نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟



امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ  نے  امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟


جواب: اسلامی تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ و علم میں ایسی بے مثال شخصیت تھے جن کی عظمت اور مقام پر محدثین و فقہاء کا بڑا طبقہ متفق ہے۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر بعد کے ادوار میں چند محدثین بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح منقول ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے امام الحدیث جیسے جلیل القدر عالم، امام اعظم جیسے فقیہ ملت پر کلام کرتے نظر آتے ہیں؟

تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے بارے میں زیادہ تر وہی روایات پہنچیں جو ضعیف، منقطع یا من گھڑت تھیں، اور یہ روایات اکثر ایسے متعصب یا کمزور رواة سے منقول تھیں جنہیں خود ائمہ حدیث نے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ یہی جھوٹی حکایات اور کمزور اساتذہ کی صحبت امام بخاری کے ذہن میں منفی تاثر پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ اس مضمون میں ہم انہی اسباب کو تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ امام ابو حنیفہ پر امام بخاری کی جرح دراصل تسامح تھی،جو دراصل خود امام بخاری اور دیگر محدثینِ عظام کے طے کردہ اصولوں کے مطابق درست نہ تھی۔

1.  امام بخاری کے غیر معتبر  شیوخ

 1) امام بخاری رحمہ اللہ کے شیوخ میں نعیم بن حماد بھی شامل ہیں۔ لیکن محدثین نے اس پر شدید جرح کی ہے:  امام دارقطنی ؒ نے نعیم بن حماد پر کثیر الوھم کی جرح مفسر کی ہے۔(سؤالات السلمي للدارقطني ص 126) امام ذہبی نے نعیم بن حماد پر منکر الحدیث کی جرح کی( المهذب في اختصار السنن الكبير ١/‏٣٤٢) امام ابن یونس مصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نعیم بن حماد ثقات سے مناکیر روایت کرتا تھا۔( تاريخ ابن يونس المصرى ٢/‏٢٤٥ ) امام نسائی نے نعیم کو ضعیف کہا ہے(الضعفاء والمتروكون الترجمة ٥٨٩) نعیم بن حماد پر محدثین نے جرح کی ہے (یعنی اسے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے)۔تفصیل کے لیے قارئین دیکھیں :  "النعمان سوشل میڈیا سروسز"  کی ویب سائٹ پر موجود



امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف جھوٹی روایات پھیلانے والا  نعیم بن حماد بن معاویہ بن الحارث المروزی الخزاعی تھا۔ ثقہ محدث امام ابو بشر دولابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:  قال ابن حماد: وَقَال غيره: كَانَ يضع الحديث فِي تقوية السنة، وحكايات عن العلماء فِي ثلب أبي حنيفة كذب "نعیم بن حماد سنت کی تقویت کے نام پر حدیث گھڑتا تھا، اور امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی حکایات بیان کرتا تھا (الكامل لابن عدي 7/ 16)۔"

یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ کے بارے میں جو منفی کلمات نقل کیے، وہ دراصل ان کے شیخ نعیم بن حماد کی صحبت اور ان کے بیانات کا نتیجہ تھے۔ چونکہ وہ اسی متعصب اور سخت گیر راوی کے قریب رہے، اس لیے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف من گھڑت باتیں انہی کے ذریعے امام بخاری تک پہنچیں۔اسی بنا پر جب امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں امام ابو حنیفہ کا ذکر کیا تو وہ انہی جھوٹی اور بے بنیاد روایتوں سے متاثر ہو کر کیا، جن کی جڑ نعیم بن حماد تھا۔

لہٰذا: امام بخاری رحمہ اللہ کے ذہن میں امام ابو حنیفہ کے متعلق ایک منفی تاثر بیٹھ گیا۔ ان کی جرح کو امام ابو حنیفہ کے خلاف ان کی ذاتی تحقیق یا رائے قرار دینا درست نہیں۔ بلکہ اسے اس وقت کے ماحول، صحبت اور دستیاب روایات کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ یوں سمجھنا چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا امام ابو حنیفہ پر کلام دراصل نعیم بن حماد جیسے متعصب اور کمزور راوی کی جھوٹی روایتوں کا اثر تھا، نہ کہ امام بخاری کی اپنی آزاد اور تحقیقی رائے۔ اللہ تعالیٰ امام بخاری رحمہ اللہ سے درگزر فرمائے، اور ہمیں انصاف و اعتدال کے ساتھ محدثین اور ائمہ کا مقام سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔


2.  ناقابلِ اعتماد اور مجہول رواۃ کی جھوٹی حکایات

[١٧٢٣] سمعت إسماعيل بن عرعرة يقول قال أبو حنيفة جاءت امرأة جهم إلينا ههنا فأدبت نساءنا

( التاريخ الصغير - البخاري - جلد 2 - صفحہ 41 )

اسماعیل بن عرعرہ نامی ایک مجہول شخص نے امام بخاری رحمہ اللہ کو یہ روایت کی کہ:
"ابو حنیفہ نے کہا کہ ہمارے ہاں جَہم کی عورت آئی، تو اس نے ہماری عورتوں کو ادب سکھایا۔"

جواب: یہ روایت سراسر جھوٹی ہے، کیونکہ: اسماعیل بن عرعرہ کا زمانہ امام ابو حنیفہ کے بعد کا ہے، اس لیے اس کے اور امام ابو حنیفہ کے درمیان انقطاع (سلسلہ ٹوٹا ہوا) ہے۔ اسماعیل بن عرعرہ بذاتِ خود مجہول ہے۔ اس کے باوجود امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب میں نقل کیا، جو سند کے اصولوں کے مطابق درست نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ امام بخاری رحمہ اللہ سے درگزر فرمائے۔ تفصیل کے لیے قارئین دیکھیں :  "النعمان سوشل میڈیا سروسز"  کی ویب سائٹ پر موجود

3.  ضعیف اور متروک رواۃ سے امام ابو حنیفہ پر جرح


امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب التاریخ الکبیر میں ایک اور روایت نقل کی:2198  - سليم بن عيسى القارئ الكوفي، سمع الثوري وحمزة الزيات، روى عنه أحمد بن حميد وضرار بن صرد، قال لي ضرار بن صرد حدثنا سليم سمع سفيان: قال لي حماد بن أبي سليمان أبلغ أبا حنيفة المشرك أني برئ منه، قال: وكان يقول: القرآن مخلوق (التاريخ الكبير - البخاري - ج ٤ - الصفحة ١٢٧)

جواب: اس روایت کی سند سخت کمزور ہے، کیونکہ: اس میں ضرار بن صرد موجود ہے، جسے خود امام بخاری اور امام نسائی رحمہما اللہ نے متروک الحدیث کہا ہے، اور امام یحییٰ بن معین نے اسے کذاب قرار دیا ہے۔ اسی سند میں سلیم بن عیسیٰ بھی ہے، جسے محدثین نے منکر الحدیث کہا ہے۔

لہٰذا یہ روایت باطل اور جھوٹی ہے، لیکن اس کے باوجود امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے امام ابو حنیفہ کے خلاف اپنی کتاب میں درج کیا۔ اللہ ان سے درگزر فرمائے۔ تفصیل کے لیے قارئین دیکھیں :  "النعمان سوشل میڈیا سروسز"  کی ویب سائٹ پر موجود


اعتراض نمبر 36: کہ حماد بن ابی سلیمان نے ابو حنیفہ کو مشرک کہا اور اس کے مذہب سے بیزاری ظاہر کی۔


4.  مجاہیل اور نامعلوم استاد کی روایت

 حدثنا محمد ابن إسماعيل البخاري، حدثنا صاحب لنا عن حمدويه قال: قلت لمحمد بن مسلمة: ما لرأي النعمان دخل البلدان كلها إلا المدينة. قال: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يدخلها الدجال ولا الطاعون " وهو دجال من الدجاجلة.


امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "میرے ایک استاد نے مجھے روایت بیان کی، جن کو حمدویہ بن مخلد نے روایت بیان کی، کہ ابو حنیفہ دجال تھا۔"

جواب: غور کیجیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہاں اپنے استاد کا نام ہی ذکر نہیں کیا۔ یہ خود اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ استاد قابلِ ذکر نہیں تھا، بلکہ ممکن ہے وہ کذاب، وضاع یا اس سے بھی زیادہ کمزور درجے کا ہو۔

  • اصولِ حدیث کی رو سے ایسی سند جس میں مجاهیل ہوں، یا نام چھپا دیا جائے، وہ ناقابلِ قبول ہوتی ہے اور اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔

لہٰذا یہاں بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے انتہائی کمزور سند سے امام ابو حنیفہ پر جرح کی۔ اللہ ان سے درگزر فرمائے۔ تفصیل کے لیے قارئین دیکھیں :  "النعمان سوشل میڈیا سروسز"  کی ویب سائٹ پر موجود


اعتراض نمبر 68 : کہ محمد بن مسلمہ نے کہا کہ ابو حنیفہ دجال من الدجاجلہ ہے اس لیے اس کا مذہب مدینہ میں داخل نہیں ہوا


5.  امام بخاری کے متعصب اساتذہ کا اثر

امام بخاری رحمہ اللہ کے ایک اور استاد امام حمیدی رحمہ اللہ تھے۔ وہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور فقہائے احناف کے بارے میں سخت تعصب رکھتے تھے۔  مزید تفصیل کیلئے دیکھیں  "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود


اعتراض نمبر26 : امام حمیدی رحمہ اللہ کا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے تعصب


لہٰذا یہ بھی ایک اہم سبب ہے کہ اگرچہ امام حمیدی ایک معتبر محدث تھے، لیکن چونکہ ان میں امام ابو حنیفہ کے خلاف شدید تعصب پایا جاتا تھا، اس لیے ان کی صحبت نے امام بخاری رحمہ اللہ پر بھی اثر ڈالا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مقامات پر امام بخاری رحمہ اللہ کی جرح میں وہی  سختی اور تشدد نظر آتا ہے جو ان کے بعض متعصب شیوخ کے رویّے میں موجود تھا۔


6. امام ابو حنیفہ اور مسئلہ إرجاء 

قال البخاري: نعمان بن ثابت، أبو حنيفة الكوفي، مولًى لبني تيم الله بن ثعلبة، كان مرجئًا، سكتوا عنه، وعن رأيه، وعن حديثه. ((التاريخ الكبير)) 8/ 81

۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ فرمانا کہ ابو حنیفہ مرجئہ تھے اور محدثین نے ان کو ترک کر دیا اور ان سے روایت نہیں لی ، یہ بات بالکل غلط ہے ۔ اس موضوع پر تفصیل سے پڑھنے کیلئے یہ مضامین دیکھیں۔

لنک نمبر 1 :

اعتراض نمبر 40 : مرجئہ اہل سنت اور مرجئہ اہل بدعت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر جرح: ایک تحقیقی جائزہ

لنک نمبر 2 :

امام اعظم رحمہ اللہ اور الزام ارجاء!

لنک نمبر 3 :

امام ابوحنیفہ " عقیده اِرجاء " رکهتے تهے

درج بالا مضامین سے یہ بات بخوبی معلوم ہو جاتی ہیکہ امام صاحب باطل فرقہ مرجئہ سے نہ تھے ، اور مرجئہ اہل السنت میں اہل السنت کے بڑے بڑے اہل علم تھے جیسا کہ امام ذہبی نے لکھا ہے  مسعر بن كدام حجة إمام، ولا عبرة بقول السليماني: كان من المرجئة مسعر وحماد بن أبي سليمان والنعمان وعمرو بن مرة وعبد العزيز بن أبي رواد وأبو معاوية وعمرو بن ذر...، وسرد جماعة. 

قلت: الارجاء مذهب لعدة من جلة العلماء لا ينبغي التحامل على قائله  ( میزان 4/99 ) یہاں سے معلوم ہوا کہ مرجئہ اہل السنت بالکل قابل حجت ہیں ، ان پر اعتراض باطل ہے۔

مزید یہ کہ اگر ارجاء اتنی ہی بری چیز ہے تو خود امام بخاری نے مرجئہ رواہ سے بخاری شریف میں روایات کیوں نقل کیں ہیں ؟ اگر خود امام بخاری نے مرجئہ سے صحیح بخاری میں روایات لی ہیں تو معلوم ہوا کہ ارجاء کی وجہ سے راوی کی عدالت اور توثیق پر کوئی حرف نہیں آتا ۔


7. محدثین کا اہل الرائے کے خلاف سخت رویہ اور افراط و تعصب — امام یحییٰ بن معین، امام شافعی اور امام ابن عبدالبر کی شہادتیں


امام بخاری رحمہ اللہ بلاشبہ ائمہ محدثین کے امام اور حدیث کی خدمت میں ایک عظیم ستون ہیں۔ تاہم یہ حقیقت بھی تاریخِ حدیث کے اوراق پر ثبت ہے کہ بعض اوقات بڑے سے بڑا محدث بھی اپنے ماحول اور اپنے اساتذہ کی فکری فضا سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہی سبب ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح کے پس منظر کو محض اصولی کسوٹی پر پرکھنے کے بجائے اس کے زمانے کے فکری رجحانات کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔

امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ جیسے جلیل القدر محدث کا یہ فرمان آج بھی گواہ ہے: "أصحابنا يفرطون في أبي حنيفة وأصحابه "ہمارے ساتھی ( محدثین ) امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب پر حد سے زیادہ سختی کرتے ہیں۔"جامع بیان العلم و فضله لابن عبد البر،2/1081 یعنی محدثین کے طبقے میں یہ رجحان پایا جاتا تھا کہ وہ امام اعظم اور ان کے تلامذہ پر ضرورت سے زیادہ سختی کرتے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی اس افسوس ناک رویے کی نشاندہی نہایت درد مندی کے ساتھ فرمائی: "ہمارے یہ اصحاب (اہلِ حدیث) بس اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ امام ابو حنیفہ پر اعتراض کریں اور ان کے اقوال پر طعن کریں، حالانکہ اگر وہ ان کے حقیقی مقام اور مرتبے کو سمجھ لیتے تو یہ طعن و تشنیع خود بخود ختم ہو جاتی۔" (آداب الشافعی ومناقبه، ص 162، سند صحیح) اسی طرح امام ابن عبدالبر مالکی رحمہ اللہ نے اہلِ حدیث کے اس رویے کو افراط و تفریط کا شاخسانہ قرار دیا اور فرمایا: "أفرط بعض أصحاب الحديث في ذمّ أبي حنيفة، وتجاوزوا الحدّ في ذلك" (بعض اہلِ حدیث نے امام ابو حنیفہ کی مذمت میں بے جا سختی کی اور حد سے تجاوز کر گئے۔) (جامع بیان العلم و فضله، 2/1080) ان ائمہ کی یہ گواہیاں اس حقیقت پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہیں کہ امام ابو حنیفہ پر کی جانے والی جرح ہمیشہ تحقیقی اصولوں کے تابع نہیں رہی بلکہ اکثر یہ تعصب، سخت مزاجی اور ماحول کے دباؤ کا نتیجہ تھی۔

لہٰذا جب خود محدثینِ کرام کے امام—یحییٰ بن معین، امام شافعی اور امام ابن عبدالبر—اس بے اعتدالی کو تسلیم کرتے ہیں، تو منطقی طور پر یہ کہنا درست ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ پر جرح بھی اسی پس منظر سے متاثر تھی۔ اصولی معیار پر پرکھا جائے تو یہ سختی کسی طرح بھی حجت نہیں بنتی۔

البتہ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے تمام مشائخ اور رواۃ یکساں مزاج کے نہ تھے۔ جہاں کچھ اساتذہ نے تعصب اور شدت کے اثرات چھوڑے، وہیں ان کے دوسرے مشائخ اور ثقہ رواۃ ہمیں امام ابو حنیفہ کی مدح و منقبت بیان کرتے ہوئے بھی ملتے ہیں۔ یہی حقیقت یہ ثابت کرتی ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ نہ صرف فقیہ الامت تھے بلکہ امام بخاری جیسے محدثِ کبیر کے ثقہ رواۃ کے نزدیک بھی عزت و مقام کے حامل امام تھے۔


امام بخاری کے اساتذہ  سے امام ابو حنیفہ کی تعریف

 ہمیں امام بخاری کے وہ مشائخ اور رواة بھی ملتے ہیں جو امام ابو حنیفہ کی تعریف و توصیف کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر مکی بن ابراہیم (جو امام بخاری کے اہم اساتذہ میں سے ہیں) ، نے امام ابو حنیفہ کو "اپنے زمانے کا سب سے بڑا عالم" کہا (تاریخ بغداد، ج13، ص344، اسنادہ صحیح)۔ مزید  تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔

تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 37 : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، جلیل القدر محدث مکی بن ابراہیمؒ کی نظر میں – "اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم"

 اسی طرح وہ ثقہ رواة جن سے امام بخاری نے اپنی صحیح میں روایات لی ہیں، وہ بھی امام ابو حنیفہ کی مدح کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر:

امام شعبہ، امام یحییٰ بن معین، امام یحییٰ بن سعید قطان، امام وکیع، حماد بن زید، سفیان بن عیینہ، ایوب سُختیانی، امام ابو نعیم فضل بن دُکین، یزید بن ہارون، زہیر بن معاویہ، امام اعمش، عبداللہ بن مبارک، سعید بن ابی عروبہ، اور قاضی البصرہ محمد بن عبداللہ انصاریؒ۔

یہ سب وہ ثقہ حفاظِ حدیث ہیں جن سے امام بخاری نے اپنی صحیح میں روایت لی ہے، اور انہی سب سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تعریف و توصیف بھی منقول ہے۔ مزید  تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔

پیش لفظ: سلسلۂ تعریف و توثیقِ امام ابو حنیفہؒ : علمِ حدیث کے اُفق پر چمکتا ستارہ: تابعی، ثقہ، ثبت، حافظ الحدیث، امام اعظم ابو حنیفہؒ


پس جب امام بخاری نے انہی رواة کو اپنی کتاب "الجامع الصحیح" میں ثقہ و معتمد مانا، تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ کی تعریف کرنے والے یہ سب ائمہ بھی بقولِ بخاری معتبر ہیں۔ اور چونکہ یہی معتبر رواة امام ابو حنیفہ کو فقیہ، فاضل اور جلیل القدر امام مانتے تھے، تو اس سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوتی ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ امام بخاری کے ثقہ رواة کے نزدیک بھی محبوب، معتبر اور معتمد امام تھے۔

لہذا نتیجہ یہ ہے کہ امام بخاری سے امام ابو حنیفہ پر جو جرح منقول ہے وہ دراصل ان کے بعض متعصب مشائخ کی رائے کے اثرات کی وجہ سے تسامح ہے، ورنہ خود امام بخاری کے ثقہ رواة (جن پر ان کی پوری کتاب کا دارومدار ہے) امام ابو حنیفہ کو فاضل، معتمد اور جلیل القدر امام مانتے تھے۔


خلاصۂ کلام
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی امام اعظم ابو حنیفہ پر جرح دراصل ان کے چند متعصب یا کمزور شیوخ اور ناقابلِ اعتماد روایات کے اثرات کا نتیجہ تھی، نہ کہ ان کی اپنی آزاد اور تحقیقی رائے۔ اس کے برعکس ہمیں یہ حقیقت بھی ملتی ہے کہ امام بخاری کے وہی مشائخ اور ثقہ رواة، جن سے انہوں نے اپنی صحیح میں بکثرت روایات لی ہیں، وہی امام ابو حنیفہ کی تعریف و توصیف کرتے ہیں۔ مثلاً امام شعبہ، یحییٰ بن معین، یحییٰ بن سعید قطان، سفیان بن عیینہ، وکیع، عبداللہ بن مبارک اور دیگر جلیل القدر ائمہ، جنہیں خود امام بخاری نے ثقہ و معتمد مانا، سب امام ابو حنیفہ کو فقیہ ملت اور اپنے وقت کا سب سے بڑا عالم مانتے تھے۔
اس سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نہ صرف اپنے عہد کے عظیم فقیہ اور امام تھے بلکہ خود امام بخاری کے ثقہ رواة کے نزدیک بھی محبوب، معتمد اور جلیل القدر امام تھے۔ لہٰذا امام بخاری سے منقول جرح کو ان کے تسامح پر محمول کرنا چاہیے اور امام اعظم ابو حنیفہ کی علمی و فقہی عظمت کو اس سے کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ دونوں عظیم ائمہ پر اپنی بے پایاں رحمتیں نازل فرمائے اور ہمیں ان کے علم و فضل سے صحیح طور پر فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔




تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...