نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟


امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

جواب:

1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔

مثلا

 1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔

أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب

( تھذیب التھذیب 4/412 )

نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔ 

أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم

أبو دواد السجستاني : لينه

أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس

أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس

أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات

أبو عروبة الحراني : مظلم الأمر

الدارقطني : إمام في السنة، كثير الوهم


 جیسا کہ غیر مقلدوں نے لکھا ہے کہ نعیم کا حافظہ سخت خراب تھا 

( تراجع البانی 224 )

 لیکن یہ بات متفق ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف من گھڑت حکایتیں گھڑتا تھا ، پس اس متعصب ، متشدد شخص نعیم بن حماد کی صحبت کی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف من گھڑت ، جعلی ، جھوٹی اور بے بنیاد باتیں ، نعیم بن حماد کے واسطے سے پہنچیں ، جس وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح کے نشتر چلائے ، امام بخاری رحمہ اللہ نے جب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا تعارف اپنی کتاب میں لکھا تو اسی متشدد متعصب اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف روایات گھڑنے والے راوی سے روایتیں بیان کیں ، اللہ امام بخاری سے در گزر فرمائے ۔

2)۔ امام بخاری کے ایک اور استاد امام حمیدی رحمہ اللہ ، امام ابو حنیفہ اور احناف سے سخت تعصب رکھتے تھے ، 

مثلا 

امام بخاری کہتے ہیں کہ میں نے حمیدی کو یہ کہتے ہوئے سنا انہوں نے کہا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں میں مکہ آیا تو میں نے حجام سے تین سنتیں سیکھی کہ میں اس کے سامنے بیٹھا تو اس نے مجھے کہا قبلے کی طرف منہ کرو ، پھر اس نے میرے سر کے دائیں طرف سے شروع کیا اور استرا ہڈیوں تک پہنچایا۔

 حمیدی نے کہا ایسا آدمی جس کے پاس مناسک وغیرہ کی سنتیں نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہیں نہ صحابہ سے تو وہ میراث ، فرائض ،زکوۃ ،نماز اور دیگر امور اسلام میں کیسے اس کی تقلید کی جائے گی۔

 [التاريخ الصغير 2/ 43]۔

جواب :

یہ روایت من گھڑت ہے کیونکہ امام حمیدی رحمہ اللہ نے تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو نہ دیکھا ہے نہ ان سے کچھ سماع کیا ہے ۔ امام حمیدی کی پیدائش ، امام صاحب کی وفات کے بعد ہے۔ لہذا یہ روایت مردود ہے ، معلوم نہیں محدث حمیدی نے امام ابو حنیفہ سے کیسے یہ بات سن کی جبکہ ان کی پیدائش بھی نہ ہوئی تھی اور اگر درمیان کا کوئی واسطہ تھا تو اس کو بیان کیوں نہ کیا ، بہرحال اللہ ان سے درگزر فرمائے۔ 

لہذا یہ واقعہ بھی جھوٹا ہے لیکن اس کے باوجود امام بخاری نے امام ابو حنیفہ کے خلاف اس وقعہ کو اپنی کتاب میں لکھا ہے ، اللہ امام بخاری رحمہ اللہ سے در گزر فرمائے۔

اس واقعے کی مزید تفصیل اس لنک پر دیکھیں ۔

ایک حجام (نائی) اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے واقعہ کی تحقیق


3)۔ اسماعیل بن عرعرہ مجہول شخص نے امام بخاری کو روایت کی کہ ابو حنیفہ نے کہا کہ ہمارے ہاں جھم کی عورت آئی تو اس نے ہماری عورتوں کو ادب سکھایا۔

جواب : 

اسماعیل بن عرعرہ کا زمانہ بہت بعد کا ہے ، اس کے اور امام ابو حنیفہ کے درمیان انقطاع ہے۔ اور اسماعیل بن عرعرہ مجهول بھی ہے ۔ لہذا یہ واقعہ بھی جھوٹا ہے لیکن اس کے باوجود امام بخاری نے امام ابو حنیفہ کے خلاف اس وقعہ کو اپنی کتاب میں لکھا ہے ، اللہ امام بخاری رحمہ اللہ سے در گزر فرمائے۔

4)۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب تاریخ الکبیر میں ایک اور روایت نقل کی ہے ۔

2198 - سليم بن عيسى القارئ الكوفي، سمع الثوري وحمزة الزيات، روى عنه أحمد بن حميد وضرار بن صرد، قال لي ضرار بن صرد حدثنا سليم سمع سفيان: قال لي حماد بن أبي سليمان أبلغ أبا حنيفة المشرك أني برئ منه، قال: وكان يقول: القرآن مخلوق

(التاريخ الكبير - البخاري - ج ٤ - الصفحة ١٢٧)

امام بخاری ضرار بن صرد سے نقل کرتے ہیں کہ امام حماد نے ابو حنیفہ کو مشرک کہا ہے ۔

جواب : 

اس کی سند میں ضرار بن صرد (متروک الحدیث) اور سلیم (منکر) موجود ہیں ، خود امام بخاری نے ضرار بن صرد کو متروک کہا ہے ، امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی متروک الحدیث کہا ہے ، امام یحیی بن معین نے ضرار بن صرد کو کذاب کہا ہے ، لیکن اس کے باوجود امام بخاری رحمہ اللہ نے اس راوی سے امام ابو حنیفہ پر جرح پیش کی ، اللہ ان سے در گزر فرمائے

 مذکورہ بالا روایت بھی باطل ہے ، اور یہ بات جھوٹی ہے لیکن اس کے باوجود امام بخاری نے امام ابو حنیفہ کے خلاف اس روایت کو اپنی کتاب میں لکھا ہے ، اللہ امام بخاری رحمہ اللہ سے در گزر فرمائے۔

مزید تفصیل اس لنک پر : 


اعتراض نمبر 36: کہ حماد بن ابی سلیمان نے ابو حنیفہ کو مشرک کہا اور اس کے مذہب سے بیزاری ظاہر کی۔

5)۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ میرے ایک استاد نے مجھے روایت بیان کی جن کو حمدویہ بن مخلد نے روایت بیان کی کہ ابو حنیفہ دجال تھا۔

جواب:

قارئین ، محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ کا یہاں اپنے استاد کا نام نہ لینا ، اس بات کی طرف اشارہ ہیکہ استاد اس قابل تھا ہی نہیں کہ اس کا نام لیا جائے یعنی وہ کذاب بھی ہو سکتا ہے ، وضع والا بھی ہو سکتا ہے یا اس سے بھی گرا ہوا ، اور اصول حدیث کی رو سے ایسی روایت ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جاتی ہے جس کی سند مجاہیل پر مشتمل ہو ، جیسا کہ اس سند کی تفصیل النعمان سوشل میڈیا سروسز کی ویب سائٹ پر موجود ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ پر اعتراض نمبر 68 میں موجود ہے۔


لہذا یہاں بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے کمزور ترین سند سے امام ابو حنیفہ پر جرح کی ، اللہ ان سے در گزر فرمائے ۔


6۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ فرمانا کہ ابو حنیفہ مرجئہ تھے اور محدثین نے ان کو ترک کر دیا اور ان سے روایت نہیں لی ، یہ بات بالکل غلط ہے ۔

کیونکہ :

 امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مرجئہ اہل بدعت سے ذرا بھی تعلق نہ تھا۔ 

اس موضوع پر تفصیل سے پڑھنے کیلئے یہ دو مضامین دیکھیں۔


لنک نمبر 1 :

امام ابوحنیفہ " عقیده اِرجاء " رکهتے تهے

لنک نمبر 2 :

امام اعظم رحمہ اللہ اور الزام ارجاء!

درج بالا مضامین سے یہ بات بخوبی معلوم ہو جاتی ہیکہ امام صاحب باطل فرقہ مرجئہ سے نہ تھے ، اور مرجئہ اہل السنت میں اہل السنت کے بڑے بڑے اہل علم تھے جیسا کہ امام ذہبی نے لکھا ہے 


مسعر بن كدام حجة إمام، ولا عبرة بقول السليماني: كان من المرجئة مسعر وحماد بن أبي سليمان والنعمان وعمرو بن مرة وعبد العزيز بن أبي رواد وأبو معاوية وعمرو بن ذر...، وسرد جماعة. 

قلت: الارجاء مذهب لعدة من جلة العلماء لا ينبغي التحامل على قائله 

( میزان 4/99 )


یہاں سے معلوم ہوا کہ مرجئہ اہل السنت بالکل قابل حجت ہیں ، ان پر اعتراض باطل ہے۔

مزید یہ کہ اگر ارجاء اتنی ہی بری چیز ہے تو خود امام بخاری نے مرجئہ رواہ سے بخاری شریف میں روایات کیوں نقل کیں ہیں ؟ اگر خود امام بخاری نے مرجئہ سے صحیح بخاری میں روایات لی ہیں تو معلوم ہوا کہ ارجاء کی وجہ سے راوی کی عدالت اور توثیق پر کوئی حرف نہیں آتا ۔


7) آخری بات یہ کہ امام بخاری کے شیوخ اور تلامذہ ، ہر کسی نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایات نقل کیں ہیں ، تفصیل اس کتاب 

" امام ابو حنیفہ سے مردوی بعض احادیث کی تحقیق "

میں دیکھی جا سکتی ہے ، یہ pdf کتاب دفاع احناف لائبریری میں موجود ہے۔

معلوم ہوا کہ محدث امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے حالات صحیح راویوں سے نہ پہنچے تھے جیسا کہ امام بخاری کی کتب سے ہم نے روایات نقل کیں ، جس وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ سے تسامح ہوا اور انہوں نے فقیہ ملت پر جرح کی ، اللہ ان سے در گزر فرمائے۔

(النعمان سوشل میڈیا سروسز)




تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...