دیگر چہروں کی طرح نہیں ۔ (ماخوذ از الملل و النحل - عبد الکریم شہرستانی )


باب:13

[عقیدہ طحاویہ کے شارح ابن ابی العز عقائد میں سلفی ہیں]

مشہور محدث امام طحاوی کی عقائد پر لکھی ہوئی ایک مختصر مگر جامع تصنیف ہے۔ اس کی ایک شرح جو عام طور سے دستیاب ہے اور سلفی اس کی خوب نشر واشاعت کرتے ہیں وہ ابن ابی العز حنفی کی طرف منسوب ہے۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ تصنیف کسی حنفی عالم کی ہے جنہوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور دیگر حنفی ائمہ اور اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد کا التزام کیا ہو گا لیکن واقع میں ایسا نہیں ہے۔ المکتب الاسلامی کے ناشر زہیر الشاویش اپنے طبع کردہ نسخے میں ابن ابی العز حنفی کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:

یہ امام ابو جعفر طحاوی کی کتاب عقیدہ کی شرح ہے جو ہم سلف صالحین ( مراد ہیں سلفی بزرگ) کے عقائد کو اور خالص توحید جاننے کی رغبت رکھنے والوں کے لیے چوتھی مرتبہ چھاپ رہے ہیں ۔ اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ تحقیق و بیان کے اعتبار سے، عمق اور احاطہ کی رو سے اور سلف کے منہج حق کو اختیار کرنے کے اعتبار سے یہ قیمتی کتاب تقریبا بے نظیر ہے۔

اسی لیے امام طحاوی کے عقیدہ کی کتاب کی بہت سے علماء نے تعریف کی اور اس کی شرح بھی بہت سے علماء نے لکھی۔ لیکن مشہور و معروف شرحوں میں سے یہ شرح سب سے بہتر ہے اور اس میں سلف کے عقائد کو بہت اچھے اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے شارح شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد ابن قیم کی کتابوں سے بکثرت نقل کرتے ہیں لیکن ان کا حوالہ نہیں دیتے جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ متعصب اور حشویہ اور دیگر علماء سو ، جن کا وقت کے بعض حکام پر بڑا اثر رسوخ تھا ان کی سلفیوں سے لڑائی چل رہی تھی اور اس وجہ سے بعض سلفی اپنے عقائد کا تعلم کھلا اظہار نہیں کر سکتے تھے“۔

[ہم کہتے ہیں]

اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ ابن ابی العز جنہوں نے یہ شرح لکھی یا تو وہ سلفی ہی تھے یا صفات متشابہات میں سلفیوں سے متفق تھے۔ زہیر شاویش مزید لکھتے ہیں : ہمارا اس پر یقین ہے کہ شیخ الاسلام ( ابن تیمیہ ) کے شاگردوں کا خصوصاً ابن قیم کا اور حافظ ابن کثیر کا ابن ابی العز پر گہرا اثر ہوا اور اس وجہ سے وہ سلف ( یعنی سلفیوں) کے منہج کی طرف مڑے اور اس کو انہوں نے اختیار کیا اور تحقیق میں انہوں نے دوسروں کی آراء میں مقید رہنے کے بجائے حریت فکر کو اختیار کیا اور علمی جمود کو توڑا اور اس سے بچتے رہے۔ ابن قیم کا اثر ان کی کتابوں کی ان کثیر نقول سے واضح ہے جو ابن ابی العز اس شرح میں لائے ہیں ۔ ہمارا غالب گمان یہ ہے کہ ابن ابی العزابن قیم کے ساتھ رہے بھی ہیں اور ان سے انہوں نے استفادہ بھی کیا ہے لیکن وہ ابن قیم کا حوالہ نہیں دیتے اور اسی طرح جب وہ ابن قیم کی عبارت نقل کرتے ہیں تو ان کا حوالہ بھی نہیں دیتے۔ بسا اوقات وہ عمدا ایسا اس وجہ سے کرتے ہیں کہ ان کی کتاب کا فائدہ زیادہ ہو اور موافق و مخالف (ان کو حنفی سمجھ کر .... عبد الواحد ) سب ہی اس شرح سے فائدہ اٹھائیں ۔ رہے حافظ ابن کثیر تو ابن ابی العز نے اپنی اس شرح میں تین جگہوں پر ان کا ذکر کیا ہے اور ان کو اپنا شیخ کہا ہے 


ابن ابی العز اپنی شرح کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:

" و ممن قام بهذا الحق من علماء المسلمين الامام ابو جعفر احمد بن محمد بن سلامة الازدى الطحاوى تغمده الله برحمة بعد المائتين فان مولده سنة تسع و ثلاثين ومائتين و وفاته سنة احدى و عشرين وثلاثه مئة فاخبر رحمه الله عما كان عليه السلف و نقل عن الامام ابي حنيفة النعمان بن ثابت الكوفى وصاحبيه ابي يوسف يعقوب بن ابراهيم الحميري الانصارى و محمد بن الحسن الشيبانيص ما كانوا يعتقدونه من اصول الدين و يدينون به رب العالمين

( شرح العقيدة الطحاوية ص 69)

( ترجمہ: دوصدیوں کے بعد اٹھنے والے فتنوں کی سرکوبی اور ان کے سد باب کے لیے جو علماء کھڑے ہوئے ان میں سے ایک امام طحاوی بھی تھے ۔ ان کی پیدائش کا سال 239 ہجری ہے اور ان کی وفات 321 ہجری میں ہوئی۔ انہوں نے ان عقائد کو ذکر کیا جن پر سلف صالحین تھے اور جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ، امام ابو یوسف رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ کے بھی عقائد تھے ۔“

[ہم کہتے ہیں]

 عقیدہ طحاویہ تو انتہائی مختصر متن ہے اور اس جیسی کتاب کی شرح کی ضرورت ہوتی ہی ہے۔ لیکن ابن ابی العز نے یہ عجیب کام کیا کہ بجائے اس کے کہ اپنی شرح میں حنفیہ یا اہل سنت کے مسلمہ عقائد اور ان کی مسلمہ تفصیل لکھتے انہوں نے کسی بھی تصریح کے بغیر صفات متشابہات میں ابن تیمیہ اور سلفیوں کی عبارتیں نقل کر کے سلفیوں کا عقیدہ رائج کرنے کی کوشش کی۔ عوام بلکہ عام علماء تک بھی باریکیوں سے باخبر نہیں ہوتے لہذا وہ ان کو منفی سمجھ کر ان پر اعتماد کریں گے لیکن فکر ابن تیمیہ کی حاصل ہو گی ۔ بعض فقہی مسائل میں بھی ابن ابی العز نے ابن تیمیہ کے مسلک کو اختیار کیا ہے جس کی تفصیل شعیب ارنوط کے مقدمہ میں موجود ہے۔

ہم یہاں یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ابن ابی العز کے بڑے (یعنی باپ دادا) حنفی تھے لیکن ابن ابی العز عقائد میں خود حنفی نہ رہے تھے اور انہوں نے سلفی مسلک اختیار کر لیا تھا۔ اب آگے نام ابن ابی العز کی شرح میں سے چند مثالیں ذکر کرتے ہیں جو ہمارے دعوے پر واضح دلیل ہیں 

(1) امام طحاوی رحمہ اللہ نے لکھا:

و تعالى عن الحدود والغايات والاركان والاعضاء والادوات، لاتحويه الجهات الست كسائر المبتدعات 238) شرح العقيدة الطحاويه

(ترجمہ: اور اللہ تعالی حدود و غایات سے، ارکان واعضاء سے بلند و بالا ہیں اور چھ جہات اللہ تعالیٰ کا احاطہ نہیں کر سکتیں ۔ اللہ تعالیٰ دیگر بدعتی امور کی طرح ان مذکور باتوں سے بھی پاک ہیں )۔

امام طحاوی رحمہ اللہ کا یہ کلام اوپر ذکر ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس سے بلند و بالا ہیں کہ ان کے لیے ارکان، اعضاء اور آلات ہوں لیکن ابن ابی العزمتن کے مضمون کے برخلاف سلفیوں کا عقیدہ تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’ جہاں تک ارکان، اعضاء اور آلات کے الفاظ کا تعلق ہے تو ان سے صفات کی نفی کرنے والوں نے بعض ایسی صفات کی نفی کی ہے جو دلائل قطعیہ سے ثابت ہیں مثلا ید (ہاتھ ) اور وجہ (چہرہ) ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اپنی کتاب الفقہ الاکبر میں لکھتے ہیں: ”اللہ کا ید، وجہ اور نفس ہے جیسا کہ ان کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کیا ہے۔ تو ید (ہاتھ ) اللہ کی صفت ہے بلا کیف اس لیے یہ نہ کہا جائے کہ اللہ کے ید (ہاتھ) سے مراد اس کی قدرت اور نعمت ہے کیونکہ اس میں صفت کا ابطال ہے۔ یہ بات جو امام ابوحنیفہ نے فرمائی دلائل قطعیہ سے ثابت ہے. لیکن ان صفات کو اعضاء جوارح، آلات یا ارکان نہیں کہا جائے گا کیونکہ رکن ماہیت کا جزو ہوتا ہے (جیسے انسان کی ماہیت کے دور کن ہیں : حیوان اور ناطق ) جب کہ اللہ تعالیٰ احد صمد ہیں ان کے اجزاء نہیں ہیں ۔ اسی طرح اعضاء کے لفظ میں تفریق و تقطیع کا معنی ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے بلند ہیں۔ جوارح کے لفظ میں کسب اور انتفاع کا معنی ہوتا ہے اور ادوات سے مراد آلات ہوتے ہیں جن سے کوئی ذات جلب منفعت اور دفع مضرت کا کام لیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حق میں یہ تمام الفاظ منفی ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کی صفات میں ان کا ذکر نہیں ہے۔ لہذا قرآن وحدیث میں وارد ہونے والے الفاظ ہی صحیح معنی والے ہیں اور فاسد احتمالات سے پاک ہیں“۔

[ہم کہتے ہیں]

 پیچھے ہم اس بات کو وضاحت سے بیان کر چکے ہیں کہ ید (ہاتھ ) اور وجہ (چہرے) اور قدم (پاؤں) سے سلفی ان کا معنی اعضاء و ارکان اور آلات کا کرتے ہیں البتہ ان کی کیفیت یعنی شکل وصورت کو مخلوق کی مثل نہیں مانتے۔ امام ابوحنیفہ ید ( ہاتھ ) وجہ ( چہرے) اور قدم ( پاؤں ) وغیرہ سے صفات مراد لیتے ہیں اور ان کے ظاہری و حقیقی معنی مراد نہیں لیتے اور ان کی حقیقت کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں جب کہ سلفی ان کو اعضاء وجوارح میں سے مانتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے کام کئے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے کانوں سے سنتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اعضاء وجوارح کو حقیقت کے اعتبار سے صفات نہیں کہا جاتا۔ لیکن سلفی مختلف حیلے بہانوں سے ان پر اعضاء و جوارح کا اطلاق نہیں کرتے۔ اس سے بہر حال حقیقت نہیں بدلتی ۔ غرض سلفی امام طحاوی رحمہ اللہ کے لکھنے کے برخلاف اللہ کے لیے اعضاء وجوارح مانتے ہیں۔


ماخوذ : اللہ تعالی کی
" صفات متشابہات " 
اور سلفیوں اور موجودہ غیر مقلدوں کے عقائد

تصنیف : ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب رحمہ اللہ

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

 دیگر مضامین کیلئے دیکھیں  ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" ،  

اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں


تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...