امام احمد رحمہ اللہ کی امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح
۔ تمہید :
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ( 164ھ - 241ھ) کسی تعارف کے محتاج نہیں ، علوم الحدیث میں امام کا درجہ رکھتے ہیں ، امام احمد رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر مختلف وجوہات کی بناء جروحات کیں ہیں . ہم دیکھتے ہیں کہ اہل الرائے کے ساتھ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا رویہ انصاف پر مبنی نہیں ہے ، اگر کوئی کہے کہ یہ کیسے اور کیونکر ممکن ہے کہ اتنا بڑا امام ایسا کرے ؟
جواب میں ہم کہتے ہیں کیونکہ وہ بھی امتی ہیں ، معصوم یا محفوظ عن الخطاء نہیں ہیں ۔ البتہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرح ، امام احمد رحمہ اللہ بھی ماجور عن الخطاء ہیں۔ (غیر مقلدین نے بعض محدثین کی باتوں کو گویا قرآن و حدیث سمجھ لیا یے ، اور اہلحدیث فرقہ بعض محدثین کی باتوں کو قرآن و حدیث کی طرح حجت کا درجہ دیتے ہیں ، انہیں لگتا ہے گویا ان محدثین سے کوئی غلطی ہی نہیں ہو سکتی ۔ اس لئے یہ فرقہ نام نہاد اہلحدیث محدثین کی ذاتی رائے کو حدیث کا نام دیکر اپنی عوام کو بتاتے ہیں کہ ہم قرآن و حدیث کو مانتے ہیں ، غیر مقلد علماء کی یہ روش اہلحدیث عوام کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی جروحات کے اسباب :
امام احمد رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر درج ذیل وجوہات کی بناء پر جرح کی ہے.
وجہ نمبر 1 : عقیدے کے بعض مسائل میں اختلاف
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام ابو حنیفہ کے درمیان بعض عقائدی مسائل پر اختلاف پایا جاتا تھا۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا موقف یہ تھا کہ قاری کے منہ سے نکلنے والے حروف اور الفاظ مخلوق ہیں ، جبکہ امام احمد بن حنبل اس بات کو صریح بدعت مانتے تھے۔ یہی اختلاف امام احمد اور کرابیسی رحمھم اللہ کے درمیان تنازع کا باعث بھی بنا ، اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ(جو خود حنبلی مکتب فکر کے قریب ہیں) نے سیر اعلام النبلاء میں کرابیسی کی ترجمہ میں تسلیم کیا کہ حق کرابیسی کے ساتھ تھا ( بالفاظ دیگر ہم کہہ سکتے ہین امام احمد رحمہ اللہ خطاء اجتہادی پر تھے )
ولا ريب أن ما ابتدعه الكرابيسي ، وحرره في مسألة التلفظ ، وأنه مخلوق هو حق ( سير أعلام النبلاء 12/80 )
اگر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے اس فتوی کا مانا جائے تو ، بدعت کا فتوی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ ساتھ امام بخاری رحمہ اللہ پر بھی لگے گا ، کیونکہ اس مسئلے ہر وہ امام احمد رحمہ اللہ کی مخالف صف میں جمہور اہل السنت والجماعت کے ساتھ کھڑے ہیں ( دیکھیں فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری ، جلد نمبر 1 ، صفحہ نمبر 119 ، محدث فتویٰ)۔
اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا عقیدہ یہ تھا کہ عمل ایمان کا جزو نہیں ہے ، اور ایمان نہ بڑھتا ہے اور نہ گھٹتا ہے۔ یہ عقیدہ امام احمد اور ان کے بہت سے ہم عصر علماء رحمھم اللہ کیلئے کافی تھا کہ امام ابو حنیفہ کو بدعتی یا کم از کم اجتناب کے قابل شخص قرار دے دیں۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ایمان اور اعمال میں فرق کرتے ہیں (یعنی اعمال کو ایمان کا حصہ نہیں مانتے) جبکہ محدثین اعمال کو ایمان کا حصہ تسلیم کرتے ہیں… امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ ایمان نام ہے زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کرنے کا، اہل آسمان اور اہل زمین کا ایمان گھٹتا بڑھتا (گھٹتا اور بڑھتا) نہیں، ایمان اور توحید میں سب مومن برابر ہیں اور اعمال کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہیں (یعنی درجے میں ایک دوسرے سے افضل یا کمتر ہیں) (فقہ الاکبر 251)
جبکہ محدثین کے مطابق اعمال ایمان کا حصہ ہیں اور انسان کے ایمان میں کمی زیادتی ہوتی ہے… اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ان دونوں ہی باتوں کا نتیجہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ انسان درجے اور فضیلت میں ایک دوسرے سے کم یا زیادہ ہوتے ہیں… چونکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مطابق ایمان اور توحید میں سب ایک جیسے ہیں (یعنی ایک ہی بات کا اقرار اور تصدیق کرتے ہیں کہ اللہ ہی صرف بندگی کے لائق ہے اور حضور علیہ السلام اس کے بندے اور رسول ہیں – اس معاملے میں اور عقیدہ میں کمی زیادتی نہیں ہوتی، سب لوگ اور فرشتے اسی چیز کا اقرار اور تصدیق کرتے ہیں اور اس میں کوئی ایک دوسرے سے افضل یا کمتر نہیں ہو سکتا کیونکہ سبھی ایک ہی چیز کی گواہی دے رہے ہیں)…
فرق اعمال سے پیدا ہوتا ہے، جو بندہ جیسے اعمال کرتا ہے، اس کا درجہ ویسا ہی بن جاتا ہے… اچھے اعمال سے درجات بلند ہوتے ہیں اور اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے، جبکہ برے اعمال سے درجات میں کمی آتی ہے… خلاصہ یہ کہ اعمال انسان کے درجات میں کمی زیادتی کا سبب بنتے ہیں… جبکہ جو محدثین اعمال کو ایمان کا حصہ تسلیم کرتے ہیں، ان کے مطابق انسان کے ایمان میں کمی زیادتی ہوتی ہے لیکن اگر ہم دیکھیں تو وہ کمی زیادتی بھی اعمال ہی کی وجہ سے ہوتی ہے یعنی اچھے اعمال کرے تو درجات میں بلندی کے ساتھ ایمان میں زیادتی اور برے اعمال کرے تو درجات میں گراوٹ یعنی ایمان میں کمی… کہنے کا مقصد دونوں ہی معاملات میں نتیجہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ کمی اور زیادتی کا سبب اعمال ہیں، جیسے اعمال ویسا نتیجہ…
یہاں ایک بات قابل غور بھی ہے کہ انسان کے اپنے اعمال برباد کرنے سے اس کے ایمان پر اثر نہیں پڑتا، یعنی اگر کوئی مسلمان ظالم ہے یا گناہگار ہے تو اس سے اس کی توحید پر اثر نہیں پڑتا، رہتا وہ بھی ایمان والا ہی ہے ہاں ظلم یا گناہ کی وجہ سے سزا کا مستحق ضرور بن جاتا ہے… اس لیے جو مسلمان نیک اعمال کرتا ہے تو جنت کا مستحق بن جاتا ہے لیکن جو گناہ کی وجہ سے جہنم کا مستحق بنتا ہے، لیکن آخرکار اپنے ایمان کی وجہ سے آخر میں جنت ضرور جاتا ہے… تو معلوم ہوا کہ اعمال برباد کرنے کی وجہ سے ایمان برباد نہیں ہوتا اور اعمال کے برباد ہونے کی وجہ سے وہ ایمان سے بھی خارج نہیں ہوتا بلکہ رہتا ایمان والا ہی ہے… اس بات سے ایمان اور اعمال میں فرق کو سمجھا جا سکتا ہے کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کے اچھا ہونے سے دوسرا اچھا نہیں ہوتا، اسی طرح کسی ایک کے خراب ہونے کا اثر دوسرے پر نہیں پڑتا… ایمان صحیح ہے تو یہ دلیل نہیں کہ اعمال بھی صحیح ہوں گے اور اگر ایمان ہی صحیح نہیں تو اچھے اعمال کسی کام کے نہیں… خلاصہ یہ کہ اگر انسان کے کوئی نیک اعمال ہی اس کے کھاتے میں نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا ایمان بھی ختم ہو گیا، بلکہ حدیث میں ہے کہ جو شخص رائی (رائی) کے دانے کے برابر بھی ایمان بچا کر اس دنیا سے لے گیا، وہ تو جنت میں (ایک دن ضرور) جائے گا…
تو یہ اختلاف صرف لفظی ہے یعنی بات امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور محدثین ایک ہی کہہ رہے ہیں، بیان کرنے کا انداز الگ الگ ہے… مثال کے طور پر کوئی کہے کہ جنت میں جانے کا آسان طریقہ کیا ہے؟ ایک شخص کہے کہ نیک اعمال کرو، جنت میں پہنچ جاؤ گے، جبکہ دوسرا شخص کہے کہ گناہوں سے بچ جاؤ، جنت میں پہنچ جاؤ گے… اب اگرچہ دونوں اشخاص کے مشورے اور الفاظ میں فرق ہے لیکن نتیجہ جنت میں داخلہ ہی ہے، اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور محدثین کے بیچ بات کو بیان کرنے میں فرق ہے لیکن دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ انسان کے درجات میں کمی زیادتی ہوتی ہے اور وہ کمی زیادتی اعمال ہی کی وجہ سے ہوتی ہے…
اس لیے صدر الدین علی بن محمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ایمان کے بارے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ اہل سنت کے درمیان جو اختلاف ہے وہ محض لفظی اختلاف ہے… (شرح عقیدہ طحاویہ 462)
اسی طرح حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ بھی لکھتے ہیں کہ یہ نزاع (اختلاف) صرف لفظی ہے… (تفہیمات الٰہیہ 28/1)
قول فیصل :
عقائد کے ان مسائل میں اختلاف ایسا نہ تھا کہ امام احمد ، امام اعظم کو مجروح قرار دیتے ،
اگرچہ محدثین کا بعض مسائل میں امام صاحب سے نزاع تھا لیکن پھر بھی کسی بھی محدث نے عقائد کے باب میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو بدعتی نہیں کہا ۔ لیکن اس کے باوجود امام احمد نے نہ صرف بدعت کا فتوی امام ابو حنیفہ پر لگایا ، بلکہ انجانے میں اس فتوی کی زد میں امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ بھی آ گئے ۔
حاصل یہ ہیکہ عقائد کے مسائل کی وجہ سے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح کرنا ، غیر مناسب ہے ، اور اصول جرح و تعدیل سے مردود ہے۔
نمبر 2 : رائے و اجتہاد ، فقہی کتب کی تدوین
دوسری وجہ یہ تھی کہ امام ابو حنیفہ نے فقہ کے باریک مسائل میں غور و فکر کیا اور اپنی آراء کو قلمبند کیا، چاہے وہ املا کے ذریعے ہی کیوں نہ ہوں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس طرز کو پسند نہیں کرتے تھے اور سائلین کو اس سے دور رکھتے تھے، چاہے یہ کتب ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کے علاوہ کسی نے لکھی ہوں۔ اگر ہم ان کے اس حوالے سے اقوال کا جائزہ لیں، تو دیکھیں گے کہ وہ ان کتابوں سے اجتناب کی تلقین کرتے تھے جو فقہاء کی آراء کو جمع کرنے کے لئے لکھی گئیں اور لوگوں کو صرف حدیث پر کاربند رہنے کی تلقین کرتے تھے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ایک موقع پر فرمایا:
’’مجھے کسی بھی کتاب کے وضع کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں، اور جو کوئی ایسی کتاب لکھے، وہ بدعتی ہے۔‘‘ نیز، انہوں نے کہا: ’’مالک اور شافعی کی کتب آپ کو پسند ہیں یا ابو حنیفہ اور ابو یوسف کی؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’شافعی مجھے زیادہ پسند ہیں، کیونکہ وہ حدیث سے فتویٰ دیتے ہیں، جب کہ یہ لوگ(امام مالک، طرفین رحمھم اللہ) رائے سے فتویٰ دیتے ہیں۔‘‘ اسی طرح، انہوں نے کہا: ’’رائے پر مبنی کتب کو نہ دیکھو اور نہ ان کے ساتھ مجالست اختیار کرو۔‘‘ نیز فرمایا: ’’ہر وہ کتاب جو بدعت کے طور پر لکھی گئی ہو، وہ بدعت ہی ہے۔‘‘
ابن الجوزی نے امام احمد کے مناقب میں ایک باب باندھا ہے اور ان کا قول نقل کیا:
’’وہ ایسی کتب کو ناپسند کرتے تھے جو تفریع اور رائے پر مشتمل ہوں، اور اثر پر کاربند رہنے کو پسند کرتے تھے۔‘‘
(ایسی مزید روایات مہدی رستم صاحب کے رسالہ کے عربی متن میں ہیں ، جس کا ترجمہ پیش کیا جائے گا)
یہ بیانات واضح کرتے ہیں کہ امام احمد بن حنبلؒ رائے اور اجتہاد کی بنیاد پر فقہ کی کتابیں لکھنے کے حق میں نہیں تھے، خاص طور پر وہ جو حدیث سے ہٹ کر ہوں۔ امام ابو حنیفہؒ اور ان کے ساتھیوں نے فقہ اور تفریعات پر مبنی کتابیں لکھنے کی ابتدا کی تھی، جو امام احمد بن حنبلؒ کی ان سے عمومی مخالفت اور امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں خاص طور پر اختلاف کا ایک سبب بنا۔
قول فیصل :
اگر فقہ کی کتاب مرتب کرنا تنقید کا سبب ہوتا تو کوئی فقیہ طعن و تشنیع کی تلوار سے بچ نہ پاتا۔ اور فقہائے حنابلہ کو دیگر مذاہب سے پہلے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا۔
فقہی کتب لکھنے پر امام احمد کا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر طعن کرنا ، جروحات کرنا ، سراسر نا انصافی ہے ، امام احمد رحمہ اللہ ، جن کی کتب کو پسند کرتے تھے یعنی امام شافعی رحمہ اللہ ، انہی شافعی رحمہ اللہ سے امام اعظم کی فقاہت کی تعریف و توثیق صحیح اسانید سے موجود ہے ۔ لہذا امام احمد کا امام اعظم کی تدوین فقہ پر اعتراض بے انصافی پر مبنی ہے۔
اسی طرح امام احمد کا یہ کہنا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے حجت نہیں ، عجیب ہے ۔ جب کہ امام احمد کے استاد امیر المومنین فی الحدیث امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے تھے
▪︎ اگر کسی مسئلہ میں اپنی رائے سے کچھ کہنے کا حق ( اگر کسی کو ہو تو ) تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللّٰہ اس کے اہل (حقدار) ہیں ۔
(تاریخ بغداد 15/471 ، اسنادہ صحیح )
▪︎ اگر رائے (اجتہاد) کی بات ہو تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سب سے مضبوط رائے والے ہیں۔
(فضائل ابی حنیفہ رح , صفحہ 84 , سندہ صحیح)
اہل الرائے کے بارے میں امام احمد رحمہ اللہ کا موقف انتہائی تنگ نظر تھا ، چونکہ آپ رحمہ اللہ کا اصلی میدان حدیث تھا (فقہاء کی طرح مختلف احادیث میں تطبیق کرنا ، روایات کو کسی خاص اصول کی وجہ سے راجح یا مرجوح قرار دینا ، امام احمد یہ نہ کرتے تھے) ، اس لئے آپ باقی علوم اسلامیہ اور ان کے ماہرین کو خاطر میں نہ لاتے تھے شاید یہی وجہ ہیکہ جید آئمہ دین نے امام احمد رحمہ اللہ کو صرف محدث مانا ہے ، فقیہ نہیں ۔ ذیل میں ہم اس کے دو تین حوالے دیتے ہیں ۔
1) چنانچہ مشہور ثقہ ثبت امام اہل السنت مفسر ، محدث و فقیہ امام محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ کا قصہ مشہور ہے ، جب ان سے امام احمد کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ فقیہ ہرگز نہیں تھے ، یہ سچائی سن کر وقت کے حنابلہ تڑپ اٹھے ۔
امام احمد بن حنبل کے خلاف حق بات کہنے پر متعصب حنابلہ کا مشہور ثقہ ثبت امام محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ پر جسمانی تشدد اور ظلم و ستم :
جب امام محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ نے یہ فرمایا کہ امام احمد فقہاء میں شامل نہ تھے ، اس بات پر امام احمد کے مقلدین سیخ پا ہو گئے ، انہوں نے ابن جریر طبری رحمہ اللہ پر پتھر برسائے ، اتنے پتھر برسائے کہ ان کو گھر میں قید کر دیا ۔
لكن ابن جرير الطبري شيخ المفسرين له كتاب حافل في التاريخ اسمه (تاريخ الأمم والملوك) فـ ابن جرير لما ترجم للإمام أحمد قال: وكان محدثًا.
وسكت ولم يكتب فقيهًا في الترجمة، فجاء الحنابلة فرموه بالحجارة حتى كادوا يقتلونه، حتى إنه انسد الباب من الحجارة التي رميت عليه وضرب بها
(القواعد الفقهية بين الأصالة والتوجيه ١/٤ — محمد حسن عبد الغفار)
امام ابو احمدحسین بن علی بن محمد بن یحییٰ بن عبد الرحمن بن الفضل دارمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
أَوَّلُ مَا سَأَلَنِيْ أَبُوْ بَکْرٍ مُّحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ لِي : کَتَبْتَ عَنْ مُّحَمَّدِ بْنِ جَرِیْرٍ الطَّبْرِيِّ ؟ قُلْتُ : لاَ، قَالَ : لِمَ ؟ قُلْتُ : لأَِنَّہٗ کَانَ لاَ یَظْہَرُ، وَکَانَتِ الْحَنَابِلَۃُ تَمْنَعُ عَنِ الدُّخُوْلِ عَلَیْہِ، فَقَالَ بِئْسَ مَا فَعَلْتَ، لَیْتَکَ لَمْ تَکْتُبْ عَنْ کُلِّ مَنْ کَتَبْتَ عَنْہُمْ وَسَمِعْتَ مِنْ أَبِيْ جَعْفَرٍ ۔
’’امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ نے مجھ سے سب سے پہلا سوال یہ کیا:کیا آپ نے امام محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ سے کچھ لکھا ہے؟میں نے کہا:نہیں، انہوں نے کہا: کیوں؟ میں نے کہا:کیونکہ وہ باہر نہیں نکلتے تھے اور امام احمد بن حنبل کے مقلدین ان کے پاس جانے سے روکتے ہیں۔اس پر انہوں نے کہا:آپ نے بہت برا کیا،کاش!جن سے آپ نے لکھا ہے،ان میں سے کسی سے نہ لکھتے اور صرف امام محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ سے سماعت کا شرف حاصل کر لیتے۔‘‘
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 195/52، وسندہٗ صحیحٌ)
ایک روایت میں امام حسین بن علی تمیمی رحمہ اللہ کے الفاظ یہ ہیں:
لَمَّا رَجَعْتُ مِنْ بَغْدَادَ إِلٰی نِیْسَابُوْرَ؛ سَأَلَنِيْ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقِ ابْنِ خُزَیْمَۃَ، فَقَالَ لِيْ : مِمَّنْ سَمِعْتَ بِبَغْدَادَ ؟ فَذَکَرْتُ لَہٗ جَمَاعَۃً مِّمَّنْ سَمِعْتُ مِنْہُمْ، فَقَالَ : ہَلْ سَمِعْتَ مِنْ مُّحَمَّدِ بْنِ جَرِیْرٍ شَیْئًا ؟ فَقُلْتُ لَہٗ : لاَ، إِنَّہٗ بِبَغْدَادَ لَا یُدْخَلُ عَلَیْہِ لِأَجْلِ الْحَنَابِلَۃِ، وَکَانَتْ تَمْنَعُ مِنْہُ، فَقَال : لَوْ سَمِعْتَ مِنْہُ لَکَانَ خَیْرًا لَّکَ مِنْ جَمِیْعِ مَنْ سَمِعْتَ مِنْہُ سِوَاہُ ۔
’’جب میں بغداد سے نیساپور لوٹا تو امام محمد بن اسحاق خزیمہ رحمہ اللہ نے مجھ سے سوال کیا:آپ نے بغداد میں کس کس سے سنا ہے؟میں نے ایک جماعت کا تذکرہ کیا جن سے میں نے سنا تھا۔انہوں نے دریافت کیا:کیا آپ نے امام محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ سے کچھ سنا ہے؟میں نے کہا:نہیں،کیونکہ بغداد میں حنابلہ کی وجہ سے ان کے پاس کوئی نہیں جا سکتا،وہ ان کے پاس جانے سے روکتے ہیں۔انہوں نے کہا: اگر آپ امام محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ سے سماعت کا شرف حاصل کر لیتے تو ان سب کے مقابلے میں آپ کے لیے بہتر ہوتا جن سے آپ نے سنا ہے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 164/2، تاریخ دمشق لابن عساکر : 195/52، وسندہٗ صحیحٌ بحوالہ امام محمد بن جریر طبری، غلام مصطفی ظہیر امن پوری ، ستمبر 14, 2017 )
2)۔ اسی طرح امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ المتوفی ٤٦٣ هـ نے جب فقہاء کے مناقب پر کتاب لکھی ہے تو ، اس میں صرف تین آئمہ کا ذکر کیا ہے ، امام احمد رحمہ اللہ کا ذکر انہوں نے بھی فقہاء میں نہیں کیا ۔
الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء (مالك والشافعي وأبي حنيفة رضي الله عنهم)
( نکتہ : یہی کتاب جب احناف رحمہ اللہ نے اپنی تحقیق سے چھاپی تو اس میں مناقب احمد کا حصہ بھی شامل کیا گیا ، یہ احناف کا ہی وصف ہیکہ وہ ہر کسی سے حسن سلوک کرتے ہیں ، اللہ اس کا اجر شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ کو دے ، جبکہ دوسری جگہ ہم دیکھتے ہیں امام احمد رحمہ اللہ کے مقلدین سلفی حضرات کوئی کسر نہیں چھوڑتے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر طعن کرنے کی ، چاہے اس کو مجہول سندوں سے غیر مشہور کتابوں کے نسخے ہوں چاہے کچھ اور موقعہ ہو )
3) وقد خالف بعض العلماء في عده من الفقهاء واعتبروه من كبار المحدثين فابن جرير الطبري كان يقول : إنما هو رجل حديث لا رجل فقه . وقد ثارت عليه الحنابلة من أجل هذا . ولم يذكره ابن قتيبة في كتابه المعارف بين الفقهاء . واقتصر ابن عبدالبر في كتابه الانتقاء على الإئمة الثلاثة . وذكره المقدسي في أحسن التقاسيم في أصحاب الحديث فقط . مع ذكره داود الظاهري في الفقهاء . وقال في المدارك إنه دون الإمامة في الفقه وجودة النظر في مأخذه عكس أستاذه الشافعي .
یعنی بعض علماء نے امام احمد کو فقہاء میں شمار کرنے سے اختلاف کیا اور اسے بڑے محدثین میں سے قرار دیا۔ چنانچہ ابن جریر طبری کہا کرتے تھے: "یہ محض حدیث کے آدمی ہیں، فقہ کے نہیں۔" اور اسی وجہ سے حنابلہ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
ابن قتیبہ نے اپنی کتاب المعارف میں انہیں فقہاء میں شمار نہیں کیا۔
ابن عبدالبر نے اپنی کتاب الانتقاء میں صرف تین ائمہ تک محدود رکھا۔
مقدسی نے اپنی کتاب أحسن التقاسيم میں انہیں صرف اصحاب الحدیث میں ذکر کیا، جب کہ انہوں نے داود ظاہری کو فقہاء میں شمار کیا۔
المدارک میں کہا گیا کہ وہ فقہ میں امامت اور اپنے دلائل کی گہرائی میں اپنے استاد شافعی کے برعکس کم تر درجے پر تھے۔
( سير أعلام المحدثين / أحمد رمزي)
مذکورہ حوالوں سے ثابت ہوا کہ بعض آئمہ نے امام احمد کو فقہاء میں شمار نہیں کیا ۔ متعصب حنابلہ نے امام اہل السنت پر جس طرح ظلم کیا ، پتھر برسائے ، قید کیا وہ تو آپ پڑھ چکے ہیں ، اب آتے ہیں متعصب حنابلہ کے امام صاحب کی طرف ، ان کا اہل الرائے سے رویہ کیسا تھا ؟
《1》۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اہل الرائے کے 2 جلیل القدر آئمہ کی کتب سے بھرپور استفادہ فرمایا تھا ، اور وہ اس کا اقرار بھی کرتے تھے۔
حدثني الصوري، قال: أخبرني عبد الغني بن سعيد، قال: أخبرنا أبو طاهر محمد بن أحمد بن عبد الله بن نصر، قال: حدثني إبراهيم بن جابر، قال: حدثني عبد الله بن أحمد بن حنبل، قال:كتب أبي عن أبي يوسف، ومحمد، ثلاثة قماطر، فقلت له: كان ينظر فيها؟ قال: كان ربما نظر فيها،
عبداللہ بن احمد کہتے ہیں کے میرے والد نے ، (امام ابو حنیفہ کے شاگردوں یعنی) قاضی ابو یوسف اور امام محمد بن حسن الشیبانی سے تین بڑے تھیلے علم کے لکھے ، میں نے پوچھا کہ آپ کے والد ان (اہل الرائے کی کتب) کا مطالعہ بھی کرتے تھے ؟ تو ان کے بیٹے نے کہا بیشتر اوقات وہ ان کتب کا مطالعہ کرتے تھے (تاريخ بغداد - الخطيب البغدادي - ج ٣ - الصفحة ٢٢٥ : سندہ صحیح )
اب کوئی متعصب غیر مقلد کہہ سکتا ہے کہ کتب پڑھنے کا مقصد اہل الرائے کی غلطیاں نکالنا بھی ہو سکتا ہے ، لیکن نہیں ، امام احمد کیا کہتے ہیں ؟ قارئیں پڑھیں
اخبرنا احمد بن محمد الصيرفي قال ثنا علي بن عمرو الحريري قال ثنا علي بن محمد القاضي النخعي قال ثنا أبو بكر القاطيسي قال ثنا إبراهيم الحربي قال سألت احمد بن حنبل قلت هذه المسائل الدقاق من أين لك قال من كتب محمد بن الحسن
امام ابراہیم الحربی کہتے ہیں میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا کہ آپ اتنے دقیق مشکل اور باریک بین فقہی مسائل (کا حل) آپ کہا سے لیتے ہیں ؟ تو امام احمد نے کہا امام محمد بن حسن کی کتب سے ۔(اخبار ابی حنیفہ الصیمری وسندہ صحیح ، تاريخ الإسلام - ج ١٢ - الصفحة ٣٦٠ )
معلوم ہوا ، امام احمد اہل الرائے سے فقہ کے مشکل مسائل بھی اخذ کرتے تھے ، لیکن اہل الرائے کے خلاف عوام میں کلام بھی کرتے تھے (یہاں سے امام احمد کے انصاف کا حساب لگا لیجئے) ۔
امام احمد نے اہل الرائے کے امام ، قاضی ابو یوسف سے بھی استفادہ کیا ، بلکہ حدیث کا سب سے پہلا درس ہی قاضی ایو بوسف حنفی سے لیا۔
وقال أبو الفضل العباس بن محمد سمعت أحمد بن حنبل يقول: أول ما طلبت الحديث ذهبت على أبو يوسف القاضي، ثم طلبنا بعد فكتبنا عن الناس.
(تاريخ بغداد 14/255)
فائدہ : یہاں سے معلوم ہوتا ہیکہ امام احمد رحمہ اللہ کسی بھی طرح سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرح فقہ میں ماہر نہ تھے کیونکہ انہوں نے فقہ کے پیچیدہ و مشکل مسائل امام ابو حنیفہ کے شاگرد محمد بن حسن الشیبانی رحمہ اللہ سے اخذ کئے۔ اب محمد بن حسن الشیبانی رحمہ اللہ کی فقاہت کا
کیا عالم تھا ؟ اس بارے میں مکمل تفصیل تو اس مضمون کے آخر میں لنک میں موجود ہے ،
امام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ (م۱۸۹ھ) کا مقام و مرتبہ ائمہ و علماء کی نظر میں
سرسری طور پر یہ جان لیں کہ امام شافعی ، اپنے اساتذہ میں سے سب سے ماہر ترین فقیہ امام
محمد بن حسن الشیبانی کو مانتے تھے ، وہ خود اقرار کرتے کہ محمد بن حسن الشیبانی جیسا میں نے اور کوئی نہیں دیکھا ، میں نے اس سے اونٹ کے بوجھ برابر علم حاصل کیا ہے ، اور یہ کہ میں نے کسی فقیہ کو نہیں دیکھا کہ اس کا چہرہ متغیر نہ ہو جب کوئی مشکل سوال اس سے پوچھا جائے سوائے امام محمد رحمہ اللہ کے ۔
قارئیں یہاں سے ایک موازنہ پیش خدمت ہے ۔
امام احمد کے نزدیک سب سے بہترین فقاہت امام شافعی کی ہے(یعنی امام احمد کا فقہ میں درجہ امام شافعی کے بعد ہے ، ان سے کم ہے) ۔
جب کہ امام شافعی کے مطابق سب سے ماہر فقیہ امام محمد ہیں ، یاد رہے یہاں امام شافعی نے امام محمد کی فقاہت کو امام مالک پر ترجیح دی ہے(یعنی امام شافعی کا درجہ فقہ میں امام محمد سے کم ہے ) ۔
اور امام محمد رحمہ اللہ کی فقاہت امام ابو یوسف کے بعد ہے اور سب سے اوپر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں جو کہ استاد ہیں ابو یوسف کے بھی اور امام محمد کے بھی ، رحمھم اللہ اجمعین
یعنی امام ابو حنیفہ کی فقاہت کو امام احمد کے استاد امام شافعی بھی مانتے ہیں ،
امام احمد کے استاد کے استاد یعنی محمد رحمہ اللہ بھی مانتے ہیں ،
بلکہ امام مالک رحمہ اللہ ، جو امام محمد کے بھی شیخ ہیں ، وہ بھی فقاہت ابو حنیفہ کے گرویدہ ہیں ۔ یہاں سے اندازہ لگائیں کہ امام احمد جن کو پیشتر آئمہ نے فقیہ تک نہیں کہا ، اور جن کا درجہ فقہ میں امام ابو حنیفہ سے کتنا کم تر ہے ، وہ اگر ایسے اعتراض کریں گے کہ ابو حنیفہ کی رائے مینگی جیسی ہے ، ابو حنیفہ کی رائے کمزور ہے ، اس میں تنقیص کس کی ہے ؟ ظاہر ہے امام احمد رحمہ اللہ کی ۔
بقول امام ابن جریر ، امام احمد فقیہ ہی نہ تھے ، ابن عبدالبر نے امام احمد کا تذکرہ فقہاء میں ہی نہ کیا ، وہ امام احمد ، کیسے امام ابو حنیفہ کی فقہ پر انگلی اٹھا سکتے ہیں ؟ جن کو آئمہ نے فقیہ تک نہ کہا۔
جو فقہ میں امام ابو حنیفہ کیا ان کے شاگردوں کے درجہ کے بھی نہیں ہیں۔
وہ کیسے فقہ میں اتنی بصیرت رکھنے والے امام ابو حنیفہ پر نکتہ چینی کر سکتے ہیں ؟
امام احمد کے پسندیدہ استاد ، امام شافعی واشگاف الفاظ میں اعلان کرتے ہیں کہ سارے لوگ فقہ میں عیال ابی حنیفہ ہیں (اللہ امام شافعی سے راضی ہو ، ان کا یہ قول سچ ہوا ، امام احمد رحمہ اللہ ، جو کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے انتہائی غیر منصفانہ رویہ رکھتے ہیں اور ناجائز جرح کرتے ہی ، وہ بھی فقہ میں آئے ہیں تو امام صاحب کے در پر ، ابو حنیفہ کے علمی سمندر سے ، امام احمد نے بھی اپنی فقہی پیاس بجھائی ہے ، لہذا ثابت ہوا کہ سب لوگ فقہ میں ابو حنیفہ کے محتاج ہیں ۔ )
اہل الرائے سے علم حاصل کرنے کے بعد ، امام احمد رحمہ اللہ کا اہل الرائے کے ساتھ غیر منصفانہ رویہ :
▪︎ قال عبد اللَّه: سمعت أبي يقول: أهل الرأي لا يروى عنهم الحديث.
امام احمد نے کہا اہل الرای سے احادیث روایت نہیں کی جائے گی. "العلل" برواية عبد اللَّه (١٧٠٧)
حالانکہ راوی کے حفظ و عدالت کے ہوتے ہوئے اہل الرائے ہونا یہ سرے سے کوئی علت ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے اس سے حدیث روایت نا کی جائے نا ہی اہل علم میں سے آج تک کسی نے صحت حدیث کے لئے ایسی کوئی شرط مقرر فرمائی ہے کہ راوی رائے و اجتھاد سے پیدل ہو۔
▪︎ شعیب ابن اسحاق جوکہ امام احمد کے نزدیک خود صاحب حفظ و عدالت تھا ان کے متعلق امام احمد سے پوچھا گیا تو جواب میں امام احمد نے کہا
وقال عبدالله في العلل ومعرفة الرجال :
3127 - وَسَأَلته عَن شُعَيْب بن إِسْحَاق قَالَ : مَا أرى بِهِ بَأْسا وَلكنه جَالس أَصْحَاب الرَّأْي كَانَ جَالس أَبَا حنيفَة . یعنی امام احمد کہتے ہیں میرے نزدیک اس راوی میں کوئی خرابی موجود نہیں ہے سوائے یہ کہ اصحاب الرائ کی مجالس اور امام ابو حنیفہ کی مجلس میں بیٹھتا تھا.
قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ راوی میں ایسی کوئی خرابی موجود نہیں جس کی وجہ سے اس کی حدیث مشکوک ہو لیکن پھر بھی امام احمد رحمہ اللہ کو ان سے اصحاب الرائے کی مجالس میں بیٹھنے کا گلہ ہے ۔ یعنی ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان کرنے کے قابل ہے ، وہ تمام شرائط جو محدثین رکھتے ہیں اس پر پورا اترتا ہے ، اس کے باوجود امام احمد نے اس سے خرابی یہ نکالی کہ وہ امام ابو حنیفہ کی مجلس میں بیٹھتا ہے ، یہ سراسر تعصب ہے ، ابو حنیفہ کی مجلس میں تو عبداللہ بن مبارک بھی بیٹھتے تھے ، وہی عبداللہ بن مبارک جن سے صحیح اسانید سے امام ابو حنیفہ کے مناقب منقول ہیں ۔ بہرحال امام احمد کا اہل الرائے سے رویہ غیر منصفانہ ہے۔
▪︎ امام ابو حنیفہ کے مشہور شاگرد امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ کے متعلق امام احمد سے پوچھا گیا کہ محمد بن حسن شیبانی جو کہ امام ابو حنیفہ کے شاگرد ہیں اور اصحاب الرائے میں سے ہے انکے بارے میں کیا فرماتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا میں ان سے کچھ بھی روایت نہیں کرتا ۔ سألت ابی عن محمد بن الحسن صاحب ابی حنیفة صاحب الرای قال لا اروی عنه شیئا، ( العلل ومعرفۃ الرجال 5329 مع 5330)
حالانکہ امام احمد رحمہ اللہ جن کی شاگردی پر ناز کرتے تھے اور کہتے تھے کہ فقہ و حدیث صرف شافعی رحمہ اللہ میں ہے ، وہ شافعی رحمہ اللہ امام محمد بن حسن رحمہ اللہ کے گن گاتے نظر آتے ہیں ، مسند شافعی ہو یا کتاب الام ، ہر جگہ امام شافعی رحمہ اللہ ، اپنے استاد محمد بن حسن الشیبانی کی علمی جلالت کے گرویدہ پائے جاتے ہیں ، قارئین تفصیل مضمون کے آخر میں لنک پر دیکھ سکتے ہیں ۔ معلوم ہوا ، امام احمد بن حنبل کا امام محمد سے رویہ نا انصافی پر مبنی تھا اور اپنے استاد شافعی رحمہ اللہ کے موقف کے صریح مخالف تھا۔
▪︎ اسی طرح امام قاضی ابو یوسف کے جید لائق شاگرد امام ابو یعلی معلی بن منصور رحمہ اللہ ثقہ ہیں ، امام بخاری نے ان سے صحیح میں روایت لی ہے ، تمام آئمہ ان کی تعریف و توصیف کرتے نظر آتے ہیں سوائے امام احمد کے ، جنہوں نے اپنے اس انوکھے رویہ پر کوئی جواب نہیں دیا ۔ بعض کی رائے یہ ہیکہ امام احمد نے ان پر جھوٹ کی تہمت بھی لگائی تھی لیکن ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی نفی کی ہے ، البتہ امام احمد کے اقوال سے معلوم ہوتا ہیکہ چونکہ امام معلی بن منصور رازی ، حنفی تھے ، بس اسی وجہ سے انہوں نے ان سے حدیث نہ لی ۔ امام احمد کہتے تھے کہ معلی بن منصور اہل الرائے سے ہیں ، ان کی کتب تصنیف کرتے ہیں لہذا وہ جھوٹ سے بچ نہ سکتے ہیں ، یہ بھی امام احمد کا ایک غلط اندازہ ہے ، کتنے ہی لوگ امام ابو حنیفہ یا صاحبین کی مجلس میں بیٹھتے تھے ، بخاری شریف میں کتنے ہی راوی حنفی ہیں ، کیا وہ سب بھی جھوٹے تھے ؟ مکی بن ابراہیم جھوٹے تھے ؟ ابو عاصم النبیل ، عبداللہ بن مبارک ؟
▪︎ ایک مشہور ثقہ امام ہیں جن کا نام ہے حماد بن دلیل رحمہ اللہ ، خطیب بغدادی لکھتے ہیں
٤٢٠٦ - حَمَّاد بْن دليل أَبُو زيد قاضي المدائن حدث عَنْ سفيان الثوري، وعمر بْن نافع، والحسن بْن عمارة، وأبي حنيفة النعمان بْن ثابت، وَكَانَ قد أخذ الفقه عَنْ أَبِي حنيفة.
یعنی امام حماد بن دلیل نے علم فقہ امام ابو حنیفہ سے سیکھا
ان کی توثیق پیش خدمت ہے
1...امام یحی بن معین کہتے ہیں لیس به بأس ھو ثقة
دوسری جگہ کہتے ہیں حماد بن دلیل ابو زید قاضی المدائن وکان ثقة.. (تاریخ ابن معین روایۃ الدوری 4/376)
2...ابن عمار کہتے ہیں حماد بن دلیل.. وکان من ثقات الناس
( تاریخ بغداد 8/148)
3...امام ابو داؤد صاحب السنن کہتے ہیں ابو زید قاضی المدائن لیس به بأس
(تاریخ بغداد 8/148)
4...امام مغلطائی کہتے ہیں ذکرہ ابو حفص ابن شاھین فی جملة الثقات قال ھو عندی فی الطبقة الثالثة من المحدثین..
(اکمال تھذیب الکمال 4/138)
5...وقال ابن ابی حاتم عن ابیه من الثقات
(اکمال تھذیب الکمال رقم 1336)
اسی طرح بہت سارے ائمہ حدیث نے اسکی توثیق کی ہے۔
اب چونکہ حماد بن دلیل جوکہ ثقہ امام ہیں انھوں نے علم فقہ امام ابو حنیفہ سے حاصل کیا تھا ، اس بنیاد پر امام احمد رحمہ اللہ رائے و قیاس کی مخالفت کے سبب ان پر جرح کرنے پر مجبور ہوگئے۔ چنانچہ مھنی بن یحییٰ کہتے ہیں سألت احمد عن حماد بن دلیل قال کان قاضی المدائن لم یکن صاحب حدیث کان صاحب رای قلت سمعت منه شیئا قال حدیثین.
میں نے امام احمد سے پوچھا حماد بن دلیل کے بارے میں تو انھوں نے کہا کہ مدائن کے قاضی تھے لیکن صاحب حدیث نہ تھے (یعنی حدیث سے شوق و شغف نہیں رکھتے تھے) بلکہ صاحب رای تھے (یعنی قیاس و اجتھاد کے فاعل و قائل تھے) میں نے پوچھا کیا اپ نے ان سے کچھ سنا ہے امام احمد نے کہا ہاں صرف دو حدیثیں سنی ہیں۔ (موسوعة اقوال الإمام أحمد رقم 612)
حافظ ابن حجر رح انکا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ﺣﻤﺎﺩ اﺑﻦ ﺩﻟﻴﻞ ﻣﺼﻐﺮ ﺃﺑﻮ ﺯﻳﺪ ﻗﺎﺿﻲ اﻟﻤﺪاﺋﻦ ﺻﺪﻭﻕ ﻧﻘﻤﻮا ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺮﺃﻱ
تقریب التھذیب رقم 1497
یعنی حماد بن دلیل صدوق درجے کا راوی ہے رائے کی وجہ سے ان پر اعتراض کیا گیا ہے ۔
علامہ البانی رائے کے اس اعتراض کے جواب میں لکھتے ہیں قلت: وهذا ليس بجرح، فالحديث جيد الإسناد میں( البانی )کہتا ہوں یہ سرے سے جرح ہی نہیں ہے لہذا حدیث اعلی سند والی ہے انتہی (سلسلۃ الأحاديث الصحیحۃ رقم 1233)
معلوم ہوا کہ رائے و اجتھاد کی مخالفت پر مبنی جرح مردود ہوتی ہے
لہذا معلوم ہوا ، فقہی کتب اور اہل الرائے کی وجہ سے امام احمد کی جرح ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر مردود ہے ۔ اور اگر کوئی مجتہد اجتہاد نہ کرے اور اپنی رائے پیش نہ کرے تو پھر مجتہد کی حیثیت کیا رہی؟ اور وہ کیا چیز ہے جو اسے مجتہد بناتی ہے؟ فقہی کتب کی تدوین ، احادیث کی کتب سے بھی اہم تھی کیونکہ حدیث کی سمجھ فقہ سے آتی ہے جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے لکھا ہے فقہاء حدیث کے معانی بہتر جانتے ہیں۔ (جامع ترمذی 1/118)۔
امام احمد کے دونوں اساتذہ (شافعی ، ابن مبارک ) نے ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا دفاع کیا ہے ، لہذا امام احمد کا فقہ و رائے کی بناء پر امام صاحب پر یا اہل الرائے پر جرح کرنا سراسر نا انصافی ہے۔
وجہ نمبر 3:
ایک اور اہم وجہ یہ تھی کہ امام ابو حنیفہؒ نے اپنی اصولوں کی بنیاد پر بعض ایسی احادیث کو چھوڑ دیا تھا جنہیں امام احمد بن حنبلؒ صحیح سمجھتے تھے اور ان پر عمل لازم قرار دیتے تھے۔
قول فیصل :
بعض احادیث کو ترک کرنا، امام ابو حنیفہؒ کے اصولِ حدیث پر مبنی تھا اور یہ بھی ایک اجتہادی معاملہ ہے ، امام صاحب کے سیرت نگاروں نے اس اعتراض کا کافی و شافی جواب دیا ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے بھی عمل مدینہ کی خاطر بعض صحیح حدیثوں کو ترک کیا ہے ، امام احمد بن حنبل نے ان پر جرح کیوں نہیں کی ؟
وجہ نمبر 4 : بعض حنفی معتزلی قاضیوں کا امام احمد پر تشدد :
امام احمد نے امام ابو حنیفہ پر جرح کی ہے ، اس کا ایک سبب بعض حضرات یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ جب خلق قرآن کا مسئلہ آیا تو بعض معتزلی قاضیوں نے امام احمد پر بہت ظلم کئے ، وہ معتزلی قاضی فروع میں حنفی تھے ، اس وجہ سے امام احمد ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے نالاں رہتے تھے۔
امتحانِ خلق قرآن میں انصاف کا امتحان:
امام احمد کا سخت رویہ انصاف یا انتقام؟
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے طرزِ عمل میں تشدد کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ فتنۂ خلقِ قرآن کے باعث انہوں نے بہت سے عادل، ثقہ اور معتبر راویوں کو بھی ترک کر دیا تھا۔ مثال کے طور پر، امام احمد پر ظلم کرنے والے بعض افراد فروع میں اگرچہ حنفی تھے، لیکن عقائد میں امام ابو حنیفہؒ کے طریقے پر نہ تھے، بلکہ معتزلی فکر سے وابستہ تھے۔ بالکل اسی طرح جیسے شوافع میں قاضی عبدالجبار معتزلی شافعی تھے، یا جیسے محدثین میں بعض ناصبی تھے جیسے جوزجانی، اور بعض شیعہ تھے جیسے عبدالرزاق الصنعانی اور الحاکم، یا بعض روافض جیسے ابن خراش۔
بہرحال، چند بدعقیدہ معتزلیوں کی وجہ سے امام احمد نے تمام حنفیہ سے کنارہ کشی اختیار کرلی، حتیٰ کہ صدوق راوی قاضی ابو یوسف سے بھی روایت لینا ترک کر دیا۔
یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ امام احمد کا یہ تشدد صرف حنفیہ کے ساتھ خاص نہ تھا بلکہ محدثین کے ساتھ بھی تھا۔ مشہور امامِ علل، علی بن مدینی کو بھی امام احمد نے اسی فتنہ کے بعد ترک کر دیا تھا۔ (المسند للإمام أحمد ٣٩/ ٤٤١، ٤٦٤)
اس کی وجہ یہ تھی کہ علی بن مدینی نے جان کے خوف سے فتنۂ خلقِ قرآن کے دوران، اس عقیدے کو زبانی طور پر قبول کر لیا تھا۔ اسی سبب امام احمد نے ان سے روایت ترک کر دی اور ان سے ناراضی اختیار کی، کیونکہ علی بن مدینی کی بزدلی کے سبب ہی امام احمد کو کوڑوں کی اذیت سہنی پڑی۔(الضعفاء ٣/ ٢٣٩، الميزان ٣/ ١٣٨)(تاريخ بغداد ١١/ ٤٦٩، مناقب الإمام أحمد ص ٤٧٦، تهذيب الكمال ٢١/ ٢٥ – ٢٧، سير أعلام النبلاء ١١/ ٥٤ – ٥٥)
امام احمد نے علی بن مدینی سے مروی ایک روایت کو جھوٹی قرار دیا، گویا بالواسطہ انہیں کذّاب بھی کہا، جیسا کہ یہ روایت دیکھیے:
قال المروذي: وقلت لأبي عبد اللَّه: إن علي بن المديني حدث عن الوليد بن مسلم حديث عمر: كلوه إلى خالقه فقال: هذا كذب، ثم قال: هذا كتبناه عن الوليد؛ إنما هو: فكلوه إلى عالمه هذا كذب.
«العلل» رواية المروذي وغيره (٢٧٣)
مروزی کہتے ہیں: میں نے امام احمد بن حنبل سے عرض کیا: علی بن مدینی نے ولید بن مسلم سے ایک حدیث روایت کی ہے جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ الفاظ ہیں: "کلُوه إلى خالقه"۔(یعنی اسے اس کے خالق کے سپرد کر دو).امام احمد نے فرمایا: یہ جھوٹ ہے! پھر فرمایا: ہم نے یہ حدیث ولید (بن مسلم) سے لکھی ہے، اس میں دراصل الفاظ یوں ہیں: "فکلُوه إلى عالِمه" (یعنی اسے اس کے علم رکھنے والے کے سپرد کر دو). یہ (پہلا) قول جھوٹ ہے۔
اس روایت کی مزید تفصیل خطیب بغدادی نے بیان کی ہے۔ تقریباً تمام سلفی اور غیر مقلدین متفق ہیں کہ امام احمد نے علی بن مدینی کو ترک کیا اور ان سے سخت ناراض ہوئے۔
قال الخطيب البغدادي: «أخبرنا أبو طالب عمر بن إبراهيم الفقيه، أخبرنا عيسى بن حامد القاضي، حدثنا أبو بكر أحمد بن محمد الصيدلاني، حدثنا أبو بكر المروذي قال: قلتُ لأبي عبد الله أحمد بن حنبل: إن علي بن المديني يحدث عن الوليد بن مسلم، عن الأوزاعي، عن الزهري، عن أنس، عن عمر: «كلوه إلى خالقه»؟ فقال أبو عبد الله: كذب، حدثنا الوليد بن مسلم مرتين ما هو هكذا، إنما هو: «كلوه إلى عالمه». قلت لأبي عبد الله: إن عباسًا العنبري قال لما حدث به بالعسكر: قلت لعلي بن المديني: إنهم قد أنكروه عليك! فقال: حدثتكم به بالبصرة، وذكر أن الوليد أخطأ فيه، فغضب أبو عبد الله وقال: فنعم، قد علم - يعني: علي بن المديني - أن الوليد أخطأ فيه فلم أراد أن يحدثهم به؟! يعطيهم الخطأ! وكذبه أبو عبد الله
غیر مقلدین نے خود لکھا ہے:
«علي بن مديني» وہ ہیں جن کی حدیث امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ترک کر دی تھیں، کیوں کہ ابتلاء کے ایام میں انہوں نے بھی جان بچانے کے لیے قرآن کو مخلوق کہہ دیا تھا،
(الشيخ محمد حسين ميمن حفظه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7529)
اسی طرح امام عقیلی نے لکھا ہیکہ امام احمد نے علی بن مدینی کا نام کتابوں سے کاٹ دیا ۔
ﻭﻗﺮﺃﺕ ﻋﻠﻰ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﻛﺘﺎﺏ اﻟﻌﻠﻞ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ، ﻓﺮﺃﻳﺖ ﻓﻴﻪ ﺣﻜﺎﻳﺎﺕ ﻛﺜﻴﺮﺓ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﻋﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، ﺛﻢ ﻗﺪ ﺿﺮﺏ ﻋﻠﻰ اﺳﻤﻪ ﻭﻛﺘﺐ ﻓﻮﻗﻪ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺭﺟﻞ، ﺛﻢ ﺿﺮﺏ ﻋﻠﻰ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻛﻠﻪ، ﻓﺴﺄﻟﺖ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻓﻘﺎﻝ: ﻛﺎﻥ ﺃﺑﻲ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻨﻪ ﺛﻢ ﺃﻣﺴﻚ ﻋﻦ اﺳﻤﻪ، ﻭﻛﺎﻥ ﻳﻘﻮﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺭﺟﻞ، ﺛﻢ ﺗﺮﻙ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﺑﻌﺪ ﺫاﻙ
عقیلی کہتے ہیں میں نے عبد اللہ بن احمد پر ان کے والد کی کتاب 'العلل' پڑھی۔ تو میں نے اس میں ان کے والد (امام احمد) کی طرف سے علی بن المدینی کے بارے میں بہت سی روایتیں دیکھیں۔ پھر میں نے دیکھا کہ ان کے نام پر قلم پھیرا ہوا ہے، اور ان کے نام کے اوپر لکھا ہوا ہے: 'ہمیں ایک شخص نے حدیث بیان کی'، پھر پوری حدیث پر بھی قلم پھیرا گیا تھا۔ تو میں نے عبد اللہ بن احمد سے اس بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: میرے والد پہلے ابن المدینی سے حدیث بیان کرتے تھے، پھر بعد میں ان کا نام لینا چھوڑ دیا، اور صرف اتنا کہتے تھے: 'ہمیں ایک شخص نے حدیث بیان کی'، اور پھر بعد میں ان کی حدیث کو چھوڑ دیا۔"
یہ تمام روایات واضح کرتی ہے کہ امام احمد، علی بن مدینی سے سخت ناراض تھے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ ان کی روایت میرے رجسٹر سے کاٹ دو۔ عقیلی نے "الضعفاء" میں یہ بات نقل کی اور علی بن مدینی کو ان کے نزدیک ضعیف شمار کیا۔ حتیٰ کہ روایت میں آتا ہے کہ امام احمد علی بن مدینی کے سلام کا جواب تک نہ دیتے تھے۔
قَالَ أَبُو بكر: وسمعت رجلا من أهل العسكر يَقُولُ لأبي عَبْد اللَّه: عليّ بن المديني يقرئك السلام، فسكت.(تاريخ بغداد ١١/ ٤٦٩)
علی بن مدینی کا فتنۂ خلق قرآن کو زبانی طور پر قبول کرنا، امام احمد کا ان سے ناراض ہو جانا، ترکِ روایت کرنا، شدید غصہ کرنا—ان تمام واقعات کی تفصیل قارئین درج ذیل کتاب میں پڑھ سکتے ہیں:
"المحنة وأثرها في منهج الإمام أحمد النقدي"
تالیف: عبداللہ بن فوزان الفوزان (سلفی عالم)
ناشر: دار ابن الجوزي
اس بحث کو ابو اسحاق الحوینی (سلفی محقق) نے بھی اپنی کتب میں نقل کیا ہے اور آخر میں لکھا کہ: وإنما قال ابن المديني ما قال تقيَّةً لا عقيدةً، فأنكر عليه الإمامُ أحمد أشدّ الإنكار، وَهَجَرَهُ، وبدَّعَهُ، وكذَّبَهُ فيما روى.
ابن المدینی نے جو کچھ کہا، وہ عقیدے کے طور پر نہیں بلکہ محض تقیّہ کے طور پر کہا تھا۔ مگر امام احمد نے اس پر سخت ترین انکار کیا، اس سے قطع تعلق کیا، اسے بدعتی قرار دیا، اور اس کی روایت کو جھوٹا قرار دیا۔ (المنيحة بسلسلة الأحاديث الصحيحة ١/٢٤٥، أبو إسحاق الحويني الأثري، حجازي محمد شريف)
اب سوال یہ ہے:
کیا صرف فتنہ کو زبانی طور پر قبول کرنے سے کسی راوی کی عدالت یا ضبط پر اثر پڑتا ہے؟ ہرگز نہیں! چنانچہ کسی محدث نے علی بن مدینی کو ضعیف یا متروک قرار نہیں دیا، لیکن امام احمد نے پھر بھی انہیں ترک کر دیا، صرف اس فتنہ کی وجہ سے۔یہ ایک قسم کا تشدد ہے، کیونکہ علی بن مدینی کی عدالت و ضبط میں کوئی فرق نہ آیا تھا، لیکن چونکہ ان کی بزدلی کے سبب امام احمد کو کوڑے کھانے پڑے، لہٰذا انہوں نے ثقہ راوی کو بھی ترک کر دیا۔
تو پھر یہی منطق امام ابو حنیفہؒ اور ان کے تلامذہ پر بھی کیوں نہیں لاگو ہوتی؟ امام احمد، قاضی ابو یوسف کو صدوق کہتے ہیں، لیکن ان سے روایت نہیں کرتے — کیا یہ تشدد نہیں؟ امام ابو حنیفہ اور امام محمد پر "رائے" کی بنیاد پر غیر مفسر جرح کرتے ہیں، ان سے روایت نہیں لیتے، لیکن دوسری طرف جنہیں "کذاب" کہتے ہیں، ان سے روایت لے لیتے ہیں — کیا یہ دوہرا معیار نہیں؟ (اس پر ہم نے نیچے امام احمد رحمہ اللہ کی امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح روایت نمبر 1 میں مفصل بحث کی ہے۔)
اصل نکتہ:
کیا امام احمد کے ترک کی بنا پر علی بن مدینی متروک یا ضعیف ہو گئے؟ نہیں۔
تو پھر قاضی ابو یوسف جو کہ صدوق ہیں، ان پر غیر مقلدین جرح کیوں کرتے ہیں؟
یہ غیر مقلدین کا دوغلا رویہ کیوں؟
جب محدث علی بن مدینی جیسے شخص نے جان بچانے کی خاطر فتنہ قبول کیا — ایک کوڑا بھی نہ کھایا — (تاريخ بغداد ١١/ ٤٧٠ – ٤٧١، تهذيب الكمال ٢١/ ٢٨ – ٢٩، سير أعلام النبلاء ١١/ ٥٧، تهذيب التهذيب ٧/ ٣١٠، ذكر المحنة لحنبل ص ٣٦ – ٣٧)
تو غیر مقلدین ان کے حق میں نرم بیانی اختیار کرتے ہیں: لیکن دوسری طرف امام ابو حنیفہؒ، جنہوں نے خود قرآن کو مخلوق نہیں کہا (جیسا کہ سب سے اہم یہ کہ خود امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ عقیدہ خلق قرآن کے ہرگز قائل نہ تھے۔ سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل، يقول: لم يصح عندنا أن أبا حنيفة كان يقول: القرآن مخلوق (تاريخ بغداد ج 15 ص 516، اسناد صحیح) ، اور جابر حکمران کے کوڑے کھائے، تو ان پر غیر مقلدین کیچڑ اچھالتے ہیں کہ وہ بدعقیدہ تھے؟ کیا یہ سراسر تعصب نہیں؟
خلاصہ:
اگر کسی نے فتنۂ خلقِ قرآن میں حصہ لیا، یا زبانی طور پر اس کا اقرار کیا، جیسا کہ علی بن مدینی، اور ان کی وجہ سے امام احمد کو کوڑے پڑے، پھر بھی غیر مقلد ان پر بات نہیں کرتے۔ لیکن دوسری طرف اگر چند معتزلی قاضی صرف فروع میں حنفی ہوں، جیسے کہ (قاضی عبدالجبار معتزلی شافعی، جوزجانی ناصبی، عبدالرزاق الصنعانی شیعہ، ابن خراش رافضی)، تو ان کی وجہ سے امام احمد کا تمام احناف سے نالاں ہونا ناقابلِ فہم ہے۔
فائدہ:
اگر کوئی راوی ثقہ ہو لیکن قدری، جہمّی، معتزلی یا شیعہ ہو، تو غیر مقلدین اسے محدث مانتے ہیں، اس پر طعن نہیں کرتے۔ لیکن اگر کوئی بد عقیدہ شخص فروع میں حنفی ہو، تو پھر تمام احناف کو بدنام کیا جاتا ہے۔جیسے کہ ایک قدری راوی کی وجہ سے تمام محدثین پر طعن نہیں ہوتا، ویسے ہی چند معتزلیوں کی وجہ سے تمام احناف یا شوافع پر طعن نہیں ہونا چاہیے۔
قولِ فیصل :
یہ نہایت غیر معقول اور مضحکہ خیز منطق ہے کہ چونکہ بعض قاضی فروع میں حنفی تھے اور عقائد میں معتزلی، تو اس بنیاد پر تمام احناف بالخصوص امام ابو حنیفہؒ پر جرح کی جائے۔ اگر یہی اصول ہے تو پھر سوال یہ ہے: کیا وہ معتزلی قاضی مسلمان نہ تھے؟ اگر مسلمان تھے، اور باوجود اس کے امام احمد پر ان کے ہاتھوں ظلم ہوا، تو کیا اس ظلم کی وجہ اسلام ہے؟ ہرگز نہیں! تو پھر یہی منصفانہ اصول امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں کیوں نہیں اپنایا جاتا؟ لہٰذا محض بعض معتزلیوں کے فروعی تعلق کی بنیاد پر امام اعظمؒ اور ان کے تلامذہ پر طعن کرنا نہ علمی ہے، نہ منصفانہ، اور نہ ہی قابلِ قبول۔
خلاصہ کلام :
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بعض وجوہات کی بناء پر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب پر کلام کیا ہے ۔ وہ وجوہات درخ ذیل ہیں
1۔ عقائد کے بعض مسائل
2۔ رائے و اجتہاد
3۔ فقہی کتب لکھنا وغیرہ وغیرہ
4.بعض حنفی معتزلی قاضیوں کا امام احمد پر تشدد
لیکن اصول جرح و تعدیل کے لحاظ سے کوئی ایک وجہ بھی ایسی نہیں ہیکہ امام احمد کی جرح کو صحیح مانا جائے ، اگر امام احمد کی جروحات کو صحیح مانا جائے تو ان بدعت و کفر کے فتووں سے نہ صرف امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر حرف آئے گا بلکہ
☆عقائد میں اختلاف کی وجہ سے امام بخاری پر بھی امام احمد کا فتوی لگے گا ۔
☆ فقہی کتب لکھنے پر امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ، ابن جریر طبری ، امام شافعی اور ہزاروں آئمہ و فقہاء بالخصوص حنبلی فقہاء پر بدعت کا فتوی لگے گا۔
☆ صحیحین کی صحت سے پاتھ دھونا پڑے گا کیونکہ امام اوزاعی جن سے 100 سے زیادہ روایتیں بخاری و مسلم میں منقول ہیں ، ان کو امام احمد نے ضعیف کہا ہے۔
☆احادیث کی کتب سے اگر ان رواہ کو نکال دیا جائے ، جو اہل الرائے سے تعلق رکھتے تھے تو ، امت ذخیرہ حدیث کے ایک بہت بڑے حصے سے محروم ہو جائے گی
☆امام احمد اپنے اساتذہ کے مخالف صف میں پائے جائے گے ، بالخصوص امام شافعی رحمہ اللہ کے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی تمام جروحات سے نہ تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی عدالت پر کوئی حرف آتا ہے ، نہ حافظہ پر ، نہ ضبط روایت پر ۔ اور جو جروحات منقول ہیں ، وہ اصول حرح و تعدیل کے لحاظ سے مضبوط نہیں۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ جرح و تعدیل میں معتدل امام سمجھے جاتے ہیں (جیسے بعض محدثین متشدد ہیں مثلا امام ابو حاتم ، امام نسائی ، دار قطنی رحمھم اللہ وغیرہ ) ، معتدل وہ جو جرح و تعدیل میں انصاف سے کام لیتے ہیں ، لیکن جب امام احمد جیسے معتدل محدث کا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ اتنا غیر منصفانہ رویہ ہے تو باقی متشدد محدثین کا رویہ کیا ہو گا ، خود اندازہ لگا لیں ۔
ہم نے اس مضمون میں درج ذیل مضامین سے استفادہ کیا ہے ، جملہ مضامین النعمان سوشل میڈیا سروسز کی ویب سائٹ پر موجود ہیں ۔
● امام ابوحنیفہ ثقہ ہیں۔ سلسلہ تعریف و توثیق ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، سلسلہ نمبر 20 اور 21
● امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،
جلیل القدر محدث و فقیہ امیر المومنین فی الحدیث امام عبد اللہ ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ
یہ مضمون مہدی رستم صاحب کے عربی رسالہ کا ترجمہ ہے
محترم محمد حسیب صاحب حفظہ اللہ
---------------------------------------------------------------------------------------------
《النعمان سوشل میڈیا سروسز》---------------------------------------------------------------------------------------------
امام احمد رحمہ اللہ کی امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح
---------------------------------------------------------------------------------------------
---------------------------------------------------------------------------------------------
امام احمد رحمہ اللہ کی امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح
اس پوسٹ میں ہم مختصرا امام احمد سے جروحات کا جائزہ لیں گے ، اس پوسٹ کو پڑھنے سے پہلے قارئیں النعمان سوشل میڈیا سروسز کی ویب سائٹ پر موجود درج ذیل مضمون کو لازمی پڑھیں ، کیونکہ اس پوسٹ میں ہم بارہا اسی مضمون کا اختصار نقل کریں گے ، مکمل تفصیل ، جوابات ، دلائل کیلئے دیکھیں ہمارا مضمون ۔
• امام ابو حنیفہ پر متفرق اعتراضات -
اعتراض نمبر 35 : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح
1)۔ قال ابن أبي حاتم:
نا محمد بن حمويه بن الحسن قال سمعت الحسين بن الحسن المروزي يقول: ذكر أبو حنيفة عند أحمد بن حنبل فقال: رأيه مذموم وبدنه لا يذكر.
جب امام احمد بن حنبل کے سامنے امام ابو حنیفہ کا ذکر آیا تو انہوں نے کہا: "ان کی رائے قابل مذمت ہے اور ان کا ذکر کرنا مناسب نہیں۔"
( الجرح والتعديل لابن أبي حاتم ٨/٤٥٠ )
جواب نمبر 1 :-
امام احمد بن حنبل کا دوہرا معیار
اور امام ابو حنیفہؒ کے خلاف غیر منصفانہ ( نا انصافی والا ) رویہ -
جب ہم امام احمد بن حنبلؒ جیسے جلیل القدر محدث کی علمی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو بلاشبہ ان کے زہد، تقویٰ، حفظ حدیث اور سنت سے محبت کی مثالیں سامنے آتی ہیں۔ مگر جب یہی امام احمد ، امام ابو حنیفہؒ اور انکے اصحاب ( امام ابو یوسف اور امام محمد ) کے متعلق جو کچھ فرماتے ہیں اس سے امام احمد کا کچھ اور ہی ( سخت مزاجی والا ) پہلو ظاہر ہوتا ہے، ملاحظہ ہو :
سألت أحمد بن حنبل فقلت: ما تقول في أبي حنيفة؟ قال: رأيه مذموم وحديثه لا يذكر ترجمہ :- میں نے احمد بن حنبل سے پوچھا: آپ ابو حنیفہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ فرمایا: اس کی رائے قابل مذمت ہے اور اس کی حدیث روایت نہیں کی جاتی۔ تو ایک جستجو کرنے والا طالب علم ٹھٹھک جاتا ہے، اور سوال کرتا ہے:
کیا واقعی امام احمد کا یہ فتویٰ علمی دیانت کا عکاس ہے؟
کیا ابو حنیفہؒ کی "رائے" بدتر تھی اُن راویوں سے جنہیں امام احمد نے خود یا ان کے دیگر ساتھی جیسے امام یحیی بن معین وغیرہ نے "کذاب"، "رافضی"، "قدری"، "جہمی"، "مرجئی" اور "خبیث" جیسے الفاظ سے یاد کیا، مگر پھر بھی ان سے روایت کی؟
کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جابر الجعفی کے تعلق سے امام احمد سے سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا "ﻭﺇﻧﻤﺎ ﺗﺮﻙ اﻟﻨﺎﺱ ﺣﺪﻳﺚ ﺟﺎﺑﺮ ﻟﺴﻮء ﺭﺃﻳﻪ ﻛﺎﻥ ﻟﻪ ﺭﺃﻱ سوء" لوگوں نے جابر کی حدیث کو صرف اس وجہ سے چھوڑ دیا کہ اس کی رائے خراب تھی؛ اس کی رائے بُری تھی. یہاں امام احمد جابر الجعفی ( کذاب ) کی رائے کو برا بھی کہہ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی مسند میں اس سے کئی جگہ روایات بھی لائے ہیں. ایک طرف وہ راوی ہے جسکی رائے بری ہونے اور کذاب ہونے کا اقرار خود امام احمد کو ہے دوسری طرف امام ابو حنیفہ نہ جھوٹے ہیں اور نہ انکی رائے ( چاہے عقیدہ ہو یا قیاس ) وہ غلط نہیں ہیں لیکن ان سے روایات نہیں لائے. اس کے علاوہ سب سے پہلے امام احمد جس شخص کے پاس حدیث پڑھنے بیٹھے ہیں یعنی امام ابو یوسف ان کے بارے میں امام احمد سے سوال ہوا تو فرمایا : ﻭﻗﺎﻝ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ: ﺳﺄﻟﺖ ﺃﺑﻲ، ﻣﻦ ﺃﺳﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ. ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ ﺻﺪﻭﻗﺎ، ﻭﺃﺑﻮ ﻳﻮﺳﻒ ﺻﺪﻭﻕ، ﻭﻟﻜﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﻻ ﻳﻨﺒﻐﻲ ﺃﻥ ﻳﺮﻭﻯ ﻋﻨﻬﻢ ﺷﻲء. «اﻟﻌﻠﻞ» (5332)
ترجمہ :- ابو یوسف صدوق ہیں لیکن ابو حنیفہ کے اصحاب سے کچھ بھی روایت نہیں کرنا چاہیے۔
وہیں دوسری طرف جب امام احمد سے سے جابر الجعفی کے بارے میں سوال ہوا
" ﻭﻗﺎﻝ اﻟﻤﻴﻤﻮﻧﻲ: ﻗﻠﺖ (ﻳﻌﻨﻲ ﺃﺑﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ) : ﺟﺎﺑﺮ اﻟﺠﻌﻔﻲ؟ ﻗﺎﻝ ﻟﻲ: ﻛﺎﻥ ﻳﺮﻯ اﻟﺘﺸﻴﻊ. ﻗﻠﺖ: ﻳﺘﻬﻢ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﺑﺎﻟﻜﺬﺏ؟ ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻲ: ﻣﻦ ﻃﻌﻦ ﻓﻴﻪ، ﻓﺈﻧﻤﺎ ﻳﻄﻌﻦ ﺑﻤﺎ ﻳﺨﺎﻑ ﻣﻦ اﻟﻜﺬﺏ. ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻱ ﻭاﻟﻠﻪ، ﻭﺫاﻙ ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﺑﻴﻦ، ﺇﺫا ﻧﻈﺮﺕ ﺇﻟﻴﻬﺎ. «ﺳﺆﻻاﺗﻪ 466 ( موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل 186/1 )
ترجمہ :- میمونی کہتے ہیں میں نے (یعنی امام احمد بن حنبل سے) پوچھا: "جابر الجعفي (کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں)؟" تو انہوں نے فرمایا: "وہ تشیع (یعنی شیعہ نظریات) رکھتا تھا۔" میں نے پوچھا: "کیا اس کی حدیث کو جھوٹ کا الزام دیا جاتا ہے؟" تو انہوں نے مجھے جواب دیا: "جس نے اس پر طعن کیا ہے، اس نے دراصل اس چیز پر طعن کیا ہے جس کے بارے میں جھوٹ کا خدشہ ہوتا ہے۔"پھر فرمایا: "جی ہاں، اللہ کی قسم، اور یہ (جھوٹ کا اثر) اس کی حدیث میں ظاہر ہے، جب تم اسے دیکھو۔"
لیکن اس کے باوجود جابر سے جگہ جگہ مسند میں روایت لائے ہیں. کیا یہی انصاف ہے کہ جو شخص آپکا پہلا استاد ہے اور آپ کے نزدیک سچا اور حدیث میں قابل اعتبار بھی ہے لیکن آپ اس سے کچھ روایت نہیں کرتے دوسری طرف جابر الجعفی جو خود آپ کے نزدیک مجروح ہے اس سے جگہ جگہ روایات نقل کی جاتی ہیں.
ایسی ہی کچھ اور مثالیں پیش خدمت ہیں جس میں امام احمد، بدعقیدہ اور مجروح راویوں سے روایت کرتے ہیں جنہیں وہ خود "کذاب، قدری، مرجئی، شیعہ ( رافضی ) " وغیرہ مانتے ہیں:
1:- جابر بن يزيد الجعفي — جابر الجعفی کے بارے میں جب امام احمد سے پوچھا گیا " ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻱ ﻭاﻟﻠﻪ، ﻭﺫاﻙ ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﺑﻴﻦ، ﺇﺫا ﻧﻈﺮﺕ ﺇﻟﻴﻬﺎ. «ﺳﺆﻻاﺗﻪ 466 ( موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل 186/1 )
ترجمہ :- فرمایا: "جی ہاں، اللہ کی قسم، اور یہ (جھوٹ کا اثر) اس کی حدیث میں ظاہر ہے، جب تم اسے دیکھو۔"
لیکن اس جھوٹے راوی سے کئی احادیث اپنی مسند میں لائے ہیں (مسند أحمد ط دار الحديث: ٨٤٥، ٢١٥٣، ٢٥٢٥، ٣٢١٧، ٣٨٨٧، ٤٠٧٢، ٥٠٥٤)۔
2:- حصين بن عمر الأحمسي — جس کے بارے میں امام احمد نے کہا " ﺇﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻳﻜﺬﺏ" (الفتح الرباني ٢٣/٢٢٣، الضعفاء الكبير ١/٣١٤)،مگر اس سے روایت بھی کی (مسند أحمد ط الرسالة ١/٥٤٢)۔
3:- عمرو بن جابر الحضرمي — امام احمد کے بقول یہ حضرت جابر بن عبد الله سے مناکیر بیان کرتا ہے (تهذيب التهذيب 3/259، الجرح والتعديل 6/223)۔ لیکن اس سے کئی مقامات پر حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ہی احادیث لی گئیں (مسند أحمد ٢٢/٢٠٦، ٢٢/٢٠٧، ٢٢/٣٦٣، ٢٢/٣٦٤)۔
4:- تليد بن سلیمان المحاربي — جس کو امام یحیی بن معین کذاب کہتے ہیں اور خود امام احمد جس کے بارے میں کہتے ہیں "ﻭﻫﻮ ﻋﻨﺪﻱ ﻛﺎﻥ ﻳﻜﺬﺏ " (الكامل في ضعفاء الرجال ٢/٢٨٤ ، تهذيب الكمال 4/ 320) ، لیکن پھر بھی مسند میں اس سے روایت لائے ہیں. (الكامل في ضعفاء الرجال ٢/٢٨٤، تهذيب الكمال 4/320)
بلکہ عبد الله الجديع کے مطابق:
"تَليد بن سلیمان المحاربی الکوفی ان راویوں میں سے ایک تھے جن سے امام احمد بن حنبل نے احادیث سنی تھیں، اور امام احمد نے ان کی تعریف بھی کی ہے" (تحرير علوم الحديث ١/٥٤٠)
یہاں سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ تلید بن سلیمان وہ خبیث روافضی راوی ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی پر گالیاں بکتا تھا۔ مگر اس سے روایت کرنے میں کوئی کراہت محسوس نہیں کی جاتی، بلکہ تعریف بھی کی جاتی ہے۔
5:- محمد بن ميسر الصاغاني — جسے یحییٰ بن معین نے "جہمی، شیطان" کہا، امام احمد خود اسے مرجئا کہتے ہیں لیکن اس ان سے روایت بھی لی ہے (تهذيب الكمال 26/535)۔
6:- محمد بن الحسن بن أتش — جسے امام احمد نے خود قدری کہا (الضعفاء للعقيلي 4/57)، مگر اسی سے روايات بيان کیں (مسند أحمد ٩/٣٨٠، ٩/٣٨١، ٩/٣٨٢، ٣٦/٤٨٢، العلل رواية عبد اللَّه 1762)۔
7:- حسان بن عطية الشامي الساحلي — جس کے عقیدے پر قدری ہونے کا الزام تھا، پھر بھی مسند احمد میں اس کی روايات موجود ہیں (مسند احمد 7006) ۔
اب آخر میں بات کرتے ہیں امام ابو حنیفہ اور انکے اصحاب ( امام ابو یوسف اور امام محمد ) کے عقیدہ ( ان کی رائے ) کے بارے میں . تو جس اعتقادی دستاویز کو اہل السنہ والجماعت کے اجماعی عقیدے کا آئینہ کہا جا سکتا ہے تو وہ "عقیدہ طحاویہ" ہے۔ امام طحاویؒ، جو تیسری صدی ہجری کے وسط میں عالم اسلام کے جید فقہاء و محدثین میں شمار ہوتے ہیں، انہوں نے اپنی اس مختصر مگر جامع کتاب میں امت کے مسلمہ عقائد کو مختصر نکات میں بیان کیا۔
لیکن قابل غور نکتہ یہ ہے کہ امام طحاویؒ نہ صرف خود حنفی المسلک تھے، بلکہ اس عقیدہ کی بنیاد انہوں نے امام ابو حنیفہؒ، امام ابو یوسفؒ، اور امام محمدؒ کے عقائد پر رکھی۔ چنانچہ انہوں نے آغاز میں واضح کیا: "هذا ذكر بيان عقيدة أهل السنة والجماعة على مذهب فقهاء الملة: أبي حنيفة النعمان بن ثابت الكوفي، وأبي يوسف يعقوب بن إبراهيم الأنصاري، وأبي عبد الله محمد بن الحسن الشيباني رحمهم الله."
یہ اعلان اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ امام ابو حنیفہؒ اور ان کے دونوں جلیل القدر تلامذہ اہل السنہ والجماعت کے معتمد عقائد پر تھے۔ نہ ان کا عقیدہ بدعت پر تھا، نہ وہ جہمی تھے، نہ مرجئی، نہ قدری، نہ اہل ضلال۔ اس لئے چاہے احناف ہوں یا شوافع، مالکی ہوں یا حنابلہ دنیا بھر کے مدارس میں "عقیدہ الطحاویہ" ہی پڑھی اور پڑھائی جاتی ہے بلکہ خود غیر مقلدین کے مدارس میں بھی اسی کی شرح پڑھائی جاتی ہے.
تو جن ائمہ کے عقیدے پر بنیاد رکھ کر یہ نصاب تیار ہوا اور جن کے اقوال کو "مرجع حق" مان کر عقیدہ مرتب کیا گیا، انہی ائمہ کو بدعتی، جہمی، مرجئی، عقل پرست، اور زندیق کہنے میں کوئی جھجک نہیں کی جاتی.
کیا یہ یہی انصاف ہے کہ:
جو شخص بد عقیدہ، کذاب، راوی ضعیف، روافض، خبیث العقیدہ ہو، اس سے روایت بھی لی جائے. اور جو شخص اہل سنت کا علمبردار، فقیہ، مجتہد مطلق، زاہد، عابد، متقی، امانت دار ہو — اس پر طعن کیا جائے، اور اس کی روایات کو رد؟
تو اس پوسٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ جب امام احمد بن حنبل جیسے معتدل امام کا رویہ احناف کے تعلق سے اتنا سخت اور دوہرے معیار پر مبنی نظر آتا ہے تو جو حضرات جرح و تعدیل میں متشدد شمار کئے جاتے ہیں انکا امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف و امام محمد کے تعلق سے کتنا سخت رویہ ہوگا. اس لئے ضرورت ہے کہ ان حضرات سے مروی جروحات کو انکے علمی درجہ کی وجہ سے آنکھ بند کر کے تسلیم نہ کیا جائے بلکہ اصل حقیقت اور جرح کے پیچھے کے اسباب کو دیکھا جائے آیا کہ وہ جرح درست بھی ہے یا نہیں. اس جرح کی جو وجہ بیان کی گئی وہ صحیح ہے بھی یا نہیں. اس سے انسان کی عدالت مجروح ہوتی بھی یا نہیں. کیا جو جرح کی گئی وہ کسی غلط فہمی، تعصب، آپسی اختلافات، یا رائے کی بنیاد پر ہوئے کسی اختلاف کی بنیاد پر تو نہیں تھی. اگر ایسا ہی تھا تو ایسی جرح نہ صرف قابل ترک ہوتی بلکہ اسی بنیاد پر بعد کے محدثین یعنی امام مزی، امام ذہبی اور امام ابن حجر نے انکو اہمیت نہیں دی.
جواب نمبر 2:
یہ قول بھی امام احمد کی رائے ہی ہے. اگر ایک امام (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ) کی کوئی رائے غلط ہو سکتی ہے تو دوسرے امام(امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ) کی رائے بھی غلط ہو سکتی ہے. کوئی امام خطاء سے پاک نہیں ہے. اور ویسے بھی مجتہد امام اگر کسی رائے میں غلط ہو تب بھی حدیث پاک کی روشنی میں اجر ( ثواب ) کا مستحق ہوتا ہے. یعنی دین کی خدمت کے خاطر کوئی امام قرآن و سنت کی روشنی میں کوئی مسئلہ کا حل نہیں پائے اور اپنے اجتہاد سے مسئلہ کا حل بتائے اور اس میں غلطی کر جائے تب بھی اللہ رب العزت اسے ایک انعام سے ضرور نوازتے ہیں.
جواب نمبر 3 :-
امام صاحب کی رائے کا کیا درجہ ہے ، ہم اس بارے میں امام احمد بن حنبل کے استاد عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا قول پیش کرتے ہیں جو صحیح سند سے منقول ہے۔
عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں
● "اگر رائے (اجتہاد) کی بات ہو تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سب سے مضبوط رائے والے ہیں"
(فضائل ابی حنیفہ لابن ابی العوام , صفحہ 84 , سندہ صحیح)
● اگر کسی مسئلہ میں اپنی رائے سے کچھ کہنے کا حق ( اگر کسی کو ہو تو ) تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللّٰہ اس کے اہل (حقدار) ہیں ۔ (تاریخ بغداد ، اسنادہ صحیح)
تفصیلی جواب :
امام صاحب اہل الرائے کے سلطان ہیں ، آپ رحمہ اللہ پر رائے کی وجہ سے تمام تر جروحات باطل ہیں، قارئین اس کی تفصیل ہمارے مضمون
• " امام ابو حنیفہ پر متفرق اعتراضات -
اعتراض نمبر 35 : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح " میں دیکھ سکتے ہیں۔
2)۔ حدثنا عبد الله بن محمد المروزي قال سمعت الحسين بن الحسن المروزي يقول: سألت أحمد بن حنبل فقلت: ما تقول في أبي حنيفة؟ قال: رأيه مذموم وحديثه لا يذكر.
حدثنا عبد الله بن أحمد قال سمعت أبي يقول: حديث أبي حنيفة ضعيف ورأيه ضعيف.
عبداللہ بن محمد المروزی نے کہا: میں نے حسین بن حسن المروزی سے سنا، وہ کہتے ہیں:
"میں نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا: ابو حنیفہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا: ان کی رائے قابل مذمت ہے اور ان کی حدیث قابل ذکر نہیں۔"
عبداللہ بن احمد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد (امام احمد) سے سنا، وہ کہتے تھے:
"ابو حنیفہ کی حدیث بھی کمزور ہے اور ان کی رائے بھی۔"
( الضعفاء الكبير للعقيلي ٤/٢٦٨ )
جواب نمبر 1 :
اجتہاد و رائے کے بارے میں جواب روایت نمبر 1 کے ضمن میں گزر چکا ہے۔
رہی بات یہ کہ امام ابو حنیفہ کی احادیث بیان نہیں کی جاتیں تو یہ بات بھی درست نہیں ، کیونکہ چاہے امام احمد کے استاد ہوں (امام شافعی رحمہ اللہ) یا استاد کے استاد ہوں (امام مالک رحمہ اللہ) یا امام احمد کے شاگرد(امام بخاری رحمہ اللہ کی ثلاثیات حنفی رواہ سے) یا انکے بھی شاگرد ہوں بلکہ ہر زمانے کے محدثین نے امام ابو حنیفہ سے احادیث روایت کی ہیں. ہاں یہ بات ضرور ہے کہ ان کی تعداد امام احمد کی بیان کردہ احادیث جتنی نہیں کیونکہ امام ابو حنیفہ کی زیادہ محنت فقہ اور احادیث سے مسائل کا استنباط کرنا تھا تاکہ عوام دین پر آسانی سے عمل کر سکے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کثرت سے مسانید لکھی گئی ہیں ، جو اس بات کی دلیل ہیکہ ہر زمانے میں ان سے روایات کی گئی ہیں ۔
جواب نمبر 2:
"آپ رحمہ اللہ حدیث میں ضعیف ہیں" یہ غیر مفسر جرح ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں.کسی کو ضعیف کہہ دینے سے وہ ضعیف نہیں ہو جاتا ۔ امام احمد رحمہ اللہ نے ، امام اوزاعی جو بالاتفاق ثقہ ہیں (بخاری مسلم ان کی روایات سے بھری پڑی ہے) ان کی رائے اور حدیث کو بھی ضعیف کہا گیا ہے ، تو کیا بخاری مسلم کی وہ روایتیں ضعیف ہیں جو اوزاعی سے منقول ہیں ؟ کیا باقی کتب میں اوزاعی کی روایتیں ضعیف ہیں ؟
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے اور احادیث کو ضعیف کہنے کی وجہ اور دلیل کیا ہے؟
کن دلائل کی بنیاد پر ان کی رائے یا قیاس کو ضعیف ( غلط ) کہا جا رہا ہے؟
کیونکہ قیاس یا رائے سے کام تب ہی لیا جاتا ہے جب قرآن یا احادیث یا آثار صحابہ سے کوئی دلیل موجود نہ ہو. اور اگر بالفرض کسی قیاس میں کوئی امام غلط بھی ہو تب بھی حدیث رسول اللہ کی روشنی میں ایک اجر ( ثواب ) کا مستحق ہے اس لئے اعتراض ہی غلط ہے.
امام احمد بن حنبل تو ثقہ صدوق اہل الرائے راوی سے بھی روایت نہ کرتے تھے ، جب راوی ثقہ ہو تب اس سے روایت نہ کرنا ، یہ امام احمد کا تعصب ہے ، اور جب ان کا اہل الرائے کیلئے تعصب واضح ہو گیا تو ان کی جرح "امام صاحب حدیث میں ضعیف ہیں" ، باطل ہو جاتی ہے ،
تفصیل کیلئے ہمارا مضمون دیکھیں۔
3)۔ قال أحمد في العلل (ج٢ص٥٤٦) :
استتابوه أظن في هذه الآية: ﴿سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ﴾ قال: هو مخلوق.
امام احمد فرماتے ہیں کہ غالباً امام ابو حنیفہ کو اس آیت کی تفسیر پر توبہ کرائی گئی، کیونکہ وہ کہتے تھے کہ یہ آیت مخلوق ہے۔
جواب :
امام صاحب کو توبہ کس وجہ سے کروائی گئ ، اس کی تفصیل امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے بیان کی ہے ، قارئیں النعمان سوشل میڈیا سروسز کی ویب سائٹ پر
دیکھیں
تانیب الخطیب ، اعتراض نمبر 42: کہ سفیان ثوری نے کہا کہ ابو حنیفہ سے دو مرتبہ کفر سے توبہ طلب کی گئی۔
نکتہ :
یہاں امام احمد کو یقنی طور پر پتہ ہی نہیں کہ امام صاحب سے کس بارے میں توبہ کروائی گئی ، اپنے گمان سے بتا رہے کہ شاید اس مسئلے پر توبہ کروائی گئی ، یہاں اہم بات یہ ہیکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں معلومات محدثین نے پاس نہ تھی ، توبہ کیوں کروائی ، کس نے کروائی ، کیا وہ توبہ کفر سے تھی یا سرے سے توبہ تھی ہی نہیں ، محدثین یہ جانتے ہی نہ تھے ، بس سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے ، انہوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف اپنا ذہن بنا لیا تھا کہ توبہ کفر سے ہی ہوئئ ، اسی طرح باقی مسائل میں بھی محدثین نے کوئی تحقیق نہیں کی ، پس بغیر تحقیق کے سنی سنائی باتوں کی وجہ سے جرح کی ، اس کا زندہ ثبوت یہ روایت ہے جس میں ایک معتدل جرح و تعدیل کا امام اپنے گمان سے بتا رہا کہ شاید یہ مسئلہ ہو ،
جب متعدل جارح کا یہ حال ہے ، متشدد جارح اور محدث کا کیا حال ہو گا .؟؟
4۔ قال عبد الله حدثني مهنأ بن يحيى الشامي سمعت أحمد بن حنبل يقول: ما قول أبي حنيفة وعندي والبعر إلا سواء.
* وقال أبو بكر الخطيب (ج١٣ص٤٣٩):
أخبرني ابن رزق حدثنا أحمد بن سلمان النجاد حدثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل حدثنا مهني بن يحيى قال سمعت أحمد بن حنبل يقول: ما قول أبي حنيفة والبعر عندي إلا سواء. اهـ.
مہنی بن یحییٰ الشامی نے کہا: میں نے امام احمد بن حنبل سے سنا، وہ فرماتے تھے:
"میرے نزدیک امام ابو حنیفہ کی رائے اور اونٹ کی مینگنی میں کوئی فرق نہیں۔"
جواب :
یہ قول اگر امام احمد سے ثابت ہے تو اس میں امام احمد کیلئے شرمندگی ہے ، نہ کہ ابو حنیفہ کیلئے ۔
امام ابو حنیفہ کے اقوال ، امام احمد کے اساتذہ(شافعی و ابن مبارک) کے مطابق حجت اور دلیل کا درجہ رکھتے ہیں ، امام صاحب کے عقیدے میں جو قول ہیں وہ امام طحاوی نے لکھے ہیں عقیدہ طحاویہ میں کیا وہ مینگنی برابر ہیں ؟ فروع میں جو مسائل امام صاحب نے بیان کئے ہیں اس میں کتنے ہی مسائل ایسے ہیں جس میں امام مالک ان کے ساتھ ہیں یا سلف کی ایک جماعت ان کے ساتھ ہے ، کیا وہ اقوال مینگنی کا درجہ رکھتے ہیں ، یعنی سلف کی ایک جماعت ایک طرف اور امام احمد کی فحش گوئی ایک طرف۔
5۔ قال الخطيب (ج١٣ص٤٣٧):
أخبرنا البرقاني حدثني محمد بن العباس أبو عمرو الخزاز حدثنا أبو الفضل جعفر بن محمد الصندلي وأثنى عليه أبو عمرو جدًا حدثنا المروذي أبو بكر أحمد بن الحجاج سألت أبا عبد الله وهو أحمد بن حنبل عن أبي حنيفة وعمرو ابن عبيد فقال: أبو حنيفة أشد على المسلمين من عمرو بن عبيد لأن له أصحابًا. اهـ.
امام احمد بن حنبل سے ابو حنیفہ اور عمرو بن عبید کے بارے میں چوھا گیا ، تو انہوں نے جواب دیا: "ابو حنیفہ مسلمانوں کے لیے عمرو بن عبید سے بھی زیادہ خطرناک ہیں، کیونکہ ان کے اصحاب موجود ہیں۔"
جواب :
یہ غیر مفسر جرح ہے کیونکہ امام احمد نے یہاں وضاحت نہیں کی کہ کس طرح اور کس وجہ سے امام ابو حنیفہ عمرو بن عبید ( کذاب، بدعتی ، صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر لعنت کرنے والا ) سے زیادہ سخت یا مسلمانوں کے حق میں نقصان پہنچانے والے تھے. اس لئے یہ جرح ناقابل اعتبار اور مردود ہے. کیونکہ امام ابو حنیفہ نہ کذاب ہیں اور نہ بدعتی ہیں اور نہ ہی معاذاللہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر لعن طعن کرنے والے ہیں. تو پھر معلوم نہیں کس بنیاد پر امام احمد کے نزدیک امام ابو حنیفہ عمرو بن عبید سے زیادہ سخت اور خراب ہیں.
6۔ قال الخطيب (ج١٣ص٤٣٨):
أخبرنا بشري بن عبد الله الروسي أخبرنا أحمد بن جعفر بن حمدان حدثنا محمد بن جعفر الراشدي حدثنا أبو بكر الأثرم قال أخبرنا أبو عبد الله بباب في العقيقة فيه عن النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم أحاديث مسندة وعن أصحابه وعن التابعين ثم قال: وقال أبو حنيفة: هو من عمل الجاهلية ويتبسم كالمتعجب. اهـ.
ابو بکر الأثرم کہتے ہیں:
"میں نے امام احمد بن حنبل سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے نبی کریم ﷺ، صحابہ کرام اور تابعین سے مروی احادیث بیان کیں۔
پھر انہوں نے کہا: ابو حنیفہ کا کہنا ہے کہ عقیقہ جاہلیت کی رسم ہے، اور یہ کہتے ہوئے وہ حیرت سے تعجب سے مسکرا رہے تھے۔
جواب :
یہاں بات کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے کیونکہ امام ابو حنیفہ نے عقیقہ کو نہیں بلکہ عقیقہ کو واجب سمجھنے کو جاہلیت کہا ہے کیونکہ جاہلیت کے زمانے میں عقیقہ کو واجب سمجھا جاتا تھا تو اسلام آیا تو عقیقہ کے وجوب کو ختم کر دیا. جیسا کہ سنن ابو داؤد (حدیث 2842 اسنادہ حسن) میں ہے کہ حضور اکرم نے مسلمانوں کو رخصت دی کہ جو اپنی اولاد کی طرف سے قربانی کرنا چاہے ( تو ) کرے یعنی لازم قرار نہیں دیا. اس لئے امام ابو حنیفہ اور امام مالک عقیقہ کے مستحب ہونے کے قائل ہیں وجوب کے نہیں. اس لئے حدیث کے موجود ہوتے ہوئے امام ابو حنیفہ پر اعتراض درست نہیں.
7۔قال الخطيب (ج١٣ص٤٣٨):
أخبرنا طلحة بن علي الكتاني أخبرنا محمد بن عبد الله بن إبراهيم الشافعي حدثنا أبو الشيخ الأصبهاني حدثنا الأثرم قال: رأيت أبا عبد الله مزارًا يعيب أبا حنيفة ومذهبه ويحكي الشيء من قوله على الإنكار والتعجب. اهـ.
الأثرم کہتے ہیں:
"میں نے امام احمد بن حنبل کو ابو حنیفہ اور ان کے مذہب کی کھل کر برائی کرتے ہوئے سنا، اور ان کے بعض اقوال کو تعجب کے ساتھ نقل کرتے ہوئے پایا۔"
جواب 1 :- کسی کی فقہ پر عیب لگانے کے لئے کوئی مظبوط دلیل موجود ہونا ضروری ہے لیکن یہاں ایسی کوئی دلیل یا وجہ امام احمد کی طرف سے بیان نہیں کی گئی جس کی وجہ سے امام احمد کا امام ابو حنیفہ کی فقہ پر عیب جوئی کو درست مانا جائے.
جواب 2 :- کسی ایک امام کے دوسرے امام کی فقہ پر عیب لگانے یا اسے غلط سمجھنے کی وجہ سے کوئی فقہ ناقابل اعتبار نہیں ہوتی. کیونکہ غلطی کی گنجائش ہر انسان اور ہر امام میں ہوتی ہے. اب ہر امام ہر ایک مسئلہ میں غلط یا ہر مسئلہ میں صحیح نہیں ہو سکتا اس لئے کچھ باتوں کی بنیاد پر پوری فقہ کو غلط نہیں کہا جا سکتا. کیا امام شافعی کسی مسئلہ میں امام مالک سے اختلاف کریں یا امام احمد امام شافعی َسے اختلاف کریں تو اس بنیاد پر مخالف کی فقہ اور موقف کو غلط اور عیب دار شمار کیا جائے گا؟
جواب 3:
امام احمد کو تو کئی آئمہ فقہاء میں شمار ہی نہ کرتے تھے جیسے امام ابن جریر طبری ، ابن عبدالبر رحمھم اللہ وغیرہ ، تفصیل ہمارے مضمون میں ہے ، لہذا امام احمد رحمہ اللہ کس طرح فقہ پر عیب لگا سکتے ہیں ، جب کہ وہ خود فقیہ نہ تھے ؟
8۔ قال الخطيب ﵀ (ج١٣ص٤٤٥):
أخبرنا الحسن بن الحسن بن المنذر القاضي والحسن بن أبي بكر البزاز قالا أخبرنا محمد بن عبد الله الشافعي سمعت إبراهيم بن إسحاق الحربي قال: سمعت أحمد بن حنبل وسئل عن مالك فقال: حديث صحيح ورأي ضعيف، وسئل عن الأوزاعي فقال: حديث ضعيف ورأي ضعيف، وسئل عن أبي حنيفة فقال: لا رأي ولا حديث، وسئل عن الشافعي فقال: حديث صحيح ورأي صحيح. اهـ.
"امام احمد بن حنبل سے امام مالک کے بارے میں پوچھا گیا تو کہا: حدیث صحیح ہے لیکن رائے کمزور ہے۔
امام اوزاعی کے بارے میں پوچھا تو کہا: حدیث کمزور اور رائے بھی کمزور۔
امام ابو حنیفہ کے بارے میں پوچھا تو کہا: نہ حدیث ہے نہ رائے۔
امام شافعی کے بارے میں پوچھا تو کہا: حدیث بھی صحیح اور رائے بھی صحیح۔"
جواب :
اسی قول میں امام اوزاعی جو بالاتفاق ثقہ ہیں ، بخاری مسلم میں 100 سے زائد روایتیں امام اوزاعی سے منقول ہیں ، ان امام اوزاعی کی رائے اور حدیث کو بھی ضعیف کہا گیا ہے بلکہ امام مالک کی رائے کو بھی ضعیف کہا گیا ہے. تو کیا خیال ہے امام اوزاعی کی کتب احادیث میں وارد روایات بھی اب ضعیف شمار کی جائیں گی؟ کیا بخاری مسلم کی 100 سے زائد روایتیں ضعیف ہیں یا غیر مقلد اہلحدیث تسلیم کریں گے کہ امام احمد کی جرح تعصب سے خالی نہ تھی اور وہ مردود ہے ، ورنہ غیر مقلدیں کو صحیحین سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
9۔ قال عبد الله بن أحمد: سمعتُ أَبي يقول: مر رجل برقبة. فقال له رقبة: من أين جئت؟ قال: من عند أبي حنيفة، قال: كلام ما مضغت، وترجع إلى أهلك بغير ثقة. «العلل» (٧٦٠) .
عبد اللہ بن احمد بیان کرتے ہیں کہ امام احمد نے کہا: "ایک آدمی رقبة کے پاس سے گزرا، انہوں نے پوچھا: 'کہاں سے آ رہے ہو؟' اس نے جواب دیا: 'ابو حنیفہ کے پاس سے۔' تو رقبة نے کہا: 'یہ ایسا علم ہے جس پر ٹھیک سے غور نہیں کیا گیا، اور تم وہاں سے ایسی باتیں لے کر آ رہے ہو جن پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔'"
جواب :
اول تو اس کی سند میں محدث حمیدی رحمہ اللہ ہیں جو امام صاحب سے بہت زیادہ بغض اور حسد رکھتے تھے ، لہذا وہ ہمارے خلاف حجت نہیں ہیں ، تفصیل دیکھیں اس لنک پر
دوم : رقبہ بن مصقلہ کوفی ، امام صاحب کے ہم عصر ہیں اور معاصرین میں سخت نوک جھوک چلتی رہتی ہے ، حقائق کو دیکھا جائے تو رقبہ کی بات غلط معلوم ہوتی ہے کیونکہ امام صاحب کے درس میں شریک اصحاب نے خوب شہرت اور نیک نامی کمائی ہے ، چاہے اس میں صاحبین جیسے ماہر فقیہ ہوں ، عبداللہ بن مبارک ، وکیع بن جراح جیسے محدثین ہوں یا داود طائی جیسے زاہد ہوں ، ہر ایک اپنے دینی شعبے میں کمال مہارت رکھتا تھا۔ اصحاب ابو حنیفہ نے جو علم آپ سے اخذ کیا ، وہ رہتی دنیا تک مشعل راہ ہے ، عقائد کا باب ہو یا فروعی مسائل ، امام صاحب سے شاگرد ، ہمیں اصحاب الحدیث کے اساتذہ کی فہرست میں نظر آتے ہیں ، ثلاثیات بخاری جیسی عظمتیں اصحاب ابو حنیفہ ہی کے حصے میں آئی ہیں ، اسی طرح آپ کی فقاہت بقول ابن عیینہ آفاق پر پھیلی ہے ۔ لہذا رقبہ رحمہ اللہ اپنی بات میں غلط ثابت ہوئے۔
10۔ وقال عبد الله: حدثني أبي قال: حدثنا عبد الله بن إدريس، قال: قلت لمالك بن أنس: كان عندنا علقمة، والأسود. فقال: قد كان عندكم من قلب الأمر هكذا. وقلب أبي كفه على ظهرها -يعني أبا حنيفة «العلل» (١١١٨ و٢٦٥٨) .
عبد اللہ بن احمد کہتے ہیں کہ امام احمد نے فرمایا: "عبداللہ بن ادریس کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک سے کہا: 'ہمارے علاقے میں علقمہ اور اسود جیسے علماء موجود تھے۔' تو امام مالک نے کہا: 'ہاں، لیکن تمہارے ہاں ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے دین کے اصولوں کو الٹا کر رکھ دیا۔اور امام احمد نے اپنے ہاتھ کی پشت پلٹ کر یہ اشارہ کیا کہ امام ابو حنیفہ نے دین کے احکام میں تبدیلیاں کیں۔"
جواب : امام مالک رحمہ اللہ نے قیاس کو استعمال کر کے فقہ مدون کیا ، لیکن اخیر عمر میں خشیت باری تعالی کے سبب وہ روتے تھے ، اسی لئے امام مالک نے قیاس کے ماہر ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح کیں ، لیکن وہ جروحات اصول جرح و تعدیل کی رو سے مسترد ہیں ، ماہر اسماء الرجال کے آئمہ مثلا امام مزی ،ذہبی ، ابن حجر رحمہ اللہ نے ان جروحات کی طرف التفات ہی نہیں کیا ، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایسی تمام جروحات اصول کے مطابق اس قابل ہی نہیں کہ امام صاحب کی ذات مجروح ہو سکے۔
قارئین مزید تفصیل کیلئے دیکھیں
" النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود
▪︎ تانیب الخطیب : امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 67 ، 69 ، 81 ، 82 ، 83
▪︎تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 19 :امام ابوحنیفہؒ (م۱۵۰ھ)
امام مالک بن انس ؒ (م۱۷۹ھ) کے نزدیک ثقہ ہیں
▪︎ امام ابو حنیفہ پر متفرق اعتراضات ، اعتراض نمبر 22 ، امام مالک اور امام ابو حنیفہ
11۔ وقال عبد الله: قال أبي: بلغني عن عبد الرحمن بن مهدي أنه قال: آخر علم الرجل أن ينظر في رأي أبي حنيفة. يقول: عجز عن العلم. «العلل» (١٥٦٨) .
عبد اللہ بن احمد کہتے ہیں کہ میرے والد نے فرمایا: "مجھے یہ خبر پہنچی کہ عبد الرحمن بن مہدی نے کہا: 'کسی آدمی کے علم کا آخری درجہ یہ ہے کہ وہ ابو حنیفہ کی رائے کو دیکھنے لگے، یعنی اس کا مطلب ہے کہ وہ علم حاصل کرنے سے عاجز ہو چکا ہے۔'"
جواب :
اول : عبدالرحمن بن مہدی سے کس واسطے سے یہ بات پہنچی ، یہ ذکر نہیں لہذا سند میں انقطاع ہے
دوم : امام ابن مہدی چونکہ سفیان ثوری رحمہ اللہ کے خاص شاگردوں میں سے تھے ، لہذا ان کی طبیعت اور مزاج اپنے استاذ جیسا تھا ، جیسے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے حق بات پر بھی ابو حنیفہ کی موافقت پسند نہیں ، تو یہی تعصب ان کے شاگرد عبدالرحمن بن مہدی کے اندر بھی تھا ، جبھی انہوں نے ایک غیر مفسر قسم کی جرح کی ۔ اسی لئے متاخر آئمہ جرح و تعدیل نے ابن مہدی رحمہ اللہ کی اس غیر مفسر جرح کو کچھ بھی وقعت نہیں دی۔
مزید تفصیل کیلئے دیکھیں
" النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود
▪︎ ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 75
▪︎سلسلہ امام ابو حنیفہ پر متفرق اعتراضات ، اعتراض نمبر 18
▪︎امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ کی حنفیت (باب دوم ) وکیع کا فقہ اہل الرائے کی تعلیم حاصل کرنا
مصنف : مولانا ابو حمزہ زیشان صاحب فاضل رائیونڈ
12۔ وقال عبد الله: قلت لأبي: كان أبو حنيفة استتيب؟ قال: نعم. «تاريخ بغداد» ١٣/٣٨٣.
عبد اللہ بن احمد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد (امام احمد) سے پوچھا: "کیا ابو حنیفہ کو توبہ کرائی گئی تھی؟" تو امام احمد نے جواب دیا: "ہاں۔"
جواب :
روایت نمبر 3 کے ضمن میں اس کا جواب ہو چکا۔
13۔ وقال ابن هانىء: وسئل (يعني أبا عبد الله) عن أبي حنيفة يروى عنه؟ قال: لا. «سؤالاته» (٢٣٦٨) .
ابن ہانیٰ بیان کرتے ہیں کہ امام احمد سے سوال کیا گیا:
"کیا امام ابو حنیفہ کی حدیثیں قبول کی جا سکتی ہیں؟"
تو امام احمد نے صاف انکار کر دیا اور کہا: "نہیں۔"
جواب :
امام احمد بن حنبل ، اہل الرائے کے خلاف انہتائی غیر منصفانہ رویہ رکھتے تھے ، حتی کہ اہل الرائے کے ثقہ صدوق راوی سے بھی روایت نہ لینا پسند کرتے تھے ، جو ان کے تعصب کو ظاہر کرتا ہے جیسا کہ تفصیل ہمارے مضمون میں ہے ، لہذا ایسے تعصب کی وجہ سے امام احمد کا یہ رویہ ، جرح و تعدیل میں قبول نہیں ، مزید بحث روایت نمبر 2 کے ضمن میں گزر چکی ہے۔
14۔ وقال أحمد بن الحسن الترمذي: سمعت أحمد بن حنبل يقول: أبو حنيفة يكذب
«ضعفاء العقيلي» (١٨٧٦) .
احمد بن حسن ترمذی کہتے ہیں:
"میں نے امام احمد بن حنبل کو یہ کہتے سنا: 'ابو حنیفہ جھوٹ بولتے تھے۔'"
جواب 1 :
امام صاحب کے جھوٹ بولنے پر کوئی دلیل نہیں دی گئی۔ بلکہ اس کے بر عکس امام جرح و تعدیل یحیی بن معین فرماتے ہیں کہ آپ بالکل جھوٹ نہ بولتے تھے ، آپ کی ذات اس سے بہت اعلی و ارفع ہیکہ آپ کذب بیانی کریں ۔
قال الخطيب (ج١٣ ص٤٤٩):
أخبرنا عبيد الله بن عمر الواعظ حدثنا أبي حدثنا محمد بن يونس الأزرق حدثنا جعفر بن أبي عثمان قال سمعت يحيى وسألته عن أبي يوسف وأبي حنيفة فقال: أبو يوسف أوثق منه في الحديث، قلت: فكان أبو حنيفة يكذب؟ قال: كان أنبل في نفسه من أن يكذب.
جواب 2:
کذب کی جرح ، خطا پر بھی بولی جاتی یے یعنی فلاں نے غلطی کی (سیر اعلام النبلاء: ۴/۱۵۳)
لہذا چونکہ امام احمد رائے کے قائل نہ تھے ، ممکن ہے انہوں نے اسی وجہ سے کذاب کی جرح کی ہو ۔
امام احمد کی مراد یہی ہو گی کہ ابو حنیفہ نے غلطی کی رائے پر ، نہ کہ آپ جھوٹے تھے کیونکہ خلق قرآن کے مسئلہ پر آپ نے فرمایا کہ یہ بات صحیح نہیں ہیکہ امام ابو حنیفہ نے قرآن کو مخلوق کہا ہو۔( تاریخ بغداد وذيولہ ، ط العلمية ج ١٣ ص ٣٧٤ اسنادہ صحیح) ، یہ بات وہ تائید کے طور پر بیان کر رہے ہیں ، ان معتزلیوں کے خلاف جو فروع میں حنفی تھے ، لہذا امام احمد کا امام بو حنیفہ کا تائیدی حوالہ دینا اس بات کی تائید ہیکہ یہاں اس روایت میں کذب بمعنی خطاء اور وہم ہے ۔
15 وقال زياد بن أيوب سألت أحمد بن حنبل عن الرواية عن أبي حنيفة، وأبي يوسف. فقال: لا أرى الرواية عنهما. «المجروحون» ٣/٧١.
زیاد بن ایوب کہتے ہیں:
"میں نے امام احمد بن حنبل سے ابو حنیفہ اور ابو یوسف سے روایت لینے کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: 'میں ان دونوں سے روایت لینے کو درست نہیں سمجھتا۔'"
16۔ وقال حنبل بن إسحاق: سمعت عمي، يعني أحمد بن حنبل، يقول: وكان يعقوب أبو يوسف منصفًا في الحديث، فأما أبو حنيفة، ومحمد بن الحسن فكانا مخالفين للأثر وهاذان لهما رأي سوء، يعني أبا حنيفة، ومحمد بن الحسن. «تاريخ بغداد» ٢/١٧٩.
حنبل بن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ امام احمد نے فرمایا: "ابو یوسف نسبتاً انصاف پسند محدث تھے، لیکن ابو حنیفہ اور محمد بن حسن احادیث کے خلاف موقف رکھتے تھے، اور ان کے نظریات غلط تھے۔"
جواب :
امام ابو حنیفہ اور امام محمد پر امام احمد کی تنقید: انصاف یا غیر منصفانہ ؟
یہ تحریر انہی نکات پر روشنی ڈالے گی کہ:
امام احمد کی یہ رائے کیوں غیر منصفانہ ہے؟
یہ ان کے شیوخ کی گواہیوں کے خلاف کیسے ہے؟
کیا امام احمد کا فہم فقہ، امام ابو حنیفہ جیسے فقیہ کے رد کے قابل تھا؟
امام ابو حنیفہ کی فقہی و علمی خدمات کا علمی اعتراف کیوں ضروری ہے؟
1 :- "اثر" کیا ہے؟ کیا یہ صرف ظاہرِ حدیث ہے؟
لفظ "الأثر" کا استعمال محدثین کے یہاں عام طور پر حدیث یا سلف کی روایت کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ: اگر کسی فقیہ کا فہم، حدیث کے ظاہر سے مختلف ہو، تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ حدیث کا منکر ہے یا مخالف اثر ہے۔لہذا اگر وہ کسی ضعیف حدیث کو ترک کرتے، یا کسی صحیح حدیث کے مقابلے میں قرآن یا متواتر عمل کو ترجیح دیتے، تو وہ "مخالف اثر" نہیں بلکہ "مجتہد فقیہ" ہوتے۔
2 :- "رأي سوء" کہنا. ایک فقیہ پر غلط اعتراض -
جب امام احمد کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ اور امام محمد "رأي سوء" رکھتے تھے، تو یہ محض علمی اختلاف نہیں بلکہ امام ابو حنیفہ کے طریقہ استدلال کو غلط طریقے سے پیش کرنا ہے۔ سوال یہ ہے: اگر اختلاف ہے، تو کیا اسے "سوء الرأي" کہنا علمی معیار ہے؟ امام ابو حنیفہ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے فقہی اصول وضع کئے، قیاس، استحسان، اور اجماع جیسے اصولوں کو باقاعدہ علمی بنیادوں پر مرتب کیا۔ امام محمد بن حسن وہ ہیں جنہوں نے ان اصولوں اور امام ابو حنیفہ کی فقہ کو دنیا میں پھیلانے کا کام کیا اور جن کی کتابوں کو امام شافعی اور امام احمد نے خود پڑھا اور ان سے علمی فائدہ لیا۔
3 :- اب بات یہ آتی ہے کہ کیا واقعی امام ابو حنیفہ اور امام محمد: مخالفِ حدیث یا مخالفِ فہمِ محدث یا فقیہ تھے؟ امام احمد کا اعتراض تھا کہ "ابو حنیفہ اور محمد بن حسن مخالفین للأثر تھے"۔
لیکن یہاں ایک اہم تفریق ضروری ہے: مخالفتِ حدیث اور مخالفتِ فہمِ محدّث دو مختلف باتیں ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا طرز عمل یہ تھا کہ وہ حدیث کو اصولی فقہی قواعد کے ساتھ جوڑ کر سمجھتے تھے۔ ان کا اختلاف اصل حدیث سے نہیں بلکہ اس کے فہم، درایت یا تطبیق میں ہوتا تھا۔ امام محمد بن حسن نے اپنی کتب میں اکثر مواقع پر احادیث کو تطبیقی طریقے سے پیش کیا ہے، جو ان کے گہرے فقہی شعور کا ثبوت ہے۔ اگر کسی کا فہم حدیث مختلف ہو، تو اسے "مخالف اثر" کہنا ایک سخت اور غیر منصفانہ تعبیر ہے۔
4 :- امام احمد کی رائے، ان کے شیوخ کے خلاف کیسے ہے؟
امام الشافعي (استادِ امام احمد) نے فرمایا: "ما رأيت أحداً أفقه من أبي حنيفة." (تاریخ بغداد) یعنی امام شافعی، جو امام احمد کے استاد تھے، خود اعتراف کرتے ہیں کہ فقہ میں امام ابو حنیفہ کا کوئی ثانی نہیں۔مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
عبد اللہ بن المبارک (شیخ امام احمد) کا طرز عمل:
امام عبد اللہ بن المبارک امام ابو حنیفہ کے تلامذہ میں سے تھے، اور ان کے علم، زہد، تقویٰ اور فقاہت کے قائل تھے۔
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
پھر امام احمد کی بات انکے قابل قدر دونوں اساتذہ کے خلاف کیسے قابل قبول ہو سکتی ہے؟
یہ واضح کرتا ہے کہ امام احمد کا یہ موقف ان کے علمی ورثے، شیوخ، اور سلف کی گواہیوں کے منافی ہے۔ یعنی امام ابو حنیفہ کی فقہی خدمت اور انکے اصولوں کی اہمیت کا جو اعتراف انکے شیوخ کو ہے شاید امام احمد اسے صحیح سے سمجھ نہیں پائے.
5 :- امام احمد، فقیہ نہ تھے – یہ امام طبری کا بیان ہے
جب امام احمد بن حنبل کو خود امام طبری رحمہ اللہ نے "غیر فقیہ" قرار دیا، تو ان کی فقہ پر تنقید کو اتنا وزن نہیں دیا جا سکتا کہ وہ فقہ کے امام ابو حنیفہ پر تبصرہ کریں۔ تو ایک محدث، جو فقہ کے میدان میں خود مجتہد نہیں، وہ کیسے ان عظیم فقہاء کی فقہ پر "رأي سوء" کا حکم لگائے؟
یہ بات خود ائمہ حضرات جانتے ہیں کہ: "محدث ہونا، فقیہ ہونے کی ضمانت نہیں۔"
امام احمد کا کمال علمِ حدیث میں تھا، لیکن فقہ میں وہ مستقل مجتہد نہیں تھے۔ ان کی آراء بہت محدود دائرے میں تھیں. اب چونکہ فقہ کا دائرہ محض روایت تک محدود نہیں، بلکہ اس میں:
نصوص کی تطبیق،
اجتہاد بالرأي،
قیاس اور استنباط، جیسے دقیق اصول شامل ہیں — اور ان تمام میں امام ابو حنیفہ و امام محمد سرفہرست تھے۔
امام احمد کا یہ الزام فقہی منہج کو نظرانداز کرتے ہوئے، محض روایت کے ظاہر پر مبنی ہے۔
امام ابو حنیفہ اور امام محمد کا اختلاف اصل حدیث سے نہیں بلکہ اس کی تطبیق، تاویل، اور ترجیح کے باب میں ہوتا ہے۔
کیا امام احمد کی جرح انصاف پر مبنی ہے ؟
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو عام طور پر معتدل سمجھا جاتا ہے یعنی وہ تشدد اختیار کرے بغیر جرح کرتے ہیں لیکن امام ابو حنیفہ اور ان کے أصحاب کے تعلق سے امام احمد کا یہ طریقہ دیکھنے کو نہیں ملتا. امام احمد کا امام ابو حنیفہ اور امام محمد بن حسن کے بارے میں کہنا کہ وہ "مخالف اثر" تھے اور ان کی رائے "سوء" تھی، دراصل ایک فقہی اختلاف ہے، نہ کہ علمی و اصولی موقف۔ تو اس اختلاف میں بے وجہ کی سختی و تشدد نظر آتا ہے جو انصاف پسند محدث کے شایان شان نہیں. تو دراصل امام احمد کا انہیں "مخالف اثر" کہنا، دراصل اختلافِ فہم کو مخالفتِ دین کہنے کے مترادف ہے — اور یہ انصاف پر بالکل مبنی نہیں ہے۔ ❞
امام ابو یوسف ، امام احمد کے ہاں صدوق تھے ، لیکن امام احمد پھر بھی ان سے روایت نہ کرنے کی تلقین کر رہے ہیں۔
وقال عبد الله: سألت أبي، من أسد بن عمرو. قال: كان صدوقًا، وأبو يوسف صدوق، ولكن أصحاب أبي حنيفة لا ينبغي أن يروى عنهم شيء. «العلل» (٥٣٣٢)
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ایک انسان آپکے نزدیک صدوق اور حدیث بیان کرنے کے قابل ہے لیکن آپ صرف اس وجہ سے اس سے احادیث نقل نہیں کرتے کیونکہ وہ امام ابو حنیفہ کا شاگرد ہے. کیا یہی انصاف کا تقاضہ ہے؟
کیا کسی محدث سے صرف اس لئے حدیث نقل نہیں کرنا کہ وہ جس امام کا شاگرد ہے آپ اس امام کو پسند نہیں کرتے، یہی دین کی خدمت ہے؟ چلیں مان بھی لیں آپ کو امام ابو حنیفہ پسند نہیں لیکن امام ابو یوسف کے دوسرے بھی کئی استاد ہیں جن سے وہ احادیث نقل کرتے ہیں تو آپ کسی دوسرے استاد کے واسطہ سے تو احادیث نقل کر ہی سکتے ہیں. بلکہ ہم کہیں گے کہ آپ ایسے راویوں سے تو روایت بیان کرتے ہیں جسے آپ خود ضعیف کہتے ہیں لیکن ایسے محدث سے روایت بیان نہیں کرتے جو آپ کے اور دوسرے محدثین کے نزدیک ثقہ صدوق ہے. کیا یہ طریقہ درست ہے؟
17۔ وقال محمد الباغندي: كنت عند عبد الله بن الزبير، فأتاه كتاب أحمد بن حنبل، اكتب إلي بأشنع مسألة عن أبي حنيفة، فكتب إليه، حدثني الحارث بن عمير. قال: سمعت أبا حنيفة يقول: لو أن رجلًا قال أعرف لله بيتًا، ولا أدري أهو الذي بمكة أو غيره، أمؤمن هو؟ قال: نعم، ولو أن رجلًا قال: أعلم أن النبي ﷺ قد مات ولا أدري أدفن بالمدينة أو غيرها، أمؤمن هو؟ قال: نعم. قال الحارث بن عمير: وسَمِعتُهُ يقول: لو أن شاهدين شهدا عند قاض أن فلان بن فلان طلق امرأته، وعلما جميعًا أنهما بالزور، ففرق القاضي بينهما، ثم لقيها أحد الشاهدين فله أن يتزوج بها؟ قال: نعم، ثم على القاضي بعد، أله أن يفرق بينهما؟ قال لا. «تاريخ بغداد» ١٣/٣٧١.
محمد الباغندی بیان کرتے ہیں:
"میں عبد اللہ بن الزبیر کے پاس تھا کہ احمد بن حنبل کا ایک خط آیا، جس میں لکھا تھا:
'مجھے امام ابو حنیفہ کے بارے میں سب سے زیادہ قابلِ اعتراض مسئلہ لکھ کر بھیجو۔'
پس انہوں نے انہیں لکھا:
مجھے حارث بن عمیر نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: میں نے امام ابو حنیفہ کو یہ کہتے سنا:
اگر کوئی شخص کہے: 'میں اللہ کے لیے ایک گھر کو جانتا ہوں، مگر مجھے معلوم نہیں کہ وہ مکہ میں ہے یا کہیں اور'— تو کیا وہ مومن ہوگا؟ ابو حنیفہ نے کہا: 'ہاں، وہ مومن ہوگا۔'
اگر کوئی شخص کہے: 'مجھے معلوم ہے کہ نبی کریم ﷺ کا انتقال ہو چکا ہے، لیکن میں نہیں جانتا کہ انہیں مدینہ میں دفن کیا گیا یا کسی اور جگہ'— تو کیا وہ مومن ہوگا؟
ابو حنیفہ نے کہا: 'ہاں، وہ مومن ہوگا۔' حارث بن عمیر مزید کہتے ہیں: میں نے ابو حنیفہ کو یہ کہتے بھی سنا کہ: اگر دو گواہ کسی قاضی کے سامنے یہ گواہی دیں کہ فلاں شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے، حالانکہ وہ دونوں جانتے ہوں کہ یہ جھوٹی گواہی ہے، اور قاضی اس بنیاد پر ان کے درمیان تفریق کر دے— پھر بعد میں انہی گواہوں میں سے کوئی ایک اس عورت سے نکاح کرنا چاہے، تو کیا ایسا کرنا جائز ہوگا؟ ابو حنیفہ نے کہا: 'ہاں، ایسا کر سکتا ہے۔' پھر ان سے پوچھا گیا:
'کیا قاضی کو بعد میں یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اس نکاح کو فسخ (کالعدم) کر دے؟' ابو حنیفہ نے کہا: 'نہیں، قاضی ایسا نہیں کر سکتا۔'"
جواب :
سند میں راوی الحارث بن عُمير البصري ہیں ، امام ابن خزیمہ ، ابن جوزی ، ابن حبان ، امام حاکم وغیرہ نے ان پر کلام کیا ہے ، لہذا یہ سند صحیح نہیں۔
18۔ وقال محمد بن يوسف البيكندي: قيل لأحمد بن حنبل: قول أبي حنيفة: الطلاق قبل النكاح. فقال: مسكين أبو حنيفة، كأنه لم يكن من العراق، كأنه لم يكن من العلم بشيء، قد جاء فيه عن النبي ﷺ وعن الصحابة، وعن نيف وعشرين من التابعين مثل سعيد بن جبير، وسعيد بن المسيب، وعطاء، وطاووس، وعكرمة، كيف يجترىء أن يقول تطلق؟!. «تاريخ بغداد» ١٣/٤١١
محمد بن یوسف البیکندی بیان کرتے ہیں کہ امام احمد سے سوال ہوا: "ابو حنیفہ کا یہ نظریہ کہ 'نکاح سے پہلے طلاق ہو سکتی ہے'، اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟"
تو امام احمد نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "ابو حنیفہ تو گویا علم سے بالکل نابلد تھے! جب نبی کریم ﷺ، صحابہ کرام اور
بڑے بڑے تابعین اس بات کو مسترد کر چکے ہیں، تو وہ کس بنیاد پر ایسا دعویٰ کر سکتے ہیں؟"
جواب :
اول : سند میں محمود بن اسحاق الخزاعی مجہول ہیں ، کسی محدث نے ان کی توثیق نہیں کی ، غیر مقلدین اس راوی کو ثقہ ثابت کرنے کی بہت کوششیں کرتے ہیں ، جس کا جواب قارئین اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں
دوم : ابا عمرو حریث بن عبدالرحمن کی توثیق بھی کسی محدث سے نہیں ملی ، لہذا یہ سند ضعیف ہے ۔
سوم : یہ فقہی مسئلہ اختلافی ہے ، امام ابو حنیفہ اور امام مالک کی رائے امام شافعی اور امام احمد سے نہیں ملتی ، فقہی مسئلہ پر احناف کا موقف اور دلیل کیلئے دیکھیں
▪︎ تحفتہ الاالمعی 4/70 از شیخ الحدیث مفتی سعید احمد پالنپوری صاحب رحمہ اللہ
▪︎ احکام القرآن للجصاص 3/473
التجريد للقدوري ٩/٤٧٨٩
ابو حنیفہ علم سے کیسے نا بلد ہو سکتے ہیں ، امام احمد نے تو خود فقہ کے مشکل مسائل امام ابو حنیفہ کے شاگردوں کی کتب سے پڑھے تھے ؟ امام احمد کے اساتذہ ، امام ابو حنیفہ کی رائے کے گرویدہ ملتے ہیں ، ہمیشہ امام احمد اپنے اساتذہ (شافعی و ابن مبارک ) کی مخالفت کرتے کیوں نظر آتے ہیں ۔
19۔ وقال محمد بن روح: سمعت أحمد بن حنبل يقول: لو أن رجلًا ولي القضاء، ثم
حكم برأي أبي حنيفة، ثم سئلت عنه، لرأيت أن أرد أحكامه. «تاريخ بغداد» ١٣/٤١٢.
محمد بن روح کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل کو یہ فرماتے سنا:
"اگر کوئی آدمی قاضی بنایا جائے، پھر وہ ابو حنیفہ کے نظریے کے مطابق فیصلے کرے،
اور مجھ سے اس کے بارے میں پوچھا جائے، تو میں اس کے فیصلوں کو رد کر دینا ضروری سمجھوں گا۔"
جواب :
سند میں محمد بن روح مجہول ہیں ، کسی محدث نے ان کی توثیق نہیں کی ۔ اس کے علاوہ زکریا الساجی احناف کے خلاف اپنے تعصب میں مشہور ہیں ، لہذا سند درست نہیں
20۔ وقال إبراهيم الحربي: وضع أبو حنيفة أشياء في العلم مضغ الماء أحسن منها، وعرضت يوما شيئًا من مسائله على أحمد بن حنبل فجعل يتعجب منها، ثم قال: كأنه هو يبتدئ الإسلام.
«تاريخ بغداد» ١٣/٤١٣.
ابراہیم الحربی کہتے ہیں: ابو حنیفہ نے بعض مسائل ایسے گھڑے ہیں، جن کے بجائے پانی چبانا زیادہ مفید ہوگا! میں نے ایک دن امام احمد بن حنبل کے سامنے ابو حنیفہ کے کچھ مسائل پیش کیے، تو وہ حیران ہو گئے، پھر کہنے لگے: گویا کہ ابو حنیفہ اسلام کو ازسرِ نو ایجاد کر رہے ہیں (یا وہ نو مسلم معلوم ہوتے ہیں)
جواب :
سند میں ابن بطہ حنبلی ہیں جس پر خطیب بغدادی نے خود کلام کیا ہے ، لہذا اس راوی کو خطیب بغدادی کا ہمارے خلاف پیش کرنا کیسے حجت ہو سکتا ؟ ابن بطہ حنبلی کو خطیب کے علاوہ بھی دیگر ماہرین نے غلطیاں کرنے والا ، اوہام والا اور ضعیف نقل کیا ہے ۔
دوم : ہمارے مضمون میں وہ روایات شامل ہین جن میں امام احمد اقرار کر رہے ہیں کہ انہوں نے فقہ کے باریک بین مسائل امام ابو حنیفہ سے بھی نہیں بلکہ ان کے بھی شاگردوں کی کتب سے اخذ کئے ہیں ، جب شاگردوں کا یہ عالم ہے تو امام اعظم کی فقاہت کا کیا عالم ہو گا ؟ جس کی جلالت پر امام احمد کے استاد امام شافعی فرماتے ہیں سب فقہ میں امام ابو حنیفہ کے خوشہ چین ہیں ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ، امام احمد جب تعصب میں آ کر جرح کرتے ہیں تو ، ہمیشہ اپنے اساتذہ کی مخالف صف میں پائے جاتے ہیں ، اللہ درگزر فرمائے۔
21۔ وقال عبد الله بن أحمد: سألت أبي، عن الرجل يريد أن يسأل عن الشيء من أمر دينه، يعني مما يُبتلى به من الأيمان في الطلاق وغيره، وفي مِصره من أصحاب الرأي، ومن أصحاب الحديث لا يحفظون ولا يعرفون الحديث الضعيف، ولا الإسناد القوي، فمن يسأل، أصحاب الرأي، أو هؤلاء، أعني أصحاب الحديث، على ما كان من قلة معرفتهم؟ قال: يسأل أصحاب الحديث، ولا يسأل أصحاب الرأي، ضعيف الحديث خير من رأي أبي حنيفة.
«تاريخ بغداد» ١٣/٤١٨.
عبداللہ بن احمد بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام احمد سے پوچھا:
"اگر کسی شخص کو دین کے کسی مسئلے میں سوال کرنا ہو، اور اس کے شہر میں دو طرح کے لوگ ہوں: ایک وہ جو قیاس اور عقل سے فتوے دیتے ہیں، اور دوسرے وہ جو حدیث کا علم رکھتے ہیں، مگر کمزور حدیث ہی جانتے ہیں، تو وہ کس سے پوچھے؟" امام احمد نے فرمایا: "حدیث جاننے والوں سے پوچھے، چاہے وہ کمزور حدیث ہی جانتے ہوں، کیونکہ ابو حنیفہ کی رائے سے کمزور حدیث بھی بہتر ہے!"
جواب :
فقہاء عراق اس بات پر متفق ہیں کہ بے شک ضعیف حدیث قیاس پر راجح ہوتی ہے ، تو رائے کو امام ابوحنیفہ کی طرف اضافت کر کے رائے کو مقید کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے بلکہ حق کلام یہ ہے کہ کہا جائے کہ
" ضعیف حدیث امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل ، امام بخاری ، امام مسلم و دیگر محدثین و فقہاء کی آراء سے بہتر ہے"۔
22۔امام إسحاق بن منصور (المتوفى: 251) نے امام احمد رحمه الله سے کہا:
قُلْتُ : يُؤجرُ الرجلُ على بغضِ أصحابِ أبي حنيفةَ ؟ قَالَ : إي واللهِ
ترجمہ : کیا اصحاب ابو حنیفہ سے بغض رکھنے پر کسی آدمی کو ثواب ملے گا ؟ تو امام احمد رحمہ اللہ نے کہا: اللہ کی قسم یقینا ".
[مسائل الإمام أحمد بن حنبل وابن راهويه 2/ 565]۔
جواب نمبر 1 :- ہم امید کرتے ہیں کہ امام احمد نے اس طرح کی بات نہیں کہی ہوگی. قول نقل کرنے والے یا کتاب چھاپنے والے سے غلطی ہو سکتی ہے کیونکہ امام ابن قیم نے اپنی کتاب اعلام الموقعين میں امام احمد سے حدیث کی مخالفت کرنے والوں سے بغض رکھنے کو جائز ہونا نقل کیا ہے.
جواب نمبر 2 :- بالفرض اگر یہ قول امام احمد سے ثابت ہے تو صحیح مسلم کی حدیث کی روشنی میں امام احمد کی بات غلط ہے. کیونکہ حدیث میں حضور اکرم نے ایک دوسرے سے بغض رکھنے کو منع کیا ہے ایک دوسری حدیث میں ہے کہ پیر اور جمعرات کو ایمان والوں کی مغفرت کر دی جاتی ہے سوائے اس بندے کے جو اپنے ( مسلمان ) بھائی سے بغض اور عداوت رکھتا ہے. بلکہ ترمذی کی روایت میں ( کسی مسلمان سے ) بغض رکھنا ایمان کو مونڈنے ( ختم کرنے ) والا کہا گیا ہے. ان احادیث کے ہوتے ہوئے معلوم چلتا ہے کہ کسی سے بغض رکھنا بالکل درست نہیں ہے.
اگر امام احمد کا مطلب یہ ہو کہ ابو حنیفہ نے رائے استعمال کی تو اس لئے ان سے بغض رکھا جائے ، یہ بھی زیادتی ہے کیونکہ فقہاء ہی رائے استعمال کرتے ہیں ، کیا امام مالک و شافعی نے رائے استعمال نہیں کی ، قیاس تو سب فقہاء کسی نہ کسی مسئلے میں ضرور کرتے ہیں ، پھر خاص ابو حنیفہ سے دشمنی کیوں ؟
اگر معنی یہ کہ ابو حنیفہ مخالفت حدیث کرتے تھے ، یہ بھی زیادتی ہے ، کیا امام مالک نے عمل مدینہ کی وجہ سے حدیثیں ترک نہیں کیں ؟ بلکہ فقہاء تو حدیثوں کو راجح مرجوح کرتے ہی ہیں ، سب صحیح حدیثوں پر عمل ممکن نہیں ، جب سارے فقہاء بھی ترک حدیث کسی نہ کسی اصول کی بناء پر کرتے تھے پھر اکیلے ابو حنیفہ پر بغض کیوں ؟ اگر وجہ اس کے علاہ کوئی اور تھی تو بیان کیوں نہیں کی ؟
23. قال الإمام أحمد رحمه الله في «العلل» (ج٢ص٣٢٩):
حدثنا إسحاق بن عيسى الطباع عن ابن عيينة قال قلت لسفيان الثوري: لعله يحملك على أن تفتي أنك ترى من ليس بأهل الفتوى يفتي فتفتي؟ قال عبد الله بن أحمد: قال أبي: يعني أبا حنيفة.
ابن عیینہ کہتے ہیں: میں نے سفیان ثوری سے کہا: شاید آپ کو فتویٰ دینے پر اس وجہ سے آمادہ کیا ہو کہ آپ دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ فتویٰ دے رہے ہیں جو اس کے اہل نہیں، تو آپ بھی فتویٰ دینے لگے؟
عبداللہ بن احمد کہتے ہیں: میرے والد (احمد بن حنبل) نے کہا: اس سے مراد ابو حنیفہ ہیں۔
جواب :
اول : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا تعصب اس روایت سے واضح ہو گیا ہے ، خود امام احمد بن حنبل نے فقہ کے مشکل ترین مسائل جن سے سیکھے ، اب انھی کو فقہ سے نا بلد کہہ رہے ہیں ، کیا احسان کا بدلہ یہی ہوتا ہے ؟ کیا جن سے علم حاصل کیا جاتا ہے ، ان سے ایسا سلوک کرنا بہتر ہے ؟
اللہ امام احمد سے درگزر فرمائیں
دوم : اس روایت میں سفیان بن عیینہ یا سفیان الثوری نے کہیں بھی امام ابو حنیفہ کا تذکرہ نہیں کیا ۔ الٹا سفیان بن عیینہ امام ابو حنیفہ کی فقہ کو آفاق پر پھیلاو کا اعلان کر چکے ہیں جیسا کہ روایات میں مذکور ہے ، یعنی وہ فقہ میں امام ابو حنیفہ کی مہارت تسلیم کر چکے ہیں ،
اعتراض نمبر 71 : کہ سفیان نے کہا کہ اسلام میں سب سے بڑی شر ابوحنیفہ نے پھیلائی
اور امام سفیان ثوری کی فقہ بھی فقہ حنفی سے مماثلت رکھتی تھی جیسا کہ قارئیں ان مضامین میں تفصیل دیکھ سکتے ہیں ۔
فقہ حنفی اور فقہ ثوری میں مماثلت: امام وکیع کی حنفیت:
اس صراحت کے باوجود امام احمد بن حنبل نے جو تعصب ظاہر کیا ، یہ ان کی شان کے لائق نہ تھا۔
ان روایات سے یہ معلوم ہوتا ہیکہ امام احمد بن حنبل جیسے جرح و تعدیل میں معتدل ترین امام نے بھی امام ابو حنیفہ کے معاملے پر حد سے زیادہ بے انصافی کی ہے ، لہذا امام احمد سے منقول کوئی بھی ایسی روایت ہو جس میں وہ امام ابو حنیفہ پر جرح کریں ، کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں ہو سکتی
---------------------------------------------------------------------------------------------
《النعمان سوشل میڈیا سروسز》---------------------------------------------------------------------------------------------
---------------------------------------------------------------------------------------------
---------------------------------------------------------------------------------------------
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں