نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

جرابوں پر مسح کا مسئلہ

 

جرابوں پر مسح کا مسئلہ

مولانا نذیر الدین قاسمی

ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 3

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

احناف کہتے ہیں کہ جرابوں پر مسح چند  شرائط  کے ساتھ جائز ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔لیکن غیر مقلدین سلف صالحین ، فقہاء اور محدثین کی مقرر کی ہوئی شرائط کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ موجودہ دورکی باریک اور کپڈے کی جرابیں(socks ) پر  بھی مسح جائز ہے۔اور اپنی بات کو ثابت کرنے  لئے  انہوں نے چند دلائل پیش کئے ہیں جس کے جوابات ملاحظہ فرمائں :

جرابوں پر مسح کی احادیث کا جواب :

پہلی دلیل :

موجودہ دورمیں موجود جرابیں (socks ) پر مسح کو ثابت کرنے کے لئے غیر مقلد عالم زبیر علی زئی صاحب نے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کو پیش کیا ہے ۔(ہدایۃ المسلمین ص:۱۷) اسی طرح شیخ عبد الرحمن عزیز نے بھی یہی روایت پیش کی ہے ۔(صحیح نماز نبوی ص:۵۰) نیز شفیق الرحمن صاحب نے بھی اسی روایت کو ذکر کیا ہے ۔ (نماز نبوی ص :۵۹،مطبوعہ دارالبلاغ )

الجواب :

ا مام ابوداؤد ؒ ۲۷۵؁ھ)فرماتے ہیں کہ :

                  حدثنا أحمد بن محمد بن حنبل،حدثنا یحی بن سعید،عن ثور ،راشد بن سعد ،عن ثوبان قال:بعث رسول اللہ ﷺ سریۃ ۔۔۔۔۔۔۔أمرہم أن یمسحو ا علی العصائب والتساخین ۔

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے مجاہدین کی ایک جماعت بھیجی۔۔۔۔۔۔۔انہیں پگڑیوں اور ’التساخین‘ پر مسح کرنے کا حکم دیا ۔ (سنن ابی داؤد رقم الحدیث :۱۴۶)اور اس کی سند کو زبیر علی زئی نے صحیح کہا ہے ۔

الجواب نمبر ۱ :

اس روایت سے استدلال صحیح نہیں ہے ،کیونکہ اس کی سند میں انقطاع ہے ۔غیر مقلدین کے عبدالرحمن مبارکپوری صاحب اس حدیث کونقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ : یہ حدیث استدلال کے لائق نہیں ہے ۔کیونکہ یہ منقطع ہے اس لئے کہ راشد بن سعد ؒ نے ثوبان رضی اللہ عنہ سے کچھ نہیں سنا۔ امام ابن ابی حاتم ؒ نے کتاب المراسیل ص:۲۲پر لکھا ہے کہ : امام احمد بن حنبل ؒ نے کہا ہے کہ راشد بن سعد نے ثوبا ن رضی اللہ عنہ سے کچھ نہیں سنا ،اور حافظ ابن حجر ؒ نے تہذیب میں لکھا ہے کہ :امام ابو حاتم  ؒ(م ۲۷۷؁ھ)اور امام حربی ؒ ۲۸۵؁ھ) کہتے ہیں کہ راشد نے ثوبان ؓ سے کچھ نہیں سنا ۔ (تحفۃ الاحوذی ج: ۱ص: ۲۸۷،المراسیل لابن ابی حاتم ص: ۵۹،تہذیب التہذیب ج:۳ص: ۲۲۶)

نیز امام ابن حجر عسقلانی ؒ ۸۵۲؁ھ)نے اس سند کو منقطع قرار دیا ہے اور کہتے ہیں کہ امام بیہقی ؒ ۴۵۸؁ھ) نے بھی اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔اور امام بخاری ؒ ۲۵۶؁ھ) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے ۔(درایہ ج :۱ص: ۷۲) تو پھر یہ روایت کیسے صحیح ہو سکتی ہے ؟ [1]

الجواب نمبر ۲ :

اس حدیث میں تساخین کے الفاظ موجود ہے:جس کے صحیح معنی موزے ہیں ،جس کو عربی میں ’خفاف‘ کہتے ہیں۔ اور یہی مطلب بے شمار محدثین وعلماء نے بیان کیا ہے ،جو کہ درج ذیل ہے :

(۱) امام خلیل بن احمد الفراہیدی ؒ ۱۷۰؁ھ)۔(کتاب العین ج:۶ص: ۲۸۰)

(۲) امام قاسم بن سلام ؒ(م ۲۲۴؁ھ)۔(غرائب الحدیث للقاسم ص:۱۸۷)

(۳) امام احمد بن حنبل ؒ ۲۴۱؁ھ)۔ (مسائل احمد بروایت عبداللہ :ص:۳۵)

(۴) امام ابو اسحق الحربیؒ ۳۸۵؁ھ)۔(غرائب الحدیث ص: ۱۰۳۴)

(۵) امام ابن قتیبہ ؒ ۲۷۶؁ھ)۔(المعانی الکبیر ص: ۴۸۰)

(۶) امام خطابی ؒ ۳۸۸؁ھ)۔(غریب الحدیث ج:۲ص: ۶۱)

(۷) علامہ ابن عباد ؒ ۳۸۵؁ھ)۔(المحیط فی اللغۃ ج: ۳ص: ۷۷۸)

(۸) علامہ ابن الفارس ؒ (۳۹۵؁؁ھ)۔(مقائیس اللغۃج:۳ص:۱۴۶)

(۹) علامہ ابن درید ؒ ۳۲۱؁ھ)۔(جہرۃ اللغہ ص:۶۰۰)

(۱۰) امام ابو منصور الازہری ؒ ۳۷۰؁ھ)۔(تہذیب اللغۃ ج: ۷ص:۱۷۸)

(۱۱) علامہ ابن سیدہ ؒ ۴۵۸؁ھ)۔(المحکم والمحیط الاعظم ج:۵ص:۸۱)

(۱۲) امام سرخسی ؒ ۴۸۳؁ھ)۔(المبسوط:ج:۱ص:۱۰۱)

(۱۳) امام ماوردیؒ ۴۵۰؁ھ)۔(الحاوی فی الفقہ الشافعی ج:۱ص:۳۵۶)

(۱۴) امام ابن حزم ؒ۴۵۶؁ھ)۔(المحلی ج:۱ص: ۳۱۷)

(۱۵) علامہ زمخشری ؒ ۵۳۸؁ھ)۔(الفائق فی غرائب الحدیث ج:۲ص:۲۶۶)

(۱۶) امام نسفیؒ۵۳۷؁ھ)۔(طلبۃ الطلبہ ص:۹)

(۱۷) امام ابن الاثیر الجزری ؒ ۶۰۶؁ھ)۔(النہایہ فی غریب الحدیث ج:۱ص: ۲۱۳)

(۱۸) امام برہان الدین خوارزمی ؒ(م ۶۱۶؁ھ)۔(المغرب ص: ۲۲۱)

(۱۹) امام نوویؒ ۶۷۶؁ھ)۔(المجموع ج:۱ص:۴۰۸)

(۲۰) امام زین الدین محمد بن ابی بکر الرازی ؒ ۶۶۶؁ھ)۔(مختار الصحاح ص:۱۲۳)

(۲۱) امام ابن منظور الافریقی ؒ(م ۷۱۱؁ھ)۔(لسان العرب ج:۱۳ص:۲۰۷)

(۲۲) امام ابن تیمیہ ؒ(م۷۲۸؁ھ)۔ (مجموع الفتاوی ج:۲۱ص:۱۷۳)

(۲۳) امام ابن القیم ؒ(م ۷۵۱؁ھ)۔(احکام اہل الذمہ  ص:۱۲۷۱)

(۲۴) علامہ ابوالعباس الحمویؒ ۷۷۰؁ھ)۔(المصباح المنیرص:۱۰۳)

(۲۵) امام زیلعی ؒ(م۷۶۲؁ھ)۔(نصب الرایہ ج:۱ص:۱۶۵)

(۲۶) علامہ فیروزآبادی ؒ(م۸۱۷؁ھ)۔(قاموس المحیط ص:۱۲۰۵)

(۲۷) امام عینیؒ ۸۵۵؁ھ)۔(شرح ابوداؤد للعینی ج:۱ص:۳۴۵)

(۲۸) امام ابن حجر عسقلانیؒ ۸۵۲؁ھ)۔(بلوغ المرام ص:۲۱)

(۲۹) حافظ مرتضی زبیدی ؒ ۱۲۰۵؁ھ)۔(تاج العروس ج:۳۵ص :۱۷۷)

(۳۰) قاضی شوکانی ؒ ۱۲۵۰؁ھ)۔(نیل الاوطار ج:۲ص:۱۲۱،۱۲۲)

(۳۱) امام ابوبکر الاثرم ؒ(م ۲۷۳؁ھ)۔ (سنن اثرم حدیث نمبر ۱۵)

ان بیشمار سلف ،محدثین وعلماء کا رد کرتے ہوئے ،نام نہاد سلفی ،غیر مقلد ین تساخین کامعنی جراب کرتے ہیں۔ چنانچہ غیر مقلد عالم شیخ عبدالرحمن عزیز صاحب نے تساخین کا معنی جراب کیاہے ۔(صحیح نماز نبوی ص:۵۰)،شفیق الرحمن نے بھی یہی ترجمہ کیا ہے ۔(نماز نبوی ـص: ۵۶) زبیر علی زئی نے تساخین کامعنی پاؤں کو گرم کرنے والی اشیاء ’موزہ اور جراب کیا ہے ۔(ہدیۃ المسلمین ص:۱۷)

حالانکہ خود اہل حدیث محدث عبدالرحمن مبارک پوری صاحب لکھتے ہیں کہ  ’’ان التساخین قد فسرہا اہل اللغۃ بالخفاف ‘‘بے شک اہل لغت نے تسا خین کی تفسیر موزوں سے کی ہے۔پھر ائمہ لغت کا حوالہ دینے کے بعد تحریر کرتے ہیں کہ  ’’ فلما ثبت ان التساخین عند اہل اللغۃ والغریب ہی الخفاف فالاستدلال بہذا الحدیث علی جواز المسح علی الجوربین مطلقاًثخینین کانا او رقیقین غیر صحیح ‘‘ پس جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ ائمہ لغت کے نزدیک تساخین موزے کو کہتے ہیں تو اس حدیث کو مطلقاً جراب پر چاہے ثخین ہوں یا رقیق ،مسح کی دلیل بنانا صحیح نہیں ہے ۔(تحفۃ الاحوذی ج:۱ص:۲۸۷) لہذا جب تساخین سے جراب مراد ہی نہیں ہے ،تو غیر مقلدین کا اس روایت سے استدلال کرنا ہی باطل ومردود ہے ۔

دوسری دلیل :

مولانا صادق سیالکوٹی صاحب ؒ شیخ عبدالرحمن عزیز ،یحییٰ العارفی وغیرہ نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی ہے۔ (صلاۃ الرسول مع القو ل المقبول :ص:۲۰۶،صحیح نماز نبوی :ص:۵۰،تحفہ احناف ج:۳ص:۶۱) جو  کہ مع سند یہ ہیں  :

امام بیہقی ؒ (م۴۵۸؁ھ) کہتے ہیں کہ

           أخبرنا أبو عبداللہ الحافظ ،أنبأنا أبو الولید الفقیہ ،ثناجعفر بن أحمدالشاماتی ،ثنا محمد بن رافع ،ثنا المعلی بن منصور ،ثنا عیسیبن یونس ،عن أبی سنان عیسی بن سنان عن الضحاک بن عبد الرحمن ،عن ابی موسی قال : رأیت رسول اللہ ﷺ یمسح علی الجوربین والنعلین  حضرت ابو موسیٰ اشعریؒ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ جرابوں اور جوتیوں پر مسح کرتے ہیں۔ (سنن کبریٰ للبیہقی: ص۴۲۶؍۴۲۷ج۱)

الجواب نمبر ۱ :  

ضحاک بن عبدالرحمن ؒ کا سماع ابو موسیٰ اشعریؓ سے ثابت نہیں ہے۔چنانچہ

 (۱)         امام ابو داؤدؒ ۲۷۵؁ھ) فرما تے ہیں کہ اس (ابو موسی ؒ کی ) حدیث کی سند نہ متصل ہے اور نہ قوی ہے۔ (سنن ابی داؤد: رقم الحدیث:۱۵۹)

(۲)         امام بیہقیؒ ۴۵۸؁ھ) فرماتے ہیں کہ ضحاک بن عبدالرحمنؒ کا ابو موسیٰ اشعریؒ سے سماع ثابت نہیں۔ (سننِ کبریٰ ج:۱ص۴۲۷)

(۳)        غیر مقلدین عالم شمس الحق عظیم آبادی لکھتے ہیں کہ :

              ’’المتصل ما سلم اسنادہ من سقوط فی أولہ أو آخرہ أو وسطہ بحیث یکون کل من رجالہ سمع ذلک المروی من شیخہ (ولابالقوی) أی الحدیث مع کونہ غیر متصل لیس بقوی من جھۃ ضعف راویہ وھو ابو سنان عیسی بن سنان‘‘  متصل وہ حدیث ہے جس کی سند کا اول، آخر اور درمیان سکوتِ راوی سے سالم ہو یعنی سند کے ہر راوی نے اس حدیث کو اپنے شیخ سے سنا ہو اور اس (ابو سنانؒ کی) حدیث کے غیر قوی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ حدیث منقطع ہونے کے علاوہ ضعیف راوی کی وجہ سے قوی بھی نہیں، اور وہ ضعیف راوی عیسیٰ بن سنان ہیں۔  (عون المعبود:ج۱ص۱۸۸)

(۴)  قاضی شوکانی  ؒ بھی لکھتے ہیں کہ :

                   ’’ہذا الحدیث عن ابی موسی الاشعری ولیس بالمتصل ولا بالقوی ،ولکنہ اخرجہ عنہ ابن ماجۃ وانما قال أبوداؤد: انہ لیس بالمتصل ؛لانہ رواہ الضحاک بن عبدالرحمن عن ابی موسی ،قال البیہقی :لم یثبت سماعہ من ابی موسی وانما قال: لیس بالقوی ؛لان فی اسنادہ عیسی بن سنان ضعیف لایحتج بہ ،وقد ضعفہ یحی بن معین ‘‘

یہ حدیث ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور نہ متصل ہے نہ قوی ہے ،لیکن ابن ماجہ نے اسکی تخریج کی ہے اور اس کے بارے میں ابوداؤد نے کہا ہے کہ یہ روایت متصل نہیں ہے ،اس لئے کہ اسے ضحاک بن عبد الرحمن نے ابو موسی اشعری ؓ سے روایت کیا ہے،(اور) امام بیہقی  ؒ نے فرمایا کہ ضحاک کا سماع ابو موسی اشعری ؓ سے ثابت نہیں ہے ،اور کہتے ہیں کہ یہ روایت قوی نہیں ہے ،اس لئے کہ ان  کی سند میں عیسی بن سنان ہیں جو کہ ضعیف ہیں ،ان سے احتجاج نہیں کیا جا ئے گا ۔اور انہیں یحییٰ بن معین نے ضعیف قرار دیا ہے ۔(نیل الاوطار ج:۱ص:۱۷۱،۱۷۲)

(۵) حافظ ابو زرعہ ابن العراقی  ؒ(م۸۲۶؁ھ)نے بھی الضحاک بن عبدالرحمن بن عزرب عن ابی موسی الاشعری کی سند کو مراسیل میں شمار کیا ہے ۔(تحفۃ المراسیل ص:۱۵۴) جب یہ حدیث منقطع ہے ،تو پھر یہ غیر مقلدین کے نزدیک کیسے حجت ہو سکتی ہے ؟[2]

الجواب نمبر۲:

اس روایت کی سند میں ایک راوی ہیں عیسی بن سنان ؒ،جو کہ غیر مقلدین کے نزدیک ضعیف ہیں ،جیسا کہ قاضی شوکا نی اور عظیم آبادی کے حوالے گزر چکے ۔ان پر اور بھی علماء نے کلام کیا ہے ۔

مثلاً:

(۱)  امام احمد بن حنبل ؒ ۲۴۱؁ھ)نے ان کو ضعیف قرار دیا ہے ۔

(۲) امام ابن معین ؒ ۲۳۳؁ھ) فرماتے ہیں کہ سنان ضعیف ہیں ۔

(۳) امام ابو حاتم ؒ ۲۷۷؁ھ)فرماتے ہیں کہ یہ حدیث میں قوی نہیں ہیں ۔

(۴) امام ابو زرعہ ؒ(م ۲۶۴؁ھ)اور

(۵) امام یعقوب بن سفیان ؒ(م ۲۶۲؁ھ)فرماتے ہیں کہ یہ حدیث میں کمزور ہیں ۔

(۶) امام نسائی ؒ ۳۰۳؁ھ)فرماتے ہیں کہ وہ ضعیف ہیں ۔

(۷) امام ذہبی ؒ ۷۴۸؁ھ)

(۸) امام ساجی ؒ ۳۰۷؁ھ)

(۹) امام عقیلی ؒ ۳۲۲؁ھ)

(۱۰) امام ابن شاہین ؒ ۳۸۵؁ھ) نے اس راوی کو ضعفاء میں شمار کیا ہے ۔

(۱۱) امام ذہبی ؒ فرماتے ہیں کہ وہ ضعیف الحدیث ہیں ۔

(۱۲)امام بیہقی ؒ (۴۵۸؁ھ) بھی انہیں ضعیف لا یحتج بہ کہتے ہیں ۔(المغنی فی الضعفاء رقم :۴۸۰۰،تاریخ اسماء الضعفاء والکاذبین رقم :۴۶۵،تہذیب الکمال ج:۲۲ص:۶۰۸،تہذیب التہذیب ج:۸ص:۲۱۱،۲۱۲،سنن کبری للبیہقی رقم الحدیث :۱۳۵۱) لہذا یہ راوی جب اہل حدیثوں کے نزدیک ضعیف ہے ،تو پھر اس کی حدیث صحیح کیسے ہوسکتی ہے ؟

الجواب  نمبر ۳ :

عیسی بن سنان ؒ کو امام ابو زرعہ ؒ نے مختلط اور ضعیف الحدیث قرار دیا ہے ۔(کتاب الضعفاء لابی زرعہ الرازی فی اجوبتہ عن أسئلۃ البرذعی ج:۲ص: ۳۸۲) لہذا غیر مقلدین کے ذمے ہے کہ کہ وہ ثابت کریں کہ ان کے شاگرد عیسی بن یونس ؒ(م ۱۹۱ھ) نے ان سے اختلاط سے پہلے یہ روایت لی ہے ۔ورنہ اس حدیث سے غیر مقلدین کا استدلال مردود ہے ۔

تیسری دلیل :

مولانا صادق سیالکوٹی صاحب ؒنے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی بھی ایک حدیث نقل کی ہے ۔(القول المقبول ص:۲۰۵)

الجواب :

حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث کی سند یوں ہے :

امام طبرانی ؒ ۳۶۰؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

              حدثنا ابراہیم بن احمد بن عمر الوکیعی ،حدثنی ابی ،ثنا ابن فضیل ،عن یزید بن ابی زیاد ،عن ابن ابی لیلی ،عن کعب بن عجرۃ ،عن بلال رضی اللہ عنہ قال :کان رسول اللہ ﷺ یمسح علی الخفین والجوربین ۔(معجم الکبیر للطبرانی ج:۱ص:۳۵۰)

غور فرمائیے ! اس کی سند میں یزیدبن ابی زیاد ؒ(م ۱۳۷؁ھ) موجود ہیں ،جوکہ خود غیر مقلدین کے نزدیک ضعیف راوی ہیں ۔(نور العینین ص:۱۴۵،کتاب الشفاء للمقبل ص:۹۵،ارواء الغلیل ج:۳ص:۳۹۳،تفسیر ابن کثیر بتحقیق حوینی :ج:۱ص:۲۹۰) خود عبدالرؤف سندھو غیر مقلد نے (حاشیہ میں )اس کی سند کو ضعیف کہاہے ۔(القول المقبول ص:۲۰۵)

چوتھی دلیل :

مولانا صادق سیالکوٹی صاحب ؒ ،صلاح الدین یوسف صاحب،شیخ عبدالرحمن عزیز ،یحی العارفی وغیرہ نے مغیرہ بن شعبہ ؓ کی روایت پیش کی ہے ۔(صلاۃ الرسول مع القول المقبول :ص:۳۰۶،مسنون نماز ص:۳۳،صحیح نماز نبوی ص:۵۰،تحفہ احناف ج:۳ص:۶۱)

الجواب :

اس روایت کی سند اس طرح ہے کہ امام احمد بن حنبل ؒ کہتے ہیں کہ : ’’حدثنا وکیع ،حدثنا سفیان ،عن قیس ،عن ہذیل بن شرحبیل ،عن المغیرۃ بن شعبۃ ان رسول اللہ ﷺ توضأ ومسح علی الجوربین والنعلین‘‘   حضرت مغیرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے وضو کیا اور جرابوں پر مسح کیا۔ ( مسندِ احمد :ج۱: ص۱۴۴)

الجواب نمبر ۱ :

یہ حدیث ائمہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہے اور اس کے ضعیف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت مغیرہ ؓ سے ایک جماعت نے اس حدیث کو روایت کیا ہے سوائے ابو قیسؒ کے کسی نے بھی جرابوں کا اضافہ نہیں کیا۔ (اس کی تفصیل جواب نمبر ۲ کی تحت آرہی ہے۔)

اور یہی وجہ کی اکثر محدثین نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے ۔  مثلاً

(۱)         امام سفیان ثوریؒ ۱۶۱؁ھ)

(۲)         امام عبداللہ ابن المبارکؒ (۱۸۱؁ھ)

(۳)        امام عبد الرحمن بن مہدیؒ ۱۹۸؁ھ)

(۴)        امام احمد بن حنبلؒ ۲۴۱؁ھ)

(۵)        امام علی بن مہدیؒ (۲۳۵؁ھ)

(۶)         امام یحییٰ بن معینؒ (۲۳۳؁ھ)

(۷)        امام مسلمؒ ۲۶۱؁ھ)

(۸)        امام ابو داؤدؒ ۲۵۷؁ھ)

(۹)         امام نسائیؒ ۳۰۳؁ھ)

(۱۰)       امام عقیلیؒ ۳۲۲؁ھ)

(۱۱)        امام دارقطنیؒ ۳۸۵؁ھ)

(۱۲)       امام بیہقیؒ ۴۵۸؁ھ)

(۱۳)       امام نوویؒ ۶۷۶؁ھ)

(۱۴)       امام  مغلطائیؒ (۷۶۲؁ھ)

(۱۵)       امام بن القیمؒ (۷۵۱؁ھ)۔ (سنن کبریٰ للبیہقی: ج۱ص۴۲۵؍۴۲۶،  التمییز للمسلم: ج۱ص۲۰۳؍۲۰۴،  سنن کبریٰ للنسائی:ج۱ص۱۲۴،  شرح بن ماجہ للمغلطائی: ج۱ص۶۶۱؍۶۶۲،  اعلال للدارقطنی:ج۷ص۱۱۲، معرفۃ السنن والاثار للبیہقی : ج۲ص ۱۲۲، المجموع للنووی:ج۱ص۵۰۰، تہذیب سنن ابی داؤد لابن القیم :ج۱ص۲۷۳)

لہٰذا جب اتنے بڑے بڑے فقہاء و محدثین نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے تو پھر اس کے ضعیف ہونے پر کوئی شک رکھ سکتا ہے۔

الجواب نمبر۲ :

حضرت مغیرہؓ سے ایک جماعت نے اس روایت کو نقل کیا ہے ، لیکن سوائے ہذیل بن شرحبیلؒ کے کسی نے جرابوں کے لفظ کا ذکر نہیں کیا۔ درج ذیل حضرات نے حضرت مغیرہؓ سے یہی روایت نقل کی ہے ، لیکن جرابوں کا لفظ نہیں نقل کیا ہے:

(۱)         عروۃ ابن مغیرہ

(۲)         حمزہ بن مغیرہ

(۳)        عمرو بن وہابؒ

(۴)        الاسود بن ہلال ؒ

(۵)        عبدالرحمن بن ابی نعیم

(۶)         حسن البصریؒ

(۷)        ابوبردہؒ

(۸)        مسرورؒ

(۹)         ورّادؒ

(۱۰)       شفیق بن سلمہؒ

(۱۱)        اسود بن یزیدؒ

(۱۲)       ابو امامہؒ

(۱۳)       ابو سلمہؒ

(۱۴)       زبیر بن حئیؒ

(۱۵)       عبداللہ بن بریدہؒ

(۱۶)       سالم بن ابی الجعدؒ

(۱۷)       ابو سفیانؒ

(۱۸)       علی بن ربیعؒ

(۱۹)       بشر بن قحیفؒ

(۲۰)      الشعبیؒ

(۲۱)       سعد بن عبیدہؒ

(۲۲)      قبیصہ بن برمہؒ

(۲۳)      زیاد ؒ

(۲۴)      فضالہ بن عمروؒ

(۲۵)      زرارہ بن اوفیؒ

(۲۶)      ابو سائب

(۲۷)      ابو ادریس الخولانیؒ

(۲۸)      عروہ بن زبیرؒ

(۲۹)       ابراہیم ابن ابی موسیٰؒ

(۳۰)      بکر بن عبداللہؒ

(۳۱)       ابو ضحی المسلمؒ

(۳۲)      مکحولؒ

(۳۳)      عبادہ بن زیادؒ

(۳۴)      قتیبہؒ

یہ ۳۴؍ شاگردوں کے خلاف میں صرف ایک شاگرد ہذیل بن شرحبیلؒ جرابوں کے الفاظ نقل کرتے ہیں، جب کہ یہ ۳۴؍ شاگرد جرابوں کے الفاظ نقل نہیں کرتے۔ مزید یہ کہ ۳۴؍ شاگردوں سے ۹۵؍ سندیں موجود ہیں، لیکن کسی میں بھی جرابوں کے لفظ موجود نہیں، سوائے یہی ہذیل بن شرحبیل ؒ کی روایت میں جن سے قیسؒ نے روایت کیا ہے۔

دیکھئے       (صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن دارقطنی، المعجم الکبیر، معجم الاوسط، سنن کبریٰ للبیہقی، مسند شامنین ،مسند احمد ،مصنف ابن ابی شیبہ ،اتحاف الخیارہ ،امانی المحاملی ،مستدرک الحاکم ،مسند عبد بن حمید ،اخبار اصبہان ،مسند ابی حنیفہ ،جزء احادیث ابن حبان)

الغرض اس روایت سے  استدلال درست نہیں ہے اور یہ ضعیف ومنکر ہے ،جیسا کہ بیشمار محدثین وفقہاء نے کہا ہے۔[3]

الجواب  نمبر ۳ :

    اس روایت  میں امام سفیان ثوری ؒ مدلس ہیں ،اور مدلس کی عن والی روایت غیر مقلدین کے نزدیک ضعیف ہوتی ہے۔ (نورالعینین ص:۳۸)، لہذا اس روایت سے استدلال باطل ہے ۔

غیر مقلدین کی طرف سے ایک وضاحت اور اس کا جائزہ :

موجودہ زمانے کے فرقہ اہل حدیث کے لوگ کہتے ہیں کہ جرابوں کی مرفوع حدیثوں میں اگرچہ کلام ہے،لیکن ابو موسیٰؒ ، بلالؒ وغیرہ کی حدیثوں سے یہ مغیرہؒ کی حدیث کی تائید ہوتی ہے، جس کی وجہ سے یہ حدیث صحیح ہوجاتی ہے، چنانچہ غیر مقلد محقق عبدالرؤوف سندھو صاحب لکھتے ہیں کہ حاصل کلام یہ ہے کہ حدیث مغیرہ صحیح ہے ، اور اس کی تائید میں اس کے بعد آنے والی ابو موسیٰؒ کی حدیث ہے، پھر اگے سندھو صاحب ابو موسیؒ کی حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’اس کی سند شواہد کے بنا میں حسن درجہ کی ہے، مگر حدیثِ مغیرہ سے مل جانے سے صحیح حدیث ہے‘‘ اور پھر حضرت بلالؓ کی حدیث کے تحت لکھتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے، مگر اس کا متن شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔  (القول المقبول :ص۲۰۵؍۲۰۶)

الجواب:

تفصیل گزرچکی کہ جرابوں پر مسح کرنے کی ہر مرفوع حدیث میں کلام ہے ،لیکن ماشاء اللہ اگر غیر مقلدین واقعی اس اصول کو مانتے ہیں کہ ضعیف حدیث تعدد طرق کی بناء پر صحیح اور حسن ہوجاتی ہے ،تو سوال یہ ہے کہ ۱۵ شعبان کے مسئلے میں کیا غیر مقلدین یہ فتوی دیں گے کہ ۱۵شعبان یعنی شب برأت کی فضیلت والی حدیثیں بھی تعدد طرق کی بنا پر صحیح اور حسن ہیں ؟ لہذا اس کا انکار نہیں کرنا چاہیئے۔کیونکہ وہ حدیثیں بھی کئی صحابہ اور کئی الگ الگ طرق اور سندوں سے مروی ہے۔مثلاً معاذ بن جبل ؓ ،ابو ثعلبہ ؓ ،عبداللہ بن عمر بن العاص ؓ ،ابوموسی اشعری ؓ ،ابوہریرہ ؓ ،عوف بن مالک ؓ،ابو بکر صدیق ؓ ،اور عائشہ رضی اللہ عنہم وغیرہ سے ۱۵ شعبان کی فضیلت مروی ہے۔جس کا ذکر خود غیر مقلدین کے محدث البانی صاحب نے کیا ہے ،دیکھئے  (سلسلہ الاحادیث الصحیحہ ج:۳ص:۱۳۵)

نوٹ:

البانی  ؒ نے ۱۵شعبان کی حدیث کو صحیح بھی کہا ہے ۔ امید ہے کہ یہاں پر غیر مقلدین اور عبدالرؤف اپنے دوغلے پن کا ثبوت نہیں دیں گے ۔اور ۱۵ شعبان کی حدیث کو صحیح تسلیم کریں گے۔

اصل جواب :

اگر بالفرض مسح علی الجراب کی مرفوع  حدیثوں کو صحیح بھی تسلیم کرلیا جائے ،تو اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوگا کہ آپﷺ نے جرابوں پر مسح فرمایا تھا اور جرابوں پر مسح جائز ہے ،جبکہ جرابوں پر مسح کا انکار ائمہ اربعہ بھی نہیں کرتے ۔لیکن غیر مقلدین موجودہ فرقہ اہل حدیث کے لوگ یہ فتوی دیتے ہیں کہ جب جرابوں پر مسح جائز ہے ،تو موجودہ دور میں جو اون(woollen ) موزے (sock) ہیں ان پر بھی مسح جائز ہے ۔(فتاوی علماء حدیث ج:۱ص:۹۹،۱۰۰)

حالانکہ جہاں پر سلف صالحین ،فقہاء ومحدثین نے مسح کو  جائز قرار دیا ہے ،وہاں پر چند شرائط بھی مقرر فرمائی ہیں ،کہ اگر کسی جراب میں یہ شرطیں پائی جائیں تب ہی ان جرابوں پر مسح جائز ہوگا ،ورنہ نہیں ۔

وہ شرائط یہ ہیں:

(۱)         ان جرابوں میں لگاتار چلنا ممکن ہو ،(یعنی وہ جراب ایسی مضبوط ہوں کہ اس میں لگاتار چلنا ممکن ہو اور اس میں پھٹن وغیرہ پیدا نہ ہوتی ہو )۔

(۲)          اتنی سخت اور موٹی ہو کہ بغیر باندھے ،بغیر سہارے (مثلاًلاسٹک[Elastic] وغیرہ)کے پاؤں پر کھڑی رہے ۔

(۳)        پانی کو جذب نہ کرے ۔

(۴)        اتنی موٹی ہو کہ اس سے نظر  نہ گزرے ،(یعنی اتنی موٹی ہوکہ پاؤں کی ہیئت نظر نہ آئے۔

شرائط رکھنے کی وجہ :

یہ شرائط اس لئے رکھی گئی ہیں کیونکہ حضور    اور صحابہ کے زمانے میں جرابیں صرف چمڑے کی ہوتی تھیں، چنانچہ سنن کبری للبیہقی میں ایک روایت ہے کہ راشد بن نجیح  ؒکہتے ہیں کہ  ’’رأیت انس بن مالک دخل الخلاء وعلی جوربان أسفلہما جلود اأعلاہما خز فمسح علیہما ‘‘ میں نے حضرت انس ؓ کو دیکھا کہ وہ بیت الخلاء میں داخل ہوئے (بعد میں وضو کیا )اور انہوں نے جرابیں پہن رکھی تھی  جن کے نیچے چمڑہ اور جن کے اوپر ریشم لگا ہوا تھا ۔ان پر آپ نے مسح فرمایا ۔ (سنن کبری للبیہقی ج:۱ص:۴۲۸، واسنادہ صحیح)[4] اور عہد نبوت میں باریک جرابوں کا وجود نہیں تھا۔[5]

لیکن بعد میں طرح طرح کی جرابیں وجود میں آنے لگیں ،تو سلف صالحین فقہاء اور محدثین نے حضور    کے زمانے کی جرابوں میں جو اوصاف تھے ،ان کو سامنے رکھ کر یہ شرائط طے کی ہیں کہ جس جراب میں یہ شرطیں پائی جائیں گی انہیں  پر مسح  جائز ہوگا ۔ اور یہ شرطیں سلف صالحین ،فقہاء اور محدثین سے ثابت ہیں ،جنکا حوالہ پیش خدمت ہے :

امام ابو سلیمان موسی بن سلیمان جوزجانی ؒ[صدوق،امام][6] فرماتے ہیں کہ :

(۱)         امام ابو یوسف ؒ ۱۸۲؁ھ) اور

(۲)         امام محمد ؒ ۱۸۹؁ھ)نے کہا ہے کہ’’ إِذا مسح على الجوربين أجزاه الْمسْح كَمَا يَجْزِي الْمسْح على الْخُف إِذا كَانَ الجوربان ثخينين لَا يشفان‘‘  جب جرابیں ثخین ہوں اور پانی کو جذب نہ کرتی ہوں ،تو ان پر ایسے ہی مسح جائز ہے جیسے موزے پر مسح جائز ہے ۔(الاصل المعروف بالمبسوط للشیبانی ج:۱ص:۹۱)

اور ثخین کی تعریف کرتے ہوئے مشہور امام فقیہ علاء الدین محمد بن علی حصکفی ؒ(م ۱۰۸۸؁ھ) [صدوق،فقیہ] [7] فرماتے ہیں کہ’’ الثخينين بحيث يمشي فرسخا ويثبت على الساق بنفسه ولا يرى ما تحته ولا يشف إلا أن ينفذ إلى الخف‘‘   ثخین وہ جراب ہے جس میں لگاتار چلنا ممکن ہو ،اور وہ خود بخود پنڈلی پر سیدھی کھڑی رہے اور (جب)آنکھوں کے سامنے ہو تو نیچے کی چیز نظر نہ آئے (یعنی اس سے نیچے کی طرف نظر نہ گزر سکے )اور پانی جذب نہ کرے ۔(الدر المختار ص:۴۱) مشہور فقیہ امام ابن عابدین ؒ ۱۲۵۲؁ھ) نے بھی ثخین کی یہی تعریف بیا ن فرمائی ہے ۔(رد المحتار علی الدر المختار ج:۱ص:۲۶۹)

(۳)         امام سفیان ثوری  ؒ(۱۶۱؁ھ)

(۴)        امام عبداللہ بن مبارک ؒ(م ۱۸۱؁ھ)

(۵)        امام محمد بن ادریس الشافعی ؒ(م ۲۰۴؁ھ)

(۶)         امام احمد بن حنبل ؒ(م۲۴۱؁ھ)

(۷)        امام اسحق بن راہویہ ؒ(م ۲۳۸؁ھ) یہ سب ائمہ بھی یہی فتوی دیتے ہیں کہ جب جراب ثخین ہوگی تبھی اس پر مسح کیا جائے گا ۔(سنن ترمذی تحت رقم الحدیث:۹۹)[8]

معلوم ہو اکہ سلف اور ائمہ کے نزدیک جراب پر مسح تبھی جائز ہے جب  جراب میں اوپر ذکر کی گئی شرائط موجود ہوں ۔یعنی جب ثخین ہوں ،جیسا کہ تفصیل اوپر گزر چکی ۔

(۸)        الامام الفقیہ ابن المفلح  ؒ(م۸۸۴؁ھ)فرماتے ہیں کہ ’’ وَالْجَوْرَبَيْنِ۔۔۔۔۔۔ وَلِأَنَّهُ سَاتِرٌ لِلْقَدَمِ يُمْكِنُ مُتَابَعَةُ الْمَشْيِ فِيهِ أَشْبَهَ الْخُفَّ ‘‘ جرابوں پر مسح اس لئے بھی جائز ہے کیونکہ وہ قدم کے لئے ساتر ہے (یعنی قدم کو چھپانے والا ہے )اور ان میں بغیر جوتی کے لگا تارچلناممکن ہے ،اس اعتبار سے جرابیں موزے کے مشابہ ہیں ۔ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ ’’ يُشْتَرَطُ لِجَوَازِ الْمَسْحِ عَلَى حَوَائِلِ الرِّجْلِ شُرُوطٌ.الْأَوَّلُ: أَنْ يَكُونَ سَاتِرًا لِمَحَلِّ الْفَرْضِ ..... الثَّانِي: أَنْ يَكُونَ ثَابِتًا بِنَفْسِهِ، إِذِ الرُّخْصَةُ وَرَدَتْ فِي الْخُفِّ الْمُعْتَادِ، وَمَا لَا يَثْبُتُ بِنَفْسِهِ لَيْسَ فِي مَعْنَاهُ، وَحِينَئِذٍ لَا يَجُوزُ الْمَسْحُ عَلَى مَا يَسْقُطُ لِزَوَالِ شَرْطِهِ ‘‘ پانی اور پاؤں کے درمیان حائل ہونے والی (یعنی پہنی ہوئی )چیزوں پر مسح کے جواز کے لئے کئی شرطیں ہیں ،پہلی شرط ہے کہ وہ محل فرض کو ڈھانپ لے ،دوسری شرط یہ ہے کہ وہ قدم اور پنڈلی پر بغیر پکڑنے اور باندھنے کے ٹکی رہے ،کیونکہ مسح کی رخصت اس موزے کے بارے میں واردہوئی ہے جو ’’مروج ‘‘تھااور جو ٹک نہ سکیں ،وہ اس مروج موزے کے حکم میں نہیں آتے ہیں ۔اس لئے اس جراب پر مسح جائز نہیں ہے جو گر جائے ،کیونکہ اس میں جواز کی شرط نہیں پائی گئی ۔(المبدع فی شرح المقنع ج:۱ص:۱۱۳،۱۲۱،۱۲۲)

(۹)         شمس الائمہ امام ابو بکر السرخسی ؒ(م ۴۸۳؁ھ)[ثقہ،امام] [9]فرماتے ہیں کہ ’’ وَأَمَّا الْمَسْحُ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ فَإِنْ كَانَاثَخِينَيْنِ مُنَعَّلَيْنِ يَجُوزُ الْمَسْحُ عَلَيْهِمَا  لِأَنَّ مُوَاظَبَةَ الْمَشْيِ سَفَرًا بِهِمَا مُمْكِنٌ‘‘ اگر جرابیں ثخین منعل ہوں تو ان پر مسح جائز ہے ،کیونکہ بغیر جوتی کے ان میں چلنا ممکن ہے ۔(المبسوط للسرخسی ج:۱ص:۱۰۱،۱۰۲)

(۱۰)       امام موفق الدین ابن قدامہ حنبلیؒ ۶۲۰؁ھ)فرماتے ہیں کہ’’ كَذَلِكَ الْجَوْرَبُ الصَّفِيقُ الَّذِي لَا يَسْقُطُ إذَا مَشَى فِيهِ إنَّمَا يَجُوزُ الْمَسْحُ عَلَى الْجَوْرَبِ بِالشَّرْطَيْنِ اللَّذَيْنِ ذَكَرْنَاهُمَا فِي الْخُفِّ، أَحَدُهُمَا أَنْ يَكُونَ صَفِيقًا، لَا يَبْدُو مِنْهُ شَيْءٌ مِنْ الْقَدَمِ. الثَّانِي أَنْ يُمْكِنَ مُتَابَعَةُ الْمَشْيِ فِيهِ…. وَلِأَنَّهُ سَاتِرٌ لِمَحَلِّ الْفَرْضِ، يَثْبُتُ فِي الْقَدَمِ‘‘  اسی طرح اس جراب پر بھی مسح جائز ہے جو اتنی سخت او رموٹی ہو کہ چلنے سے نہ گرے ،اور جراب پر مسح کی دو شرطیں ہیں ،جن کو ہم نے موزے کے بیان میں ذکر کر دیا ہے۔ایک یہ وہ جراب سخت اور موٹی ہوکہ قدم کی ساخت نظر نہ آئے ۔دوسرے یہ کہ اس میں(بغیر جوتی کے)لگاتار چلنا ممکن ہو۔

نیز ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ (موٹی جراب پر مسح اس لئے بھی جائز ہے )کیونکہ (وہ)جرابیں پاؤں کے لئے ساتر بھی ہیں ،اور پنڈلی اور پاؤں پر بغیر باندھے اور پکڑے چلنے کے وقت ٹکی رہتی ہیں ۔(المغنی لابن قدامہ ج:۱ص: ۳۷۳،۳۷۴)

(۱۱)        حافظ محمد بن عبداللہ الزرکشی ؒ(م۷۷۲؁ھ)فرماتے ہیں کہ ’’ كذلك الجورب الصفيق، الذي لا يسقط إذا مشى فيه  لما كان الخف المعتاد من شأنه أن يكون صفيقا، لا يسقط إذا مشى فيه، لم يصرح بذكر هذين الشرطين فيه، ولما كان الجورب - وهو غشاء من صوف، يتخذ للدفء - يستعمل تارة وتارة كذا، صرح باشتراط ذلك فيه، وقد تقدم بيان هذين الشرطين عن قرب‘‘ اسی طرح ان جرابوں پر مسح جائز ہے ،جو سخت اور موٹی ہوں ،جب اس میں چلے تو وہ (بغیر باندھنے کے )نہ گریں،چونکہ مروج اور معتاد موزے ثخین بی ہوتے ہیں اور چلنے سے گرتے بھی نہیں ،اس لئے ان میں ان دو شرطوں کی ضرورت نہ تھی ،لیکن جراب جواون سے  ُبنا جاتاہے پاؤں کی گرمائش کے لئے ،انکو کبھی کبھی استعمال کیا جاتا ہے وزوں کی طرح ،اس ان میں دونوں شرطوں کی صراحت کردی ہے ۔(شرح الزرکشی ج:۱ص:۳۹۷،۳۹۸)

(۱۲)       امام ابو محمد عبدالرحمن بن ابراہیم المقدسیؒ۶۲۴؁ھ)فرماتے ہیں کہ ’’ يشترط للجورب (أن يكون صفيقاً يستر القدم) لأنه إذا كان خفيفاً يصف القدم لم يجز المسح عليه لأنه غير ساتر فلم يجز المسح عليه كالخف المخرق ويشترط (أن يثبت في القدم) بنفسه من غير شد، فإن كان يسقط من القدم لسعته أو ثقله لم يجز المسح عليه ‘‘ جراب پر مسح کے جواز کے لئے شرط ہے کہ جراب سخت اور موٹی ہو ،جو قدم کو چھپالے ،کیونکہ جب وہ باریک ہوں اور قدم کی ساخت کو ظاہر کرے تو اس پر مسح جائز نہیں ،کیونکہ وہ قدم کے لئے ساتر نہیں،تو یہ پھٹے ہوئے موزے کی طرح ہوگی ۔یہ بھی شرط ہے کہ وہ بغیر باندھنے کے قدم پر ٹکی رہے ،اگر فراخ یا ثقیل ہونے کی وجہ سے قدم سے گر جائے تو اس پر مسح جائز نہیں ۔(العدۃ شرح العمدۃ ص:۳۷)

(۱۳)       الامام المجتہد علی بن محمد الماوردی ؒ(م ۴۵۰؁ھ)فرماتے ہیں کہ ’’ : قال الشافعي رضي الله عنه: " وما لبس من خف خشب أو ما قام مقامه أجزأه أن يمسح عليه ". قال الماوردي: وهذا صحيح. وجملته أن كل خف اجتمعت فيه ثلاث شرائط متفق عليها، ....جاز المسح عليه، من جلود أو لبود أو حديد أو خشب أو جورب.أحد الشرائط الثلاثة أن يكون ساترا لجميع القدم إلى الكعبين حتى لا يظهر شيء لا من أعلى الخف وساقه، ولا من خرق في وسطه أو أسفله، فإن ظهر شيء من القدم من أي جهة ظهر، لم يجز المسح عليه. والثاني: أن لا يصل بلل المسح إلى القدم، فإن وصل إما لخفة نسج أو رقة حجم لم يجز المسح عليه. والشرط الثالث: أن يمكن متابعة المشي عليه لقوته، فإن لم يمكن متابعة المشي لضعفه، أو ثقله لم يجز المسح عليه‘‘ امام شافعی ؒنے کہا کہ موزہ پہن لے یا جو موزے کے قائم مقام ہے (جیسے جراب )وہ پہن لے ،تو اس پر مسح جائز ہے ۔(امام ماوردی ؒکہتے ہیں کہ )یہ صحیح ہے اور ا سکا ضابطہ یہ ہے کہ ہر وہ موزہ جس میں تین اتفاقی شرطیں پائی جائیں ،اس پر مسح جائز ہے خواہ موزہ یا اس کے قائم مقام والی چیز چمڑے کی ہو ہو یا بالوں کی ہو ،لوہے کا ہو یا لکڑی کا یا جراب ہو ۔              (اختصار کے ساتھ )وہ شرائط یہ ہیں :

(۱) ٹخنے کے ساتھ پورا قدم چھپالے ۔

(۱۱) پاؤں تک پانی کو پہنچنے سے روکے ۔

(۱۱۱) اس میں لگاتار چلناممکن ہو ۔(الحاوی الکبیر ج:۱ص:۳۶۵)

(۱۴)       امام شمس الدین ابن قدامہ ؒ۶۸۲؁ھ) جراب پر مسح جائزہونے کی وجہ ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ                             ’’ الجورب في معنى الخف لأنه ملبوس ساتر لمحل الفرض يمكن متابعة المشي فيه أشبه الخف ‘‘ جراب موزے کے حکم میں ہوتا ہے ،کیونکہ وہ محل فرض کو چھپاتاہے ،(یعنی وہ قدم کی ساخت کو چھپاتا ہے )اور اس میں  بغیر جوتی کے چلنا بھی ممکن ہے ۔(الشرح الکبیر علی متن المقنع ج:۱ص:۱۴۹)

(۱۵)       امام ابو اسحق الشیرازی ؒ(م۴۷۶؁ھ)فرماتے ہیں کہ ’’ إن لبس جورباً جاز عليه المسح عليه بشرطين: أحدهما أن يكون صفيفاً لا يشف والثاني أن يكون منعلاً فإن اختل أحد هذين الشرطين لم يجز المسح عليه وإن لبس خفاً لا يمكن متابعة المشي عليه إما لرقته أو لثقله لم يجز المسح عليه ‘‘ اگر جراب پہن لی تواس پر دو شرطوں کے ساتھ مسح جائز ہے ،ایک یہ کہ وہ جراب اتنی سخت اور موٹی ہے کہ پانی کو جذب نہ کرے ،دوسری کہ وہ منعل ہو ۔اگر ان میں سے کوئی شرط نہ پائی جائے تو ان پر مسح جائز نہیں ۔ (المہذب للشیرازی ص:۴۶،۴۷)

(۱۶)       امام ابو حامد الغزالی ؒ ۵۰۵؁ھ) فرماتے ہیں کہ ’’ان کا ن لایداوم المشی علیہ فلا یجوز المسح علی الجورب ‘‘ اگر کسی جراب میں لگاتار چلنا ممکن نہ ہو تو (ایسی )جراب پر مسح کرنا جائز نہ ہوگا ۔(الوسیط للغزالی ج:۱ص:۳۹۹)

(۱۷)       حافظ المغرب امام ابن عبد البرؒ ۴۶۳؁ھ)کہتے ہیں کہ  ’’فان کان الجوربان مجلدین کالخفین مسح علیہما وقد روی عن مالک :منع المسح علی الجوربین وان کا نا مجلدین ،والاول اصح ‘‘ اگر دونوں جراب چمڑے کی ہو ،خفین کی طرح (اگر اس میں مسح کی شرطیں پائی جا تی ہوں )تو (امام مالک ؒ کے نزدیک )ان پر مسح جائز ہے ،اور امام مالک ؒسے (ایک اور قول )مروی ہے کہ انہوں نے جراب پر مسح سے منع کیا ،اگرچہ وہ چمڑے کی ہو ،اور (یہاں پر حافظ المغرب ؒ کہتے ہیں کہ) پہلا قول زیادہ صحیح ہے ۔(الکافی فی فقہ اہل المدینۃ ج:۱ص:۱۷۸،واللفظ لہ ،المدونہ ج:۱ص:۱۴۳)

(۱۸)       امام نووی ؒ ۶۷۶؁ھ) فرماتے ہیں کہ ’’ الصَّحِيحَ مِنْ مَذْهَبِنَا أَنَّ الْجَوْرَبَ إنْ كَانَ صَفِيقًا يُمْكِنُ مُتَابَعَةُ الْمَشْيِ عَلَيْهِ جَازَ الْمَسْحُ عَلَيْهِ وَإِلَّا فَلَا ‘‘ ہمارا صحیح مذہب یہ ہے کہ جراب اگر سخت ہو اور اس میں (بغیر جوتی کے ) لگاتار چلنا ممکن ہو ،تو اس پر مسح جائز ہے ،ورنہ جائز نہیں ۔(المجموع للنووی ج:۱ص:۴۹۹)

(۱۹)       امام رافعی ؒ ۶۲۳؁ھ) فرماتے ہیں کہ ’’ الثاني ان يكون قويا والمراد منه كونه بحيث يمكن متابعة المشى عليه.... فلا يجوز المسح على اللفائف والجوارب المتخذة من الصوف واللبد لانه لا يمكن المشى عليها.... ولانها لا تمنع نفوذ الماء إلى الرجل ‘‘ دوسری شرط یہ ہے کہ جراب مضبوط ہو ،تو اس سے مراد یہ ہے کہ اس میں لگاتار چلنا ممکن ہو ۔۔۔۔۔لہذا اون (woolen)اور بالوں کی جرابوں پر مسح جائز نہیں،کیونکہ اس میں لگا تار چلنا ممکن نہیں اور یہ پانی کو پاؤں تک پہنچنے سے بھی نہیں روکتی ۔(الشرح الکبیر للرافعی ج:۲ص:۳۷۳)

(۲۰)      امام بغوی ؒ (م ۵۱۶؁ھ)فرماتے ہیں کہ ’’ لا يجوز المسح على جورب الصوف، واللبد، إلا أن يركب طاقةً فوق طاقةٍ؛ حتى يتصفق وينعل قدمه؛ بحيث يمكن متابعة المشي عليه ‘‘ اون اور بال کے موزے پر مسح جائز نہیں ،مگر یہ کہ وہ مرکب ہو تہ بہ تہ ہو ، یہاں تک کہ اس کے قدم کو ڈھانپ لے ،اس طور پر کہ اس کو پہن کرمسلسل چلنا ممکن ہو ۔ (التہذیب للبغوی ج:۱ص:۴۳۲)

(۲۱)       امام عبداللہ بن محمود الموصلی ؒ(م۶۸۳؁ھ)[ثقہ،علامہ،مفتی] [10] فرماتے ہیں کہ ’’ يَجُوزُ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ إِذَا كَانَا ثَخِينَيْنِ أَوْ مُجَلَّدَيْنِ أَوْ مُنَعَّلَيْنِ ‘‘  جرابوں پر مسح تب جائز ہے ،جب ثخین یا مجلد (وہ جراب جس کے اوپر نیچے چمڑاہو )یا منعل ہو۔ (الاختیار لتعلیل المختار ج:۱ص:۱۲۴)

(۲۲)      فخرالاسلام ،فقیہ العصر ،امام ابو بکر الشاسی ؒ(م۵۰۷؁ھ)کہتے ہیں کہ ’’ان لبس جورباً صفیقاً لایشف ومنعلاً یمکن متابعۃ المشی علیہ جاز المسح علیہ ‘‘ اگر ایسی جرابیں پہن لی جو سخت ہونے کی وجہ سے پانی جذب نہ کرے اور ایسی منعل ہو کہ کہ ان میں لگاتار چلنا ممکن ہو ،تو اس پر مسح جائز ہے ۔(حلیۃ العلماء ج:۱ص:۱۳۴)

(۲۳)      فقیہ ابو الحسین یحی العمرانی ؒ ۵۵۸؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’  قال أصحابنا: والجوارب على ضربين:فـالأول : منه ما يمكن متابعة المشي عليه، بأن يكون ساترًا لمحل الفرض صفيقًا، ويكون له نعل، فيجوز المسح عليه. و الثاني : إن كان الجورب لا يمكن متابعة المشي عليه، مثل: أن لا يكون منعل الأسفل، أو كان منعلا، لكنه من خرق رقيقة، بحيث إذا مشى فيه تخرق، لم يجز المسح عليه ‘‘  (جس کا خلاصہ یہ ہے کہ) ہمارے اصحاب نے کہا کہ جرابیں دو قسم کی ہیں :

(۱) وہ جس کو پہن کر لگاتار چلنا ممکن ہو اور وہ پاؤں کے محل فرض کو چھپاتی ہو ،اس پر مسح جائز ہے ۔

(۲) دوسری وہ قسم ہے کہ جس کو پہن کر لگاتار نہیں چلا جاسکتا ،اگر اس میں چلا جائے تو وہ پھٹ جائے گی ۔تو ایسی جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے ۔اور آگے کہتے ہیں کہ ’’ ہذا مذہبنا وبہ قال مالک وأبوحنیفۃ ‘‘ یہ ہما را مذہب ہے ،اور یہی بات امام مالک ؒ اور امام ابو حنیفہؒ نے بھی کہی ہے ۔(البیان للعمرانی ج:۱:۱۵۶،۱۵۷)

(۲۴)      امام مجد الدین ابو البرکات عبدالسلام بن تیمیہ ؒ ۶۵۲؁ھ)فرماتے ہیں کہ ’’ یمسح علی ما یستر محل الفرض ویثبت بنفسہ من جورب ،وجرموق ونحو ہ فان کان واسعاً یسقط من قدمہ أویبدو منہ شیٔ لخرق أوغیرہ لم یجز المسح علیہ ‘‘ مسح کرے جراب وغیرہ پرجب وہ پاؤں کے محل فرض کو چھپاتی ہو،اور خود سے کھڑی ہوتی ہو ،پھر اگر جراب اتنی چوڑی ہو کہ پاؤں سے گر جاتی ہو ،یا اس سے (پاؤں کا)کوئی حصہ نظر آتا ہو پھٹن یا کسی اور وجہ سے ،تو ایسی جراب پر مسح جائز نہیں۔ (المحررلمجد الدین ج:۱ص:۱۲)

(۲۵)      الامام الفقیہ ابولحسن علی بن سلیمان المرداوی ۸۸۵؁ھ) فرماتے ہیں کہ ’’ ومفہوم قولہ [وثبت بنفسہ ]أنہ اذاکان لا یثبت الا بشدہ لا یجوز المسح علیہ ،وہو المذہب من حیث الجملۃ ،ونص علیہ ،وعلیہ الجمہور‘‘   ثبت بنفسہ یعنی وہ خود سے ٹکی رہے ۔اسکا مطلب یہ ہے کہ جب جراب باندھے بغیر نہ ٹکے تو اس مسح جائز نہیں ،اور یہی اصل مذہب ہے ،اور اسی کی تصریح کی گئی ہے ،اور جمہور کا یہی مذہب ہے ۔(الانصاف ج:۱ص: ۱۷۹)

(۲۶)      امام احمد بن حنبل ؒ ۲۴۱؁ھ)فرماتے ہیں کہ ’’ یمسح اذاثبت علی قدمیہ‘‘ جرابون پر مسح تب کرے گا جب وہ اسکے قدموں پر ٹکی رہیں ۔(مسائل حرب الکرمانی ص:۳۶۴،رقم :۴۸۵)

(۲۷)      امام الحرمین ؒ ۴۷۸؁ھ)فرماتے ہیں کہ ’’فمذہبنا ان من لبس جورباً ضعیفاً لایعتاد المشی فیہ وحدہ ،فلا سبیل الی المسح علیہ ‘‘ ہمارا مذہب یہ ہے کہ جس نے ایسا کمزور پتلا جراب پہنا جس میں عادۃ ً تنہا پہن کر چلا نہیں جا سکتا ،تو ایسی جرابوں پر مسح کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے (نہایۃ المطلب ج:۱ص:۲۹۴)

(۲۸)      الامام الحافظ الفقیہ ابو ثور ؒ ۲۴۰؁ھ) فرماتے ہیں کہ ’’یمسح علیہما اذاکانا یمشی فیہما ‘‘ جرابوں پر مسح اس وقت کیا جائے گا جب ان میں چلا جا سکتا ہو ۔(الاوسط لابن المنذر: ج:۱ص:۴۶۳)

(۲۹)       امام ابو المحاسن عبدالواحد الرویانی ؒ(م ۵۰۲؁ھ)بھی یہی کہتے ہیں (اختصاراً عرض ہے )کہ جراب پر مسح کے لئے تین شرطیں ہیں :

(۱) مکمل پیر کو ٹخنوں کے اوپر تک چھپائے ۔

(۲) ایسا موٹا ہو کہ پانی کو جذب نہ کرے ۔

(۳) اس میں لگاتار چلنا ممکن ہو ۔(بحر المذہب للرویانی ج:۱ص:۲۹۰)[11]

الغرض سلف صالحین ،فقہاء اور محدثین کے ارشادات سے معلو م ہو اکہ اگر کسی جراب میں یہ شرطیں موجود ہوں کہ :

(۱) اس جراب میں لگاتار چلنا ممکن ہو ۔(مثلاً تین میل ،یعنی وہ جراب ایسی مضبوط ہو کہ اس میں تین میل تک لگاتار چلنا ممکن ہو اور اس  میںپھٹن یا شگاف نہ پیدا ہو )۔ 

(۲) اتنی موٹی اور سخت ہو کہ بغیرباندھے اور بغیر سہارے کے پاؤں پر ٹکی رہے ۔

(۳) پانی کو جذب نہ کرے ۔

(۴) اتنی موٹی ہوکہ اس سے نظر نہ گزرے ۔(یعنی پاؤں کی ہیئت نظر نہ آے)، تب ان پر مسح کرنا جائز ہوگا ورنہ نہیں ۔

جرابوں پر مسح امام ابن تیمیہ کی تحقیق کی روشنی میں :

         امام ابن تیمیہ ؒ کی تحقیق یہ ہے کہ جس موزے ا ورجس جراب میں آدمی بغیر جوتی کے چل سکتا ہو اس پر مسح جائز ہے اور جس میں نہ چل سکتا ہو اس پر مسح جائز نہیں چنانچہ مجموع الفتاوی لابن تیمیہ ج۲۱ص۱۷۴میں ہے۔ ’’کل خف یلبسہ الناس ویمشون فیہ فلہم ان یمسحو اعلیہ ‘‘ یعنی ہر وہ موزہ جسے لوگ پہنتے ہوں اور اس میں چلتے ہوں ان کیلئے ان پر مسح کرنا جائز ہے ۔

نیز مجموع الفتاوی لابن تیمیہ ج۲۱ص۲۱۴ ،اور اقامۃ الدلیل علی ابطال التحلیل لابن تیمیہ ج۲ص۳۲۷میں ہے ’’یجوز المسح علی الجوربین اذاکا یمشی فیہما‘‘ جب بغیر جوتی کے جرابوں میں آدمی چل سکتا ہو تو ان پر مسح کرنا جائز ہے۔

              جب امام ابن تیمیہؒ کے نزدیک جرابوں پر مسح کے جواز کے لئے شرط ہے کہ ان میں بغیرجوتی کے چلنا ممکن ہو تو وہ جرابیں یقینا ثخین ہوں گی لہذا اس شرط کے بعد امام ابن تیمیہ ؒمذہب جمہور فقہاء کے موافق ہوجاتاہے کہ ثخین جرابوں پر مسح جائز ہے اور غیرثخین یعنی باریک جرابیں کہ جن میں بغیر جوتی کے چلنا ممکن نہیں ہوتا ان پر مسح جائز نہیں ۔

              چنانچہ غیر مقلد عالم عبدالرحمن مبارک پوری لکھتے ہیں کہ ’’کلام الحافظ ابن تیمیۃہذالیس مخالفاًلما اخترنا من ان الجوربین اذا کانا ثخینین صفیقین یمکن تتابع المشی فیہما یجوز المسح علیہما فانہما فی معنی الخفین فانہ رحمہ اللہ قید جواز المسح علی الجوربین بقولہ اذا کان یمشی فیہما وظاہر ان تتابع المشی فیہما لایمکن فیہما الا اذاکانا ثخینین ‘‘

              حافظ ابن تیمیہ کا یہ کلام اس مذہب کے خلاف نہیں جس کو ہم نے اختیار کیا ہے یعنی جرابیں جب ثخین اور مضبوط ہوں جن میں لگاتار چلنا ممکن ہو تو ان پر مسح جائزہے کیونکہ ایسی جرابیں موزوں کے حکم میں ہوتی ہیں اور حافظ ابن تیمیہ نے جرابوں پر مسح کے جواز کو اس قید کے ساتھ مقید کیا ہے ’’اذا کان یمشی فیہما‘‘ جب ان میں چلنا ممکن ہو ۔ (تحفۃ الاحوذی ج۱ص۲۸۸)

              اور ظاہر ہے کہ جرابوں میں لگاتار چلنا تب ممکن ہے جب وہ ثخین ہوں پس امام ابن تیمیہ کے عرب وعجم کے خواہش پرست محبین جو امام ابن تیمیہ کے نام پر عربوں سے کروڑوں روپئے لوٹنے والے اس مسئلے میں امام ابن تیمیہ کے مسلک کوبھی چھوڑ گئے ۔

جرابوں پر مسح فتاویٰ علماء عرب کی روشنی میں :

              جرابوں پر مسح کے سلسلہ میں  علماء عرب  نے بھی فقہاء اور محدثین کی شرائط کو قبول فرمایا ہیں۔[12]

وضاحت :

احناف بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر کسی جراب میں یہ شرطیں پائی جائیں چاہے وہ چمڑے کی ہوں یا نہ ہوں ،ان پر مسح جائز ہوگا ۔کیونکہ اسلاف کی بیان کردہ شرائط اس میں پائی جارہی ہیں ۔لہذا غیر مقلدین کا یہ کہنا کہ احنا ف جرابوں پر مسح کے قائل نہیں ہیں باطل ومردود ہے ۔ البتہ یہ  بات ثابت ہے کہ غیر مقلدین جو اسلاف کے فہم سے قرآن وحدیث ماننے کا دعوہ کرتے ہیں ،خود انہوں نے جراب پر مسح کے مسئلے میں سلف ،فقہاء اور محدثین کو چھوڑا ہے۔جسکی تفصیل آگے آرہی ہے ۔

نوٹ :

بازار میں آج کل جو جراب اون (woollen)اور مختلف کپڑے کی موجود ہے ان پر مسح قطعاً جائز نہیں کیونکہ اوپر ذکر کی گئی شرطیں اس قسم کی جراب میں نہیں پائی جاتیں ۔لہذا ایسی جراب پر مسح کرنا جائز نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ

- امام نووی ؒ(م ۶۷۶؁ھ)

- امام ابو محمد عبدالرحمن بن ابراہیم المقدسی ؒ( م ۶۲۴؁ھ)

- امام موفق الدین ابن قدامہ ؒ(م ۶۲۰؁ھ)

- امام ابو بکر السرخسی ؒ(م ۴۸۳؁ھ)

- امام ماوردی ؒ ۴۵۰؁ھ)

- امام ابن نجیم ؒ( م ۹۷۰؁ھ) [ثقہ،فقیہ][13]

- امام برہان الدین محمود بن احمد البخاری ؒ ۶۱۶؁ھ) [صدوق][14]

- امام ابو بکر محمد بن احمد علاء الدین سمرقندی ؒ ۵۴۰؁ھ)[شیخ،صدوق][15] اور ان علاوہ بھی کئی فقہاء ومحدثین نے باریک جراب پر مسح کو ناجائز قرار دیا ہے۔ (المجموع :ج: ۱ص: ۴۹۹،العدہ شرح عمدہ ج:۱ص: ۴۰،المغنی ج: ۱ص: ۳۷۴،المبسوط ج: ۱ص: ۱۰۲،الحاوی الکبیر ج: ۱ص: ۳۵۶،البحر الرائق ج: ۱ص: ۱۹۲،المحیط البرہانی ج:۱ص: ۱۶۹،۱۷۰،تحفۃ الفقہاء ج:۱ص: ۸۶)

آخری بات:

قارئین ! سلف صالحین ،فقہاء اور محدثین نے تو جرابوںکو شرائط کے ساتھ جائز قرار دیا ہے ،لیکن موجودہ غیر مقلدین ان شرائط کا انکا ر کرتے ہیں اور یہ فتوی دیتے ہیں کہ باریک اور اون کی جرابوں پر بھی مسح جائز ہے۔(فتاوی علماء حدیث ج: ۱ص:۹۹،۱۰۰،فتاوی اصحاب الحدیث ج:۱ص:۶۷)

پھر دوسری طرف غیر مقلدین اہل حدیث حضرات ہر وقت یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ اپنی عقل کو چھوڑ کر سلف صالحین کے فہم کے مطابق قرآن وحدیث پر عمل کرتے ہیں :

(۱)         اہل حدیث حضرات کے محدث حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں کہ صحیح العقیدہ محدثین کرام اور تقلید کے بغیر سلف صالحین کے فہم پر کتاب وسنت کی اتباع کرنے والوں کا لقب اور صفاتی نا م اہل حدیث ہے ۔اہل حدیث کے نزدیک قرآن مجید ،احادیث صحیحہ (اور سلف صالحین کے فہم پر )اور اجماع شرعی حجت ہے ۔(مقالات ج:۱ص:۱۷۵)

(۲)          غیر مقلد سید محمد سبطین شاہ نقوی صاحب لکھتے ہیں کہ:اہل حدیث قرآن وحدیث ،اجماع ِامت اور اجتہاد شرعی کو حق مانتے ہیں ،ان کے نزدیک قرآن وسنت کا وہی فہم معتبر ہے جو محدثین کا اتفاقی فہم ہے ۔(ضرب حق شمارہ نمبر۱ص:۵)

(۳)        مشہور اہل حدیث علامہ ناصرالدین البانی ؒ ایک’’ مکالمے‘‘ میں فہم سلف کی اہمیت اور اس کی دعوت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ :

جن جن فرقوں کا ہم نے ذکر کیا ہے کہ وہ بھی (گمراہ ہونے کے باوجود )اپنے آپ کو مسلمان کہلواتے ہیں ،ساتھ ہی ان میں سے کوئی نہیں کہتاکہ میں کتاب وسنت پر نہیں (بلکہ سب کا یہی دعوی ہے کہ ہم کتاب وسنت پر عمل پیرا ہیں) تو ہمیں تو چاہیئے کہ ہم ایک اور ضمیمہ کا اس میں اضافہ کریں ۔

آپ کی کیا رائے ہے کہ ہم آج کتاب وسنت کے کسی نئے فہم پر اعتماد کریں گے یا پھر لازم ہے کہ ہم ان کے (یعنی کتاب وسنت کے )فہم کے سلسلے میں اس چیز پر اعتماد کریں گے جس پر سلف صالحین تھے ؟

سائل نے کہا :بالکل لازم ہے ۔(کہ ہم فہم سلف پر اعتماد کریں )

پھر آگے گفتگو میں ہے کہ سائل نے البانی صاحب کی بات کو تسلیم کیا  ۔(اہل حدیث کا منہج اور احناف سے اختلاف کی حقیقت ص :۲۸۶،۲۸۷)

(۴)        غیر مقلد ابو انس یحی گوندلوی اپنی عقیدہ اہل حدیث نامی کتاب میں لکھتے ہیں کہ : دلائل بیان کر نے کاا ندازسلف صالحین طریق پر رکھا ہے ۔(عقیدہ اہل حدیث ص:۳۳)

(۵)        اہل حدیث عالم غلام مصطفی ظہیر صاحب کہتے ہیں کہ :میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اگر کوئی مجھے قرآن مقدس کی ۱۰۰۰آیات بینات پیش کرے اور وہ (۱۰۰۰آیات )اپنے مطلب میں بالکل واضح ہوں یعنی وہ مسئلہ ان سے بالکل واضح طور پر ثابت ہورہا ہو ،مگر سلف صالحین نے ان سے وہ مسئلہ ثابت نہ کیا ہو یا اس مسئلے کے خلاف ثابت کیا ہو ،تو میں یہ کہوں گا کہ قرآ ن تو حق ہے ،لیکن میرا فہم صحیح نہیں ہے ،فہم محدثین  یا ائمہ دین کا صحیح ہے ۔

(۶)         حافظ ابویحی نورپوری صاحب نے بھی اپنے استاد غلام مصطفی کی بات کے جواب میں ’’جی بالکل ‘‘کہہ کر ان کی تصدیق کردی ہے۔

مزید غلام صاحب کہتے ہیں کہ یہ بنیادی خصوصیت اور امتیازی حیثیت ہے اہل حدیث مسلک کی ،کہ یہ اپنی طرف سے قرآن وحدیث کے مفاہیم بیان نہیں کرتے ۔[16]

(۷)        اہل حدیث مولوی صدیق رضا صاحب جماعت المسلمین کے خلاف اپنے رسالے میں تحریر کرتے ہیں (جس کا خلاصہ یہ ہے ) کہ قرآ ن اور حدیث کی ایسی تشریح کی جائے جو سلف سے منقول نہ ہو ،تو وہ غامنیت توہو سکتی ہے ،قادیانیت تو ہوسکتی ہے ،کوئی اور دین ہو سکتاہے لیکن وہ اسلام نہیں ہوسکتا۔(ص:۲مطبوعہ مکتبہ ابوالاسجد)[17]

(۸)        اسی طرح ایک اور اہل حدیث محقق ابن الحسن المحمدی صاحب لکھتے ہیں کہ :

’’مسلک اہل حدیث کی بنیاد قرآن ،صحیح حدیث ،اجماع امت اور فہم سلف پر ہے۔مسلک اہل حدیث کا ایک بھی مسئلہ ایسا نہیں جسکی بنیاد فہم سلف پر نہ ہو ‘‘۔ (ضرب حق شمارہ نمبر :۶اکتوبر ۲۰۱۰؁ص:۲۳)

اگر واقعی اہل حدیث حضرات کا منہج اور اصول یہی ہے کہ قرآن اور حدیث کا وہی مطلب اور مفہوم لیاجا ئے گا جو سلف اور ائمہ محدثین اور فقہاء کریں گے ،تو سوال یہ ہے کہ جرابوں پر مسح کے سلسلے میں وہ کیوں سلف ،فقہاء اور محدثین کے فہم کوچھوڑ کر یہ فتوی دے رہے ہیں کہ موجودہ دور کی اونی جرابوں پربھی مسح جائز ہے ۔جبکہ ان میں سلف کی بیان کردہ شرائط قطعاً نہیں پائی جاتی ہیں۔

آخر بیچاری عوام کو یہ دھوکہ کب تک دیا جائے گا کہ اہل حدیث قرآن وحدیث کو صرف سلف صالحین کے فہم پر مانتے ہیں ؟

لہذا اہل حدیث حضرات سے گزارش ہے کہ یا تو وہ اپنے دعوے اور اپنے منہج کو باطل قرار دیں یا اپنے فتوے سے رجوع کریں ۔نیز یہ بھی التجا ء ہے کہ اس طرح کی دوغلے پن کا ثبوت نہ دیا کریں ۔کیونکہ ایسی چیزیں آپ حضرات ہی کی جہالت اور بے علمی کا پتہ دیتی ہیں ۔

                اللہ ہم سب کو حق سمجھنے اور اس کو قبول کرنے کی توفیق عطاء  فرمائے!آمین

 

 

 

 

 

 

 



[1] اعتراض : زبیر علی زئی صاحب نے ہدایۃ المسلمین ص: ۱۷ ؍ پر لکھا ہے کہ اس( ثوبان ؓ کی) روایت پر امام احمد ؒ کی جرح کے جواب کے لئے نصب الرایہ دیکھئے ۔

الجواب : امام حافظ زیلعی ؒ (۷۶۲؁ھ) کے الفاظ یہ ہیں :

              وقال احمد :لا ینبغی ان یکون راشد سمع من ثوبان ،لانہ مات قدیماً وفی ہذا القول نظر ،فانہم قالوا: ان راشد اً شہد مع معاویۃ صفین ،وثوبان مات سنۃ اربع وخمسین ،ومات راشد سنۃ ثمان ومأۃ ۔(نصب الرایہ ج:۱ص:۱۶۵)

اول        تو اس عبارت میں لفظ ’’قالوا ‘‘ہے ،اور علی زئی صاحب کے اصول کے مطابق ’’قالو ا‘‘ کا فاعل معلوم نہیں ہے۔چنانچہ علی زئی صاحب اپنی کتاب (مقالات ج:۱ص: ۴۵۳) پر اپنے من پسند راوی پر ایک جرح ’قالوا:کان یضع الحدیث‘ کو مردود قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ :قالواکا فاعل نامعلوم اور مجہول ہے ۔ تو پھر اس عبارت سے علی زئی کا استدلال کیسے صحیح ہوسکتا ہے ۔

دوم        اس عبارت سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ حافظ زیلعی ؒ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ راشد نے ثوبانؓ کا زمانہ پایا ہے ۔لیکن زئی صاحب کے نزدیک زمانہ پانا یا اپنے استاد کو دیکھ لینا اور چیز ہے اور ان سے روایت سننا اور چیز ہے ۔چنانچہ زئی صاحب نے حسن البصری ؒ کا حضرت علی ؓ سے عدم سماع ثابت کرنے کے لئے ائمہ محدثین کے اقوال کو دلیل میں پیش کیا ہے ،جس میں ائمہ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ حضرت حسن البصری ؒ نے حضرت علی ؓ کو دیکھا ہے لیکن کوئی روایت بھی ان سے نہیں سنی ہے ۔،اس سے ثابت ہوا کہ علی زئی صاحب یہ بات مانتے ہیں کہ حضرت حسن بصری ؒ نے حضرت علی ؓ کو دیکھا ہے ۔پھر علی زئی صاحب نے حسن ؒ کی تاریخِ ولادت ۲۱ یا ۲۲ہجری ۔لکھ کر یہ بھی تسلیم کرچکے ہیں کہ حسن بصری ؒ نے بھی حضرت علی ؓ (م۴۰ھ)کا زمانہ پایا ہے ۔(فتاوی علمیہ ج: ۲ص:۵۱۵،۵۱۰) لیکن ان سب کے باوجود ان کے نزدیک حضرت حسن بصری ؒ کی حضرت علی ؓ سے روایت منقطع ہے ۔مگر چونکہ یہاں پر اپنے مسلک کی تائید میں یہ ابو موسی کی روایت تھی ۔اس لئے علی زئی صاحب نے خوشی خوشی یہاں پر اپنے اصول کو بھلا دیا ار دوغلی پالیسی کے ساتھ بیچاری عوام کو بھی دھوکہ دیا ۔(اللہ انہیں معاف فرمائے ۔۔۔آمین)

سوم        تعجب ہے کہ زبیر علی کے نزدیک امام زیلعی ؒ ۷۶۲؁ھ) کب سے حجت ہوگئے ؟امام محمد بن حسن الشیبانی ؒ           ۱۸۹ھ) کی توثیق جب امام دارقطنی ؒ کے حوالے سے انکے سامنے آئی کہ امام دارقطنی ؒ ۳۸۵؁ھ)نے اپنی کتاب غرائب مالک میں امام محمدؒ کو ثقہ کہا ہے ،جیسا کہ حافظ زیلعی ؒ نے نصب الرایہ میں نقل کیا ہے ،تو موصوف جواب میں کہتے ہیں کہ یہ حوالہ مردود ہے ۔اور ایک وجہ بتلاتے ہیں کہ ’’اصل کتاب غرائب مالک موجود نہیں تاکہ زیلعی کے دعوے کی تصدیق کی جاسکے ۔‘‘ (مقالات ج:۲ص:۳۵۵) لیکن یہاں پر چونکہ شاید علی زئی صاحب کے مسلک کی تائید میں کچھ بات تھی ۔اس لئے انہوں نے امام زیلعی ؒ کو قبول کرلیا ،آخر یہ دوغلی پالیسی کب تک چلے گی ؟الغرض زبیر علی زئی کا امام زیلعی کے حوالے سے استدلال خود ان کے اصول سے مردود ہے ۔

 

[2] اعتراض : عبد الرؤف سندھی صاحب اس انقطاع کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابن ترکمانی ؒ نے الجوہر النقی میں اس علت کا جواب دیا ہے ۔(القول المقبول ص: ۲۰۷)

الجواب : امام  ابن ترکمانی  ؒ  (م۷۵۰؁ھ) کے الفاظ یہ ہیں :                                                                                                                              

’’     قلت ہذا ایضا کما تقدم انہ علی مذہب من یشترط للاتصال ثبوت السماع ثم ہو معارض بماذکرہ عبدا لغنی فانہ قال فی الکمال سمع ضحاک عن ابی موسی‘‘ ۔(الجوہر النقی ج:۱ص:۲۸۴)

غور فرمائیے !ابن ترکما نی  ؒ نے عبدالغنی ؒ ۶۰۰؁ھ)کا حوالہ دیا ہے کہ ضحاک کا ابو موسی اشعری ؓ سے سماع ہے ،جبکہ امام ابو داؤد ؒ ۲۷۵؁ھ)اور امام بیہقی  ؒ ۴۵۸؁ھ)کے نزدیک ان کا ابوموسی اشعر ی ؓ سے سماع ثابت نہیں ہے ،اور غیر مقلدین کا اصول ہے کہ متقدمین کے مقابلے میں متأخرین کی بات قابل قبول نہیں ہے ۔

چنانچہ زبیر علی زئی کہتے ہیں کہ متقدمین کے مقابلے میں متأخرین کی بات کب قابل مسموع ہوسکتی ہے۔ (نورالعینین ص:۱۳۷)اسی طرح اہل حدیث محقق ابو خرم شہزاد صاحب کہتے ہیں کہ :اصل فیصلہ پھر بھی متقدمین محدثین کا ہی ہے ،متأخرین تو ناقلین ہیں ۔(کتاب الضعفاء والمتروکین ص: ۹۱) لہذا خود اہل حدیثوں کے اصول کی روشنی میں یہ ابن ترکمانی کا حوالہ مردود ہے ۔                                                                                                

 

[3]  اعتراض:

  عبدالرؤف سندھی صاحب کہتے ہیں کہ ایک راوی نے اس حدیث کو مغیرہ سے روایت کرتے ہوئے تینوں چیزوں (موزے، پگڑی اور جرابوں) پر مسح کا ذکر کیا ہے، یہ راوی عمرو بن وہبؒ ہیں، اس کی سند سے اس حدیث کو ابو شیخ نے ’’طبقات‘‘۴؍ص۲۶۴) میں روایت کیا ہے، ابو شیخ نے اس کو طیالسی کی سند سے روایت کیا ہے اور یہ ’’مسندطیالسی‘‘ میں بھی ہے، مگر اس میں جرابوں کا ذکر نہیں، ابو بکر اسماعیلؒ نے ’’معجم‘‘ (ج۲ص۷۰۴) میں اس حدیث کو فضالہ بن عمرو زہرانی ؒ کی سند سے بھی مغیرہ سے روایت کیا ہے ، اور اس کی سند میں بھی جرابوں پر مسح کا ذکر ہے، اس میں جرابوں کے ساتھ جوتے پر مسح کا ذکر بھی ہے، مگر مجھے اس سند کا حال معلوم نہیں۔ حاصلِ کلا م یہ ہے کہ یہ حدیث مغیرہ صحیح حدیث ہے۔ (القول المقبول: ص۲۰۷)

الجواب :

جہاں تک ’’طبقات المحدثین للامام ابی شیخ ‘‘ کی روایت کی بات ہے ، تو اس کی سند اس طرح ہے:

              حدثنا احمد بن محمد، قال: ثنا اسماعیل بن یزید، قال: ثنا ابوداؤد،قال: ثنا سعید بن عبدالرحمن، عن ابن سیرین، عن عمرو بن وھب، عن المغیرۃ بن شعبۃ، قال: رایت رسول اللہﷺ یمسح علی العمامۃ، والجوربین، والخفین)۔ (طبقات المحدثین:ج۴ص۱۳)

اس روایت کے تمام رُواۃ ثقہ ہیں، مگر اسماعیل بن یزیدؒ  آخری عمر میں کچھ حدیثیں بیان کرنے میں مختلط ہوگئے تھے، جیسے کہ امام ابو نعیمؒ ، اور امام ابو شیخؒ نے وضاحت کی ہے۔(تاریخ اصفہان:ج۱ص۲۵۲، طبقات المحدثین:ج۲ص۲۷۰) اور اس کی صراحت بالکل بھی نہیں ہے کہ احمد بن محمد جن کا پورا نام احمد بن محمد بن سہل ابو عباسؒ ۳۰۶؁ھ) ہے۔انہونے اسماعیل بن یزیدؒ  سے اختلاط سے پہلے سنا تھا یا بعد میں، غالب گمان یہی ہے کہ احمد بن محمد  ابو عباس ؒ نے ان سے حالتِ اختلاط میں روایت کی ہے، کیونکہ یہی حدیث امام ابو داؤد طیالسیؒ ۲۰۴؁ھ) نے اپنی سنن میں روایت کی ہے، لیکن جرابوں کا لفظ نہیں، جس کا اقرار خود عبدالرؤف صاحب کر چکے ہیں۔لہٰذا اس روایت سے استدلال باطل ہے،

 پھر معجم الشیوخ للامام ابوبکر الاسماعیلی کی سند یہ ہے:

              حدثنا عبدالرحمن بن محمد بن الحسن بن مرداس الواسطی ابوبکر من حفظہ املاء قال: سمعت أحمد بن سنان ، یقول: سمعت عبدالرحمن بن مھدی، یقول: عندی عن المغیرۃ بن شعبۃ، ثلاثۃ عشر حدیثا فی السمح علی الخفین، فقال أحمد الدروقی: حدثنا یزید بن ھارون ، عن داؤد بن ابی ھند، عن ابی العالیۃ عن فضالۃ بن عمرو الزھرزانی، عن المغیرۃ بن شعبۃ،ان النبی ﷺ توضأ ومسح علی الجوربین و النعلین۔(معجم الشیوخ:ج۲ص۷۰۳)

               اور اس میں فضالہ بن عمرو الزھرانیؒ مجہول ہیں، مجہول کی روایت غیر مقلدین کے نزدیک مردود ہوتی ہے، لہٰذا دونوں روایتوں سے رؤوف کا استدلال باطل ہے۔

[4] واضح رہے کہ سنن کبری للبیہقی کے مطبوعہ نسخے میں محمد بن عبیداللہ المنادی ؒ ۲۷۲؁ھ)کی جگہ محمد بن عبداللہ المنادی لکھا ہے جو کہ کاتب کی غلطی ہے ،جبکہ صحیح محمد بن عبیداللہ المنادی ہے ،جوکہ یزید بن ہارون ؒ کے شاگرد ہیں ۔(تہذیب الکمال ،ج:۲۶،ص: ۵۰) لہذا قارئین سے گزارش ہے کہ اسکو نوٹ کرلیں ۔

[5] رہی یہ بات کہ عہد نبوت میں باریک جرابوں کا وجود نہیں تھااس کا ثبوت کیا ہے ؟ تو   دلائل  ملاحظہ فرمائیں :

حوالہ نمبر  ۱:

شرح زاد المستنقع ص ۲۵۶ج ۲۴میں لکھا ہے

 ’’وہذا اصح قولی العلماء لکن یشترط فی الجوارب ان یکون ثخینا ًوأماالرقیقان فالصحیح انہ لا یمسح علیہ وہو مذہب جما ہیر العلماء والدلیل لمن قال بجواز المسح علیہ ہو القیا س علی الثخینین لانہ ما کا ن موجودا ًعلی عہد النبی ﷺ فقیس علی الثخینین وہذا القیاس مع الفارق ‘‘                          

جوربین پر مسح کے جواز والا قول زیادہ صحیح ہے لیکن شرط یہ ہے کہ جورب ثخین ہو ۔رہا رقیق تو اس پر مسح کرنا جائز نہیں جمہور علماء کا مذہب یہی ہے اور جو لوگ باریک جرابوں پر مسح کے جواز کے قائل ہیںوہ باریک جرابوں کو قیا س کرتے ہیں ثخین جرابوں پر ۔ان کو قیا س کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ نبی پاک ﷺ کے زمانے میں باریک جراب موجود ہی نہ تھی لیکن یہ قیا س ،قیا س مع الفارق ہے ۔

حوالہ نمبر ۲:

شرح زاد المستقنع للشنقیطی ص ۲۵۶ج ۲۴ پر ہے :

              ’’ولم تکن الجوارب کہذہ الجوارب الموجودۃ الآن الشفافۃ الرقیقۃ التی لو وضع الانسان اصبعہ لربما وجد حرارتہ علی بدنہ من رقتہا فہی حوائل ضعیفۃ جدا ً لا تنزل منزلۃ الحوائل الثخینۃ فی الجلد کما فی  الخف ولا فی الجوارب‘‘

              عہد نبوت کی جرابیں موجودہ زمانے کی جرابوں کی طرح نہ تھیں موجودہ جرابیں اتنی باریک ہیں کہ ان سے پانی اور نظر گزر جاتی ہے اور اگر انسان اپنی انگلی پہنی ہوئی جراب پر رکھ دے تو جراب کے باریک ہونے کی وجہ سے بد ن اسکی حرارت کو محسوس کرتا ہے ۔پس پانی کے قدموں تک پہنچنے میں باریک جرابیں انتہائی کمزور مانع ہیں ان کو ان مونع کا درجہ اور حکم نہیں دیا جا سکتا جو چمڑے کی طرح سخت ا ورٹھوس ہیںیعنی موزے اور ثخین جرابیں ۔

حوالہ نمبر۳:

 شرح زاد المستقنع للشنقیطی ص ۱۴ ج ۱۰پر ہے:

  ’’الجوارب الخفیفۃ ہذہ لم تکن موجودۃ علی عہد النبی ﷺانما کانوا یلبسون الجوارب ویمشون بہا ولذلک کانوا یلقون الخرق علی اقدامہم ‘‘

              آج کی یہ باریک اور خفیف اور نرم جرابیں نبی پاک ﷺ کے زمانے میں موجود نہ تھیں ،عہد نبوت کے لوگ جرابیں پہنتے اور بغیر جوتی کے ان کے ساتھ چلتے یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے قدموں پر کپڑے کے ٹکڑے لپیٹ لیتے تھے ۔

حوالہ نمبر ۴:

شرح زاد المستنقع للشنقیطی ص ۱۴ج۱۰پر ہے :

              ’’فان الجوارب منزل منزلۃ الخف والخف صفیق ولا یمکن للجورب ان ینزل منزلۃ الخف الا بالثخانۃ والصفافۃ وعلی ہذا فانہ سیصح المسح علیہ کما نص العلماء اذا کان صفیقاً ثخیناً فا لذی یشف البشرۃ لایمسح علیہ لانہ غیر معروف علی عہد النبی ﷺ ومن قال بجوازہ بالقیاس ای یقول اقیس ہذا الشفاف  علی الجورب الموجود علی عہد النبی ﷺ فانہ یجاب عنہ ان المسح علی الجورب اذا کا ن شفافاً لا ینزل منزلۃ الثخینین لان الفرق بین الشفاف والثخین ظاہر ومن شرط صحۃ القیاس ان لایوجدالفارق  بین الاصل والفرع فالفرع خفیف والاصل ثخین ‘‘

              (جرابوں پر مسح کے جواز کے لئے )جرابوں کو موزوں کے حکم میں اتاراجاتاہے چونکہ موزے سخت اور موٹے ہوتے ہیں تو جرابیں موزوں جیسی تب ہونگی جب وہ سخت اور مو۔ٹی ہوں ۔پس وہ جرابیں جو باریک ہوں ان پر مسح نہیں کیا جاسکتا کیونکہ باریک جرابیں نبی پاک ﷺکے زمانے میں مروج نہ تھیں،اور جو شخص اس کے جواز کا قائل ہے وہ کہتا ہے کہ میں ان باریک جرابوں کو قیاس کرتا ہوں ان جرابوں پر جو نبی پاک ﷺ کے زمانے میں موجود تھیں ۔اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قیاس باطل ہے کیونکہ قیاس کے صحیح ہونے کے لئے شرط یہ ہے کہ اصل اور فرع کے درمیان فرق نہ ہو یہاں پر فرع باریک جرابیں ہیں اور اصل جس پر قیاس کیا گیا ہے وہ سخت اور موٹی جرابیں ہیں ۔(اس فرق کی وجہ سے یہ قیا س باطل ہے )

حوالہ نمبر۵:

شرح زاد المستنقع للشنقیطی ص۲۶۲ج۱۵پرہے:

’’وکان الموجود علی عہد النبی ﷺ ان الجوارب سمیکۃ فنزلت الجوارب السمیکۃ منزلۃ الخف لانہ مثلہ فی الوصف وقریب منہ حتی انہم ربما یواصلون علیہ المشی ولا یسترون اقدامہم ‘‘

نبی کریم ﷺ کے زمانے میں موجود جرابیں موٹی ہوتی تھیں اس لئے ان کو موزوں کا حکم دیا گیا کیونکہ وہ وصف میں موزوں کے برابر یا موزے کے قریب ہیں حتی کہ قدموں کو کسی اور چیز سے چھپائے بغیر وہ لوگ ان جرابوں میں لگاتار چلتے تھے۔

حوالہ نمبر۶:

دروس عمدۃ الفقہ للشنقیطی ص۲۹۴ج۱پرہے :

              ’’والسبب فی کون العلماء  یشترطون ان یکون الجورب کذلک  (ثخینۃ )لانہ لم یکن علی زمان النبی ﷺ الجوارب الرقیقۃ والشفافۃ موجودۃ ‘‘

              علماء نے جرابوں پر ثخین ہونے کی جو شرط لگائی ہے اس کا سبب یہ ہے کہ نبی پاک ﷺ کے زمانے میں باریک جرابوں کا وجود نہ تھا ۔

حوالہ نمبر۷:

فتاوی الشیخ ابن جبرین ص۱۱ج۱پر ہے :

              ’’اما الجوارب فہو فی الاصل ما ینسج من الصوف الغلیظ ویفصل  علی قدر القدم الی الساق ویثبت بنفسہ ولا ینعطف ولا ینکسر لمتانتہ وغلظہ فہو اذا لبس وقف علی الساق ولم ینکسر والعادۃ انہ لایخرقہ الماء لقوۃ نسجہ ویشبہ بیوت الشعر التی تنصب للسکنی ولا یخرقہا المطر فکذلک الجوارب فی ذلک الوقت حتی انہا لغلظہا یمکن موصلۃ المشی فیہا بدون نعل او کنادر ولا یخرقہا الماء ولا یتأثر من مشی بہا بالحجارۃ ولا بالشوک ولا بالرمضاء او البرودۃ ‘‘

              اصل جراب وہ ہے جس کی بنائی موٹے اون سے ہو اورپورے قدم کو پنڈلی تک چھپالے ۔سخت اور موٹے ہونے کی وجہ سے بغیر پکڑنے یا باندھنے کے از خود ٹکا رہے اور ٹوٹے نہیں ۔اور عادت یہ کہ مضبوط بنائی کی وجہ سے اس میں پانی ایک طرف سے دوسری طرف نہیں گزرتا اور بالوں کے ان خیموں کے مشابہ ہوتا ہے جنکو رہائش کے لئے لگایا جاتا ہے ۔او ر اس کو بارش پھاڑ کر نہیں گزر سکتی ۔اس زمانے میں جو جرابیں تھیں وہ اسی طرح سخت اور موٹی ہوتی تھیں حتی کہ ان کے موٹے اور سخت  ہونے کی وجہ سے بغیر جوتی اور سینڈل کے اس میں چلنا ممکن ہوتا اور اس سے پانی نہ گزرسکتا اور اس کو پہن کر چلنے والا پتھر،کانٹے اور گرمی سردی سے متأثر نہ ہوتا ۔ 

حوالہ نمبر۸:

فتاوی الشیخ ابن جبیرین ص۱۳ج۱پرہے:

شیخ ابن جبیرین نے پہلے یہ لکھاکہ امام احمد بن حنبل ؒ نے جرابوں پر مسح کے جواز میں ان آثار صحابہ پر اعتماد کیا ہے جن میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا جرابوں پر مسح کرنا مذکور ہے ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کس قسم کی جرابوں پر مسح کرتے تھے اس کی وضاحت میں شیخ ابن جبرین لکھتے ہیں کہ ’’قد ذکرنا ان الجوارب فی عہدہم کانت غلیظۃ قویۃ ‘‘ ہم ذکر کرچکے ہیں کہ عہد صحابہ میں جرابیں موٹی اور سخت ہوتی تھیں ۔

[6] قال الامام أبو حاتم الرازي :كان صدوقا, قال الخطيب البغدادي : كان أحد الْفُقَهَاء من أَصْحَاب الرَّأْي, قال الذهبي : (هو) العَلاَّمَةُ، الإِمَامُ، الفقيه، قال ايضا قي مقام اخر : وَكَانَ صَدُوْقاً، مَحْبُوباً إِلَى أَهْلِ الحَدِيْثِ.  (الجرح والتعديل: ج 8 : ص 145, غنية الملتمس : ص 403, سير أعلام النبلاء : ج 10 : ص 194, تاريخ الإسلام : ج 5 : ص 468)

[7]  قال الامام ابن عابدين شامي : (هو) شَيْخُنَا الْعَلَّامَةُ، الْمُحَقِّقُ، الشَّيْخُ، مُفْتِي الشَّامِ, قال خير الدين الزركلي : (هو) مفتي الحنفية في دمشق, كان فاضلا عالي الهمة، عاكفا على التدريس والإفادة, قال عبد الحي الكتاني : هو الشيخ، مفتي الحنفية بدمشق،  المحدث الكثير الحفظ والمرويات، ذكره محمد أمين الحموي الدمشقي في عُلَمَاء دمشق وقال شَيخنَا، مفتى الشَّام, قال ابن غزي : (هو) الشيخ، الإمام، العلامة، الفقيه، مفتي الحنفية, قال الشيخ عمر: (هو) فقيه، اصولي، محدث، مفسر، نحوي. (رد المحتار على الدر المختار : ج 1 : ص 33, الأعلام : ج 6 : ص 294, فهرس الفهارس : ج 1 : ص 347, خلاصة الأثر : ج 3 : ص 409, ديوان الإسلام : ج 2 : ص 165, معجم المؤلفين : ج 11 : ص 56)

 

[8] ان سب کے الفاظ یہ ہیں : قَالُوا: يَمْسَحُ عَلَى الجَوْرَبَيْنِ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ نَعْلَيْنِ إِذَا كَانَا ثَخِينَيْنِ۔

نوٹ :

               امام ترمذی ؒ نے تمام ائمہ کے فقہی اقوال کی سند علل کبیر میں بیان فرمائی ہے ،جوکہ ان تک پہنچتی ہے ۔جیسا کہ علی زئی صاحب مسئلہ فاتحہ خلف الامام ص:۲۹،۳۰پر لکھتے ہیں ۔

[9] قال حافظ عبد القادر القرشي (هو) الإِمَام الْكَبِير شمس الْأَئِمَّة صَاحب الْمَبْسُوط وَغَيره أحد الفحول الْأَئِمَّة الْكِبَار أَصْحَاب الْفُنُون كَانَ إِمَامًا عَلامَة حجَّة متكلما فَقِيها أصوليا مناظرا, قال أبو الحسن علي بن زيد البيهقي (هو) الإمام الزاهد شمس الأئمة, قال الذهبي : (هو) شمس الأئمة, قال حافظ قاسم بن قُطلُوبغا : كان عالمًا، أصوليًّا، مناظرًا, قال السمعاني : (هو) امام سرخس. (الجواهر المضية : ج2 : ص28, تاريخ بيهق / تعريب : ص 223, تذكرة الحفاظ : ج4 : ص 32, تاج التراجم : ص234, الأنساب : ج 2 : ص 405)

 

[10] ذكره الذهبي : (هو) الفقيه، المفتي، إمامٌ، عالم، مصنِّف, قَالَ ابن الفُوطي : (هو) شيخنا الامام،العالم، المحدّث الفقيه، القاضي, وكان واسع الرواية، موصوفا بالفهم والدراية، عارفا بالفروع والأصول، كثير المحفوظ, قال الامام المحدث أَبُو الْعَلَاء الفرضي في مُعْجم شُيُوخه : كَانَ شَيخا فَقِيها عَالما فَاضلا مدرسا عَارِفًا بِالْمذهبِ, قال الحافظ قاسم بن قُطلُوبغا : وكان فقيهًا عارفًا بالمذهب, قال ابن تغري : (هو) العلامة شيخ الإسلام مجد الدين أبو الفضل الموصلي, وقال ايضا في مقام اخر: قلت : أثنى على علمه، وغزير فضله، ودقيق نظره، وجودة فكره جماعة كثيرة، وكان إمام عصره، ووحيد دهره، وآخر من كان يرحل إليه من الآفاق، تفقه به جماعة من أعيان السادة الحنفية، وكان إماماً ورعاً، ديناً خيراً، مترفعاً على الملوك والأعيان، متواضعاً للفقراء والطلبة، وعنده مروءة وتعصب للفقراء، رحمه الله تعالى, قال الحافظ الدمياطي: (هو) الفقيه العلامة المفتي. (تاريخ الإسلام : ج 15 : ص 496, مجمع الآداب : ج 4 : ص 440, الجواهر المضية : ج 1 : ص 291, تاج التراجم : ص 177, المنهل الصافي : ج 7 : ص 124)

 

[11] نوٹ :

              اہل حدیث غیر مقلدین کے نزدیک محض بعض علماء کے ساتھ شافعی ،مالکی ،حنبلی اور حنفی وغیرہ لکھا ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ ان ائمہ کے مقلدین ہیں ۔چنانچہ اہل حدیثوں کے محدث زبیر علی زئی لکھتے ہیں کہ بعض علماء کے ساتھ شافعی ،مالکی ،حنبلی اور حنفی وغیرہ سابقوں یا لاحقوں کا یہ مطلب قطعا ً نہیں ہے کہ یہ علماء مقلدین کی صف میں شامل تھے ۔(جزء رفع الیدین ص: ۱۰،۱۱) ایک اور مقام پر تحریر کرتے ہیں کہ شافعی علماء یہ اعلان کرتے تھے کہ ہم شافعی علماء کے مقلد نہیں ہیں ،بلکہ ہماری رائے ان کی رائے کے موافق ہو گئی ہے اور عالم کیونکر مقلد ہو سکتا ہے ۔ (اختصار فی علوم الحدث مترجم ص: ۱۳) معلوم ہو اکہ علماء کے نام کے ساتھ محض حنفی ،شافعی ،مالکی یا حنبلی آنے سے ان کا مقلد ہونا غیر مقلدین کے نزدیک ثابت نہیں ہوتا ۔لہذا یہاں پر جتنے بھی فقہاء اور محدثین کے حوالے ذکر کئے گئے ہیں ،غیر مقلدین کے نزدیک یہ ان  ائمہ فقہاء اور محدثین کی تحقیق اور اجتہاد ہے ،نہ کہ ان کی مقلدانہ رائے ۔

[12]  جرابوں پر مسح فتاویٰ علماء عرب کی روشنی میں

(۱)         فتویٰ علامہ محمدمختار الشنقیطی:

              واما الجوارب غیر المنعلۃ فعلیٰ صورتین الصورۃ الاولیٰ : ان تکون ثخینۃ وھی التی لا تصف البشرۃ، والصورۃ الثانیۃ ان تکون خفیفۃ رقیقۃ ، فالجمھور علیٰ انہ لا یمسح علی الرقیق لانہ لم یکن موجوداً علیٰ عھد النبیﷺ ولان الذین قالوا: بجواز المسح علی الرقیق قاسوہ علی الجوارب الموجود علی عھد النبیﷺ ولما قاسوہ : قلنا: قیاس مع الفارق، لأن الرقیق لیس کالثخین، والسبب فی ھذا انہ حین ما کان من القماش ثخیناً شابہ الذی من الجلد فستر محل الفرض وتحقق بہ الاصل فجاز أن یمسح علیہ، ولما صار رقیقا یشف البشرۃ کان ھو والبشرۃ علی حد سوائ، ومن ھنا القول بجوازہ مبنی علی القیاس ، وجمھور العلماء علیٰ منع المسح علی الجوارب الخفیفۃ۔ 

بہرحال جراب غیر منعل کی دو صورتیں ہیں: پہلی صورت یہ ہے کہ وہ سخت اور موٹی ہو، یعنی وہ پاؤں کی ساخت کو ظاہر نہ کرے، دوسری صورت یہ ہے کہ جراب باریک ہو اور اس کی بنائی کمزور ہو، جمہور کے نزدیک اس باریک جراب پر مسح نہ کیا جائے کیونکہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں یہ موجود ہی نہ تھی، نیز اس لئے بھی کہ باریک جراب پر مسح کے جواز کا انہوں نے قیاس کیا ہے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں موجود جرابوں پر ، اور یہ قیاس قیاس مع الفارق ہے ، کیونکہ باریک جراب ٹھوس اور سخت جراب جیسی نہیں ہوتی وجہ فرق یہ ہے کہ سخت اور موٹی جراب اس موزے کے مشابہ ہوتی ہے جو چمڑے کا ہوتا ہے ،اس سے اصل حکم ( یعنی مسح علی الخفین) کا تحقق ہوجاتا ہے ، جبکہ باریک جراب پاؤں ، انگلیوں اور ہڈیوں کی ساخت کو اس طرح ظاہر کرتی ہے کہ بارک جراب اور پاؤں یکساں محسوس ہوتے ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ باریک جراب پر مسح کے جواز کی بنیاد قیاس پر ہے ، وہ قیاس مع الفارق ہے ، جوباطل ہوتا ہے ، اس کے مقابلہ میں جمہور کے نزدیک باریک جرابوں پر مسح ممنوع ہے۔(دروس عمدۃ الفقہ للشنقیطی: ص۲۹۴ج۱)

(۲)         فتویٰ علامہ محمد مختار الشنقیطی:

              ان اللہ فرض علی المسلم ان یغسل رجلیہ علی الأصل ، والنصوص فی ھذا واضحۃ، فلما جائتنا رخصۃ المسح علی الخفین بأحادیث متواترۃ، فانتقلنا من ھذا الاصل الی بدل علی وجہ تطمئن بہ النفوس، ثم لما کانت فی الجوارب الثخینۃ فی حکم ذلک الماذون بہٖ والمرخص بہٖ وھو الخف، قلنا: بأنہ أخذ حکم المسح علی الخفین، ولما کان الرقیق لیس فیہ شبہ بالخف، ولیس فیہ شبہۃ، ولذالک یقولﷺ صنفان من اھل النار لم أرھما نساء کاسیات عاریات، فجعل الذی یشف البدن کانہ غیر موجود کاسیات عاریات، قالوا : لأنہ یلبس لباساً رقیقا فی الظاہر ستر ولکنہ فی الحقیقۃ لیس بستر، فالرقیق وان کان ظاہرھ الستر صورۃ ولکنہ لیس بساترحقیقۃ، ومن ھنا الاشبہ مذھب جمھور العلماء وأئمۃ السلف انہ لایمسح الا علی الثخین۔

اللہ تعالیٰ نے اصل میں مسلمانوں پر پاؤں کا دھونا فرض کیا ہے ، اس بارے میں نصوص واضع ہیں پھر جب احادیثِ متواترہ کے ساتھ موزوں پر مسح کی رخصت آگئی تو ہم اس اصل حکم سے اس کے بدل کی طرف منتقل ہوگئے ، لیکن ایسے طریقے پر کہ جس کے ساتھ نفوس مطمئن ہوجاتے ہیں، اور چونکہ ثخین جرابیں ان موزوں کے حکم میں آتی ہیں جن پر مسح کی اجازت اور رخصت ہے تو ہم نے کہا کہ مسح علی الخفین کے جواز والا حکم اس پر جاری ہوگا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ باریک جرابیں نہ موزے کے حکم میں آتی ہیں اور نہ موزے کے مشابہ ہیں…اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ میری امت کی دو قسمیں دوزح میں ہوں گی جن کو میں نے نہیں دیکھا: وہ عورتیں جو کپڑا پہننے کے باوجود برہنہ بدن ہیں، پس نبی کریم ﷺ نے اس باریک اور تنگ وچست کپڑے کو جوبد ن کی ساخت کو ظاہر کردے کالعدم قرار دیا ہے ، اس لئے ان عورتوں کو ’’کاسیات عاریات‘‘ فرمایاہے ، اہلِ علم نے اس کی وجہ یہ بتلائی ہے کہ وہ عورتیں جو باریک کپڑا پہنتی ہیں بظاہر ستر بدن ہے لیکن حقیقت کے لحاظ سے ان میں ستر بدن نہیں ہے ، سو اسی طرح باریک جرابوں میں بھی صورۃً سترِ قدم ہے مگر حقیقت کے لحاظ سے ان میں سترِ قدم نہیں ہوتا (جبکہ جوازِ مسح کے لئے سترِ قدم شرط ہے ) اسی وجہ سے جمہور علماء اور ائمہ سلف کا مذہب یہ ہے کہ مسح نہ کیا جائے، مگر ثخین جرابوں پر ، اور ثخین جرابیں وہ ہیں جو قدم کی ساخت کو ظاہر نہ کریں اور (بغیر باندھنے کے ) پاؤں میں کھڑی رہیں۔(دروس عمدۃ الفقہ للشنقیطی:ص ۲۹۵ج۱)

(۳)        فتویٰ علامہ محمد مختار الشنقیطی:

              صفۃ الجوارب الذی یمسح علیہ:  واذا ثبت ھذا فلا بد فی الجوارب من أن یکون صفیقا، وعلیٰ ذلک کلمۃ جماھیر من یریٰ المسح علی الجوربین لأن الجوارب الخفیفۃ الشفافۃ ھذہٖ لم تکن موجودۃ علی عھد النبیﷺ انما کانوا یلبسون الجوارب ویمشون بھا، ولذلک کانوا یلفون الخرق علیٰ اقدامھم، وھذا یدل علیٰ ما اعتبرہ العلماء من اشتراط الصفاقۃ ای کونہ صفیقا ،وایضا فالنظر یقتضیہ فان الجوارب منزل منزلۃ الخف، والخف صفیق، ولا  یمکن للجوارب ان ینزل منزلۃ الخف الا بالشخانۃ والصفاقۃ، علیٰ ھذا فان یصح المسح علیہ ، کما نص العلماء اذا کان صفیقا ثخیناً، فالذی یشف البشرۃ لا یمسح علیہ لانہ غیر معروف علی عھد النبی ﷺ ومن قال بجوازہ بالقیاس، ای : یقول: أقیس ھذا الشفاف علی الجورب الموجود علیٰ عھد النبی ﷺ فانہ یجاب عنہ من وجھین: الوجہ الأول: ان القیاس علی ماھو خارج عن الأصل لا یطرد، ولذالک الاصل: غسل الرجلین، والمسح خلاف الأصل، فلا یطرد القیاس علی الرخص ، الوجہ الثانی: ان المسح علی الجورب اذا کان شفافا لا ینزل منزلۃ الثخین، لان الفرق بین الشفاف والثخین ظاھر، وھو (الشراب) الشفاف، خفیف، والاصل المقیس علیہ - وھو الجورب- ثخین، وانما جاز المسح علی الجورب الثخین لمشابھۃ الخفین، فیمنع فی الخفیف لعدم وجود وصف الاصل، وھو: کونہ ثخیناً، وعلیٰ ھذا فالذی نص علیہ من یقول بمشروعیۃ المسح علی الجوربین اشتراط کونہٖ صفیقا، کما نبّہ علیہ غیر واحد من الأئمۃ، منھم الامام ابن قدامۃؒ فی المغنی: وکذالک المتون المشھورۃ فی المذھب کالاقناع للحجاوی، والمنتھیٰ للنجار، کلھم نصّوا علی کونہ صفیقا اخراجا للشراب الخفیف الذی یمکن ان یصف البشرۃ او یکون غیر صفیق۔

جس جراب پر مسح کیا جاتا ہے اس کا بیان:

              جب جوربین پر مسح کا جواز ثابت ہوگیا تو یہ ضروری ہے کہ وہ جراب ثخین ہو مسح علی الجوربین کے جواز کے قائلین جمہور علماء کا قول بھی یہی ہے کیونکہ باریک اور کمزور بنائی والی جرابیں رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں موجود نہ تھیں، وہ ایسی جرابیں پہنتے تھے جن میں (بغیر جوتی کے) چلتے تھے، اسی وجہ سے وہ اپنے قدموں پر کپڑے کے ٹکڑے لپیٹ لیتے تھے، عہدِ نبوت میںجراب پر مسح کرنا اور باریک جراب کا عہدِ نبوت میں موجود نہ ہونا ان علماء کی دلیل ہے ، جنہوں نے جرابوں کی سخت اور موٹے ہونے کی شرط لگائی ہے ، اس کے مطابق جرابوں پر مسح کے جواز کے لئے شرط ہے کہ جراب ثخین ہو، پس وہ جراب جو باریک ہونے کی وجہ سے جسم کی ساخت کو ظاہر کردے اس پر مسح نہ کیا جائے گا، کیونکہ عہدِ نبوت میں یہ مروج اور معروف نہ تھی، اور جو لوگ باریک جرابوں پر جوازِ مسح کے قائل ہیں انہوںے باریک جرابو ں کا قیاس کیا ہے ، زمانہ نبوت میں موجود ثخین جرابوں پر اس قیاس کے دو جواب ہیں:  ایک یہ کہ جو حکم خلاف اصل ہو یعنی اصل حکم کے خلاف ہو اس پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہوتا زیر بحث مسئلہ میں غسلِ رجلین اصل ہے، اور مسح خلافِ اصل ہے ، اس لئے اس رخصت پر کسی دوسری چیز کا قیاس درست نہیں، دوسرا جواب: یہ ہے کہ رقیق جراب کو ثخین جراب کا درجہ و حکم نہیں دیا جاسکتا کیونکہ باریک جراب اور سخت موٹی جراب کے درمیان فرق واضح ہے ،اور قیاس تب صحیح ہوتاہے کہ اصل حکم میں اور جس کا قیاس کرنا ہے (یعنی فرع) اس میں فرق نہ ہو، یہاں پر فرع یعنی باریک جراب اس سے پانی اور نظر گذر جاتی ہے ، اور اس کی بنائی بھی کمزور ہوتی ہے، جب کہ اصل حکم یعنی ثخین جراب سے نہ پانی گذر سکتاہے ، نہ نظر ، پس باریک جراب کا ثخین جراب پر قیاس کیسے درست ہوسکتاہے؟ ، اسی وجہ سے جو علماء جرابوں پر مسح کی مشروعیت کے قائل ہیں انہوں نے اس مشروعیت کو جراب کے ثخین ہونے کے ساتھ مشروط کیاہے ، چنانچہ متعدد ائمہ مذہب نے اس کی صراحت کی ہے ،ان میں سے امام ابن قدامہ حنبلیؒ نے المغنی میں صراحت کی ہے ، اسی طرح مذہبِ حنبلی کے مشہور متون میں بھی اس شرط کی صراحت ہے جیسے الاقناع للحجاوی، المنتہیٰ للنجار، اور ثخین کی شرط لگانے کی غرض ان جرابوں کو جواز ِ مسح کے حکم سے نکالنا مقصود ہے جو باریک و خفیف ہونے کی وجہ سے قدم کی ساخت کوظاہر کرتی ہیں۔(شرح زاد المستقنع للشنقیطی:ص۱۰ج۱۴)

(۴)        فتویٰ علامہ محمد مختار الشنقیطی:

              اذا کانت الجوارب خفیفۃ وقد کان الموجود علیٰ عھد النبیﷺ ان الجوارب سمیکۃ، فنزلت الجوارب السمیکۃ منزلۃ الخف، لأنہ مثلہ فی الوصف ، وقریب منہ، حتی انھم ربما یواصلون علیہ المشی ولا یسترون اقدامھم حتیٰ انھم یلفون التساخین لاجل الوقایۃ من الحجارۃ ولا تکون کذالک اذا کانت رقیقۃ فاذا کان الأمر کذالک، فلو جاء أحد یقیس فقال مثلاً یجوز المسح علی الخفیف من الجوارب کما یجوزالمسح علی الخفین، فنقول: ھذا قیاس مع الفارق، لان الخف یمکن مواصلۃ المشی علیہ وھو ساتر للرجل، بخلاف ھذا الشفاف الرقیق، ولان الخف فی الاصل رخصۃ عُدِل بھا عن الاصل الذی ھو غسل الرجلین، وھذہ الرخصۃ ینبغی ان تتقید بما ورد وثبت فی السنۃ والمحفوظ فی زمان النبیﷺ ھو الخف والجوارب الثخین، ولذلک جاء فی روایۃ السنن (الجوارب المنعل) ای: الذی یکون فی اسفلہٖ جلد، فاذا ثبت ھذا، ثم اذا جاء احد یقیس -واعنی: عند من لایری المسح علی الخفیف- فنقول: ان ھذا قیاس مع الفارق ، لان الثخین فی حکم الخف، ولذالک جاز المسح علی الجوارب لانھا فی حکم الخفاف، فلا یجوز قیاس الخفیف علیھا، وھذا کلہ قیاس مع الفارق۔

شارح علامہ شقنیطیؒ سے پوچھا گیا : قیاس مع الفارق کا کیا معنیٰ ہے؟ موصوف نے تفصیل بتانے کے بعد فرمایا: قیاس مع الفارق قیاسِ فاسد کا نام ہے، پھر اس کی مثال پیش کی ہے کہ جب جرابیں باریک ہوں اور عہدِ رسالت مآب میں جو جرابیں موجود تھیں وہ ثخین یعنی سخت اور موٹی تھیں اس لئے وہ موزوں کے حکم میں آجاتی ہیں، کیونکہ وہ صفات میں موزوں کی مِثل ہیں یا موزوں کے قریب ہیں، حتی کہ وہ بسااوقات انہیں جرابوں میں لگاتار چلتے اور اپنے قدموں کو کسی اور چیز سے چھپا تے نہ تھے، اور بعض مرتبہ پتھروں سے بچنے کے لئے ان ثخین جرابوں پر کپڑے لپیٹ لیتے تھے، لیکن باریک جرابوں میں لگاتار چلناناممکن ہے، جب صورت حال یہ ہے تو اگر کوئی آئے اور وہ قیاس کرے اور وہ کہے کہ جیسے موزوں پر مسح جائز  ہے اسی طرح باریک جرابوں پر بھی جائز ہے تو ہم کہیں گے کہ یہ قیاس مع الفارق ہے ، کیونکہ موزوں میں لگاتار چلنا ممکن ہے ، اور وہ پاؤں کے لئے ساتر ہیں بخلاف خفیف اور باریک موزے کے کہ اس میں لگاتار چلنا ممکن نہیں اور نہ یہ پاؤں کو چھپاتاہے اور نیز حقیقت میں موزوں پر مسح رخصت ہے ، جس کی وجہ سے اصل حکم یعنی غسلِ رِجلین سے عُدول کیا گیا ہے اور یہ رُخصت مناسب ہے کہ اسی کے ساتھ مقید ہو جس کے متعلق یہ رخصت وارد ہوئی ہے، اور اس میں رخصت سنت سے ثابت ہے ، اور رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جو چیز محفوظ اور مروج تھی وہ موزے اور ثخین جراب تھی اسی وجہ سے سنن کی روایت میں ہے (الجورب المنعل) یعنی جس کے نیچے چمڑا لگا ہوا ہو، پس جب یہ ثابت ہوگا اب اگر کوئی آجائے اور وہ اس آدمی کے سامنے قیاس پیش کرے جو باریک اور خفیف جرابوں پر مسح کو جائز نہیں سمجھتا وہ کہے کہ میں رقیق جراب کا قیاس کرتا ہوں ثخین جراب پر، تو ہم کہیں گے کہ یہ قیاس ، قیاس مع الفارق ہے، کیونکہ ثخین جراب موزے کے حکم میں ہے ، اس لئے ثخین جرابوں پر موزے کا حکم جاری ہوگا اور ان پر مسح جائز ہے لیکن باریک و خفیف جرابیں موزوں کے حکم میں نہیں لہٰذا ان پر مسح جائز نہیں ہے، لہٰذا یہ قیاس باطل ہے۔ (شرح زاد المستقنع للشقنیطی: ص۲۶۲ج۱۵)

(۵)        فتویٰ علامہ محمد مختار الشنقیطی:

السؤال:          ماحکم المسح علی الجوارب التی نلبسھا الیوم، ولا تری البشرۃ من خلالھا، ولٰکن بلل الماء الممسوح ینفذ من خلال الجورب ویصل الی البشرۃ؟

الجواب:         المسح علی الجوربین سنۃ محفوظۃ عن رسول اللہ ﷺکما فی الحدیث الصحیح عن المغیرۃؒ ان النبیﷺ: توضأ ومسح علی الجوربین وھذا ھو أصح قولی العلمائ، لٰکن یشترط فی الجورب وھو الشراب ان یکون ثخیناً، وأما الرقیق فالصحیح انہ لا یمسح علیہ وھو مذھب جماھیر العلماء رحمھم اللہ تعالیٰ ، والدلیل لمن قال بجواز المسح علیہ ھو:القیاس علی الثخین، لانہ ماکان موجوداً علیٰ عھد النبیﷺ ، فقیس علی الثخین، والقیاس فی الرخص ضیق وضعیف، ھذا أوّلا، ثانیاً: ان ھذا القیاس مع الفارق، فان الرقیق اذا مسحتہ کأنک تمسح ظاہر القدم، ومذھب مسح ظاھر القدم یمکن ان یکون ارحم وافضل من مسح الرقیق، والثخین ینزل منزلۃ الخف، لان الخف من الجلد ساتر حافظ للقدم،وأما الرقیق فانہ لایستر ولا ینزل منزلۃ الجورب ولا منزلۃ الخف، وعلیٰ ھذا فالواجب علی المسلم ان یستبرأ لدینہ،وان یحتاط لدینہٖ، خاصۃً امرالصلاۃ، فان أمرھا عظیم، ومن ھنا قال الامام الحافظ ابن عبد البرؒ: ان اللہ فرض علینا غسل الرجلین بیقین، ولما جاء ت أحادیث الخفیفن متواترۃ صحیحۃ عن رسول اللہ ﷺعملنا بھا وانتقلنا الیٰ ھذہٖ الرخصۃ وعلیٰ ھذا فکذالک لماجاء تنا رخصۃ الجوربین نقول: انھا جاء تنا بحدیث صحیح بجوربین کانا ساترین لمحل الفرض، ولم تکن الجورب کھٰذہ الجوارب الموجودۃ الآن الشفافۃ الرقیقۃ، التی لو وضع الانسان اصبعہ لربما وجد حرارتہ علی بدنہ من رِقّتھا، فھی حوائل ضعیفۃ جداً، لا تنزل منزلۃ الحوائل الثخینۃ فی الجلد-کما فی الخف- ولا فی الجوربین ، ومن ھنا اشترط بعض العلماء ان یکون الجورب منعلاً، لان الروایۃ فی الجوربین المنعلین، کل ھذا تحقیقاً لمماثلۃ الجورب للخف حتی یکون أشبہ بالخف، وعلیہ فان لایجوز المسح الا علی شراب ثخین لا تری البشرۃ من ثخنہٖ، واللہ تعالیٰ أعلم۔ 

فضیلۃ الشیخ الامام شنقیطی سے سوال کیا گیا کہ آج کل جو ہم جرابیں پہنتے ہیں ان کے درمیان سے چمڑا نظر نہیں آتا لیکن پانی ان سے گذر کر چمڑے تک پہنچ جاتا ہے ، اس کے جواب میں شنقیطی صاحب لکھتے ہیں :

جرابوں پر مسح کرنا سنت ہے، جو رسول اللہ ﷺ سے محفوظ ہے ، جیسا کہ اس صحیح حدیث میں وارد ہے جو حضر ت مغیرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے وضوء کیا اور جرابوں پر مسح کیا ، علماء کے دو قولوں میں سے یہ قول زیادہ صحیح ہے ، لیکن جرابوں پر مسح کے جوا ز کے لئے جرابوں کا ثخین ہونا شرط ہے ، اور رقیق جرابوں پر صحیح بات یہ ہے کہ ان پر بھی مسح جائز نہیں ، جمہور علماء کا مذہب یہی ہے ، کیونکہ باریک جرابیں رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں موجود نہ تھیں، اور رقیقی جراب کے ثخین جراب پر قیاس کرنے کے دو جواب ہیں: (۱) رخصت والے امور پر قیاس کا دائرہ بہت تنگ ہے، اور ایسا قیاس بہت ہی کمزور ہے، (۲) دوسراجواب یہ ہے کہ یہ قیاس، قیاس مع الفارق ہے کیونکہ رقیق جراب پر مسح کرنا ایسا ہے جیسا کہ ظاہرِ قدم پر مسح کرنا اور عین ممکن ہے کہ ظاہرِ قدم پر (مسح کرنے والا مذہب رافضیہ امامیہ کا تمہارے نزدیک) رقیق جراب پر مسح کرنے سے افضل اور زیادہ رحمت بھرا ہو(کیونکہ اس میں زیادہ سہولت ہے) ہاںالبتہ ثخین جراب کو موزے کا حکم دیا جائے گا، کیونکہ موزہ چمڑے کا ہوتا ہے جو قدم کو چھپاتا ہے اور اس کی حفاظت کرتاہے ، جب کہ رقیق جراب پاؤں کو نہیں چھپاتی اس لئے نہ اس کو ثخین جراب کا حکم دیا جاسکتا ہے نہ موزے کا، بناء بریں ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے دین کے بارے میں احتیاط کرے، خصوصاً نماز کے بارے میں کیونکہ نماز کا معاملہ بہت ہی اہم ہے ، اسی وجہ سے حافظ ابن عبد البرؒ نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر یقینی اور قطعی طور پر پاؤں کا دھونا فرض کیا ہے، اور جب موزوں پر مسح کی احادیثِ متواترہ صحیحہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے آگئیں ، تو ہم نے ان پر عمل کیا اور اس رخصت کی طرح منتقل ہوگئے اور اسی طرح جب ہمارے پاس جرابوں پر مسح کی رخصت آئی تو ہم کہتے ہیں کہ یہ رخصت ہمارے پاس صحیح حدیث کے ساتھ آئی ہے ، لیکن ایسی جرابوں کے بارے میں جو پاؤں کے محلِ فرض (یعنی ٹخنوں سمیت پورے پاؤں) کو ڈھانپ لیں اور موجودہ زمانہ کی باریک جرابیں جو پانی کو جذب کرتی ہیں یہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے کی سخت ، موٹی اور پاؤں کو چھپانے والی جرابوں جیسی نہیں، موجودہ جرابیں تو ایسی ہیں کہ اگر انسان پر اپنی انگلی رکھ دے تو وہ اپنی انگلی کی حرارت کو جراب کے باریک و خفیف ہونے کی وجہ سے محسوس کرے گا، پس پانی اور قدم کے درمیان حائل ہونے والی یہ جرابیں کمزور ہیں ، ان کو ان حائل ہونے والی چیزوں کا درجہ نہیں دیا جاسکتا، جو چمڑے کی طرح ٹھوس اور سخت ہیں، جیسے موزہ اور ثخین جرابیں اس لئے ان باریک جرابوں کو نہ موزے کا حکم دے سکتے ہیں ، اور نہ ثخین جرابوں کے درجے میں رکھ سکتے ہیں ، اسی وجہ سے بعض علماء نے جراب کا منعل ہونا شرط کیا ہے، کیونکہ حدیث منعل جرابوں کے بارے میں وارد ہوئی ہے ، یہ سب کچھ جراب کی موزے کے ساتھ مماثلت ثابت کرنے کے لئے ہے ، تاکہ جراب کی موزے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مشابہت ہوجائے پس اس کے مطابق مسح صرف اور صرف ان جرابوں پر جائز ہے جو ثخین ہوں ، اور ان کے نیچے پاؤں کی انگلیوں وغیرہ کی ساخت نظر نہ آئے۔(شرح زاد المستقنع للشقنیطی:ص۳۵۶ج۲۴)

(۶)         فتوی وہبہ زحیلی:

              قال ابوحنیفۃ:لایجوز المسح علی الجوربین ،الا ان یکونا مجلدین او منعلین لان الجورب لیس فی معنی الخف لانہ لا یمکن مواظبۃ المشی فیہ الا اذاکان منعلا ً وہو محمل الحدیث المجیز للمسح علی الجورب ،الا انہ رجع الی قول الصاحبین فی آخر عمرہ ،وبہ  تبین ان المفتی بہ عند الحنفیۃ :جواز المسح علی الجوربین الثخینین ،بحیث یمشی علیہما فرسخا ًفأکثر ،ویثبت علی الساق بنفسہ ،ولا یری ما تحتہ ولا یشف ۔۔۔۔۔۔وأجا ز الشافعیۃ المسح علی الجورب بشرطین :أحدہما أن یکون صفیقاًلا یشف بحیث یمکن متابعۃ المشی علیہ ،والثانی أن یکون منعلاً فان اختل أحد الشرطین لم یجز المسح علیہ لانہ لایمکن متابعۃ المشی علیہ حینئذ واباح الحنابلۃ المسح علی الجورب بالشرطین المذکورین فی الخف ،وہما :الاول :ان یکون صفیقاًلا یبدو منہ شیٔ من القدم ،الثانی :ان یمکن متابعۃ المشی فیہ ،وان یثبت بنفسہ ۔۔۔۔۔۔والراجح رأی الحنابلۃ لاستنادہ لفعل الصحابۃ والتابعین ،ولما ثبت عن النبی ﷺ فی حدیث المغیرۃ ،وہو الرأی المفتی بہ عند الحنفیۃ ۔   

امام ابو حنیفہ ؒ نے کہا ہے کہ جرابوں پر مسح جائزنہیں ،الا یہ کہ وہ مجلد یا منعل ہوں کیونکہ جراب موزہ کے حکم میں نہیں آتی اس لئے کہ جرابوں میں (بغیر جوتی کے )لگاتار چلنا ممکن نہیں ہے  ہاں اگر منعل ہوں تو چلنا ممکن ہے اور حدیث جورب کا محمل بھی یہی ہے (یعنی جورب منعل ہوں ) مگر امام ابوحنیفہ ؒ نے اخیر عمر میں صاحبین (امام ابو یوسف ؒ اور امام احمد ؒ )کے قول کی طرف رجوع کر لیا تھا اورا مام ابو یوسف ااورامام احمد رحمہما اللہ نے کہا ہے کہ ثخین جرابوں پر مسح جائز ہے اورمذہب حنفی میں فتوی اسی جواز والے قول پر ہے ،بشرطیکہ وہ ثخین ہوں اور ان سے پانی نہ گزر سکے اور ان سے نظر نہ گزر سکے،کیونکہ جب جرابیں ثخین ہوں تو ان میں چلنا ممکن ہے اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حنفیہ کے نزدیک مفتی بہ قول یہ ہے کہ ثخین جرابوں پر مسح جائز ہے ۔اور ثخین کی ایک علامت یہ ہے کہ ان میں تین میل یا اس سے زیادہ چل سکیں اور وہ بغیر پکڑنے یا باندھنے کے پنڈلی پر کھڑی رہیں اور اس سے نظر آگے نہ گزر سکے نہ وہ پانی کو جذب کریں ،اور شافعیہ نے دو شرطوں کے ساتھ جرابوں پر مسح کو جائز قرار دیا ہے ۔ایک یہ کہ وہ جرابیں اتنی سخت اور ٹھوس ہوں کہ ان میں (بغیر جوتی کے )چلنا ممکن ہو ،دوسری یہ کہ وہ منعل ہوں پس اگر ان میں سے ایک شرط بھی نہ پائی گئی تو اس پر مسح جائز نہیں کیونکہ اس میں لگاتار چلنا ممکن نہیں ،اور حنابلہ کے نزدیک بھی جرابوں پر مسح جائز ہے ،لیکن اس کے لئے ان کے یہاں دو شرطیں ہیں ۔ایک یہ کہ وہ جرابیں سخت اور موٹی ہوں دوسری یہ کہ ان میں (بغیر جوتی کے )چلنا ممکن ہو اور پنڈلی پر بغیر پکڑنے اور باندھنے کے کھڑی رہیں ،ان میں سے حنبلیوں کا مذہب راجح ہے کیونکہ صحابہ اور تابعین نے ثخین جرابو ں پر مسح کیا ہے ،اور حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جرابوں پو مسح کیا ہے، حنفیہ کا مفتی بہ قول بھی یہی ہے ۔(الفقہ الاسلامی وأدلتہ ص۴۳۸،۴۳۹،۴۴۰ج۱)

(۷)        فتوی الشیخ عبدالرحمن الجزیری:

              ویقال لغیر المتخذ من الجلد جورب، وھو الشراب المعروف عند العامۃ ولایقال للشراب، خف، الا اذا تحققت فیہ ثلاثۃ امور: أحدھا ان یکون ثخیناً یمنع من وصول الماء الی ما تحتہ، ثانیھا: ان یثبت علی القدمین بنفسہٖ من غیر رباط، ثالثھا: ان لا یکون شفافا یریٰ ما تحتہ من القدمین أو من ساتر آخر فوقھما، فلو لبس شرابا ثخیناً یثبت علی القدم بنفسہٖ ولٰکنہ مصنوع من مادۃ شفافۃ یریٰ ما تحتھا فانہ لا یسمیٰ خفاً ولا یعطی حکم الخف فمتیٰ تحققت فی الجوارب ھذہٖ الشروط کان خفاً کالمصنوع من الجلد بلا فرق ولا یشترط ان یکون لہ نعل وبذلک نعلم ان - الشراب- الثخین المصنوع من الصوف یعطیٰ حکم الخف الشرعی اذا تحققت فیہ الشروط الآتی بیانہ۔ 

پاؤں کے لئے چمڑے کے علاوہ کسی دوسری چیز سے جو بنایا جائے اسے جورب کہتے ہیں، جس کو عرف عرب میں شراب کہا جاتا ہے، یعنی جراب اور جراب کو خف نہیں کہا جاتا لیکن جب اس میں تین شرطیں ہوں تو وہ خف شمار ہوتاہے، (۱) وہ جراب ثخین ہو یعنی اتنی سخت اور موٹی ہو کہ ایک طرف سے دوسری طرف پانی نہ گذر سکے  (۲) قدموں پر بغیر باندھنے کے از خود کھڑی رہے (۳) اس سے نظر نہ گذر سکے ، یعنی اس سے نیچے قدم نظر نہ آئے، پس جب جراب میں یہ تین شرطیں پوری ہوں تو وہ جراب بغیر کسی فرق کے چمڑے کے موزے کی طرح ہے ، اور ا س کا منعل ہونا بھی شرط نہیں ہے اس معلوم ہوا کہ اون سے تیار شدہ جراب میں جب یہ تین شرطیں محقق ہوجائیں تو وہ شرعی طور پر خف کے حکم میں آجاتی ہے۔(الفقہ علی المذھب الأربعۃ: ج۱ص۱۲۰)

(۸)        فتویٰ مؤلف کتبِ فقہ:

              ویمسح علیٰ ما یقوم مقام الخفین: فیجوز المسح علی الجورب الصفیق الذی یستر الرجل من صوف أو غیرہ۔ 

اور اس چیز پر مسح کیا جائے گا جو موزوں کے قائم مقام ہو، پس اون وغیرہ کی سخت اور ٹھوس جراب جو پاؤں کو چھپائے اس پر مسح جائز ہے۔(کتب الفقہ: ج۲ص۲۳)

(۹)         فتویٰ مفتی احمد الہریدی مفتی الدیار المصریہ:

              یجوز المسح علی الجوربین شرعاً، لأی شخص کان سلیماً أو مریضا، بشرط أن یکون ثخینین لا یشفان المائ۔

شرعی طور پر ہر شخص کے لئے جرابوں پر مسح کرنا جائز ہے ، خواہ تندرست ہو یا بیمار بشرطیکہ وہ جرابیںاتنی سخت اور ٹھوس ہوں کہ پانی کو جذب نہ کریں۔ (فتاوی الأزھر:ج۱ص۳۷)

(۱۰)       فتویٰ مفتی محمد خاطر:

              یجوز المسح علی الجورب اذا کان ثخیناً یمنع وصول الماء الی ماتحتہ وان یثبت علی القدمین بنفسہٖ من غیر رباطٍ والا یکون شفافاً یریٰ ما تحتہ من القدمین۔

ایسی جرابوں پر مسح جائز ہے جو اتنی سخت اور موٹی ہوں کہ پانی اس سے نیچے نہ گذر سکے اور بغیر باندھنے کے پاؤں پر کھڑی رہیں اور اس سے نیچے پاؤں کی انگلیوں کی ساخت نظر نہ آئے۔(فتاویٰ الأزہر:ج۱ص۸۶)

(۱۱)        فتویٰ الشیخ عبداللہ بن محمد بن احمد الطیار:

              ذکر بعض الفقھاء ان من شروط المسح علی الجورب کونہ صفیقاً ساتراً، فان کان شفافاً یریٰ من ورائہ البشرۃ فلا یجوز المسح علیہ وھذا الذی یراہ شیخنا ابن باز ؒ۔

بعض فقہاء نے ذکر کیا ہے کہ جرابوں پر مسح کی شرطوں میں سے ایک شرط یہ ہے کہ جراب سخت اور موٹی ہو اور پاؤں کے محلِ فرض کو چھپادے، پس اگر اس سے نظردوسری طرف گذر جائے اور اس سے پاؤں کی انگلیوں وغیرہ کی ساخت معلوم ہوجائے تو ان پر مسح جائز نہیں ، اور یہی ہمارے شیخ ابن بازؒ کی رائے ہے۔(فتاوی الحج:ص۱۲ج۸)

(۱۲)        فتوی الشیخ عبد العزیز ابن باز:

س:     ماھی الشروط التی یجب علی المسلم مراعاتھا عند المسح علی الجوربین ؟

ج:      لا بد من ان یکونا ساترین -صفیقین-

س:          وہ کون سی شرطیں ہیں جن کی جرابوں پر مسح کے وقت مسلمان کے لئے رعایت کرنا ضروری ہے؟

ج:          یہ ہے کہ وہ جرابیں پاؤں کے محلِ فرض کو چھپالیں نیز وہ سخت اور ٹھوس ہوں۔(فتاوی الشیخ ابن باز ، فی المسح علی الخفین: ج۱ص۴)

(۱۳)       فتوی الشیخ عبد العزیز ابن باز:

س :      قرأت عن مشروعیۃ المسح علی الخفین، فما ھو وصف الخف، وھل ینطبق ذلک علی الجورب حتی ولو کان رقیقاً؟

ج:      الخف ما یتخذ من الجلد للرجلین یستر الرجلین، ھذا خف یسترالقدم والکعبین ھذا یقال لہ خف، والجورب حکمہ حکم الخف، اذا کان الجورب من صوف أو غیرھا ساتراً للقدمین فانہ یمسح علیہ کالخف، بشرط ان یکون ساتراً أما ان کان شفافاً لا یستر فلا یمسح علیہ، لا بد ان الجورب ساتراً کالخف للرجل للقدم والکعبین۔

س:         میں نے موزوں پر مسح کی مشروعیت کے بارے میں پڑھا ہے موزوں کی وصف کیا ہے اور کیا وہ وصف باریک جرابوں پر منطبق ہوتی ہے؟

ج:          خف وہ ہے جو چمڑے سے پاؤں کے لئے بنایا جائے اور وہ دونوں پاؤں چھپالے یعنی قدم اور دونوں ٹخنے چھپالے اس کو موزہ کہا جاتا ہے اور اونی جراب کاحکم موزوں جیسا ہے بشرطیکہ وہ موزوں کی مثل قدم اور ٹخنوں کو چھپالے اور اگر اتنا باریک ہوکہ اس سے نظر گذر جائے تو ان پر مسح نہ کیا جائے۔ (فتاوی الشیخ ابن باز فی المسح علی الخفین:ص:۵ج۱)

(۱۴)       فتوی الشیخ عبدالعزیز ابن باز:

س:     ماالحکم فی المسح علی الجورب ’’الشراب‘‘ الشفافۃ ؟

ج:      من شرط المسح علی الجورب ان یکون صفیقاً ساتراً، فان کان شفافاً لم یجز المسح علیہ، لان القدم والحال ما ذکر فی حکم المکشوفۃ۔ 

س:          باریک جراب پر مسح کا حکم کیا ہے؟

ج:          جراب پر مسح کی شرائط میں سے یہ ہے کہ وہ سخت اور ٹھوس ہو اور پاؤں کو چھپالے ، پس اگر شفاف ہو یعنی اس سے پانی اور نظر گذر جائے تو اس پر مسح جائز نہیں کیونکہ رقیق جراب والی حالت کھلے پاؤں کے حکم میں ہے۔(فتاوی الشیخ ابن باز فی المسح علیٰ الخفین:ص۷ج۱)

(۱۵)       فتوی الشیخ عبد العزیز ابن باز:

س:     اختلف العلماء فی حکم المسح علی الجوارب الرقیقۃ، فما ھو الصحیح وما الدلیل علی عدم جواز المسح ؟

ج:      الصواب ان المسح یکون علی الساتر، الساتر الذی یستر القدمین لان اللہ تعالیٰ اباح لنا المسح علی الخفین رحمۃً لنا، فاذا کان الخفان غیر ساترین لم یحصل المقصود، الاقدام-ظاھرۃ والظاھر حکمہ الغسل، والنبی ﷺ- مسح ھو والصحابہ علی خفین ساترین، فالواجب التأسی بھم لانھم مسحوا علی اخفاف وعلیٰ جوارب ساترہٖ، فلا یجوز ان یمسح علی جوارب أو اخفاف غیر ساترہ۔ 

س:         شیخ عبدالعزیز بن بازؒ سے سوال کیا گیا کہ باریک جرابوں پر مسح کے حکم میں علماء کا اختلاف ہے، صحیح کیا ہے، اور باریک جرابوں پر مسح کے عدمِ جواز پر دلیل کیا ہے؟

ج:          شیخ نے اس کے جواب میں فرمایا:  درست بات یہ ہے کہ مسح اس چیز پر جائز ہے جو دونوں پاؤں کو چھپالے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ہمارے لئے موزوں پر مسح کرنا جائز کیا ہے ، اور جب موزے پاؤں کو نہ چھپائیں تو مقصود حاصل نہیں ہوتا اور ان سے قدم ( کی ساخت) ظاہر ہوجاتی ہے اور قدم ظاہر ہوتو اس کا حکم غسلِ رجلین ہے، نبی کریم ﷺ اور اصحاب النبی ﷺ نے ایسے موزوں پر مسح کیا ہے ، جوقدموں ( کی ساخت) کو چھپاتے تھے ، پس ان کے عمل کو اسوہ بنانا واجب ہے، اور انہوں نے مسح کیا ہے موزوں پر اور ایسی جرابوں پر جو (پاؤں کی ساخت کو) چھپا لیتی تھیں پس ایسے موزے اور ایسی جرابیں جو پاؤں (کی ساخت) کو نہ چھپائیں ان پر مسح کرنا جائز نہیں۔(فتاوی الشیخ ابن باز فی المسح علی الخفین: ج۱ص۸)

(۱۶)       فتوی الشیخ عبدا للہ بن جبرین:

السوال: ماالفرق بین الخف والجورب؟

الجواب:         الفرق بینھما فی الصفۃ ظاھر، فان الخف ھو ما یعمل من الجلود ، فیفصل علی قدر القدم، … ویلحق بہ ایضاً ما یصنع من الربل یحصل بھا المقصود من الستر والتدفئۃ، سواء سمیت کنادر، وبسطاراً، او جزمۃ أو غیرذلک، ویدخل فی الخف ما یسمیٰ بالموق والجرموق ونحوذلک، ویثبت بنفسہٖ ویلبس للتدفئۃ، اما الجورب، فھو فی الاصل ما ینسج من الصوف الغلیظ ویفصل علی قدر القدم الی الساق، ویثبت بنفسہٖ ولا ینعطف ولا ینکسر لمتانتہ وغلظہٖ، فھو اذا لبس وقف علی الساق ولم ینکسر، والعادۃ انہ لا یخرقہ الماء لقوۃ نسجہٖ، ویشبہ بیوت الشعر التی تنصب للسکنیٰ ولا یخرقھا المطر، فکذلک الجوارب فی ذلک الوقت، حتیٰ انھا لغلظھا یمکن مواصلۃ المشی فیھا بدون نعلٍ أو کنادر، ولا یخرقھا المائ، ولا یتأثر من مشیٰ بھا بالحجارۃ ولا بالشوک ولا بالرمضاء أو البرودۃ۔

              واختلف : ھل یشترط ان تنعل، ای یجعل فی موطنھا نعل أی جلد غنم او ابل یخرز فی اسفلھا، فاشترط ذلک بعض العلماء الذین اجازوا المسح علی الجوارب، قال الموفق: فی ’’المعلیٰ‘‘ وقال ابو حنیفہ ومالک والأوزاعی والشافعی: لا یجوز المسح علیھما الا أن ینعلا، لأنھما لایمکن متابعۃ المشی فیھما، فلم یجز المسح علیھما کالرقیقتین۔انتھی۔

         وقال الدردیر فی ’’الشرح الصغیر‘‘ ومثل الخف الجورب، : بشرط جلد طاھر خرز وستر محل الفرض، وامکن المشی فیہ عادۃ بلا حائل۔

         وقد تبین من ھذہ النقول ونحوھا ان الجورب لابد ان یکون صیفقاً یمکن المشی فیہ وحدۃ، وقد اعتمد الامام احمد فی اباحۃ المسح علی الجوارب ونحوھا علی ما روی عن الصحابۃ، فقد ذکر ابوداؤد تسعۃ من الصحابۃ مسحوا علیھا، وزاد الزرکشی اربعۃ، ای ثلاثۃ عشر صحابیا، ولکن قد ذکرنا ان الجوارب فی عھدھم کانت غلیظۃ قویۃ، ولھذا قال الخرقی فی ’’المختصر‘‘ وکذالک الجورب الصفیق الذی لا یسقط اذا مشیٰ فیہ، قال فی المغنی: انما یجوز المسح علی الجورب بالشرطین اللذین ذکرناھما فی الخف، احدھما ان یکون صفیقاً لا یبدو منہ شئی من القدم، الثانی: ان یکون المشی فیہ، قال احمد فی المسح علی الجوربین بغیر نعل اذا کان یمشی علیھما ویثبتان فی رجلیہ، فلا باس، وفی موضع قال: یمسح علیھما اذا ثبتا فی العقب، وفی موضع قال: ان کان یمشی فیہ، فلا ینثنی، فلاباس بالمسح علیہ،فانہ اذا انثنی ظھر موضع الوضوئ، ولا یعتبر ان یکونا مجلدین۔

         ثم ذکر ان المسح علیھما عمدتہ فعل الصحابۃ، وثم یظھر لھم مخالف فی عصرھم ، فکان اجماعاً، ولانہ ساتر لمحل الفرض۔

         وحیث ان الخلاف فی المسح علی الجوارب قوی، حیث منعہ اکثرھم، واشترط بعضھم ان یکون مجلداً، ای فی اسفلہ من ادمٍ مربوطۃٍ فیہ لا تفارقہ، وکذا اشترط الباقون ان یکون صفیقاً یمکن المشی فیہ بلانعل اوجزمۃ، وان یکون صفیقاً لا یخرقہ المائ، فان ھذا کلہ مما یؤکد علیٰ من لبسہ الاحتیاط وعدم التساھل، فقد ظھرت جوارب منسوجۃ من صوف أو قطن أو کتان،وکثر استعمالھا، ولبسھا الکثیرون بلا شروط، رغم انھا یخرقھا المائ، وانھا تمثل حجم الرجل والاصابع، ولبست منعلۃ، ولا یمکن المشی فیھا، بل لا یواصل فیھا المشی الطویل الا بنعل منفصلۃً أو بکنادر أو جزمۃ فوقھا، وھکذا تساھلوا فی لبس جوارب شفافۃ قد تصف البشرۃ، ویمکن تمییز الاصابع والاظافر من ورائھا، ولا شک ان ھذا الفعل تفریط فی الطھارۃ یبطلھا عند کثیر من العلمائ، حتیٰ من اجازوا المسح علی الجوارب، حیث اشترطوا صفاقتھا وغلظھا، واشترط اکثرھم ان تکون مجلدۃ أو یمکن المشی فیھا۔ 

سوال:      شیخ عبداللہ بن جبرین سے سوال کیا گیا کہ موزے اورجورب کے درمیان کیا فرق ہے ؟

جواب:    شیخ نے اس کے جواب میں فرمایا :ان کے درمیان حقیقت اور بناوٹ کے لحاظ سے تو فرق ظاہر ہے ، وہ یہ ہے کہ موزہ چمڑے سے بنایا جاتاہے، اور وہ ٹخنوں اور قدم کو چھپا لیتا ہے (یعنی اس میں انگلیوں اور قدم کی ہڈی اور ٹخنوں کی ساخت جداجدا ظاہر نہیں ہوتی) اور جو چیزیں چمڑے جیسے مواد سے بنائی جاتی ہیں جیسے ربڑ وغیرہ ان کے ساتھ قدم کے محل فرض کو چھپانے اور گرمائش حاصل کرنے والا مقصد بھی حاصل ہوجاتا ہے ان کو بھی موزے کے ساتھ لاحق کیا جائے گا خواہ ان کا نام کچھ اور ہو جیسے کنادر (بوٹ) بسطار (فوجی بوٹ) جذمہ (جوگر) موق، جرموق وغیرہ، جب کہ وہ قدم اور پنڈلی پر بغیر پکڑنے اور باندھنے کے کھڑی رہیں اور بغیر جوتی کے چلیں تو وہ پاؤں سے نہ گریں۔

جورب (۱) موٹے اون سے بنائے جاتے ہیں (۲) پورے قدم کو پنڈلی تک چھپالیتے ہیں، (۳) وہ سخت اور موٹے ہونے کی وجہ سے بغیر پکڑنے اور باندھنے کے از خود سیدھے کھڑے رہتے ہیں، نہ وہ ٹیڑھے ہوتے ہیں نہ ٹوٹتے ہیں، پس جب وہ پہنے جاتے ہیں تو پنڈلی پر سیدھے کھڑے رہتے ہیں ٹوٹتے و مڑتے نہیں، (۴) بنائی کے ٹھوس اور مضبوط ہونے کی وجہ سے ان سے پانی نہیں گذر سکتا وہ بالوں کے ان خیموں کے مشابہ ہوتے ہیں جو رہائش کے لئے نصب کئے جاتے ہیں اور بارش ان سے نہیں گذر سکتی (۵) بغیر جوتی اور بغیربوٹ کے ان میں لگاتار چلا جاسکتاہے ، اور جورب پہن کر چلنے والا پتھر، کانٹے اور گرمی، سردی کی تکلیف سے متأثر نہیں ہوتا، فکذالک الجوارب فی ذالک الوقت، رسول اللہ ﷺ کے زمانے میںیہی جورب تھے۔

جورب کا شرعی حکم:

              جورب پر مسح کے جواز کے لئے جورب کا منعل ہونا شرط ہے یا نہیں ؟

              بعض علماء کے نزدیک شرط ہے امام موفق ، ابن قدامہؒ نے المغنی میں فرمایا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ امام مالکؒ امام اوزاعیؒ اور امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ جرابوں پر مسح تب جائز ہے ، جب وہ منعل ہوں کیونکہ ان ثخین جرابوں میں لگاتار چلنا ممکن نہیں، لہٰذا ان پر رقیق جرابوں کی طرح مسح کرنا جائز نہیں، اور محقق دردیرؒ شرح صغیر میں فرماتے ہیں:  اور موزے کی طرح جراب کا حکم ہے، بشرطیکہ اس پر چمڑا چڑھا ہوا ہو، وہ پاک ہو، سلی ہوئی ہو اور محلِ فرض کو چھپالے اور اس میں بغیر کسی حائل (جوتی وغیرہ) کے عادۃً چلنا ممکن ہو، ان نقول  سے اور ان جیسی دوسری نقول سے ظاہر ہوگیا کہ جراب اتنی قوی اور مضبوط ہو کہ بغیر جوتی کے فقط ان میں چلنا ممکن ہو اور تحقیق امام احمدؒ نے جرابوں پر مسح کے جواز میں ان آثار پر اعتماد کیا ہے ، جن میں صحابہؓ کے جرابوں پر مسح کرنے کا ذکر ہے ، ابو داؤدؒ نے نو صحابہؓ کا ذکر کیا ہے ، زرکشیؒ نے اس پر چار کا اضافہ کیا ہے، توکل صحابہ تیرہ ہوگئے ،  لیکن ہم نے یہ ذکر کر دیا ہے کہ صحابہؓ کے زمانے میں جرابیں موٹی اور سخت و مضبوط ہوتی تھیں اسی وجہ سے خرقیؒ نے ’’مختصر‘‘ میں کہا ہے کہ موزے کی طرح اس جراب پر بھی مسح جائز ہے جو اتنی سخت اور موٹی اور مضبوط ہو کہ (بغیر جوتی کے) اس میں چلیں تو وہ نہ گریں، اور ’’المغنی‘‘ لابن قدامہؒ میں ہے کہ جرابوں پر مسح ان دوشرطوں کے ساتھ جائز ہے جن کا ہم نے موزے کے بیان میں ذکر کیا ہے، ایک یہ کہ وہ جراب اس قدر موٹی اورسخت ہو کہ قدم کا کوئی حصہ اس کے ساتھ ظاہر نہ وہ، دوسری یہ کہ اس میں (بغیرجوتی کے ) لگاتار چلنا ممکن ہو، امام احمدؒ نے غیر منعل جراب کے متعلق فرمایا کہ جب (بغیر جوتی کے) ان میں چلیں اور وہ پاؤں میںثابت رہیں، گرے نہیں تو ان پر مسح کرنے میں کوئی حرج نہیں، ایک اور موقع پر امام احمدؒ نے فرمایا جرابوں پر تب مسح کیا جائے گا جب وہ چلنے میں ایڑی میں ثابت رہیں ایک مرتبہ فرمایا: کہ جب چلنے میں جراب نہ مڑیں تو اس پرمسح کرنے میںکوئی حرج نہیں، کیونکہ جب وہ مڑیں گی تو وضو کی جگہ ظاہر ہوجائے گی اور اس کے مجلد ہونے کا اعتبار نہیں کیاجائے گا، پھرامام احمدؒ نے ذکر فرمایا کہ جرابوں پر مسح کی بنیاد صحابہؓ کا عمل ہے اور ان کے زمانہ میں کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی لہٰذا اس کے جواز پر اجماع ہوگیا اور اس لئے بھی جائز ہے کہ یہ محلِ فرض کے لئے ساتر ہے جب جرابوںکے مسئلہ میں شدید اختلاف  ہے (۱) اکثر اہلِ علم نے اس کو ممنوع قرار دیا ہے ، (۲) بعض (امام شافعیؒ) نے یہ شرط لگائی کہ اس کے نیچے اس طرح چمڑا لگا ہوا ہو جواس سے جدانہ ہوسکے (۳) باقی حضرات (امام ابوحنیفہؒ ، امام احمدؒ) نے یہ شرط لگائی ہے کہ صفیق ہو یعنی اتنی سخت اور موٹا و مضبوط ہو کہ بغیر جوتی وغیرہ کے اس میں چلنا ممکن ہو اور پانی بھی اس سے نہ گذر سکے جراب پر مسح کے بارے میں یہ ساری تفصیل و تحقیق اس آدمی پر احتیاط اور غفلت کے ترک کو لازم کرتی ہے جو جرابیں پہنتا ہے اور اب ایسی جرابیں وجود میں آچکی ہیں جو اونی ، روئی السی سے بنی ہوئی ہیں اور بہت سارے لوگ مذکورہ بالا شرط کی رعایت کئے بغیر پہنتے ہیں، پانی ان سے گذر جاتا ہے اور وہ پاؤں کے حجم کی انگلیوں کی تصویرپیش کرتی ہیں کہ منعل بھی نہیں اور بغیر جوتی کے ان میں لگا تار چلنا بھی ممکن نہیں بلکہ جب تک ان پر جوتی ، بوٹ اور جوگر نہ ہو اس میں لگاتار طویل مسافت کرنا ممکن نہیں بعض لوگ آسانی اور سہولت پسندی کی وجہ سے طہارت کے معاملہ میں اتنی کوتاہی کرتے ہیں کہ وہ ایسی جرابوں پر مسح کرتے ہیں جب کے باریک و خفیف ہونے کی وجہ سے چمڑے تک پانی پہنچ جاتا ہے اور ان میں انگلیاں اور ناخن جداجدا نظرا ٓتے ہیں ان کا یہ مسح والا عمل اہلِ علم کے نزدیک وضو کو باطل کردیتا ہے کیونکہ جن علماء نے جرابوں پر مسح کو جائز کہا ہے تو انہوں نے ان کے سخت اور موٹے اور مضبوط ہونے کی شرط لگائی ہے حتی کہ ان میں بغیر جوتی کے طویل مسافت تک لگاتار چلنا ممکن ہو اور ان میں سے اکثر نے یہ شرط لگای کہ وہ مجلد یا منعل ہوں۔(فتاویٰ الشیخ ابن جبرین:ج۱ص۱۱تا۱۴)

(۱۷)       فتوی الشیخ عبداللہ بن غدیان والشیخ عبدالرزاق العفیفی والشیخ ابن باز:

س:     فی السمح علی الجورب اثناء الوضوء ھل یشترط سمک معین للجورب أم لا؟

ج:      الحمد للہ وحدہ والصلاۃ والسلام علی رسولہ وآلہ وصحبہ…… وبعد: یجب ان یکون الجورب صفیقاً لایشف عما تحتہ۔ 

سوال:    اثنائے وضوء میں جرابوں پر مسح کے متعلق سوال: کیا ان جرابوں کے ٹھوس اور موٹے ہونے کی حد معین ہے یا نہیں؟

جواب:    حمد وصلاۃ کے بعد: جرابوںکا اتنا سخت اور موٹا ہونا واجب ہے کہ اس کے نیچے پانی نہ پہنچے۔(فتاوی اللجنۃ الدائمۃ: ص۲۴۷ج۵)

(۱۸)       فتوی مفتی احمد الہریدی مفتی الدیار المصریہ:

              المقرر شرعاً فی فقہ الحنفیۃ انہ لایجوز المسح علی الجوربین عند ابی حنیفۃ الا ان یکونا مجلدین او منعلین، وقال الصاحبان: (محمد وابویوسف) یجوز المسح علیھما اذا کانا ثخینین لا یشفان لانہ یمکن المشی فیھما اذا کانا ثخینین وھوان یستمسک علی الساق من غیر ان یربط بشئی فاشبہ الخف ،وعن ابی حنیفۃ انہ رجع الی قول الصاحبین، وعلیہ الفتوی، ھذا ھو حکم الشرع انہ یجوز المسح علی الجوربین شرعاً ویقوم مقام الغسل بالماء لأی شخص سلیماً کان أو مریضا بشرط ان یکون الجوربان ثخینین لا یشفان المائ۔……

              ایک صاحب جوپاؤں کی انگلیوں میں تکلیف کی وجہ سے جرابوں پر مسح کرتے تھے ان کے سوال کے جواب میں مفتی احمد بریدی صاحب نے لکھا :فقہ حنفیہ میں شرعی حکم یوں ہے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک جرابوں پر مسح تب جائز ہے جب وہ مجلد یا منعل ہوں اور صاحبین (امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ )کے نزدیک جب ثخین ہوں اور پانی کو جذب نہ کریں تو ان پر بھی مسح جائز ہے اس لئے کہ جب وہ ثخین ہوں یعنی باندھے بغیر پنڈلی پر کھڑے رہیں تو ان میں بغیر جوتی کے چلنا ممکن ہے ۔ان صفات کی وجہ سے یہ موزے کے مشابہ ہو جاتی ہیں اس لئے ان پر مسح جائزہوگا لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس قول سے امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے قول کی طرف رجوع کرلیا تھا اور فتوی اسی پر ہے ۔جرابوں پر مسح کرنے کا شرعی حکم یہ ہے کہ ہر شخص کے لئے خواہ تندرست ہو یا بیمار ہو جرابوں پر مسح کرنا جائز ہے اور یہ پاؤں دھونے کے قائم مقام ہے شرطیکہ وہ جرابیں ثخین ہوں اور پانی کو جذب نہ کرتی ہوں ۔(فتاوی الازہرج۱ص۳۷)

(۱۹)       فتوی محمد بن ابراہیم آل الشیخ رئیس الجامعۃ الاسلامیۃ فی المدینۃ المنورۃ ورئیس رابطۃ العالم الاسلامی

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ ومرضاتہ                  نستفتی من سماحتکم ہل تجوز الصلاۃ بالمسح علی الشراب کالقطن والصوف الصناعی الموجود الآن بالاسواق ؟

ج:      الحمد للہ اذا کان صفیقاً لایصف البشرۃ یثبت بنفسہ سائراً للمفروض جا ز المسح علیہ ۔

س:         ہم آپ جناب سے فتوی طلب کرتے ہیں کہ کیا روئی اور اون کی بنی ہوئی جراب جو اس وقت بازاروں میں پائی جاتی ہے اس پر مسح کرکے نماز پڑھنا جائز ہے ؟

ج:          الحمد للہ !جب جراب ثخین ہو جو پاؤں کی ساخت کو ظاہر نہ کرے اور بغیر باندھے پنڈلی پر ٹکی رہے اور پاؤں کی فرض مقدار کو ڈھانپ لے اس پر مسح جائز ہے ۔(فتاوی ورسائل محمدبن ابراہیم آل الشیخ ج۲ص۲۹۴)

(۲۰)      فتوی الشیخ عطیہ صقر

س:     رجل یقول : أنا دائم السفر ،واعلم ان المسح علی الجورب من الرخص المباحۃ للمسلم۔۔۔۔۔۔۔فما شروط المسح علی الجورب ؟

ج:      قال العلماء :ویشترط فی صحۃ المسح علی الجورب ان یکون ثخیناً ،فلا یصح المسح علی الرقیق الذی لا یثبت علی الرجل بنفسہ من غیر رباط ،ولا علی الرقیق الذی لا یمنع وصول الما ء الی ماتحتہ ،ولا علی الشفاف الذی یصف ماتحتہ رقیقاًکان او ثخیناً ،ولم یخالف احد من الائمۃ الاربعۃ فی ذلک ،بل زاد المالکیۃ ان یجلد ظاہرہ وہو مایلی السماء ،وباطنہ وہو ما یلی ا لارض ،وعلی ہذا فلا یجوز المسح علی الجوارب المعروفۃ الآن ما دامت لا تمنع وصول الماء ،لان القصد الاساسی من المسح ہو عدم وصول الماء الی الجسم ،فان کا نت بالمواصفات المذکورۃ فلا بأس بالمسح علیہا ،ولا ینبغی ان یؤخذ جوا ز المسح علی اطلاقہ ،ولا ان تکون التسمیۃ لمجرد الشبہ کافیۃ فی الالحاق بالمشبہ بہ فی الحکم ۔

س:         ایک آدمی نے کہا کہ میں ہمیشہ سفر پر رہتا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ جراب پر مسح کرنا مسلمان کے لئے جائز ہے ،لیکن یہ فرمائیں کہ جراب پر مسح کرنے کی شرطیں کیا ہیں ؟

ج:          علماء نے کہا ہے کہ جراب پر مسح کی صحت کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ ثخین ہو پس باریک جراب جو بغیر باندھے پنڈلی پرنہ ٹکے اس پر مسح کرنا صحیح نہیں اور اس باریک جراب پر مسح کرنا بھی جائز نہیں جو قدم تک پانی کو پہنچنے سے نہ روک سکے ،اور نہ اس جراب پر مسح صحیح ہے جو پاؤں کی انگلیوں اور ناخنوں کی کیفیت کو ظاہر کرے خواہ وہ جراب رقیق ہو یاثخین اور اس میں ائمہ اربعہ میں سے کسی کا اختلاف نہیں بلکہ مالکیہ نے مزید ایک شرط کا اضافہ کیاہے کہ اس جراب کے اوپر اور نیچے چمڑالگاہوا ہو  (یعنی مجلدہو)پس اس تفصیل کے مطابق ان جرابوں پر جو اب معروف ہیں جب کہ وہ پانی کو قدم تک پہنچنے سے نہ روکیں ان پر مسح جائز نہیں کیونکہ مسح کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ جسم تک پانی نہ پہنچے پس اگر جرابوں میں مذکورہ صفات وشرائط پائی جائیں تو ان پر مسح کرنے میں کوئی حرج نہیں  لیکن ہر قسم کے جراب پر مسح کے جوازکی شرعاً کوئی گنجائش نہیں اور نہ ہی محض نام کی مشابہت مسح کے جواز کے لئے کافی ہے ۔(فتاوی عطیہ صقر ج۱ص ۹۳)

(۲۱)       فتوی الشیخ محمد حسن الددوا لشنقیطی

السؤال :         ماحکم المسح علی الجوارب ؟

الاجابۃ:          انہ ثبت عن رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  المسح علی الخفین من روایۃ خمسۃ وسبعین من اصحابہ وہو متواتر، والخفان ماکانا من جلد ویقاس علیہ ما کان ثخیناً یشبہہ کما کان من البلا ستیک قویا سائراً مثل النعال المحیطۃ بالرجل من المواد الصلبیۃ ،مثل النعال التی تتخذ من البلاستیک ومن الجلد الصناعی ونحو ذلک فہذہ کلہا یمسح علیہا اما الجوارب الرقیقۃ فان الذی یبدولی انہا یحل المسح علیہا وقد ورد عن  بعض الصحابۃ المسح علی الجوربین کما فی حدیث أنس بن مالک حین جاء من العراق فمسح علی جوربین لہ ،فأنکر علیہ ابو طلحۃ فقال : أعراقیۃ ؟فقال أنس : وہل ہما الا خفان من صوف ۔وہذا استدل بہ جمہور اہل العلم کما قال الترمذی ؒوذہب الی ذلک أکثر أہل العلم اذا کان الجورب ثخیناً،والمقصود بالثخین الذی یغنی غناء النعل ،معناہ الذی یستطیع الشخص ان یمشی بہ ،فما کا ن کذلک یجوز المسح علیہ،وہو غیر موجود الیوم او نادر جداً ،ومن النادر جداً ان یوجد جورب ثخین بحیث یغنی عن النعل ۔

سوال :     جرابوں پر مسح کا کیا حکم ہے ؟

جواب :    موزوں پر مسح رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے ،جس کو ۷۵صحابہ کرام نے روایت کیا ہے اور یہ متواتر ہے موزے چمڑے کے ہوتے ہیں اور ان پر اس جراب وغیرہ کو قیاس کیا جائے گا ۔جو ان کی طرح سخت اور موٹی ہو جیسے کوئی چیز پلاسٹک سے بنی ہوئی ہو جو مضبوط ہو اور پاؤں کو چھپا لے مثلاً وہ جوتیا ں جو سخت مادے سے بنی ہوئی ہوں اور پورے پاؤں کو ڈھانپ لیں یا وہ جوتیا ں جو لاسٹک اور مصنوعی چمڑے وغیرہ سے بنائی جاتی ہیں ان تمام پر مسح جائز ہے ۔لیکن باریک جرابوں پر میرے نزدیک مسح کرنا جائز نہیں، تحقیق  بعض صحابہ کرام سے  جرابوں پر مسح کرنا مروی ہے جیسے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ جب وہ عراق سے آئے اور اپنی جرابوں پر مسح کیا تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا :کیا یہ عراق کا مسئلہ ہے؟توحضرت ا نس رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ بھی تو اون کے ایک قسم کے موزے ہیں۔  اس سے جمہور اہل علم نے استدلال کیا ہے جیسا کہ امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں کہ اکثر اہل علم کا یہی مذہب ہے جب جرابیں ثخین ہوں (تو ان پر مسح جائز ہے)اور ثخین سے مراد وہ جراب ہے جو جوتی کا کام دے یعنی اس کے ساتھ (بغیر جوتی کے) چلنا ممکن ہو پس جو جراب اس جیسی ہو اس پر مسح جائز ہے اور ایسی جراب موجودہ دور میں نہیں پائی جاتی ہے یا انتہاء نادر ہے ایسی ثخین جراب جو جوتی کا کام دے اس کا ملنا انتہائی مشکل ہے ۔

(۲۲) فتوی الشیخ الامین الحاج محمد احمد

س:     ماحکم المسح علی الجورب؟

ج:      ذھب اھل العلم رحمھم اللہ تعالیٰ فی المسح علی الجورب ثلاثۃ مذھب، ھی:

(1)     المسح علی الجوارب الصفیقۃ التی تغطی الارجل الی الکعبین، الثابتۃ عند المشی۔

(2)     المسح علی الجوربین لایجوز الا اذا کانا منعلین - وھذا مذھب الشافعی وقول لمالک رحمھم اللہ۔

(3)     لا یمسح علی الجوربین ولو کانا مجلدین، وھذا مذھب مالک ومن وافقہ۔

         والذی یترجح لدیَّ ان المسح علی الجوربین جائز ورخصہ کما قال اصحاب المذھب الاول لمن شاء ان یمسح علیہ، بالشرطین السابقین۔ (۱) ان یکونا صفیقین (۲) ان یثبتا حال المشی ولا ینشنیان بحیث ینکشف الکعبان۔

سوال:     جرابوں پر مسح کا کیا حکم ہے؟

جواب:   جرابوں پر مسح کے متعلق علماء کے تین مذہب ہیں (۱) ان جرابوں پر مسح جائز ہے ، جو سخت ہوں اور ٹخنوں سمیت پاؤں کو ڈھانپ لیں اور ان میں (بغیر جوتی کے) چلیں تو پاؤں پر کھڑی رہیں، (۲) جرابوں پر مسح تب جائز ہے جب وہ منعل ہوں یہ امام شافعیؒ کا مذہب ہے اور امام مالکؒ کا ایک قول ہے ، (۳) جرابوں پر مسح جائز نہیں اگر چہ وہ مجلد ہوں یہ امام مالکؒ اور ان کے متبعین کا مذہب ہے ، میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ جو شخص جرابوں پر مسح کرنا چاہے  اس کے لئے جرابوں پر مسح کرنا دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے جیسا کہ پہلے مذہب والوں نے کہا ہے، (۱) وہ جرابیں سخت ہوں (۲) چلنے کے وقت وہ پاؤں پر (بغیر باندھنے کے) کھڑی رہیں اور اتنی نہ مڑیں کہ ٹخنے ظاہر ہوجائیں۔

 

[13]  قال تقي الدين بن عبد القادر التميمي الغزي: كان إماماً، عالماً عاملاً، مؤلفاً مُصنفاً، ماله في زمنه نظيرٌ, قال أبو المعالي محمد بن عبد الرحمن بن الغزي : (هو) الإمام العلامة الفقيه, قال  نجم الدين محمد بن محمد الغزي : زين بن نجيم الشيخ العلامة، المحقق المدقق الفهامة, قال خير الدين الزركلي : (هو) فقيه حنفي، من العلماء مصري, وفي شذرات الذهب هو الإمام العلّامة، البحر الفهامة، وحيد دهره، وفريد عصره، كان عمدة العلماء العاملين، وقدوة الفضلاء الماهرين، وختام المحقّقين والمفتين. (الطبقات السنية : ص 289, ديوان الإسلام : ج 4 : ص 338, الكواكب السائرة : ج 3 : ص 137,  الأعلام : ج 3 : ص 64, شذرات الذهب : ج 10 : ص 523)

[14] قال حاجي الخليفة : (هو) الشيخ، الإمام، العلامة, قال خير الدين الزركلي : (هو) من أكابر فقهاء الحنفية. عدّه ابن كَمَال باشا من المجتهدين في المسائل. وهو من بيت علم عظيم في بلاده, قال عبد الحي الكنوي : كان من كبار الائمة واعيان فقهاء الامة اماما ورعا مجتهدا  متواضعا عالما كاملا بحرا زاخرا حبرا فاخرا. (كشف الظنون :ج 2 : ص 1619, الأعلام : ج 7 : ص 161, الفوائد البهية : ص 205)

[15]  قال الامام علاء الدين الكاساني : (هو)  أُسْتَاذِ وَارِثِ السُّنَّةِ، وَمُوَرِّثِ الشَّيْخِ الْإِمَامِ الزَّاهِدِ عَلَاءِ الدَّيْنِ رَئِيسِ أَهْلِ السُّنَّةِ, قال أبو سعد السمعاني :(هو) إمام فاضل في الفتوى والمناظرة والأصول والكلام, قال عبد الحي الكنوي : (هو)  شيخ كبير فاضل جليل القدر. (بدائع الصنائع: ج 10 : ص 4349, المنتخب من معجم شيوخ السمعاني : ص 1393, , الفوائد البهية : ص 158)

 

[16]  دیکھئے : ان حضرات کاویڈیو کلپ  بعنوان :سید نا علی رضی اللہ عنہ کی قنوت اور مشاجرات صحابہ،۱۳منٹ ۴۰سکنڈ۔

ویڈیو لنک :

 

https://www.youtube.com/watch?v=vSfoE7oBYfE

[17]  اسکی تفصیل بھی صدیق رضا صاحب کے مناظرے میں موجود ہے بعنوان :اولیا ء کا علم غیب ،پارٹ۷ : ۴۹ منٹ ۰۵سکنڈ، (Auliya ka Ilm e Ghaib : Part 7, Timing : 49 min: 50sec)

ویڈیو لنک :

https://www.youtube.com/watch?v=UfGp07eplLw

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...