نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

الفضل الربانی فی حیاۃ الامام محمد بن الحسن الشیبانی امام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ (م۱۸۹؁ھ) کا مقام و مرتبہ ائمہ و علماء کی نظر میں (مکمل ) -حافظ ظہور احمد الحسینی حفظہ اللہ


 

الفضل الربانی فی حیاۃ  الامام محمد بن الحسن الشیبانی

امام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ (م۱۸۹؁ھ) کا مقام و مرتبہ ائمہ و علماء کی نظر میں

                  -حافظ ظہور احمد الحسینی  حفظہ اللہ

ترتیب و حاشیہ:  مولانا نذیر الدین قاسمی

نحمدہ ونصلی ونسلم علی رسولہ الکریم ، اما بعد :

امام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ (م۱۸۹؁ھ) فقہ کے عظیم سپوت اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ کے مایہ ناز شاگردوں میں سے ہیں، آپ کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ آپ نے فقہ حنفی (جوشروع سے اب تک اہلِ اسلام کی اکثریت کا دستورِ عمل اور پرسنل لاء ہے) کو کتابی صورت میں لکھ کر پوری دنیا کو اس سے روشناس کرایا۔

آپ کے ذاتی حالات:

حضرت امام محمدؒ کے خاندان کا تعلق دمشق (شام) کے علاقہ ’’الغوطہ‘‘ کے وسط میں واقع قصبہ ’’حرستا‘‘ سے تھا، پھر آپ کے والد شام سے ہجرت کرکے عراق آگئے،اور عراق کے شہر  ’’واسط‘‘  میں سکونت اختیار کرلی، امام محمدؒ کی پیدائش یہیں ’’واسط‘‘ میں ہوئی، اور پھر آپ کوفہ تشریف لے گئے ، اوروہیں آپ کی نشو ونما ہوئی۔

امام ابو سعد سمعانیؒ ۵۶۲؁ھ) امام ابن خلکانؒ ۶۸۱؁ھ)، امام ذہبیؒ۷۴۸؁ھ) اور امام ابن ناصرالدین (م؎۸۴۰؁ھ) وغیرہ علماء آپ کے حالات میں لکھتے ہیں:

اصلہ من قریۃ دمشق فی وسط الغوطۃ اسمھا حرستا، وقدم ابوہ من الشام الی العراق، واقام بواسط فولدہ بھا محمد المذکور ونشأ بالکوفۃ۔

’’امام محمدؒ کا اصل تعلق دمشق میں  ’’وسط غوطہ‘‘ میں واقع ایک قصبہ جس کا نام ’’حرستا‘‘ ہے ، سے ہے، آپ کے والد شام سے عراق آکر ’’واسط ‘‘ میں مقیم ہوگئے تھے، اور یہیں ان کے ہاں امام محمدؒ مذکور کی ولادت ہوئی،اور آپ کوفہ میں پروان چڑھے‘‘۔( کتاب الانساب:ج۳۱۶۶، وفیات الاعیان :ج۲: ص۳۲۱، مناقب ابی حنیفہ و صاحبہ :ص:۵۰، اتحاف السالک براۃ الموطا عن مالک :ص۱۷۶)

امام محمد بن سعدؒ ۲۳۰؁ھ) کی تصریح کے مطابق آپ کے خاندان کا اصلی تعلق دمشق سے بھی پہلے ’’جزیرہ‘‘ سے تھا۔  (الطبقات الکبریٰ:ج۷: ص۲۴۲)

آپ کی ولادت صحیح قول کے مطابق ۱۳۲؁ھ میں ہوئی، جیسا کہ امام محمد بن سعدؒ ۲۳۰؁ھ) امام شمس الدین ذہبیؒ ۷۴۸؁ھ)، امام ناصرالدین الدمشقی ؒ ۸۴۰؁ھ) امام ابن کثیرؒ۷۷۴؁ھ) اور دیگر کئی محدثین نے تصریح کی ہے۔  (طبقات الکبری:ج۷: ص۲۴۲،مناقب ابی حنیفہ وصاحبیہ :ص۵۰، اتحاف السالک : ص : ۱۷۶، البدایہ والنھایہ:ص۱۹۶،ج۷)

امام محمدؒ کی زندگی کا زیادہ تر حصہ درس وتدریس اور تصنیف وتالیف میں گذرا، اور کچھ عرصہ کیلئے آپ دریائے فرات کے کنارے آباد ایک مشہور شہر ’’رقّہ‘‘ کے قاضی بھی رہے ،لیکن جلد ہی اس سے سبکدوش ہوکر بغدادمنتقل ہوگئے اور دوبارہ ہمہ تن اپنے علمی مشاغل میں مصروف رہنے لگے، خلیفہ ہارون رشیدؒ ۱۹۳؁ھ) آپ کے علم اور فضل وکمال کا بہت زیادہ معترف تھے، اور جب سفر میں جاتے تو اکثر آپ کو اپنے ساتھ رکھتے۔

 ۱۸۹؁ھ  میں جب وہ ایران کے مشہور علمی شہر ’’رے‘‘ گئے تو آپ کو اور مشہور نحوی عالم امام کسائی ۱۸۹؁ھ) کوبھی اپنے ساتھ لے گئے، اور اتفاق سے ان دونوں جبالِ علم نے وہیں ایک ہی روز انتقال کیا، خلیفہ کو اس کا بہت صدمہ ہوا ، اور ان دونوں کو دفن کرنے کے بعد کہنے لگے:

’’دفنت الیوم اللغۃ والفقہ جمیعا بالری‘‘

آج کے دن میں نے لغت عربیہ اور فقہ دونوں کو ’’ رے‘‘ میں دفن کردیا ہے۔ (تاریخ بغداد: ۲؍۱۷۸، اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ:ص۱۳۲،۱۳۳)[38]

خلیفہ ہارون الرشید کے درباریوں میں سے ایک مشہور ادیب و شاعر ابو محمد الیزیدیؒ نے امام محمد ؒ کی وفات پر ایک طویل مرثیہ لکھا جس کا ایک شعر یہ ہے:

وقلت اذا ما الخطب اشکل من لنا

بایضاحہ یوما وانت فقید

’’میں نے کہا: آج جب تو نہ رہا تو ہمارے لئے مشکلات حل کرنے والا کہاں سے آئے گا۔‘‘  (ایضاً)[39]

علامہ خطیب بغدادیؒ ۴۶۳؁ھ) اور امام عبداللہ الصمیریؒ ۴۳۶؁ھ) نے بہ سندِ متصل نقل کیا ہے کہ امام محمدؒ جو کہ ابدال میں سے تھے، فرماتے ہیں کہ میں نے امام محمدؒ کو آپ کی وفات کے بعد خواب میں دیکھا ، اور آپ سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ہے؟

آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے جنت میں داخل کردیاہے،اور مجھ سے فرمایا کہ میں نے تجھے علم کا برتن اس لئے نہیں بنایا تھا کہ تجھے عذاب دوں۔

میں نے پوچھا کہ :  امام ابو یوسفؒ کا کیا بنا ہے؟  آپ نے فرمایا : وہ (جنت میں ) مجھ سے ایک طبقہ اوپر ہیں۔

میں نے پوچھا کہ: امام ابو حنیفہؒ کے ساتھ کیا ہوا ؟  آپ نے فرمایا:  فوق ابی یوسف بطبقات۔ 

وہ تو (جنت میں)امام ابو یوسفؒ سے بھی کئی طبقے (درجے) اوپر ہیں۔  (ایضاً)[40]

عہد طلب علمی:

آپ کی نشوونما چونکہ کوفہ جیسے عظیم شہر میں ہوئی جو اس وقت ’’معدن العلم والفقہ‘‘ تھا، اور جس کا علمی پایہ پوری اسلامی دنیا میں مشہورتھا، اور پھر تحصیلِ علم کا شوق وجذبہ بچپن سے آپ میں موجزن تھا، اس لئے یہ ناممکن تھا کہ آپ اس علمی ماحول سے متأثر ہوئے بغیر رہ جاتے، چنانچہ آپ اپنی کم عمری سے ہی علم (خصوصاً حدیث و فقہ) کی تحصیل میں لگ گئے۔

علامہ خطیب بغدادیؒ (م۴۶۳؁ھ) نے بہ سند متصل خود آپ کا اپنا بیان نقل کیا ہے کہ:

ترک ابی ثلاثین الف درھم، فانفقت خمسۃ عشر الفاً علی النحو والشعر، وخمسۃ عشرالفاً علی الحدیث والفقہ۔

میرے والد نے (ترکہ میں میرے لئے ) تیس ہزار درہم چھوڑے تھے، میں نے ان میں سے پندرہ ہزار درہم نحو اور شعر وشاعری سیکھنے میں لگا دیئے، اور باقی پندرہ ہزار حدیث اور فقہ کی تحصیل میں خرچ کردئیے۔ (تاریخ بغداد:ج۲: ص۱۷۰)[41]

آپ نے حدیث وغیرہ علوم کی تحصیل میں اپنے وقت کے اکابر ائمہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کئے، علامہ ابن خلکانؒ ۶۸۱؁ھ) اور علامہ صلاح الدین صفدیؒ ۷۶۴؁ھ) آپ کے حالات میں لکھتے ہیں:

’’وطلب الحدیث ولقی جماعۃ من اعلام الائمۃ‘‘

امام محمدؒ نے حدیث حاصل کی، اور اس کی طلب میں ائمہ اعلام سے ملاقات کی۔

(وفیات الاعیان:ج ۲۳۲۱،  الوافی بالوفیات:ج۲۳۳۲)

آپ کوجیسے ائمہ اعلام اور جلیل القدر اساتذہ و مشائخ سے تلمذ کا شرف حاصل ہے ایسے ہی آپ کا یہ اعزاز بھی ہے کہ آپ کے اساتذہ ومشائخ میں ایک بڑی تعداد حضرات تابعین کی بھی ہے۔

محدث کبیر امام حاکم نیشاپوریؒ (م۴۰۵؁ھ) آپ کے بارے میں تصریح کرتے ہیں:

’’وقد ادرک جماعۃ من التابعین‘‘

آپ نے تابعین کی ایک جماعت کو پایا ہے۔  (معرفۃ علوم الحدیث:ص۱۹۳)

آپ نے تابعین کی اس جماعت سے فقہ وغیرہ علوم کی تحصیل کے علاوہ روایتِ حدیث بھی کی ہے ، جس کی وجہ سے آپ کی سندِ حدیث اپنے معاصرین میں سب سے عالی ہوگئی ہے۔

امام اعظم ابوحنیفہؒ سے شرفِ تلمذ:

امام موصوف نے جن ائمہ اعلام سے اخذِعلم کیا ، ان میں سرِ فہرست حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کی ذاتِ گرامی ہے۔

حضرت امام صاحبؒ چونکہ تمام دینی علوم بالخصوص فقہ اور حدیث کے جامع تھے اسلئے امام محمدؒ نے آپ سے ان دونوں علوم میں کمال حاصل کیا۔

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ  ۸۵۲؁ھ) امام محمدؒ کے ترجمے میں ارقام فرماتے ہیں:

’’ولازم ابا حنیفۃ وحمل عنہ الفقہ والحدیث‘‘

آپ نے امام ابوحنیفہؒ کی صحبت کو لازم پکڑا اور ان سے فقہ اور حدیث کو حاصل کیا۔

(تعجیل المنفعۃ:ص۳۶۱)

نیز حافظؒ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:

’’وتفقہ بابی حنیفۃ وسمع منہ‘‘

آپ نے امام ابوحنیفہؒ سے فقہ کی تعلیم پائی اور ان سے حدیث کا سماع کیا۔

(الآثار بمعرفۃ الآثار، طبع مع کتاب الآثار:ص۲۳۲)

امام محمد بن سعدؒ ۲۳۰؁ھ) آپ کے متعلق لکھتے ہیں:

’’وجالس ابا حنیفہ وسمع منہ ونظر فی الرأی‘‘

امام محمدؒ نے امام ابوحنیفہؒ کی مجالست اختیار کی، اور ان سے حدیث کی سماعت کی، اور رائے (فقہ) میں کمال حاصل کیا ۔(الطبقات الکبریٰ:ج۷۲۴۲)

امام ابن قتیبہؒ ۲۷۶؁ھ) نے بھی آپ کے تذکرے میں لکھا ہے کہ :

’’وطلب الحدیث وسمع… وجالس ابا حنیفۃ وسمع منہ‘‘

امام محمدؒ نے حدیث طلب کی اور اس کا سماع کیا، نیز آپ نے امام ابوحنیفہؒ کی مجالست اختیار کی، اور آپ سے بھی حدیث کا سماع کیا۔(المعارف:ص۵۰۰)

حافظ ذہبیؒ ۷۴۸؁ھ) لکھتے ہیں :

’’وروی عن ابی حنیفۃ‘‘

امام محمدؒ نے امام ابوحنیفہ سے روایت کی ہے۔ (سیراعلام النبلاء: ج۹۱۳۴)

نیز امام ذہبیؒ ۷۴۸؁ھ) اور ان کے شاگرد علامہ صفدیؒ (م۷۶۴؁ھ) نے آپ کے حالات میں یہ بھی لکھا ہے کہ:

’’سمع ابا حنیفۃ واخذ عنہ بعض کتب الفقہ‘‘ 

آپ نے امام ابوحنیفہؒ سے حدیث کا سماع کیا، اور ان سے فقہ کی بعض کتب پڑھیں۔

(تاریخ الاسلام:ج۴۹۵۴،الوافی:ج۲۳۳۲)

حافظ ابوسعد سمعانیؒ ۵۶۲؁ھ) آپ کو امام صاحبؒ کے تلمیذ قرار دیتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں:

’’وصاحب ابی حنیفۃ وتلوہ‘‘

آپ صاحب ابی حنیفہؒ اور ان کے پیرو و جانشین ہیں۔ (کتاب الانساب :۳؍۱۶۶)

امام ابویوسفؒ سے تکمیلِ علم:

امام محمدؒ کو صرف دو سال حضرت امام اعظمؒ سے استفادہ کا موقع مل سکا، اگرچہ اس قلیل عرصہ میں بھی آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں اور حضرت امام صاحبؒ جیسے ماہر اور قابلِ فخر استاذ کی صحبت کی بدولت بہت کچھ حاصل کر لیاتھا، لیکن مزید علم حاصل کرنے کے شوق میں آپ نے امام صاحبؒ کی وفات(م۱۵۰؁ھ) کے بعد ان کے سب سے بڑے شاگرد امام ابویوسفؒ ۱۸۲؁ھ) کی مجالست اختیار کی اور ان سے دینی علوم کی تکمیل کی۔

علامہ ابن خلکانؒ ۶۸۱؁ھ) اور علامہ ابن ناصرالدینؒ ۸۴۰؁ھ) رقم طراز ہیں:

’’وحضر مجلس ابی حنیفۃ سنتین ثم تفقہ علیٰ ابی یوسف صاحب ابی حنیفۃ‘‘

امام محمدؒ دو سال امام ابوحنیفہؒ کی مجلس میں حاضر رہے، پھر (امام صاحبؒ کی وفات کے بعد) آپ نے امام ابویوسفؒ صاحب ابی حنیفہؒ سے فقہ کی تعلیم حاصل کی۔

(وفیات الاعیان:ج۲۳۲۱، اتحاف السالک :ص۱۷۶)

حافظ ذہبیؒ ۷۴۸؁ھ) آپ کے مناقب میں ارقام فرماتے ہیں:

وکتب شیئا من العلم عن ابی حنیفۃ، ثم لازم ابا یوسف من بعدہ حتی برع فی الفقہ۔

آپ نے امام ابویوسفؒ (کی مجالست) کو لازم پکڑا یہاں تک کہ فقہ میں مکمل عبور حاصل کرلیا۔

(مناقب ابی حنیفۃ وصاحبہ: ص۵۰)

          ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ:

’’واخذ عن ابی حنیفۃ بعض الفقہ، وتمم الفقہ علی القاضی ابی یوسف‘‘ 

امام محمدؒ نے امام ابوحنیفہؒ سے کچھ فقہ حاصل کیا، اور اس کی تکمیل قاضی ابویوسفؒ سے کی۔ (سیراعلام النبلاء:ج۹۱۳۴)

امام ابویوسفؒ سے اگرچہ بڑے بڑے نامور اور بلند مرتبت محدثین وفقہا ء نے حدیث اور فقہ کی تحصیل کی، اور آپ کے تلامذہ پوری دنیا میں پھیلے ہیں، لیکن ان میں سب سے زیادہ فقیہ، اور سب سے زیادہ جلیل القدر جو شخص قرار پائے وہ امام محمدؒ ہیں۔

چنانچہ حافظ ذہبیؒ ۷۴۸؁ھ) ، امام حماد بن سلیمانؒ کے ترجمے میں لکھتے ہیں:

’’وانتشر اصحاب ابی یوسف فی الآفاق، وافقھھم محمدبن الحسن‘‘

امام ابویوسفؒ کے تلامذہ پوری دنیا میں پھیلے ہیں، ان میں سب سے زیادہ فقیہ امام محمد بن حسنؒ ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء :۵؍۲۳۶)

نیز امام ذہبیؒ نے امام یوسفؒ کے مناقب میں جہاں ان کے تلامذہ میں امام یحیٰ بن معینؒ، امام احمد بن حنبلؒ، اور امام علی بن الجعدؒجیسے نابغہ روزگار محدثین کو شمار کیا ہے، وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ:

’’واجل اصحابہ محمد بن الحسن‘‘

امام ابویوسفؒ کے تلامذہ میں سے زیادہ جلیل القدر شاگرد امام محمد بن حسنؒ ہیں۔

(مناقب ابی حنیفۃ۳۹)

گویا حافظ ذہبیؒ جیسے مؤرخ اسلام اور محدث ناقد کی نظر میں امام محمدؒ کا مقام فقہ اور جلالتِ شان میں  امام ابویوسفؒ کے دیگر تمام تلامذہ (امام ابن معینؒ، امام احمدؒ وغیرہ) سے زیادہ ہے۔

مزید برآں امام موصوف کا یہ بھی بہت بڑا اعزاز ہے کہ آپ امام اعظم ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسفؒ کے مذہب کے سب سے بڑے راوی سمجھے جاتے ہیں ، اورآپ ہی نے ان دونوں حضرات کے مذاہب کو مضبوط دلائل سے مستحکم کیاہے۔

شیخ الاسلام امام ابن عبدالبر المالکیؒ ۴۶۳؁ھ) آپ کے متعلق تصریح کرتے ہیں:

’’ولازم اباحنیفۃ ثم ابا یوسف بعدہ، وھو راویۃ ابی حنیفۃ وابی یوسف القائم بمذھبھما‘‘

امام محمدؒ نے امام ابوحنیفہؒ (کی مجلس ) کو ، اورپھر امام ا بویوسفؒ(کی مجلس) کو لازم پکڑا، اور آپ امام ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسفؒ کے (مذہب کے) بڑے راوی ہیں، اور ان کے مذہب کو قائم (مضبوط) کرنے والے ہیں۔(الانتقاء:ص۱۷۴)

کوفہ کے دیگر ائمہ سے اخذِ علم:

آپ نے امام اعظمؒ اور امام ابویوسفؒ کے علاوہ کوفہ کے دیگر کئی نامور اور جلیل المرتبت ائمہ سے بھی اخذ علم کیا، علامہ خطیب بغدادیؒ ، اورحافظ ذہبیؒ وغیرہ محدثین کی تصریح کے مطابق آپ کے بعض مشہور اساتذہ یہ ہیں:

امام سفیان ثوریؒ ، امام مالک بن مغولؒ، امام مسعربن کدامؒ، امام زفر بن ہذیلؒ، امام یونس بن ابی اسحاقؒ، امام قاسم بن معینؒ ، امام داؤد طائیؒ، وغیرہم ، رحمہم اللہ تعالیٰ۔

(تاریخِ بغداد:ج۲۱۶۹، مناقب ابی حنیفۃ وصاحبہ: ص۵۰، بلوغ الامالی:ص۷)

امام مالکؒ (م۱۷۹؁ھ) سے مؤطا اور دیگر احادیث کا سماع:

حضرت امام محمدؒ، ائمہ کوفہ سے تحصیلِ علم کے بعد مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور وہاں کے ائمہ اجلہ خصوصاً امام دارالہجرت حضرت مالک بن انسؒ( م۱۷۹؁ھ) سے استفادہ کرنے لگے، آپ تین سال امام مالکؒ کی خدمت میں رہے، اور ان سے ان کی ’’مؤطا‘‘ اور دیگر احادیث کا سماع کیا۔

حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) فرماتے ہیں:

’’وسمع… مالک بن انس ولازم مالکا مدۃ‘‘ 

امام محمدؒ نے امام مالکؒ سے بھی حدیث کا سماع کیا، اور ایک عرصہ تک ان کے ساتھ رہے۔

(مناقب ابی حنیفۃ وصاحبہ: ص۵۰)

حافظ ابن ناصرالدینؒ ۸۴۰؁ھ) آپ کے تذکرے میں لکھتے ہیں:

’’وکان اقام عندہ ثلاث سنین أو شبھا بثلاث سنین‘‘

امام محمدؒ ، امام مالکؒ کے پاس پورے تین سال، یا تین سال کے قریب رہے۔

(اتحاف السالک: ص۱۷۷)

نیز حافظ موصوفؒ نے بحوالہ قاضی عیاضؒ لکھاہے:

’’ومحمد قد سمع المؤطا من مالک وسمع علیہ کثیرا‘‘

امام محمدؒ نے امام مالکؒ سے مؤطا اور بکثرت احادیث کا سماع کیا۔(ایضا:ص۲۶۲)

ایک اور جگہ حافظ ابن ناصرالدینؒ تصریح کرتے ہیں کہ:

’’واخذ عن مالک الموطا وغیرہ من الاحادیث لفظا وعرضا‘‘

آپ نے امام مالکؒ سے ’’مؤطا‘‘ اور ان کی دیگر احادیث لفظاً (یعنی امام مالکؒ سے سن کر) اور عرضاً (یعنی امام مالکؒ کو ان کی احادیث سناکر) دونوں طریقوں سے حاصل کیں۔ (ایضا ً ص: ۱۷۶)

محدثین میں روایتِ حدیث کے طریقے رائج تھے، ایک لفظاً کہ محدث خود اپنے طلبہ کو احادیث سنائے، اور دوسرا طریقہ ’’عرض علی المحدث‘‘ کہ طلبہ محدث کی لکھی ہوئی احادیث کو پڑھ کر سنائیں۔

امام مالکؒ کے ہاں یہ دوسرا طریقہ ’’عرض علی المحدث‘‘رائج تھا، اور وہ خود بہت ہی کم طلبہ کو حدیث سناتے تھے، لیکن امام محمدؒ کا امام مالکؒ کی نظر میں عظیم المرتبت ہونے اور آپ سے ان کی محبت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ امام مالکؒ نے اپنی عادت سے ہٹ کر آپ کو خود اپنی زبانی سات سو احادیث سنائیں۔

چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ۸۵۲؁ھ) امام شافعیؒ سے نقل کرتے  ہیں کہ:

قال لی محمد بن الحسن: اقمت علی مالک ثلاث سنین، وسمعت من لفظہ سبع مائۃ حدیث، قلت: وکان مالک لا یحدث من لفظہ الا نادراً۔

امام محمد بن حسنؒ نے مجھ سے فرمایا کہ میں تین سال امام مالکؒ کے پاس رہا، اورخود ان کے الفا ظ سے سات سو احادیث کی سماعت کی۔[42] میں (حافظ بن حجرؒ ) کہتا ہوں کہ امام مالکؒ اپنے الفاظ سے بہت کم احادیث بیان کرتے تھے۔ (الایثار مع کتاب الآثار۲۳۳)

نیزحافظؒ  لکھتے ہیں:

’’فلولا طول اقامۃ محمد عندہ وتمکنہ منہ ماحصل لہ عنہ ھذا ‘‘

اگر امام محمدؒ امام مالکؒ کے پاس زیادہ عرصہ نہ رہے ہوتے ، اور ان سے آپ کا اچھا تعلق نہ ہوتا تو آپ کو ان سے یہ چیز نہیں مل سکتی تھی۔(تعجیل المنفعۃ۳۶۱-۳۶۲)

حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) نے آپ کو امام عبدالرحمن بن مہدیؒ وغیرہ جیسے امام مالکؒ کے کبارِ تلامذہ میں شمار کیا ہے، اور آپ کو امام شافعیؒ ( جو امام مالکؒ کے مشہور شاگرد ہیں) پر ترجیح دی ہے، چنانچہ امام شافعیؒ  (م۲۰۴؁ھ) نے ایک حدیث کی سند کے متعلق فرمایا ہے کہ امام مالکؒ نے اس کو بیان کرتے ہوئے غلطی کی ہے اور سند میں انہوں نے مجاہد کے نام کا اضافہ غلطی سے کر دیا ہے، حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) ، امام شافعیؒ (م۲۰۴؁ھ) کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’قدرواہ عن مالک؛ باثبات مجاھد، ابراھیم بن طھمان، وابن وھب، وعبدالرحمن بن مھدی، ومحمد بن الحسن الفقیہ، وسماع ھولاء منہ قدیم‘‘

امام مالکؒ سے مجاہدؒ کے اثبات کے ساتھ ، ابراہیم بن طہمانؒ ، ابن وہبؒ، عبدالرحمن بن مہدیؒ، اور محمدبن حسن فقیہؒ نے روایت کیا ہے، اور ان حضرات کا (امام شافعیؒ کے مقابلے میں ) امام مالکؒ سے سماع قدیم ہے۔

یعنی یہ چار حضرات (امام محمدؒ سمیت) امام مالکؒ کے قدیم شاگردہیں، اور ان کی روایت کو امام شافعیؒ کی روایت پر ترجیح ہے۔ (سیراعلام النبلاء: ترجمہ عبدالکریم الجزریؒ)

امام محمدؒ (م۱۸۹؁ھ) کا ’’مؤطا‘‘ کے راویوں میں ایک نمایاں مقام:

امام محمدؒ نے امام مالکؒ سے ان کی مشہور تصنیف حدیث ’’مؤطا‘‘ کو سُن کر آگے اس کو روایت بھی کیا ہے، اور آپ کا شمار ’’مؤطا‘‘ کے مشہور اور بڑے راویوں میں ہوتا ہے، حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) نے امام محمدؒ کے ترجمہ میں لکھا ہے کہ:

’’وقال بن عدی فی کاملہ سمع محمد المؤطا من مالک‘‘ 

امام ابن عدیؒ۳۶۵؁ھ) نے اپنی کتاب ’’الکامل‘‘ میں لکھا ہے کہ امام محمدؒ نے امام مالکؒ سے مؤطا کا سماع کیا تھا۔(تاریخ الاسلام: ۳؍۹۵۴)

محدث کبیر امام حاکم نیشاپوریؒ ۴۰۵؁ھ) لکھتے ہیں:

’’ومحمد بن الحسن الشیبانی ممن روی المؤطا عن مالک‘‘

امام محمد بن حسن الشیانیؒ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے امام مالکؒ سے مؤطا کو روایت کیا ہے۔

(معرفۃ علوم الحدیث:ص۹۳)

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (م۸۵۲؁ھ) آپ کے بارے میں تصریح کرتے ہیں کہ:

’’وقد جمع حدیثہ عن مالک واورد فیہ مایخالفہ فیہ ، وھو المؤطا المسموع من طریقہ‘‘۔ 

امام محمدؒ نے امام مالکؒ سے مروی احادیث کو جمع کیا، اور ان کے ساتھ جو اختلاف کیا وہ بھی ذکر کیا، اور اسی مجموعہ کا نام ’’مؤطا‘‘ ہے ، جو امام محمدؒ کے طریق سے مسموع (سنا جاتا) ہے۔(تعجیل المنفعۃ:ص۳۶۲)

حافظ ابن ناصرالدینؒ(م۸۴۲؁ھ) نے امام محمدؒ کو’’مؤطا‘‘ کے مشہور راویوں میں شمار کرکے آپ کا شاندار ترجمہ لکھاہے، اور آپ کے روایت کردہ ’’نسخۂ مؤطا‘‘ کے تعارف میں تصریح کی ہے کہ:

’’والمؤطا الذی یعرف بمؤطا محمد بن الحسن: ھو کتاب اختلاف محمد بن الحسن ومالک بن انس، وھو تسعۃ اجزاء ، انبأنا بہ جماعۃ‘‘ 

وہ مؤطا جو کہ ’’مؤطا محمد بن حسن‘‘ سے مشہور ہے ، یہ وہ کتا ب ہے جو امام محمدبن حسنؒ اور امام مالک بن انسؒ کے اختلافا ت پر مشتمل ہے ، اور اس کے نواجزاء (حصے) ہیں ، ہمیں محدثین کی ایک جماعت نے اس کی روایت کی ہے۔(اتحاف السالک برواۃ المؤطا عن مالک۱۷۸؍۱۷۹)

امام محمدؒ کے روایت کردہ نسخۂ مؤطا کی محدثین میں مقبولیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ’’مؤطا‘‘ کے بیس سے زائد نسخے ہیں، لیکن آج صرف اس کے دو نسخے مشہور و متداول ہیں ، ایک امام یحییٰ بن یحییٰ کا نسخہ، اور دوسرا امام محمدؒ کا نسخہ۔

امام محمدؒ کا دیگر بلادِ اسلامیہ کے ائمہ سے استفادہ:

امام محمدؒ کی وسعت و کثرت علم کی یہ بیّن دلیل ہے کہ آپ نے تقریبا تمام مشہور بلادِ اسلامیہ مثلاً کوفہ، بصرہ، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، شام ، خراسان ، اور واسط وغیرہ کے اجلہ اہل علم سے استفادہ کیا، اور ان سے حدیث کی سند لی، کوفہ سے تعلق رکھنے والے آپ کے مشہور اساتذہ کاتذکرہ گزر چکا ہے۔

مدینہ منورہ کے اہلِ علم میں سے آپ نے امام مالکؒ کے علاوہ محمد بن عبدالرحمن  بن ابی ذئبؒ، عبدالرحمن ابن ابی الزنادؒ، خارجہ بن عبداللہ ، محمد بن ہلالؒ ، عیسیٰ بن ابی عیسیٰ الخیاط اور داؤدبن قیسؒ وغیرہم سے بھی اخذ علم کیا ۔ (بلوغ الامانی:ص۸)

مکہ مکرمہ کے جن اہلِ علم سے آپ نے استفادہ کیا ان میں شیخ المحدثین امام سفیان بن عُیینہؒ ، زمعہ بن صالحؒ، اسماعیل بن عبدالملکؒ، طلحہ بن عمروؒ، سیف بن سلیمانؒ، ابراہیم بن یزید اُمویؒ، زکریا بن اسحقؒ اور عبداللہ بن عبدالرحمن الطائفیؒ وغیرہ زیادہ قابلِ ذکرہیں۔ (ایضاً:ص۸)

امام محمد بن سعدؒ ۲۳۰؁ھ) کی تصریح کے مطابق آپ نے مکہ مکرمہ کے سب سے مشہور محدث و فقیہ اور صحاحِ ستہ کے مرکزی راوی امام ابن جُریج مکیؒ ۱۵۰؁ھ) سے بھی درسِ حدیث لیاتھا۔

(الطبقات الکبریٰ:۷؍۲۴۲)

بصرہ جو آپ کے شہر کوفہ کے قریب واقع ہے اور کوفہ کی طرح اس کا علمی پایہ بھی بہت بلند تھا، آپ نے یہاں کے علماء سے بھی کافی استفادہ کیا، چنانچہ آپ کے بصری اساتذہ میں سے عبدالعزیز بن ربیع بصریؒ ، ہشام بن ابی عبداللہ، ربیع بن صبیحؒ، ابوحرہ واصل بن عبدالرحمنؒ، سعید بن ابی عروہؒ اسماعیل بن ابراہیمؒ اور مبارک بن فُضالہؒ وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔  (بلوغ الامانی:ص۸)

ملک شام سے تعلق رکھنے والے آپ کے مشائخ میں سرِ فہرست امام اوزاعیؒ ۱۵۷؁ھ) ہیں جو کہ اہلِ شام کے امام اور مجتہد عظیم ہیں ،اور شام وغیرہ کے علاقوں میں کئی سوسال تک ان کی تقلید ہوتی رہی، آپ نے اُن سے علم فقہ میں استفادہ کرنے کے علاوہ ان سے حدیث کی بھی روایت کی ہے ، جیسا کہ امام ابن سعدؒ (م۲۳۰؁ھ) نے تصریح کی ہے۔  (الطبقات الکبریٰ:۷؍۲۴۲)

امام اوزاعیؒ ۱۵۷؁ھ) کے علاوہ آپ  نے شام کے دیگر محدثین و فقہاء مثلاً محمد بن راشد مکحولیؒ ، اسماعیل بن عیاشؒ اور ثور بن یزیدؒ وغیرہ کے سامنے بھی زانوئے تلمذ تہہ کئے ہیں۔ (بلوغ الامانی:ص۸،از امام زاہد الکوثریؒ)

خراسان سے تعلق رکھنے والے امام عبداللہ بن مبارکؒ۱۸۱؁ھ) جو محدثین میں ’’امیر المؤمنین فی الحدیث‘‘ کے لقب سے مشہور تھے، یہ بھی آپ کے مشائخ میں سے ہیں۔ (ایضاً)

اور ’’واسط‘‘ کے کئی چیدہ چیدہ اہلِ علم سے بھی آپ نے اخذ علم کیا ، جن میں مشہور محدث اور امام فن الرجال شعبہ بن حجاجؒ (یہ بھی امام ابن المبارکؒ کی طرح  ’’امیر المؤمنین فی الحدیث‘‘ کے لقب سے پکارے جاتے ہیں)،عباد بن عوامؒ اور ابومالک بن عبدالملک نخعیؒ بھی شامل ہیں۔(ایضا)

غرض یہ کہ آپ تمام مشہور بلاد اسلامیہ کے علوم کے جامع تھے۔

مسند درس و تدریس:

امام محمدؒماہر اساتذہ کی زیرتربیت اور اپنی ذہانت اور محنت کی وجہ سے بہت جلد علوم دینیہ کی تحصیل فرمالی، اور نہایت کم عمری میں ہی مسندِ درس وتدریس پر فائز ہوگئے۔

علامہ خطیب بغدادیؒ نے اپنی سندکے ساتھ امام اعظمؒ (م۱۵۰؁ھ)کے جلیل القدر پوتے امام اسماعیل ابن حماد بن ابی حنیفہؒ (م۲۱۲؁ھ) سے نقل کیا ہے کہ:

’’کان محمد بن الحسن لہ مجلس فی مسجد الکوفۃ وھو ابن عشرین سنۃ‘‘    

امام محمدبن حسنؒ کی مسجدِ کوفہ میں مجلس درس لگتی تھی، جب آپ کی عمر صرف بیس سال تھی۔

(تاریخ بغداد:ج۲: ص۱۷۰)[43]

اما م ابو سعد السمعانیؒ ۵۶۲؁ھ) آپ کے تعارف میں ارقام فرماتے ہیں:

’’انہ کان یجلس فی مسجد الکوفۃ وھو ابن عشرین سنۃ‘‘

امام محمدؒ جب کوفہ کی مسجد میں درس کے لئے بیٹھے تو اس وقت آپ کی عمر صرف بیس سال تھی۔

(کتاب الانساب:۳؍۱۶۶)

آپ کچھ عرصہ کوفہ میں مسندِ درس کو آباد کرتے رہے، پھر بغداد تشریف لے گئے اور وہاں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔

امام محمد بن سعدؒ ۲۳۰؁ھ) آپ کے ترجمے میں لکھتے ہیں:

’’وقدم بغداد ونزلھا واختلف الیہ الناس ، وسمعوا منہ الحدیث والرأی‘‘

امام محمدؒ بغداد آکر وہاں آبادہوگئے، اور لوگ آپ کے پاس آنے لگے اور آپ سے حدیث اور رائے (فقہ) کا سماع کرنے لگے۔(الطبقات الکبریٰ:۷؍۲۴۲)

علامہ ابن الندیمؒ ۳۸۵؁ھ)نے بھی آپ کے متعلق تصریح کی ہے کہ:

’’وقدم بغداد ونزلھا ، وسمع منہ الحدیث واخذ عنہ الرأی‘‘

امام محمدؒ بغداد تشریف لائے تووہیں مقیم ہوگئے، چنانچہ وہاں آپ سے حدیث کا سماع کیا گیا، اور رائے(فقہ) کا علم حاصل کیا گیا۔ (کتاب الفھرست۲۵۷)

آپ کے درس سے بڑے بڑے نامور اور بکثرت لوگ فیض یاب ہوئے ہیں، اور جس طرح آپ سے حدیث کا درس لینے والوں میں نابغۂ روزگار محدثین ہیں اسی طرح آپ سے فقہ حاصل کرنے والوں میں بھی بلند پایہ ائمہ ومجتہدین ہیں۔

حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ) ارقام فرماتے ہیں:

’’وتفقہ بہ ائمۃ‘‘

امام محمدؒ سے کئی ائمہ نے فقاہت سیکھی ہے۔(مناقب ابی حنیفۃ:ص۵۰)

امام محمدؒ (م۱۸۹؁ھ)کے بعض نامور تلامذہ کا تعارف :

اللہ تبارک وتعالیٰ نے امام محمدؒ کو جہاں دیگر کمالات سے نوازا، وہاں آپ کو درس وتدریس میں بھی انتہائی مقبولیت اور اعلیٰ درجہ کی مہارت سے سرفراز فرمایا، چنانچہ آپ نے جب تدریس کا آغاز کیا توتھوڑے عرصہ میں ہی آپ کے درس کا شہرہ پورے عالمِ اسلام میں پھیل گیا، اور دور دراز سے تشنگانِ علم آکر آپ کے چشمہ علم سے سیراب ہونے لگے، آپ سے دینی علوم خصوصاً حدیث اور فقہ کی تعلیم پانے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان سب کا احاطہ یہاں مشکل ہے ، ہم بطور ’’گلے از گلزارے‘‘ آپ کے صرف ان چند مشہور تلامذہ کا تعارف پیش کرتے ہیں ، جن کی دینی خدمات تاریخ اسلام کا سنہری باب ہے۔

 

(۱)       امام محمد بن ادریس الشافعیؒ ۲۰۴؁ھ) :

حضرت امام شافعیؒ جو دوسری صدی کے مجدد، عظیم الشان مجتہد، ائمہ اربعہ میں تیسرے بڑے امام ، اور حدیث و فقہ کے بلند پایہ سپوت ہیں، امام موصوف نے امام اعظم ابوحنیفہؒ کی فقہ کو امام محمدؒ سے حاصل کیا، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ۸۵۲؁ھ) نے امام شافعیؒ کے مناقب میں تصریح کی ہے:

’’وانھت ریاسہ الفقہ بالعراق الیٰ ابی حنیفۃ ، فاخذ عن صاحبہ محمد بن الحسن حمل حِمل لیس فیھا شئی الا وقد سمعہ علیہ‘‘

عراق میں فقہ کی ریاست امام ابوحنیفہؒ پر آکر ختم تھی، امام شافعیؒ نے آپ کی فقہ کو آپ کے شاگرد امام محمد بن حسنؒ سے اخذکیا، اور امام شافعیؒ نے ان سے ایک اونٹ کے بوجھ کے برابر علم حاصل کیا، اور اس علم میں سے کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس کا انہوں نے امام محمدؒ سے سماع نہ کیا ہو۔(توالی التاسیس:ص۷۳)

امام شافعیؒ نے اگرچہ متعدد ائمہ سے اخذ علم کیالیکن ان میں سب سے زیادہ جن سے انہوں نے استفادہ کیا ، وہ امام محمد بن حسنؒ ہیں، اور اس کا اقرار خود امام شافعیؒ نے بھی کیا ہے۔

’’قول الشافعی : حملت عن محمد وقر بختی صحیح، رواہ ابن ابی حاتم، قال حدثنا الربیع، قال سمعت الشافعی یقول حملت عن محمد بن الحسن حمل بختی لیس علیہ الا سماعی‘‘ 

امام شافعیؒ کا یہ قول کہ ’’ میں نے امام محمدؒسے ایک اونٹ کے بوجھ کے برابر علم حاصل کیا‘‘ ان سے صحیح ثابت ہے ، چنانچہ امام ابن ابی حاتم روایت کرتے ہیں کہ ہم سے امام ربیعؒ (تلمیذ الشافعیؒ) نے بیان کیا کہ میں نے خود امام شافعیؒ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے امام محمد بن حسنؒ سے ایک بارِ اونٹ کے برابر علم حاصل کیا کہ جس کو میں نے (آپ سے اکیلے) سماع کیا تھا۔(بلوغ الامانی:ص۲۲)

حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) کایہ اپنا بیان ہے کہ :

’’وکتب عن محمد بن الحسن الفقیہ وقر بختی‘‘

امام شافعیؒ نے امام محمد بن حسن فقیہؒ سے ایک بارِ اونٹ کے برابر علم حاصل کیا۔(البدایہ والنھایہ:۷؍۱۹۶)

نیزامام ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) امام محمدؒ کے ترجمہ میں تصریح کرتے ہیں کہ:

’’اخذ عنہ الشافعی فاکثر جدا‘‘

امام شافعیؒ نے آپ سے بہت زیادہ علم حاصل کیا ہے۔( سیراعلام النبلاء: ۹؍۱۳۴)

حافظ ابنِ کثیرؒ ۷۷۴؁ھ) آپ کے ترجمہ میں ارقام فرماتے ہیں:

’’وسکن بغداد وحدث بھا وکتب عنہ الشافعی حین قدمھا فی سنۃ اربع وثمانین ومائۃ‘‘ 

آپ نے بغداد میں سکونت اختیارکر لی تھی، اور وہاں آپ حدیث کا درس دیا کرتے تھے امام شافعیؒ جب  ۱۸۴؁ھ میں بغداد آئے تھے تو آپ سے انہوں نے حدیث لکھی تھی۔(البدایہ والنھایہ:۷؍۱۹۶)

نیز حافظ ابن کثیرؒ (م۷۷۴؁ھ)  موصوف امام شافعی ؒکے ترجمے میں لکھتے ہیں:

’’واکرمہ محمد بن الحسن وکتب عنہ الشافعی وقر بعیر‘‘

امام محمد بن حسنؒ نے امام شافعیؒ کا اکرام کیا تھا، اور امام شافعیؒ نے آپ سے ایک بارِ شُتر کے برابر علم لکھا تھا۔ (ایضا :۷؍۳۵۵)

حافظ عبدالقادر قرشیؒ ۷۷۵؁ھ) فرماتے ہیں:

’’روی عنہ الامام الشافعی ولازمہ وانتفع بہٖ‘‘

امام شافعیؒ نے امام محمدؒ سے روایت کی ہے، اور انہوں نے آپ (کی صحبت )کولازم پکڑا ہے، اورآپ سے وہ نفع مند ہوئے ہیں۔(الجواھر المضیہ:۲؍۴۲)

حافظ ابن عبدالہادی حنبلیؒ ۷۴۴؁ھ) نے امام محمدؒ کے تعارف میں لکھاہے :

’’احد شیوخ الامام الشافعی‘‘

کہ آپ امام شافعیؒ کے شیوخ میں سے ایک ہیں۔(مناقب الائمۃ الاربعۃ:ص۶۰)

نیز دیگر متعدد محدثین مثلاً حافظ ابن عبدالبرؒ ۴۶۳؁ھ)،علامہ خطیب بغدادیؒ ۴۶۳؁ھ)،علامہ سمعانیؒ ۵۶۲؁ھ)،حافظ ابن جوزیؒ (م۵۹۷؁ھ)، حافظ عبد الکریم  بن محمد ،ابو قاسم  الرافعی  القزوینیؒ(م۶۲۳؁ھ)، علامہ ابن خلکانؒ ۶۸۱؁ھ)، علامہ ابن الاثیرؒ۶۳۰؁ھ) ، علامہ ابن الفراتؒ ۸۰۷؁ھ)، علامہ ابن حجر عسقلانیؒ ۸۵۲؁ھ) اور علامہ ابن العماد حنبلیؒ ۱۰۸۹؁ھ) وغیرہ نے بھی تصریح کی ہے کہ امام شافعیؒ نے امام محمدؒ سے اخذِ علم کیا تھا، اور انہوں نے آپ سے فقہ اور حدیث کی روایت کی ہے۔  (دیکھئے ، الانتفاء :ص۹۷، تاریخ بغداد:۲؍۱۶۹، کتاب الانساب:۳؍۱۶۶،المنتظم  لابن الجوزی :    ۹/ ۱۷۳،التدوین للرافعی :۱/ ۲۵۱، وفیات الاعیان:۲؍۳۲، اللباب:۲؍۳۵، تعجیل المنفعۃ:ص۳۶۱، شذرات الذھب:۱؍۳۲)

امام شافعیؒ کی’’ مسند ‘‘ میں بھی امام محمدؒکم از کم سات  احادیث موجود ہیں۔ (دیکھئے: مسند الشافعیؒ: ص۳۳۸،۳۴۳،۳۴۴،۳۸۴) اور کتاب الام میں بھی   امام محمد ؒ سے روایات لی ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (م۸۵۲؁ھ)نے بھی تصریح کی ہے کہ:

امام شافعیؒ کی مسند میں ان کی امام محمدؒ سے روایت کردہ احادیث موجود ہیں۔ (تعجیل المنفعۃ:ص۳۶۱)

مولانا شمس الحق عظیم آبادی غیر مقلد ۱۳۲۹؁ھ) اس مسند کی ایک حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:

’’رواہ الشافعی فی مسندہ عن محمد بن الحسن عن ابی یوسف القاضی عن ھشام بن عروۃ عن ابیہ…‘‘

اس حدیث کو امام شافعیؒ نے اپنی ’’مسند‘‘ میں امام محمد بن حسنؒ سے روایت کیا ہے، اور وہ اس کو امام ابویوسف قاضیؒ سے ، وہ ہشام بن عروہؒ سے ، اور وہ اس کو اپنے والد عروہؒ سے روایت کرتے ہیں۔

(التعلیق المغنی:۲؍۲۷۳)

روایتِ حدیث کے علاوہ امام شافعیؒ   آپ  ؒکی فقہ سے بھی بہت بہرہ مند ہوئے ہیں،ا ور اسی لئے محدث،ناقد حافظ شمس الدین ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) نے ان کو امام محمد ؒ سے فقہ حاصل کرنے والوں میں  سب  سے زیادہ فقیہ قراردیاہے۔چنانچہ ذہبیؒ،امام حماد بن ابی سلیمانؒ (م۱۲۰؁ھ) کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :

’’وافقہ اصحاب محمد، ابو عبداللہ الشافعی‘‘

امام محمدبن حسنؒ کے تلامذہ میں سب سے زیادہ فقیہ امام ابو عبداللہ الشافعیؒ ہیں۔(سیراعلام النبلاء:۵؍۳۴)

علاوہ ازیں حافظ ابن تیمیہؒ ۷۲۸؁ھ) نے بھی امام شافعیؒ کے متعلق یہ تسلیم کیا ہے کہ :

’’فاجتمع بمحمد بن الحسن وکتب کُتبہ‘‘  

امام شافعیؒ نے امام محمدؒ کے ساتھ مجالست کی تھی، اور آپ سے آپ کی کتابیں لکھی تھیں۔(مجموع الفتاویٰ:۲۰؍۱۵۰)

نیز موصوف حافظ ابن تیمیہؒ(م۷۲۸؁ھ)  ، امام ابو یوسفؒ کی کتاب  ’’اختلاف ابی حنیفۃ وابن ابی لیلیٰ‘‘ کے تعارف میں لکھتے ہیں:

’’واخذہ عنہ محمد بن الحسن ، ونقلہ الشافعی عن محمد بن الحسن‘‘ 

امام ابویوسفؒ سے اس کتاب کو امام محمدبن حسنؒ نے لیا، اور امام محمدؒ سے اس کو امام شافعیؒ نے روایت کیا ہے۔ (ایضاً :ج۲۰: ص۱۴۹)

شیخ عبدالرحمن الیمانی المعلمیؒ غیرمقلد ۱۳۸۶؁ھ) بھی اس حقیقت کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’فالحق ان الشافعی سمع بعض الکتب من محمد علیٰ سبیل الروایۃ‘‘

حق بات یہ ہے کہ امام شافعیؒ نے امام محمدؒ سے آپ کی بعض کتب کو روایت کے طریقے کے مطابق سنا تھا۔(التنکیل:۱؍۴۲۱)

مولانا محمد اسمٰعیل سلفیؒ غیر مقلد ۱۳۸۷؁ھ) نے بھی اقرار کیا ہے کہ امام شافعیؒ نے امام محمدؒ سے استفادہ کیا ہے۔  (دیکھئے : تحریکِ آزادی فکر: ص۸۶)[44]

امام محمدؒ نے امام شافعیؒ کو تعلیم دینے کے علاوہ اُن پر دیگر بھی بڑے احسانات کئے ہیں، چنانچہ محدث ابن الفراتؒ ۸۰۷؁ھ) اپنی تاریخ میں فرماتے ہیں:

’’وکان کثیر البر بالامام الشافعیؒ فی قضاء دیونہ ، والانفاق علیہ من مالہ وإعارۃ الکتب‘‘

امام محمدؒ نے امام شافعیؒ کے ساتھ بڑے احسانا ت کئے ہیں ، اُن کے قرضے ادا کئے، اُن پر مال خرچ کیا، اور اُن کو عاریۃً کتابیں عطا کیں۔(شذرات الذھب:۱؍۳۲۳،۳۲۴)

جب امام شافعیؒ بغداد میں بعض شرپسندوں کی سازش سے خلیفہ ہارون الرشید کے عتاب میں آگئے تھے، اور قریب تھا کہ خلیفہ اُن کو قتل کروا دیتا، لیکن امام محمدؒ (جو اُس وقت خلیفہ کے انتہائی مقربین میں سے تھے) اللہ کی طرف سے غیبی مدد بن کر اُن کی امداد کے لئے بیچ میں آگئے ، اور خلیفہ کے سامنے ان کی صفائی پیش کرکے اُن کو اپنی ضمانت سے خلیفہ سے چھڑوالیا، اس طرح امام شافعیؒ قتل ہونے سے بچ گئے۔

مؤرخ اسلام علامہ ابن العماد حنبلیؒ ۱۰۸۹؁ھ) اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’’فیجب علی کل شافعی الیٰ یوم القیامۃ ان یعرف ھذا لمحمد بن الحسن ویدعو لہ بالمغفرۃ‘‘

یومِ قیامت تک آنے والے ہر شافعی المذہب شخص پر واجب ہے کہ وہ امام محمدبن الحسنؒ کے اس احسان کو پہچانے، اور آپ کی مغفرت کے لئے دعا کرے۔(ایضاً)

امام شافعیؒ سے منسوب ’’رحلۃ الشافعی‘‘ کی حقیقت:

لیکن صد افسوس کہ بعض متعصب لوگوں نے امام محمدؒ کے اس احسان کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے اُلٹا امام شافعیؒ کے نام سے ایک جھوٹا سفر نامہ (رحلۃ الشافعی) گڑھ کر امام محمدؒ اور امام ابویوسفؒ پر یہ جھوٹا الزام لگادیا کہ ان دونوں حضرات نے امام شافعیؒ کے قتل کی سازش کی تھی، اور خلیفہ کو ان کے قتل پر اُبھارا تھا، اس طرح اس فرضی سفرنامے میں انہوں نے اور طرح طرح کے جھوٹ امام شافعیؒ اور امام محمدؒ کی طرف منسوب کئے ہیں۔

علامہ ابن العمادؒ (م۱۰۸۹؁ھ)  بحوالہ محدث ابن الفراتؒ(م۸۰۷؁ھ)  ان لوگوں کی تردید میں لکھتے ہیں:

’’وقد ذکر بعض الشافعیۃ ان محمد بن الحسن وشی بالامام الشافعی الی الخلیفۃ بانہ یدعی انہ یصلح للخلافۃ وکذا ابویوسف رحمھما للہ، وھذا بھتان وافتراء علیھما، والعجب منھم کیف نسبوا ھذا الیھما مع علمھم بان ھذا لا یلیق بالعلماء ولا یقبلہ عقل عاقل‘‘

بعض شافعیوں نے ذکر کیا ہے کہ امام محمدبن حسنؒ اوراسی طرح امام ابویوسفؒ نے بھی خلیفہ (ہارون الرشید) سے شکایت کی تھی کہ امام شافعیؒ نے دعویٰ کیا ہے کہ میں خلیفہ بننے کا اہل ہوں، حالانکہ یہ ان دونوں اماموں پر محض بہتان اور افتراء ہے، اُن لوگوں پر تعجب ہے کہ انہوں نے کس طرح یہ بات ان کی طرف منسوب کردی ، حالانکہ اُن کو معلوم ہے کہ یہ چیز علماء کے لائق نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی عقل مند اس کو قبول کرسکتاہے۔ (ایضاً)

حافظ ابن تیمیہؒ ۷۲۸؁ھ)،حافظ ابن کثیرؒ ۷۷۴؁ھ) اور حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ۸۵۲؁ھ) وغیرہ محدثین نے بھی امام محمدؒ اور امام ابویوسفؒ پر اِن الزامات کی پرزور تردید کی ہے، اور امام شافعیؒ کی طرف منسوب اُن سفر ناموں کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے۔(مجموع الفتاویٰ:۲۰؍۱۵۰، البدایہ والنھایہ:۷؍۱۷۳، توالی التاسیس:ص ۱۳۱، ۱۳۲)

امام محمدزاہد الکوثریؒ ۱۳۷۱؁ھ) نے بڑی عرق ریزی سے اُن سفرناموں کی ایک ایک جزئی کی خوب نقاب کشائی کی ہے۔  (دیکھئے : بلوغ الامانی:ص۲۸ تا ۳۵)، جزاہ اللہ عنا احسن الجزاء۔  [45]

 

 (۲)      امام احمد بن حنبلؒ ۲۴۱؁ھ) :

امام احمدؒ حدیث اور فقہ کے ارکان میں شمار ہوتے ہیں اور ائمہ متبوعین میں امام شافعیؒ کے بعد اُن ہی کا مقام و مرتبہ ہے۔

یہ عظیم المرتبت امام بھی امام محمد بن حسنؒ سے استفادہ کرنے والوں میں سے ہیں۔

علامہ خطیب بغدادیؒ ۴۶۳؁ھ) نے بہ سند متصل امام احمدؒ کے صاحبزادے امام عبداللہ بن احمدؒ ۲۹۰؁ھ) سے نقل کیا ہے کہ:

’’کتب ابی عن ابی یوسف ومحمد ثلاثہ قماطر، قلت لہ کان ینظر فیھا، قال کان ربما ینظر فیھا‘‘

میرے والد (امام احمدؒ) نے امام ابو یوسفؒ اور امام محمدبن حسنؒ سے تین قماطیر (بڑے تھیلے) علم کے لکھے تھے، (راوی کہتے ہیں کہ) میں نے امام عبداللہ سے پوچھا کہ: کیا آپ کے والد اُن کا مطالعہ بھی کرتے تھے؟  انہوں نے فرمایا: ہاں، بسااوقات اُن کا مطالعہ بھی کیا کرتے تھے۔  (تاریخ بغداد:۳؍۲۲۵)

شیخ عبدالرحمن الیمانی المعلمیؒ غیرمقلد ۱۳۸۶؁ھ) اس قول کے ذیل میں لکھتے ہیں:

’’فالظاھر انہ کتب عنھما مما یرویانہ من الآثار‘‘

اس قول سے ظاہر یہی ہے کہ امام احمدؒ نے امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ سے ان دونوں کی احادیث لکھی تھیں۔(التکنیل۱۱۶۵)

نیز ایک اور روایت میں امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا گیا کہ آپ نے یہ دقیق مسائل کہاں سے حاصل کئے ہیں ؟  تو انہوں فرمایا:

’’من کتب محمد بن الحسن‘‘

کہ امام محمد بن حسنؒ کی کتابوں سے ۔    (تاریخ بغداد:ج۲: ص ۱۷۴،طبع بیروت)[46]

اس طرح امام محمدؒ کو یہ مقام و مرتبہ حاصل ہوا کہ ائمہ اربعہ میں سے دو اماموں (ابوحنیفہؒ و مالکؒ) سے آپ نے علم حاصل کیا، جب کہ ان میں سے دو اماموں (شافعیؒ و احمدؒ) نے آپ سے علم حاصل کیا۔

ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم۔

(۳)     امام اسد بن فراتؒ ۲۱۳؁ھ) :

امام موصوف ایک بلند پایہ فقیہ ، جلیل القدر محدث، عظیم مجاہد، اور فاتح صقلیہ (افریقہ) ہیں، نیز ان کا شمار امام مالکؒ اور صاحبین (امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ) کے کبارِ تلامذہ میں ہوتا ہے۔

یہ   ۱۴۲؁ھ میں نجران میں پیدا ہوئے، جب دو سال کے تھے تو ان کے والد ان کو لے کر قیروان آگئے، پھروہاں سے یہ ’’تونس‘‘ چلے گئے اور وہاں تحصیل علم میں مشغول ہوگئے، مزید دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے انہوں نے مدینہ منورہ، اور عراق (کوفہ وغیرہ) کا سفر کیا، اور امام مالکؒ اور امام محمدؒ وغیرہ مشائخ سے فقہ اور حدیث کا درس لیا۔

حافظ ابن ناصرالدینؒ ۸۴۰؁ھ) ان کے تعارف میں لکھتے ہیں:

’’اختلف الیٰ علی بن زیاد التونسی بتونس، فلزمہ وتفقہ بہٖ ثم رحل الی المشرق وسمع من مالک بن انس ’’مؤطا‘‘ وغیرہ، ثم رحل الی العراق، فاخذ عن ابی یوسف ومحمد ابن الحسن وابی بکر بن عیاش وغیرہم‘‘

امام ابن الفراتؒ تونس میں علی ابن زیاد تونسیؒ کے پاس تشریف لے گئے ، اور ان کی مجلس میں باقاعدگی سے شریک ہوکر ان سے فقہ حاصل کیا، پھر انہوں نے مشرق (مدینہ منورہ) کی طرف سفر کیا، اور امام مالکؒ سے ان کی ’’مؤطا‘‘ اور دیگر احادیث کا سماع کیا، اور پھر یہ عراق (کوفہ) چلے گئے اور امام ابو یوسفؒ ، امام محمدبن حسنؒ اور امام ابوبکر بن عیاشؒ وغیرہ سے علم حاصل کرنے لگے۔ (اتحاف السالک: ص۲۶۲)

جب یہ امام مالکؒ کے پاس مقیم تھے تو دورانِ سبق یہ ان سے فقہ کے متعلق بڑے سوالات کرتے تھے، ایک مرتبہ امام مالکؒ نے تنگ آکر ان سے کہہ دیا:

’’ان احببت الرأی فعلیک بالعراق‘‘

اگر تو رائے (فقہ) پسند کرتاہے، تو پھر عراق چلا جا۔

امام ابن الفراتؒ یہ سن کر کوفہ آگئے، اور امام ابوحنیفہؒ کے تلامذہ خصوصاً امام محمد بن حسنؒ سے فقہ حاصل کرنے لگے۔  (معالم الایمان فی تاریخ القیروان:۲؍۴-۱۶، بلوغ الامانی:ص۱۴)

علامہ زاہد الکوثریؒ بحوالہ ’’معالم الایمان فی تاریخ القیروان‘‘ لکھتے ہیں:

’’فسمع اسد بن الفرات بالعراق من اصحاب ابی حنیفۃ وتفقہ علیھم: منھم ابویوسف القاضی، واسد بن عمرو البجلی، ومحمد بن الحسن وغیرھم من فقھاء العراق وکان اکثر اختلافہ الیٰ محمد بن الحسن‘‘

امام اسد بن فراتؒ(م۲۱۳؁ھ) نے عراق میں امام ابو حنیفہؒ کے جن تلامذہ سے حدیث کا سماع کیا ، اور ان سے فقہ کی تعلیم پائی ان میں امام ابویوسف قاضیؒ، امام اسد ابن عمرو البجلیؒ، اور امام محمد بن حسنؒ وغیرہ شامل ہیں، اور ان کی اکثر آمدورفت امام محمد بن حسنؒ کے پاس رہتی تھی۔(بلوغ الامانی:ص۱۵)

امام محمدؒ (م۱۸۹؁ھ) نے اُن پر خاص توجہ دی اور ان کو حدیث و فقہ کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ مالی طور پر بھی ان کی امداد کرتے رہے، یہاں تک کہ انہوں نے فقہ میں مکمل عبور حاصل کرلیا،پھر یہ مصر چلے گئے اور وہاں اُن کی ملاقات امام مالکؒ کے تلامذہ خصوصاً ان کے شاگرد کبیر امام عبدالرحمن ابن قاسمؒ ۱۹۹؁ھ) سے ہوئی ، اور انہوں نے امام محمدؒ سے دورانِ سبق جو فقہ حنفی کی فروعات (جزئیات) لکھی تھیں ان ہی کی طرز پر انہوں امام ابن القاسمؒ سے سوالات کرکے فقہ مالکی کی فروعات لکھیں جو کہ : ’’مسائل اسدیہ‘‘ سے مشہور ہوئیں، اورپھر یہی ’’مسائل اسدیہ‘‘ آگے جاکر فقہ مالکی کی تدوین (یعنی فقہ مالکی کی بنیادی کتاب ’’المدونۃ للسحنون‘‘ کی بنیاد بنے۔

مشہور محدث امام ابو زُرعہ رازیؒ ۲۶۴؁ھ) سے ان کے شاگرد حافظ ابوعثمان البرزعیؒ ۲۹۲؁ھ)نے پوچھا کہ : 

یہ مسائل اسدیہ کیا ہیں ؟  

انہوں نے جواب دیا:

کان رجل من اھل المغرب یقال لہ اسد، رحل الیٰ محمد بن الحسن، فسألہ عن ھذہ المسائل، ثم قدم مصر فاذا عبداللہ بن وھب فسألہ أن یسألہ عن تلک المسائل، فماکان عندہ فیھا عن مالک اجابہٗ، ومالم یکن عندہ قاس علیٰ مالک فلم یفعل، فأتیٰ عبدالرحمن بن القاسم فتوسع لہ ، فأجابہٗ علی ھذا۔

اہل مغرب میں سے ایک آدمی تھے جن کو اسد (بن فرات) کہا جاتا ہے ، انہوں نے امام محمد بن حسنؒ کے پاس جاکر آپ سے ان مسائل (کے جوابات) پوچھے تھے، پھر یہ مصرآگئے ،اور یہاں انہوں نے امام عبداللہ بن وہبؒ (تلمیذ امام مالکؒ ) سے ان مسائل کے متعلق پوچھا، ان کے پاس ان سوالات میں سے جن کے متعلق امام مالکؒ  سے کچھ منقول تھا ان کے جوابات امام مالکؒ کے حوالے سے دے دئیے، اور جن سوالات کے متعلق ان کے پاس امام مالکؒ سے کچھ نہیں لکھا ہوا تھا، ان کے جوابات انہوں نے جب امام مالکؒ کے دوسرے اقوال پر قیاس کر کے دئیے تو امام ابن الفراتؒ نے ان کو لکھنے سے انکار کر دیا، اور (امام مالکؒ کے بڑے شاگرد) امام عبدالرحمن بن قاسمؒ کے پاس گئے، وہ ان کے ساتھ بڑی کشادگی سے پیش آئے اور ان کے سب سوالات کے جوابات ان کو امام محمدؒ کی طرز پر دئیے۔  (سوالات البرزعی لأبی زُرعہ الرازی: ص۲۴۹،۲۵۰، اتحاف السالک:ص۲۶۴)

امام ابو زُرعہؒ (م۲۶۴؁ھ)کے مذکورہ قول کو امام ابن ابی حاتمؒ (م۳۲۷؁ھ) نے بھی ان سے نقل کیا ہے۔ (الجرح والتعدیل:۵؍۲۷۹)

ٍعلامہ زاہد الکوثریؒ ۱۳۷۱؁ھ) نے ’’نیل الابتھاج بتطیریز الدیباج‘‘ کے حوالے سے یہ بھی تصریح کی ہے کہ:

’’وھذہ اسدیۃ ھی اصل مدونۃ سحنون اصلح ابن القاسم منھا اشیاء علی ید سحنون‘‘ 

یہ مسائل اسدیہ ہی امام سحنونؒ کی ’’مدونہ‘‘ کی اصل ہیں، امام ابن القاسمؒ نے ان میں سے بعض مسائل کی اصلاح (اپنے شاگرد) امام سحنونؒ کے ہاتھ سے کروائی تھی۔(بلوغ الامانی:ص۱)

حافظ ابن تیمیہؒ ۷۲۸؁ھ) نے بھی ’’مدونہ‘‘ کی اصل اہلِ عراق (یعنی امام محمدؒ) کی فروعات ِ مسائل کو قرار دیا ہے۔(مجموع الفتاویٰ:۲۰؍۱۴۹۔۱۵۰)

واضح رہے کہ فقہ مالکی کی سب سے بنیادی اور بااعتماد کتاب ’’المدونہ‘‘ ہی ہے کہ جس کی اصل امام محمدؒ کے وہ مسائل ہیں جن کو آپ سے امام اسد بن فراتؒ نے لکھا تھا۔

گویا فقہ مالکی کے مسائل کی تدوین بھی امام محمدؒ اور آپ کے شاگرد امام ابن الفراتؒ کے مرہونِ منت ہے، امام ابن الفراتؒ کا یہ بھی بہت بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے بیک وقت فقہ حنفی اور فقہ مالکی کو دَیارِ مغرب میں متعارف کروایا، اور آخر عمر میں یہ فقہ حنفی کی ہی صرف نشر واشاعت کرتے رہے، جس سے فقہ حنفی  افریقہ ، اور مغرب میں اندلس (اسپین) تک پھیل گیا، اور ۴۰۰ ہجری تک یہاں فقہ حنفی کا غلبہ رہا، اور یہاں کے رہنے والوں کی اکثریت فقہ حنفی سے ہی وابستہ رہی۔ (بلوغ الا مانی:ص ۱۷، للامام الکوثریؒ، ابوحنیفہ، حیاتہ وعصرہ، آراؤہ وفقہہ، ص:۴۰۳، للشیخ ابی زھرہؒ)

(۴)     امام یحییٰ ابن معینؒ  ۲۳۳؁ھ) :

امام یحییٰ ایک یگانہ روزگار محدث اور فن جرح وتعدیل کے مایہ ناز سپوت ہیں۔ مولانا عبدالرحمن مبارکپوری صاحبؒ غیر مقلد نے لکھا ہے کہ: امام الجرح والتعدیل یحییٰ ابن معینؒ جن کی نسبت امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں:

’’کل حدیث لا یعرفہ یحییٰ فلیس بحدیث‘‘

یعنی جس حدیث کو یحییٰ بن معینؒ نہ پہچانیں وہ حدیث ہی نہیں ہے۔ (تحقیق الکلام:۲؍۸۷)

آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ حدیث اور فن جرح و تعدیل کے یہ عالی المرتبت امام نہ صرف یہ کہ فقہ حنفی سے وابستہ تھے بلکہ ان کا شمار کٹر حنفیوں میں ہوتاہے۔

حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ) ان کے متعلق تصریح کرتے ہیں:

’’ان ابن معین کان من الحنفیۃ الغلاۃ فی مذھبہٖ وان کا محدثا‘‘

امام یحییٰ بن معینؒ اُن حنفیوں میں سے ہیں جو اپنے مذہب (فقہ حنفی) میں غالی ہیں، اگرچہ یہ محدث ہیں۔(الرواۃ الثقاۃ المتکلم فیھم فیما لا یوجب ردھم: ص۷)

نیز ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ) امام موصوف کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:

’’قد کان ابو زکریاؒ حنفیاً فی الفروع‘‘ 

بے شک امام ابوزکریا (یحییٰ بن معینؒ ) فروعی مسائل میں حنفی تھے۔(سیر اعلام النبلاء:ت:۱۲۲۵)

موصوف نے فقہ حنفی کی تعلیم امام اعظم ابوحنیفہ کے متعدد تلامذہ سے لی تھی، جن میں سے امام محمدبن حسنؒ بھی ہیں، چنانچہ انہوں نے فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’’الجامع الصغیر‘‘ امام محمدؒ سے پڑھی تھی۔

حافظ عبدالقادر قرشیؒ ۷۷۵؁ھ) امام محمدؒ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:

’’وکتب عنہ یحییٰ بن معین الجامع الصغیر‘‘ 

آپ سے امام یحییٰ بن معینؒ نے ’’الجامع الصغیر‘‘ لکھی تھی۔(الجواھر المضیہ:۲؍۴۳)

نیز علامہ خطیب بغدادیؒ ۴۶۳؁ھ) نے بہ سند متصل خود امام ابن معینؒ کا اپنا یہ بیان نقل کیا ہے کہ:

’’کتبت الجامع الصغیر عن محمد بن الحسن‘‘

میں نے ’’الجامع الصغیر‘‘ خود امام محمد بن حسنؒ سے لکھی تھی۔  (تاریخ بغداد:۲؍۱۷۳)[47]

 (۵)  امام احمد بن حفص بخاری المعروف بہ ابو حفص کبیرؒ ۲۱۷؁ھ) :

موصوف اپنے نام سے زیادہ اپنی کنیت ’’ابوحفص‘‘ سے مشہور ہیں، ان کے صاحبزادے امام محمد بن احمد بن حفصؒ ۲۶۴؁ھ) کی بھی ایک کنیت چونکہ ’’ابوحفص‘‘ ہے ، اور وہ بھی اپنی اس کنیت سے زیادہ پہچانے جاتے ہیں، اس لئے ان دونوں میں فرق کرنے کے لئے باپ کو ’’ابوحفص کبیر‘‘ اور بیٹے کو ’’ ابوحفص صغیر‘‘  کہا جاتا ہے۔ (الفوائد البھیۃ: ص ۱۸)

امام ابو حفص کبیر کئی سال امام محمدؒ کی صحبت میں رہ کر ان سے تفقہ حاصل کرتے رہے، اور ان کا شمار آپ کے کبارِ تلامذہ میں ہوتا ہے۔

حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ) ان کے ترجمے میں لکھتے ہیں:

’’ارتحل وصحب محمد بن الحسن مدّۃ، وبرع فی الرأی، وسمع من وکیع بن الجراح، وابی اسامۃ، وھذہ الطبقۃ‘‘ 

امام ابو حفص کبیرؒ نے طلب علم میں رحلت سفر باندھا اور کئی سال امام محمدؒ کی صحبت میں رہ کر رائے (فقہ) میں عبور حاصل کیا ،اور وکیع ابن الجراحؒ ، ابواسامہؒ اور اس طبقہ کے دیگر محدثین سے حدیث کا سماع کیا۔(سیر اعلام النبلاء:۱۰؍۱۵۷)

نیز ذہبیؒ نے ان کے ترجمے کا آغاز ان القاب سے کیا ہے:

’’احمد بن حفص الفقیہ العلامۃ، شیخ ماوراء النھر، ابو حفص البخاری الحنفی، فقیہ المشرق ، ووالد العلامۃ شیخ الحنفیۃ ابی عبداللہ محمد بن احمد بن حفص الفقیہ‘‘ ۔ (ایضاً)

اسی طرح حافظ ذہبیؒ نے ان کے صاحبزادے امام ابو حفص صغیرؒ کے ترجمے میں لکھا ہے کہ :

’’وکا ن ابوہ من کبار تلامذۃ محمد بن الحسن، انتھت الیہ رئاسۃ الاصحاب ببخاری، والی ابنہٖ ابی عبداللہ ھذا، وتفقہ علیہ ائمۃ‘‘ 

ان کے والد (ابوحفص کبیرؒ) امام محمد بن حسنؒ کے کبارِ تلامذہ میں سے تھے ، اور بخارا میں ’’اصحاب ابی حنیفہ‘‘ کی ریاست ان پر اور ان کے صاحبزادے ابو عبداللہ (یعنی ابو حفص صغیر) پر ختم تھی، اور امام ابوحفص کبیرؒ کے پاس کئی ائمہ نے فقہ کی تعلیم حاصل کی ہے۔(ایضاً:۱۲؍۶۱۷)

حافظ ذہبیؒ اور حافظ سخاویؒ نے ’’بخارا‘‘ کے تعارف میں یہاں کے جن چند بڑے اور مشہور ائمہ (امام بخاریؒ ، صاحب الصحیح وغیرہ) کا ذکرکیا ہے ، ان میں انہوں نے امام ابو حفص کبیرؒ کو بھی شمار کیا ہے۔ (الامصارذوات الآثار للذھبیؒ۹۰، اعلان بالتوبیخ للسخاویؒ:ص۱۴۲ )

مولانا حنیف ندویؒ غیر مقلد لکھتے ہیں : بخارا میں عیسیٰ بن موسیٰ غنجار، احمد بن حفص الفقیہ       (ابو حفص کبیرؒ) محمد بن سلام الکندی، اور عبدبن محمد السندی، جیسی شخصیتیں کتاب و سنت کے فروغ کا باعث بنیں۔

(مطالعۃ الحدیث۶۱)

’’مارواء النہر‘‘ کے علاقوں (بخارا وغیرہ) میں ان سے حدیث اور فقہ حنفی کی تعلیم پانے والوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ بخارا وغیرہ کا پورا پورا گاؤں ان کے تلامذہ سے بھر ا ہواتھا۔

حافظ ابو سعد سمعانیؒ ۵۶۲؁ھ) اور حافظ ابن الاثیرؒ ۶۳۰؁ھ) ’’بخارا‘‘ کے مضافات میں ایک گاؤں ’’خراجر‘‘ کے تعارف میں لکھتے ہیں :

’’کان منھا جماعۃ من الفقھا ء، تلمذوا لابی حفص الکبیر‘‘ ۔

یہاں فقہاء کی ایک پوری جماعت تھی جو سب کے سب امام ابو حفص کبیرؒ کے تلامذہ میں سے تھے۔(کتاب الانساب:۳؍۱۳۸، اللباب فی تہذیب الانساب:۱؍۲۸۹)

اسی طرح حافظ سمعانیؒ نے بخارا کے گاؤں ’’خیزا خزا‘‘ کے متعلق لکھا ہے کہ :

’’خلقا من اصحاب ابی حفص الکبیر لا یحصون‘‘

یہاں امام ابو حفص کبیرؒ کے تلامذہ کی اتنی خلقت تھی کہ جن کا شمار نہیں ہوسکتا۔

حافظ عبدالقادر قرشیؒ ۷۷۵؁ھ) حافظ سمعانیؒ کے مذکورہ قول کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

’’وھذا فی قریۃ من قریٰ بخارا‘‘ 

یہ تو صرف بخارا کے ایک گاؤں کا ذکر ہے۔(الجواھر المضیۃ:۱؍۳)

 یعنی بخارا کے ایک گاؤں میں ان کے تلامذہ اتنے زیادہ تھے کہ ان کا شمار نہیں ہوسکتا ، تو باقی ’’بخارا‘‘ اور ’’ ماوراء النہر‘‘ کے دیگر علاقوں میں ان کے تلامذہ کی کثرت کا کیا حال ہوگا؟

در اصل یہ سارا فیض امام محمد بن حسنؒ کا تھا، اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ آپ کا علمی فیض کہاں کہاں اور کس کثرت سے پھیلا ہے؟

امام بخاریؒ ’’صاحب الصحیح‘‘ بھی امام ابوحفص کبیرؒ کے تلامذہ میں سے ہیں، اور امام بخاریؒ اور ان کے خاندان کے امام موصف کے ساتھ ذاتی مراسم بھی تھے۔

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ۸۵۲؁ھ) نے ان کو امام بخاریؒ کے مشائخ میں شمار کیا ہے۔ (ھدی الساری مقدمہ فتح الباری: ص۶۶۷)

علامہ خطیب بغدایؒ نے اپنی سند کے ساتھ خود امام بخاریؒ کی زبانی نقل کیا ہے کہ میں ابوحفص کبیرؒ کے پاس ’’جامع سفیان ثوریؒ‘‘ کا سماع اپنے والد کی کتاب میں کر رہا تھا کہ وہ ایک حرف سے گزرے جو میری کتاب میں نہیں تھا، میں نے اس کے متعلق ان سے مراجعت کی پھر انہوں نے وہی پڑھا، میں نے دوبارہ مراجعت کی لیکن پھر بھی انہوں نے وہی پڑھا، میں نے جب تیسری دفعہ مراجعت کی تو وہ کچھ خاموش ہوگئے اور میرے متعلق پوچھنے لگے ،کہ یہ کون ہے؟  لوگوں نے کہا: یہ اسمٰعیل بن ابراہیم بن بزدویہ کا بیٹا ہے، فرمانے لگے: اس نے صحیح کہا ہے، اور پھر فرمایا:

’’واحفظوا  فان ھذا یوماً یصیر رجلا‘‘ 

یاد رکھو !  یہ لڑکا ایک دن مردِ میدان  بنے گا۔(تاریخ بغداد: ۳؍۱۱، ترجمہ امام بخاریؒ)

حافظ ابن حجرؒ نے امام ابو حفصؒ سے امام بخاریؒ کے متعلق یہ الفاظ نقل کئے ہیں:

’’ھذا یکون لہٗ صیت‘‘

کہ اس کا شُہرہ ہوگا۔(ھدی الساری:ص۶۶۷)

امام بخاریؒ کے والد اسمٰعیل ؒ سے امام ابو حفص کبیرؒ کے بڑے گہرے مراسم تھے، جب اسمٰعیلؒ کی وفات ہور ہی تھی، تو امام موصوف اس وقت بھی ان کے پاس موجود تھے، اور اس وقت اسمٰعیلؒ نے ان سے کہا تھا کہ:

’’لا اعلم من مالی درھما من حرام ولا درھما من شبھۃ‘‘ 

میں اپنے مال میں نہ کوئی درہم حرام کا پاتا ہوں اور نہ شبہے کا ۔(ایضا:ص۶۶۷)

امام اسمعیلؒ کی وفات کے بعد بھی ان دونوں خاندانوں کے درمیان یہ مراسم برقرار رہے ، اور امام ابوحفص ؒ امام بخاریؒ کے پاس بڑے بڑے تحائف بھیجتے رہتے تھے۔

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (م۸۵۲؁ھ) نے نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ امام ابوحفص کبیرؒ نے امام بخاریؒ کو اس قدر مالِ تجارت بھیجا کہ جس کو بعض تاجروں نے امام بخاریؒ سے پانچ ہزار درہم نفع سے خریدا، دوسرے بعض تاجروں نے ان سے دس ہزار درہم منافع سے یہ مال خریدنا چاہا لیکن امام بخاریؒ نے ان کی اس پیش کش کو یہ کہہ کر رد فرما دیا کہ کل میں بعض تاجروں پر اس مال کو پانچ ہزار درہم منافع سے بیچنے کی نیت کر چکا ہوں، لہٰذا اب میں اپنی نیت کو بدلنا نہیں چاہتا۔  (ایضاً :ص۶۶۵)

اسی طرح امام ابو حفص کبیرؒ کے صاحبزادے امام ابوحفص صغیرؒ ۲۶۴؁ھ) امام بخاریؒ کے ساتھ کئی سال طلبِ حدیث میں رفیق اور ہم سفر رہے۔

حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) ان کے ترجمے میں لکھتے ہیں:

’’ووافق البخاری فی الطلب مدۃ‘‘

یہ طلبِ حدیث میں کئی عرصہ تک امام بخاریؒ کے رفیق رہے ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء:۱۲؍۶۱۷)

امام ابوحفص کبیرؒ اور امام ابوحفص صغیرؒ کے بعد بھی بڑے عرصے تک ان کا خاندان علمی اور دنیاوی ریاست پر متمکن رہا۔

امام حاکم نیشاپوریؒ ۴۰۵؁ھ) نے ’’ تاریخ نیشاپور‘‘ میں امام ابوحفص کے پرپوتے امام محمد بن احمد بن خاقان الرئیس بن ابوحفص کبیرؒ ۳۷۳؁ھ) کے ترجمہ میں تصریح کی ہے:

’’وکانت الفتوی والریاسۃ فی بیوتھم من وقت محمد بن الحسن‘‘

امام محمد بن حسنؒ کے زمانے سے لے کر اب تک فتویٰ اور ریاست (حکومت) امام ابوحفص ہی کے خاندان میں چلے آرہے ہیں۔ (تاریخ نیشاپور،طبقہ شیوخ الحاکم ص:۳۶۵ ، الجواھر المضیۃ: ۳؍۲۱)

(۶)      امام خلف بن ایوب بلخیؒ  ۲۱۵؁ھ) :

امام بلخیؒ ایک جلیل القدر محدث وفقیہ ، اور اپنے زمانے کے کبارومشہور اولیاء اللہ میں سے ہیں، ان کے علمی مرتبے کو جاننے کے لئے صرف اتنا کافی ہے کہ امام یحییٰ بن معینؒ ، امام احمد بن حنبلؒ ، اور ابو حاتم رازیؒ وغیرہ جیسے اساطین علم ان کے تلامذہ میں سے ہیں، حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ)نے ان کے ترجمے کا آغاز ’’ الا مام المحدث الفقیہ، مفتی المشرق، الحنفی الزاھد،  اور  ’’عالم اہل بلخ‘‘  جیسے عظیم القاب سے کیا ہے۔ (سیر اعلام النبلاء:ص۹؍۵۴۱)

نیز حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) ان کو ’’مفتی اہل بلخ‘‘ قرار دیتے ہیں، اور ان کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’وکان زاھد قدوۃ، روی عنہ یحییٰ بن معین والکبار‘‘ 

یہ خود بھی پرہیز گار تھے ،اور پرہیز گاروں کے لئے نمونہ بھی تھے، امام یحییٰ بن معینؒ اور دیگر کبارِ محدثین نے ان سے روایت حدیث کی ہے۔(العبر:۱؍۲۸۹)

اسی طرح حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے، اور امام حاکم نیشاپوریؒ ۴۰۵؁ھ) کا یہ بیان ان کے بارے میں نقل کیا ہے کہ:

’’کان مفتی بلخ وزاھدھا، زارہ صاحب بلخ فاعرض عنہ‘‘

یہ بلخ کے مفتی اور زاہد تھے، سلطان بلخ ان کی زیارت کے لئے آیا تو انہوں نے اس سے منہ پھیر لیا۔ (الکاشف:۱؍۲۳۷)

امام ابن حبانؒ ۳۵۴؁ھ) نے ان کو’’ثقات ‘‘ (ثقہ رایوں) میں شمار کیا ہے۔ (تہذیب التہذیب:۳؍۹۰)

امام خلیلیؒ ۴۴۶؁ھ) ان کے متعلق تصریح کرتے ہیں کہ:

’’صدوق مشھور، کان یوصف بالستور والصلاح والزھد، وکان فقیھا علی رأی الکوفیین‘‘  

یہ حدیث میں نہایت راست باز و مشہور اور پاکدامنی ، نیکی اور زہد وتقویٰ سے موصوف تھے، اوراہلِ کوفہ(احناف) کی رائے پر فقیہ تھے۔(کتاب الارشاد فی معرفۃ علماء المحدثین: ص:۴۴۲)

نیز امام خلیلیؒ ان کو ثقہ اور زاہد قرار دیتے ہیں۔ (ایضا:ص۸۰)

حافظ عبدالقادر قرشیؒ ۷۷۵؁ھ) اور حافظ قاسم بن قطلوبغاؒ ۸۷۹؁ھ) نے ان کے بارے میں تصریح کی ہے کہ :

’’کان من اصحاب محمد و زفر‘‘ 

یہ امام محمد بن حسنؒ اور امام زفربن ہذیلؒ کے تلامذہ میں سے تھے۔(الجواھر المضیۃ: ۱؍۲۳۱، تاج التراجم:ص۲۷)

اسی طرح حافظ قرشیؒ ۷۷۵؁ھ) نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ:

امام خلفؒ نے حدیث و فقہ کی تعلیم امام ابویوسفؒ امام محمدؒ اور امام زفرؒ وغیرہ اصحاب ابی حنیفہؒ سے حاصل کی تھی، اور زہد امام ابراہیم بن ادہمؒ (تلمیذ امام اعظمؒ) سے سیکھا تھا۔ (الجواھرالمضیۃ: ۱؍۲۳۱،۲۳۲)

(۷)     امام محمد بن سماعۃ التمیمیؒ (م۲۳۳؁ھ) :

امام ابن سماعہؒ بھی فقہ و حدیث کے عظیم المرتبت امام ہیں، اور ان کا شمار امام ابویوسفؒ اور امام محمد بن حسنؒ کے ان تلامذہ میں ہوتا ہے ، جو ثقہ حفاظ حدیث میں سے ہیں، علامہ خطیب بغدادیؒ۴۶۳؁ھ) اپنے استاذ امام ابوعبداللہ صمیریؒ ۴۳۶؁ھ) کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’ومن اصحاب ابی یوسف و محمد جمیعا ابو عبداللہ محمد بن سماعۃ وھو من الحفاظ الثقات‘‘

امام ابویوسفؒ اور امام محمد بن حسنؒ کے مشترکہ تلامذہ میں سے ایک ابو عبداللہ محمد بن سماعہؒ بھی ہیں جو کہ حفاظ حدیث اور ثقہ محدثین میں شمار ہوتے ہیں۔ (تاریخ بغداد: ۲؍۴۰۲)

امام یحییٰ بن معینؒ (م۲۳۳؁ھ) فرمایا کرتے تھے:

’’لوکان اصحاب الحدیث یصدقون فی الحدیث کما یصدق محمد بن سماعۃ فی الرأی کانوا علی نھایۃ‘‘

اگر اصحابِ حدیث  (محدثین) حدیث میں اس طرح سچے ہوں جیسے محمد بن سماعہؒ رائے (فقہ) میں سچے ہیں تووہ (کامیابی کے ) انتہائی درجہ کو پالیں۔(تاریخ بغداد: ۲؍۴۰۳)

امام ابن سماعہؒ ۲۳۳؁ھ) کا جب انتقال ہو ا تو امام ابن معینؒ ۲۳۳؁ھ) نے فرمایا:

’’الیوم مات ریحانۃ العلم من اھل الرأی‘‘ 

آج اہلِ رائے (فقہاء) میں سے ’’ریحانۃ العلم‘‘ (علم کے پھول) کا انتقال ہوگیا۔(الجواھر المضیہ:۲؍۵۹)

حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ)  ان کو ’’علامۃ‘‘ اور ’’صاحب ابی یوسفؒ ومحمدؒ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ (سیراعلام النبلاء:۱۰؍۶۴۶)

نیز ان کے بارے میں تصریح کرتے ہیں:

’’تفقہ علی ابی یوسف ومحمد…… وکان وردہ فی الیوم واللیلۃ مأتی رکعۃ‘‘

انہوں نے امام ابویوسفؒ اور امام محمد بن حسنؒ سے فقہ حاصل کیا تھا، … اور دن رات میں دو سورکعت (نفل) پڑھنے کا ان کا معمول تھا۔(العبر:۱؍۲۸۹)

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (م۸۵۲؁ھ) نے ان کو روایت حدیث میں ’’صدوق‘‘ قرار دیا ہے۔   (تقریب التہذیب:۲؍۸۲)               

امام محمدؒ (م۱۸۹؁ھ)کے دیگر بعض تلامذہ:

مذکورہ بالا ائمہ کے علاوہ کئی دیگر نامور محدثین اور فقہاء نے بھی آپ سے استفادہ کیا ہے، مثلاً ابوعبید قاسم بن سلامؒ ، ہشام بن عبیداللہ رازی، علی بن مسلم بن طوسیؒ، عمرو بن ابی عمروؒ، یحییٰ بن صالح ابو حاطیؒ، معلی بن منصور رازیؒ ، علی بن معبدؒ، ابو بکربن ابی مقاتلؒ محمد بن مقاتل رازیؒ ، موسیٰ بن نصررازیؒ، شدادبن حکیم بلخیؒ ، حسین بن حرب رقیؒ،ا بن جبلہؒ،  ابو العباس حمیدؒ ، ابو التوبہ ربیع بن نافعؒ، عبیداللہ بن ابی حنیفہ دبوسیؒ، ابوبرید عمرو بن الجرمیؒ، مصعب بن عبداللہ زبیریؒ ، ایوب بن حسن نیساپوریؒ، علی بن صبیحؒ، عقیل بن عنبسہؒ، علی بن مہران، عمرو بن مہیرؒ، یحییٰ بن اکثمؒ، ابو عبدالرحمن مؤدبؒ، علی بن حسن رازیؒ، ابو جعفر احمد بن محمد بن مہران نسویؒ (راوی السیر الکبیر عنہ) ابوبکر ابراہیم بن رستم مروزیؒ (راوی النوادر عنہ)، عیسیٰ ابن ابانؒ (راوی الحجۃ علی اھل المدینۃ وغیرہ) شعیب بن سلیمان کسانیؒ (راوی الکیسانیات عنہ) ، ابو زکریا یحییٰ بن صالح وحاظی حمصیؒ وغیرہ۔ (دیکھئے:  مناقب ابی حنیفۃ وصاحبہ: ص۵۰، الجواھر المضیۃ :۲؍۴۳، بلوغ الامانی۱۰۹)

آخر میں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ امام محمدؒ کے کئی تلامذہ ایسے بھی ہیں جو امام بخاریؒ صاحب الصحیح کے کبارِ اساتذہ ومشائخ میں سے ہیں، مثلاً علی بن مسلم طوسیؒ ۲۵۳؁ھ)، (تاریخ بغداد:۲؍۱۶۹)، معلی بن منصورؒ ۲۱۱؁ھ)،(تہذیب التہذیب:۵؍۴۹۸)، امام یحییٰ بن معینؒ ۲۳۳؁ھ)،(تاریخ بغداد:۳؍۱۷۳)،ابو حفص کبیرؒ ۲۱۷؁ھ)،(سیر اعلام النبلاء :۱۰؍۱۵۷، ھد ی الساری مقدمۃ فتح الباری:ص۶۶۷)، علی بن ہاشم بغدادیؒ،(تہذیب التہذیب:۴؍۲۴۷)، یحییٰ بن صالح الوحاظیؒ ۲۲۲؁ھ)،(ایضا:۶؍۱۴۶، تذکرۃ الحفاظ: ۱؍۲۹۹)، محمد بن سلام سلمیؒ ۲۲۵؁ھ)،(الاکمال:۴؍۴۰۵)، اور محمد بن مقاتل مروزیؒ ۲۱۱؁ھ) وغیرہ۔ (تہذیب التہذیب:۵؍۲۹۹)

امام محمدؒ کا فقہی مقام :

جس شخص نے امام اعظم ابوحنیفہؒ ، امام ابویوسفؒ ، امام مالکؒ ، امام اوزاعیؒ ، اور امام ابن جُریج ؒ وغیرہ جیسے ائمہ کبار اور مجتہدین عظام سے فقہ کا درس لیا ہو، اور خود جس شخص کے درس سے پڑھ کر امام شافعیؒ ، امام احمد بن حنبلؒ اور امام اسد بن فراتؒ وغیرہ جیسے ائمہ فقیہ  اور مجتہد بنے ہوں ، اس شخص کے فقہ میں بلند پایہ اور عظیم الشان ہونے میں کیا شک و شبہ ہوسکتاہے؟

چنانچہ اسی وجہ سے امام شافعیؒ فرمایا کرتے تھے:

’’مارأیت…أفقہ… من محمد بن الحسن‘‘

میں نے امام محمد بن حسنؒ سے زیادہ فقیہ کوئی شخص نہیں دیکھا۔  (مناقب ابی حنیفۃو صاحبہ ص:۵۵)[48]

حافظ سمعانیؒ (م۵۶۲؁ھ) اور حافظ عبدالکریم قزوینیؒ ۶۲۳؁ھ) نے نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے امام شافعیؒ سے کوئی مسئلہ پوچھا، انہوں نے جب وہ مسئلہ اس کو بتلایا تو وہ ان سے کہنے لگا: آپ نے اس مسئلہ میں فقہاء کی مخالفت کی ہے ، اس پر امام شافعیؒ نے اس کو جواب دیا:

’’وھل رأیت فقیھا قط؟  اللھم الا ان یکون رأیت محمدبن الحسن، فانہ کا یملأ العین والقلب‘‘ 

کیا تو نے کبھی کسی فقیہ کو دیکھا بھی ہے؟  ہاں !  اگر  تو نے محمد بن حسنؒ کو دیکھا ہو، اس لئے کہ  وہ (اپنے فقہی رعب سے) آنکھوں اور دل کو بھر دیتے تھے۔(کتاب الانساب:۳؍۱۶۶،۱۶۷، التدوین فی اخبار قزوین :۱؍۲۵۲)[49]

امام احمد بن حنبلؒ کا یہ بیان پہلے گزر چکا ہے کہ میں نے دقیق (باریک) مسائل امام محمدؒ کی کتابوں سے لئے ہیں۔

امام شافعیؒ (م۲۰۴؁ھ)کے شاگرد کبیر امام مزنیؒ ۲۶۴؁ھ) آپ کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’اکثرھم تفریعا‘‘

اہل عراق میں سے امام محمدؒ فقہی مسائل کی جزئیات کرنے میں سب سے زیادہ ماہر ہیں۔(تاریخ بغداد:۱۴؍۲۴۹)[50]

امام یحییٰ بن صالحؒ اور امام شافعیؒ سے منقول ہے کہ ان دونوں نے فرمایا:

فی نفسہ  امام محمد ؒ، امام مالکؒ سے بھی زیادہ مضبوط  فقیہ ہیں۔(ایضاً:۲؍۱۷۶، شذرات الذھب:۱؍۳۲۳)[51]

حافظ ابن عبدالہادی حنبلیؒ ۷۴۴؁ھ)، حافظ ذہبیؒ ۷۴۸؁ھ) اور حافظ ابن ناصرالدینؒ ۸۴۰؁ھ) آپ کو ’’فقیہ العراق‘‘ قرار دیتے ہیں۔   (مناقب الائمۃ الاربعۃ: ص۶۰، سیر اعلام النبلاء:۹؍۱۳۴، اتحاف السالک :ص۱۸۰)

نیز حافظ ذہبیؒ آپ کو ’’فقیہ العصر‘‘ اور  ’’رأس فی الفقہ‘‘ (فقہ میں سردار) بھی کہتے ہیں۔ (العبر:۱؍۲۲۴، تذکرۃ الحفاظ:۳؍۱۵۷)

اور آپ کے بارے میں حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) لکھتے ہیں:

’’وکان من بحور العلم والفقہ‘‘ 

امام محمدؒ علم اور فقہ کے سمندر تھے۔(لسان المیزان :۵؍۱۲۷)

اسی طرح حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) اور حافظ ابن ناصرالدینؒ (م۸۴۲؁ھ) نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ:

’’انتھت الیٰ محمد بن الحسن الرئاسۃ فی الفقہ بالعراق بعد موت ابی یوسف‘‘

عراق میں امام ابویوسفؒ کی وفات کے بعد فقہ کی سربراہی امام محمدبن حسنؒ پر ختم تھی۔

(مناقب ابی حنیفۃ وصاحبہ:ص۵۰، اتحاف السالک:ص۱۷۷)

نیز ذہبیؒ نے آپ کو مجتہد قرار دیا ہے۔  (تاریخ الاسلام:۴؍۹۵۵)

امام صلاح الدین صفدیؒ ۷۶۴؁ھ) اور ابنِ تغری بردیؒ ۸۷۴؁ھ) بھی کھلے لفظوں میں آپ کے مجتہد ہونے کی تصریح کرتے ہیں۔  (الوافی بالوفیات:۲؍۲۴۷، النجوم الزھرۃ:۲؍۱۶۴)

حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ)نے امام حماد بن ابی سلیمانؒ کے ترجمہ میں لکھا ہے کہ:

’’فافقہ اھل الکوفۃ علیؓ، وابن مسعودؓ، وافقہ اصحابھما علقمۃ، وافقہ اصحابہ ابراھیم النخعی، وافقہ اصحاب ابراھیم حماد، وافقہ اصحاب حماد ابوحنیفۃ، وافقہ اصحابہ ابویوسف، وانتشر اصحاب ابی یوسف فی الآفاق، وافقھم محمد بن الحسن‘‘

اہل کوفہ کے سب سے بڑے فقیہ حضرت علیؓ، اورحضرت عبداللہ بن مسعودؓ ہیں، ان دونوں کے تلامذہ میں سب سے بڑے فقیہ حضرت علقمہؒ ہیں، اور ان کے تلامذہ میں سب سے بڑے فقیہ حضرت ابراہیم نخعیؒ ہیں، حضرت ابراہیم نخعیؒ کے تلامذہ میں سب سے بڑے فقیہ امام حمادؒ ہیں، امام حمادؒ کے تلامذہ میں سب سے بڑے فقیہ امام ابوحنیفہؒ ہیں ، اور ان کے تلامذہ میں سب سے بڑے فقیہ امام ابویوسفؒ ہیں، اور امام ابویوسفؒ کے تلامذہ پوری دنیا میں پھیلے ہیں لیکن ان میں سب سے بڑے فقیہ امام محمد بن حسن شیبانیؒ ہیں۔(سیر اعلام النبلاء:۵؍۲۳۶)

امام ابوحنیفہؒ (م۱۵۰؁ھ) کی فقہ کو دنیا میں پھیلانے کا سہرا امام محمدؒ(م۱۸۹؁ھ)  کے سر ہے:

واضح رہے کہ امام موصوف نے اگر چہ تمام مشہور فقہاء سے علمی فیض حاصل کیا، اور تقریباً سب مشہور بلاد اسلامیہ کے فقہاء سے براہِ راست ان کی فقہ حاصل کی ، مثلاً اہلِ عراق کی فقہ کو امام ابوحنیفہؒ ، اور امام ابویوسفؒ وغیرہ سے ، اہلِ مدینہ کی فقہ کو امام مالکؒ وغیرہ سے ، اہلِ مکہ کی فقہ کو امام ابن جُریجؒ وغیرہ سے ، اور اہلِ شام کی فقہ کو امام اوزاعیؒ  وغیرہ سے اخذ کرکے ان پر مکمل عبور حاصل کیا تھا، لیکن آپ کی وابستگی جس فقہ سے رہی ، اور آپ نے اپنی پوری زندگی جس فقہ کی نشر واشاعت میں صرف کی وہ امام اعظم ابوحنیفہؒ کی فقہ ہے۔

چنانچہ اسی وجہ سے آپ ’’صاحب ابی حنیفۃ‘‘ اور  ’’ تلو ابی حنیفۃ‘‘ (امام ابوحنیفہؒ کے پیرو وجانشین) کہلائے، جیسا کہ حافظ سمعانیؒ کے حوالے سے گزرچکا ہے۔

علامہ ابن خلکانؒ ۶۸۱؁ھ) اور حافظ عبدالقادر قرشیؒ (م۷۷۵؁) آپ کے بارے میں ارقام فرماتے ہیں:

’’نشر علم ابی حنیفۃ‘‘

امام محمدؒ نے امام ابو حنیفۃؒ کے علم کو (دنیامیں) پھیلایا ہے۔(وفیات الاعیان :۲؍۳۲۱،الجواھر المضیۃ:۲؍۴۲)

علامہ یحییٰ بن ابراہیم سلماسیؒ ۵۵۰؁ھ) رقم طراز ہیں:

’’ومحمد بن الحسن ھذا ھو الذی ظھر علی یدیہ مذھب ابی حنیفۃ بما صنف والف فی ذلک‘‘۔

امام محمد بن حسنؒ وہ شخص ہین کہ جن کے ہاتھوں سے امام ابوحنیفہؒ کا مذہب (دنیا میں) پھیلا ہے، کیونکہ انہوں نے امام ابوحنیفہؒ کے مذہب میں کتب تصنیف کی ہیں۔  (منازل الائمہ الاربعۃ۷۹)

علامہ عبدالحیٔ لکھنویؒ ۱۳۰۴؁ھ) رقم طراز ہیں:

’’وھو الذی نشر علم ابی حنیفۃ، وانما ظھر علم ابی حنیفۃ بتصانیفہ‘‘

امام محمدؒ نے امام ابوحنیفہؒ کے علم کو پھیلایا ہے، اور امام ابوحنیفہؒ کا علم امام محمدؒ کی کتابوں کے ذریعہ سے ظاہر ہوا ہے۔(الفوائد البھیۃ۱۶۳)

 

آپؒ کا محدثانہ مقام :

آپ کی زیادہ شہرت اگر چہ فقیہ اور مجتہد کی حیثیت سے ہوئی، لیکن اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ آپ فقہ کی طرح حدیث میں بھی بلند مرتبت تھے، اور آپ نے دیگر علوم کی طرح علمِ حدیث حاصل کرنے میں بھی خاص توجہ دی تھی اور اس میں مکمل عبور حاصل کیا تھا، چنانچہ ماقبل میں آپ کا اپنا یہ بیان گزر چکا ہے کہ:

میرے والد نے ترکہ میں میرے لئے جو تیس ہزار درہم چھوڑے تھے ان میں  سے میں نے پندرہ ہزار درہم فقہ اور حدیث کی تحصیل میں صَرف کئے ، اور باقی پندرہ ہزار درہم نحو اور شعر وشاعری سیکھنے میں لگادئیے۔

امام محمد بن سعدؒ ۲۳۰؁ھ) او ر محدث ابن الفراتؒ ۸۰۷؁ھ) نے آپکے بارے میں تصریح کی ہے کہ

’’وطلب الحدیث وسمع سماعاً کثیراً‘‘

امام محمدؒ نے حدیث حاصل کی، اور کثرت سے احادیث کا سماع کیا۔

(الطبقات الکبریٰ:۷؍۲۴۸، شذرات الذھب:۱؍۳۲۲)

حافظ ابن عبدالبر مالکیؒ ۴۶۳؁ھ) ارقام فرماتے ہیں:

’’کتب عن مالک کثیراً من حدیثہ وعن الثوری وغیرھما‘‘

امام محمدؒ نے امام مالکؒ ، امام سفیان ثوریؒ اوردیگر محدثین سے بکثرت احادیث لکھی تھیں۔ (الانتفاء:ص۱۷۴)

آپ کے ’’عہد طلب علمی‘‘ کے تذکرے میں علامہ ابن خلکانؒ ۶۸۱؁ھ) اور علامہ صلاح الدین صفدیؒ ۷۶۴؁ھ) کے حوالے سے گذر چکا ہے کہ آپ نے باقاعدہ علمِ حدیث حاصل کیا تھا، اور طلب حدیث میں کئی ائمہ اعلام سے ملاقاتیں کی تھیں۔[52]

آپ کے محدث ہونے کی اس سے بڑھ کر اور دلیل کیا ہوگی کہ مؤرخِ اسلام، اور محدث ناقد حافظ شمس الدین ذہبیؒ نے آپ کو محدثین کے طبقے میں شمار کیا ہے۔  (المعین فی طبقات المحدثین:ص۶۱)

اورآپ کے بارے میں یہ تصریح بھی کی ہے کہ:

’’وسمع کثیراً‘‘

کہ آپ کثیر السماع محدث تھے۔ (مناقب ابی حنیفۃ وصاحبہ: ص۵۰)

امام ابن تغری بردیؒ (۸۷۴؁ھ) بھی آپ کے محدث ہونے کی تصریح کرتے ہیں۔  (النجوم الزاھرۃ:۲؍۱۶۴)

اور پھر آپ نے جیسے خود اپنے مشائخ حدیث سے بکثرت احادیث کا سماع کیا تھا، اسی طرح آپ نے اپنے تلامذہ کو بھی بہت زیادہ احادیث کا سماع کرایا، اور آپ کے تلامذہ نے آپ سے بڑی کثرت سے احادیث سنی ہیں۔ مثلاً آپ کے ایک شاگرد اسمٰعیل بن توبہ ثقفیؒ ۲۴۷؁ھ) جو امام ابو حاتم رازیؒ وغیرہ نامور حفاظِ حدیث کے استاذ ہیںِ ان کے بارے میں امام ابویعلیٰ خلیلیؒ ۴۴۶؁ھ) نے تصریح کی ہے کہ:

’’وسمع الکثیر من محمد بن الحسن الشیبانی صاحب ابی حنیفۃ‘‘

            انہوں نے امام محمد بن حسنؒ صاحب ابی حنیفہؒ سے بکثرت احادیث کا سماع کیا تھا۔ (الارشاد فی معرفۃ علماء الحدیث۲۹۵)

امام دارِ قطنیؒ ۳۸۵؁ھ) اور امام ابن عبدالبرؒ ۴۶۳؁ھ) جیسے نامور محدثین آپ کو حافظ الحدیث قرار دیتے ہیں، اور امام عبدالکریم شہرستانیؒ ۵۴۸؁ھ) آپ کو ائمہ حدیث میں شمار کرتے ہیں، ان تینوں حضرات کے حوالے ان شاء اللہ تعالیٰ آگے کتاب میں آرہے ہیں۔[53]

مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ غیرمقلد ۱۳۸۷؁ھ) آپ کو امام احمد بن حنبلؒ اور امام شافعیؒ کے ساتھ ذکر کرکے ان سب کے بارے میں تصریح کرتے ہیں:

یہ ائمہ بھی اہل حدیث تھے، ان کے علوم سے اہلِ حدیث کو فائدہ پہنچا۔  (تحریکِ آزدی فکر:ص ۳۳۴)

نیز مولانا سلفیؒ آپ کو امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ وغیرہ جیسے کبارِ محدثین کے زمرہ میں شمار کرتے ہوئے آپ کے ائمہ حدیث میں سے ہونے کی صاف تصریح کرتے ہیں۔ (ایضا:ص۴۹۰)

اسی طرح مولانا عبدالسلام مبارکپوریؒ غیر مقلد ۱۳۴۳؁) نے بھی آپ کو ، اور امام اعظم ابوحنیفہؒ ، وامام ابویوسفؒ کو فقہائے حدیث میں شمار کیا ہے، اور ان لوگوں کی تردید کی ہے، جو ان تینوں حضرات کو فقہائے اہلِ رائے میں ذکر کرتے ہیں۔ (سیرۃ البخاری:ص:۳۴۲)

احناف کے خلاف تعصب و عناد میں سر تا پا غرق غیر مقلد حافظ زبیر علی زئی نے بھی اس سب تعصب وعناد کے باوجود امام محمدؒ کا محدثین اور ائمہ حدیث میں سے ہونا تسلیم کیا ہے۔   (نورالعینین:ص۶۳، تعدادِ رکعات قیام رمضان:ص۱۳، وغیرہ)

والفضل ما شھدت بہ الاعداء

 

دیگر علوم وفنون میں آپ کا مقام:

فقہ وحدیث کے علاوہ دیگر علوم وفنون مثلاً لغت عربیہ، نحو، حساب، اور شعر وشاعری وغیرہ میں بھی آپ کو مکمل دسترس حاصل تھی۔

علامہ سِبط ابن الجوزیؒ ۶۵۴؁ھ) نے اپنی تاریخ ’’مرآۃ الزمان‘‘ میں لکھا ہے کہ:

’’قال علماء السیر: کان محمد بن الحسن اماماً ، حجۃ فی جمیع العلوم‘‘۔

علمائے سیر (مؤرخین) فرماتے ہیں کہ امام محمد بن حسنؒ تمام علوم میں امام اور حجت کا درجہ رکھتے تھے۔(بلوغ الامانی:۵۹)

حافظ عبدالقادر قرشیؒ ۷۷۵؁ھ) آپ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:

’’وکان ایضا مقدما فی علم العربیۃ، والنحو، والحساب والفطنۃ‘‘

            امام محمدؒ (حدیث وفقہ کی طرح) علوم عربیہ، نحو، حساب اور فطانت میں بھی فوقیت رکھتے تھے۔ (الجواھر المضیہ:۲؍۴۴)

حافظ ابوسعد سمعانیؒ (م۵۶۲؁ھ) نے امام احمد بن حنبلؒ (م۲۴۱؁ھ) سے نقل کیا ہے کہ :

’’ومحمد ابصر الناس بالعربیۃ‘‘ 

امام محمدؒ لغتِ عربیہ میں سب لوگوں سے زیادہ بصیرت رکھتے تھے۔(کتاب الانساب:۳؍۱۶۷)

نیز امام سمعانیؒ نے آپ کے شاگرد امام ہشام بن عبداللہ رازیؒ کے ترجمہ میں آپ کو ’’صاحب فقہ وادب‘‘ سے ملقب کیا ہے۔  (ایضا:۳؍۷۰)

حافظ ابن تیمیہؒ (م۷۲۸؁ھ) ارقام فرماتے ہیں:

’’ومحمد اعلمھم بالعربیۃ والحساب‘‘

امام ابوحنیفہؒ کے تلامذہ میں امام محمدؒ لغت عربیہ اور فنِ حساب کے سب سے بڑے عالم تھے۔(مجموع الفتاوی:۲۰؍۱۴۹)

علامہ ابن خلکانؒ ۶۸۱؁ھ) آپ کے ترجمہ میں تصریح کرتے ہیں کہ:

’’ولہٗ فی مصنفاتہ المسائل المشکلۃ خصوصاً المتعلقۃ بالعربیۃ‘‘

امام محمدؒ کی کتابوں میں مشکل مسائل ہیں، خصوصاً جو مسائل عربی زبان کے متعلق ہیں۔(وفیات الاعیان:۲؍۳۲۱)

امام ابوبکر الجصاص رازیؒ ۳۷۰؁ھ) ’’الجامع الکبیر‘‘ کی شرح میں ارقام فرماتے ہیں:

’’کنت اقرأ بعض مسائل من الجامع الکبیر علی بعض المبرزین فی النحو (یعنی اباعلی الفارسی) فکان یتعجب من تغلغل واضع ھذا الکتب فی النحو‘‘

            میں ’’الجامع الکبیر‘‘ (تصنیف امام محمد بن حسنؒ) کے بعض مسائل کو علمِ نحو کے ایک بہت بڑے ماہر یعنی ابوعلی الفارسی (جو مشہور امام النحور گزرے ہیں، ناقل)کے پاس پڑھ رہا تھا تو وہ بھی اس کتاب کے مصنف (امام محمدؒ) کی علمِ نحو میں مہارت پر حیران ہوگئے۔(بلوغ الامانی۶۳)

اسی طرح امام اخفش نحویؒ(م۲۱۵؁ھ) فرمایا کرتے تھے:

’’وما وضع شئی لشئی قط یوافق ذلک الا کتاب محمد بن الحسن فی الایمان فانہ وافق کلام الناس‘‘   

کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو کسی دوسری چیز کے لئے وضع کی گئی ہو، اور وہ اس کے موافق بھی ہو، سوائے امام محمد بن حسنؒ کی تصنیف ’’کتاب الایمان‘‘ کے کہ وہ لوگوں کی کلام کے موافق ہے۔ (مناقب ابی حنیفۃ وصاحبہ للذھبیؒ۵۱)[54]

شیخ عبدالرحمن المعلمیؒ غیر مقلد۱۳۸۶؁ھ) نے بھی امام محمدؒ کو فن حساب اور دقیق مسائل بیان کرنے میں ماہر تسلیم کیاہے۔  (التنکیل:۱؍۱۶۶)

اور آپ کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ:

’’المسائل الحسابیۃ الدقیقۃ التی ضخم بھا محمد کتبہ‘‘ 

امام محمدؒ نے اپنی کتابوں کو حساب کے دقیق مسائل سے بھر دیا ہے۔(ایضا:۱؍۱۶۷)

علاوہ ازیں آپ قرآن کریم کے بھی بہت بڑے عالم تھے، چنانچہ امام ابو عبیدؒ ۲۲۴؁ھ) جو ایک جلیل القدر امام ہیں، فرماتے تھے:

’’مارأیت اعلم بکتاب اللہ من محمد بن الحسن‘‘

میں نے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو امام محمد بن حسنؒ سے بڑھ کر کتاب اللہ (قرآن کریم) کا عالم ہو۔ (تاریخ بغداد:۲؍۱۷۲)[55]

امام شافعیؒ ۲۰۴؁ھ) فرمایا کرتے تھے:

’’مارأیت اعلم بکتاب اللہ من محمد کأنہ علیہ نُزل ‘‘

میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جو امام محمدؒ سے زیادہ کتاب اللہ کا علم رکھتا ہو، (امام محمدؒ قرآن کا علم اتنا زیادہ رکھتے تھے کہ) گویا قرآن اترا ہی آپ پر ہے۔(مناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ للذھبی۵۱)[56]

الغرض: امام عالی شان تمام علوم میں ماہر اور باکمال تھے۔

امام محمدؒ(م۱۸۹؁ھ) کی ذہانت اور فصاحت وبلاغت:

امام موصوف تمام علوم میں یکتائے روزگار تھے، اور اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے کم عمری میں ہی یہ تمام علمی کمالات حاصل کر لئے تھے، اس لئے آپ کا شمار ذہین ترین لوگوں میں ہوتا ہے، آپ کے شاگرد رشید امام شافعیؒ فرمایا کرتے تھے:

’’وما رأیت مبدنا قط اذکیٰ من محمد بن الحسن‘‘

میں نے کوئی بھی جسیم شخص امام محمد بن حسنؒ سے زیادہ ذہین نہیں دیکھا۔(تاریخ بغداد:۲؍۱۷۳)[57]

حافظ ذہبیؒ ۷۴۸؁ھ) اور حافظ ابن ناصرالدینؒ ۸۴۲؁ھ) دونوں اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ:

’’وکان من اذکیاء العالم‘‘

امام محمدؒ دنیا کے ذکی ترین لوگوں میں سے تھے۔(مناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ۵۰، اتحاف السالک : ص۱۷۸)

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ۸۵۲؁ھ) لکھتے ہیں:

’’وکان من افراد الدھر فی الذکاء‘‘

امام محمدؒ اپنے زمانے کے چندذہین ترین لوگوں میں سے ایک تھے۔  (الایثار مع کتاب الآثار۲۳۳)

علاوہ ازیں اللہ نے آپ کو علم اور ذہانت کے ساتھ ساتھ فصاحت وبلاغت سے بھی خوب نوازا تھا، اور آپ انتہائی فصیح وبلیغ شخص تھے۔

حضرت امام شافعیؒ ۲۰۴؁ھ) کا قول ہے کہ:

’’لو اشاء ان اقول ان القرآن نزل بلغۃ محمد بن الحسن لقلتہٗ لفصاحتہٖ‘‘

اگر میں یہ کہنا چاہوں کہ قرآن امام محمد بن حسنؒ کی لغت (زبان) میں اُترا ہے تو آپ کی فصاحت کی وجہ سے میں یہ کہہ سکتا ہوں۔(تاریخ بغداد:۲؍۱۷۲،۱۷۳، نیز دیکھئے اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ للصمیریؒ : ص۱۲۸،۱۲۹)[58]

نیز فرماتے ہیں:

’’کان محمد بن الحسن الشیبانی اذا اخذ فی المسألۃ کأنہ قرآن ینزل علیہ لا یقدم حرفا ولایؤخر‘‘

امام محمد بن حسن شیبانیؒ جب کوئی مسئلہ بیان کرتے (تو اس کو اس خوبصورتی سے پیش کرتے کہ) گویا قرآن اُن پراُتررہا ہے، آپ نہ کوئی حرف آگے کرتے اور نہ کسی حرف کو پیچھے کرتے۔(ایضاً)

امام شافعیؒ ۲۰۴؁ھ) یہ بھی فرماتے تھے:

’’ما رأیت سمینا اخف روحا من محمد بن الحسن، وما رأیت افصح منہ، کنت اذا رأیتہٗ یقرأ کأن القرآن نزل بلغتہٖ‘‘

میں نے کوئی جسیم شخص امام محمدبن حسنؒ سے زیادہ نرم مزاج نہیں دیکھا، اور نہ ہی آپ سے زیادہ فصیح کوئی شخص دیکھا ہے، میں جب آپ کو قرآن پڑھتے ہوئے دیکھتا تو مجھے یوں محسوس ہوتا کہ گویا قرآن آپ کی لغت میں اُترا ہے۔(ایضاً) [59]

مؤرخ اسلام علامہ ابن خلکانؒ ۶۸۱؁ھ) اور نامور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان ۱۳۰۷؁ھ) آپ کے تذکرے میں لکھتے ہیں:

’’وکان افصح الناس، وکان اذا تکلم خیل لسامعہٖ ان القرآن نزل بلغتہٖ‘‘

            آپ لوگوں میں سب سے زیادہ فصیح تھے، آپ جب بات کرتے تو سامع (سننے والے) کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ قرآن کریم آپ کی لغت میں اُتراہے۔ (وفیات الاعیان:۲؍۳۲۱، التاج المکلل:ص۸۰)

علامہ ابن العماد حنبلیؒ ۱۰۸۹؁ھ) آپ کے متعلق ارقام فرماتے ہیں:

’’فکان فصیحا بلیغا‘‘ 

امام محمدؒ فصیح اور بلیغ شخص تھے۔(شذرات الذھب:۱؍۳۲۱)

آپ ؒ   کی عبادت اور کثرت تلاوت:

آدمی کے لئے علم اسی وقت نفع مند ہے، جب آدمی عملی کی زندگی اس کے علم کے مطابق ہو، امام محمد بن حسنؒ کا شمار بھی ان ہی اہلِ علم میں ہوتا ہے، جو اپنے علم پر پوری طرح عمل پیرا تھے، چنانچہ آپ اعلیٰ درجہ کے عبادت گزار تھے، اور آپ کی عبادت کا حسن ہر طرف مشہور تھا، اور پھرآپ کا یہ حسن عبادت آپ کے تلامذہ میں بھی منتقل ہوا، مثلاً آپ کے تلامذہ امام محمد بن سماعہؒ ۲۳۳؁ھ) اور امام عیسیٰ بن ابانؒ ۳۲۱) وغیرہ کی نماز کا حسن بہت مشہور ہے، انہوں نے اپنی نماز میں یہ حسن اپنے استاذ مکرم امام محمدؒ سے ہی اخذ کیا ہے۔

چنانچہ امام ابو عبداللہ الصمیریؒ ۴۳۶؁ھ) نے بہ سند متصل امام بکر العمیؒ سے نقل کیا ہے کہ:

’’انما اخذ محمدبن سماعۃ وعیسیٰ بن ابان حسن الصلاۃ من محمد بن الحسن رضی اللہ عنہ‘‘

امام محمد بن سماعہؒ اور امام عیسیٰ بن ابانؒ نے اپنی نماز کا حسن امام محمد بن حسنؒ سے سیکھا تھا۔ (اخبار ابی حنیفۃواصحابہ:ص۱۳۳)[60]

نیز آپ اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود تلاوتِ قرآن کے ساتھ بھی انتہائی شغف رکھتے تھے، امام طحاویؒ ۳۲۱؁ھ) نے آپ کے بعض تلامذہ سے روایت کیا ہے کہ:

’’ان محمدا کان حزبہٗ فی کل یوم ولیلۃ ثلث القرآن‘‘

            امام محمد ؒ  کا دن رات  میں  ثلث قرآن (دس پارے ) پڑھنے کا معمول تھا۔(مناقب ابی حنیفۃ وصاحبہ:ص۵۹)[61]

آپ ؒ کا حسن وجمال:

آپ جیسے باطنی خوبیوں اور کمالات (علم ، ذہانت وغیرہ) میں یگانہ روزگار تھے، ایسے ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو ظاہری حسن وجمال سے بھی خوب نوازا تھا۔

علامہ ابن العماد حنبلیؒ ۱۰۸۹؁ھ) نے بحوالہ علامہ ابن الفراتؒ ۸۰۷؁ھ) لکھا ہے:

’’وکان من اجمل النا س واحسنھم ، قال ابوحنیفۃ لوالدہ حین حملہ احلق شعر ولدک والبسہ الخلقان من الثیاب لا یفتنن بہ من رآہ، قال محمد: فحلق والدی شعری، والبسنی الخلقان فزدت عند الحلق جمالا، وقال الشافعیؒ : اول مارأیت محمداً وقد اجتمع الناس علیہ نظرت الیہ فکان من احسن الناس وجھا، ثم نظرت الیٰ جبینہٖ فکأنہ عاج، ثم نظرت الیٰ لباسہ فکان من احسن الناس لباسا، ثم سألتہ عن مسئلۃ فیھا خلاف فقوی مذھبہ ومر فیہ کالسَّھم‘‘

            امام محمدؒ لوگوںمیں انتہائی جمیل او سب سے زیادہ خوبصورت تھے، آپ کے والد جب آپ کو پہلی دفعہ امام ابوحنیفہؒ کے پاس تحصیلِ علم کے لئے لے گئے تو امام صاحبؒ نے ان سے فرمایا کہ آپ اپنے بیٹے کے بال منڈوا دیں، اور اس کو دو پرانے کپڑے پہنادیں تاکہ اس کو دیکھنے والا کہیں کسی فتنے میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ امام محمدؒ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے اس پر میرے بال منڈوا دئیے، اور مجھے دو پرانے کپڑے پہنا دئیے، لیکن سر منڈانے سے میرا حُسن پہلے سے دو بالا ہوگیا، امام شافعیؒ کا قول ہے کہ امام محمدؒ سے جب میری پہلی دفعہ ملاقات ہوئی تو اس وقت لوگ آپ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے، میں نے جب آپ کی طرف دیکھا تو آپ کا چہرہ سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت تھا، پھر میں نے آپ کی پیشانی کی طرف دیکھا تو وہ انتہائی روشن اور چمک دار تھی، پھر میں نے آپ کے لباس کی طرف دیکھا تو آپ کا لباس سب لوگوں سے زیادہ اچھا تھا، اور پھر میں نے آپ سے ایک اختلافی مسئلہ پوچھا تو آپ نے (اس مسئلہ کے متعلق) اپنے مذہب کو (دلائل سے) مضبوط کیا، اور اس میں تیر کی طرح نکل گئے۔ (شذرات الذھب:۱؍۳۲۲)

محدثین سے امام محمدؒ (م۱۸۹  ؁ھ )  کی توثیق :

ماقبل محدثین کے حوالے سے گزر چکا ہے کہ فقہ حنفی جو شروع سے لے کر اب تک اُمت مسلمہ کی اکثریت کا دستور عمل (Personal Law) رہا ہے، اس کا مدار امام محمدؒ کی کتابوں پر ہے، اور آپ ہی نے امام ابوحنیفۃؒ کی فقہ کو قید تحریر میں لاکر اس کو پوری دنیا میں پھیلایا، اور پھر امت کی طرف سے اس کو تلقّی بالقبول حاصل ہوا، جو کہ امت مسلمہ کا آپ کی نقل وروایت پر اعتماد کی بیّن دلیل ہے، لہٰذا جس شخص کی نقل اور روایت پر امت کا اس قدر اعتماد ہو اس کی ثقاہت و عدالت پر کسی کی گواہی نقل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، لیکن افسوس  !  اس کے باوجود بعض عاقبت نااندیش اُن اسلاف امت پر تنقید کر کے اپنی عاقبت  برباد کر رہے ہیں، اس لئے ہم امام موصوف کے ناقدین کی تسلی کے لئے محدثین سے آپ کی توثیق پیش کرتے ہیں۔

آپ کی توثیق سے متعلق محدثین کے اقوال:

محدثین کی ایک بڑی تعداد نے آپ کی توثیق کی ہے، ہم یہاں بطور ’’گلے از گلزارے‘‘ ان میں سے بعض نامور محدثین کے آپ کی توثیق سے متعلق اقوال ہدیہ ناظرین کر رہے ہیں؛

(۱)     امام محمد بن ادریس الشافعیؒ  ۲۰۴؁ھ) :

امام شافعیؒ ۲۰۴؁ھ) جو بیک وقت محدثین اور فقہاء دونوں طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں، اور ان کو امام محمدؒ سے شرف تلمذ بھی حاصل ہے،جس کی وجہ سے ان کو امام موصوف کی شخصیت کو قریب سےدیکھنے کا موقع ملا ہے، لہٰذا آپ کے بارے میں ان کی گواہی دیگر محدثین پر مقدم ہے۔

پہلے تفصیل سے گزر چکا ہے کہ امام شافعیؒ۲۰۴؁ھ)نے امام محمدؒ ۱۸۹ ؁ھ) سے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے، اور انہوں نے آپ سے تفقہ حاصل کرنے کے علاوہ آپ سے احادیث بھی روایت کی ہیں، اور ان میں سے آپ کی بعض احادیث امام شافعیؒ ۲۰۴؁ھ) کی ’’مسند‘‘ میں بھی موجود ہیں۔

امام شافعیؒ ۲۰۴؁ھ) نے نہ صرف یہ کہ آپ سے احادیث روایت کی ہیں، بلکہ آپ کی احادیث کو قابلِ حُجّت بھی سمجھا ہے، چنانچہ محدثِ ناقدحافظ شمس الدین ذہبیؒ (م۱۸۹؁ھ) نے تصریح کی ہے کہ:

’’واما الشافعیؒ فاحتج بمحمد بن الحسن فی الحدیث‘‘ 

امام شافعیؒ ۲۰۴؁ھ) نے حدیث میں امام محمد بن حسنؒ سے حجت پکڑی ہے۔(مناقب ابی حنیفۃ وصاحبہ۵۵، تاریخ الاسلام: ۴؍۹۵۶)

اسی طرح امام شافعیؒ ۲۰۴؁ھ) نے صراحتاً بھی آپ کو روایتِ حدیث میں صدوق قرار دیا ہے، چنانچہ وہ ایک روایت سے استدلال کرتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں:

’’اخبرنا محمد بن الحسن أو غیرہ من اھل الصدق فی الحدیث، أو ھما…۔‘‘

ہم سے حدیث میں صدوق محمد بن حسنؒ یا کسی اور صدوق شخص نے یا دونوں نے حدیث بیان کی ہے ……۔ (کتاب الأم:۳؍۳۲۰، باب الخلاف فی الحجر، مسند الامام الشافعیؒ:ص۳۸۲)

امام شافعیؒ نے آپ کی احادیث سے احتجاج کرنے ، اور آپ کو ’’صدوق فی الحدیث‘‘ قرار دینے کے علاوہ آپ کی بڑی تعریف بھی کی ہے، اور ان سے آپ کی تعریف و توثیق میں اتنے زیادہ اقوال منقول ہیں کہ اہلِ علم نے ان کو متواتر (جوروایت کی سب سے اعلیٰ قسم ہے) کا درجہ دیا ہے۔

امام ابن الفراتؒ ۸۰۷؁ھ) اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں:

’’وکان الشافعیؒ یثنی علی محمد بن الحسن، ویفضلہ، وقد تواتر عنہ بالفاظ مختلفۃ‘‘

امام شافعیؒ نے امام محمد بن حسنؒ کی تعریف کی ہے، اور آپ کی فضیلت کو تسلیم کیا ہے، امام شافعیؒ سے بالتواتر آپ کی تعریف اور فضیلت میں مختلف الفاظ منقول ہیں۔ (بحوالہ شذرات الذھب:۱؍۳۲۳)

حافظ الدنیا امام ابن حجر عسقلانیؒ  ۸۵۲؁ھ) آپ کے تذکرے میں ارقام فرماتے ہیں:

’’وکان الشافعی یعظمہ فی العلم‘‘

امام شافعیؒ نے علم (حدیث وغیرہ) میں امام محمدؒ کی عظمتِ شان کو تسلیم کیا ہے۔  (تعجیل المنفعۃ۴۰۹)

شیخ الاسلام ، حافظ المغرب ابن عبدالبر المالکیؒ ۴۶۳؁ھ) نے بھی یہ تصریح کی ہے کہ :

’’وکان الشافعی یثنی علی محمد بن الحسن ویفضلہ، ویقول: مارأیت قط سمینا اعقل منہ، قال وکان افصح الناس، کان اذا تکلم خیل الیٰ سامعہ ان القرآن نزل بلغتہ، وقال الشافعی: کتبت عن محمد بن الحسن وقر بعیر‘‘

امام شافعیؒ نے امام محمد بن حسنؒ کی تعریف کی ہے، اور آپ کی فضیلت کو بیان کیا ہے ، امام شافعیؒ فرماتے تھے میں نے کبھی بھی کوئی جسیم شخص امام محمدؒ سے زیادہ عقل مند نہیں دیکھا، اور فرمایا کہ امام محمدؒ لوگوں میں سب سے زیادہ فصیح تھے، جب آپ بات کرتےتو سننے والے کو یوں محسوس ہوتا کہ قرآن آپ ہی کی زبان میں اترا ہے، امام شافعیؒ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میں نے امام محمد بن حسنؒ سے ایک بارِ شُتر کے برابر علم لکھا تھا۔ (الانتفاء:ص:۱۷۴،۱۷۵)

نیز امام ابن عبدالبرؒ۴۶۳؁ھ)  لکھتے ہیں:

’’وللشافعی فی اول قدمۃ قدمھا علیہ کتب بھا الیہ‘‘

قل لمن لم تر عین من رآہ مثلہ             ٭        ان لم یکن قد رآہ قد رأی من قبلہ

العلم یأبی اھلہ ان یمنعوہ أھلہ      ٭        لعلہ یبذلہٗ لاھلہ لعلہ 

امام شافعیؒ کی جب پہلی دفعہ امام محمدؒ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے آپ کی طرف یہ اشعار لکھ کر بھیجے۔

(ترجمہ اشعار) :     اس شخص کو کہہ دو کہ جس کو دیکھنے والوں کی آنکھ نے اس کا مثل نہیں دیکھا، اور جس نے اس کو دیکھ لیا اس نے اس سے پہلے لوگوں کو بھی دیکھ لیا۔ (یعنی امام محمدؒ فقید المثال اور اپنے اکابر کے نمونہ ہیں) علم اہلِ علم کو اس سے روکتا ہے کہ وہ علم کو اس کے مستحقین تک پہنچنے سے روکے ، کیونکہ ممکن ہے کہ وہ مستحقِ علم بھی آگے دیگر مستحقِ علم تک اس علم کو پہنچا دے۔(ایضاً: نیز دیکھئے اخبارابی حنیفۃ واصحابہ للاما م الصمیری : ص۱۲۷،۱۲۸)

          نیز حافظ ابن تیمیہ ؒ(م۷۲۸؁ھ)،حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ)،حافظ ابن عبد الہادیؒ(م۷۴۴؁ھ)،حافظ عبد القادر القرشیؒ (م۷۷۵؁ھ)،حافظ ابن کثیرؒ(م۷۷۴؁ھ)، حافظ ابن عبدالبرؒ ۴۶۳؁ھ)،حافظ خطیب بغدادیؒ ۴۶۳؁ھ)، امام ابو سعد سمعانیؒ ۵۶۲؁ھ)،حافظ ا بن الجوزیؒ (م۵۹۷؁ھ)،حافظ ابو القاسم  عبد لکریم الرافعی ؒ (م۶۲۳؁ھ)،امام ابن خلکانؒ ۶۸۱؁ھ)، حافظ ابن الاثیرؒ۶۳۰؁ھ) ، محدث ابن الفراتؒ ۸۰۷؁ھ) اور امام ابن العماد حنبلیؒ ۱۰۸۹؁ھ) وغیرہ نے بھی تصریح کی ہے کہ امام شافعیؒ نے امام محمدؒ سے اخذِ علم کیا تھا، اور انہوں نے آپ سے فقہ اور حدیث کی روایت کی ہے اور امام محمدؒ (م۱۸۹؁ھ) کی بعض احادیث امام شافعیؒ ۲۰۴؁ھ) کی ’’مسند‘‘ میں بھی موجود ہیں۔  (دیکھئے ص : ۶۳)

            اور امام  ابو عبد اللہ الشافعیؒ(م۲۰۴؁ٗ؁ھ) صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے ہیں،جیسا کہ غیر مقلدین کا مذہب ہے۔ (الاتحاف النبیل : ج۲ : ص ۱۱۱)

            معلوم ہوا کہ امام محمد ؒ (م۱۸۹؁ھ)  امام شافعیؒ (م۲۰۴؁ھ) کے نزدیک ثقہ ہیں۔

امام ابن عبدالبرؒ نے امام شافعیؒ سے امام محمدؒ کی توصیف میں جو بعض اقوال نقل کئے ہیں ان کے علاوہ بھی امام شافعیؒ سے بکثرت اقوال منقول ہیں۔

مثلاً علامہ خطیب بغدادیؒ نے بہ سند متصل امام شافعیؒ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا:

’’امن الناس علي فی الفقہ محمد بن الحسن‘‘ 

فقہ (سکھانے ) میں سب سے زیادہ مجھ پر احسان امام محمدبن حسنؒ کا ہے۔(تاریخ بغداد:۲؍۱۷۳)[62]

امام ابو القاسم علی بن محمد بن کاس نخعیؒ ۳۲۴؁ھ) امام شافعیؒ سے ناقل ہیں کہ :

’’مارأیت اعقل ولا ازھد ولا أفقه ولا اورع ولا احسن نطقا وایراداً من محمد بن الحسن‘‘

 میں نے کوئی شخص عقل مندی ، پرہیزگاری،فقاہت ، تقویٰ اور اچھی گفتگو کرنے میں امام محمد بن حسنؒ سے بڑھ نہیں دیکھا۔  (مناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ للذھبیؒ۵۵)[63]

امام ابو عبداللہ الصمیریؒ (م۴۳۶؁ھ) امام شافعیؒ سے نقل کرتے ہیں کہ:

’’مارأیت رجلا اعلم بالحلال والحرام والناسخ والمنسوخ من محمد بن الحسن‘‘ 

میں نے کوئی شخص ایسا نہیں دیکھا جو حلال وحرام اور (احادیث میں) ناسخ ومنسوخ کو امام محمد بن حسنؒ سے زیادہ جانتا تھا۔(اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ؛ص۱۲۸)

محدث ابن الفراتؒ(م۸۰۷؁ھ) نے امام شافعیؒ سے نقل کیا ہے کہ:

’’ولولاہ ما انفتق لی من العلم ماانتفتق‘‘ 

اگر امام محمدؒ نہ ہوتے تو علم میں میری اتنی رسائی نہ ہوتی جتنی (آپ کی وجہ سے ) ہوئی ہے۔(شذرات الذھب:۱؍۳۲۳)

(۲)    امام احمد بن حنبلؒ  ۲۴۱؁ھ) :

امام شافعیؒ (م۲۰۴؁ھ)کے بعد جس شخص کا علمی مقام ہے وہ امام احمد بن حنبلؒ(م۲۴۱؁ھ) ہیں، اور علم حدیث میں ان کا جو پایہ ہے وہ تو کسی تعارف کا محتاج ہی نہیں، بلکہ بعض اہلِ علم نے تو علمِ حدیث میں ان کو امام شافعیؒ (م۲۰۴؁ھ) پر بھی فوقیت دی ہے۔  واللہ اعلم۔

امام موصوف کے مختصر ترجمہ میں گزر چکا ہے کہ یہ بھی ان لوگوں میں سے ہیں، جو امام محمدؒ (م۱۸۹؁ھ) کے علمی خوشہ چین ہیں،اور وہاں یہ بھی گزرا ہے کہ انہوں نے دقیق مسائل امام محمدؒ (م۱۸۹؁ھ) کی کتابوں سے لئے تھے،  نیز انہوں نے آپ ؒسے اور امام ابویوسفؒ(م۱۸۳؁ھ) سے تین صندوق علم کے بھی لکھے تھے، اور اس قول کے ذیل میں ہم شیخ عبدالرحمن المعلمیؒ غیر مقلد کا حوالہ نقل کر چکے ہیں کہ اس قول سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام احمدؒ نے ان دونوں سے ان کی احادیث لکھی تھیں۔(دیکھئے ص :۷۰ )

اس لحاظ سے امام محمدؒ (م۱۸۹؁ھ) بھی امام احمدؒ کے فقہ اور حدیث میں استاذ بنتے ہیں، اور حافظ زبیر علی زئی غیر مقلد نے بحوالہ امام ہیثمیؒ اور امام ابو العربؒ لکھا ہے کہ:

امام احمدؒ کے تمام اساتذہ ثقہ ہیں، اور وہ صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے ہیں۔   (الحدیث:ش۲۱: ص۲۲، بحوالہ مجمع الزوائد:۱؍۸۰، تھذیب التھذیب:۹؍۱۱۴)

معلوم ہوا کہ امام احمد بن حنبلؒ(م۲۴۱؁ھ)،امام محمد ؒ (م۱۸۹؁ھ) ثقہ ہیں۔

حافظ الحدیث ،امام قاسم بن قطلوبغاؒ(م۸۷۹؁ھ) نے کہا :

’’ وروی أحمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ عن محمد بن الحسن رحمہ اللہ تعالیٰ کتبہ المشھورۃ وشارکہ فی سماعھا أبو سلیمان الجوزجانی رحمہ اللہ تعالیٰ ، والمعلی بن منصور رحمہ اللہ تعالیٰ مع جماعۃ من العلماء الأعیان ما لا یحصون عدّا ‘‘

امام احمد بن حنبلؒ(م۲۴۱؁ھ)،امام محمد ؒ (م۱۸۹؁ھ) سے ان کی مشہور کتابیں لکھی، اور امام محمدؒ(م۱۸۹؁ھ) سے سماع کرنے میں امام احمد بن حنبل ؒ(م۲۴۱؁ھ)  کے ساتھ  ابو سلیمان الجوزجانیؒ ،معلی بن منصورؒ(م۲۱۱؁ھ) اور کبار علماء کی لاتعداد  جماعت   شریک تھی۔(کتاب مناقب الامام اعظم و اصحابہ للقاسم ،مخطوطہ (ترکی): ص ۵۲)

بنا بریں امام احمدؒ نے آپ کی بڑی تعریف کی ہے، اور آپ کی علمی عظمتِ شان کو خوب سراہا ہے، چنانچہ امام ابو سعد سمعانیؒ ۵۶۲؁ھ) نے ان سے نقل کیا ہے کہ:

’’اذا کان فی المسئلۃ قول ثلاثۃ لم تسع مخالفتھم فقلت من ھم؟ قال ابوحنیفۃ وابویوسف و محمد بن الحسن‘‘

جب کسی مسئلہ میں تین حضرات کا قول مل جائے تو پھر ان کی مخالفت جائز نہیں ہے، راوی کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا وہ تین حضرات کون ہیں؟ فرمایا: امام ابوحنیفہؒ، امام ابویوسفؒ، اور امام محمدبن حسنؒ۔(کتاب الانساب:۳؍۱۶۷)

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ(م۸۵۲؁ھ) امام محمدؒ کے تذکرے میں رقم طراز ہیں:

’’وعظمہ احمدوالشافعی‘‘ 

امام احمدبن حنبلؒ(م۲۴۱؁ھ) اور امام شافعیؒ (م۲۰۴؁ھ) آپ کی تعظیم کرتے تھے۔(الایثار مع کتاب الآثار:ص۲۳۳)

نیزایک اور کتاب میں حافظ ؒ  لکھتے ہیں:

’’وکان الشافعی یعظمہ فی العلم وکذالک احمد‘‘

امام شافعیؒ اور اسی طرح امام احمدؒ بھی امام محمدؒ کا علم (حدیث وغیرہ) میں عظیم الشان ہونا تسلیم کرتے ہیں۔ (تعجیل المنفعۃ: ص۴۰۹)

(۳)    امام یحییٰ بن معینؒ  ۲۳۳؁ھ) :

امام الجرح والتعدیل اور علم حدیث کے مایہ ناز سپوت امام یحییٰ بن معینؒ (م۲۳۳؁ھ) نے بھی امام محمدؒ کی توثیق کی ہے، چنانچہ امام محمدؒ کے تلامذہ کے تعارف  میں امام ابن معینؒ کا اپنا بیان گزرا ہے کہ میں نے خود امام محمدؒ سے آپ کی تصنیف ’’الجامع الصغیر‘‘ لکھی تھی۔[64]

اسی طرح محدثین میں سے حافظ ذہبیؒ ۷۴۸؁ھ) اور حافظ قاسم بن قطلوبغاؒ ۸۷۹؁ھ) کے حوالے سے یہ بھی گذر چکا ہے کہ امام ابن معینؒ نے امام محمدؒ سے روایت حدیث بھی کی ہے۔(دیکھئے ص : ۸۰)

لہٰذا امام ابن معینؒ کا آپ سے ’’الجامع الصغیر‘‘ لکھنا اور آپ سے حدیث کی روایت کرنا ہی سب سے بڑی دلیل ہے کہ آپ ان کے نزدیک ثقہ ہیں۔

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ۸۵۲؁ھ) ’’سعدان بن سعد اللیثی‘‘  کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:

’’روی عنہ یحییٰ بن معین، قلت: ویکفیہ روایۃ ابن معین عنہ‘‘                      

امام یحییٰ بن معینؒ نے ان سے حدیث کی روایت کی ہے، میں (حافظ ابن حجرؒ) کہتاہوں کہ ان کے (ثقہ ہونے) کے لئے امام ابن معینؒ کا ان سے روایت کرنا ہی کافی ہے۔(لسان المیزان:۳؍۱۹)

بنا بریں امام محمدؒ کے ثقہ ہونے کے لئے بھی اتنا کافی ہے کہ امام ابن معینؒ نے ان سے روایت کی ہے۔

 

 

(۴)    امام علی بن المدینیؒ  ۲۳۴؁ھ) :

امام موصوف بھی امام ابن معینؒ کی طرح حدیث اور فن جرح وتعدیل کے ارکان میں شمار ہوتے ہیں، نیز وہ امام بخاریؒ کے کبارِ اساتذہ میں سے ہیں۔

امام بخاریؒ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے سوائے امام ابن المدینیؒ کے اپنے آپ کو کسی کے سامنے کمتر نہیں سمجھا۔   (تذکرۃ الحفاظ:۲؍۱۴)

یہ عظیم المرتبت امام بھی امام محمدؒ کی توثیق کرنے والوں میں شامل ہیں، چنانچہ علامہ خطیب بغدادیؒ وغیرہ محدثین نے بہ سند اُن کے صاحبزادے عبداللہ بن علی بن المدینیؒ سے نقل کیا ہے کہ میں نے اپنے والد سے امام محمدؒ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا:

’’محمد بن الحسن صدوق‘‘

امام محمد بن حسنؒ صدوق ہیں۔(تاریخ بغداد:۲؍۱۷۸)[65]

 (۵)    امام احمد بن کامل القاضیؒ  ۳۵۰؁ھ) :

یہ امام محمد بن جریرطَبریؒ کے اصحاب میں سے ہیں،جبکہ ان کے تلامذہ میں امام دارقطنیؒ ، اور امام حاکمؒ وغیرہ جیسے نامور محدثین بھی ہیں، علامہ خطیب بغدادیؒ نے ان کو احکام شرعیہ، علوم قرآن ، نحو، شعر، تاریخ، اور تاریخ محدثین کے علماء میں سے قرار دیا ہے، اور ان کے بارے میں اپنے استاذ علامہ ابو الحسن بن زرقویہؒ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ:

’’لم تری عینای مثلہ‘‘

میری آنکھوں نے ان جیسا شخص نہیں دیکھا۔(تاریخ بغداد:۵؍۱۲۰)

حافظ ذہبیؒ ان کو  ’’مِن بحور العلم‘‘ (علم کے سمندر) کہتے ہیں، اور ان کے ترجمے کا آغاز:   الشیخ ، الامام، العلامۃ اور  الحافظ جیسے القاب سے کرتے ہیں۔   (سیر اعلام النبلاء:۱۵؍۵۴۴)

امام موصوف نے امام محمدؒ کی شخصیت اور آپ کے فضل وکمال کی بڑی تعریف کی ہے، چنانچہ امام ابو عبداللہ الصمیریؒ ۴۳۶؁ھ) نے اپنے استاذ امام محمد بن عمران المرزبانیؒ سے نقل کیاہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے امام احمد بن کامل القاضیؒ بیان کیا کہ:

امام ابو عبداللہ محمد بن حسنؒ صاحب ابی حنیفۃ (م۱۸۹؁ھ)  بنو شیبان قبیلہ کے مولیٰ تھے، آپ فضل وکمال کے ساتھ موصوف تھے، اور آپ حدیث اور فقہ کو کثرت سے روایت کرنے ، اور حلال و حرام کے علوم میں مختلف کتابیں تصنیف کرنے میں بہت بڑا مقام رکھتے تھے، اور آپ کے تلامذہ (امام شافعیؒ ، امام احمد بن حنبلؒ وغیرہ) آپ کی بڑی تعظیم کرتے تھے۔(اخبار ابی حنیفۃ  و اصحابہ : ص ۱۲۵)

اس بیان میں امام احمد بن کاملؒ (م۳۵۰؁ھ) نے امام محمدؒ کی بڑی تعریف کی ہے، او ر اس میں انہوں نے آپ کی شخصیت ، آپ کے محدثانہ و فقہی مقام، اورآپ کی تصانیف کی اس اعلیٰ پیرائے میں تعریف کی ہے کہ اتنے مختصر الفاظ میں اس سے بہتر اور جامع تعریف تقریباً محال ہے۔  [66]

 (۶)    امام ابوالحسن الدار قطنیؒ  (۳۸۵؁ھ) :

امام دار قطنیؒ (م۳۸۵؁ھ) جو بقول حافظ ذہبیؒ : الامام ، شیخ الاسلام، حافظ الزمان، اور الحافظ الشہیر تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۳؍۱۳۲)

امام موصوف باوجود علم حدیث میں بلند پایہ مقام رکھنے کے امام ابوحنیفہؒ اور آپ کے اصحاب کے بارے میں متعنت ہیں،لیکن اس سب کے باوجود انہوں نے امام محمدؒ کی بڑی توثیق و تعریف کی ہے، چنانچہ ان کے شاگرد امام ابو بکر برقانیؒ ۴۲۵؁ھ) نے ان سے نقل کی ہے کہ انہوں نے امام محمدؒ کے بارے میں فرمایا:

’’وعندی لا یستحق الترک‘‘

            امام محمدؒ میرے نزدیک  (روایت حدیث میں ) ترک کر دینے کے مستحق نہیں ہیں، یعنی آپ مقبول الروایت ہیں۔(سوالات البرقانی للدارقطنی:ص۱۳۱، تاریخ بغداد:۲؍۱۷۷)[67]

نیز امام دار قطنیؒ (م۳۸۵؁ھ) نے اپنی کتاب ’’غرائب حدیث مالک‘‘ میں آپ کو ثقہ حفاظ حدیث میں شمار کیا ہے، چنانچہ محدث جلیل امام زیلعیؒ ۷۶۲؁ھ) نے امام موصوف کی مذکورہ کتاب سے ایک حدیث کے متعلق ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ:

’’حدیث بہٖ عشرون نفرا من الثقات الحفاظ منھم محمدبن الحسن الشیبانی، ویحییٰ بن سعید القطان، وعبداللہ بن المبارک، وعبدالرحمن بن مھدی وابن وھب وغیرھم‘‘  

اس حدیث کو (امام مالک سے) بیس عدد ثقہ حفاظ حدیث نے بیان کیا ہے جن میں سے امام محمد بن حسن شیبانیؒ ، امام یحییٰ بن سعید القطانؒ ، امام عبداللہ بن مبارکؒ، امام عبدالرحمن بن مہدیؒ، اور امام ابن وہبؒ وغیرہ شامل ہیں۔  (نصب الرایۃ:ص۱؍۴۰۸،۴۰۹)[68]

اندازہ کریں کہ امام دار قطنیؒ (م۳۸۵؁ھ) جیسے محدث امام محمدؒ کو کس پایہ کے ثقہ حفاظ حدیث (امام عبداللہ بن مبارکؒ ، امام یحییٰ قطانؒ، اور امام ابن مہدیؒ وغیرہ) کے زُمرے میں شمار کر رہے ہیںِ اور پھر ان میں سے بھی آپ کو انہوں نے سرِ فہرست ذکر کر کے گویا یوں کہہ دیا ہے:

میری انتہائی نگارش یہی ہے

تیرے نا م سے ابتدا کر رہا ہوں

(۷)    امام ابو عبداللہ الحاکم نیشاپوریؒ  ۴۰۵؁ھ) :

امام حاکمؒ جو بقول حافظ ذہبیؒ :  الحافظ الکبیر، اور امام المحدثین تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۳؍۱۶۲)، انہوں نے اپنی مشہور تصنیف حدیث ’’المستدرک ‘‘ میں امام محمدؒ کی احادیث کی تخریج کی ہے، اور آپ سے حجت پکڑی ہے۔

نیز امام موصوف نے آپ کی سند حدیث کو ’’صحیح الاسناد‘‘ سے تعبیر کیا ہے ، چنانچہ وہ ایک حدیث جس کو انہوں امام ربیع سے ، انہوں نے امام شافعیؒ سے، انہوں نے امام محمدؒ سے ، انہوں نے امام ابویوسفؒ ، انہوں نے عبداللہ بن دینارؒ سے  اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کیا ہے ،  کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’’ھذا حدیث صحیح الاسناد‘‘ ۔(المستدرک علی الصحیحین :۴؍۳۷۹،ح۷۹۹۰)

معلوم ہوا کہ امام محمدؒ سمیت اس روایت کے سارے راوی امام حاکمؒ کے نزدیک ’’صحیح الاسناد‘‘ اور ثقہ ہیں۔  [69]

(۸)    امام ابو بکر احمدبن الحسین البیہقیؒ (م۴۵۸؁ھ) :

امام بیہقیؒ (م۴۵۸؁ھ) جو کہ مشہور صاحب التصانیف محدث ہیں، حافظ ذہبیؒ ان کے ترجمے کا آغاز :  الامام، الحافظ ، العلامہ، شیخ اور صاحب التصانیف کے القاب سے کرتے ہیں۔  (تذکرۃ الحفاظ:۴؍۲۱۹)

امام موصوف نے اپنی کتب حدیث میں امام محمدؒ سے کئی احادیث روایت کی ہیں، چنانچہ آپ کی ایک حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

’’وانما یصح عن الشعبی والروایۃ فیہ عن ابن عباس علی ما حکی محمد بن الحسن‘‘ 

اس مسئلہ میں امام شعبیؒ ، اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت صحیح ہے، جیسا کہ امام محمد بن حسنؒ نے بیان کیاہے۔ (السنن الکبری:۸؍۱۰۴)

اس بیان میں امام بیہقیؒ نے امام محمدؒ کی روایت کو صراحتاً صحیح کہا ہے۔                      

اور حافظ زیبر علی زئی غیر مقلدنے لکھا ہے کہ:

کسی سند کو صحیح کہنے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس سند کا ہر راوی صحیح کہنے والے کے نزدیک ثقہ یاصدوق ہے۔  (القول المتین:ص۲۱)

نیز انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ :

محدثین کا حدیث کو حسن یا صحیح قرار دینا، ان کی طرف سے اس حدیث کے ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے۔  (نصرالباری:ص۱۸)

لہٰذا امام بیہقیؒ جیسے محدث کا امام محمدبن حسن الشیبانیؒ کی روایت کو صحیح کہنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ آپؒ ان کے نزدیک ثقہ یا صدوق ہیں۔[70]

(۹)     امام یوسف بن عبداللہ المعروف بہ ابن عبدالبرؒ (م۴۶۳؁ھ) :

امام ابن عبدالبرؒ کی علمی شخصیت سے کون شخص ناواقف ہوگا؟  حافظ ذہبیؒ جیسے محدث ناقد ان کو شیخ الاسلام اور حافظ المغرب کے القاب سے یادکرتے ہیں، اور ان کے بارے میں تصریح کرتے ہیں کہ:

یہ حدیث کے حفظ اور اس کی پختگی میں اپنے تمام اہلِ زمانہ کے سردار تھے۔  (تذکرۃ الحفاظ :۳؍۲۱۷)

موصوف نے اپنی مایہ ناز تصنیف ’’الانتقاء فی فضائل الثلاثہ الائمۃ الفقہاء‘‘  جس میں انہوں نے امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور ان تینوں ائمہ کے مشہور تلامذہ کے فضائل ومناقب لکھے ہیں، اس میں انہوں نے امام اعظم ابوحنیفہؒ کے تلامذہ کے تعارف میں امام محمدؒ کا بھی بڑا شاندار ترجمہ لکھا ہے، اور اس ترجمہ میں انہوں نے امام شافعیؒ وغیرہ سے آپ کی توثیق نقل کرنے کے علاوہ خود بھی آپ کی ان الفاظ میں توثیق کی ہے :

’’کان فقیھاعالما کتب عن مالک کثیرا من حدیثہ وعن الثوری وغیرھما‘‘

امام محمدؒ فقیہ، اور (حدیث وغیرہ) کے عالم تھے، اور آپ نے امام مالکؒ اور امام سفیان ثوریؒ اور دیگر محدثین سے بکثرت احادیث لکھی تھیں۔  (الانتفاء:ص۱۷۴)

اسی طرح موصوف نے امام شافعیؒ کے ترجمے میں آپ کو ان کے مشائخ میں شمار کرتے  ہوئے بڑے عمدہ الفاظ میں آپ کا تعارف کر ایا ہے۔  (ایضاً ص:۶۹)

نیز امام موصوف نے امام محمدؒ کو حفاظ حدیث میں شمار کیا ہے، چنانچہ انہوں نے رفعِ یدین سے متعلق امام مالکؒ کی ایک حدیث کی بابت ان کے تلامذہ میں پائے جانے والے اختلاف کو ذکر کیا، اور ان دونوں قسم کے تلامذہ کے ناموں کو بھی گنایا، جن میں انہوں نے امام محمدؒ کے نام کو بھی ذکر کیا ، اورآخر میں ان سب کے متعلق تصریح کی ہے کہ:

’’لان جماعۃ حفاظا، رووا عنہ الوجھین جمیعاً‘‘

کہ (امام محمدؒ سمیت) حفاظ کی جماعت نے امام مالکؒ سے دونوں طرح سے یہ حدیث روایت کی ہے۔(التمہید:۴؍۱۴۰،۱۴۱)

 

(۱۰)   امام یحییٰ بن ابراہیم السلماسیؒ (م۵۵۰؁ھ) :

امام سلماسیؒ جو ایک جلیل القدر محدث اور امام ابن عساکرؒ اور امام ابن الجوزیؒ وغیرہ جیسے مشہور محدثین کے استاذ ہیں، انہوں نے ائمہ اربعہ کے مناقب میں ایک کتاب ’’منازل الائمۃ الاربعۃ‘‘  کے نام سے لکھی ہے ، اس میں وہ امام اعظم ابوحنیفہؒ کے تذکرہ میں امام محمدؒ کو آپ کے تلامذہ میں شمار کرنے کے بعد ان کے تعارف میں لکھتے ہیں:

’’وکتب الحدیث ، وکان فقیھا عالما شھما نبیلا‘‘ 

امام محمدؒ نے حدیث لکھی،اور آپ فقیہ،عالم سمجھدار،اور معزز شخص تھے۔(منازل الائمۃ الاربعۃ: ص ۸۸)[71]

(۱۱)    امام عبدالکریم شہرستانیؒ   ۵۴۸؁ھ) :

یہ علمِ کلام کے مشہور و معروف امام ہیں، علامہ ابن خلکانؒ ۶۸۱)، ان کو :  امام، مبرز، فقیہ، متکلم اور واعظ کے القاب سے یاد کرتے ہیں۔  (شذرات الذھب:۴؍۱۴۹)

مولانا ابراہیم سیالکوٹیؒ ، اور مولانا اسمٰعیل سلفیؒ وغیرہ غیر مقلدین نے بھی ان کی بڑی تعریف کی ہے۔  (تاریخ اہلِ حدیث:ص۸۷، تحریکِ آزادی فکر:ص۱۴۱)

امام موصوف نے امام محمدؒ اور آپ کے اساتذہ امام اعظم ابو حنیفہؒ اور امام ابویوسفؒ وغیرہ کو ان ائمہ اہل سنت میں شمار کیا ہے کہ جن پر لوگوں نے عقیدہ ارجاء کا بے بنیاد الزام لگایا ہے ، اور پھر انہوں نے اس الزام کی حقیقت کو اچھی طرح سے طشت ازبام کیا ہے، اور ان کے بارے میں یہ بھی تصریح کی ہے کہ:

’’وھولاء کلھم ائمۃ الحدیث‘‘  ۔

یہ سب کے سب حدیث کے امام ہیں۔ (الملل والنحل:۱؍۱۱۶)

(۱۲)   امام ابوسعد عبدالکریم السمعانیؒ (م۵۶۲؁ھ) :

امام سمعانیؒ حدیث، تاریخ،اور انساب وغیرہ علوم کے اجلہ ائمہ میں سے ہیں، حافظ ذہبیؒ نے ان کو :  الحافظ ، البارع ، العلامۃ،  تاج الاسلام ، اور صاحب التصانیف قرار دیا ہے۔ (تذکرۃ :۴؍۱۷۸۵)

موصوف نے اپنی مشہور کتاب ’’کتاب الانساب‘‘ میں مادہ  ’’الشیبانی‘‘ کے ذیل میں امام محمدؒ کا شاندار اور مبسوط ترجمہ لکھاہے، اس ترجمہ میں انہوں نے خود بھی آپ کی تعریف کی ہے، اور دیگر متعدد ائمہ سے بھی آپ کے بارے میں توثیقی و توصیفی اقوال نقل کئے ہیں۔

اسی طر ح انہوں نے مادہ ’’الشہید‘‘ کے ذیل میں امام ابوالفضل الحاکم الحنفیؒ کے ترجمہ میں آپ کو ’’الامام الربانی‘‘ قرار دیا ہے، چنانچہ امام حاکمؒ کی کتاب ’’مختصر الکافی‘‘ کے تعارف میں لکھتے ہیں:

اختصر کتاب ’’الکافی‘‘ الذی صنفہ الامام الربانی محمد بن الحسن الشیبانی۔

انہوں نے ’’ کتاب الکافی‘‘ کا اختصار کیا، جس کو امام ربانی محمد بن حسن الشیبانیؒ نے تصنیف کیا تھا۔  (کتاب الانساب:۳؍۱۶۶،۱۶۷)

’’ربانی‘‘ محدثین کے ہاں اُس شخص کو کہا جاتا ہے،جو وسیع العلم ،اور دیانت دار ہو، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ۸۵۲؁ھ) ’’الربانی‘‘کی تعریف میں لکھتے ہیں:

’’وینسب ھذہ النسبۃ من یوصف بسعۃ العلم والدیانۃ‘‘

اس نسبت کے ساتھ وہ آدمی منسوب ہوتا ہے جو وسعت علم اور دیانت داری کے ساتھ موصوف ہو۔ (تبصیر المنتبہ:۲؍۶۲۲)

اس سے واضح ہوگیا کہ امام سمعانیؒ کے نزدیک امام محمدؒ وسعت علم اور دیانت داری کے امام ہیں، اور یہ اعلیٰ درجہ کی توثیق ہے۔

(۱۳)   امام علی بن انجب المعروف بہ ’’ابن الساعی‘‘  ۶۷۴؁ھ)  :

امام ابن الساعیؒ جو کہ بقول حافظ ذہبیؒ :  الشیخ، الامام، العلامۃ، الاخباری اور مؤرخ الزمان تھے، (سیراعلام النبلاء: ۲۴؍۲۹۳)  نے بھی امام محمدؒ کی توثیق کی ہے، چنانچہ وہ آپ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں: امام عالم ، کبیر القدر، شائع الذکر۔  (الدر الثمین فی اسماء المصنفین۱۵۹)

(۱۴)   امام محمد بن احمد بن عبدالہادی المقدسیؒ  ۷۴۴؁ھ) :

یہ امام ابن عبدالہادی سے مشہور ہیں،اور ان کا شمار حدیث اور فن جرح و تعدیل کے جلیل القدر ائمہ میں ہوتا ہے ، حافظ ابن کثیرؒ نے ان کا تعارف :  ’’الشیخ ، الامام، العالم، العلامۃ، الناقد، اور  البارع‘‘ جیسے عظیم القاب سے کرایا ہے۔  (البدایہ والنہایہ:۹؍۴۶۵)

انہوں نے ائمہ اربعہ (امام اعظم ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، اور امام احمدؒ) کے مناقب میں ایک شاندار کتاب ’’مناقب الائمۃ الاربعۃ‘‘ کے نام سے لکھی ہے، اس کتاب میں انہوں نے امام اعظمؒ کے تلامذہ کے بیان میں امام محمدؒ کا تعارف کر اتے ہوئے لکھا ہے:

’’والقاضی الامام العلامۃ فقیہ العراق ابو عبداللہ محمد بن الحسن الشیبانی احد شیوخ الامام الشافعی‘‘۔(مناقب الائمۃ الاربعۃ:ص۶۰) 

زبیر علی زئی غیرمقلد ایک راوی کے متعلق حافظ ذہبیؒ سے ’’الامام الفقیہ‘‘ کے الفاظ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

اس کا مقام صدوق کا مقام ہے۔   (الحدیث:ش۷، ص۱۳)

اب جس راوی کے متعلق صرف ’’الامام‘‘ اور ’’الفقیہ‘‘ کہاجائے ، اس کا مقام بقول علی زئی صدوق ہے، تو پھرامام محمدؒ کا مقام صدوق سےبھی بڑھ کر(یعنی آپ کو ثقہ)ہونا چاہئے، کیونکہ آپ کو امام ابن عبدالہادیؒ۷۴۴؁ھ) نے ’’الامام ‘‘ اور ’’فقیہ العراق ‘‘کہنے کے ساتھ ساتھ ’’العلامہ‘‘ بھی کہا ہے۔

(۱۵)   امام جمال الدین عبداللہ بن یوسف زیلعیؒ (م۷۶۲؁ھ) :

امام زیلعیؒ ایک متبحر اور بالاتفاق ثقہ محدث ہیں، انہوں نے کتاب الآثار بروایت امام محمد بن حسنؒ کے ایک اثر کے بارے میں لکھا ہے:

’’اثر جید‘‘

کہ اس اثر کی سند جید ہے۔ (نصب الرایہ:۳؍۲۴۰)

جب کہ خود علی زئی کے نزدیک جس راوی کی سند کو جید کہا جائے وہ اس کے ثقہ ہونے کی دلیل ہے۔   (الحدیث:۴۷؍۱۹)

(۱۶)   امام ابن حزم ظاہریؒ (م۴۵۶؁ھ) :

امام ابن حزمؒ فقہ ظاہر ی کے امام اور مشہور عالم ہیں، غیر مقلدین کے ہاں یہ بڑے مستند سمجھے جاتے ہیں، اور وہ امام محمدؒ کی روایت پر اعتماد کرتے ہیں، چنانچہ ایک مسئلہ کی تحقیق میں انہوں نے امام ابوحنیفہؒ کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’والمحفوظ عن ابی حنیفۃ ھو ما ذکرہ محمد بن الحسن فی الجامع الصغیر‘‘ 

امام ابوحنیفہؒ سے محفوظ روایت وہ ہے جو امام محمدؒ نے ’’الجامع الصغیر‘‘ میں آپ سے نقل کی ہے۔ (المحلیٰ:ص۸؍۱۲۴)

اور خود زبیر علی زئی نے تصریح کی ہے کہ محدثین کا کسی راوی کی روایت کو محفوظ قرار دینا ان کی طرف سے اس راوی کی توثیق کی دلیل ہے۔  (القول المتین ۲۶)

(۱۷)   امام شمس الدین محمدبن احمد الذہبیؒ  ۷۴۸؁ھ) :

امام ذہبیؒ تمام علوم حدیث خصوصاً فن جرح وتعدیل کے بلندمرتبت سپوت ہیں،مولانا عبدالرحمن مبارکپوریؒ ۱۳۵۲؁ھ) غیر مقلد نے امام موصوف کا تعارف کراتے ہوئے کہا ہے کہ :

’’ھو من استقراء التام فی نقد الرجال‘‘ 

یعنی حافظ ذہبیؒ ان لوگوں میں سے ہیں جو رجال (راویان حدیث) کے پرکھنے میں کامل استقراء والے ہیں۔  (تحقیق الکلام:۲؍۱۴۳)

امام موصوف نے اپنی کتب رجال میں مختلف الفاظ  میں امام محمدؒ کے فقہی اور محدثانہ مقام کی زبردست تعریف کی ہے، چنانچہ ماقبل گزر چکا ہے کہ امام ذہبیؒ نے آپ کو فقیہ العصر ، فقیہ العراق، رأس فی الفقہ،  (فقہ میں سردار )اور امام ابویوسفؒ کے بعد عراق کے سب سے بڑے فقیہ قرار دیا ہے۔(دیکھئے ص:۴۹،۹۷)

نیز یہ بھی گذرا کہ انہوں نے آپ کو دنیا کے ذہین ترین لوگوں میں شمار کیا ہے، اور آپ کا محدث ہونا تسلیم کرتے ہوئے آپ کو محدثین کے طبقات پر مشتمل اپنی کتاب ’’المعین فی طبقات المحدثین‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ (دیکھئے ص :۱۰۱ )

 اور دوسری جگہ آپ کے بارے میں یہ تصریح  کہ ہے کہ آپ نے بکثر احادیث سن رکھی تھی۔ (دیکھئے ص : ۱۰۱)

اسی طرح امام ذہبیؒ نے امام ابویوسفؒ کے مناقب میں جہاں ان کے تلامذہ میں امام یحییٰ بن معینؒ، امام احمد بن حنبلؒ ، امام علی بن الجعدؒ وغیرہ جیسے یگانہ روزگار محدثین کو شمار کیا ہے، وہاں آپ کو بھی ان کے تلامذہ میں شمار کرتے ہوئے آپ کے متعلق یہ الفاظ لکھے ہیں کہ:

’’واجل اصحابہ محمد بن الحسن‘‘

امام ابویوسفؒ کے تلامذہ میں سب سے زیادہ جلیل القدر امام محمد بن حسنؒ ہیں۔ (دیکھئے ص :۴۹ )

یہ سب امام ذہبیؒ کی وہ تصریحات ہیں ، جن کو ہم مختلف عنوانات کے ذیل میں ذکر کر آئے ہیں، ان تصریحات کے علاوہ بھی امام ذہبیؒ نے اپنے متعدد الفاظ میں امام محمدؒ کی توثیق و توصیف کی ہے۔

مثلاً لکھتے ہیں:

محمد بن الحسن بن فرقد، العلامۃ ، فقیہ العراق۔  (سیر اعلام النبلاء:۹؍۱۳۴)

اسی طرح انہوں نے آپ کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ:

’’وکان مع تبحرہ فی الفقہ یضرب بذکائہ المثل‘‘

آپ فقہ میں تبحر رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی ذکاوت (ذہانت) میں بھی ضرب المثل تھے۔(ایضاً) 

نیز ذہبیؒ ارقام فرماتے ہیں:

’’ ونال من الجاه والحشمة مالا مزيد عليه ‘‘ 

امام محمدؒ نے وہ عزت اور شان وشوکت پائی ہے کہ اس سے زیادہ ناممکن ہے۔ (مناقب:ص۸۰)

ذہبیؒ نے آپ کے بارے میں یہ تصریح بھی کی ہے کہ آپ :  الفقیہ، العلامہ، مفتی العرقیین،اور احد الاعلام تھے۔ (تاریخ الاسلام: ۴؍۹۵۴،۹۵۵)

اسی طرح انہوں نے آپ کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ آپ :  امام اور مجتہد تھے، اور آپ کا شمار انتہائی ذہین اور فصیح لوگوں میں ہوتا ہے۔  (ایضاً)، اور وہ آپ کے متعلق یہ بھی لکھتے ہیں  کہ :

’’وکان رحمہ اللہ آیۃ فی الذکاء ، ذاعقل تام، وسودد، وکثرۃ تلاوۃ القرآن‘‘  

امام محمدؒ ، دانائی  میں ایک نشانی تھے، اور آپ انتہائی عقل مند، سردار، قرآن مجید کی تلاوت کثر ت سے کر نے والے تھے۔ (ایضاً)

امام موصوف نے آپ کے بارے میں یہ بھی تصریح کی ہے کہ :

’’یروی عن مالک بن انس وغیرہ، وکان من بحورالعلم والفقہ قویا فی مالک‘‘ 

امام محمدؒنے امام مالک بن انسؒ اور دیگر محدثین سے روایت حدیث کی ہے، اور آپ علم (حدیث وغیرہ) اور فقہ کے سمندر تھے، اور امام مالکؒ سے روایت کرنے میں قوی (مضبوط) تھے۔ (لسان المیزان:۵؍۱۲۷،۱۲۸)

امام ذہبیؒ نے اپنے اس بیان میں امام محمدؒ کو علم (جس میں علمِ حدیث بھی شامل ہے) اور فقہ (یعنی فقاہت حدیث) کے سمندر قرار دے رہے ہیں، جو کہ آپ کی ایک بہت بڑی توثیق ہے، اس کے ساتھ امام موصوف نے یہ بھی تصریح کردی ہے کہ آپ نے امام مالکؒ سے جو احادیث روایت کی ہیں اس میں آپ قوی ہیں، اب جب کہ امام محمدؒ ، امام مالکؒ سے روایت کرنے میں قوی ہیں کہ جن کے ساتھ آپ کا تعلق صرف تلمذ کا ہی رہا ہے ، تو اس سے آپ کا امام اعظم ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسفؒ سے روایت کرنے میں قوی ہونا بطریقِ اولیٰ ثابت ہوگیا، کیونکہ ان دونوں سے آپ کا تعلق تلمذ ہی کانہیں تھا، بلکہ آپ نے ان دونوں کے علوم کی نشرو اشاعت میں اپنی پوری زندگی صرف کی ہے۔[72]

علاوہ ازیں حافظ ذہبیؒ نے آپ کے مناقب وفضائل میں مستقل ایک جزء لکھا ہے، اس میں انہوں نے بسط کے ساتھ آپ کے فضائل و مناقب بیان کئے ہیں، اسی طرح امام ذہبیؒ نے امام اعظم ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسفؒ کے مناقب میں بھی علیحدہ علیحدہ جزء لکھے ہیں، اور یہ تینوں اجزاء ’’مناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ ابی یوسف ومحمد بن الحسن‘‘ کے نام سے مستقل ایک رسالہ کی صورت میں یکجا ہیں، یہ رسالہ حضرت مولانا ابوالوفاء افغانیؒ کے زیر اہتمام اور محقق العصر امام محمد زاہد الکوثریؒ کے تحقیقی حاشیے کے ساتھ مطبوعہ ہے، اور قابلِ دید ہے۔  [73]

 (۱۸)   امام جمال الدین ابن تغری بردیؒ  ۸۷۴؁ھ) :

امام موصوف ایک جلیل المرتبت مؤرخ اور ’’النجوم الزاھرۃ‘‘ وغیرہ بلند پایہ کتب کے مصنف  ہیں۔ (ان کے حالات کیلئے دیکھئے: شذرات الذھب:۷؍۳۱۷) انہوں نے بھی امام محمدؒ کی بڑے عمدہ الفاظ میں توثیق کی ہے، چنانچہ موصوف نے آپ کے بارے میں : الفقیہ، العلامہ، شیخ الاسلام، احدالعلماء الاعلام، اور مفتی العراقیین، کہہ کر آپ کے ترجمہ کا آغاز کیاہے، نیز انہوں نے آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ:

’’وکان اماما فقیھا محدثا مجتھدا ذکیا، انتھت الیہ ریاسۃ العلم فی زمانہ بعد موت ابی یوسف‘‘ 

امام محمدؒ ، امام ، فقیہ، محدث، مجتہد اور ذکی تھے، امام ابویوسفؒ کی وفات کے بعد اس زمانے میں علم کی ریاست امام محمدؒ پر ختم تھی۔(النجوم الزاھرۃ:۲؍۱۶۴)

(۱۹)   امام نورالدین ہیثمیؒ  ۸۰۷؁ھ) :

امام ہیثمیؒ (م۸۰۷؁ھ) ایک بلند پایہ محدث اور حافظ ابن حجر عسقلانیؒ وغیرہ جیسے نامور حفاظ حدیث کے استاذ ہیں۔

حافظ ہیثمیؒ (م۸۰۷؁ھ)  امام محمد ؒ کی ایک  روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’’رواہ الطبرانی فی الاوسط والکبیر، واسناد الکبیر حسن‘‘

اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ اور ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے،اور المعجم الکبیر کی سند حسن ہے۔ (مجمع الزوائد:۶؍۱۴۲)

امام ہیثمیؒ ’’المعجم الکبیر‘‘ کی جس حدیث کی سند کو حسن قرار دے رہے ہیں، اس سند کے ایک راوی امام محمدبن حسنؒ بھی ہیں۔  (المعجم الکبیر:۷؍۱۰۱)

معلوم ہوا کہ امام ہیثمیؒ کے نزدیک امام محمدؒ حسن الحدیث اور صدوق ہیں۔  [74]

 (۲۰)  امام صلاح الدین صفدیؒ  ۷۶۴؁ھ) :

امام صفدیؒ ایک نامور محدث ہیں، حافظ ذہبیؒ جو اُن کے استاذ ہیں، وہ بھی ان کے محدثانہ مقام کی بڑی تعریف کرتے ہیں۔  (دیکھئے: معجم محدثی الذھبی: ص۶۷)

امام موصوف نے اپنی تاریخ میں امام محمدؒ کا بڑا شاندار ترجمہ لکھا ہے ، جس میں انہوں نے آپ کے علمی مقام اور آپ کی کتب کی بڑی تعریف کی ہے، مثلاً وہ آپ کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’وکان امام مجتھدا من الاذکیاء الفصحاء‘‘ 

امام محمدؒ ، امام اور مجتہد تھے،اور آپ کا شمار ذہین اورفصیح لوگوں میں ہوتا ہے۔ (الوافی بالوفیات : ۲؍۲۴۷)

(۲۱)   امام محي الدین عبدالقادر القرشیؒ  ۷۷۵؁ھ) :

امام قرشیؒ ایک پختہ کار حافظ الحدیث اور نامور حنفی فقیہ ہیں، ان کے علمی فخر کے لئے یہی کافی ہے کہ حافظ زین الدین عراقیؒ (استاذ کبیر، حافظ ابن حجرؒ) وغیرہ جیسے کبارِ حفاظ حدیث ان کے تلامذہ حدیث میں سے ہیں۔

حافظ ابو الفضل ابن فہد مکیؒ ان کو حفاظ حدیث میں شمار کرتے ہوئے ان کا تعارف:  الامام ، العلامۃ، اور الحافظ کے القاب سے شروع کرتے ہیں، اور ان کے بارے میں تصریح کرتے ہیں:

’’وسمع منہ الحفاظ والفضلاء ‘‘۔

امام قرشیؒ سے حفاظِ حدیث اور فضلاء محدثین نے سماعِ حدیث کیاہے۔  (ذیول تذکرۃ الحفاظ: ۵؍۱۰۵)

امام موصوف نے ’’طبقاتِ حنیفہ‘‘ میں امام محمدؒ کا مبسوط و شاندار ترجمہ لکھا ہے، جس کا آغاز ان لفظوں میں ہے: الامام صاحب الامام……۔

پھر اس کے ذیل میں متعدد ائمہ اجلہ سے آپ کی توثیق و توصیف نقل کی ہے، اورخود بھی آپ کے علم کی بڑی تعریف کی ہے۔  (دیکھئے :الجواھر المضیہ:۲؍۴۲،۴۴)

 

 

(۲۲)  امام شمس الدین محمدبن عبدالرحیم مصری المعروف بہ ’’ابن الفرات‘‘ (م۸۰۷؁ھ) :

امام ابن الفراتؒ ایک بلند پایہ محدث اور جلیل القدر مؤرخ ہیں، علامہ ابن العماد حنبلیؒ ۱۰۸۹؁ھ) نے ان کی بڑی تعریف کی ہے، اور ان کی تصنیف کردہ تاریخ کو کثیر الفائدہ قرار دیا ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے اپنی تاریخ ’’انباء العمر‘‘ میں زیادہ تر مواد امام ابن الفرات کی تاریخ سے ہی لیا ہے، اور حافظ موصوف نے تصریح کی ہے کہ یہ ایک بہت بڑی تاریخ ہے۔  (کشف الظنون:۱؍۲۷۹)

یہ عظیم الصفات بزرگ بھی امام محمد بن حسنؒ کی زبردست توثیق کرتے ہیں، چنانچہ انہوں نے اپنی تاریخ میں امام عالی شان کا مبسوط اور شاندار ترجمہ لکھا ہے، جس کا آغاز ان الفاظ سے کیا ہے:

’’محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانی الامام الربانی صاحب ابی حنیفۃ…‘‘

اور آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ :

’’وطلب الحدیث وسمع سماعا کثیراً وجالس اباحنیفۃ وسمع منہ ونظر فی الرأی وغلب علیہ وعرف بہٖ…‘‘

آپ نے حدیث حاصل کی ، اور کثرت سے اس کا سماع کیا، نیز آپ ابوحنیفہؒ کی مجلس علمی میں بیٹھے اور ان سے حدیث کی سماعت کی اور رائے (فقہ) میں مہارت حاصل کی، اور یہ فقاہت آپ پر غالب آئی ، اور آپ اسی کے ساتھ مشہور ہوئے۔

پھر انہوں نے تفصیل کے ساتھ امام شافعیؒ اور امام ابوعبیدؒ وغیرہ ائمہ سے آپ کی توثیق وتوصیف نقل کی ہے، جس کا خلاصہ علامہ ابن العمادؒ نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے۔  (شذرات الذھب: ۱؍۳۲۲؍۳۲۳)

 

(۲۳)  امام محمد بن ابوبکر المعروف بابن ناصرالدینؒ (م۸۴۰؁ھ) :

امام ابن ناصرالدینؒ دمشق کے ایک جلیل القدر محدث ، اور بلند مرتبت حافظ الحدیث ہیں، علامہ ابن العمادحنبلیؒ ۱۰۸۹؁ھ) نے ان کو ’’حافظ الشام بلا منازع‘‘ قرار دیا ہے۔  (شذرات الذھب:۷؍۲۴۴)

موصوف کثیر التصانیف ہیں، اور ان کی ایک مشہور کتاب ’’اتحاف السالک برواۃ المؤطا عن الامام مالک‘‘ ہے، جس میں انہوں نے مؤطا کے مشہور راویوں کے حالات لکھے ہیں۔

اس کتاب میں انہوں نے امام محمد بن حسنؒ (جو کہ مؤطا کے ایک راوی ہیں) کا بھی ترجمہ لکھا ہے، جس میں انہوں نے آپ کے علم ، آپ کی فقاہت اور ذکاوت ، اور آپ کی تصانیف کی بڑی تعریف کی ہے، اور آپ کی تعریف میں دیگر اہلِ علم کے اقوال بھی نقل کئے ہیں۔  (اتحاف السالک:ص۱۷۶  تا۱۸۰)

(۲۴)  امام ابن حجر العسقلانیؒ  ۸۵۲؁ھ) :

امام ابن حجرؒ جو علم حدیث اور فن اسماء الرجال کی انتہائی مشہور شخصیت ہیں، حافظ سیوطیؒ نے ان کا تذکرہ :  شیخ الاسلام، امام الحفاظ فی زمانہ، حافظ الدیار المصریہ، اور حافظ الدنیا کے القاب سے شروع کیا ہے۔  (طبقات الحفاظ: ص۵۵۲)

امام موصوف کے ہاں امام محمدؒ کے محدثانہ مقام کی عظمت اور رفعت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ انہوں نے امام محمدؒ کے روایت کر دہ نسخہ  ’’کتاب الآثار‘‘  (تصنیف امام اعظم ابوحنیفہؒ) کے رُوات پر مستقل ایک کتاب لکھی ہے، جس کا نام ’’الایثار بمعرفۃ رُواۃ الآثار‘‘ ہے، یہ کتاب علیحدہ بھی دستیاب ہے،  اور کتاب الآثار کے ساتھ بھی چھپ چکی ہے۔

امام موصوف نے اپنی اس کتاب کی وجہ تالیف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

فان بعض الاخوان التمس منی الکلام علیٰ رواۃ ’’کتاب الآثار‘‘ للامام ابی عبداللہ محمدبن الحسن الشیبانیِ التی رواھا عن الامام ابی حنیفۃ……

بعض بھائیوں نے مجھ سے التماس کیا کہ میں ’’کتاب الآثار‘‘ جس کو امام ابوعبداللہ محمدبن حسن ؒنے امام ابوحنیفہؒ سے روایت کیا ہے، کے رُوات پر کلام کروں…(الاثیار بمعرفۃ الآثار: ص۲۱۷)

اسی طرح انہوں نے اپنی دوسری کتاب ’’تعجیل المنفعۃ بزوائد رجال ائمۃ الاربعۃ‘‘ میں بھی اس نسخہ کے رُوات پر بحث کی ہے جیسا کہ خود انہوں نے اس کی تصریح کی ہے۔(تعجیل المنعفۃ۲۰)

نیز امام موصوف نے ’’الایثار‘‘ میں امام محمدؒ کا شاندار ترجمہ لکھا ہے جس میں وہ آپ کے ذاتی اور طلب علمی کے حالات بیان کرنے کے بعد ارقام فرماتے ہیں:

’’وقال ابن المنذر:  سمعت المزنی یقول: سمعت الشافعی یقول: مارأیت سمینا اخف روحا من محمد بن الحسن، وما رأیت افصح منہ، وقال وغیرہ عن الشافعیؒ : حملت عن محمد بن الحسن حمل حمل العلم، قال عبداللہ بن علی بن المدینی عن ابیہ صدوق، وقال الدارقطنی: لا یترک، وتکلم فیہ یحیی بن معین، فیما حکاہ معاویۃ بن صالح، وعظمہ احمد والشافعی قبلہ، وکان من افراد الدھر فی الذکاء، وعظمت منزلتہ عند الرشید، ولما مات وھو معہ وکذالک الکسائی بالری، قال: دفنت الفقہ والعربیۃ بالری‘‘

امام ابن المنذرؒ فرماتے ہیں کہ میں نے امام مُزنیؒ سے سنا ہے کہ میں نے امام شافعیؒ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے کوئی جسیم شخص امام محمدبن حسنؒ سے زیادہ نرم مزاج نہیں دیکھا، اور نہ میں نے آپ سے زیادہ کوئی فصیح شخص دیکھا ہے، امام مزنیؒ کے علاوہ امام شافعیؒ کے دیگر تلامذہ نے ان سے نقل کیا ہے کہ میں نے امام محمدؒ سے ایک اونٹ کے بوجھ کے برابر علم حاصل کیا ہے، عبداللہ بن علی بن مدینیؒ اپنے  والد (امام علی بن مدینیؒ ) سے نقل کرتے ہیں کہ امام محمدؒ (روایت حدیث میں) صدوق (نہایت راست باز) ہیں، امام دارقطنیؒ نے فرمایا کہ: آپ متروک نہیں ہیں، امام یحییٰ بن معینؒ نے اگر چہ آپ میں کلام کیا ہے، جیسا کہ معاویہ بن صالح نے ان سے روایت کیا ہے، لیکن امام احمدبن حنبلؒ او رامام شافعیؒ ، امام ابن معینؒ ،سے پہلے امام محمدؒ کی عظمت کو تسلیم کر چکے ہیں، (لہٰذا ابن معینؒ کی جرح مردود ہے) ۔ اور آپ ذکاوت میں زمانے کے چند گنے چنے افراد میں سے تھے، اور (خلیفہ) ہارون الرشید کے ہاں آپ کی بہت زیادہ قدرو منزلت تھی، جب آپ کی وفات ہوئی اس وقت خلیفہ آپ کے ساتھ تھے، اسی طرح کسائیؒ نحوی بھی آپ کے ساتھ تھے، (اور انہوں نے بھی اسی دن انتقال فرمایا) تو خلیفہ نے کہا: میں نے فقہ اور لغت عربیہ کو ’’رے‘‘ میں دفن کر دیا ہے۔ (الایثار مع کتا ب الآثار:ص۲۳۳،۲۳۴)

علاوہ ازیں امام ابن حجرؒ نے آپ کی نقل پر اعتماد کرتے ہوئے ’’کتاب الآثار‘‘ (جس کو امام اعظم ابوحنیفہؒ سے روایت کرنے والوں میں سے آپ بھی ہیں) کو بالجزم امام ابوحنیفہؒ کی تصنیف قرار دیا ہے۔

چنانچہ امام موصوف لکھتے ہیں:

’’والموجود من حدیث ابی حنیفۃ مفردا، انما ھو کتاب الآثار التی رواھا محمد بن الحسن عنہ‘‘ 

امام ابوحنیفہؒ کی حدیث میں مستقل تصنیف ’’کتاب الآثار‘‘ ہے،جس کو امام محمد بن حسنؒ نے ان سے روایت کیا ہے۔ (تعجیل المنفعہ:ص۱۹)

اور حافظ زبیر علی زئی غیر مقلد نے یہ اُصول بیان کیا ہے کہ محدثین کا کسی کتاب کو بالجزم اس کے مصنف کی تصنیف قرار دینا اس کتاب کے ہر راوی کی توثیق کو مستلزم ہے، چنانچہ علی زئی محمود بن اسحق الخزاعیؒ  (جس نے امام بخاریؒ سے ’’جزء رفع الیدین‘‘ اور ’’جزء قراء ۃ خلف الامام‘‘ روایت کرنے کا دعویٰ کیا ہے، اور خود اس کی توثیق کسی محدث سے صراحتاً ثابت نہیں ہے) کے بارے میں لکھتے ہیں:

ائمہ کا جزء رفع الیدین کو بطور جزم بخاری کی تصنیف قرار دینا اس کی توثیق ہے۔   (نورالعینین:ص۵۳، حاشیہ)

علی زئی کے اس اصول کے پیشِ نظر بھی امام محمدؒ کا امام ابن حجرؒ کے نزدیک ثقہ ہونا ثابت ہورہاہے، کیونکہ آپ کے روایت کردہ نسخہ ’’کتاب الآثار‘‘ کو امام ابن حجرؒ نے بالجزم امام ابوحنیفہؒ کی تصنیف قرار دیا ہے۔ والحمدللہ علیٰ ذلک۔

علاوہ ازیں صاحبِ ہدایہ امام،فقیہ ابو الحسن مرغینانیؒ (م۵۹۳؁ھ) کے قول’’  وقد صح ان النبیﷺ عاد یھودیا  بجوارہ‘‘ کہ  یہ حدیث صحیح ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے ایک پڑوسی یہودی کی عیادت فرمائی تھی) کے ذیل میں حافظ ابن حجرؒ نے بطورِ دلیل امام محمدؒ کی کتاب الآثار سے یہ حدیث نقل کی ہے۔  (الدرایہ:۲؍۲۳۸)

اس سے معلوم ہوا کہ حافظ موصوف کے نزدیک امام محمدؒ کی روایت صحیح ہے، اسی طرح حافظ موصوف نے آپ کی ایک روایت کو ’’محفوظ‘‘ اور ایک روایت کو صواب (درست) قرار دیا ہے۔ (ایضاً :۲؍۲۰۰،۲۳۶)

نیز حافظ ابن حجرؒ نے اپنی شرح بخاری ’’فتح الباری ‘‘ میں امام محمدؒ کی کتب (کتاب الآثار اور مؤطا وغیرہ) سے متعدد احادیث نقل کی ہیں، اور ان کی کوئی جرح نہیں کی، جیساکہ امام محمدؒ کی تصانیف کے تعارف میں آرہا ہے، اور خود زبیر علی زئی نے لکھا ہے کہ حافظ ابن حجرؒ ’’فتح الباری‘‘ میں جس حدیث کو نقل کر کے اس پر سکوت کریں اور جرح نہ کریں وہ ان کے نزدیک کم از کم حسن ضرور ہوتی ہے۔  (نورالعینین:ص۱۷۱)

لہٰذا حافظ ابن حجرؒ کا ’’فتح الباری‘‘ میں امام محمدؒ کی احادیث پر سکوت کرنا بھی ایک دلیل ہے کہ آپ ان کے نزدیک ثقہ اور حسن الحدیث ہیں۔

(۲۵)  امام محمد بن یوسف صالحی دمشقی  ۹۴۳؁ھ) :

امام صالحیؒ جو کہ امام سیوطیؒ کے مایہ ناز شاگرد ، جلیل القدر محدث، بلندپایہ مؤرخ اور ’’سیرت الشامیہ‘‘ وغیرہ کتب نافعہ کے مصنف ہیں، قطب ربانی امام شعرانیؒ ۹۷۳؁ھ)

ان کا تعارف درج ذیل القاب سے کراتے ہیں:

’’الاخ الصالح العالم الزاھد، الشیخ ، المتمسک بالسنۃ المحمدیہ ، مفننا فی العلوم‘‘۔  (شذرات الذھب:۸؍۲۵۰)

انہوں نے حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کے مناقب میں ایک بڑی محققانہ کتاب بنام  ’’عقود الجمان فی سیرۃ الامام الاعظم ابی حنیفۃ النعمان‘‘ لکھی ہے، اس کتاب میں وہ ایک مسئلہ کی تحقیق میں ارقام فرماتے ہیں:

’’ان الثقاۃ الائمۃ من اصحاب الامام ابی حنیفۃ لم ینقلوا عنہ شیئا من ذلک کالامام ابی یوسف ، والامام محمد بن الحسن، فیما جمعاہ من حدیثہ‘‘ 

بے شک امام ابوحنیفہؒ کے تلامذہ میں سے ثقہ ائمہ، جیسا کہ امام ابویوسفؒ اور امام محمد بن حسنؒ ہیں، انہوں نے آپ کی احادیث کے جو مجموعے تیار کئے ہیں ، ان میں انہوں نے آپ سے ایسی کوئی بات نقل نہیں کی۔ (عقود الجمان:ص۶۲)

اس بیان میں خاتمۃ الحفاظ امام صالحیؒ نے امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کو صراحتاً ائمہ ثقات میں شمار کیا ہے ، جو کہ امام موصوف کی طرف سے ان دونوں حضرات کی زبردست توثیق ہے۔

 

 

(۲۶)  امام شمس الدین محمد بن عبدالرحمن ابن الغزی شافعیؒ   ۱۱۶۷) :

امام ابن الغزیؒ ایک بلند مرتبت محدث ہیں، امام محمد بن خلیل مرادیؒ (م۱۲۰۵؁ھ) نے ان کے علم اور محدثانہ مقام کی بہت تعریف کی ہے۔  (دیکھئے : سلک الدرر:۴؍۵۴)

امام موصوف کے نزدیک بھی امام محمدؒ ثقہ ہیں، چنانچہ وہ آپ کے ترجمہ کا آغاز :   الامام ، الحبر، البحر، المجتہد، الحنفی، صاحب المؤلفات الکثیرۃ وغیرہ جیسے عظیم القاب سے کرتے ہیں۔  (دیوان الاسلام:۴؍۱۳۶)

علمائے غیر مقلدین سے امام محمدؒ کی توثیق :

ائمہ حدیث اور اربابِ جرح وتعدیل کے جمِ غفیر کے علاوہ خود غیرمقلدین کے اکابرین نے بھی امام محمد بن حسنؒ کے محدثانہ مقام کی توثیق وتعریف کی ہے۔

ذیل میں ان میں سے چند نامور اہلِ علم کے اقوال ملاحظہ کریں۔

(۱)       شیخ عبدالرحمن الیمانیؒ المعلمیؒ   ۱۳۸۶؁ھ) جن کو علی زئی نے ’’ذہبی عصر حقا‘‘ قرار دیا ہے۔ (نورالعینین:ص۱۱۹) ارقام فرماتے ہیں:

’’وان محمدا کان مع مکانتہ من الفقہ والسنن والمنزلۃ من الدولۃ وکثرۃ الاتباع علی غایۃ من الانصاف فی البحث والنظر‘‘

امام محمدؒ کو فقہ اور سنت (حدیث) میں ایک مقام حاصل تھا، نیز آپ حکومت کے ہاں قدر ومنزلت اور بکثرت اپنے پیروکار بھی رکھتے تھے، لیکن اس سب کے باوجود بحث ونظر میں آپ انتہائی درجہ کے انصاف پسند تھے۔  (التنکیل۴۲۳)

نیز لکھتے ہیں؛

’’فاما محمد بن الحسن فھو اجل وافضل مما یتراء ی ھنا‘‘ 

امام محمدؒ کا انتہائی جلیل القدر اور افضل ہونا شک وشبہ سے بالا تر ہے۔(ایضا:۱؍۴۹۲)

(۲)       علامہ جمال الدین القاسمی الدمشقیؒ ۱۳۳۲؁ھ)امام ابویوسفؒ اور آپ کے بارے میں رقم طراز ہیں:

’’فقد لینھما اھل الحدیث، کما تری فی ’’میزان الاعتدال‘‘ ولعمری لم ینصفوھما، وھما البحران الزاخران، وآثارھما تشھد بسعۃ علمھما، وتبحرھما، بل بتقدمھما، علیٰ کثیر من الحفاظ، وناھیک ’’کتاب الخراج‘‘ لابی یوسف ومؤطا الامام محمدؒ ‘‘ 

امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کو (بعض ) محدثین نے کمزور قرار دیا ہے، جیسا کہ آپ نے ’’میزان الاعتدال‘‘ میں دیکھاہے ، میری عمر (عطا کرنے والے ) کی قسم ! ان محدثین نے ان دونوں اماموں کے ساتھ انصاف نہیں کیا، حالانکہ یہ دونوں علم کے موجزن سمندر ہیں، اور ان کے آثار (روایات) ان کی وسعت علم اور ان کے تبحر علمی پر گواہ ہیں، بلکہ اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ دونوں حضرات اکثر حفاظ حدیث پرفوقیت رکھتے ہیں، آپ کو (ان دونوں کے علمی مرتبے کو پہچاننے کے لئے) امام ابویوسفؒ کی ’’کتاب الخراج‘‘ اور امام محمدؒ کی ’’مؤطا‘‘  ہی کافی ہے۔(الجرح والتعدیل:ص۳۱، طبع مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت)

(۳)      عصرحاصر کےمشہور غیر مقلد عالم شیخ ناصرالدین البانیؒ (جوبقول علی زئی : محدث العصر اور امام المحدثین تھے، عبادات میں بدعات:ص۱۲۸)بھی امام محمدؒ کو ثقہ سمجھتے ہیں، چنانچہ موصوف نے امام محمدؒ کی روایت کردہ ایک حدیث کے متعلق لکھا ہے:

’’فھذا سند حسن ان شاء اللہ ‘‘

اس حدیث کی سند ان شاء اللہ حسن ہے۔(ارواء الغلیل:۷؍۳۳۶)

(۵)      نامور غیر مقلد نواب صدیق حسن خانؒ نے بھی اپنی کتاب ’’التاج المکلل‘‘ میں امام محمدؒ کے علمی مقام اور آپ کی تصانیف کی بڑی تعریف کی ہے۔ (دیکھئے: التاج المکلل: من جواھر مآثر الطراز الآخر والاول:ص۸۰)

واضح رہے کہ نواب صاحبؒ کی یہ کتاب علم حدیث میں مہارت رکھنے والے اہلِ علم کے تذکرے پر مشتمل ہے ، جیسا کہ خود انہوں نے اس کتاب کے مقدمہ میں تصریح کی ہے۔

(۶)       مولانامحمدابراہیم سیالکوٹیؒ ۱۳۷۵؁ھ)اپنی کتاب’’علمائے اسلام‘‘میں امام ابوحنیفہؒ کے تذکرے میں لکھتے ہیں:

آپ سے بہت لوگوں نے فیض علم حاصل کیا، اورآپ کے شاگردامامت کے بلند رتبوں تک پہنچے، چنانچہ ان میں سے امام ابویوسفؒ قاضی القضات، اور امام محمدؒ اور امام عبداللہ بن مبارکؒ اور امام زُفرؒ وغیرہم جلیل الشان امام  آپ کے علمی کمالات کے نمونے تھے۔  (دوماہی مجلہ ’’زمزم‘‘ غازیپور:ج۸ش۳ص۱۵)

(۷)      مولانا محمد اسمٰعیل سلفیؒ ۱۳۸۷؁ھ) سابق امیر جماعت اہل حدیث پاکستان نے امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کو امام بخاریؒ وغیرہ کبارِ ائمہ حدیث کے ساتھ شمار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

ائمہ حدیث بخاری، مسلم ، ابوداؤود، ترمذی، ابن خزیمہ، ابن جریز طبری، ابو عبدالرحمن اوزاعیؒ ، ابویوسف، محمد، یہ سب اہل حدیث کے مجتہد ہیں۔  (تحریک آزادی فکر:ص۴۹۰)

نیز مولانا موصوف لکھتے ہیں:

امام محمدؒ تو اکابر ائمہ سنت (میں سے) ہیں۔  (ایضا:ص۸۶)

(۸)      مولانا عطاء اللہ حنیفؒ غیر مقلد امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ  کوا ئمہ سلف میں شمار کرتے ہیں، اور یہ تصریح کرتے ہیں کہ:

یہ دونوں امام ابوحنیفہؒ کے قابل شاگرد تھے۔  (حاشیہ حیات امام ابوحنیفہ:ص۲۲۸)

زبیر علی زئی اور موجودہ بعض  اہل حدیث   کی ضد اور ہٹ دھرمی:

قارئین ! آپ نے تفصیل کے ساتھ ملاحظہ کر لیا کہ محدثین اور ارباب جرح وتعدیل کے ایک جم غفیر نے امام محمدؒ کے عظیم محدثانہ مقام کو سراہا ہے، اور ان حضرات نے بڑے پرزور الفاظ میں آپ کی ثقاہت اور آپ کے ’’صدوق فی الحدیث‘‘ ہونے پر گواہی دی ہے، اسی طرح خود غیر مقلدین کے اپنے اکابرین بھی علم حدیث میں آپ کی عظمت شان کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود حافظ زبیر علی زئی غیر مقلدانہ ضد اور ہٹ دھرمی پر اڑے ہوئے ہیں کہ:

کسی امام سے محمد بن الحسن مذکور کی توثیق صراحتاً ثابت نہیں ہے، امام ابن المدینی، امام شافعی اور دیگر علماء سے مروی ایک ایسی روایت بھی ثابت نہیں ہے، جس میں محمد بن الحسنؒ کو ثقہ یا صدوق لکھا گیا ہو۔ (الحدیث:ش۷، ص۱۹)

سچ ہے:

اگر آنکھیں ہیں بند تو پھردن بھی رات ہے

اس میں بھلا قصور ہے کیا آفتاب کا !!

 

 



[1] اس روایت کی سند کے تمام روات ثقہ یا صدوق ہیں۔فضائل ابی حنیفہ،ثقہ ،ثبت امام،حافظ ابن ابی العوام ؒ (م۳۳۵؁ھ) کی تصنیف ہے، جس کا اقرار  ائمہ محدثین کرچکے۔ (مجلہ الاجماع : ش۲: ص۵ )،   لہذا اس کا انکار   کرنا باطل و مردود ہے۔اور محمد بن عبد الرحمٰن بن بکر الطبری ؒ کی روایت کو حافظ ذہبیؒ نے حسن کہا ہے۔(ص: ۱۰۷)،  لہذا وہ بھی صدوق ہیں اور یہ روایت حسن ہے۔

 [2]  ثقہ،امام ابو القاسم، ابن ابی العوامؒ(م۳۳۵؁ھ) اس روایت  کو  یوں ذکر کرتے ہیں  : قال: سمعت أحمد بن محمد بن سلامة يقول: سمعت أحمد بن أبي عمران يقول: سمعت الطبري يقول: قال إسماعيل ابن حماد بن أبي حنيفة: كان محمد بن الحسن يبكر إلى مجالس الحديث، ونبكر نحن إلى أبي يوسف، فيجيء محمد وقد مضت المسائل، ونحن نتحدث فيعيد عليه أبو يوسف ما يمضي، فجاء يوماً ونحن نتحدث فسأله أبو يوسف عن مسألة مرت من المناسك فأجاب فيها بخلاف ما مضى، فقال له أبو يوسف: ليس هذا الجواب، فتنازعا فيها، فقال محمد لأبي يوسف: ليس هذا قوله إلى أن دعا بالكتاب، فإذا الجواب كما قال محمد بن الحسن، فقال أبو يوسف: هكذا يكون الحفظ۔(ص: ۳۵۹-۳۶۰)، 

یہ سند حسن ہے۔ امام طحاویؒ(م۳۲۱؁ھ)،احمد ابن ابی عمران مشہور ائمہ ثقات میں ہیں، محمد بن عبد الرحمٰن بن بکر الطبری ؒ کی توثیق گزرچکی،اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہؒ(م۲۱۲؁ھ) صدوق ہیں،ان  کی توثیق  مجلہ الاجماع : ش۱۲:ص۲۳ پر موجود ہے۔

[3] یہ روایت حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) نے ابن کاس النخعیؒ(م۳۲۴؁ھ)  کی کتاب  ’’تحفۃ السلطان فی مناقب النعمان‘‘ سے لی ہے۔ اور  یہ  روایت صحیح اور اس کے تمام روات  ثقہ ہیں۔اور اس روایت میں موجود ثقہ راوی ۱حمد بن محمد بن سفیان الکوفیؒ (م۲۹۷؁ھ) کے تفرد کی  وجہ سے حافظ ذہبیؒ  نے  اس  قول کو منکر کہا ہے۔ لہذا   یہ کلام اس  قول کے عدم حجت ہونے پر دلالت نہیں کرتا،تفصیل کے لئے دیکھئے ص :۱۲۸۔

[4] یہ روایت حسن ہے۔ دیکھئے (ص:۹۰)

[5] اس روایت کے تمام روات صدوق ہیں ۔لہذا  روایت حسن ہے۔ دیکھئے  (ص:۹۱)

[6] یہ روایت حسن ہے۔ دیکھئے (ص:۹۲)

[7] یہ روایت بھی  حسن ہے۔ دیکھئے  (ص:۹۴)

[8] یہ روایت حسن ہے۔ دیکھئے  (ص:۱۰۷)

[9] اس روایت کے تمام روات ثقہ ہیں۔(ص:۱۱۳)

[10] یہ روایت حسن ہے۔(ص:۱۱۱)

[11] یہ روایت بھی  متابعات کی وجہ سے حسن ہے۔(ص:۱۱۳)

[12] دیکھئے ص : ۱۱۳۔

[13] یہ روایت حسن ہے۔ دیکھئے  (ص:۱۱۱)

[14] یہ روایت حسن ہے۔ دیکھئے  (ص:۱۰۹)

[15] یہ روایت حسن ہے۔ دیکھئے  (ص:۱۱۰)

[16] ثقہ،حافظ ابن ابی العوامؒ(م۳۳۵؁ھ) اس کی سند یوں ذکر کرتے ہیں  : قال أبو جعفر: وقال أبو خازم في حديثه: قال بكر: قال ابن سماعة ۔۔۔۔(ص: ۳۵۶)، یہ سند حسن ہے اور اس کے تمام روات توثیق  ص :۳۹ پر موجود ہے۔

[17] ثبت ،حافظ ابن ابی العوامؒ(م۳۳۵؁ھ) اس روایت  کو  یوں ذکر کرتے ہیں  : ثنا أحمد بن محمد بن سلامة قال: كتب إلي ابن ابی ثور ، وقال: سمعته من سليمان بن عمران، عن أسد ابن الفرات، عن محمد بن الحسن، عن أسد بن عمرو، عن أبي حنيفة في أكل لحم العقعق قال: لا بأس به، قال أسد بن الفرات: ثم سألت أسد بن عمرو فحدثني به عن أبي حنيفة۔(ص: ۳۴۳)،

یہ سند حسن ہے،امام طحاوی ؒ(م۳۲۱؁ھ)،اسد ابن الفرات ؒ (م۲۱۳؁ھ) مشہور ائمہ ثقات  میں سے ہیں۔ابو الربیع سلیمان بن عمران الافریقی ؒ(م۲۷۰؁ھ) مشہور قاضی  الافریقہ ،عادل،صاحب فضیلت اور درست بات کرنے والے یعنی صدوق  ہیں۔(الدباج المذہب : ج۱: ص ۳۷۶، شجرة النور الزكية في طبقات المالكية:ج۱: ص ۱۰۶) ،

اسی طرح ابن ابی ثور ؒ سے مراد  ابو العباس محمد بن عبد اللہ بن حمدون ابن ابی ثور  الرعینیؒ(م۲۹۹؁ھ) ہے، جو  کہ افریقہ   کے قاضی،مذہب  حنفی کے امام،عالم، فقیہ اور  عربی کےفاضل تھے ۔(سلم الوصول  : ج۳: ص ۱۵۹،تاج التراجم : ص ۲۶۳،الجواہر المضیۃ : ج۲: ص ۶۶)، لہذا ابن ابی ثور ؒ بھی صدوق ہیں۔

نوٹ :      فضائل ابی حنیفۃ لابن ابی العوام  کے مطبوعہ نسخہ میں   كتب إلي ابن ابی ثور ‘ کے بجائے ’ ناولني عيسى بن روح ‘ آگیا ہے۔جو کہ کاتب کی غلطی ہے۔کیونکہ  اسی کتاب  میں  باقی تمام مقامات پر امام طحاوی ؒ (م۳۲۱؁ھ) اور سلیمان بن عمران الافریقی ؒ(م۲۷۰؁ھ) کے درمیان  ابن ابی ثور ؒ(م۲۹۹؁ھ) ہی موجود ہے۔نیز ائمہ نے صراحت بھی کی ہے۔ ابن ابی ثور ؒ(م۲۹۹؁ھ) نے سلیمان بن عمران الافریقی ؒ(م۲۷۰؁ھ) سے روایت لی ہے اور  ان سے امام طحاوی ؒ (م۳۲۱؁ھ) نے روایت لی ہے۔(تاریخ مصر لابن یونس : ج۲ : ص ۲۱۲)،لہذا صحیح ’ كتب إلي ابن ابی ثور ‘ ہی ہے۔ واللہ اعلم

[18] دیکھئے ص : ۱۳۳۔

[19] امام ابو القاسم ابن ابی العوامؒ(م۳۳۵؁ھ) اس روایت  کو  یوں ذکر کرتے ہیں  : قال: حدثني أحمد بن محمد بن سلامة قال: سمعت إبراهيم بن أبي داود يقول: سمعت يحيى بن صالح الوحاظي يقول: حججت مع محمد بن الحسن، فلما كنا بمنى رأيت خالد بن عبد الله، فكنت في مجلسه فازدحم عليه أصحاب الحديث حتى آذوه، فقال: عسى لو سئل هؤلاء عن مسألة من الفقه ما عرفوا الجواب فيها، فقلت له: أصلحك الله فسلهم، عسى أن يكون فيهم من ليس كذلك، فسأل عن مسألة، فأجبته أنا فيها فاستحسن جوابي، وقال لي: ممن تعلمت هذا، فقلت: من محمد بن الحسن، وهو حاج معك، قال: فقال لي: إذا فرغنا فامض بي إلى مضربه حتى أسلم عليه، فلما فرغنا مضيت معه إلى محمد بن الحسن، فلما رآه محمد قام إليه وأعظمه۔(ص: ۳۵۱-۳۵۲)،  یہ سند حسن ہے اور اس کے تمام روات مشہور ائمہ ثقات ہیں۔

[20] یہ روایت حسن ہے۔ دیکھئے  (ص:۹۶)

[21] یہ روایت حسن ہے۔ضعیف راوی کے مقابلے میں ، حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ(م۸۵۲؁ھ) نے عبد اللہ بن علی بن المدینیؒ  کی روایت  ترجیح  دی ہے۔تفصیل کے  لئے دیکھئے   (ص:۱۳۴)،    لہذا  ثقہ راوی کی روایت نہ ہونے کی  صورت میں عبد اللہ بن علی بن المدینیؒ  کی روایت کو ترجیح حاصل ہوگی۔

[22] یہ روایت متناً صحیح ہے۔ دیکھئے  (ص:۱۰۶)

[23] تفصیل کے لئےدیکھئے ص : ۱۳۱۔

[24] اس کی سند حسن ہے۔

[25] امام ابو بکر جصاصؒ(م۳۷۰؁ھ) ایک روایت کے تحت کہتے ہیں کہ

’’ لأن أصحاب مالك الثقات كلهم يروونه موقوفا على ابن عمر رضي الله عنهما من قوله، غير مرفوع إلى النبي صلى الله عليه وسلم ‘‘

اس لئے اس روایت کو تمام کے تمام ثقہ اصحاب مالک نے امام مالک ؒسے موقوفاً ابن عمر ؓ کے قول کی صورت میں روایت کیا ہے،نہ کہ مرفوعاً۔(شرح مختصر الطحاوی للجصاص : ج۱: ص ۳۹۷)

غور فرمائے ! امام جصاص ؒ نے کہا کہ تمام  کے تمام ثقہ اصحاب مالک نے اس روایت کو امام مالک ؒ سے موقوفاً   روایت کیا ہے۔

اور اگر چہ دوسری طریق سے ہی مگر امام محمد ؒ نے بھی اس حدیث کو امام مالکؒ(م۱۷۹؁ھ) سے معنی موقوفاً  ہی نقل کیا ہے۔(موطا امام محمد : حدیث نمبر ۱۲)

نیز امام مالکؒ (م۱۷۹؁ھ) سے امام محمد ؒ (م۱۸۹؁ھ)نے بھی مکمل موطا روایت کی ہے اور آپؒ  امام مالکؒ کے قدیم شاگردوں میں سے ہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھئے ص :۵۱-۵۳۔

معلوم ہوا کہ امام ابو بکر جصاصؒ(م۳۷۰؁ھ) کے نزدیک امام محمد ؒ ثقہ اصحاب مالک  میں شمار ہوتے ہیں۔

[26] تفصیل کے لئے دیکھئے ص :۱۳۸۔

[27] دیکھئے ص :۱۴۳۔

[28] دیکھئے ص :۱۴۶۔

[29] دیکھئے ص :۱۴۷۔

[30] دیکھئے ص :۱۴۹۔

[31] دیکھئے  (ص :۱۵۰)۔

[32] دیکھئے (ص :۱۴۹)۔

[33] تفصیل کے لئے دیکھئے ص :۱۵۴-۱۵۶۔

[34] دیکھئے ص :۱۶۲۔

[35] دیکھئے ص :۱۶۳۔

[36] دیکھئے ص :۱۶۰۔

[37] دیکھئے ص :۱۶۵۔

[38] یہ روایت تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۸،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۷۳ پر موجود ہے،اس کی سند یوں  ہے،حافظ المشرق امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ:

أخبرنا أحمد بن علي بن الحسين التوزي قال أنبأنا القاضي أبو عمر أحمد بن محمد بن موسى بن محمد المعروف بابن العلاف قال نبأنا أبو عمر الزاهد قال سمعت أحمد بن يحيى يقول توفي الكسائي ومحمد بن الحسن في يوم واحد. فقال الرشيد دفنت اليوم اللغة والفقه۔

اس سند کے روات کی تحقیق یہ ہے:

(۱)         حافظ المشرق، امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) مشہور ثقہ ،امام اور حافظ الحدیث  ہیں۔(تاریخ الاسلام )

(۲)         احمد بن علی  بن الحسین التوزیؒ (م۴۴۲؁ھ) صدوق ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۱: ص ۴۲۳)

(۳)        احمد بن محمد بن موسی  بن محمد المعروف ابن العلاف ؒ(م۳۹۰؁ھ) بھی ثقہ راوی ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۲: ص ۷۷).

(۴)        ابو عمر زاھد  سے مراد  محمد بن عبد الواحد غلام ثعلب ؒ (م۳۴۵؁ھ) ہیں اور وہ  صدوق ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۸: ص ۴۴۴)

نوٹ :

              دار الکتب  العلمیۃ،بیروت والے نسخہ میں ابو عمر زاھد   کے بجائے ابو عمرو زاھد  لکھا ہے جو کہ کاتب کی غلطی  ہے،کیونکہ ابن العلاف ؒ(م۳۹۰؁ھ)  کے اساتذہ   میں  ابو عمر زاھد صاحب ثعلب  کا ذکر ملتا ہے ۔(تاریخ  بغداد : ج۶ : ص۲۶۹،ط دار الکتب  العلمیۃ،بیروت)  اور شیخ بشار العواد معروف کے نسخے میں بھی ابو عمر زاھد   ہی لکھا ہے۔( تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۷۳)

 لہذا صحیح ابو عمر زاھد  صاحب ثعلب ہی ہے۔

(۵)        احمد بن یحیی سے مراد  احمد بن یحیی بن یزید ،ابو العباس الشیبانی النحوی،امام ثعلبؒ (م۲۹۱؁ھ) ہے جو ثقہ،امام اور حجت ہیں۔

( کتاب الثقات للقاسم : ج۲: ص ۱۳۲).

(۶)         خلیفہ ھارون الرشید ؒ(م۱۹۳؁ھ) بھی صدوق  ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۴ : ص ۱۲۲۳)

معلوم ہوا کہ اس روایت کے تمام راوی ثقہ یا صدوق ہیں اور یہ حسن  مرسل ہے کیونکہ امام ثعلبؒ (م ۲۰۱؁ھ)و (م۲۹۱؁ھ) کی ملاقات  خلیفہ ہارون الرشیدؒ (م۱۹۳؁ھ)  سے ثابت نہیں ہے۔(تاریخ الاسلام : ج۶: ص۹۰۰،سیراعلام النبلاء :ج۹: ص ۲۸۶) 

اس طرح  امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ) نے بھی مشہور نحوی ،امام ،حافظ  ابراہیم  بن محمد بن عرفہ،ابو عبد اللہ  نفطویہؒ (م۳۲۳؁ھ)  [صدوق]  سے مرسلاً یہی بات نقل کی ہے۔( أخبار أبي حنيفة وأصحابه للصیمری : ص ۱۳۳)۔

چنانچہ  امام ابو عبداللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ) فرماتے ہیں :

أخبرنَا المرزباني قَالَ ثَنَا إِبْرَاهِيم بن مُحَمَّد بن عَرَفَة النَّحْوِيّ قَالَ مَاتَ مُحَمَّد بن الْحسن وَالْكسَائِيّ بِالريِّ سنة تسع وَثَمَانِينَ وَمِائَة فَقَالَ الرشيد دفنت الْفِقْه والعربية بِالريِّ۔

اس سند کے روات کی تفصیل یہ ہے :

(۱)         امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ) صدوق ،امام ہیں۔(تاریخ بغداد:ج۸: ص ۶۳۴،ت بشار، تاج التراجم للقاسم  :  ص ۱۶۳)

(۲)       محمد بن عمران بن  موسی ،ابو عبد اللہ  المرزبانی ؒ (م۳۸۴؁ھ) بھی صدوق ومتقن  ہیں۔(المغنی  : ج۲: ص ۶۲۰،سیر : ج۱۶: ص ۴۴۷، تاریخ بغداد:ج۴: ص ۲۲۷،ت بشار،انباء الرواۃ  : ج۳ : ص ۱۸۰،الدرالثمین: ص۱۲۳،التاریخ المعتبر لعبد الرحمٰن  بن محمد المقدسی : ج۳: ص۱۷۷،مرآۃ الزمان لسبط ابن جوزی : ج۱۸ : ص ۷۹،قلادۃ النحر  للحضرمی : ج۳: ص ۲۵۵)

(۳)        امام ،حافظ  ابراہیم  بن محمد بن عرفہ،ابو عبد اللہ  نفطویہؒ(م۳۲۳؁ھ)  بھی صدوق ہیں۔(تاریخ بغداد:ج۷: ص ۹۳،ت بشار)

(۴)        خلیفہ ھارون الرشید ؒ(م۱۹۳؁ھ) بھی صدوق  ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۴ : ص ۱۲۲۳)

معلوم ہوا کہ اس کی سند بھی حسن  مرسل ہے۔

              امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ) نے ایک اور سند متصل ذکر کی ہے :

         أخبرنا عمر بن إبراهيم المقرىء قال ثنا القاضي أبو بكر مكرم قال ثنا أحمد بن عبيد الله الثقفي قال ثنا أبو خازم عبد الحميد بن عبد العزيز قال حدثني بكر بن خلف العمي قال حدثني محمد بن سماعة قال حدثني محمد بن الحسن الفقيه قال أبو خازم وهو مولى لبني يبان وأصلهم من قرية بين فلسطين والرملة أعرفها وأعرف قوما من أهلها ثم انتقلوا إلى الكوفة قال لما أشخصني الرشيد ليقلدني القضاء بالشام وردت مدينة السلام فلقيت أبا يوسف وهو الذي سماني وأشار بي فقلت له من حقي عليك ولزومي لك وتصييري لك أستاذا وإماما أن تعفيني عن هذا الأمر فقال لي أنا راكب معك إلى يحيى بن خالد فأكلمه فركب معي إلى يحيى بن خالد فلما دخلنا عليه زال له يحيى عن مصلاه فقعد معه عليه وقعدت بباب البيت فسمعته يقول له هذا محمد بن الحسن ومن حاله كذا ومن حاله كيت وكيت يصفني وذكر امتناعي عليه فقال له يحيى ما تقول فيه قال أقول إنكم إن أعفيتموه لم تجدوا مثله فلما سمع يحيى كلامه لم يلتفت إلي ما أقول وأمضى أمري فلما ورد الرشيد الرقة أحضرت فدخلت إليه أنا والحسن بن زياد اللؤلؤي وأبو البختري وهب بن وهب فأخرج إلينا الأمان الذي كتب ليحيى ابن عبد الله بن الحسن فدفع إلي فقرأته وقد علمت الأمر الذي أحضرنا له فمثلت بين أن أظهر شيئا إن كان يتعلق به فيه فأوجده السبيل إلى قتل الرجل أو أترك الطعن عليه مع ما أعلم أنه ينالني من موجدة الرشيد فآثرت أمر الله والدار الآخرة فقلت هذا أمان مؤكد لا حيلة في نقضه فانتزع الصك من يدي ودفع إلى اللؤلؤي فقرأه وقال كلمة ضعيفة لا أدري سمعت أو لم تسمع هذا أمان فانتزع من يده ودفع إلى أبي البختري فقرأه ثم قال ما أرجيه ولا أرضاه هذا رجل سوء قد شق العصا وسفك دماء المسلمين وفعل وفعل فلا أمان له ثم ضرب بيده إلى خفه وأنا أراه واستخرج سكينا فشق الكتاب بنصفين ثم دفعه إلى الخادم ثم التفت إلى الرشيد فقال اقتله ودمه في عنقي قال فقمنا من المجلس وأتاني رسول الرشيد أن لا أفتي أحدا ولا أحكم فلم أزل على ذلك إلى أن أرادت أم جعفر أن تقف وقفا فوجهت إلي في ذلك فعرفتها أني قد نهيت عن الفتيا فكلمت الرشيد فأذن لي قال محمد بن الحسن فكنت وكل من في دار الرشيد يتعجب من أبي البختري وهو حاكم وفتياه بما أفتى به وتقلده دم رجل من المسلمين ثم من حمله في خفه سكينا قال ولم يقتل الرشيد يحيى في ذلك الوقت وإنما مات في الحبس بعد مدة قال محمد بن سماعة في حديثه ثم قرب الرشيد محمد بن الحسن بعد ذلك وتقدم عنده وولاه قضاء القضاة وحمله معه إلى الري فتوفى هو والكسائي بها في يوم واحد فقال الرشيد دفنت الفقه والنحو بالري قال بكر العمى في حديثه إن محمد بن الحسن لما أفتى بصحة الأمان وأفتى أبو البختري بنقضه وأطلق له دمه قال له يحيى يا أمير المؤمنين يفتيك محمد بن الحسن وموضعه من الفقه موضعه بصحة أماني ويفتيك هذا ينقضه وما لهذا والفتيا وإنما كان أبوه طبالا بالمدينة۔

              اس طویل  روایت  میں  محمد بن سماعہ ؒ(م۲۳۳؁ھ) کہتے  ہیں کہ امام محمدؒ(م۱۸۹؁ھ) اور امام کسائیؒ (م۱۸۹؁ھ)  کی وفات پر خلیفہ ہارون الرشیدؒ (م۱۹۳؁ھ) نے کہا   کہ  رئے میں (آج)  فقہ اور نحو دفن ہوگئی۔( أخبار أبي حنيفة وأصحابه للصیمری : ص ۱۳۰-۱۳۱)

اس سند کے روات کی تحقیق یہ ہے :

(۱)         امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ)  کی توثیق گزرچکی۔

(۲)         امام عمر بن ابراھیم،ابو حفص  الکتانیؒ (م۳۹۰؁ھ) ثقہ ،امام  ہیں۔(سیر :ج۱۶: ص۴۸۲)

(۳)        مکرم بن احمدالبغدادی القاضیؒ (م۳۴۵؁ھ) بھی ثقہ محدث ہیں۔(سیر : ج۱۵: ص ۵۱۷)

(۴)        احمد بن عبید اللہ بن محمد بن عمار،ابو االعباس  الثقفیؒ (م۳۱۴؁ھ) کے بارے میں ابن الرومی (م۲۸۳؁ھ) کہتے ہیں کہ : ’’هذا أبو العباس ابن عمار له موضع من الرواية والأدب ‘‘ یہ ابو  العباس ابن عمارکا  ادب اور  روایت میں ایک مقام ہے۔ (معجم الادباء  للحموی : ج۱: ص ۳۶۶) اس  سے ان کا صدوق ہونا ظاہر ہے۔

(۵)        امام ابو خازم  ،عبد الحمید بن عبد العزیز السکونیؒ (م۲۹۲؁ھ) بھی  مشہور قاضی  اور ثقہ،ذکی ہیں۔(سیر :ج۱۳:ص۵۳۹)

(۶)         بکر بن محمدالعمیؒ بھی صدوق ہیں،ان کے بار ے میں فقیہ تقی الدین الغزیؒ (م۱۰۱۴؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’ كان من أعيان الأئمة علماً وعملاً ‘‘ وہ علم اور عمل کے اعتبار سے بڑے ائمہ میں سے ہیں ۔(الطبقات السنیۃ للغزی : ص ۱۹۵)

نوٹ :

            أخبار أبي حنيفة وأصحابه للصیمری کے مطبوعہ نسخے  میں بکر بن محمد العمیؒ کے بجائے  بکر بن خلف العمیؒ لکھا ہے جو کہ کاتب غلطی ہے،کیونکہ امام ابو خازم  ،عبد الحمید بن عبد العزیز السکونیؒ (م۲۹۲؁ھ) کے اساتذہ  میں ،اور محمد بن سماعہ، ابو عبد اللہ الکوفیؒ (م۲۳۳؁ھ) کے شاگردوں میں جس بکر العمی  ؒکاذکر ہے وہ ابن محمد العمیؒ ہے نہ کہ ابن خلف العمی، (الجواهر المضية في طبقات الحنفية:ج۱: ص ۱۷۳، الفوائد البهية في تراجم الحنفية:ص۵۵، الطبقات السنیۃ للغزی : ص ۱۹۵)  

لہذا  صحیح بکر بن محمد العمیؒ ہے۔ واللہ اعلم

(۷)        محمد بن سماعہ، ابو عبد اللہ الکوفیؒ(م۲۳۳؁ھ) ثقہ،حافظ ہیں۔(تہذیب الکمال : ج۲۵: ص ۳۱۷)

(۸)       خلیفہ ھارون الرشید ؒ(م۱۹۳؁ھ) کی  توثیق گزرچکی۔(تاریخ الاسلام : ج۴ : ص ۱۲۲۳)

خلاصہ یہ کہ  مذکورہ روایت حسن ہے اور  خلیفہ ھارون الرشید ؒ(م۱۹۳؁ھ) سے ثابت ہے۔ واللہ اعلم

[39] یہ روایت تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۸،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۷۳ پر موجود ہے،اس کی سند یوں  ہے،حافظ المشرق امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ :

              أخبرنا أبو نعيم الأصبهاني الحافظ قال نبأنا أبو طلحة تمام بن محمد بن علي الأزدي بالبصرة قال أنشدنا القاضي محمد بن أحمد بن أبي حازم قال أنشدنا الرياشي قال أنشدنا اليزيدي لنفسه يرثى محمد بن الحسن والكسائي، وكانا خرجا مع الرشيد إلى الري فماتا بها في يوم واحد:

أسيت على قاضي القضاة محمد ... فأذويت دمعي والعيون هجود

وقلت إذا ما الخطب أشكل من لنا ... بإيضاحه يوما وأنت فقيد

              اس روایت میں موجود ابو طلحہ تمام بن محمد راوی کی توثیق نہیں مل سکی لیکن اسکی ایک اور حسن سند آئی ہے،چنانچہ امام ابو عبداللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ) ہی فرماتے ہیں کہ:

أخبرنا أبو عبيد الله محمد بن عمران بن موسى المرزباني قال أنبا الصولي قال ثنا السكري قال أنشدني إسماعيل بن أبي محمد اليزيدي لأبيه يرثي محمد بن الحسن والكسائي رضي الله عنهما:

(تصرمت الدنيا فليس له خلود ... وما قد ترى من بهجة سيبيد)

(لكل امرىء منا من الموت منهل ... فليس إلا عليه ورود)

(ألم تر شيبا شاملا ينذر البلى ... وإن الشباب الغض ليس يعود)

(سيأتيك ما أفنى القرون التي مضت ... فكن مستعدا فالفناء عتيد)

(أسيت على قاضي القضاة محمد ... فأذريت دمعي والفؤاد عميد)

(فقلت إذا ما أشكل الخطب من لنا ... بإيضاحه يوما وأنت فقيد وأوجعني موت الكسائي بعده ... وكادت بي الأرض الفضاء تميد)۔ ( أخبار أبي حنيفة وأصحابه للصیمری :ص۱۳۲-۱۳۳)

اس سند کے راویوں کی تفصیل یہ ہیں :

(۱)         امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ) اور

(۲)       محمد بن عمران بن  موسی ،ابو عبد اللہ  المرزبانی ؒ (م۳۸۴؁ھ)  کی توثیق گزرچکی۔

(۳)        الصولی ؒ سے مراد محمد بن یحیی ،ابوبکر الصولیؒ (م۳۳۵؁ھ) ہے۔( أخبار أبي حنيفة وأصحابه للصیمری: ص۷۰) 

اور وہ صدوق ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۷: ص ۶۹۶)

(۴)        الحسن بن الحسین  بن عبد اللہ ،ابو سعید السکری النحویؒ (م۲۷۵؁ھ)  ثقہ اور مقری القرآن ہیں۔( تاریخ الاسلام : ج۶: ص ۵۳۵)

(۵)        اسماعیل بن ابی محمد  یحیی بن مبارک الیزیدیؒ کے بارے میں امام جمال الدین ابو الحسن علی بن یوسف القفطیؒ (م۶۴۶؁ھ) کہتے ہیں  کہ ’’ كان فاضلا كإخوته، عالما بالعربية، خبيرا بأخبار الشعراء ‘‘ وہ اپنے بھائی کی طرح فاضل،عربی کے عالم،شاعروں کے اخباری تھے۔(إنباه الرواة على أنباه النحاة:ج۱:ص۲۴۸)، امام  یاقوت الحمویؒ (م۶۲۶؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’ وكان إسماعيل أحد الأدباء الرواة الفضلاء ‘‘ اسماعیل ادیب (اور) فاضل راویوں میں سے تھے۔(معجم الادباء : ج۲ : ص ۷۳۷)  اس سے ان  کاصدوق ہونا ظاہر ہے۔واللہ اعلم

(۶)         ابو محمد یحیی بن مبارک الیزیدیؒ (م۲۰۲؁ھ) ثقہ اور حجت ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۵ : ص ۲۲۶)

معلوم ہوا کہ اس سند کے تمام روات ثقہ یا صدوق  اور روایت حسن ہے۔واللہ اعلم

[40] یہ روایت تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۸،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۷۳ پر موجود ہے۔اس کی سند یوں  ہے،حافظ المشرق امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ

أخبرنا علي بن أبي علي قال نا طلحة بن محمد قال حدثني مكرم بن أحمد القاضي قال نا أحمد بن محمد بن المغلس قال نا سليمان بن أبي شيخ قال حدثني ابن أبي رجاء القاضي قال سمعت محمويه- وكنا نعده من الأبدال- قال رأيت محمد ابن الحسن في المنام فقلت: يا أبا عبد الله إلام صرت؟ قال قال لي: إني لم أجعلك وعاء للعلم وأنا أريد أن أعذبك، قلت فما فعل أبو يوسف؟ قال فوقي. قلت فما فعل أبو حنيفة؟ قال فوق أبي يوسف بطبقات۔

اس کی سند میں احمد بن محمد بن المغلسؒ(م۳۰۸؁ھ)  پر کلام ہے،لیکن یہ واقعہ صحیح اور  مقبول ہے، اس لئے کہ اس واقعہ کی حسن سند موجود ہے، چنانچہ  امام ابو عبداللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ) ہی فرماتے ہیں کہ :

               أخبرنا عمر بن إبراهيم قال ثنا مكرم قال ثنا محمد بن عبد السلام قال حدثني سليمان بن داود بن كثير الباهلي وعبد الوهاب بن عيسى قالا ثنا محمد بن أبي رجاء القاضي قال سمعت أبي قال رأيت محمد بن الحسن في المنام فقلت ما صنع بك ربك قال أدخلني الجنة وقال لي لم أصيرك وعاءا للعمل وأنا أريد أن أعذبك قال قلت فأبو يوسف قال ذاك فوقي أو فوقنا بدرجة قال قلت فأبو حنيفة قال ذاك في أعلى عليين۔( أخبار أبي حنيفة وأصحابه للصیمری : ص۱۳۳)

اس سند کے روات کی تحقیق یہ ہے :

(۱)         امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ)

(۲)         امام عمر بن ابراھیم،ابو حفص  الکتانیؒ (م۳۹۰؁ھ) اور

(۳)        مکرم القاضیؒ (م۳۴۰؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔ (دیکھئے ص :۳۹)

(۴)        محمد بن عبد السلام سے مراد محمد بن عبد السلام بن عثمان  بن سہل ،ابوبکر الفزاری الدمشقیؒ(م۳۱۷؁ھ) ہے۔

دیکھئے:اخبار ابی حنیفہ للصیمری : ص ۴۰، تاریخ الاسلام : ج۷: ص ۳۳۱،تاریخ دمشق  لابن عساکر : ج۵۴: ص ۱۱۸،

اور حافظ مشرق،امام خطیب بغدادیؒ(م۴۶۳؁ھ) نے ان کو ’’معدل ‘‘ قراردیا ہے۔(تاریخ بغداد : ج۳: ص ۶۸۷،ت بشار، مقالات ارشاد الحق اثری :ج:۲ص۲۶۸-۲۶۹)

لہذا محمد بن عبد السلام بن عثمان  بن سہل ،ابوبکر الفزاری الدمشقیؒ(م۳۱۷؁ھ) صدوق ہیں۔

(۵)        سلیمان بن داود بن کثیر الباہلیؒ (م۳۱۴؁ھ)  صدوق محدث ہیں۔(سیر : ج۱۴: ص ۴۸۲) ان کے متابع میں موجود عبد الوھاب بن عیسیؒ (م۳۱۹؁ھ) بھی ثقہ ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۷: ص ۳۵۶)

(۶)         محمد بن احمد ابی رجاء  الجوزجانی ؒ (م۲۸۵؁ھ) کے بارے میں امام،حافظ عبد القادر القرشیؒ (م۷۷۵؁ھ) نے کہا : ’’ قَاضِي نيسابور تفقه عَليّ أبي سُلَيْمَان الْجوزجَاني صَاحب مُحَمَّد بن الْحسن ‘‘ یہ نیساپور کے قاضی تھے اورامام محمد ؒ کے خاص شاگرد ابو سلیمان الجوزجانی ؒ  سے فقہ پڑھی۔(الجواهر المضية في طبقات الحنفية: ج۲: ص۲۹) امام حاکمؒ (م۴۰۵؁ھ) نے بھی ان کو قاضی القضاۃ قرار دیا ہے۔(تلخیص تاریخ نیساپور: ص۸۸) پس  یہ ان کی ایک دینی شہرت ہوئی جو کہ ان کے صدوق ہونے کے لئے کافی ہے۔(اضواء المصابیح : ص ۲۵۱، تقریب النووی : ص ۴۸، المقنع لابن الملقن : ص ۲۴۵، البحر المحیط للزرکشی : ج ۲: ص۱۶۸)

(۷)      ابو رجاء ؒ  کے بارے میں محمد بن شجاعؒ(م۲۶۶؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’ كَانَ مِنَ الْعِبَادَةِ وَالصَّلاحِ بِمَكَانٍ ‘‘ عبادت اور صلاح میں ان کا ایک مقام تھا  ۔(الانتقاء  لابن عبد البر : ص۱۴۵)، لہذا یہ راوی بھی صدوق ہے۔

              الغرض یہ سند حسن ہے۔واللہ اعلم

[41] یہ روایت تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۰،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۶۲ پر موجود ہے،اس کی سند یوں  ہے،حافظ المشرق امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ:

         أخبرنا علي بن أبي علي المعدل قال أنبأنا طلحة بن محمد بن جعفر قال أخبرني أبو عروبة في كتابه إلي قال حدثني عمرو بن أبي عمرو قال: قال محمد بن الحسن: ترك أبي ثلاثين ألف درهم، فأنفقت خمسة عشر ألفا على النحو والشعر، وخمسة عشر ألفا على الحديث والفقة۔

              اس کی سند میں علی بن ابی علی سے مراد  قاضی علی   بن المحسن،ابو القاسم التنوخیؒ(م۴۴۷؁ھ) صدوق ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۷: ص ۲۳۳)،  طلحہ بن محمد الشاھد (م۳۸۰؁ھ) پر کلام ہے،لیکن راجح قول میں وہ صدوق ہیں۔ان کی توثیق اگلے شمارے میں آئے گی،ابو عروبۃ اور عمرو بن ابی عمرو ؒ کی توثیق کے لئے دیکھئے  مجلہ الاجماع : ش۴: ص۳۲۔

لہذا یہ سند کے تمام روات ثقہ یا صدوق ہیں، نیز  اس واقعہ کی ایک اور حسن سند موجود ہے، چنانچہ  امام ابو عبداللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ) فرماتے ہیں کہ:

         أخبرنا أحمد بن محمد الصيرفي قال ثنا أحمد بن محمد المنصوري قال ثنا ابن كأس النخعي قال ثنا أبو عروبة الحراني قال ثنا عمرو بن أبي عمرو قال قال محمد بن الحسن خلف أبي ثلاثين ألفا درهم فأنفقت خمسة عشر ألفا على النحو والشعر وخمسة عشر ألفا على الحديث والفقه۔

( أخبار أبي حنيفة وأصحابه للصیمری : ص۱۲۹)

اس سند کے روات کی تفصیل یہ ہیں :

(۱)         امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔

(۲)         احمد بن محمد بن علی،ابو عبد اللہ الصیرفی  المعروف ابن الآبنوسیؒ (م۳۹۴؁ھ) صدوق ہیں۔(تاریخ بغداد : ج۶: ص ۲۳۱،ت بشار)

(۳)        احمد بن محمد المنصوری،ابو العباس  التمیمی ؒ بھی صدوق،فقیہ ہیں۔(الروض الباسم : ج۱ : ص ۳۰۰)

(۴)        امام ابن کاس النخعی ؒ(م۳۲۴؁ھ) بھی ثقہ ،امام ہیں۔(ارشاد القاصی والدانی : ص ۴۳۹)

(۵)        امام  الحسین  بن محمد،ابو  عروبہ الحرانیؒ(م۳۱۸؁ھ) اور

(۶)         عمرو بن ابی عمروؒ کی توثیق کے لئے دیکھئے  مجلہ الاجماع : ش۴ : ص ۳۲۔

معلوم ہوا کہ  اس سند کے بھی تمام روات ثقہ یا صدوق ہیں اور سند حسن ہے۔واللہ اعلم

[42] علی زئی کا امام محمدؒ کے ایک قول پر اعتراض کی حقیقت:

حافظ زبیر علی زئی غیر مقلد نے اس قول پر یہ اعتراض کیاہے کہ علامہ خطیب بغدادیؒ نے اس قول کی دو سندیں لکھی ہیں ، پہلی سند  صحیح ہے، لیکن اس کا انہوں نے متن نہیں لکھا ، اور دوسری سند جس کا نہوں نے متن لکھا ہے وہ صحیح نہیں ہے ، (محصلہ الحدیث:س۵ص۱۳، حاشیہ۲) لیکن علی زئی کا یہ اعتراض علم حدیث سے ان کے تہی دامن ہونے کی دلیل ہے، ورنہ علم حدیث کے بنیادی طالب علم کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ جس قول کے ساتھ دو سندیں مذکور ہوں اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ قول دو سندوں کے ساتھ منقول ہے، اور ان دونوں سندوں کا متن ایک جیسا ہی ہے۔جس جماعت میں زبیر علی زئی جیسے علم حدیث سے تہی دامن لوگ محدث اور شیخ الحدیث کی کرسی پر براجمان ہوں اس جماعت کا اللہ ہی حافظ ہے۔

[43] یہ روایت تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۱،طبع دار الکتب  العلمیہ،بیروت ، اورتاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار عواد معروف : ج۲ : ص ۵۶۳ پر موجود ہے۔ اس کی سند یوں  ہے،حافظ المشرق امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ:

أخبرني أبو الوليد الدربندي قال نا محمد بن أبي بكر الوراق ببخارى قال نا محمد بن أحمد بن حبان قال نا أحمد بن عبد الواحد بن رفيد قال سمعت أبا عصمة سعد بن معاذ يقول سمعت إسماعيل بن حماد بن أبي حنيفة يقول كان محمد ابن الحسن له مجلس في مسجد الكوفة وهو ابن عشرين سنة۔

اس سند کے روات کی تحقیق یہ ہیں :

(۱)         حافظ المشرق ،امام خطیب بغدادیؒ(م۴۶۳؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔

(۲)         امام ابو الولید،حسن بن محمد الدربندیؒ(م۴۵۶؁ھ) صدوق،حافظ الحدیث ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۳: ص ۳۹۲)

(۳)        حافظ ابو عبد اللہ،محمد بن ابی بکر الْغُنْجَار (م۴۱۲؁ھ) بھی ثقہ  اور ائمہ حدیث  میں سے ہیں۔(تاریخ الاسلام: ج۹: ص ۲۰۶، المنتخب من كتاب السياق لتاريخ نيسابور : ص۴۶)

(۴)        محمد بن احمد بن  حبان سے مراد صدوق راوی ،محمد بن احمد بن عمر بن حبان،ابو عمرو بخاریؒ ہیں۔(الرّوض الباسم في تراجم شيوخ الحاكم: ص۳۱۳)

نوٹ :

              تاریخ بغداد کے مطبوعہ نسخوں میں محمد بن احمد بن حبان کے بجائے محمد بن احمد بن حرب آگیا ہے،جو کہ کاتب کی غلطی ہے،کیونکہ ابو احمد بن عبد الواحد بن رفید کے شاگردوں  اور حافظ ابو عبد اللہ،محمد بن ابی بکر الْغُنْجَارکے اساتذہ میں جس محمد بن احمد  کا ذکر ہے،وہ محمد بن احمد بن حبان ہے،نہ کہ محمد بن احمد بن حرب۔(الرّوض الباسم في تراجم شيوخ الحاكم: ص۳۱۳)

لہذا  صحیح محمد بن احمد بن حبان ہے۔واللہ اعلم

(۵)        احمد بن عبد الواحد بن رفیدؒ  کی کنیت ابو بکر ہے،لیکن وہ ابو احمد کی کنیت سے مشہور ہیں۔(کتاب الانساب  للسمعانی : ج۱۳: ص ۱۹۶) اور امام مزیؒ(م۷۴۲؁ھ) کے نزدیک آپؒ میں کوئی حرج نہیں ہے۔(تہذیب الکمال : ج۲۵: ص ۳۴۳،ج۱:ص۱۵۳،تاریخ بغداد : ج۶: ص ۳۴۶،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت )

(۶)         ابو عصمہ،سعد بن معاذ المروزیؒ بھی صدوق ہیں۔

              امام،حافظ ابو القاسم اللالكائي (م۴۱۸؁ھ) نے ان کو علماء بلخ میں شمار کیا ہے۔( شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة:ج۲: ص ۳۴۰)، امام ابو بکر بیہقیؒ(م۴۵۸؁ھ) نے ان کی روایت بوجہ استدلال صحیح قرار دیا ہے۔(الاعتقاد للبیہقی : ص ۱۶۲-۱۶۳) اور کسی روایت کی تصحیح و تحسین اس کے ہر ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے۔(مجلہ الاجماع : ش ۴ : ص۲)

              لہذا ابو عصمہ،سعد بن معاذ المروزیؒ بھی صدوق ہیں۔

(۷)        اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہؒ (م۲۱۲؁ھ) بھی صدوق ہیں۔(مجلہ الاجماع :ش۱۲: ص ۲۳ )

لہذا یہ سند حسن ہے۔واللہ اعلم

[44]  امام محمدؒ سے امام شافعیؒ کے تلمذ پر علی زئی کی ہٹ دھرمی:

مذکورہ بالاتحقیق اور ٹھوس حوالوں سے الحمد للہ یہ ثابت ہوچکا ہے  کہ امام محمدؒ سے امام شافعیؒ کو شرفِ تلمذ حاصل ہے، اور امام شافعیؒ نے آپ سے بہت زیادہ استفادہ کیاہے، مگر ایک نام نہاد ، محقق حافظ زبیر علی زئی نے ان سب حقائق سے دانستہ چشم پوشی کرتے ہوئے محض حافظ ابن تیمیہؒ کے ایک شاذ قول کے بَل بوتے امام محمدؒ سے امام شافعیؒ کے تلمذ سے انکار کر دیا، چنانچہ لکھتے ہیں:  ’’ایک رافضی نے کہا کہ (امام ) شافعیؒ نے محمد بن الحسنؒ سے پڑھا ہے، تو اس کی تردید کرتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ:  ’’ان ھذا لیس کذلک،  بل جالسہ وعرف طریقتہ وناظرہ،  واول من اظھر الخلاف لمحمد بن الحسن والردعلیہ الشافعی…… ‘‘ ایسی بات نہیں بلکہ (امام شافعی ؒ) ان کے پاس بیٹھے ہیں، اس کا طریقہ پہچاناہے ، اور اس سے مناظرہ کیاہے، سب سے پہلے محمد بن الحسن سے اختلاف اور اس کا رد امام شافعیؒ نے کیا ہے، (منھاج السنۃ النبویۃ : ج۴ص۱۴۳، ) ایک غالی دیوبندی نے شیخ الاسلام کا رد لکھا ہے۔ لیکن یہ مردود ہے۔ (الحدیث:ش۷،ص۱۲،۱۳)

علی زئی اس عبارت سے یہ تأثر دے رہے ہیں کہ امام محمدؒ سے اما م شافعیؒ کے تلمذ کے قائل صرف رافضی ہیں ، حالانکہ بحوالہ گذر چکا ہے، کہ خود امام شافعیؒ سمیت متعدد محدثین نے امام شافعیؒ کے امام محمدؒ سے تلمذ کی تصریح کی ہے۔(دیکھئے ص : )

 کیا یہ سب حضرات بھی علی زئی کی نظر میں رافضی ہیں؟

نیز امام شافعیؒ کی ’’مسند‘‘ میں بھی امام محمدؒ سے کئی احادیث مروی ہیں ، اور ان میں ایک حدیث کی سند بحوالہ مولانا عظیم آبادیؒ غیر مقلد ہم نقل بھی کرچکے ہیں،اس شہادت کا زبیر علی زئی  اور اہل حدیث کیا کریں گے۔

              اور پھر حافظ ابن تیمیہؒ کے دو حوالے بھی ہم ذکر کر چکے ہیں ، جن میں انہوں نے بھی امام محمدؒ سے امام شافعیؒ کے آپ سے استفادہ کرنے کا اقرار کیاہے۔

              اب علی زئی صاحب کی دیانت داری ملاحظہ کریں کہ خود امام شافعیؒ بھی امام محمدؒ سے اپنے تلمذ کا اقرار کر رہے ہیں، اور دیگر محدثین اور علمائے غیر مقلدین بھی اس کی تصریح کر رہے ہیں، حافظ ابن تیمیہؒ (م۷۲۸؁ھ) بھی دوسری جگہ امام شافعیؒ  کا امام محمدؒ کے شاگرد ہونے کی تصدیق کر رہے ہیں، اور سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ خودامام شافعیؒ کی مسند میں بھی امام محمدؒ سے مروی احادیث موجود ہیں، لیکن یہ سب حوالہ جات تو علی زئی کی نظر میں مردود ٹھہر رہے ہیں، اور حافظ ابن تیمیہؒ کا ایک شاذ قول ہی ان کے ہاں معتبر قرار دیا جارہا ہے۔

بریں عقل و دانش بباید گریست

              اور پھر علی زئی نے حافظ ابن تیمیہؒ کا یہ حوالہ نقل کرنے میں بھی دجل و تلبیس کا مظاہرہ کیا ہے، اور ان کی پوری عبارت نقل نہیں کی ، کیونکہ اس سے علی زئی کے اپنے موقف پر زد پڑتی تھی، وہ اس طرح کہ جس رافضی کی حافظ ابن تیمیہؒ نے تردید کی ہے اس نے نہ صرف یہ کہ امام محمدؒ سے امام شافعیؒ کے تلمذ کا ذکر کیا ہے بلکہ اس نے امام شافعیؒ سے امام احمدؒ کے تلمذ کا بھی ذکر کیا تھا، اور حافظ نے اس کی ان دونوں باتوں کی تردید کی ہے۔ (جوخلاف تحقیق ہے) چنانچہ حافظ موصوف کی جو عبارت علی زئی نے ذکر کی ہے، اس سے آگے ان کی عبارت یوں ہے:

              ’’وکذالک احمدبن حنبل لم یقرأ علی الشافعی لکن جالسہ کما جالس الشافعی محمد بن الحسن، واستفاد کل منھما من صاحبہ ‘‘۔ (منھاج السنۃ: ۴؍۱۴۳)

              (امام شافعیؒ نے جیسے امام محمدؒ سے نہیں پڑھا) اسی طرح امام احمد ابن حنبلؒ نے بھی امام شافعیؒ سے نہیں پڑھا، بلکہ صرف ان کے پاس بیٹھے ہیں جیسا کہ امام شافعیؒ ، امام محمد بن الحسنؒ کے پاس بیٹھے تھے، اور ان دونوں میں سے ہر ایک نے اپنے ساتھی سے استفادہ کیا ہے۔

              علی زئی صاحب نے حافظ موصوف کی یہ عبارت اس لئے چھوڑ دی ہے کیونکہ اس میں امام شافعیؒ سے امام احمدؒ کے تلمذ کی بھی نفی ہے، جب کہ علی زئی امام شافعیؒ کو امام احمدؒ کے استاذ تسلیم کرتے ہیں، چنانچہ لکھتے ہیں: ابو حاتم رازیؒ نے امام احمد کو علم حدیث میں ان کے استاذ امام شافعیؒ پر ترجیح دی ہے۔  (الحدیث:ش۲۵،ص۳۹)

یہ ہے علی زئی کا انصاف !  کہ حافظ ابن تیمیہؒ کی آدھی بات ان کے ہاں مقبول ہے ، اور آدھی بات مردود ، گویا

میٹھا میٹھا ہپ

کڑوا کڑوا تھو

خلاصہ امام محمدؒ سے امام شافعیؒ کے عدم تلمذ پر زبیر علی زئی  اور اہل حدیث حضرات کی ہٹ دھرمی باطل اور مردود ہے۔

[45] پاک وہند کے بعض غیرمقلدین امام شافعیؒ کی طرف منسوب اِن مَن گھڑت سفرناموں کو شائع کرتے ہیں، اور ان کو امام محمدؒ اور امام شافعیؒ کے درمیان مخالفت اور دشمنی ثابت کرنے کے لئے بطور استدلال پیش کرتے ہیں، یہاں تک کہ غیر مقلدین کے استاذ العلماء مولانا محمد گوندلویؒ غیر مقلد نے ایسے ہی ایک جھوٹے سفر نامے کے چند اقتباسات نقل کرکے امام محمدؒ سے امام شافعیؒ کے تلمذ کو محض افسانہ قرار دے دیا۔ (التحقیق الراسخ:ص۱۸۶)  انا للہ ……

یہ ہے اُن کے استاذ العلماء کا حال تو پھر اندازہ لگا لیں کہ اُن کے جُہلاء کا کیا حال ہوگا؟

قیاس کن ز گلستان من بہار را

[46]  امام محمدؒ سے امام احمدؒ کے تلمذ پر علی زئی کی نکتہ چینی کی حقیقت:

اعتراض :  

علی زئی امام احمدؒ کے مذکورہ بالا قول پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں:  اس روایت کے راوی ابو بکر القراطیسی کی توثیق نامعلوم ہے ، اور دوسرے  یہ کہ اس کا تعلق روایت حدیث سے نہیں ہے۔ (الحدیث: ش۷،ص۱۸)

جواب  :

اولاً:       یہ روایت تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۴،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۷۳ پر موجود ہے۔اس کی سند یوں  ہے،حافظ المشرق امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ :

حَدَّثَنِي الخلال، قَالَ: حدثنا علي بن عمرو، أن علي بن محمد النخعي حدثهم، قَالَ: حدثنا أبو بكر القراطيسي، قَالَ: حدثنا إبراهيم الحربي، قَالَ: سألت أحمد بن حنبل، قلت: هذه المسائل الدقائق من أين لك، قَالَ: من كتب محمد بن الحسن۔

اس سند میں امام  علی بن محمد ابن کاس النخعیؒ (م۳۲۴؁ھ) کے استاذ  ابو بکر القراطیسیؒ  پر زبیر علی ئی نے اعتراض کیا  ہے کہ  ان کی توثیق نا معلوم ہے،لیکن   حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ) نے اس روایت کو حسن کہا ہے۔(مناقب : ص۸۶،دیکھئے ص :۱۵۶)

اور کسی روایت  کی تصحیح و تحسین اس روایت  کے ہر ہر راوی کی توثیق  ہوتی ہے۔(مجلہ الاجماع : ش ۴ : ص۲) لہذا اس روایت میں ابو بکر القراطیسیؒ، حافظ ذہبیؒ کے نزدیک  صدوق ہیں،نیزپچھلی روایت سے  بھی،امام احمد کا امام محمد سے روایت لینا ثابت ہوتا ہے۔

الغرض ہر لحاظ سے علی زئی کا اعتراض  باطل ہے۔

ثانیاً:       اس قول کے صحیح ہونے کے لئے یہی دلیل کافی ہے ہے کہ مؤرخِ اسلام حافظ ابن کثیرؒ نے اپنی تاریخ میں اس قول کو نقل کرکے اس پر کوئی جرح وقدح نہیں کی۔  (البدایہ والنھایہ:۷؍۱۹۷) اور غیر مقلدین کے امام العصر مولانا ابراہیم سیالکوٹیؒ نے امام ابن کثیرؒ کے بارے میں تصریح کی ہے کہ ان کی عام روش یہی ہے کہ وہ قابلِ جرح روایت پر جرح ظاہر کردیتے ہیں۔  (سیرت المصطفیٰ ﷺ:۱۸۳)  بنا بریں امام ابن کثیرؒ کا اس قول کو نقل کرنے کے بعد جرح سے سکوت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک اس قول کی سند صحیح ہے، لہٰذا اس قول کی سند کے راوی ’’القراطیسی‘‘ کو مجہول کہنا غلط ہے۔

ثالثاًً:     اگر اس کی توثیق معلوم نہ بھی ہو تو پھر بھی کوئی مضر نہیں کیونکہ علی زئی کے انتہائی ممدوح مولانا محمد گوندویؒ غیر مقلد (جن کو علی زئی نے ’’شیخ الاسلام، حجۃ الاسلام، شیخ القرآن والحدیث، الامام التقہ، المتقن الحجہ، المحدث الفقیہ، الاصولی‘‘ قرار دیا ہے،الکوکب الدریۃ:ص۷) نے ایک راوی جس کی توثیق نامعلوم ہے ، کے بارے میں لکھتے ہیں :

              مگر عدم علم سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ مجہول ہو۔  (خیرالکلام:ص۲۴۸)

              نیزوہ لکھتے ہیں علامہ ذہبی ؒ فرماتے ہیں: صحیحین (صحیح بخاری صحیح مسلم) کےرُوات (راویوں) میں بہت سے ایسے ہیں جن کی توثیق صراحتاً کسی سے ثابت نہیں ہے۔  (ایضاً:ص۱۶۹)

              اسی طرح انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ علامہ عراقی فرماتے ہیں جو محدث مجروح نہ ہو وہ آنحضرت ﷺ کے اس قول کہ (اس علم کے اٹھانے والے عادل ہوں گے) عادل ٹھہرے گا۔ (ایضاً:ص۱۶۸)

علی زئی کے اس انتہائی ممدوح کے مذکورہ اقتباسات سے واضح ہوگیا کہ کسی راوی کی توثیق معلوم نہ ہونا مضر نہیں ہے ، بشرطیکہ وہ مجروح نہ ہو، اور ابوبکر قراطیسیؒ کا مجروح ہونا ثابت نہیں ہے، ورنہ علی زئی حوالہ پیش کریں، اور پھر اس کی مذکورہ روایت کی تائید پہلی روایت سے بھی ہورہی ہے ، جس میں امام احمدؒ کا امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ سے دو قناطیر علم لکھنے کا ذکر ہے ، اور وہ روایت بالکل صحیح ہے ، لہٰذا متابعت کی صورت میں یہ روایت بھی قابلِ حجت ہے۔

              رہا علی زئی کا یہ کہنا کہ اس قول کا روایتِ حدیث سے تعلق نہیں ہے ، تو جواباً عرض ہے کہ اس پر زبیر علی زئی  کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔

              اور اگر اس قول کا تعلق روایتِ حدیث سے نہ بھی ہو بلکہ فقہی مسائل سے ہو تو پھر بھی کوئی حرج نہیں ، کیونکہ امام احمدؒ کے پہلے قول کا تعلق تو ضرور روایت حدیث سے ہےکیونکہ شیخ معلمیؒ غیر مقلد (جن کو علی زئی صاحب: ’’ذہبی عصر حقا‘‘ قرار دیتے ہیں۔ (نور العینین:ص۱۱۹) کی تصریح گزرچکی ہے کہ امام احمدؒ کے امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ سے تین قناطیر لکھنے کا ظاہری مطلب یہی ہے کہ امام احمدؒ نے ان دونوں سے ان کی مروی احادیث لکھی تھیں، لہٰذا امام احمدؒ کے پہلے قول سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ امام محمدؒ اُن کے نزدیک روایتِ حدیث میں بااعتماد تھے، اور دوسرے قول سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے ہاں آپ فقہ میں بھی قابلِ حجت اور قابلِ استدلال تھے، اور امام احمدؒ نے فقہ اور حدیث دونوں علوم میں آپ سے فائدہ اٹھایا ہے۔  وھذا ھو مطلوبنا۔

         نیز حافظ قاسم بن قطلوبغا ؒ  نے تصریح کی ہے کہ امام احمد ؒ نے امام محمدؒ سے ان کی کتب سنیں اور ان کو روایت بھی کیا ہے۔دیکھئے (ص:۱۳۱) اور امام محمد ؒ کے کتب  مثلاً کتاب الآثار،موطا،کتاب الاصل المعروف بالمبسوط،جامع الصغیر وغیرہ میں مرفوع وموقوف اور مقطوع احادیث موجود ہیں۔

              لہذا ہر  لحاظ سے زئی صاحب کا اعتراض باطل ومردود ہے۔

[47] امام محمدؒ سے امام ابن معینؒ(م۲۳۳؁ھ) کے تلمذ پر علی زئی کے اعتراض کی حقیقت:

              معترض زبیر علی زئی نے یہ تسلیم کیا ہے کہ مذکورہ قول کی سند امام یحییٰ بن معینؒ تک صحیح ہے۔ (الحدیث:ش۷،ص۱۴ج۱) لیکن آگے اپنی عادت کے موافق اس قول پر یہ نکتہ چینی کردی کہ ’’الجامع الصغیر‘‘ لکھنے کے بعد امام یحییٰ بن معینؒ کس نتیجے پر پہنچے اس کا تذکرہ عباس الدوری کی تاریخ میں ہے ۔

              قال یحییٰ بن معین: محمد بن الحسن الشیبانی لیس بشئی۔  (تاریخ ابن معین روایۃ الدوری:۱۷۷۰) یعنی محمد بن الحسن الشیبانیؒ کچھ چیز نہیں ہے ۔  (الحدیث:ش۷، ص۱۴)

              جواب:    امام ابن معین کے اس قول: ’’لیس بشئی‘‘ کا جائزہ تو ہم ان شاء اللہ امام محمدؒ کے خلاف منقول جرح کے جواب میں لیں گے ،کہ یہ کلمہ جرح ہے بھی یا نہیں ،اور اس کا کیا مطلب ہے۔

              لیکن حافظ  ابن معینؒ (م۲۳۳؁ھ) خود کہتے ہیں کہ :

            ’’ ليس الحافظ عندنا إِلا مَن كان في كتابه حَدثنا، فيقول: حَدثنا، فإذا لم يكن في كتابه حَدثنا وقال: حَدثنا، فليس بشيءٍ ‘‘

              ہمارے نزدیک حافظ وہی شخص ہے جس کی کتاب میں ’’حدثنا‘‘ موجود ہے ،پھر وہ خود بھی حدثنا کہتا ہے۔لیکن جب  اس کی کتاب میں ’’حدثنا‘‘ نہیں اور وہ حدثنا کہتا ہے، تو وہ لیس بشئ ہے۔(تاریخ یحیی بن معین   بروایت ابن محرز : ج۲ : ص ۵۳)

              معلوم ہوا کہ امام یحیی بن معینؒ   اپنی اس شرط کی  وجہ سے   راوی کے بارے میں  لیس بشئ کہتے تھے،اور امام محمد ؒ کی جامع الصغیر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب میں حدثنا موجود نہیں ہے۔دیکھئے  (جامع الصغیر : ص ۷۱)،اسی وجہ سے ان ہوں نے امام محمد ؒ کو  لیس بشئ  کہا ۔

مگر امام  محمد ؒ نے صراحت فرمائی کہ ’’ ما سمعت منها الا جامع الصغير ‘‘ میں نےامام   ابو یوسفؒ سے جامع الصغیر سنی ہے۔ ( تاریخ یحیی بن معین   بروایت ابن محرز : ج۲ : ص ۱۵۵)، یہی وجہ ہے کہ امام یحیی بن معین ؒ نے ان سے روایت لی ہے،جیسا کہ اوپر  حوالہ نقل کیا گیا،اور کتاب میں ’’حدثنا‘‘ نہیں ہونے کی وجہ سے ان کو  لیس بشئ بھی کہا ۔

خلاصہ یہ کہ  یہاں  اس صورت میں یہ کوئی کلمہ جرح نہیں ہے،بلکہ ابن معین ؒ کی خاص  اصطلاح،ان کے منہج  کی طرف اشارہ ہے۔

              لہذا زبیر علی زئی صاحب کا  اس جملے کو جرح پر محمول کرنا باطل و مردود ہے۔

              نیز  یہ بات تو مسلم ہے کہ امام یحیی بن معینؒ نے امام محمدؒ سے الجامع الصغیر لکھی، اور الجامع الصغیر میں حدیث رسول اللہ ﷺ اور امام ابو حنیفہؒ (م۱۵۰؁ھ) کی کئی  مقطوع احادیث موجود ہیں۔دیکھئے   (جامع الصغیر : ص ۱۳۱،۹۹،۷۱)

              لہذا ثابت ہوا کہ امام یحیی بن معینؒ نے امام محمدؒ سے احادیث تحریر فرمائیں ،اورروایات لکھی ہیں۔

غالباً یہی وجہ ہے کہ  حافظ ذہبیؒ ۷۴۸؁ھ) اور حافظ قاسم بن قطلوبغاؒ ۸۷۹؁ھ) وغیرہ محدثین نے تصریح کی ہے کہ امام یحیی بن معینؒ نے امام محمدؒ سے روایات لکھی ہیں۔(مناقب ابی حنیفہ وصاحبہ:ص۵۰، تاج التراجم :ص۱۵۹)

[48] یہ قول صحیح سند کے ساتھ ثابت  ہے۔ دیکھئے ص :۱۲۷  ۔

[49] یہ روایت تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۳،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۶۶ پر موجود ہے۔اس کی سند یوں  ہے،حافظ المشرق امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ

              أَخْبَرَنَا علي بن أبي علي، قَالَ: أخبرنا طلحة بن محمد بن جعفر، قَالَ: حَدَّثَنِي أبو الحسن محمد بن إبراهيم بن حبيش البغوي، قَالَ: حَدَّثَنِي جعفر بن ياسين، قَالَ: سمعت الربيع بن سليمان يقول وقف رجل على الشافعي فسأله عن مسألة فأجابه، فقال له الرجل: يا أبا عبد الله حالفك الفقهاء، فقال له الشافعي: وهل رأيت فقيها قط؟ اللهم إلا أن تكون رأيت محمد بن الحسن فإنه كان يملأ العين والقلب، وما رأيت مبدنا قط أذكى من محمد بن الحسن، وَقَالَ ابن حبيش: حَدَّثَنِي جعفر بن ياسين، قَالَ: كنت عند المزني فوقف عليه رجل فسأله عن أهل العراق،

 فقال: له ما تقول في أبي حنيفة؟ قَالَ سيدهم.

قَالَ: فأبو يوسف؟ قَالَ: أتبعهم للحديث.

قَالَ: فمحمد بن الحسن؟ قَالَ أكثرهم: تفريعا.

قَالَ فزفر؟ قَالَ: أحدهم قياسا.

              اس کی سند میں علی بن ابی علی ؒ(م۴۴۷؁ھ) اورطلحہ بن محمد الشاھد (م۳۸۰؁ھ) کی توثیق  کے لئے دیکھئے  (ص:۴۴)

طلحہ بن محمد بن جعفر ؒ (م۳۸۰؁ھ) کے شیخ  ابو الحسن محمد بن ابراھیم بن حبیش البغویؒ (۳۳۸؁ھ) پر کلام  ہے،لیکن  ان کو  حافظ المشرق،امام خطیب بغدادیؒ(م۴۶۳؁ھ)،ثقہ راوی عبد اللہ بن علی بن حمویہ ؒ وغیرہ نے معدل قرار دیا ہے۔(تاریخ بغداد : ج۱: ص ۴۲۶ ،۴۲۷)،جو کہ کلمہ توثیق میں سے ہے۔(دیکھئے ص :۴۳) اور حافظ ذہبیؒ نے ان کی اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔(مناقب : ص ۸۱،تاریخ الاسلام : ج۴: ص ۹۵۵)  نیز ان پر جرح  ’’ لم يكن بالقوي ‘‘ صرف ان کے اعلی درجہ کی ثقاہت کی نفی ،اور راوی کے صدوق ہونے  پر دلالت کرتا ہے،جیسا کہ غیر مقلدین کا کہنا ہے۔(توضیح الکلام : ص ۱۶۹،انوار البدر : ص ۷۱)  لہذا  وہ صدوق ہیں۔

اور چونکہ حافظ ذہبیؒ نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے،جیساکہ گزرچکا،   اس وجہ سے، جعفر بن یاسینؒ بھی صدوق ہیں، خلاصہ  یہ کہ یہ روا یت حسن ہے۔واللہ اعلم

نیز اس روایت کے  کئی معنوی متابعات موجود ہیں۔

متابع نمبر ۱:

امام شافعیؒ(م۲۰۴؁ھ)  فرمایا کرتے تھے:

’’مارأیت…أفقہ… من محمد بن الحسن‘‘

میں نے امام محمد بن حسنؒ سے زیادہ فقیہ کوئی شخص نہیں دیکھا۔  ( مناقب ابی حنیفۃو صاحبہ ص:۵۵)، اس کی سند صحیح ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے  ص :۱۲۷۔

ظاہرہے  جب کوئی  فقہ میں بے مثال ہوگا،تو اس کو دیکھ کراور اس کا کلام سن کر  آنکھوں کو اطمینان ہوگااور دل کو خوشی ہوگی۔

متابع نمبر ۲ :

امام ابو الحسن الآبریؒ(م۳۶۳؁ھ) نے کہا :

              حدثني محمد بن عبد الله بن جعفر بالشام, قال: حدثني أحمد بن علي المدائني بمصر, قال: حدثنا الربيع بن سليمان, قال: سمعت الشافعي يقول: ما تكلم أحدٌ في الرأي إلا وهو عيالٌ على أهل العراق, وما رأيت مثل محمد بن الحسن۔

         جو شخص بھی فقہ سے تعلق رکھتا ہے وہ اہل عراق کا محتاج ہے، اور میں نے محمد بن الحسن جیسا کسی کو نہیں دیکھا۔ (مناقب الشافعی للآبری : ج۱: ص ۷۸)

سند کی تحقیق :

(۱)         امام ابو الحسن محمد بن الحسین الآبریؒ (م۳۶۳؁ھ) مشہور محدث،امام اور  ثبت حافظ الحدیث ہیں۔(سیر : ج۱۶: ص ۲۹۹،تاریخ الاسلام : ج۸: ص ۴۹۶،۲۱۸،شذرات الذہب : ج۴: ص ۳۳۷: ج۲: ص ۹۶)

(۲)         ان کے شیخ  محمد بن عبد اللہ بن جعفر  ابو الحسین  الرازیؒ  (م۳۴۷؁ھ) بھی مشہور ثقہ، حافظ الحدیث ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۷: ص ۸۵۷)

(۳)        احمد بن علی  ،ابو علی  المدائنیؒ(م۳۲۷؁ھ) بھی صدوق ہیں۔(ارشاد القاصی والدانی : ص ۱۳۸)

(۴)        الربیع بن سلیمان، ابو محمد المصریؒ (م۲۷۴؁ھ) سنن ابو داود اور سنن نسائی کے راوی اور ثقہ ،فقیہ اور حافظ   ہیں۔(تقریب : رقم ۱۸۹۴)

معلوم ہوا کہ یہ سند حسن ہے۔واللہ اعلم

متابع نمبر ۳ :

              امام ابوبکرالبیہقیؒ (م۴۵۸؁ھ) نے کہا :

              أخبرنا أبو جعفر: محمد بن أحمد بن جعفر الخطيب القِرْمِيسيني، قال: حدثنا أبو القاسم: علي بن أحمد بن راشد الدّینَوَرَى، حدثنا عبد الله بن حَمْدَان الحافظ، قال: سمعت الربيع، يقول: سمعت الشافعي، يقول: ما رأت عيناي  مثل محمد بن الحسن، ولم تلد النساء في زمانه مثله

              امام شافعی ؒ (م۲۰۴؁ھ) نے فرمایا :  میری دونوں انکھوں نے محمد بن الحسن ؒ جیسا نہیں دیکھا، اورنہ   عورتوں نے ان جیسا ان کے زمانے میں  پیدا کیا۔ (مناقب الشافعی  : ج۱ : ص ۱۶۱)،

سند کی تحقیق :

(۱)         ابو بکر البیہقیؒ (م۴۵۸؁ھ) مشہور ثقہ،حافظ الحدیث ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۱۰ : ص ۹۵)

(۲)         محمد بن احمد بن جعفر ،ابو جعفر القرمیسینی ؒ صدوق اور شافعی  فقیہ ہیں۔(السلسبیل النقی : ص۵۳۵،المتفق و المفترق    : ج۲: ص ۹۲۲)

(۳)        علی بن احمد بن علی بن راشد العجلی الدینوری ؒ کی روایت  کو امام ابو بکر البیہقیؒ  (م۴۵۸؁ھ) نے بوجہ احتجاج  (استدلال)صحیح قرار دیا ہے۔(المتفق و المفترق  للخطیب  : ج۲: ص ۹۲۲،تاریخ دمشق : ج۶: ص ۵۵،مناقب الشافعی للبیہقی  : ج۱ : ص ۱۶۱،فتاوی نذیریہ   : ج۳ : ص ۳۱۶) اور کسی روایت کی تحسین و تصحیح اس  روایت کے ہر ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے،جیسا کہ غیر مقلدین کا اصول ہے۔(مجلہ الاجماع : ش ۴ : ص۲)

لہذا علی بن احمد بن علی بن راشد الدینوریؒ صدوق ہیں۔

(۴)        ابو محمد عبد اللہ بن محمد بن وھب بن حمدان  ؒ(م۳۰۸؁ھ) مشہور حافظ حدیث ہیں، انکے بارے میں ائمہ کا اختلاف ہےبعض نے جرح کی ہے،

امام ابن عدیؒ (م۳۶۵؁؁ھ) کہتے ہیں کہ  ایک قوم نے ان کو قبول کیا اور ان کو صدوق قرار دیا ہے۔امام ابو زرعہ الرازیؒ(م۲۶۴؁ھ)  ان سے   مذاکرہ  کرتے کرتے  عاجز آجاتےتھے۔امام ابو علی  النیساپوریؒ (م۳۴۹؁ھ) کہتے ہیں کہ وہ صاحب حدیث اور حافظ تھے،امام حاکمؒ (م۴۰۵؁ھ)، امام خطیب بغدادیؒ(م۴۶۳؁ھ)، حافظ ضیاء الدین مقدسیؒ(م۶۴۳؁ھ) وغیرہ نے ان کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ (المستدرک للحاکم : ج۲ : ص ۵۷۱،حدیث نمبر ۳۹۴۰،الفقيه و المتفقه للخطیب : ج۱: ص ۴۴۵،الاحادیث الامختارۃ : ج۵: ص ۲۰۷) ، امام ابو بکر الاسماعیلیؒ (م۳۷۱؁ھ) نے بھی ان کو صدوق قرار دیا ہے۔(لسان المیزان : ج۴: ص ۵۷۳،تاریخ دمشق : ج۳۲: ص ۳۷۴)،اور حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) کہتے ہیں کہ:

 ’’ وَمَا عَرَفتُ لَهُ مَتْناً يُتَّهَمُ بِهِ فَأَذْكُرَهُ، أَمَّا فِي تَرْكِيْبِ الإِسْنَادِ، فَلَعَلَّهُ ‘‘

ان سے مروی کوئی بھی ایسا متن تو مجھے نہیں ملا جس کی وجہ سے ان پر تہمت لگائی جائے ،تاکہ میں  اسے ذکر کروں ،  لیکن جہاں تک  سند کو بدلنے کی  بات تو شاہد ان ہونے کیا ہوں، [واللہ اعلم] ۔ (سیر :ج۱۴: ص ۴۰۱)

معلوم ہوا کہ ائمہ کی ایک جماعت کے نزدیک ابن وہب الحافظ صدوق ہیں اور ان پر  صرف سند کی ترکیب کا الزام ہے، لیکن چونکہ اس روایت کو انکے علاوہ الربیع بن سلیمان ؒ (م۲۷۴؁ھ) سےثقہ راوی  احمد بن علی  ،ابو علی  المدائنیؒ(م۳۲۷؁ھ) نے بھی روایت کیا ہے۔(دیکھئے متابع نمبر ۲)  لہذا اس روایت میں وہ صدوق اور مقبول ہیں۔

(۵)        الربیع بن سلیمان، ابو محمد المصریؒ (م۲۷۴؁ھ) سنن ابو داود اور سنن نسائی کے راوی اور ثقہ ،فقیہ اور حافظ   ہیں۔(تقریب : رقم ۱۸۹۴)

معلوم ہوا کہ اس کی سند بھی حسن ہے۔

متابع نمبر ۴ :

              امام  ابو الحسن الآبریؒ (م۳۶۳؁ھ) نے کہا :

            أخبرني أبو نعيم عبد الملك بن محمد بن عدي بجرجان, ومحمد بن يحيى بن آدم خادم المزني بمصر, عن الربيع بن سليمان, قال: سمعت الشافعي يقول: ما رأيت أحداً يسئل مسألةً فيها نظر إلا رأيت الكراهة في وجهه إلا محمد بن الحسن۔

              امام شافعی ؒ کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن الحسن  ؒ کے علاوہ  کوئی ایسا فقیہ نہیں دیکھا کہ جس سے کوئی  قابل غور (یا)  مشکل  مسئلہ  پوچھا گیا اور  اس کا چہرہ متغیر نہ ہوا  ہو۔(مناقب الشافعی للآبری : ص ۷۸)

سند کی تحقیق :

(۱)         امام ابو الحسن محمد بن الحسین الآبریؒ (م۳۶۳؁ھ)  کی توثیق گزرچکی۔

(۲)         امام ابو نعیم  عبد الملک  بن محمد بن عدیؒ (م۳۲۳؁ھ) ثقہ،حافظ اور فقیہ ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۶: ص ۴۶۶،ارشاد القاصی والدانی : ص ۴۰۱) ان کے متابع میں محمد بن یحیی بن آدم المصری بھی  صدوق ہیں۔(الکامل لابن عدی : ج۱: ص۱۰۰،ج۱: ص۷۹،نیز دیکھئے  انوار البدر : ص۲۲۵)

(۳)        الربیع بن سلیمان، ابو محمد المصریؒ (م۲۷۴؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔

              معلوم ہوا کہ اس کی سند صحیح ہے۔ واللہ اعلم

متابع نمبر ۵ :

              امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ) نے کہا  :

            حدثنا أبو إسحاق النيسابوري المعروف بالبيع قال ثنا محمد بن يعقوب الأصم قال ثنا الربيع بن سليمان قال كتب الشافعي إلى محمد بن الحسن وقد طلب منه كتبه لينسخها فأخرها عنه فكتب إليه قل لمن لم تر عين من رآه مثله۔۔۔۔۔۔

امام  شافعی ؒ (م۲۰۴؁ھ) کہتے ہیں : کہدو ان سے جن کو دیکھنے والوں کی آنکھ نے ان  جیسا  نہیں دیکھا۔ (اخبار ابی حنیفۃ و اصحابہ : ۱۲۷)

سند کی تحقیق :

(۱)         امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ)  کی توثیق گزرچکی۔(دیکھئے ص :۳۷ )

(۲)         ابراھیم بن محمد بن علی  ،ابو اسحاق النیساپوریؒ  بھی صدوق   ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۹: ص ۱۶۳،السلسبیل النقی : ص۱۸۳)

(۳)        محمد بن یعقوب  النیساپوری الاصمؒ (م۳۴۶؁ھ) ثقہ،حافظ اور اہل مشرق کے امام ہیں۔(الروض الباسم : ج۲ : ص ۱۲۸۱)

(۴)        الربیع بن سلیمان، ابو محمد المصریؒ (م۲۷۴؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔

الغرض اس کی سند   بھی حسن ہے۔

خلاصہ یہ کہ دوسری روایات سے ثابت ہے کہ امام محمد ؒ اپنے آپ میں بے مثل اور لاجواب  امام اور فقیہ تھے،جس کی وجہ سے یہ  ’’فانہ کان یملأ العین والقلب ‘‘ والی روایت  متن  کے لحاظ سے بھی  صحیح ہے۔

[50] اس کی تحقیق گزرچکی،دیکھئے ص :۹۰۔

[51] امام یحییٰ بن صالح الوحاظیؒ (م۲۲۲؁ھ) کا قول  تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۳،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۶۵ پر موجود ہے،اس کی سند یوں  ہے،حافظ المشرق امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ:

كتب إلي أبو محمد عبد الرحمن بن عثمان الدمشقي يذكر: أن خيثمة بن سليمان القرشي أخبرهم، قَالَ: أخبرنا سليمان بن عبد الحميد البهراني، قَالَ: سمعت يحيى بن صالح، يقول: قَالَ لي ابن أكثم: قد رأيت مالكا وسمعت منه ورافقت محمد بن الحسن فأيهما كان أفقة؟ فقلت: محمد بن الحسن فيما يأخذه لنفسه أفقه من مالك۔

سند کی تحقیق :

(۱)         حافظ المشرق امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ)  کی توثیق گزرچکی۔

(۲)         ابو محمد  عبد الرحمٰن بن عثمان الدمشقیؒ (م۴۲۰؁ھ) ثقہ،امام ہیں۔(الدلیل المغنی  : ص۲۲۳)

(۳)        خیثمہ بن سلیمان القرشیؒ (م۳۴۳؁ھ) مشہور ثقہ راوی ہے۔(تاریخ الاسلام : ج۷: ص ۷۷۸)

(۴)        سلیمان بن عبد الحمید البھرانی ؒ (م۲۷۴؁ھ)   سنن ابو داود کے راوی اور صدوق ہیں۔(تقریب : رقم ۲۵۸۴)

(۵)        امام یحییٰ بن صالح الوحاظیؒ (م۲۲۲؁ھ) ،ثقہ ،کبار ائمہ فقہاء اور محدثین میں سے ہے۔امام بخاریؒ (م۲۵۶؁ھ)،امام مسلمؒ (م۲۶۱؁ھ)  کے استاذ ہیں  ، حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ)  ان کو  امام،حافظ،فقیہ،عالم، حمص کے محدث اور فقیہ  ،ثقہ اور حجت قرار دیا  ہے۔(تذکرۃ الحفاظ : ج۱: ص ۲۹۹،الرواۃ الثقات  للذہبی : ص ۱۹۴،العبر :ج۱: ص ۳۰۳،المغنی : ج۲: ص ۷۳۷،سیر : ج۱۰: ص ۴۵۳)نیز حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ)نے ان ائمہ جرح و تعدیل  میں شمار کیا ہے۔(ذكر من يعتمد قوله في الجرح والتعديل: ص ۱۸۳)

لہذا یہ سند حسن ہے۔ واللہ اعلم

نوٹ :      امام شافعی ؒ کے اس  قول کی سند نہیں ملی۔

[52] دیکھئے ص :۴۵ ۔

[53] دیکھئے ص : ۱۶-۱۷۔

[54] حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ) نے یہ روایت  امام طحاویؒ(م۳۲۱؁ھ)  کی کتاب سے بالسند یوں نقل کی ہے کہ:

              الطحاوي، نا محمد بن شاذان، سمعت الأخفش النحوي، يقول: «ما وضع شيء لشيء قط يوافق ذلك، إلا كتاب محمد بن الحسن في الإيمان، فإنه وافق كلام الناس۔(مناقب الامام ابوحنیفۃ للذہبی : ص ۸۲،۱۹،۳۷)

کیونکہ  طحاوی ؒ(م۳۲۱؁ھ) نے امام ابوحنیفہؒ (م۱۵۰؁ھ) کے مناقب پر کتاب لکھی ہے۔(الجواھر والدرر للسخاوی، عقد الجمان : ص ۶۹)

سند کی تحقیق :

(۱)                امام طحاوی ؒ   مشہور ثقہ،حافظ الحدیث اور ثبت محدث ہیں۔(تاریخ الاسلام)

(۲)         محمد بن شاذان الجوھریؒ(م۲۸۶؁ھ) بھی ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم ۵۹۵۰)

(۳)        سعید بن مسعدۃ،ابو الحسن بصری ،الاخفش الاوسطؒ (م۲۱۵؁ھ) مشہور امام النحووالعربیۃ اور صدوق ہیں۔(سیر اعلام النبلاء : ج۱۰: ص ۲۰۶، دیوان الاسلام : ج۱: ص ۴۸،شذرات الذہب : ج۳: ص ۷۳)

              لہذا یہ سند حسن ہے۔

نیز ثقہ،ثبت،امام ابو القاسم ابن ابی العوامؒ(م۳۳۵؁ھ) نے اپنے شیخ ،امام طحاویؒ(م۳۲۱؁ھ) سے یہی روایت نقل کی ہے۔

(فضائل أبي حنيفة وأخباره ومناقبه:ص۳۵۱)

[55] یہ روایت تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۲،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۶۵ پر موجود ہے۔اس کی سند یوں  ہے،حافظ المشرق امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ:

              أخبرنا علي بن أبي علي قال أنبأنا طلحة بن محمد: قال حدثني مكرم بن أحمد قال نا أحمد بن عطية قال سمعت أبا عبيد يقول: ما رأيت أعلم بكتاب الله من محمد بن الحسن۔

         اس کی سند میں موجود  احمد بن محمد بن المغلسؒ(م۳۰۸؁ھ) پر ائمہ نے جرح کیا ہے۔(تاریخ الاسلام : ج۷: ص ۱۲۹)

              مگر متناً یہ روایت درست معلوم ہوتی ہے،کیونکہ امام ،حافظ ابو عبید قاسم بن سلامؒ (۲۲۴؁ھ) نے کئی مقامات پر  کتاب و سنت کی تشریح  امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ(م۱۸۹؁ھ) سے پوچھی ہے۔دیکھئے  غریب الحدیث لابی عبید:ت  محمد عبد المعید خان : ج۱: ص ۳۱،۷۹،۱۰۲،۳۳۵،ج۲: ص۲،۲۲،۷۲،۱۴۳،۱۵۴،۱۷۵،۲۳۸،وغیرہ)

              اور ظاہر سی بات ہے کہ ایک عالم اپنے سے زیادہ  جاننے والے سےہی  سوال پوچھتا ہے،امام ابو عیسی الترمذیؒ (م۲۷۹؁ھ) نے اپنی کتاب السنن اور علل میں امام بخاریؒ (م۲۵۶؁ھ) اور امام ابو محمد الدرامیؒ(م۲۵۵؁ھ) سے  حدیث کے تعلق سے سوالات اسی وجہ سے کئے ہیں، کیونکہ امام ترمذیؒ کے نزدیک یہ حضرات حدیث کے میدان میں   ’’اعلم‘‘ تھے۔امام عباس الدوریؒ (م۲۷۱؁ھ)،امام ابو سعید الدارمی ؒ(م۲۸۰؁ھ) وغیرہ ائمہ نے  امام یحیی بن معینؒ (م۲۳۳ ؁ھ) سے رجال اور علل  کے تعلق سے  اسی وجہ سے سوالات کئی ہیں،کیونکہ ان کے نزدیک امام یحیی بن معینؒ (م۲۳۳؁ھ)  ’’اعلم‘‘ تھے۔پس یہی معاملہ امام ،حافظ ابو عبید قاسم بن سلامؒ (۲۲۴؁ھ)  اور  امام محمد ؒ (م۱۸۹؁ھ) کا بھی ہے۔لہذا اس خارجی قرینہ  کی وجہ سے یہ روایت متناً درست ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ حافظ ذہبی ؒ نے  یہ روایت کو حسن کہا ہے۔(تاریخ الاسلام : ج۴: ص ۹۵۴) واللہ اعلم

[56] یہ روایت مکمل  سند کے ساتھ  فضائل ابی حنیفۃ اخبارہ و مناقبہ لابن ابی العوام  : ص ۳۵۰ پر موجود ہے۔ چنانچہ امام،حافظ ،قاضی  ابو القاسم ابن ابی العوامؒ (م۳۳۵؁ھ) کہتے ہیں کہ:

          سمعت أحمد بن محمد بن سلامة يقول: سمعت أبي يقول: سمعت إدريس بن يوسف القراطيسي يقول: سمعت الشافعي محمد بن إدريس يقول: ما رأيت أعلم بكتاب الله عز وجل من محمد بن الحسن، كأنه عليه نزل۔

         اس سند میں امام احمد بن محمد بن سلامۃ  المعروف ابو جعفر الطحاویؒ (م۳۲۱؁ھ) کے والد اور ادریس بن یوسف القراطیسیؒ کا ترجمہ اگرچہ نہیں ملا،لیکن حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ) نے اپنی کتاب مناقب میں موجود امام محمد ؒ کے  ترجمہ کو حسن، یعنی ان میں موجود روایات کو حسن کہا ہے۔(تاریخ الاسلام : ج۴: ص ۹۵۴) لہذا ابو جعفر الطحاویؒ (م۳۲۱؁ھ) کے والد اور  ادریس بن یوسف القراطیسیؒ  دونوں بھی حافظ ذہبی ؒ کے نزدیک صدوق ہیں۔

              اور یہ روایت حسن ہے۔واللہ اعلم  نیز دیکھئے  (اخبار ابی حنیفۃ  و اصحابہ : ص ۱۲۸)

 اور اس روایت کے کئی متابعات و شواھد  موجود ہیں۔

متابع نمبر ۱ :

              امام شافعی ؒ (م۲۰۴؁ھ) کہتے ہیں کہ:

              وهل رأيت فقيها قط؟ اللهم إلا أن تكون رأيت محمد بن الحسن فإنه كان يملأ العين والقلب، وما رأيت مبدنا قط أذكى من محمد بن الحسن

کیا تو نے کبھی کسی فقیہ کو دیکھا بھی ہے؟  ہاں !  اگر  تو نے محمد بن حسنؒ کو دیکھا ہو، اس لئے کہ  وہ (اپنے فقہی رعب سے) آنکھوں اور دل کو بھر دیتے تھے۔

اگے کہتے ہیں کہ میں نے کبھی  کسی  فربہ جسم آدمی  کو محمد بن الحسن  سے زیادہ  ذہین نہیں دیکھا۔ (تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۳،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۶۶ )

متابع نمبر ۲:

امام شافعیؒ(م۲۰۴؁ھ)  فرمایا کرتے تھے:

میں نے کوئی شخص عقلمندی ، پرہیزگاری،فقاہت ، تقویٰ اور اچھی گفتگو کرنے میں امام محمد بن حسنؒ سے بڑھ نہیں دیکھا ۔   ( مناقب ابی حنیفۃو صاحبہ ص:۵۵)

ظاہرہے  جب کوئی  بے مثال ہوگا،تو اس کو دیکھ کراور اس کا کلام سن کر  آنکھوں کو  ٹھنڈک اور دل کو خوشی ہوگی۔

متابع نمبر ۳ :

         امام شافعی ؒ (م۲۰۴؁ھ) کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد بن الحسن جیسا کسی کو نہیں دیکھا۔ (مناقب الشافعی للآبری : ج۱: ص ۷۸)

متابع نمبر ۴ :

              امام شافعی ؒ (م۲۰۴؁ھ) نے فرمایا :  میری آنکھوں نے محمد بن الحسن ؒ جیسا نہیں دیکھا، اور  عورتوں نے ان جیساان کے زمانے میں  پیدا نہیں کیا۔(مناقب الشافعی للبیہقی   : ج۱ : ص ۱۶۱)،

متابع نمبر ۵ :

              امام شافعی ؒ(م۲۰۴؁ھ)  کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن الحسن  ؒ کے علاوہ  کوئی ایسا فقیہ نہیں دیکھا کہ جس سے کوئی  قابل غور(یا) مشکل  مسئلہ  پوچھا گیا اور  اس کا چہرہ متغیر نہ ہوا  ہو۔(مناقب الشافعی للآبری : ص ۷۸)

متابع نمبر ۶ :

            امام  شافعی ؒ (م۲۰۴؁ھ) کہتے ہیں کہ  کہدو امام محمد بن حسن ؒ سے،جن کو دیکھنے والوں کی آنکھ نے ان جیسا  نہیں دیکھا۔(اخبار ابی حنیفۃ و اصحابہ : ص ۱۲۷)

              یہ تمام سندیں حسن ہیں۔ دیکھئے  ص : ۹۱

متابع  نمبر ۷ :

امام ابو الحسن الآبریؒ(م۳۶۳؁ھ) نے کہا :

              أخبرني محمد بن يحيى المصري خادم المزني، أن الربيع بن سليمان أخبرهم، قال: سمعت الشافعي يقول: حملت عن محمد بن الحسن [حمل] بختي ليس عليه إلا سماعي۔

            امام شافعی ؒ(م۲۰۴؁ھ)  کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد بن الحسن ؒ سے  ایک  بختی اوٹ کے بقدر علم  حاصل کیا ،جس کو میں نے  خود ان سے سنا تھا۔ (مناقب الشافعی للآبری : ص ۷۸)

سند کی تحقیق :

(۱)         امام ابو الحسن محمد بن الحسین الآبریؒ (م۳۶۳؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔

(۲)         ابو بکر محمد بن یحیی بن آدم المصری بھی  صدوق یا ثقہ ہیں۔دیکھئے (مناقب الشافعی للآبری : ص ۶۷،الکامل لابن عدی : ج۱ : ص ۱۰۰،۷۹)

(۳)        الربیع بن سلیمان، ابو محمد المصریؒ (م۲۷۴؁ھ)  کی توثیق بھی گزرچکی۔

لہذا یہ سند بھی حسن ہے۔

نوٹ :

              یہ روایت  صحیح سند کے ساتھ   امام ابن ابی حاتمؒ (م۳۲۹؁ھ) کی کتاب ’’آداب الشافعی  و مناقبہ‘‘ میں موجود ہے۔(دیکھئے ص : ۲۶) نیز یہ  اور اگلی روایت  صاف دلالت کرتی ہے کہ امام شافعیؒ نے امام محمد بن الحسن ؒ سے روایت لی ہے۔

متابع نمبر ۸:

امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ) نے کہا :

              أخبرنا عمر بن إبراهيم المقرىء قال ثنا مكرم قال أنبأ الطحاوي قال ثنا أحمد ابن داود بن موسى قال سمعت حرملة قال سمعت الشافعي يقول ما رأيت أحدا قط إذا تكلم رأيت القرآن نزل بلغته إلا محمد بن الحسن فأنه كان إذا تكلم رأيت القرآن نزل بلغته ولقد كتبت عنه حمل بعير ذَکَرٍ وإنما قلت ذكر لأنه بلغني أنه يحمل أكثر مما تحمل الأنثى

         میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا کہ جب وہ بات کرے تو مجھے ایسا لگے کہ قرآن اس کی زبان میں نازل ہوا ہے، سوائے محمد بن الحسن کے، اس لئے کہ جب وہ بات کرتے تھے تو مجھے ایسا لگتا کہ قرآن ان کی زبان میں نازل ہوا ہے، میں نے ان سے ایک نر اونٹ کے وزن اٹھانے کے بقدر علم لکھا ہے، اور میں نے نر اونٹ اس لئے کہا کیوں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ وہ مادہ (اونٹنی) سے زیادہ بوجھ اٹھاتا ہے۔۔(اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ : ص۱۲۸،نیز دیکھئے  مناقب الشافعی للآبری : ص ۷۸، تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۲،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۶۵ )

سند کی تحقیق :  

(۱)         امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ)

(۲)         امام عمر بن ابراھیم،ابو حفص  الکتانیؒ (م۳۹۰؁ھ)

(۳)        مکرم القاضیؒ (م۳۴۰؁ھ)  اور

(۴)        امام طحاویؒ (م۳۲۱؁ھ)  کی توثیق گزرچکی۔

(۵)        احمد بن داود بن  موسی المکیؒ  (م۲۸۲؁ھ) بھی ثقہ ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۱: ص ۳۳۳)

(۶)         حرملہ بن یحیی المصریؒ (م۲۴۴؁ھ)  صحیح مسلم کے راوی  اور صدوق ہیں۔(تقریب : رقم ۱۱۷۵)

لہذا یہ سند بھی حسن ہے۔

نوٹ :

              اس روایت سے فضائل ابی حنیفۃ اخبارہ و مناقبہ لابن ابی العوام    والی روایت  ’’ ما رأيت أعلم بكتاب الله عز وجل من محمد بن الحسن، كأنه عليه نزل ‘‘ کی واضح  تائید ہوتی ہے۔ واللہ اعلم

متابع نمبر ۹ :

امام ابو الحسن الآبریؒ(م۳۶۳؁ھ) نے کہا :

              وقرئ على مكحول بساحل الشام بمدينة بيروت وأنا أسمع، أنه سمع إبراهيم بن خرزاذ أخا عثمان بن خرزاذ أظن أنه قال: سمعت حرملة يقول: سمعت الشافعي يقول: ((كتبت عن محمد بن الحسن وقر حمل))

              امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد بن الحسن سے ایک اوٹ پر لادے جانے کے بقدر (روایات  اور علم کی کتابیں) لکھی ہے۔

(مناقب الشافعی للآبری : ص ۷۶)

سند کی تحقیق :

(۱)         امام ابو الحسن محمد بن الحسین الآبریؒ (م۳۶۳؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔

(۲)         مکحول سے مراد  ابو عبد الرحمٰن  محمد بن  عبد اللہ بن عبد السلام  مکحول البیروتیؒ(م۳۲۱؁ھ) ہیں۔( مناقب الشافعی للآبری :ص ۱۰۰) اور وہ  مشہور ثقہ اور مضبوط راوی ہیں۔(ّارشاد القاصی والدانی : ص ۵۸۱)

(۳)        ابراھیم بن خرزاذ کی روایت کو امام ابو عوانہؒ (م۳۱۶؁ھ) نے صحیح ابی عوانہ میں نقل کیا ہے۔(صحیح ابی عوانہ : ج۱۰: ص ۳۳۱،ج۱۳: ص ۳۲۸،ج۱۸: ص ۳۲۰،۳۴۷،۴۵۷،وغیرہ)

              لہذا وہ بھی امام ابو عوانہؒ (م۳۱۶؁ھ) کے نزدیک کم از کم   صدوق ہیں۔

(۴)         حرملہ بن یحیی المصریؒ (م۲۴۴؁ھ)  کی توثیق گزرچکی۔

لہذا یہ سند حسن ہے۔

متابع نمبر ۱۰ :

امام  ابن ابی حاتم ؒ(م۳۲۹؁ھ) نے کہا :

قال: حدثني أبو بشر بن أحمد بن حماد الدولابي نزيل مصر، ثنا أبو بكر بن إدريس يعني كاتب الحميدي، قال: سمعت عبد الله بن الزبير بن عيسى القرشي الحميدي، قال: قال الشافعي:۔۔۔۔۔ وكان محمد بن الحسن، جيد المنزلة، فاختلفت إليه، وقلت: هذا أشبه لي من طريق العلم، فلزمته، وكتبت كتبه، وعرفت قولهم، وكان إذا قام ناظرت أصحابه۔

              امام شافعی ؒ(م۲۰۴؁ھ) نے کہا : کہ امام محمد بن الحسن ؒ  (م۱۸۹؁ھ) کا علمی مقام بہت خوب تھا ،   لہذا میں آپ کے پاس جاتا رہا ، میں نے کہا : حصول علم کیلئےیہ میرےلئے زیادہ مناسب ہے، پس میں نے آپ کو لازم پکڑا ، آپ کی کتابیں لکھ لیں، اور ان کا قول سمجھ لیا ، اور جب آپ (مجلس سے ) اٹھتے تو آپ کے شاگردوں سے میں مناظرہ کرتا۔( آداب الشافعی  و مناقبہ لابن ابی حاتم :  ۲۶)

سند کی تحقیق :

(۱)         امام ابو عبد الرحمٰن ابن ابی حاتمؒ(م۳۲۹؁ھ) مشہور ثقہ،حافظ الحدیث اور ائمہ جرح و تعدیل میں سے ہے۔

(۲)         امام،حافظ ابو بشر الدولابیؒ(م۳۱۰؁ھ) کی توثیق  گزرچکی،دیکھئے (دوماہی مجلہ الاجماع : ش ۴ : ص ۲)

(۳)        ابوبکر ،محمد بن ادریس بن عمر المکی، وراق الحمیدیؒ  بھی صدوق ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۸ : ص ۱۶۷)

(۴)        امام عبد اللہ بن زبیر الحمیدیؒ (م۲۱۹؁ھ) مشہور ثقہ، امام اور حافظ الحدیث ہیں۔(تقریب : رقم ۳۳۲۰)

لہذا یہ سند بھی حسن ہے۔

وضاحت :

              اس روایت میں امام شافعیؒ نے دین میں امام محمد ؒ (م۱۸۹؁ھ) کے بلند مقام اورحیثیت کی شہادت دی ہے،جس سے ان کے نزدیک امام  محمد ؒ  کا  معتبر ہونا صاف  ظاہر ہے۔

متابع نمبر ۱۱:

حافظ المشرق ،امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) نے کہا :

              أخبرنا رضوان بن محمد الدينوري قال سمعت الحسين بن جعفر العنزي بالري يقول سمعت أبا بكر بن المنذر يقول سمعت المزني يقول سمعت الشافعي يقول: ما رأيت سمينا أخف روحا من محمد بن الحسن، وما رأيت أفصح منه، كنت إذا رأيته يقرأ كأن القرآن نزل بلغته

              میں نے کسی فربہ بدن کو محمد بن الحسن سے زیادہ نرم دل نہیں دیکھا، اورنہ آپ سےزیادہ کسی کو فصیح دیکھا ، جب میں آپ کو پڑھتے ہوئے دیکھتا تو (یوں محسوس کرتا) گویا قرآن آپ کی زبان میں نازل ہوا ہے۔(تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۲،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۶۵ )

سند کی تحقیق :

(۱)         حافظ المشرق ،امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔

(۲)         رضوان بن محمد الدینوریؒ (م۴۲۶؁ھ) صدوق ہیں۔(تاریخ بغداد : ج۹: ص ۴۳۱، طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت)

(۳)        الحسین بن جعفر العنزیؒ (م۳۹۸؁ھ) ثقہ،امام اورفقیہ ہیں۔(الروض الباسم : ج۱: ص ۴۴۲)

(۴)        ابو بکر ابن المنذر ؒ(م۳۱۹؁ھ) مشہور ثقہ،مجتہد اور حافظ الحدیث ہیں۔(لسان المیزان: ج۶: ص ۴۸۲)

(۵)        الربیع بن سلیمان، ابو محمد المصریؒ (م۲۷۴؁ھ)  کی توثیق بھی گزرچکی۔

لہذا یہ سند حسن ہے۔

متابع نمبر ۱۲:

حافظ المشرق ،امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) نے کہا :

حدثني الحسن بن محمد بن الحسن الخلال قال أنبأنا علي بن عمرو الحريري أن أبا القاسم علي بن محمد بن كاس النخعي حدثهم قال نبأنا أحمد بن حماد بن سفيان قال سمعت الربيع بن سليمان قال سمعت الشافعي يقول: ما رأيت أعقل من محمد بن الحسن.

              امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ میں امام محمد ؒ سے زیادہ عقلمند کسی کو نہیں دیکھا۔(تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۲،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۶۵ )

              اس روایت کے تمام روات ثقہ ہیں۔ جس کی تفصیل کتب  اسماء الرجال میں موجود ہے۔

              اسی سند کے ساتھ، حافظ المشرق ،امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) نے امام شافعیؒ (م۲۰۴؁ھ) ایک اور قول ذکر کیا ہے  کہ ’’ أمن الناس علي في الفقه محمد بن الحسن ‘‘فقہ (سکھانے ) میں سب سے زیادہ مجھ پر احسان امام محمدبن حسنؒ کا ہے۔ (تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۳،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۶۷)

            اسی طرح ایک اور  روایت میں امام شافعیؒ  (م۲۰۴؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’ لم يزل محمد بن الحسن عندي عظيما جليلا‘‘  امام محمد بن الحسنؒ  میرے نزدیک برابر ایک عظیم اور جلیل القدر انسان تھے۔(مناقب الشافعی للبیہقی : ج۱: ص ۱۱۷،نیز دیکھئے متابع نمبر ۱۰)

              ایک اور جگہ امام محمد بن ادریس ؒ(م۲۰۴؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’ كنت لا أدْري أحداً آنَسُ به إلا محمد بن الحسن، وكُنْت أَميلُ إليه؛ للفقه ‘‘  میں کسی کو نہیں جانتا تھا جن سے مجھے انس ہو سوائے امام محمد بن الحسنؒ کے اور میں فقہ کی وجہ سے آپ کی طرف مائل تھا۔ (مناقب الشافعی للبیہقی : ج۱: ص ۱۱۳، نیز دیکھئے ص : ۱۰۸)

              ایک جگہ امام شافعیؒؒ(م۲۰۴؁ھ)   کا ارشاد ہے کہ ’’ ما رأيت رجلا أعلم بالحرام والحلال والعلل والناسخ والمنسوخ من محمد بن الحسن ‘‘ کہ میں نے  امام محمدؒ سے زیادہ حلال  اور حرام،علل اور ناسخ اور منسوخ کو جاننے والانہیں دیکھا۔(اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ : ص ۱۲۸، نیز دیکھئےص : ۱۲۷)

              اخیر کی ۳ روایات جو ہم نے اختصار کے ساتھ ذکر کی ہے کہ ان  روایات کی سندوں میں ضعف ہے ،لیکن متناً وہ روایات صحیح معلوم  ہوتی ہیں اس لئے کہ ان  کے شواہد موجود ہیں،جن کی طرف اشارہ ہم نے ان روایات کے حوالوں کے ساتھ کردیا ہے۔

لہذا ان  روایات کو غیر ثابت قرار دینا  بیکار ہے۔

خلاصہ یہ کہ امام شافعیؒ ،امام محمد ؒ کے اعلیٰ مقام اور عظمت کے قائل ہیں،اور ان سے روایات بھی لی ہیں، نیزامام محمد ؒ ان کے نزدیک صدوق  بھی  ہیں،جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔دیکھئے ص :۱۲۴۔

ایک آخری وضاحت :

              امام محمد ؒ کی مدح میں وارد امام شافعیؒ کے بعض اقوال کو ائمہ شافعیہ نے اصحاب الرأی کے درمیان محمول کیا ہے،مثلاً    امام شافعیؒ (م۲۰۴؁ھ) نے کہا : کہ ’’ ما كلمت أَسْوَدَ الرأس أعقل من محمد بن الحسن ‘‘ میں نے کالے سر والوں میں امام محمد بن الحسنؒ سے زیادہ  عقلمند  سے بات نہیں کی۔(مناقب الشافعی للبیہقی : ج۱: ص ۱۵۸، واسنادہ صحیح)ائمہ شافعیہؒ کہتے ہیں کہ یہاں درصل امام شافعیؒ کی مراد یہ ہے کہ میں نے اصحاب الرأی میں  امام محمد بن الحسنؒ سے زیادہ  عقلمند  سے بات نہیں کی۔

              اسی طرح  اور دوسرے بعض اقوال  ’’ ما رأيت مثل محمد بن الحسن ‘‘ اور ’’ ما رأت عيناي مثل محمد بن الحسن، ولم تلد النساء في زمانه مثله ‘‘ میں بھی یہی تاویل کی گئی،لیکن  حقیقت  یہ ہے کہ امام شافعیؒ نے یہ باتیں علی الاطلاق کہی ہیں ،کیونکہ ایک روایت دوسری روایت کی وضاحت کرتی ہے۔(دین الحق از ابو صہیب داود ارشد: ج۱ : ص ۶۶۹) اور ان کے دوسرے اقوال  صریح طور پر اطلاق پر دلالت کرتے ہیں ۔

              ’’ ما رأيت سمينا أخف روحا من محمد بن الحسن، وما رأيت أفصح منه، كنت إذا رأيته يقرأ كأن القرآن نزل بلغته ‘‘

’’ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ، جَيِّدَ الْمَنْزِلَةِ ‘‘

’’ ما رأيت أحدا قط إذا تكلم رأيت القرآن نزل بلغته إلا محمد بن الحسن فأنه كان إذا تكلم رأيت القرآن نزل بلغته ولقد كتبت عنه حمل بعير ذلك وإنما قلت ذكر لأنه بلغني أنه يحمل أكثر مما تحمل الأنثى‘‘

’’ وهل رأيت فقيها قط؟ اللهم إلا أن تكون رأيت محمد بن الحسن فإنه كان يملأ العين والقلب، وما رأيت مبدنا قط أذكى من محمد بن الحسن ‘‘

’’ ما رأيت أعقل من محمد بن الحسن ‘‘

’’ ما رأيت أعلم بكتاب الله عز وجل من محمد بن الحسن، كأنه عليه نزل ‘‘

’’ قال كتب الشافعي إلى محمد بن الحسن وقد طلب منه كتبه لينسخها فأخرها عنه فكتب إليه قل لمن لم تر عين من رآه مثله ‘‘

’’ ما رأيت أحداً يسئل مسألةً فيها نظر إلا رأيت الكراهة في وجهه إلا محمد بن الحسن ‘‘

’’مارأیت اعقل ولا ازھد ولا أفقه ولا اورع ولا احسن نطقا وایراداً من محمد بن الحسن‘‘

’’ ما رأيت رجلا أعلم بالحرام والحلال والعلل والناسخ والمنسوخ من محمد بن الحسن ‘‘

’’امن الناس علی فی الفقہ محمد بن الحسن‘‘ 

لہذا صحیح اور راجح یہی ہے کہ امام شافعیؒ  کے  یہ اقوال علی الاطلاق ہیں اور ائمہ شافعیہ رحم اللہ علیھم کی تاویل بے دلیل ہے ۔ واللہ اعلم

[57] یہ روایت حسن درجہ کی ہے،جس کی تفصیل گزرچکی۔دیکھئے ص :۹۰ ۔

[58] یہ روایت  تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۲،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۶۵ پر موجود ہے۔ اس کی سند یوں  ہے،حافظ المشرق امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ

              حدثنا أبو طالب يحيى بن علي بن الطيب العجلي بحلوان، قال: أخبرنا أبو بكر ابن المقرئ بأصبهان، قال: حدثنا أبو عمارة حمزة بن علي المصري، قال: سمعت الربيع بن سليمان، يقول: سمعت الشافعي، يقول: لو أشاء أن أقول إن القرآن نزل بلغة محمد بن الحسن، لقلته لفصاحته۔

              لیکن حافظ ابو الحسن الآبریؒ(م۳۶۳؁ھ) نے اس روایت کو اور بھی مختصر سند سے بیان کیا ہے،وہ کہتے ہیں کہ

اخبرني الزبير بن عبد الواحد بحمص, قال: حدثني أبو عمارة بمصر, قال: سمعت الربيع بن سليمان يقول: سمعت الشافعي يقول: لو أشاء أن أقول: نزل القرآن بلغة محمد بن الحسن من فصاحته۔(مناقب الشافعی للابری : ص۷۸)

            اس سند کے تمام روات ثقہ یا صدوق ہیں۔ حافظ ابو الحسن الابریؒ(م۳۶۳؁ھ)  کی توثیق گزرچکی۔زبیر  بن عبد الواحد  الاسدبادیؒ(م۳۴۷؁ھ) بھی ثقہ ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۷: ص ۸۵۰)،ابو عمارۃ علی بن حمزہ مصریؒ(م۳۰۷؁ھ) کے حالات تاریخ مصر لابن یونس :ج۱: ص ۱۳۷ پر موجود ہیں۔اور  ان کی روایت کو حافظ ذہبی ؒ نے حسن کہا ۔(مناقب ابو حنیفہ : ص ۸۰) لہذا وہ بھی صدوق ہیں۔

              خلاصہ یہ کہ حافظ الآبریؒ کی یہ روایت حسن ہے۔

              اسی طرح یہ روایت  اخبار ابی حنیفہ للصیمری اور تاریخ بغداد للخطیب  میں دیگر سندوں کے ساتھ موجود ہے،جس کی تفصیل  ص : ۱۱۰-۱۱۲ پر موجود ہے۔

[59] یہ روایت حسن ہے، دیکھئے ص :۱۱۲ ۔

امام محمدؒ کی فصاحت پر علی زئی کے اعتراض کی حقیقت:

            امام شافعیؒ سے امام محمدؒ کی فصاحت کے متعلق متعدد روایات منقول ہیں، صرف علامہ خطیب بغدادیؒ کی تاریخ میں تین مختلف اسناد کے ساتھ ان سے امام محمدؒ کا فصیح ہونا منقول ہے، ان تینوں اسناد کے متون ہم نے اوپر درج کر دئیے ہیں، اسی طرح علامہ خطیب بغدادیؒ کے استاذ امام صیمریؒ  کی کتاب ’’اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ‘‘ میں بھی امام شافعیؒ سے دو مختلف اسناد کے ساتھ امام محمدؒ کی فصاحت کی تعریف مروی ہے، اسی طرح دیگر کتب میں بھی مختلف اسناد کے ساتھ امام شافعیؒ سے یہ روایت کیا گیا ہے ، اور پھر دیگر اہلِ علم نے بھی امام محمدؒ کا فصیح ہونا تسلیم کیاہے، لیکن اس سب کے باوجود زبیر علی زئی کا تجاہلِ عارفانہ ملاحظہ کریں کہ وہ دانستہ اس قول کی ان سب اسناد سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے ’’تاریخِ بغداد‘‘ سے اس کی محض ایک سند کولے کر اس قول کو مشکوک ثابت کرنے کی سعی ٔ نامراد کر رہے ہیں۔ (دیکھئے: الحدیث:ش۷،ص۱۳، حاشیہ :۳)

ایں چہ بوالعجبی است

            اور پھر لکھتے ہیں کہ اگر یہ روایت صحیح بھی ثابت ہوجائے تو اس کا تعلق نہ جرح سے اورنہ تعدیل سے، فصاحت اور چیز ہے، اور عدالت وثقاہت اور چیزہے ۔ (ایضاً)، لیکن سوال یہ ہے کہ کس نے اس قول کو بطورِ توثیق پیش کیاہے؟ کہ جناب کو اس صحیح السند قول کو مشکوک ثابت کرنے کی زحمت اٹھانا پڑی، اور اس کی وجہ سے آپ اس قدر آگ بگولہ ہورہے ہیں؟  علی زئی صاحب جیسے لوگ (جو علم اور فصاحت دونوں سے عاری ہیں) ایسی باتوں کو کیا سمجھ سکتے ہیں کہ جب کسی شخص کو علم کے ساتھ فصاحت سے بھی نوازا جائے تو وہ اس کے لئے بہت بڑا اعزاز اور کمال ہوتا ہے؟

[60] یہ روایت  اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ  : ص ۱۳۳ پر موجود ہے۔چنانچہ امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ(م۴۳۶؁ھ) کہتے ہیں کہ

              أخبرنا عبد الله بن محمد الحلواني قال ثنا مكرم قال ثنا محمد بن عبد السلام عن أبي خازم القاضي قال سمعت بكرا العمي يقول إنما أخذ محمد بن سماعة وعيسى بن أبان حسن الصلاة من محمد بن الحسن رضي الله عنه

                        اس کی سند کے تمام روات کی توثیق گزرچکی۔دیکھئے (ص:۴۳)،  لیکن عبد اللہ بن محمد ،ابو القاسم الشاہدؒ(م۳۸۷؁ھ) پر کلام ہے،لیکن ان پر اس روایت میں کلام باطل و مردود ہے۔کیونکہ ان سے پہلے ثقہ،ثبت،حافظ ابو القاسم ابن ابی العوامؒ(م۳۳۵؁ھ) نے یہ روایت صحیح سند کے ساتھ   بیان کردی تھی،چنانچہ  فضائل ابی حنیفہ میں ہے کہ

              قال ابن ابی العوام قال أبو جعفر: وسمعت أبا خازم القاضي يقول: سمعت بكراً العمي يقول: إنما أخذ ابن سماعة وعيسى بن أبان حسن الصلاة من محمد بن الحسن۔(ص: ۳۷۰)

              اس روایت میں امام ابو جعفر الطحاوی ؒ(م۳۲۱؁ھ) نے محمد بن عبد السلام الدمشقیؒ (م۳۱۷؁ھ) کی متابعات کردی ہے۔روات کی تفصیل کے لئے دیکھئے ص : ۳۹، لہذا یہ روایت صحیح ہے۔

[61] حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ) نے یہ روایت  امام طحاویؒ(م۳۲۱؁ھ)  کی کتاب سے بالسند یوں نقل کی ہے کہ

              قال الطحاوي: سمعت أحمد بن أبي عمران يحكي، عن بعض أصحاب محمد بن الحسن، أن محمدا كان حزبه في كل يوم وليلة ثلث القرآن۔(مناقب الامام ابوحنیفۃ للذہبی : ص ۹۴،۱۹،۳۷)

روات کی تفصیل :

امام طحاوی ؒ (م۳۲۱؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔احمد بن ابی عمران الفقیہؒ(م۲۸۸؁ھ) بھی ثقہ ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۲: ص ۱۱۲)،امام ابن ابی عمران کے وہ شیوخ،جو امام محمد ؒ کے تلامذہ  ہیں،ان میں کوئی بھی راوی ضعیف نہیں ملا ہے۔شاید اسی وجہ سے حافظ ذہبیؒ نے اس روایت کو حسن کہا ہے۔(مناقب : ص ۹۴)  واللہ اعلم

اس روایت کو امام طحاوی ؒ (م۳۲۱؁ھ) کی سند سے ،حافظ ابو القاسم ابن ابی العوامؒ(۳۳۵؁ھ) نے بھی روایت کیا ہے۔(فضائل ابی حنیفہ : ص ۳۶۸)

[62] اس روایت کے تمام روات ثقہ اور سند صحیح ہے۔(دیکھئے ص:۱۳۳ )

[63] حافظ ذہبیؒ اس قول کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ : یہ قول منکر (انوکھا) ہے۔علامہ زاہد الکوثریؒ اس پر نقد کرتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں:

              ’’لاوجہ لقول الذھبی ھذا ، لأن ابن کاس ثقۃ، واحمد بن حماد بن سفیان وثقہٗ الخطیب۔ (۴؍۱۲۴)  علی تعنتہٖ، وقال الدار قطنی: لابأس بہٖ، ولم یقل فیہ جرح وللخبر شواھد عدیدۃ فلایکون کلام الذھبی متمشیا مع قواعد النقد‘‘

              حافظ ذہبیؒ کے اس قول کی کوئی وجہ نہیں بنتی ، کیونکہ امام ابن کاس (جو اس قول کے ناقل ہیں) ثقہ ہیں، (اسی طرح ان کے استاذ) احمد بن حماد بن سفیان کو علامہ خطیب بغدادیؒ نے باوجود اپنے تعنت (مخالفین کے بارے میں تشدد) کے ان کو ثقہ قرار دیا ہے، اور امام دار قطنیؒ  ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان میں کوئی خرابی نہیں ہے، نیز ان کے متعلق کوئی جرح منقول نہیں ہے، اور اس خبر کے متعدد شواہد بھی ہیں، لہٰذا حافظ ذہبیؒ کا یہ کلام جرح کے قواعد کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں رکھتا۔(حاشیۃ مناقب ابی حنیفۃ وصاحبہ۵۵)

تنبیہ:      

زبیر علی زئی نے علامہ کوثریؒ کے اس مذکورہ جواب کا رد کرتے ہوئے لکھا ہے:

یہ روایت دو وجہ سے مردود ہے:

 (۱)          ابن کاس النخعی تک سند نامعلوم ہے۔

(۲)          حافظ ذہبیؒ نے اس قول کو منکر قرار دیا ہے۔

اور یہ ظاہر ہے کہ راوی اپنی روایت کو دوسروں کے بہ نسبت زیادہ جانتا ہے، لہٰذا کوثری کا ذہبیؒ پر ردّ   مردود ہے۔  (الحدیث:ش۵۵:ص۳۲)

جواب:

              علامہ خطیب بغدادیؒ وغیرہ محدثین نے ان سے امام ابوحنیفہؒ اور آپ کے تلامذہ کے فضائل سے متعلق متعدد اقوال بہ سندِ متصل نقل کئے ہیں، مثلاً امام شافعیؒ کے مذکورہ قول کے شروع کے الفاظ ’’مارأیت اعقل من محمد بن الحسن‘‘ کو علامہ خطیب ؒ نے امام ابن کأسؒ سے بہ متصل نقل کیا ہے، (تاریخ بغداد:۲؍۱۷۲)،ڈاکٹر اکرم ضیاء العمری نے تاریخ بغداد میں خطیب بغدادی نے  جن جن کتب سے اقوال نقل کیا ہے۔ان  سب کو اپنی کتاب  ’’موارد الخطیب فی تاریخ بغداد ‘‘ میں جمع کیا ہے۔

              موصوف  اسی کتاب کے ص ۱۸۳ پر لکھتے ہیں(جس کا خلاصہ یہ ہے) کہ خطیب ؒ نے ۶۰ مقامات پر ابن کاس النخعیؒ سے روایات نقل کی ہیں جو کہ(عامۃً)  امام  ابو حنیفہ ؒ  کے مناقب  کے تعلق  سے ہیں اور اخیر میں کہتے ہیں کہ شاید ابن کاس النخعیؒ نے امام ابو حنیفہ ؒ کے مناقب پر کتاب لکھی ہے، جہاں سے خطیب نے ان روایات کو نقل کیا ہے۔

لیکن  حافظ محمد بن یوسف الصالحی ؒ (م۹۴۲؁ھ) نے واضح کیا کہ امام ابن کأسؒ(م۳۲۴؁ھ) نے امام ابو حنیفہؒ کے مناقب میں ’’تحفۃ السلطان  فی مناقب النعمان‘‘ کے نام سے بہترین کتاب لکھی ہے۔ (الجواھر الدررللسخاوی  : ج۳: ص ۱۲۵۵،عقود الجمان، ص۴۹، کشف الظنون :ج۲: ص ۱۸۳۸وغیرہ)  لہذا حافظ ذہبیؒ  نے امام شافعیؒ کا مذکورہ قول امام ابن کاسؒ کی کتاب سے نقل ہے۔

ا س پر مزید دلائل یہ ہیں  کہ امام ذہبیؒ  نے ثقہ، امام ،قاضی ابوبکر ابن ابی العوام ؒ  (م۳۳۵؁ھ) کی  حوالے سے روایت ذکر کی ہے۔تو صراحت فرمائی کہ یہ روایت ان کی کتاب میں موجود ہے۔(مناقب : ص ۱۶)، اسی طرح  محمد بن حماد بن المبارک المصیصی  ؒ مولی بنی ھاشم سے روایات ذکر کی ،توصراحت فرمائی کہ  یہ روایات ان کی کتاب سیرۃ ابی حنیفہ  سے ذکرکی   گئی ہے۔(مناقب : ص ۲۳)  اور حافظ ذہبیؒ نے  امام طحاوی ؒ (م۳۲۱؁ھ) کی کتاب سے بھی  امام صاحب ؒ اور صاحبین  کے مناقب ذکر کئے  ہیں،چنانچہ ایک مقام پر  امام طحاوی ؒ کی کتاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ،حافظ ذہبیؒ  کہتے ہیں کہ ’’روى نحوها الطحاوي بإسناد آخر إلى الليث ‘‘۔(مناقب : ص۳۷،نیز دیکھئے ص : ۱۹)  پس اسی منہج سے واضح ہوتا ہے کہ ابن کاس سے  روایات   ذہبیؒ نے ان کی کتاب  لی ہے۔ واللہ اعلم،

خود زبیر علی زئی   نے بھی  علامہ عبدالحق اشبیلیؒ کے امام ابن مغیثؒ سے نقل کردہ قول کے بارے میں لکھا ہے کہ:

ظن غالب یہی ہے کہ یہ قول ان (ابن مغیث) کی کتاب  ’’المجتہدین‘‘ میں مذکور ہوگا۔ (امین اکاڑوی کا تعاقب:ص۳۴)

کاش یہاں ابن کاس کی روایت میں بھی  زبیر علی زئی صاحب ایسے ہی فیصلے کردیتے ، تومسلک پرستی   کا عدم ثبوت  مل جاتا  ، ویسے زبیر علی زئی کی تسلی کیلئے یہ بھی عرض ہے کہ حافظ ذہبیؒ کی امام ابن کاسؒ تک سند متصل ہے، اور انہوں نے کئی جگہوں پر امام ابن کاسؒ کے اقوال کو اپنی سند سے نقل کیا ہے، مثلاً امام اعظم ابوحنیفہؒ کے ترجمہ میں وہ امام ابن کاسؒ سے ایک قول کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اخبرنا ابن علان کتابۃ، انبانا الکندی، انبانا الفراز، انبانا الخطیب ، انبانا الخلال ، انبانا علی بن عمرو الحریری، حدثنا علی بن محمد بن کاس النخعی…‘‘ (سیراعلام النبلاء:۶؍۳۹۱،۳۹۲) 

اس سند میں مذکور یہ سب مشہور راوی ہیں۔(دیکھئے بالترتیب: معجم شیوخ الذھبی: ص۶۱۷، سیر اعلام النبلاء:۲۲؍۳۴، کتاب الانساب:۴؍۴۹، سیر اعلام النبلاء:۱۸؍۲۷۰، تاریخ بغداد:۷؍۴۳۷، ایضاً، ۱۲؍۲۸)

لہٰذا علی زئی کا اس قول کی سند پر اعتراض فضول ہے۔

رہا   حافظ ذہبیؒ  کا اس قول کو منکر کہنا ،تو ان کی پوری عبارت اس طرح ہے :

قلت: لم يرو هذا عن الربيع، إلا أحمد بن حماد، وهو قول منكر

میں کہتا ہو کہ  اس قول کو ربیع  ؒ سے احمد بن حماد بن سفیان  نے ہی نقل کیا ہے اور یہ قول منکر ہے۔(مناقب : ص ۸۷) اس  سے معلوم ہوا کہ  چونکہ اس قول کو ربیع سے روایت کرنے والے صرف  احمد بن حماد  بن سفیان ہی ہیں۔اس لئے حافظ ذہبیؒ نے اس قول  کو منکر قرار دیا ہے۔یعنی یہاں پر منکر بمعنی  تفرد ہے۔اور امام ابن کاس النخعیؒ(م۳۲۴؁ھ) ثقہ،فقیہ اور امام ہیں۔(ارشاد القاصی وا لدانی : ص ۴۳۹)، ۱حمد بن محمد بن سفیان الکوفیؒ (م۲۹۷؁ھ)  بھی ثقہ راوی ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۱: ص ۳۲۶)، اور الربیع بن سلیمان، ابو محمد المصریؒ (م۲۷۴؁ھ) سنن ابو داود اور سنن نسائی کے راوی اور ثقہ ،فقیہ اور حافظ   ہیں۔(تقریب : رقم ۱۸۹۴)، کیا ثقہ کا تفرد  بھی اہل حدیث حضرات کے نزدیک  ضعیف  و مردود ہے ؟؟

جبکہ خود اہل حدیث  کے نزدیک ثقہ کا تفرد روایت کے صحت کے منافی نہیں ہے۔(مسنون رکعات تروایح  از کفایت اللہ سنابلی : ص ۲۱-۲۳،توضیح الکلام : ص۱۷۰،۱۷۱،۴۵۴)

 اور  زبیر علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ  اگر زیادت بیان کرنے والا  ثقہ ہو تو قول راجح میں یہ زیادت مقبول ہوتی ہے۔ بشرطیکہ اس میں ثقہ راویوں یا اوثق کی ایسی مخالفت نہ ہو جس میں تطبیق نہ ہو۔ آگے  موصوف کہتے ہیں کہ یہ بات ہمارے  علم میں ہے کہ بعض محدثینِ کرام اور اکابر علماء  ثقہ راوی کی زیادت کو مخالفت قرار دیتے تھے،مگر راجح یہی ہے  کہ اسے مخالفت   قرار دینا مرجوح ہے اور ثقہ راوی کی زیادت اگر ثقات و اوثق کےمخالف و منافی نہ ہو تو مطلقاً مقبول ہے،چاہے سند میں ہو یا متن میں۔(الاعتصام :ش۴۶: ص۲۳،۲۱تا ۲۷ نومبر ۲۰۰۸) نیز ایک اور مقام  پر مسند احمد میں موجود اپنی سینے پر ہاتھ  باندھنے والی روایت کے بارے میں زبیر صاحب  لکھتے ہیں کہ  اس روایت میں علی صدرہ کا  اضافہ صرف مسند احمد میں ہے اور دوسری کتابوں مثلاً سنن ترمذی،سنن ابن ماجہ اور سنن دارقطنی وغیرہ میں یہ اضافہ نہیں ہے تو کیا  اس زیادت کو رد کردیا جائےگا ؟؟ (الاعتصام : ش ۴۷: ص ۱۲،۲۸ تومبر تا ۴ دسمبر ۲۰۰۸)

خلاصہ یہ اعتراض باطل و مردود ہے۔

[64] اس قول  پر زبیر علی زئی کے اعتراض کی حقیقت کے لئے  دیکھئے ص : ۷۸ ۔

[65] امام علی بن مدینیؒ کی توثیق پر علی زئی کے اعتراض کی حقیقت:

              زبیر علی زئی غیر مقلد نے امام علی بن مدینی کے اس قول کی سند پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اس کے راوی عبداللہ بن علی بن المدینیؒ کی توثیق نامعلوم ہے۔ (الحدیث:ش۷،ص۱۶، حاشیہ:۷) جس کا جواب   مجلہ الاجماع :  ش۶: ص ۶۱ میں دیا جاچکا ہے۔ 

لہذا  اس شکل میں عبداللہ بن علی بن المدینیؒ  مقبول ہے اور  زبیر علی زئی صاحب کا اعتراض مردود ہے۔

کس کا یقین کیجئے کس کا یقین نہ کیجئے

لائے ہیں لوگ بزم یار سے خبر الگ الگ

 

[66] احمدبن کاملؒ (م۳۵۰؁ھ) کی توثیق پر علی زئی کے اعتراض کی حقیقت:

علی زئی نے اس قول کی سند پر اعتراض کرتے ہوئے لکھاہے کہ : اس کا راوی ابو عبید اللہ محمدبن عمران المرزبانی ہے ، جس کے بارے میں عتیقیؒ نے کہا: وہ ثقہ تھا، ازہری نے کہا: وہ ثقہ نہیں تھا، اور کہا: ہمارے نزدیک کذب بیانی نہیں کرتا تھا، ابو عبیداللہ بن الکاتب نے کہا: میں نے اس کا ایک معاملہ دیکھا ہے جس سے مجھے معلوم ہوا کہ وہ کذاب تھا، محمد بن ابی الفوارس نے کہا: اس میں اعتزال اور تشیع تھا۔(دیکھئے: تاریخ بغداد: ۳؍۱۳۵) جمہور کی جرح سے معلوم ہوا کہ مرزبانی مذکور ضعیف راوی ہے۔  (الحدیث:ش۵۵۳۳)

جواب  :  

علی زئی کا یہ دعویٰ کہ مرزبانیؒ پر جمہور نے جرح کی ہے، یہ سفید جھوٹ ہے، اس لئے کہ علی زئی نے اس کے خلاف جن تین حضرات سے جرح نقل کی ہے ، ان میں سے محمد بن ابی الفوراس کی جرح مرزبانی کے عقیدہ سے متعلق ہے، اور خود علی زئی نے تسلیم کیا کہ ایسی جرح راوی کی صحتِ روایت کے خلاف نہیں ہے۔(نور العینین : ص ۶۳) جبکہ ان کے بالمقابل کئی محدثین نے مرزبانی کی توثیق کی ہے۔

(۱)         امام ابو الحسن العتیقی ؒ(م۴۴۱؁ھ) نے مرزبانی کو ثقہ قرار دیا ہے جیسا کہ خود علی زئی نے بحوالہ تاریخِ بغداد نقل کیا ہے۔

(۲)         علامہ خطیب ؒ(م۴۶۳؁ھ) نے ابو عبیداللہ بن الکاتب سے منسوب جرح کے رد میں لکھا ہے

’’قلت لیس حال ابی عبیداللہ عندنا الکذب‘‘

میں (علامہ خطیبؒ) کہتاہوں ابوعبیداللہ (محمد بن عمران مرزبانی) ہمارے نزدیک جھوٹے نہیں ہیں۔(تاریخ بغداد:۳؍۳۵۳)

(۳)        امام ابن خلکانؒ(م۶۸۱؁ھ) نے مرزبانیؒ کے ترجمہ میں تصریح کی ہے کہ ’’وکان ثقۃ فی الحدیث ‘‘ کہ مرزبانی حدیث میں ثقہ تھے۔ (وفیات الاعیان:۲؍۳۹۷ )

(۴)        امام ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ)  نے مرزبانیؒ کو ’’صدوق‘‘ قرار دیا ہے۔ (المغنی فی الضعفاء :۲؍۳۵۶)

(۵)        امام ابن الاھدلؒ(م۱۰۳۵؁ھ) بھی اپنی ’’تاریخ‘‘ میں مرزبانیؒ کو ’’ثقۃ فی الروایۃ‘‘ قرار دیتے ہیں۔  (شذرات الذھب:ج۴: ص ۴۴۵،ج۲: ص ۱۱۳)

(۶)         امام ابن الجوزیؒ مرزبانیؒ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ’’ لم یکن من الکذابین‘‘  یہ جھوٹے لوگوں میں سے نہیں ہے۔ (البدایہ والنھایۃ:۱۸؍۷)

(۷)        امام صلاح الدین الصفدیؒ (م۷۶۴؁ھ)بھی مرزبانی ؒ  کو ثقہ قرار ریتے ہیں ۔(الوافی  بالوفیات :ج۴: ص ۱۶۶ )

.(۸)       حافظ سبط ابن الجوزیؒ(م۶۵۴؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’ اتَّفقوا على أنَّه لم يكن كذَّابًا ‘‘ محدثین اس پر متفق ہے کہ وہ کذاب نہیں ہیں۔ (مراۃ الزمان : ج۱۸ : ص ۷۹)

(۹)         امام ابو محمد الیافعیؒ(م۷۶۸؁ھ) نے بھی ثقہ کہا ہے۔(مراۃ الجنان : ج۲: ص ۳۱۴)

(۱۰)       امام ابو عبد اللہ،یاقوت  الحمویؒ(م۶۲۶؁ھ) نے بھی ان کو ثقہ کہا  ہیں۔(معجم الادباء : ج۶: ص ۲۵۸۲)

(۱۱)        امام مجير الدين العليميؒ(م۹۲۸؁ھ) نے ثقہ کہا ۔ (التاريخ المعتبر: ج۳: ص ۱۷۷)

(۱۲)       نواب صدیق حسن خانؒ(م۱۳۰۷؁ھ)  غیر مقلد نے بھی ان کو ثقہ کہا ۔(التاج المکلل: ص ۱۱۳)

(۱۳)       امام ابو محمد الھجرانیؒ(م۹۴۷؁ھ)نے ثقہ کہا ۔(قلادۃ النحر : ج۳: ص ۲۵۵)

اسی طرح امام ابو علی الفارسیؒ(م۳۷۷؁ھ)، حافظ ابن الاثیرؒ(م۶۳۰؁ھ)،حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ)،امام  ابو الحسن القفطیؒ(م۶۴۶؁ھ)، ابو المعالی ابن الغزی ؒ(م۱۱۶۷؁ھ)  وغیرہ نے بھی آپؒ کی ثناء و تعریف فرمائی ہے۔(الکامل فی التاریخ : ج۷: ص ۴۶۶،سیر:ج۱۶: ص ۴۴۷،انباہ الرواۃ : ج۳: ص ۱۸۰،دیوان الاسلام : ج۴: ص ۲۲۱)

              لہذا زبیر علی زئی کا  یہ دعوی کرنا کہ مرزبانی  پر جمہور  نے  جرح کی ہے۔یہ ان کے دیگر اکاذیب کی طرح  ایک صریح کذب ہے۔

[67] امام دار قطنیؒ کی توثیق پر علی زئی کے اعتراض کی حقیقت:

              علی زئی جیسے متعصب غیر مقلدین یہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی محدث ائمہ احناف میں سے کسی امام کی توثیق کرے، اور اگر کسی محدث سے کسی حنفی امام کی توثیق ثابت ہوجائے تو پھر یہ لوگ اس توثیق کو رکیک تاویلوں سے ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں، چنانچہ علی زئی نے امام دار قطنیؒ سے مذکورہ توثیقی قول کی سند کو صحیح تسلیم کرلینے کے باوجود اس کو یہ کہہ کر ٹالنے کی کوشش کی ہے کہ:

امام دار قطنیؒ کے نزدیک کسی شخص کا متروک نہ ہونا اس کی دلیل نہیں ہے کہ وہ دوسرے محدثین کے نزدیک بھی متروک نہیں ہے۔  (الحدیث:ش۷،ص۱۶،حاشیہ:۶)یہ ہے علی زئی کا انصاف ! کہ اگر امام دارقطنیؒ کا کوئی حوالہ احناف کے خلاف آئے تو پھر وہ جلیل القدر معتدل امام ہیں ،اور اگر ان کا کوئی حوالہ احناف کے حق میں ہو تو پھر وہ محدثین کی صف سے ہی خارج ہوجا تے ہیں، اور ان کی توثیق کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔  انا للہ  ……

خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

              اور پھر امام دار قطنیؒ اپنی اس توثیق میں منفرد نہیں ہیں، بلکہ کئی محدثین نے بھی امام محمدؒ کی توثیق کی ہے، ان میں سے بعض کے توثیقی اقوال گزر چکے ہیں، اور بعض کے آگے آرہے ہیں ، لہٰذا علی زئی کی مذکورہ تاویل باطل ہے۔

              اور بالفرض اگر امام دار قطنیؒ امام محمدؒ کی توثیق کرنے میں منفرد بھی ہوں تو کم از کم علی زئی کو یہ تو کھلے دل سے تسلیم کر لینا چاہے کہ امام محمدؒ امام دار قطنیؒ کے نزدیک ثقہ اور مقبول روایت ہیں، لیکن علی زئی اس بات کو بھی تسلیم کر لینے کے لئے تیار نہیں ہیں، چنانچہ ایک دوسری جگہ ہے امام محمدؒ کے بارے میں لکھتے ہیں:

اس کی توثیق کسی معتبر محدث سے ثابت نہیں ہے۔  (حاشیہ :جزء رفع الیدین:ص۲۴) گویا علی زئی کی نظر میں امام دار قطنیؒ معتبر محدث نہیں ہیں۔

بریں عقل و دانش بباید گریست

[68] امام زیلعیؒ کے امام دار قطنیؒ سے نقل کردہ قول پر علی زئی کی بے چینی :

زبیر علی زئی نے یہاں بھی اپنی عادت کے موافق امام دارقطنیؒ کے اس ایک مستند اور مضبوط حوالے کو قبول کرنے کے بجائے، الٹا امام زیلعیؒ جیسے محدث جلیل پر یہ بے بنیاد الزام لگادیا کہ انہوں نے امام دار قطنیؒ کے اس قول کو اپنی کتاب ’’نصب الرایہ‘‘ میں کانٹ چھانٹ کر کےنقل کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:

’’نصب الرایہ للزیلعی‘‘ میں امام دار قطنی کی کتاب ’’غرائب مالک‘‘ سے ایک قول کانٹ چھانٹ کر کے نقل کیا گیا ہے، جب تک اصل کتاب ’’غرائب مالک‘‘ یا اس سے منقول پوری عبارت نہ دیکھی جائے،  اس متبور (ادھ کٹے) قول سے استدلال صحیح نہیں ہے، زاہد الکوثری صاحب وغیرہ، اس متبور و مقطوع قول پر بغلیں بجا بجا کر خوشی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔  (الحدیث:ش۷۱۹)

نیز ایک جگہ کہتے ہیں :اصل کتاب  غرائب مالک موجود نہیں ہے،تا کہ زیلعی  کے دعوی کی تصدیق کی جاسکے۔(مقالات : ج۲: ص ۳۵۵)

جواب:  

اولاً         حافظ جمال الدین ابو محمد عبد اللہ بن یوسف الزیلعیؒ(م۷۶۲؁ھ) کی مختصر توثیق و ثناء درج ذیل ہیں:

(۱)         امام جمال الدین ،یوسف بن تغریؒ(م۸۷۴؁ھ) نے کہا :

’’الشيخ الإمام البارع المحدّث العلامة۔۔۔۔۔۔۔۔۔وكان- رحمه الله- فاضلا بارعا في الفقه والأصول والحديث والنحو والعربية وغير ذلك‘‘۔(النجوم الزاھرۃ:ج۱۱: ص ۱۰)

(۲)         امام زین الدین الملطیؒ(م۹۲۰؁ھ) نے کہا :

              ’’ وكان عالما محدّثا  فاضلا ‘‘۔(نیل الامل: ج۱ :ص ۳۲۴)

(۳)        حافظ ابن فہد المکیؒ(م۸۷۱؁ھ) نے کہا :

’’ الفقية الإمام الحافظ ۔۔۔۔۔تفقه وبرع وأدام النظر والاشتغال وطلب الحديث واعتنى به فانتقى وخرج وألف وجمع ‘‘۔ (لحظ الالحاظ : ص ۸۸)

(۴)        حافظ سیوطیؒ(م۹۱۱؁ھ) نے کہا :

              ’’ الإِمَام الْفَاضِل الْمُحدث الْمُفِيد ‘‘۔(ذیل طبقات الحفاظ للسیوطی  : ص۵۳۵)

(۵)        ابو المعالی ابن الغزیؒ(م۱۱۶۷؁ھ) نے کہا :

              ’’ الإمام الحبر الفقيه ‘‘۔(دیوان الاسلام : ج۲: ص ۳۸۷)

          خلاصہ یہ کہ حافظ زیلعیؒ(م۷۶۲؁ھ) مشہور حافظ الحدیث اور صدوق محدث ہیں۔(اضواء المصابیح : ۲۵۱)، لہذا ان کی نقل،صحیحین کے روات کی طرح صحیح و قابل اعتماد ہیں اور علی زئی کا اعتراض کہ ’’اصل کتاب  غرائب مالک موجود نہیں ہےتا کہ زیلعی  کے دعوی کی تصدیق کی جاسکے ‘‘ باطل و مردود ہے۔

اور تمام متاخرین محدثین (حافظ ابن حجرؒ وغیرہ) کی تحقیقات کا یہ ایک بڑا ماخذ ہے، اسی طرح غیر مقلدین کی شروحات حدیث بھی اس کتاب کے مستدلات سے بھری ہوئی ہیں، مثلاً مشہور غیر مقلد عالم مولانا شمس الحق ڈیانویؒ کی ’’ التعلیق المغنیٰ علیٰ متن الدارقطنی‘‘ زیادہ تر اسی ’’ نصب الرایہ‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کا اقرار مولانا ارشاد الحق اثری غیر مقلد نے بھی کیا ہے، چنانچہ موصوف لکھتے ہیں: اہلِ علم جانتے ہیں کہ محدث ڈیانویؒ ’’التعلیق المغنی‘‘ میں اکثر و بیشتر ’’نصب الرایہ‘‘ سے نقل کرتے ہیں۔ (تنقیح الکلام:ص۲۳۷) خود علی زئی نے امام زیلعیؒ  کے علمی مقام اور ان کی اس کتاب کی شہرت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : ابو محمد عبداللہ بن یوسف الحنفی الزیلعیؒ مشہور حنفی عالم ہیں، ان کی کتاب ’’نصب الرایہ لاحادیث الھدایہ‘‘  کا نام زبان زد عام ہے۔  (نورالعینین:ص۵۱)

دوم        امام زیلعیؒ نے امام دار قطنیؒ کی ’’غرائب مالک‘‘ سے ان کا مذکورہ قول نقل کیا جو کہ بالکل صاف ہے،ا ور اس میں ادنیٰ سابھی کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ اس میں کوئی قطع وبُرید ہوئی ہے، لیکن علی زئی کی ہٹ دھرمی ملاحظہ کریں کہ انہوں نے امام دار قطنیؒ کی ’’غرائب مالک‘‘ دیکھی تک نہیں ہے، لیکن پھر بھی امام زیلعیؒ پر بلاثبوت یہ تہمت لگا رہے ہیں کہ انہوں اس قول میں کانٹ چھانٹ کی ہے۔  فیا للعجب

یہ اندازِ جنوں اچھا نکالا

لیا پہچان گو دیکھا نہ بھالا

سوم         پھر علی زئی کے دوغلا پن کی حد ہے کہ یہاں امام زیلعیؒ نے امام دار قطنیؒ کی ’’غرائب مالک‘‘ سے جو حوالہ نقل کیا ہے ، وہ تو علی زئی کی نظر میں غیرمعتبر ہے ، کیونکہ وہ ان کے موقف کے خلاف ہے ، لیکن جب امام زیلعیؒ کا اسی ’’غرائب مالک‘‘ سے نقل کردہ حوالہ علی زئی کے حق میں ہو تو پھر وہ آنکھیں بند کرکے اس کو قبول کر لیتے ہیں۔

چنانچہ ایک حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں: شیخ الاسلام امام دارقطنیؒ نے ایک کتاب’’ غرائب مالک‘‘ لکھی ہے، اس کتاب میں انہوں نے ہر قسم کی ( موضوع و باطل وغیرہ بھی) روایات اکٹھی کی ہیں، مگر وہ( یعنی خلافیات للبیہقی کی ترک رفع کی ابن عمر کی مرفوع روایت)اس کتاب میں مغلطائی کنجری کی روایات نہیں لائے، ملاحظہ ہو ’’نصب الرایہ للزیلعی: ج۱، ص۴۰۴‘‘ ۔۔  (نورالعینین:ص۵۱)

اسی طرح کی دوغلی پالیسی کی حرکت  موصوف علی زئی نےایک اور جگہ بھی کی ہے۔(مجلہ الاجماع : ش ۳: ص ۱۳۳)

قارئین:آپ نے ملاحظہ کر لیا کہ علی زئی صاحب کیسی دوغلی پالیسی پر گامزن ہیں کہ امام زیلعیؒ کی نقل میں جب اپنا کوئی فائدہ نظر آئے تو فوراً اس کو قبول کر لیتے ہیں، اور جب ان کی نقل سے ان کے موقف پر زد پڑتی ہو تو پھر لچر قسم کے بہانوں سے اس کو رد کر دیتے ہیں، اور نام ہے اہلِ حدیث۔

پھر یہ لوگ اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی بجائے علامہ زاہد الکوثریؒ وغیرہ جیسے اہل علم پر طنز کرتے ہیں کہ ’’ وہ اس متبور قول پر بغلیں بجا بجا کو خوشی کا اظہار کرتے رہے ہیں‘‘ لیکن ان کو یہ سمجھنے کی توفیق نہیں ملتی کہ علامہ زاہد الکوثریؒ وغیرہ تو ایک حقیقت کا اظہار کرکے خوش ہو رہے ہیں جو کہ بجا ہے، لیکن آپ لوگ تو اس حقیقت سے انکار کر کے اپنی جہالت اور ہٹ دھرمی کا ماتم کر رہے ہیں۔

[69] اور امام حاکم ؒ (م۴۰۵؁ھ) مقدمہ المستدرک علی الصحیحین میں کہتے ہیں کہ :

              أنا أستعين الله على إخراج أحاديث رواتها ثقات۔

            میں   اللہ سے مدد چاہتا ہو،ثقہ  روات کی احادیث کے اخراج  کے سلسلے میں۔(المستدرک :ج۱: ص ۴۲)،

معلوم ہوا کہ امام حاکم ؒ (م۴۰۵؁ھ) نے ثقات کی روایت  اپنی کتاب میں  نقل کی ہے۔لہذا امام محمد ؒ (م۱۸۹؁ھ) بھی  امام حاکم ؒ (م۴۰۵؁ھ) کے نزدیک ثقہ ہیں۔

              نیز امام حاکمؒ نے امام محمد ؒ (م۱۸۹؁ھ) کو ’’ فهذه صفة أتباع التابعين إذ جعلهم النبي صلى الله عليه وسلم خير الناس بعد الصحابة والتابعين المنتخبين، وهم الطبقة الثالثة بعد النبي صلى الله عليه وسلم، وفيهم جماعة من أئمة المسلمين، وفقهاء الأمصار ‘‘ میں شمار کیا ہے۔ (معرفۃ  علوم الحدیث للحاکم : ص۴۶)

              لہذا امام محمد ؒ(م۱۸۹؁ھ) امام حاکمؒ کے نزدیک ثقہ،فقیہ ،اور ائمہ المسلمین ہیں۔

امام حاکمؒ کی توثیق پر علی زئی کے اعتراض کی حقیقت :

زبیر علی زئی نے اپنی عادت سے مجبور ہوکر امام حاکمؒ کی توثیق پر اعتراض کر دیا کہ حافظ ذہبیؒ نے ’’تلخیص المستدرک‘‘ میں امام حاکمؒ کا ( امام محمدؒ کی روایت کی سند کو صحیح الاسناد کہنے پر) رد کرتے ہوئے کہا:   قلت بالدبوس، میں نے کہا: ڈنڈے کے زد پر۔  معلوم ہوا کہ یہ تصحیح ذہبیؒ کے نزدیک مردود ہے۔  (الحدیث:۵۴؍۱۲،۵۵؍۳۴)

جواب:   

علی زئی کا یہ اعتراض کئی وجوہ سے باطل ہے:

(۱)         حافظ ذہبیؒ کا امام حاکمؒ کی تصحیح کو رد کرنا امام حاکمؒ کی تصحیح پر نظرانداز نہیں ہوتا، اس لئے کہ امام حاکمؒ ، حافظ ذہبی ؒ سے مقدم بھی ہیں، اور خود زبیر علی زئی نے دار قطنیؒ اور خطیب بغدادیؒ کے اقوال میں موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان دونوں (خطیب، دارقطنی) کے اقوال میں متقدم واوثق ہونے کی وجہ سے دار قطنی کے قول کو ہی ترجیح حاصل ہے۔  (الحدیث:۱۷؍۱۹)

نیز علی زئی نے لکھا ہے: متأخرین کا متقدمین کے مقابلے میں کوئی اعتبار نہیں ہے۔ (القول المتین:ص۲۳) ان تصریحات کے باوجود علی زئی کا امام حاکمؒ کی تصحیح کو حافظ ذہبیؒ کے قول کی وجہ سے رد کردینا انصاف و دیانت کا خون کرنے کے مترادف ہے۔

(۲)         حافظ ذہبیؒ نے اپنی کتا ب ’’تلخیص المستدرک‘‘ میں مذکورہ حدیث کے تمام راویوں کی دیگر احادیث کو صحیح قرار دیا ہے، مثلاً ’’الربیع عن الشافعی‘‘ کی سند سے مروی کم از کم دو احادیث کو انہوں نے صحیح کہا ہے۔(دیکھئے رقم الحدیث: ۲۸۱۴، ۳۲۵۴) امام محمد بن حسنؒ کی ایک روایت پر بھی انہوں نے تلخیص میں سکوت کیا ہے۔  (رقم الحدیث:۵۹۷۸)  جو کہ باقرار غیر مقلدین حافظ ذہبیؒ کے نزدیک اس حدیث کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔(فتاویٰ اہل حدیث:۱؍۶۳۵) امام ابویوسفؒ کی کم از کم چار روایات کو انہوں نے صحیح کہا۔  (رقم الحدیث:۲۱۸۴،۳۶۸۹،۳۹۱۸،۷۷۸۳)  ا سی طرح عبداللہ بن دینارؒ کی کم از کم ایک حدیث کی انہوں نے تصحیح کی ۔  (رقم الحدیث:۱۷۹۳)

نیز حافظ ذہبیؒ نے اپنی کتب( سیر اعلام النبلاء وغیرہ) میں ان سب حضرات کی توثیق و توصیف کی ہے، اور خود معترض زبیر علی زئی ایک روایت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ بعض علماء نے لکھا ہے کہ امام بخاریؒ ، امام ابو حاتمؒ اور امام ذہبیؒ نے اس روایت کو غیر محفوظ وغیرہ قرار دیا ہے، تو عرض ہے کہ یہ جرح غیر مفسر ہے، جبکہ اس حدیث کے تمام راوی امام بخاریؒ ، امام ابوحاتمؒ، اور امام بیہقیؒ کے نزدیک ثقہ ہیں، تو اسے کس دلیل کی بنیاد پر غیر محفوظ قرا ر دیا جاسکتا ہے۔(مسئلہ فاتحہ خلف الامام:۲۲)

بنا بریں جب مذکورہ حدیث جس کی تصحیح کو امام ذہبیؒ نے رد کیا ہے، کے تمام راوی امام ذہبیؒ کے نزدیک صحیح الحدیث اور ثقہ ہیں، تو پھر کس دلیل کی بنیاد پر اس حدیث کی تصحیح کو رد کیا جاسکتاہے؟

واضح رہے کہ اس حدیث کی سند پر جو اعتراض کیا گیا ہے، اس کی وجہ اس سند کے راویوں کا ضعیف ہونا نہیں ہے، بلکہ اعتراض کی وجہ یہ ہے کہ اس کی سند میں امام ابویوسفؒ اور عبداللہ بن دینارؒ کے درمیان عبیداللہ بن عمر کا واسطہ گر گیاہے، امام بیہقیؒ جو ایک کٹّر اور متعصب شافعی محدث ہیں، انہوں نے بھی یہ اقرار کیا ہے کہ یہ واسطہ امام شافعیؒ سے گراہے، کیونکہ انہوں نے جب اس حدیث کو زبانی بیان کیاتو وہ سند میں عبیداللہ بن عمر کا نا م لینا بھول گئے، اور اس کی حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے دلیل یہ بیان کی ہے کہ امام ابن حبانؒ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں امام بشر بن ولیدؒ کے واسطے سے امام ابویوسفؒ سے یہ حدیث نقل کی ہے، اور اس میں یہ واسطہ موجود ہے، اسی طرح محمد بن حسنؒ نے بھی اپنی کتاب ’’کتاب الولاء‘‘ میں اس حدیث کی سند میں امام ابو یوسفؒ اور عبداللہ بن دینارؒ کے درمیان عبیداللہ بن عمرؒ کانام لیاہے، اس سے معلوم ہوا کہ امام شافعیؒ سے یہ واسطہ ذکر کرتے ہوئے چوک ہوئی ہے۔  (دیکھئے: تلخیص الحبیرللحافظ ابن حجرؒ:۴؍۲۱۴،)

لہٰذا اگر اس سند میں غلطی ہے تو اس کے ذمہ دار اما شافعیؒ ہیں نہ کہ امام محمدؒ واما م ابویوسفؒ لہٰذا علی زئی کا امام محمدؒ پر اعتراض فضول ہے۔

(۳)        امام حاکم کی تصحیح، ذہبیؒ کے موقف کے خلاف ہو یا جمہور کے جیساکہ علی زئی کا دعویٰ ہے ،لیکن یہ بات تو حتمی ہے کہ کم از کم  امام  حاکمؒ کے نزدیک امام محمدؒ ثقہ ہیں، لہٰذا اس سے علی زئی کا یہ دعویٰ تو باطل ہوجاتا ہے کہ امام محمدؒ کی توثیق کسی محدث سے ثابت نہیں ہے۔

 

[70] نیز امام بیہقیؒ(م۴۵۸؁ھ) نے ان کو   ’’أَئِمَّة الْمُسْلِمِينَ‘‘  اور ’’من أكابر فقهاء الأمصار‘‘  میں شمار کیا ہے۔(کتاب الاسماء و الصفات : ص۵۸۵،۶۱۰،المدخل  للبیہقی : ج۲: ص ۵۸۹،ت عوامہ)

              لہذا امام ابوبکر البیہقیؒ(م۴۵۸؁ھ) کے نزدیک بھی امام محمد ؒ(م۱۸۹؁ھ) صدوق،فقیہ ہیں۔

[71] امام یحییٰ بن ابراہیم السلماسیؒ۵۵۰؁ھ) کی کتاب کے بارے میں حافظ ابن عساکرؒ(م۵۷۱؁ھ) کہتے ہیں کہ  اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (تاریخ ابن عساکر : ج۶۴: ص ۴۵)، یعنی اس کتاب میں امام یحییٰ بن ابراہیم السلماسیؒ۵۵۰؁ھ)  نے جو کچھ باتیں اورروایت لکھی  ہے،اس میں اور اس کے روات میں، حافظ ابن عساکرؒ (م۵۷۱؁ھ) کے نزدیک  کوئی حرج نہیں ہے۔

              اس سے معلوم ہوا کہ حافظ ابن عساکرؒ (م۵۷۱؁ھ) کے نزدیک   اس کتاب  کے ارشادات ،روایات  اور ائمہ ثلاثہ کے ساتھ ساتھ،امام ابو حنیفہؒ، امام یو سف اور امام محمدؒ  میں بھی کوئی حرج نہیں ہے،کیونکہ اس کتاب میں  امام ابو حنیفہؒ، امام یو سف اور امام محمدؒ   وغیرہ سے روایات موجود  ہیں۔(منازل : ص۱۷۰،۱۶۵،۱۷۹)

              نیزابن عساکرؒ نے امام محمدؒ کو( ضابطون)  ضبط کرنے والوں  میں بھی شمار کیا ہے۔( بحوالہ اتحاف السالک لابن ناصرالدین : ص ۶۴،ت نشات بن کمال المصری)

[72] حافظ ذہبیؒ کی توثیق پر زبیر علی زئی کے اعتراض کی حقیقت :

زبیر علی زئی امام ذہبیؒ کے مذکورہ بالابیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

حافظ ذہبیؒ کے اس بیان سے معلوم ہوا کہ (امام محمدبن حسنؒ ) شیبانی مذکور اگر امام مالکؒ کے علاوہ دوسرے لوگوں (مثلاً:امام ابوحنیفہ) سے روایت کرے تو وہ (ذہبی کے نزدیک بھی) غیر قوی یعنی ضعیف ہے۔ (الحدیث:ش۱۷،ص۱۱)

الجواب :

زبیر علی زئی صاحب کا  یہ تبصرہ باطل و مردود ہے۔ کیونکہ حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ) نے محمد بن الحسن کی غیر مالک  والی روایت کو حسن کہا ہے۔چنانچہ حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) کہتے ہیں کہ:

أخبرنا علي بن أحمد الحافظ وغيره، قالوا: أنا الحسين بن أبي بكر الحنبلي ح وأنا أحمد بن عبد المنعم القزويني، أنا محمد بن سعيد الصوفي، أنا طاهر بن محمد المقدسي، أنا مكي بن منصور، أنا أحمد بن الحسن القاضي، ثنا محمد بن يعقوب، أنا الربيع بن سليمان، أنا محمد بن إدريس الشافعي، أنا محمد بن الحسن، أنا قيس بن الربيع، عن أبان بن تغلب، عن الحسن بن ميمون، عن عبد الله بن عبد الله مولى بني هاشم، عن أبي الجنوب الأسدي، قال: قال علي رضي الله عنه: «من كان له ذمتنا فدمه كدمنا، وديته كديتنا» ،

ويحكى عن محمد بن الحسن ذكاء مفرط، وعقل تام، وسودد، وكثرة تلاوة ۔(مناقب للذہبی : ص ۹۳-۹۴)

اس روایت  میں محمد بن الحسن الشیبانیؒ(م۱۸۹؁ھ) نے قیس بن الربیعؒ (م۱۶۷؁ھ)سے روایت کیا ہے،اور  خود حافظ ذہبیؒ نے اپنے اس  ترجمہ  کے بارے میں  کہا کہ ’’ وقد أفردت له ترجمة حسنة في جزء ‘‘۔(تاریخ الاسلام : ج۴: ص ۹۵۵)  یعنی  اس ترجمہ کی تمام روایات اور ارشادات حافظ ؒ کے نزدیک حسن  ہیں۔

لہذا یہ روایت کو بھی حافظ ذہبی نے حسن کہا ہے،جس سے معلوم ہوا کہ  ان کے نزدیک محمد بن الحسن کی غیر مالک  والی روایت میں قوی اور صدوق ہیں ۔واللہ اعلم

نیز  اس روایت میں امام شافعی ؒ (م۲۰۴؁ھ) کہتے ہیں کہ  ’’ محمد بن الحسن ذكاء مفرط، وعقل تام، وسودد، وكثرة  تلاوة‘‘  امام محمد ؒ کے بارے میں انتہائی ذکاوت ، اعلیٰ درجہ کی عقلمندی ، (علمی ) سیادت ، اور کثرت تلاوت بیان کرتے ۔

مزید حافظ ذہبیؒ نے ’’تلخیص المستدرک‘‘ میں امام محمدؒ کی ایک روایت جو امام مالکؒ کے بجائے ابومحنف سے ہے ، پر سکوت کیا ہے، جو کہ باقرارِ غیر مقلدین اس بات کی دلیل ہے کہ یہ روایت امام ذہبیؒ کے نزدیک صحیح ہے۔(دیکھئے ص : )

یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ حافظ ذہبیؒ کے ہاں امام محمدؒ غیر مالک میں بھی ثقہ ہیں۔

نیز حافظ ذہبیؒ نے امام صاحب ؒ کو ’’الأئمۃ المھدیین‘‘ میں بھی شمار کیا ہے۔(العرش للذہبی : ج۲: ص۲،۲۴۹)

اور پھر علی زئی کا دہرا معیار ملاحظہ کریں کہ وہ یہاں تو امام محمدؒ کے خلاف اس کلام کا یہ مطلب بیان کر رہے ہیں، لیکن دوسری جگہ اپنے ایک پسندیدہ راوی کے بارے میں انہوں نے اس طرح کے کلام کا مطلب اس کے برعکس بیان کیا ہے،

چنانچہ ایک راوی یحییٰ بن سلیم کے بارے میں امام بخاریؒ فرماتے ہیں:  ’’ماحدث الحمیدی عن یحییٰ بن سلیم فھو صحیح‘‘  اس کلام کا مطلب علی زئی کے اصول ( جو کہ انہوں نے امام محمدؒ کے خلاف اختراع کیا ہے)  یہی بنتا ہے کہ  اگر یحییٰ بن سلیم سے امام حمیدیؒ کے علاوہ کوئی اور شخص روایت کرے تو پھر اس کی حدیث ضعیف ہے، شیخ البانی غیر مقلد نے اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے،

لیکن علی زئیؒ اس پر ان کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اور اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب وہ استنباط ہے، جو شیخ البانیؒ نے امام بخاریؒ کے قول:  ’’ماحدیث الحمیدی عن یحییٰ بن سلیم فھو صحیح ‘‘ سے  نکالا ہے کہ اگر غیر حمیدی اس (یحییٰ بن سلیم) سے روایت کرے تو وہ (امام بخاری کے نزدیک) ضعیف ہے، اسے مفہومِ مخالف کہتے ہیں، دلیل صریح کے مقابلے میں مفہومِ مخالف و مبہم وغیر واضح دلائل سب مردودہوتے ہیں۔  (الحدیث:ش۱۶،ص۲۳)

اب امام ذہبیؒ کا امام محمدؒ کے بارے میں کلام اور امام بخاریؒ کا یحییٰ بن سلیم کے بارے میں کلام کے الفاظ اور ان دونوں کے مفہوم تقریباً ایک جیسے ہیں، لیکن علی زئی کے دوغلےپن کی انتہاء ہے کہ یحییٰ بن سلیم کے حق میں جس اصول کو وہ مفہومِ مخالف اور مبہم کہہ کر رد کر رہے ہیں، اسی اصول کے بل بوتے وہ امام محمدؒ کو (غیر مالک میں) ضعیف ثابت کر رہے ہیں۔ 

تیری زلف میں ٹھہری تو حسن کہلائی

وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی

 

[73] امام ذہبیؒ کی تصنیف مناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ  پر علی زئی کی بے چینی:

حافظ ذہبیؒ نے امام محمدؒ کے مناقب میں جو مستقل ایک جزء لکھا ہے ، اس سے چونکہ آپ کی بڑی فضیلت اور منقبت ظاہر ہورہی ہے ، جو کہ حافظ زبیر علی زئی جیسے متعصب غیر مقلد کے لئے انتہائی تکلیف کا باعث ہے ، اس لئے انہوں  نے اس جزء پر طعنہ زنی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

حافظ ذہبیؒ نے (محمدبن حسنؒ) الشیبانی پر ایک جزء لکھا ہے  مگر، ’’تذکرۃ الحفاظ‘‘ میں اس (محمد بن حسنؒ) کا بطور ترجمہ ذکر نہیں کیا، جبکہ ’’دیوان الضعفاء (۳۶۵۶)‘‘ اور  ’’المغنی فی الضعفاء (۵۴۰۶)‘‘  میں اس کا ذکر ضرور کیا ہے۔ (الحدیث:ش۷ص۱۶،حاشیہ:۱)

علی زئی کے طنز  کا جواب یہ ہے کہ صرف راوی پر کلام یا ائمہ کا راوی کو ضعفاء میں شمار کرنے کی وجہ سے بھی، ذہبیؒ  المغنی فی الضعفاء میں راوی کا ذکر کرتے ہے۔جیسا کہ ان کی عبار ت سے واضح ہے۔

چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ’’ وَقد جمعت فِي كتابي هَذَا أمما لَا يُحصونَ فَهُوَ مغن عَن مطالعة كتب كَثِيرَة فِي الضُّعَفَاء فَإِنِّي أدخلت فِيهِ إِلَّا من ذهلت عَنهُ الضُّعَفَاء لِابْنِ معِين وللبخاري وَأبي زرْعَة وَأبي حَاتِم وَالنَّسَائِيّ وَابْن خُزَيْمَة والعقيلي وَابْن عدي وَابْن حبَان وَالدَّارَقُطْنِيّ والدولابي والحاكمين والخطيب وَابْن الْجَوْزِيّ وزدت على هَؤُلَاءِ ملتقطات من أَمَاكِن متفرقات ‘‘۔(المغنی : ص۴-۵)

یہی وجہ ہے کہ حافظ ذہبیؒ نے اس کتاب میں کئی ثقہ روات  مثلاً مکحولؒ،فلیح بن سلیمانؒ وغیرہ کو بھی ذکر کیا ہے۔

اور دیوان الضعفاء دراصل ابن جوزی ؒ کی کتاب کا اختصار ہےجس کی وجہ سے اس میں امام محمد ؒ کا نام  آیا ہے۔(مجلہ الاجماع : ش۲: ص ۸۷)

لہذا ان وجوہات کی وجہ سے ان کتابوں میں امام محمد ؒ کا ذکر  آنے سے،ان کا حافظ ذہبی ؒ کے نزدیک ضعیف ہونا لازم نہیں ہوتا،بلکہ وہ  حافظ ذہبی ؒ کے نزدیک صدوق،امام، فقیہ ہیں،جیسا کہ ان کی توثیق و ثناء سے ظاہر ہے۔واللہ اعلم

[74] امام ہیثمیؒ کی توثیق پر علی زئی کے اعتراض کی حقیقت:

زبیر علی زئی سے جب امام ہیثمیؒ کا امام محمدؒ کی توثیق کرنا برداشت نہ ہوسکا تو انہوں نے امام موصوف کی توثیق کے خلاف یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ عرض ہے کہ اسی صفحے پر ہیثمیؒ نے محمد بن اسحٰق کی روایت بیان کرکے ’’ورجالہ ثقات‘‘ کہہ کر انہیں ثقہ قرار دیا ہے، آپ لوگوں کو اس سے کیوں چڑ ہے؟

دوم          یہ کہ حافظ ہیثمیؒ متاخرین میں سے ہیں، اور ان کی یہ تحسین جمہور محدثین اور اکابرعلماء کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔   (الحدیث:۵۵؍۲۶)

جواب:    علی زئی کے اس اعتراض کی دونوں شقیں باطل اور ان کی جہالت اور عصبیت پر دال ہیں۔

(۱)         حافظ ہیثمیؒ نے مجمع الزوائد (۶؍۱۴۲) میں محمد بن اسحق کی جس روایت کے راویوں کو ثقہ کہا ہے، وہ تاریخ اور مغازی سے متعلق ہے ، اور تاریخ اور مغازی میں تو محمدبن اسحق ثقہ اور حجت بلکہ امام ہیں، لیکن احکام اور حلال وحرام کی احادیث میں وہ ضعیف ہے، چنانچہ خود علی زئی نے امام احمدبن حنبلؒ سے نقل کیا ہے کہ محمدبن اسحق کی مغازی وغیرہ سے متعلق احادیث لکھنی چاہیے، لیکن حلال وحرام کا مسئلہ ہوتو پھر نہیں۔  (دیکھئے : الحدیث:۴؍۵، حاشیہ)

لہٰذا علی زئی کا یہاں امام محمدؒ کی توثیق کے ساتھ محمدبن اسحق کی توثیق کا موازنہ کرنا خود ان کے اپنے طے شدہ اصول کی روشنی میں بھی باطل ہے۔

نیز خود علی زئی کے ایک ممدوح شیخ عمرو بن عبد المنعم نے محمدبن اسحق کی ایک روایت کو اس کے تفرد کی وجہ سے منکر کہا ہے،علی زئی نےشیخ موصوف سے اس پر کوئی اختلاف نہیں کیا، بلکہ شیخ کی اس عبارت پر حاشیہ میں ان کے موقف کی تائید کی ہے۔ (حاشیہ عبادات میں بدعات:ص۱۳۶)

اب علی زئی کو کیا چڑ ہے کہ وہ محمد بن اسحق کی حدیث کو منکر قرار دے رہے ہیں؟

اور پھر علی زئی کا احناف پر یہ طنز کرنا بھی غلط ہے کہ وہ امام ہیثمیؒ کی امام محمدؒ کے حق میں تو تسلیم کرتے ہیں ،اور ابن اسحق کے حق میں نہیں، اس لئے کہ خود علی زئی نے اپنے اسی مضمون میں یہ لکھا ہے کہ یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں کہ ہر محدث کی ہر بات ضرور بالضرور واجب القبول ہوتی ہے۔ (الحدیث:۵۵؍۲۵)

دروغ گو راحافظہ نباشد

(۲)         علی زئی کاامام ہیثمیؒ کو متاخرین میں سے قرار دے کر ان کی توثیق کو رد کرنا بھی خود ان کی اپنی تصریح سے متصادم ہے، چنانچہ انہوں نے اپنے اسی مضمون میں یہ تصریح کی ہے کہ :  جارح (جرح کرنے والے) یا معدل (تعدیل کرنے والے) اور مجروح یا مؤثق کے درمیان اتحادِ زمانہ یا معاصرت نہیں بلکہ کوئی بھی ثقہ وعارف الاسباب امام جرح وتعدیل کر سکتا ہے، اگر چہ وہ مجروح و موثق کی وفات سے بہت بعد میں پیداہوا ہو،اس جرح وتعدیل کی بنیاد راوی کی روایات اور محدثین کرام کی گواہیاں ہیں، نہ کہ اس سے ملاقات ضروری ہے۔ (الحدیث:۵۵؍۲۷)

دروغ گو را حافظ نباشد

اور پھر علی زئی کا امام ہیثمیؒ کی توثیق کو جمہور محدثین کے بالمقابل قرار دینا بھی غلط ہے، اس لئے کہ انہوں نے امام محمدؒ کے خلاف دس علماء سے جرح (جس کی حقیقت  ہم آگے واضح کررہے ہیں) نقل کی ہے، جب کہ ہم نے الحمد للہ امام محمدؒ کے حق میں ۲۰ سے زائد محدثین سے توثیق نقل کی ہے۔


تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...