نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

نمازِ فجر ادا کرنے کا مستحب وقت


نمازِ فجر ادا کرنے کا مستحب وقت


- مفتی ابن اسماعیل المدنی

ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 6

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

اس مسئلہ کی تفصیل میں جانے سے پہلے دو لفظوں کے معنیٰ سمجھ لیجئے :

غَلَس:

غلس کے لغوی معنیٰ ’’ظلمۃ اللیل ‘‘(رات کی تاریکی ) کے ہیں ، اور اس کا اطلاق اس اندھیرے پر بھی ہوتا ہے ، جو طلوع ِ فجر کے بعد کچھ  دیر تک چھایا رہتا ہے،  یہاں وہی اندھیرا مراد ہے ۔

اِسفار :

اسفار کے معنی ہیں  اجالا اور روشنی ۔

ایک اہم بات :

پوری امت  مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ صبح کی نماز کا وقت صبح صادق سے شروع ہوتا ہے ، اور سورج کا کنارہ طلوع ہونے تک رہتا ہے۔[1]

نیز اس بات پر بھی پوری امت مسلمہ  کا اتفاق ہے کہ جس شخص نے نمازِ فجر صبح صادق اور طلوعِ شمس کے درمیان ادا کی، اس نے نمازِ فجر کو اس کے وقت میں ادا کیا ۔ [2]

البتہ اس میں اختلاف ہے کہ نمازِ فجر ادا کرنے کا مستحب وقت کونسا ہے ، جس کی تفصیل درجِ ذیل ہے:

نمازِ فجر کے مستحب وقت سےمتعلق ائمہ  کی رائے:

امام مالک ؒ  (م۱۷۹؁ھ) ، امام شافعیؒ  (م۲۰۴؁ھ) ، اور امام احمد ؒ   (م۲۴۱؁ھ)کہتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ فجر کی نماز غلس میں پڑھی جائے ۔ جب کہ امام ابو حنیفہ ؒ  (م۱۵۰؁ھ) ، امام سفیان ثوریؒ  (م۱۶۱؁ھ)  ،امام حسن بن صالح بن حی ؒ (م۱۶۹؁ھ)اور امام ابو یوسف ؒ  (م۱۸۲؁ھ) ، اسفار کے قائل ہیں ۔ ایک روایت کے مطابق امام محمد ؒ  (م۱۸۹)کا بھی یہی قول ہے۔

               دوسری روایت میں امام محمد ؒ  (م۱۸۹) فرماتے ہیں کہ غلس میں شروع کی جائے اور اسفار میں ختم کی جائے ، امام طحاوی ؒ (م۳۲۱؁ھ) نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ امام طحاویؒ سے یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ جو طویل قرآت کا اراد رکھتا ہے اس کے لئے افضل یہ ہے کہ غلس میں شروع کرے اور اسفار میں ختم کرے، اور اگر طویل قرآت کا ارادہ نہیں ہے تو غلس کے مقابلہ میں اسفار میں پڑھنا افضل ہے۔ [3]

امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں کہ ’’وقد رأى غير واحد من أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، والتابعين: الإسفار بصلاة الفجر‘‘ بہت سے صحابہ کرام اور تابعین عظام  اسفار میں ہی نمازِ فجر ادا کرنے کے قائل ہیں۔ (سنن الترمذی : ۱/۲۲۳ ، حدیث ۱۵۴)

بلکہ فقیہ العراق  امام ابراہیم نخعی ؒ (م۹۶؁ھ) فرماتے ہیں کہ ’’ ما اجتمع أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم على شيء ما اجتمعوا على التنوير ‘‘صبح کی نماز روشن کرکے پڑھنے  پر صحابہ کرام کا ایسا اتفاق تھا کہ ایسا اتفاق کسی اور چیز پر نہ تھا۔ (شرح معانی الآثار : جلد۱ : صفحہ ۱۸۴ ، رقم ۱۰۹۷)[4]

لہذا کتاب وسنت  کے مطابق اسفار کا  قول ہی  راجح ہے ، جس کے کچھ  دلائل مع تفصیل درجِ ذیل ہیں :

دلیل نمبر ۱ :

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں  : ’’ ومن اللیل فسبحہ وإدبار النجوم ‘‘ ۔ ( پارہ ۲۷ : سورہ الطور کی اخیری آیت ) اور رات کو اس کی تسبیح بیان کیجئے اور ستاروں کے غائب ہونے کے بعد ۔

اس آیت کے آخری جملہ ’’اور ستاروں کے غائب ہونے کے بعد ‘‘سے  بعض فقہاء  نے استدلال کیا  ہے کہ فجر کی نماز اسفار میں پڑھنا افضل ہے ، اسلئے کہ ستارے اس وقت غائب ہوتے ہیں جب آسمان پر روشنی پھیلنے لگتی ہے۔اس بات کو امام کرمانی ؒ  (م۵۰۵؁ھ) نے اپنی تفسیر میں نقل فرمایا ہے۔(غرائب التفسیر وعجائب التأویل : جلد ۲ : صفحہ ۱۱۵۰)[5] نیز دیکھئے (الإکلیل فی أسباب  التنزیل للسیوطی : صفحہ ۲۴۹)

ملک شام کےمشہورسلفی عالم  ومفسر  شیخ جمال الدین  قاسمی شامی ؒ نے اپنی تفسیر میں یہ استدلال نقل کرکےکہا ہے کہ ’’ یہ مضبوط استدلال ہے‘‘۔ (تفسیر القاسمی، محاسن التأویل : جلد۹ : صفحہ ۵۷)

جماعت سلفیہ  کے حکیم الامت، شیخ بدیع الدین شاہ راشدی اور دوسری کبارِ علماء سلفیہ کے شاگرد، مصر میں مسجد امام ابو حنیفہؒ کے امام،  سلفی شیخِ کبیر  ،محمد احمد إسماعیل مقدم نے ، اپنی تفسیر میں اس استدلال کو بھی نقل کیا ہے، اور شیخ جمال الدین قاسمی کے فیصلہ کو درج کرتے ہوئے اس پر سکوت بھی کیا ہے، اور اخیر میں امام محمد ؒ اور امام طحاویؒ کے قول کو راجح قرار دیا ہےکہ غلس میں نماز شروع کی جائے اور  اسفار میں ختم کی جائے۔ (تفسیر القرآن الکریم ، المقدم : ۱۴۴/ ۱۲، حسب ترتیب الشاملۃ)[6]

             معلوم ہوا کہ قرآن کریم کے مطابق فجر کی نماز کو اسفار میں پڑھنا افضل ہے۔

دلیل نمبر ۲ :

              آئیے ایک نظر حدیث شریف پر ڈالتے ہیں ، امام ترمذی ؒ (م۲۷۹؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’عن رافع بن خدیج ؓ قال : سمعت رسول اللہ ﷺ یقول : أسفروا بالفجر فإنہ أعظم للأجر ‘‘  حضرت رافع بن خدیج ؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ فجر کی نماز روشن کرکے پڑھو ، اس لئے کہ یہ زیادتی ٔ اجر کا باعث ہے۔  (رواہ الامام  الترمذی ؒ ،ت، بشار : جلد۱ : صفحہ ۲۲۳ ، رقم ۱۵۴)

حضرت رافع بن خدیج ؓ سے ،اس حدیث کو،انہیں الفاظ کے ساتھ ،  ترمذی ؒ کے علاوہ بھی بہت سے محدثین نے،  اپنی اپنی کتابوں میں نقل فرمایا ہے ۔(مصنف ابن ابی شیبہ :حدیث نمبر ۳۲۶۱،مسند احمد، الرسالۃ  ۲۸/ ۵۱۸،صحیح ابن حبان  ۴/ ۳۵۷،المعجم الکبیر : ۴/ ۲۴۹،شرح السنۃ للبغوی : ۲/ ۱۹۶) وغیرہ

امام ابن حجر ؒ اس حدیث کی صحت کے بارے میں فرماتے ہیں  ’’صححه غير واحد‘‘ کئی علماء نے اسے صحیح کہا ہے ۔(فتح الباری : جلد۲ : صفحہ ۵۵) غیر مقلد عالم و محدث  شیخ البانی ؒ نے  بھی اپنی متعدد کتابوں میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔(ارواء الغلیل : جلد۱ : صفحہ ۲۸۱ ، رقم ۲۵۸،الصحیحۃ :  جلد۳ : صفحہ ۱۰۹ ، رقم ۱۱۱۵،صحیح الجامع الصغیر : جلد ۱ : صفحہ ۲۲۷، رقم ۹۷۰)

امام سیوطیؒ نےاس حدیث کو  احادیث  متواترۃ میں شمار کیا ہے ،  اور اس  کی تخریج کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :

أ  -          (سنن )اربعہ (کے مصنفینؒ )اس حدیث کو روایت کرتے ہیں   رافع بن خدیج   ؓ سے ۔

ب –        امام احمد ؒ، محمود بن لبید ؓ سے۔

ج –         امام طبرانیؒ ، حضرت بلال ؓ، ابن مسعود ؓ ، ابو ہریرہ ؓ اور حواء ؓ سے ۔

د –           امام بزار ؒ،حضرت انس ؓ اور قتادہ ؓ سے ۔

ھ –         امام عراقی ؒ ،  صحابہ کرام ؓ میں سے ایک شخص ۔  دیکھئے  (قطف الازھار المتناثرۃ : صفحہ ۷۸، رقم الحدیث ۲۵)

اس حدیث کو متواتر کہنے میں  امام مناویؒ اور امام کتانی ؒ نےبھی  امام سیوطیؒ کی موافقت کی ہے ۔  (فیض القدیر للمناوی : جلد۱ : صفحہ ۵۰۸،  رقم الحدیث : ۱۰۲۴،نظم المتناثر للکتانی : صفحہ ۸۰ ، رقم ۶۱)

البتہ بعض  محدثین نے امام سیوطی ؒ کے اس فیصلہ سے اختلاف بھی کیا ہے ، وہ حضرت رافع بن خدیج  ؓ کی  حدیث کی تصحیح تو کرتے ہیں ، مگر اس حدیث کے  متواتر  ہونے سے اتفاق نہیں رکھتے ۔ (المداوی لعلل الجامع الصغیر ، للشیخ احمد الغماری  :ج ۱/ص۵۵۰ ، رقم ۵۰۳۔ایضاً: ج۶/ص۴۷۴، رقم ۳۵۹۵)

معلوم ہوا یہ حدیث بالکل صحیح ہے ، اس میں کوئی شک نہیں ۔  یہ حدیث اس مسئلہ  میں بالکل صریح ہے ،  کہ فجر کی نماز کو اسفار میں ادا کرنا چاہیے ۔

اس مسئلہ پر اور بھی روایتیں پیش کی جاتی ہیں ، مگر بوجہ اختصار ہم یہاں صرف اس  ایک حدیث پر اکتفا کرتے ہیں، جو بالکل صحیح بھی ہے  اور اس مسئلہ پر صریح بھی ۔

اس حدیث کی ایک تاویل اور اس کا  جواب :

جو علماء کرام ، غلس میں نمازِ فجر کی ادائیگی کو مستحب کہتے ہیں ،  ان کی طرف سے مذکورہ بالا حدیث کی یہ تاویل کی جاتی ہے (وقال الشافعي، وأحمد، وإسحاق: معنى الإسفار: أن يضح الفجر فلا يشك فيه ولم يروا أن معنى الإسفار: تأخير الصلاة،سنن الترمذی : جلد۱ : صفحہ ۲۲۳ ، رقم ۱۵۴) کہ  یہاں روشن کرکے پڑھنے سے مراد  یہ ہے کہ فجر بالکل واضح ہوجائے ، صبح صادق  کا یقین  ہوجائے ،    اس میں کوئی شک نہ رہے ، اس وقت فجر پڑھی جائے،اسکا معنیٰ یہ نہیں ہے کہ  فجر کی نماز تاخیر سے ادا کی جائے۔

مگر  خود ائمہ محدثین نے اس تاویل کو رد کیا ہے، چنانچہ:

(۱)         امام ابن حجرؒ فرماتے ہیں ’’ وفي هذا التأويل نظر‘‘ اس تاویل میں نظر ہے۔ ۔ (الدرایۃ :۱/۱۰۳ ، رقم ۱۰۰) غیر مقلد عالم ومحدث شیخ عبد الرحمن مبارکپوریؒ  بھی ابن حجرؒ کی اس بات کو نقل کرکے اس پر سکوت کرتے ہیں ۔  (تحفۃ الاحوذی : ۱/۴۰۹)

(۲)         اسی طرح  احادیث الاحکام کے بارے میں لکھی گئی  مشہور  ترین کتاب ’’الامام  فی شرح الالمام ‘‘ میں امام محمد بن علی   ابن دقیق العید ؒ     (م ۷۰۲؁ھ)  فرماتے ہیں  ’’قال في الإمام: وفسر الإمام أحمد الإسفار في الحديث ببيان الفجر وطلوعه، أي لا تصلوا إلا على تبين من طلوعه، قال: وهذا يرده بعض ألفاظ الحديث أو يبعده‘‘امام احمد ؒ نے اس حدیث میں لفظ اسفار کی تفسیر وضوحِ فجر سے کی ہے ، یعنی اس وقت تک نمازِ فجر نہ پڑھو جب تک کہ طلوعِ فجر کا یقین نہ ہو جائے ، ابن دقیق العید ؒ فرماتے ہیں : اس حدیث کے بعض الفاظ اس تاویل کو رد کرتے ہیں یا بعید بتاتے ہیں ۔ابن دقیق العید ؒ کی یہ پوری بات امام زیلعیؒ نے نقل کی ہے۔ دیکھئے (نصب الرایۃ : ۱/ ۲۳۸)[7]

یہی امام ابن دقیق العید ؒ اپنی دوسری کتاب میں فرماتے ہیں  ’’قيل فيه: إن المراد بالإسفار: تبين طلوع الفجر ووضوحه للرائي يقينا. وفي هذا التأويل نظر. فإنه قبل التبيين والتيقن في حالة الشك لا تجوز الصلاة. فلا أجر فيها ‘‘ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ : اسفار سے مراد یہ ہے کہ ’’صاف طور سے طلوعِ فجرِ ہوجائے ، اور دیکھنے والے کو اس کا یقین ہوجائے‘‘ ، اس تاویل میں نظر ہے ، اس لئے کہ طلوعِ فجر کا یقین ہونے سے پہلے نماز پڑھنا جائز ہی نہیں ،    تو اس میں توسرے سے اجر نہیں ہے۔ (إحکام الأحکام شرح عمدۃ الأحکام : ۱/ ۱۶۷)

مذکورہ بالاعبارتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ :

اس تاویل کا مطلب ہوگا کہ ’’طلوع فجر کا یقین ہونے کے بعد پڑھو گے تو اجر زیادہ ملے گا اور یقین ہونے سے پہلے پڑھو گے  تو اجر کم ملے گا‘‘۔ جبکہ یہ بات واضح طور پر باطل ہے ، اس لئے کہ طلوعِ فجر کا یقین ہونے سے پہلے نماز پڑھنا درست ہی نہیں تو اس پر سرے سے اجر ہی نہیں ملے گا ، کم زیادہ کی کیا بات ۔ 

کتنی تاخیر سے  نمازِ فجر ادا کی جانی چاہیے :

ہریر بن عبد الرحمن ؒ کہتے ہیں کہ میں نے  اپنے دادا حضرت رافع بن خدیج  ؓ کو  فرماتےہوئے  سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’نوروا بالصبح قدر ما يبصر القوم مواقع نبلهم‘‘ صبح کو اتنا روشن کرکے پڑھو کہ لوگوں کو اپنے تیر وں کے گرنے کی جگہیں نظر آنے لگے۔(مسند ابن ابی شیبہ : جلد ۱ : صفحہ ۷۸، رقم الحدیث ۸۳،مسند ابی داؤد الطیالسی :جلد۲ : صفحہ ۲۶۶، رقم الحدیث ۱۰۰۳،المعجم الکبیر للطبرانی : جلد۴ : صفحہ ۲۷۷، رقم الحدیث۴۴۱۴)

اس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے ۔

غیر مقلد عالم ومحدث شیخ البانی ؒ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔ دیکھئے :  (صحیح الجامع الصغیر وزیادتہ :  جلد۱ : صفحہ ۲۲۷، رقم الحدیث ۹۶۹) اور اپنی دو کتابوں میں اس کی سند کو صحیح  اور اس کے روات کو ثقہ کہا ہے ۔ دیکھئے: (ارواء الغلیل : جلد۱ : صفحہ ۲۸۴،الثمر المستطاب : جلد۱ : صفحہ ۸۴) المطالب العالیہ کے محققین نے اس کی سند کو حسن کہا ہے ۔(المطالب العالیہ ، محققاً : ۳/۱۷۱)

اس حدیث سے متعلق چند ملاحظات :

(۱)         اس سند کے بارے میں شیخ البانی ؒ نے اپنی رائے ظاہر کی ہے کہ  ہر یر بن عبد الرحمٰن ؒ نے اپنے دادا حضرت رافع ابن خدیجؓ سے نہیں سنا ہے،لكن ما أرى أن هرير بن عبد الرحمن هذا سمعه من جده رافع۔ (الثمر المستطاب : ۱/۸۴)

جبکہ  دوسری جگہ  کہتے ہیں کہ  ایک روایت میں انہوں نے اپنے دادا سے سماع کی تصریح کی ہے، پس اگر یہ ثابت  ہو جائے تو یہ حدیث متصل ہے ، لكن قد صرح بسماعه من جده فى رواية كما يأتى , فإذا ثبت ذلك فھو متصل۔( ارواء الغلیل : ۱/۲۸۴)

اور مسند ابن ابی شیبہ کی صحیح سند  میں ہریر بن عبد الرحمن ؒ نے اپنے دادا  سے سماع کی صراحت کی ہے۔  قال: سمعت هرير بن عبد الرحمن بن رافع بن خديج، قال: سمعت جدي رافع بن خديج يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم۔(۱/۷۸، رقم ۸۳)

 (۲)         اس حدیث کی سند میں ابراہیم بن اسماعیل المدنی  آئے، در اصل یہاں ابراہیم بن اسماعیل المدنی نہیں بلکہ ابراہیم بن سلیمان، ابو اسماعیل المؤدب ہیں ،  ابو نعیم ؒ سے نسبت میں چوک ہوگئی ۔

امام عبد الرحمن بن ابی حاتم ؒ نے اپنے والد سے اس روایت کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ یہاں ابو نعیم سےنسبت کرنے میں غلطی ہوگئی ہے،  ابراہیم بن اسماعیل المدنی کی کتاب میں  یہ حدیث موجود نہیں ہے ، کئی محدثین نے ابو إسماعیل المؤدب کی  سند سے یہ حدیث مجھ سے  بیان کی ہے ، اور یہی زیادہ مناسب ہے۔ [8]

مزید یہ کہ معجم کبیر میں   محمد بن بكار بن الريان (ثقہ ۔ تقریب: ۵۷۵۸)نے ابو اسماعیل المؤدب کی تصریح کی ہے ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی : جلد۴ : صفحہ ۲۷۷، رقم الحدیث۴۴۱۴)، لہذا یہاں پر ابو اسماعیل المؤدب ہی ہیں۔

(۳)         ابراہیم بن سلیمان ابو اسماعیل المؤدب کے والد کے بارے میں ایک قول اسماعیل کا بھی ہے ،’’وقد قيل إبراهيم بن إسماعيل‘‘۔(مشاہیر علماء الأمصار : صفحہ ۲۷۷، رقم ۱۳۹۳) لہذا اس قول کے مطابق  ان کا بھی نام ابراہیم بن اسماعیل ، ابو اسماعیل المؤدب ہوگا۔

(۴)        ابراہیم بن اسماعیل بن مجمع المدنی ۔ ضعیف ہیں ۔ (التقریب : ۱۴۸)

جبکہ  ابراہیم بن سلیمان المؤدبؒ کی کئی علماء (امام احمد ؒ ، ابن معین ؒ ، عجلی ؒ ، دارقطنیؒ ، نسائی ؒ ، ابو داؤدؒ، ابن حبان ؒ )نے توثیق کی ہے ۔ (تہذیب الکمال : جلد۲ : صفحہ ۹۹، رقم الترجمۃ ۱۷۸)

اسی طرح شیخ البانی ؒ نے بھی ان کی توثیق کی ہے ۔(اگلا نمبر ملاحظہ فرمائیے)

(۵)        مسند ابی داؤد الطیالسی کی سند میں ’’ابوإبراہیم  ‘‘ آیا ہے، شیخ البانی ؒ کہتے ہیں ،  ابو إبراہیم یہ کتابت کی غلطی ہے، یہاں کلمہ(أبو) زیادہ  ہوگیا ہے ،  صحیح ابراہیم بن  سلیمان ابو إسماعیل المؤدب ہے ، اور وہ ثقہ ہیں ۔

 وأما أبو ابراهيم هذا , فلم أعرفه , ولعل كلمة (أبو) زيادة ووهم من بعض النساخ , فإن الحديث معروف من رواية أبى إسماعيل المؤدب عن هرير , كما يأتى وأبو إسماعيل اسمه إبراهيم بن سليمان بن رزين فالظاهر أنه هذا , وهو ثقة كما قال الدارقطنى وابن معين وغيرهما۔ (إرواء الغلیل : ۱/۲۸۴)

معلوم ہوا یہ حدیث بالکل صحیح ہے ، اور اس کی سند پر جتنے اعتراضات ہوسکتے تھے ، تمام کے جوابات دیدئے گئے، فالحمد للہ علی ذلک۔

اس حدیث کے مطابق علماء احناف کہتے ہیں کہ فجر کی نماز اتنی ہی تاخیر سے پڑھنا مستحب  کہ لوگوں کو اپنے تیر گرنے کی جگہ نظر آنے لگے۔ (اعلاء السنن : ۲/۳۳)[9]

 فجر کی نماز کب پڑھنا چاہیے چند  علماء  احناف کے کلام سے اس  کی وضاحت:

مولانا  سید زوّار حسین صاحب ؒ فرماتے ہیں :

’’فجر کی نماز میں تاخیر مستحب ہے، لیکن اتنی تاخیر نہ کرے کہ سورج نکلنے کا شک ہوجائے ، بلکہ جب اِسفار یعنی اجالا ہوجائے اور اتنا وقت ہو کہ سنت کے موافق اچھی طرح نماز ادا کی جائے اور قرأت ِ مستحبہ یعنی  چالیس سے ساٹھ تک آیتیں[10]  ترتیل کے ساتھ (ٹھہر ٹھہر کر) دونوں رکعتوں میں پڑھے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد اتنا وقت باقی رہے کہ اگر شاید کسی وجہ سے یہ نماز درست نہ ہوئی  ہو ، خواہ طہارت میں خلل ہو یا نماز میں تو طہارت کرکے دوبارہ قرأتِ مستحبہ مذکورہ کے ساتھ سنت کے موافق سورج  نکلنے سے پہلے نماز پڑھی جاسکتی ہو ، ایسے وقت میں نماز (فجر) پڑھنا افضل ہے ‘‘۔ (عمدۃ الفقہ : ۲/ ۱۸)

حضرت تھانوی ؒ فرماتے ہیں :

’’مردوں کیلئے  مستحب ہے کہ فجر کی نماز ایسے وقت  شروع کریں کہ روشنی خوب پھیل جائے اور اس قدر وقت باقی ہو کہ  اگر نماز پڑھی جائے اور اس میں چالیس پچاس آیتوں کی تلاوت اچھی طرح کی جاوے اور بعد نماز کے اگر کسی وجہ سے نماز کا اعادہ کرنا چاہیں تو اسی طرح چالیس پچاس آیتیں اس میں پڑھ سکیں ‘‘۔  (بہشتی زور ، نماز کے وقتوں کا بیان ، مسئلہ نمبر ۱)

مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی ؒ  فرماتے ہیں:

’’ نماز(فجر) ایسے وقت شروع کی جائے کہ اس میں قرا ءت مسنونہ  کرنے کے بعد اگر فساد کی صورت پیش آجائے تو بطریقہ ٔ مسنونہ  اعادہ کرسکیں ، تجربہ سے ثابت ہوا کہ طلوع آفتاب سے تقریباً آدھ گھنٹہ قبل قاعدہ مذکورہ کے مطابق نماز ہوسکتی ہے ۔‘‘ (احسن الفتاویٰ : جلد ۲ : صفحہ ۱۴۱ )

مفتی محمد تقی عثمانی  صاحب بارک اللہ فی علمہ وعمرہ  فرماتے ہیں :

’’ نمازِ فجر حنفیہ کے نزدیک اسفار یعنی اجالے میں پڑھنا افضل ہے، البتہ نماز طلوع آفتاب سے اتنے پہلے ختم  ہوجانی چاہیے کہ اگر کسی وجہ سے نماز کا اعادہ کرنا پڑے تو طوالِ مفصل [11]کی  قرا ءت  کے ساتھ اعادہ ہوسکے اور پھر بھی کچھ وقت بچ رہے ‘‘۔ (فتاویٰ عثمانی : جلد ۱ : صفحہ ۳۶۰)

افضلیتِ اسفار  کی وجہ :

اس تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ اس میں جماعت کی کثرت  ہوجاتی ہے، اندھیرے میں پڑھنے کے بجائے کچھ اجالا ہوجانے کے بعد پڑھنے سے زیادہ لوگ جماعت میں شریک ہوپاتے ہیں ، اور تکثیر جماعت  مطلوب ومحمود ہے ۔  (ولأن في التغليس تقليل الجماعة لكونه وقت نوم وغفلة، وفي الإسفار تكثيرها فكان أفضل،بدائع الصنائع : ۱/ ۱۲۵)

خود حضرت نبی کریم ﷺ ادائیگیٔ نمازِ فجر  میں کثرت  جماعت کا لحاظ فرمایا کرتے تھے ، چنانچہ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اذان کے بعد  مسجد تشریف لاتے ، اگر آپ دیکھتے کہ  لوگ کم ہیں تو آپ بیٹھ جاتے  ، پھر نماز پڑھا تے ، اور اگر دیکھتے کہ صحابہ کرام جمع ہیں تو نماز پڑھا دیتے۔ [12] (فوائد ابی محمد الفاکہی : صفحہ ۲۹۳ ، رقم ۱۱۴ ، ۱۱۵، واللفظ لہ،المستدرک علی الصحیحین : ۱/۳۱۸، رقم ۷۲۴،سنن ابی داؤد : ۱/ ۱۴۹ ، رقم الحدیث ۵۴۵- ۵۴۶،أمالی ابن بشران ، الجزء الاول : صفحہ ۴۰۷، رقم ۹۴۸،السنن الکبریٰ للبیہقی : ۲/ ۳۱ ، رقم ۲۲۸۳)[13]

۲ وضاحتیں :

(۱)         اس حدیث کی بعض روایتوں میں’ بعد النداء‘ (اذان کے بعد ) کا جملہ ہے اور بعض  میں  ’’ حین تقام الصلاۃ ‘‘ (جب اقامت کہی جاتی)  ہے، بعض علماء نے اس کی وجہ سے اس  روایت پر کلام کیا ہے، اور بعض نے اس میں تاویل کی ہے ۔ مگر ان میں کوئی تعارض یا اختلاف نہیں ہے ، ان دونوں جملوں کا حاصل یہ ہے کہ  آپ ﷺ اذان کے بعد  ، اقامت کے وقت  جب تشریف لاتےاور صحابہ کرام کی تعداد کچھ کم محسوس ہوتی تو آپ کچھ دیر انتظار فرمالیتے۔

(۲)         اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر نماز میں آپ کاایسامعمول  تھا،نیزصحابہ کرام سے یہ بعید ہے کہ وہ نماز کیلئے دیر سے تشریف لاتے ہوں ، البتہ کبھی ایسا ہوجاتا کہ آپ ﷺ تشریف لے آتے اورکچھ  صحابہ کرام کو کسی وجہ تشریف لانے میں تھوڑی  دیر ہوجاتی ، جس کی وجہ سے آپ ﷺ کو تعداد کچھ کم محسوس ہوتی ،تو  آپ ﷺ کچھ دیر انتظار فرمالیتے ۔ جس  سے اتنی بات واضح طور  معلوم ہوئی کہ آپ ﷺجماعت کی کثرت کا لحاظ فرمایا کرتے تھے۔

حنفیہ کے نزدیک افضلیت ِ اسفار کی یہی علت  ہے۔  (والذي يؤيد كلام الشراح أن ماذكره أئمتنا من استحباب الإسفار بالفجر والإبراد بظهر الصيف معلل بأن فيه تكثير الجماعة)۔(شامی : ۱/۲۴۹)

ایک اہم تنبیہ :

افضلیت ِ إسفار کی اسی  علت (تکثیر جماعت ) کی وجہ سے  ، علماء احناف کی ایک جماعت نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ اگر  لوگ غلس میں ہی جمع  ہو گئے ہو ں تو  اسفار تک انتظار کرنے کی بجائے غلس  میں ہی فجر ادا کر لینا افضل ہے۔

مفتی سعید صاحب پالنپوری (بارک اللہ فی علمہ وعمرہ ) تحریر فرماتے ہیں  کہ ’’فجر ادا کرنے کا مستحب وقت کیا ہے ؟ ۔۔۔۔۔۔۔ اور حنفیہ کہتے ہیں یہ حالات کے تابع ہے،  اگر اول وقت میں سب نمازی آجائیں تو  غلس میں فجر پڑھنا افضل ہے، ورنہ اسفار میں یعنی تاخیر کرکے پڑھنا افضل ہے۔  (تحفۃ القاری شرح صحیح البخاری : جلد۲ : صفحہ ۴۳۴)

مزید عبارات :

قال ابن عابدین ؒ  : والذي يؤيد كلام الشراح أن ما ذكره أئمتنا من استحباب الإسفار بالفجر والإبراد بظهر الصيف معلل بأن فيه تكثير الجماعة۔ (رد المحتار : ۱/۲۴۹)

قال الإمام حافظ الدين هذه المسألة تدل على أن الصلاة في أول الوقت عندنا أفضل إلا إذا تضمن التأخير فضيلة كتكثير الجماعة وأنكر ذلك بعض المتأخرين وقال قد ثبت بصريح أقوال علمائنا أن الأفضل الإسفار بالفجر مطلقا والإبراد بالظهر في الصيف وتأخير العصر ما لم تتغير الشمس من غير اشتراط جماعة فكيف يترك هذا الصريح بالمفهوم ويجاب لحافظ الدين أن الصريح محمول على ما إذا تضمن ذلك فضيلة كتكثير الجماعة؛ لأنه إذا لم يتضمن ذلك لم يكن للتأخير فائدة۔ (الجوھرۃ النیرۃ : ۱/ ۲۴) وانظر  (البحر الرائق : ۱/ ۱۶۳، نواقض التیمم)

محدث کبیر، مولانا انور شاہ کشمیری ؒ نقل فرماتے ہیں :  (الاطلاع) في باب تيمم مبسوط السرخسي يستحب الغلس وتعجيل الظهر إذا اجتمع الناس۔(العرف الشذی ۱/ ۱۷۵)، وفي «المبسوط» في باب التيمم: أن فضل الإبراد بالظهر والإسفار بصلاة الفجر، إنما هو عند عدم اجتماع القوم، فإن اجتمعوا قبله فالأفضل التعجيل۔(فیض الباری : ۲/ ۱۶۸، رقم ۵۶۲)  مزید تفصیل کیلئے دیکھئے : (معارف السنن للعلامۃ البنوریؒ : جلد۲ : صفحہ ۳۸، تحت ’’ تنبیہ‘‘)

اس سے دو اعتراضات  کا جواب بھی ہوگیا :

اعتراض نمبر (۱) :

اگر احناف کے نزدیک فجر کی نماز اسفار میں پڑھنا افضل ہے ، تو پھر وہ رمضان کے فضلیت والے مہینہ میں اس افضلیت کو چھوڑ کر غلس میں ہی کیوں نماز ادا کرلیتے ہیں ۔

 جواب :

رمضان المبارک میں لوگ  تہجد اور  سحری کے بعد نماز فجر  کی ادائیگی کیلئے غلس ہی میں مسجد میں جمع ہوجاتے ہیں،  اسلئے غلس میں فجر کی  نماز ادا کرلی جاتی ہے،  اسلئے کہ ایسی صورت میں یہی افضل ہے ، جیسا کہ اوپر  بیان کیا گیا۔ فتاویٰ رحیمیہ سے ایک سوال وجواب تحریر کیا جاتاہے:

سوال :     

رمضان میں رات کو لوگوں کی نیند  پوری نہیں ہوتی ، جس کی وجہ سے سحری کے بعد فجر تک بیدار  رہنا ان پر شاق گذرتا ہے ، بعض تو گھر میں نماز پڑھ کر سو جاتے ہیں ، اور بعض نماز کے وقت بیدار ہوجانے کے  ارادے سے نماز پڑھے بغیر سو جاتے ہیں ، بر وقت آنکھ نہ کھلنے کی صورت میں ثواب ِ جماعت سے محروم رہتے ہیں اور بعضوں کی تو نماز  بھی قضا ہوجاتی ہے اگر صبح صادق کے بعد جلد جماعت کرلی جائے تو سب جماعت میں شریک ہوسکتے ہیں ، ایسا کرنے میں کوئی حرج ہے؟

الجواب :  

رمضان میں مذکورہ علت کی وجہ سے نمازِ فجر ہمیشہ کے وقت سے جلد پڑھ لی جائے تو کوئی حرج نہیں بلکہ اولیٰ ہےسب لوگ شرکت فرما سکیں گے اور جماعت بڑی ہوگی اسکی تائید مندرجہ ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے:  

’’حضرت  زید بن ثابت ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول خدا ﷺ کے ساتھ سحری کھائی پھر صبح  کی نماز کیلئے کھڑے ہوگئے ، راوی نے دریافت کیا  سحری اور نماز میں کتنا فاصلہ تھا ؟ فرمایا کہ جتنی  دیر میں پچاس آیتیں پڑھ سکیں ۔‘‘[14]

پچاس آیات تو ایک اندازہ ہے ، سحری کا وقت ختم  ہوجانے  کے بعد یعنی صبح صادق بعد پندرہ  بیس منٹ ٹھہر کر نماز پڑھی جائے تو بہتر ہے،  اتنا فاصلہ استنجاء  وغیرہ سے فراغت کیلئے کافی ہے ۔ فقط واللہ اعلم بالصواب ۔ (فتاویٰ رحیمیہ ، کتاب الصلوۃ : جلد ۴ : صفحہ ۷۶)

معلوم ہوا رمضان المبارک میں جبکہ لوگ  غلس ہی میں نماز فجر کیلئے جمع ہوجاتے ہیں ، اور اسی وقت ادائیگی فجر میں ’’تکثیر جماعت‘‘ بھی ہے،تو ایسی صورت میں غلس ہی میں فجر کی نماز ادا کرنا افضل ہے۔

اعتراض نمبر(۲) :

بعض احادیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ آپ ﷺ اور اسلاف ،غلس میں فجرادا فرمایا کرتے تھے ۔

اس کے ۲جواب ہیں :

(اول)    مذکورہ  بالا  اہم تنبیہ  اور اعتراض نمبر ۱ کے جواب  (یعنی ص: ۳۸  پڑھنے)سے اسکا جواب بھی بہت آسانی سے سمجھ میں آسکتا ہے،    کہ صحابہ  کرام ؓ اور اسلاف ِ امت ؒ  ہر رات کی اسی طرح قدر  کرتے تھے جس طرح ہم شبِ قدر کی کرتے ہیں، راتوں کو تہجد میں گزارتے اور  دن کو کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے ، خود قرآن کرام  میں اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’والذین یبیتون لربھم سجدا وقیاماً ‘‘۔( الفرقان :۶۴) ’’اور جو راتیں اس طرح گزارتے ہیں کہ اپنے پروردگار کے آگے (کبھی )سجدہ میں ہوتے ہیں، اور(کبھی ) قیام میں‘‘۔

لہذا وہ نماز فجر کیلئے  بھی غلس ہی میں جمع ہوجاتے ، پس اس صورت میں افضل یہی ہے کہ غلس ہی میں نمازِ فجر ادا کرلی جائے۔  جبکہ آج  کے دور میں ، فجر کو تاخیر سے پڑھنے میں جماعت  کی کثرت ہوتی ہے ۔  لہذا آج کے دور میں اسفار ہی میں فجر کی نماز ادا کرنا افضل ہے۔ اور رمضان میں غلس میں جماعت  کی کثرت ہوتی ہے۔تو غلس ہی میں فجر کی نماز ادا کرنا افضل ہے۔

 (دوم)     اسلاف امت فجر میں طویل قرآت کیا کرتے تھے ، چنانچہ : 

-             عموما ً نبی کریم ﷺ ۶۰ سے۱۰۰ آیتوں تک تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری /۷۷۱)

-             ایک مرتبہ آپ ﷺ نے سورہ مؤمنون پڑھنی شروع کی  ( جو تقریباً آدھے پارے کی ہے)۔ (مسلم:۴۵۵)

-             حضرت ابو بکرؓ نے ، مکمل سورہ بقرہ تلاوت فرمائی۔ (جو ڈھائی پارہ ہے) ۔ (مصنف ابن ابی شبیہ :۳۵۶۵)  وغیرہ

-            حضرت عمر ؓ بھی سورہ یوسف اور سورہ یونس جیسی طویل سورتیں تلاوت فرمایا کرتے تھے ۔ (طحاوی :۱۰۷۶)

-            ایک مرتبہ آپؓ نے سورہ کہف اور سورہ بنی اسرائیل تلاوت فرمائی  (جوایک پارہ سے زیادہ ہے) ۔(طحاوی : ۱۰۷۹)

-            حضرت عمر ؓ صرف خود طویل قرآت نہیں کرتے ، بلکہ آپ نے اپنے گورنروں کو  بھی حکم فرمایا تھا کہ طویل قرآت کیا کریں ، چنانچہ  حضرت ابو موسیٰ ؓ کو خط لکھا کہ اور فرمایا کہ فجر کی نماز غلس میں پڑھو اور تطویل قرآت کرو۔  (قال: قرأت كتاب عمر، إلى أبي موسى فيه مواقيت الصلاة، فلما انتهى إلى الفجر، أو قال: إلى الغداة، قال: «قم فيها بسواد، أو بغلس وأطل القراءة)،(مصنف ابن ابی شیبہ : ۱/۲۸۳ ، رقم الحدیث ۳۲۳۵،مصنف عبد الرزاق : ۱/۵۷۰، رقم ۲۱۷۰،شرح معانی الآثار : ۱/ ۱۸۱، رقم ۱۰۸۶، ۱۰۸۷)

اس کی سند کو سلفی عالم شیخ عبد العزیز بن مرزوق الطریفی نے صحیح کہا ہے ۔ (التحجیل : صفحہ ۶۷) اسی طرح المطالب العالیہ کے سلفی محققین نے  کہا ہے کہ یہ اثر حضرت عمر ؓ سے ثابت ہے۔ (المطالب العالیہ : جلد۳ : صفحہ ۱۴۵اور ۱۵۹،  رقم الحدیث ۲۵۱، ۲۵۳)

اس سے معلوم ہوا کہ اسلاف کا عام معمول فجر میں طویل قرآت کرنے کا تھا ۔ اس وجہ سے وہ فجر کی نما زغلس میں شروع فرماتے، تاکہ طویل قرآت کرسکیں ۔

البتہ بعض روایتوں میں یہ تذکرۃ ہے کہ وہ کبھی اسفار بھی کیا کرتے تھے :

(۱)         حضرت علیؓ (كان علي رضي الله عنه ينور بالفجر أحيانا , ويغلس بها أحيانا)کبھی غلس میں نماز پڑھتے اور کبھی اسفار میں ۔ (شرح معانی الآثار للطحاوی : جلد۱ : صفحہ ۱۸۰، رقم الحدیث : ۱۰۷۵واللفظ لہ، الصلاۃ لأبی نعیم الفضل ابن دکین : صفحہ ۲۲۳ ، رقم الحدیث ۳۳۶)

اس کی سند  کے تمام روات ثقہ ہیں مگرسیف بن ہارون  کی اکثر علماء  جرح وتعدیل نے تضعیف کی ہے۔بہر حال یہ سند سیف بن ہارون کی وجہ  سے ضعیف ہے، البتہ اگلے آثار سے اس کو تقویت ملتی ہے۔

-            حضرت علی ؓ نے قنبرؒ سے کہا أسفر أسفر یعنی روشن کرو روشن کرو۔ (مصنف عبد الرزاق :۱/ ۵۶۹،مصنف ابن أبی شيبہ : حدیث نمبر ۳۲۶۳ ،طحاوی :۱/ ۱۸۰، الاوسط ابن المنذر :۱/ ۳۷۸)

(۲)         ابو ددراء ؓ نے فرمایا فجر کو روشن کرکے پڑھو یہ تمہارے لئے زیادہ سمجھداری کی بات ہے۔  (مصنف ابن ابی شیبہ : حدیث نمبر ۳۲۶۶)

ان دونوں اثروں کو سلفی عالم شیخ زکریا غلام قادر نے صحابہ کے صحیح آثار میں نقل کیا ہے۔ (ما صح من آثار الصحابہ فی الفقہ : باب وقت الفجر: ۱۷۰)

ان تینوں آثار سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کبھی اسفار میں نماز فجر ادا کرتے اور کبھی غلس میں ۔

نوٹ :      ابن مسعود ؓ،مغیرۃ ؓ،حسین بن علی ؓ سے بھی اسفار میں نماز فجر ادا کرنا مروی ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ : ج۳: ص ۱۲۶-۱۳۱)

تطبیق اس طرح دی جاسکتی ہے کہ :

(۱)         اسفار میں نماز  پڑھنا افضل ہے۔(اس لئے کہ  موجودہ دور میں عام طور سےاسی وقت جماعت  کی کثرت ہوتی ہے)

(۲)         البتہ اگر غلس میں ہی سب لوگ جمع ہوجائیں(جیسےکہ رمضان میں ہوتا ہے،)  تو پھر اسی وقت پڑھ لینا افضل ہے ۔

 (۳)        نیز اگر عام معمول طویل قرآت کا ہے۔ تو غلس میں شروع کریں اور اسفار میں ختم،  صحابہ کرام اور اسلاف امت  تہجد گزار ہوا کرتے تھے ، لہذا  غلس ہی میں فجر کیلئے جمع ہوجاتے۔اور ان  کا عام معمول طویل قرآت کا تھا،  اسلئے وہ غلس میں نماز شروع کردیتے اور ختم ہوتے ہوتے اسفار ہوجاتا۔(اس کی تائید حدیث سے بھی ہوتی ہیں،دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ : حدیث نمبر ۳۲۷۹،اسنادہ صحیح)

-            لیکن بعض مرتبہ غلس میں شروع کرتے اور قرآت طویل نہ کرتے تو غلس میں ہی نماز مکمل ہوجاتی ۔

-            اور بعض مرتبہ اسفار میں ادا کرتے ۔ (جماعت  کی کثرت کے لئے)

ان تمام احادیث وآثار میں امام طحاوی ؒ  (م۳۲۱؁؁)نے ’’تقریباً ‘‘اسی طرح کی تطبیق دی ہے۔ اور اسے علماء ثلاثہ امام ابو حنیفہ ؒ ، امام ابو یوسف ؒ اور امام محمد ؒ کا مسلک قرار دیا ہے۔  (شرح معانی الآثار :۱ /۱۷۹ – ۱۸۴)اور اس تطبیق پر تمام روایتیں جمع ہوجاتی ہیں ۔

آج  اسفار میں نماز کیوں :

لیکن آج کے زمانہ میں اسفار ہی میں نمازفجر ادا کرنا  افضل ومستحب ہے، اس لئے  کہ :

اولاً            تہجد گزاروں کی ایسی کثرت نہیں رہی  کہ غیر رمضان میں،غلس  ہی میں تمام لوگ نماز ِ فجر کیلئے جمع ہوجاتے ہوں ، نہ طویل قرآت کا معمول ہے،

دوم        اب تکثیر جماعت (جس کی رعایت خود نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے) اسفار میں ہے ، لہذا اب  اسفار ہی میں پڑھنا افضل ہے۔

غیر مقلدین کی پیش کردہ ۲ روایتیں اور ان کا جواب :

پہلی روایت :

غلام مصطفی ظہیر امن پوری صاحب  نے پہلی روایت یہ پیش کی :کہ

نبی کریم ﷺ صبح کی نماز پڑھتے پھر(نماز کے بعد ) عورتیں اپنی چادروں  سےلپٹی ہوئی نکلتیں  ، اور پہچانی نہیں جاتیں (من الغلس ) اندھیرے کی وجہ سے  (صحیح بخاری )۔(ضرب حق : شمارہ  ۶ : ص ۲۴)

اس سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ آپ ہمیشہ غلس میں نماز شروع فرماتے اور غلس میں ختم فرماتے ۔

الجواب :

اولا         اس میں ’’من الغلس ، اندھیرےکی وجہ سے ‘‘یہ جملہ حضرت عائشہ ؓ کا نہیں ہے ، بلکہ راوی کی طرف سے بڑھایا ہوا ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ:

               یہی روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم  میں دوسری جگہ بغیر اس جملہ کے  ہے ۔ دیکھئے (بخاری : ۳۷۲،مسلم: ۶۴۵)، سنن ابن ماجہ میں یہی روایت بالکل صحیح سند سے ہے ، جس میں صراحت ہے کہ ’’ تعنی من الغلس‘‘۔ یعنی راوی کہہ رہے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ کی مراد یہ ہے کہ اندھیرے کی وجہ سے ۔

اسی طرح یہ روایت مسند ابی یعلیٰ میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہے ، جس کے الفاظ ہیں کہ (وننصرف وما يعرف بعضنا وجوه بعض )ہم ایک دوسرے کے چہرے کو نہیں پہچان پاتے، (مسند ابی یعلی: ٰ ۴۴۳۹) اس کے محقق اور عرب عالم شیخ حسین سلیم اسد نے  اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔

معلوم ہوا کہ اس روایت میں ’’من الغلس‘‘کا لفظ حضرت عائشہ ؓ کا نہیں ، بلکہ کسی راوی کی طرف سے مدرج ہے۔

دوم          بلکہ مسند ابی یعلیٰ کی اس روایت سے اس حدیث کا شان ورود مزید واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ   نماز کا وقت نہیں بلکہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں مسجد آنے والی عورتوں کا پردہ  کا اہتمام اور بعد  کی  عورتوں کا اس میں تساہل بیان کر رہی ہیں ۔

 حدیث کے مکمل  الفاظ یوں ہیں :

أن عائشة قالت: «لو رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم من النساء ما نرى لمنعهن من المساجد كما منعت بنو إسرائيل نساءها، لقد رأيتنا نصلي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الفجر في مروطنا، وننصرف وما يعرف بعضنا وجوه بعض۔

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اگر نبی کریم ﷺ عورتوں کی یہ حالت دیکھتے جو ہم دیکھ رہے ہیں تو  آپ انہیں مسجدوں سے ایسے روک دیتے ، جیسا کہ بنی اسرائیل نے اپنی عورتوں کو روک دیا تھا، میں نے  دیکھا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اپنی چادروں میں نماز پڑھتیں اور لوٹ آتیں کوئی ایک دوسرے کا چہرہ نہیں پہچانتا۔

اس سے صاف معلوم ہو گیا کہ وہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں عورتوں کا پردہ کا اہتمام بیان کر رہی ہیں ، اوربعد کی عورتوں کا اس میں تساہل ، ان کے بیان کا مقصد فجر کی نماز کا وقت بتانا نہیں ہے۔

سوم        اگر یہاں  یہ معنی  لیا جائے کہ غلس کی وجہ سے نہیں پہچانی جاتی تھیں ، تو خود صحیح بخاری کی دوسری روایت سے تعارض  لازم آئے گا ، حضرت ابو برزہ الاسلمی ؓ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ(وكان ينفتل من صلاة الغداة، حين يعرف أحدنا جليسه، ويقرأ من الستين إلى المائة ) آپ ﷺ جب نماز ختم فرماتے تو اتنی روشنی ہوجاتی کہ   آدمی اپنے پڑوس والے کو پہچان لیتا ۔(صحیح بخاری: ۵۹۹)

اسی طرح ایک روایت میں ہیں کہ(والصبح إذا طلع الفجر إلى أن ينفسح البصر) آپ ﷺاس وقت نماز ختم فرماتے جب آنکھوں کو دور کی چیز نظر آنے لگتی ۔(نسائى ۱/۹۴ – ۹۵، مسند أحمد ۳/۱۲۹ ، ۱۶۹) سلفی عالم ومحدث شیخ البانی ؒ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ ( ارواء الغلیل : ۱/۲۸۰)

معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث سے یہ مراد لینا کہ آپ ہمیشہ غلس میں نماز ختم کرتے تھے ، دوسری صحیح روایتوں کے معارض بھی ہے۔

چہارم     آپ ﷺ کی زمانے میں لوگ تہجد گزار تھے،اور وہ نماز فجر  کی ادائیگی کیلئے غلس ہی میں مسجد میں جمع ہوجاتے تھے،  اسلئے غلس میں فجر کی  نماز ادا کرلی جاتی تھی،  کیونکہ ایسی صورت میں یہی افضل ہے ، جیسا کہ اوپر  بیان کیا گیا،اور آپ ﷺ کا عام معمول بھی  طویل قرات کا تھا۔ جس کی تفصیل گزرچکی،نیز اس بات کا اشارہ  ابو برزہ الاسلمی ؓ کی روایت سے بھی ملتا ہے۔(دیکھئے سوم) اس  لحاظ سے بھی  نماز کو غلس میں شروع  فرماتے ۔  لہذا اگر طویل قرات یا جماعت کی تکثیر کی وجہ سے غلس میں نماز شروع کی جائے،تو  اس کی اجازت ہے۔

              لیکن کیا غیرمقلدین ان  دونوں  وجوہات کی بنا پر غلس میں نماز شروع کرتے ہیں ؟؟؟

دوسری روایت :

غلام مصطفی ظہیر امن پوری صاحب  نے ایک روایت یہ  بھی پیش کی :کہ

نبی کریم ﷺ (صلى الصبح مرة بغلس، ثم صلى مرة أخرى فأسفر بها، ثم كانت صلاته بعد ذلك التغليس حتى مات، لم يعد إلى أن يسفر) نے  ایک مرتبہ غلس میں نماز ادا فرمائی  ، پھر دوسری مرتبہ اسفار میں نماز ادا فرمائی ،  اس کے بعد آپ ہمیشہ غلس میں ہی نماز ادا فرماتے رہے  یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی ۔ (ضرب حق : شمارہ ۶ : ص ۲۵)

الجواب :

اولا        اس کی وجہ  بیان کردی کی گئی،  کہ آپ ﷺ کی زمانے میں لوگ تہجد گزار تھے،اور وہ نماز فجر  کی ادائیگی کیلئے غلس ہی میں مسجد میں جمع ہوجاتے تھے۔آج بھی رمضان کے مہینے میں سحری کے بعد جب  لوگ  غلس میں ہی مسجد میں جمع ہوجاتے ہیں،تو پورےمضان  میں نماز فجر غلس میں ہی  ادا کی جاتی ہے۔لہذا تکثیر جماعت یا  طویل قرات کے وجہ سے ،نماز فجر کو غلس میں ہی ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

              اور غیر رمضان میں تکثیر جماعت چونکہ اسفار میں ہوتی ہے۔اس لئے کہ اکثر لوگ اب تہجد گزار نہیں رہے۔لہذا غیر رمضان میں نمازفجر  میں اسفار افضل ہے۔ واللہ اعلم

دوم        اس روایت میں زہری ؒ (م۱۲۵؁ھ) موجود ہیں جو کہ مدلس ہیں۔(فتح المبین : ص ۶۲، نور العینین : ص ۱۱۸) اور اس روایت میں  انہوں نے سماع کی صراحت بھی نہیں کی، جو کہ  خود  ظہیر امن پوری صاحب  اور غیر مقلدین کے اصول کی روسے مردود ہے۔ لیکن  موصوف نے اپنا ہی اصول  بھولا کر،  اس روایت کو حسن کہا ہے۔(اللہ ان کی غلطی کو معاف فرمائے)

سوم         اس روایت کے  بارےمیں:

-              امام داود ؒ (م۲۷۵؁ھ) نے کہا :’’روى هذا الحديث عن الزهري معمر ومالك وابن عيينة وشعيب بن أبي حمزة والليث بن سعد وغيرهم، لم يذكروا الوقت الذي صلى فيه ولم يفسروہ‘‘ اس حدیث کو زہری ؒ سے  معمرؒ،مالکؒ،ابن عیینہؒ،شعیب بن ابی حمزہؒ،اللیث بن سعد ؒ وغیرہم نے بھی روایت کیا۔لیکن ان حضرات نے نہ نماز کےوقتوں کا ذکرکیا  اور نہ ہی  اس کی تفصیل بیان کی۔ (سنن ابی داؤد : ۱/۲۹۵ ،رقم الحدیث ۳۹۴)

-            امام طبرانی ؒ (م۳۶۰؁ھ)کہتے ہیں ’’ ولم يحد أحد ممن روى هذا الحديث عن الزهري المواقيت إلا أسامة بن زيد‘‘ اس حدیث’’ المواقیت‘‘ کو زہری ؒ سے روایت کرنے میں  اسامہ بن زید ؒ اکیلے ہے۔ (المعجم الاوسط :۸/۲۹۹،رقم  ۸۶۹۴)

-            امام ابن خزیمہ ؒ  (م۳۱۱؁ھ) فرماتے ہیں : ’’ هذه الزيادة لم يقلها أحد غير أسامة بن زيد‘‘ اس زیادتی کو اسامہ بن زید کےعلاوہ کسی نے بیان نہیں کیا۔(صحیح ابن خزیمہ : ۱/۲۱۳، رقم ۳۵۳)

الغرض  معلوم ہوا کہ معمرؒ،مالک بن انسؒ،ابن عیینہؒ،شعیب بن ابی حمزہؒ،اللیث بن سعد ؒ  جیسے ثقہ،ثبت حفاظ کے مقابلے میں صرف اسامہ بن زید ؒ [ثقہ عند الجمہور] اس زیادتی کو بیان کرنے میں منفرد ہیں اور  پھر بعض علماء  جرح وتعدیل نےاسامہؒ کے حافظہ کی کمزوری  کی  بھی نشادہی کی ہے۔جس کا اقرار خود سلفی علماء کرچکے ہیں۔چناچہ سلفی عالم ومحدث شیخ البانی ؒ کہتے ہیں’’أن أسامة بن زيد الليثي- وإن كان ثقة من رجال مسلم-؛ فإن في حفظه بعض الضعف‘‘ اسامہ بن زید لیثی اگرچہ ثقہ ہیں ، مسلم کے رجال میں سے ہیں  مگر ان کے حافظہ میں کچھ ضعف ہے۔  (صحیح ابو داؤد ،الام ۱/۴۲۲)  اسی طرح دوسرے سلفی عالم شیخ عبد العزیز بن مرزوق الطریفی کہتے ہیں کہ ’’أسامة بن زيد الليثي وفيه ضعف‘‘اسامہ بن زید لیثی میں کجھ ضعف ہے ۔  (التحجیل : صفحہ ۶۰)،مصر کے مشہور سلفی محدث ابو اسحاق الحوینی ؒ نے کہا: ’’ مُتَكَلَّمٌ في حفظه ‘‘ ان کے حافظہ پر کلام کیا گیا۔(تفسیر ابن کثیر : ج۳ : ص ۲۷۶، بذل الاحسان : ج۲: ص۲۷۲)

لہذا ثقہ،ثبت حفاظ کے مقابلے میں کیا ایسے راوی کی زیادتی غیر مقلدین کی نزدیک مقبول ہوگی ؟؟

یہ بھی یاد رہے کہ غیر مقلدین  نےاکثر  ثقہ کی زیادتی کے مسئلہ میں دوغلی پالسی کا ثبوت دیا ہے۔ جس کی تفصیل ص : ۲۶ پر موجود ہے۔

لہذا غلام مصطفیٰ ظہیر صاحب سے گزارش ہے کہ وہ ثقہ کی زیادتی کے مسئلہ میں اپنے موقف کی وضاحت کریں اور اوپر موجود  سوالات کے جوابات دیتے ہوئے ، بتائیے کہ وہ کن حدیثوں کو صحیح ، کن کو ضعیف اور کن اقوال کو مردود تسلیم کرتے ہیں ؟  تاکہ معلوم ہو  کہ اسامہ بن زید اللیثی ؒ کی زیادتی ان کے نزدیک صحیح ہے یا ضعیف ؟؟

خلاصہ :

(۱)         فجر کی نماز اسفار میں پڑھنا افضل ہے ، یہی قرآن  وسنت کے زیادہ موافق ہے۔ تاخیر کے افضل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ (موجودہ زمانے)   اس میں جماعت کی کثرت ہوتی ہے۔ اور آپ ﷺ بھی جماعت کی کثرت کیلئے کبھی انتظار فرمایا کرتے تھے۔

(۲)          حدیث شریف کے مطابق اتنی تاخیر مستحب ہے کہ تیر پھینکا جائے ، تو اس کے گرنے کی جگہ نظر آئے،جس کی تفصیل گزرچکی۔

(۳)        اگر  غلس ہی میں پڑھنے میں تکثیر ِ جماعت ہوتو اسی وقت پڑھنا افضل ہوگا۔

(۴)        اسلاف سے اسفار اور غلس دونوں ثابت ہیں ۔  عام معمول غلس میں پڑھنے کا تھا ، اس لئے کہ اسی وقت لوگ اکثر جمع ہوجاتے ، اور اس وقت  پڑھنے میں بھی تکثیر جماعت ہوتی ، نیز تطویل قرآت کی جاتی تھی ، اس لئے غلس میں شروع کرکے اسفار میں ختم فرماتے ۔  البتہ کبھی کبھی اسفار میں بھی پڑھنے کا معمول تھا ۔

(۵)        جن روایتوں میں  غلس میں نماز پڑھنے کا ذکر ہے  ، اس سے مراد یہ ہے کہ غلس میں شروع فرماتے اور اسفار میں ختم  کرتے ۔ کبھی کبھی غلس میں  بھی ختم فرمادیتے ۔

(۶)         جن روایتوں میں یہ  ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ اسفار میں پڑھی پھر اسفار میں نہیں پڑھی اس کا مطلب ہے کہ اسفار شدید میں پڑھی ۔ اس زمانہ میں ، عام دنوں میں تکثیر جماعت  اسفار میں ہوتی ہے ، لہذا اسفار میں ہی پڑھنا افضل ہے ۔

ھذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب ۔



[1]  امام ابن المنذر ؒ  (م۳۱۹؁ھ) نے کہا :وأجمعوا على أن وقت صلاة الصبح:طلوع الفجر۔‘‘ (الاجماع لابن المنذر : رقم ۳۶)، امام ابو  محمد ابن حزمؒ (م۴۵۶؁ھ) نے کہا : ’’واتفقواعلى أن طلوع الفجرالمذكور إلى طلوع قرص الشمس وقت للدخول في صلاة الصبح۔‘‘ (مراتب الاجماع : صفحہ ۲۶)

[2]  امام ابن المنذر ؒ  (م۳۱۹؁ھ) نے کہا :  وأجمعوا على أن من صلى الصبح بعد طلوع الفجر قبل طلوع الشمس؛ أنه يصليها في وقتها۔ (الاجماع لابن المنذر : رقم ۳۷)

 

[3]  (معارف السنن : ۲/ ۳۵)، نیز دیکھئے  (الأصل المعروف بالمبسوط للامام محمد : ج۱ : ص ۱۴۶،۲، الحجة على أهل المدينة للشیبانی : ج۱ : ص ۱،مختصر الطحاوی : ص۲۴،مختصر اختلاف العلماء للطحاوی : ج۱: ص۱۹۵،شرح مختصر الطحاوی  للجصاص : ج۱ : ص ۵۲۳،المدونۃ  : ج۱: ص ۱۵۷، کتاب الام : ج۱: ص۹۳،مسائل احمد بروایت ابی داود : رقم ۱۷۳)

[4]  اس کی سند کا حال:

۱- امام طحاوی ؒ (م۳۲۱؁ھ)مشہور ثقہ،ثبت حافظ الحدیث،اور ائمہ جرح و تعدیل میں سے ہیں۔( الثقات ممن لم یقع فی الکتب الستۃ : ۲/۳۶، ذكر من يعتمد قوله في الجرح والتعديل:ص۲۰۴)

۲- محمد بن خزیمہ بن راشد ابو عمرو البصری ؒ۔ثقہ ۔(التذییل علی کتب الجرح: ۱/ ۲۷۰ ، رقم ۷۲۶،الثقات ممن لم یقع فی الکتب الستۃ : ۸/۲۶۷، رقم ۹۷۰۰)

۳- عبد اللہ بن مسلمۃ القعنبی ؒ ۔ثقہ ۔ (التقریب : ۳۶۲۰)

۴- عیسیٰ بن یونس بن ابی اسحاق السبیعیؒ ۔ ثقہ مأمون ۔ (التقریب : ۵۳۴۱)

۵- اعمش ؒ اور

۶ -  ابراہیمؒ معروف ثقہ روات میں سے ہیں ۔ (عام کتب رجال)

معلوم ہوا یہ سند بالکل صحیح ہے۔

ایک اشکال اور اس کا جواب :

اس سند پر بعض لوگ اعمشؒ کے عنعنہ کی وجہ سے کلام کرتے ہیں ،جو کہ مردود ہے۔ دکھئے (الاجماع : شمارہ ۳: ص۲۳۸)  نیز علم جرح وتعدیل رکھنے والے  اس بات سے واقف ہیں کہ محدثین کرام نے ’’اعمش عن ابراہیم نخعی ‘‘کی سند کو خاص طور سےقبول کیا ہے ، اور اسے اتصال پر محمول کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ بخاری ومسلم میں اعمش عن ابراہیم کی سند سے کثرت سےروایتیں موجود ہیں ۔

اس بات کو غیر مقلد عالم ومحدث شیخ البانیؒ بھی قبول کرتے ہیں ۔ وہ کہتےہیں کہ لكن العلماء جروا على تمشية رواية الأعمش المعنعنة، ما لم يظهر الانقطاع فيها، وقد قال الذهبي في ترجمته في " الميزان ": " ومتى قال: (عن) تطرق إليه احتمال التدليس إلا في شيوخ له أكثر عنهم كإبراهيم وأبي وائل وأبي صالح السمان، فإن روايته عن هذا الصنف محمولة على الاتصال ".(صحیحہ : ۴/۴۰۳)

مزید اس کی متابعت اگلی سند سے بھی ہوتی ہے۔

امام ابو بکر ابن ابی شیبہ ؒ (م۲۳۵؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’ حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن حماد ، عن إبراهيم ، قال : ما أجمع أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم على شيء ما أجمعوا على التنوير بالفجر ‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبہ : رقم الحدیث ۳۲۷۵)

یہ سند پچھلی  سند کی وجہ سے صحیح لغیرہ ہے ۔  اس سند کے تمام راوی(وکیع بن الجراحؒ ، سفیان ثوریؒ ، حماد بن ابی سلیمان ؒ ، ابراہیم نخعیؒ)  بخاری ومسلم کے مشہور ثقات ہیں ، البتہ امام حماد بن ابی سلیمانؒ سے صرف امام مسلمؒ نے روایت لی ہے ، اور وہ صدوق ہیں ۔ (تقریب :رقم ۱۵۰۰) امام ابراہیم نخعیؒ کے اس اثر سے ثابت ہوا صحابہ  کرام  اسفار پر متفق  تھے۔

اس اثر کے مفہوم سے متعلق ایک اہم بات :

امام طحاوی ؒ  (م۳۲۱؁ھ)نے اس اثر سے یہ استدلال کیا ہے کہ ’’ فالذي ينبغي: الدخول في الفجر في وقت التغليس , والخروج منها في وقت الإسفار ‘‘یعنی مناسب یہ ہے کہ فجر کی نماز غلس میں شروع کی جائے اور اسفار میں ختم کی جائے۔ (شرح معانی الآثار : ۱/ ۱۸۴، رقم ۱۰۹۷)

                   غلس میں شروع کرکے اسفار میں ختم کرنے کی دو وجہ ہے :ایک تطویلِ قرآت  اور دوسری تکثیر جماعت بالغلس۔

جس کی کچھ تفصیل ان شاء اللہ آگے بیان کی جائے گی ۔ (دیکھئے ص:)

[5] ان کے الفاظ یہ ہیں :

قوله: (وَإِدْبَارَ النُّجُومِ) قيل: هو صلاة الفجر، وقيل: ركعتا الفجر. الغريب: استدل بعض الفقهاء بالآية على أن الإسفار بصلاة الفجر أفضل لأن النجوم لا إدبار لها، وإنما ذلك بالاستتار عن العيون.

 

[6]  سلفی شیخ کبیر  محمد احمد إسماعیل مقدم کی تفسیر آڈیو[MP3] کی شکل میں  [Archive.org] پر موجود ہے۔

ان کے الفاظ یہ ہیں :

          الاستدلال بالآية على أفضلية الإسفار بصلاة الصبح، وذكر الخلاف في ذلك:

قال في الإكليل: قال الكرماني: إن بعض الفقهاء استدل بهذه الآية على أن الإسفار بصلاة الصبح أفضل؛ لأن النجوم لا إدبار لها، وإنما ذلك بالاستتار عن العيون، ثم علق صاحب الإكليل [6]على هذا فقال: وهو استدلال متين.

يعني أن الإسفار بصلاة الصبح أفضل من التغليس، والغلس هو: ما تبقَّى من الظلمة في آخر الليل عند بداية طلوع الفجر، حيث يكون هناك بقايا ظلمة منتشرة، فالتغليس بالصلاة هو: أداؤها في وقت الغلس، يعني: حين يطلع الفجر، لكن بقيت ظلمة من آخر الليل.

فيقول الكرماني: إن بعض الفقهاء استدل بقوله تعالى: ((وَإِدْبَارَ النُّجُومِ)) على أن الإسفار بصلاة الصبح أفضل؛ لأن النجوم لا إدبار لها، وإنما ذلك بالاستتار عن العيون.

يعني: أن صلاة الصبح تكون وقت إدبار النجوم، والنجوم لما ينتشر ضوء الصباح تختفي؛ لأن الضوء ينتشر فيسترها.

فهذا الفريق من الفقهاء قالوا: إذا قلنا: إن (إدبار النجوم) صلاة الفجر، ففي هذه الحالة يكون المعنى: صل صلاة الصبح وقت استتار النجوم، ومتى تستتر؟ تستتر بانتشار الضوء الذي هو الإسفار.

وهذه المسألة فيها خلاف بين الفقهاء، على ثلاثة أقوال: القول الأول: إنه يغلس بصلاة الفجر، يعني: تصلى في أول الوقت.

القول الثاني: إنه يصلى في وقت الإسفار.

القول الثالث: -وهو الراجح-: أن أدلة كلا الفريقين صحيحة؛ لكن المقصود: أنه يدخل في الصلاة في وقت الغلس ثم يطيل الصلاة حتى ينصرف منها وقت الإسفار، هذا هو الجمع، والله تعالى أعلم.

 

[7] (نقل الامام الزیلعی ؒ فی کتابہ ھذا الکلام عنہ، فإن الکتاب ’’ الإمام ‘‘ –حسب علمی - ما طبعت منہ إلیٰ الآن  إلا المجلدۃ الأولیٰ من الأصل فی أربع مجلدات ، یقول الامام ابن دقیق العید ؒ فی آخر المجلد الرابع من المطبوع : آخر المجلدۃ الأولیٰ ، وللہ الحمد والفضل والمنۃ  ، یتلوہ فی أول المجلدۃ الثانیۃ إن شاء اللہ تعالیٰ : ذکر التغلیس بصلاۃ الصبح)

[8]  ان کے الفاظ یہ ہیں :

وسألت أبي عن حديث رواه أبو نعيم ، عن إبراهيم بن إسماعيل بن مجمع، عن هرير بن عبد الرحمن، عن جده رافع بن خديج؛ قال: قال رسول الله (ﷺ) لبلال: نور بالفجر قدر ما يبصر القوم مواقع نبلهم؟ قال أبي: حدثنا هارون بن معروف وغيره، عن أبي إسماعيل إبراهيم بن سليمان المؤدب، عن هرير؛ وهو أشبه۔(علل الحدیث لابن ابی حاتم : جلد۲ : صفحہ ۳۰۱، رقم ۳۸۵)

وسمعت أبي وذكر حديث إبراهيم بن سليمان أبي إسماعيل المؤدب ، عن هرير بن عبد الرحمن بن رافع بن خديج، عن جده رافع، عن النبي   أنه قال لبلال: نور بالفجر قدر ما يبصر القوم مواقع نبلهم.

قال أبي: روى أبو بكر بن أبي شيبة هذا الحديث عن أبي نعيم ، عن إبراهيم بن إسماعيل بن مجمع، عن هرير بن عبد الرحمن، عن جده، عن النبي ۔

قال أبي: وسمعنا من أبي نعيم كتاب إبراهيم بن إسماعيل؛ الكتاب كله، فلم يكن لهذا الحديث فيه ذكر، وقد حدثنا غير واحد عن أبي إسماعيل المؤدب۔

قلت لأبي: الخطأ من أبي نعيم، أو من أبي بكر بن أبي شيبة؟

قال: أرى قد تابع أبا بكر رجل آخر؛ إما محمد بن يحيى أو غيره؛ فعلى هذا، يدل أن الخطأ من أبي نعيم. يعني: أن أبا نعيم أراد أبا إسماعيل المؤدب، وغلط في نسبته، ونسب إبراهيم بن سليمان إلى إبراهيم بن إسماعيل بن مجمع۔(علل الحدیث لابن ابی حاتم : ۲/۳۱۹، رقم ۴۰۰)

[9] ان کے الفاظ یہ ہیں : ’’ولعلک قد عرفت أن الحنفیۃ لا یریدون بالاسفار  إلا ما ورد فی الحدیث من أن ینور  بقدر ما یبصر القوم مواقع نبلھم‘‘۔

[10] فجر کی  رکعتوں میں قرآت ِمستحبہ کی  مقدار سے متعلق ، فقہ حنفی میں  تین اقوال ہیں :

 ۱-  سورہ فاتحہ کے علاوہ چالیس آیتیں ۔

 ۲ – پچاس آیتیں ۔

 ۳ – ساٹھ سے سو آیتوں تک تلاوت کرے ،

اختلاف ِ اقوال کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ سے فجر میں مختلف سورتیں  تلاوت فرمانا منقول ہے ، ان اقوال میں  تطبیق اس طرح دی گئی ہے کہ امام اور مقتدیان  کے احوال کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے تلاوت کی جائے۔

 وفي (الجامع الصغير) يقرأ في الفجر في الركعتين سورة الفاتحة وقدر أربعين أو خمسين واقتصر في (الأصل) على الأربعين وفي (المجرد) ما بين الستين إلى المائة والكل ثابت من فعله عليه الصلاة والسلام فقيل: ما في (المجرد) محمول على الراغبين وما في (الأصل) على الكسالى والضعفاء أو ما في (الجامع) على الأوساط ورده في (الفتح) بأنه لا يجوز حمل فعله عليه الصلاة والسلام مع أصحابه على ذلك إذ لم يكونوا كسالى. أقول: يجوز أن يراد بالكسالى الضعفاء ولا ينكر أنه عليه الصلاة والسلام كان في أصحابه في بعض الأحيان الضعفاء فجاز أنه كان يراعي حالهم إذا صلوا معه وقيل: ينظر إلى طول الليالي وقصرها وكثرة الأشغال وقلتها وقيل: يقرأ في الآيات القصار مائة وفي الأوساط خمسين وفي الطوال أربعين۔(النہر الفائق : ۱/ ۲۳۳)

وفي الجامع الصغير يقرأ في الفجر في الحضر في الركعتين بأربعين آية أو خمسين آية سوى فاتحة الكتاب ويروى من أربعين آية إلى ستين ومن ستين إلى مائة، وهكذا ذكر الطحاوي أيضا ومراده أن يوزع الأربعين أو الخمسين بأن يقرأ في الركعة الأولى خمسا وعشرين وفي الثانية بما بقي إلى تمام الأربعين لا أن يقرأ في كل ركعة أربعين أو خمسين، ثم قيل المائة أكثر ما يقرأ فيهما والأربعون أقل ما يقرأ فيهما وقيل بالتوفيق بين الروايات كلها واختلف في وجه التوفيق فقيل إنه يقرأ بالراغبين إلى مائة وبالكسالى إلى أربعين وبالأوساط إلى الستين وقيل ينظر إلى طول الليالي وقصرها ففي الشتاء يقرأ مائة وفي الصيف أربعين وفي الخريف والربيع خمسين إلى ستين. وقيل ينظر إلى طول الآيات وقصرها فيقرأ أربعين إذا كانت طوالا كسورة الملك ويقرأ خمسين إذا كانت أوساطا وما بين ستين إلى مائة إذا كانت قصارا كسورة المزمل والمدثر والرحمن وقيل ينظر إلى قلة الأشغال وكثرتها وقيل يعتبر حال نفسه فإذا كان حسن الصوت يقرأ مائة وإلا فأربعين وأصل اختلاف الروايات فيها اختلاف الآثار في ذلك فروي عن جابر بن سمرة أنه - عليه الصلاة والسلام - كان «يقرأ في الفجر ب ق والقرآن المجيد» ونحوها وكانت صلاته بعد إلى تخفيف وروي عن أبي برزة كان النبي - صلى الله عليه وسلم - «يقرأ في الفجر ما بين الستين إلى المائة» وعن أبي هريرة أنه - عليه الصلاة والسلام - كان «يقرأ في الفجر يوم الجمعة ألم تنزيل الكتاب وهل أتى على الإنسان»(تبیین الحقائق : ۱/۱۳۰)     

[11] طوال مفصل سے مراد سورہ حجرات سے سورہ بروج ہے(وطوال المفصل من سورة: الحجرات إلى: والسماء ذات البروج)۔(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری : ۵/ ۲۳۸) وفى تحديد السور من حيث طوالها وقصرها وأوساطها نقول: ذهب الشافعية إلى أن طوال المفصل من الحجرات إلى النبأ، وأوساطه من النبأ إلى الضحى، وقصاره من الضحى إلى آخر القرآن الكريم۔أما الحنفية فقد ذهبوا إلى أن طوال المفصل من سورة الحجرات إلى آخر البروج، وأوساطه من الطارق إلى أول البينة، وقصاره من البينة إلى آخر القرآن الكريم۔وقال المالكية: إن طوال المفصل كذلك من الحجرات لكنها إلى سورة النازعات، وأوساط المفصل من عبس إلى سورة " والليل "، وقصاره من " الضحى " إلى آخر القرآن۔أما الحنابلة فقد ذهبوا إلى أن أول المفصل هو سورة " ق " وقيل فى المذهب: " الحجرات "، وأوساطه من " عم " إلى سورة " الضحى "، وقصاره من الضحى إلى آخر القرآن۔ (الدر المختار ۱/ ۵۰۴ ، الشرح الكبير ۱/۲۴۷ ، كشاف القناع ۱/ ۳۹۹،إکمال المعلم بفوائد مسلم : ۲/۲۷۱)

[12] فوائد ابی محمد الفاکہی  کی روایت کے الفاظ یہ ہیں :

أخبرني أبي، أخبرني عبد المجيد، عن ابن جريج، أخبرني موسى بن عقبة، عن  سالم أبي النضر، أن النبي صلى الله عليه وسلم «كان يخرج بعد النداء إلى المسجد، فإذا رأى أهل المسجد قليلا جلس حتى يرى منهم جماعة، ثم يصلي، وكان إذا خرج فرأى جماعة أقام الصلاة۔

قال ابن جريج: وحدثني موسى أيضا , عن نافع بن جبير، عن مسعود بن الحكم الزرقي، عن علي بن أبي طالب، رضي الله عنه مثل هذا الحديث۔

[13] پہلی  سند کا حال :

(۱)             عبد اللہ بن محمد بن العباس ابو محمد الفاکہی ؒ : ثقہ ، مکثر ہیں ۔ (الروض الباسم : ۱/۶۱۴، رقم ۵۰۶)

(۲)            ان کے والد محمد بن العباس ابو عبد اللہ الفاکہیؒ : امام ابو الطیب المکی الفاسی ؒ (م ۸۳۲؁ھ) نے انہیں  فضل وعدالت سے متصف کیا ہے، اور اور ان پر جرح کی نفی کی ہے ۔ (فإن كتابه يدل على أنه من أهل الفضل، فاستحق الذكر، وأن يوصف بما يليق به من الفضل والعدالة، أو الجرح، وحاشاه من ذلك(العقد الثمین : جلد۲ : صفحہ ۱۱۰ ، رقم ۹۰) اور شیخ معلمی ؒ نے ان کی بات کو نقل کرکے اس پر سکوت کیا ہے۔ (فقد أثنى عليه الفاسي في ترجمته من "العقد الثمين" ونزَّهَهُ عن أن يكون مجروحًا)۔ (النکت الجیاد : ۱ /۵۳۱، رقم ۶۳۵)

نیز  دوسری کتابوں میں ان کی متابعت بھی موجود ہے۔

(۳)            عبد المجید بن ابی رواد ۔صدوق یخطئ ۔ (التقریب : ۴۱۶۰) لیکن یہ ابن جریجؒ کی روایت کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے ۔ (تہذیب الکمال : ۱۸/ ۲۷۱، رقم ۳۵۱۰) اور یہ روایت بھی ابن جریج سے ہی مروی ہے، لہذا وہ اس سند میں حجت ہوں گے۔

(۴)           ابن جریج ؒ ۔ ثقۃ فاضل ، مدلس ، یرسل ۔ (التقریب ۴۱۹۳) اس روایت میں  ابن جریج ؒ نے سماع کی تصریح کی ہے۔

(۵)            موسیٰ بن عقبہ ؒ ۔ ثقہ۔ (التقریب: ۶۹۹۲)

(۶)             سالم ابی النضر ۔ثقہ ، ثبت ۔ (التقریب : ۲۱۶۹)

ابن جریج ،موسیٰ بن عقبہ ، سالم ابی النضر ۔ سند کا  یہ حصہ صحیح مسلم کی شرط پر ہے ۔ دیکھئے : (صحیح مسلم : ۱۷۴۲) البتہ سالم ابی النضر ؒ تابعی ہیں اس لئے یہ روایت مرسل ہے۔  ابن حجرؒ فرماتے ہیں : یہ سند قوی   و مرسل ہے۔ وإسناده قوي مع إرساله۔ (فتح الباری : ۲/ ۱۱۰)

لیکن اس کی متابعت اگلی سند سے ہوتی ہے:

دوسری سند کا حال :

(أخبرني أبي، أخبرني عبد المجيد،) قال ابن جريج: وحدثني موسى أيضا , عن نافع بن جبير، عن مسعود بن الحكم الزرقي، عن علي بن أبي طالب، رضي الله عنه مثل هذا الحديث۔

اس میں ابو محمد الفاکہی،ان کے والد،عبد المجید، ابن جریج اور موسیٰ بن عقبہ کا حال  بیان ہوگیا ۔

(۶)            نافع بن جبیر ۔ثقہ ۔(التقریب : ۷۰۷۲)

(۷)           حضرت مسعود بن الحکم الزرقی ؒ یہ صحابی ہیں ۔ (التقریب : ۶۶۰۹)

(۸)           حضرت علی ؓ مشہور صحابی جلیل ہیں ۔

نافع بن جبیر ، مسعود بن الحکم ؓ ، علی ؓ یہ سند مسلم کی شرط پر ہے۔ دیکھئے  (صحیح مسلم : ۹۶۲) معلوم ہوا یہ سند مرفوع متصل اور صحیح ہے۔ امام حاکم ؒ نے اس حدیث کو نقل کرکے کہا ہے :یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے ، اورامام ذہبیؒ نے بھی اسے شیخین کی شرط پر کہا ہے۔ (المستدرک علی الصحیحین : جلد۱ : صفحہ ۳۱۸ ، رقم ۷۲۴) غیر مقلد عالم شیخ البانی ؒ پہلی سند کے بارے میں کہتے ہیں  : یہ سند مرسل ہے اور حافظ ؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ یہ سند قوی  ، مرسل ہے،اور دوسری سند کے بارے میں کہتے : یہ سند جید متصل ہے، اوراس حدیث کو سلسلہ احادیث صحیحہ  میں نقل کیا ہے ۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ : ۷/۶۶۸، رقم الحدیث ۳۲۱۰) مگر دوسری کتابوں میں اس کو ضعیف بھی کہا ہے ۔ (ضعیف ابی داؤد :۱/ ۱۹۴)  مگر شاید یہ پہلے کی تحقیق ہے،  اسلئے کہ اجمالاً بیان کیا ہے، جبکہ سلسلہ احادیث صحیحہ میں اس کی پوری تفصیل ذکر کرکے اس کی تصحیح کی ہے، معلوم ہوا یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔

 

[14] الفاظ یہ ہیں :’’عن زید بن ثابت  قال تسحرنا مع رسول اللہ ﷺ ثم قمنا إلیٰ الصلاۃ ، قال : قلت کم کان قدر ذلک، قال : قدر خمسین آیۃ‘‘ ۔ (ترمذی : ۱/ ۸۸، ابواب الصوم ، باب ما جاء فی تأخیر السحور ) 


ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 6

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

 

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...