نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 68 : کہ محمد بن مسلمہ نے کہا کہ ابو حنیفہ دجال من الدجاجلہ ہے اس لیے اس کا مذہب مدینہ میں داخل نہیں ہوا


 اعتراض نمبر 68 : 

کہ محمد بن مسلمہ نے کہا کہ ابو حنیفہ دجال من الدجاجلہ ہے اس لیے اس کا مذہب مدینہ میں داخل نہیں ہوا


أخبرنا ابن الفضل، حدثنا علي بن إبراهيم بن شعيب الغازي، حدثنا محمد ابن إسماعيل البخاري، حدثنا صاحب لنا عن حمدويه قال: قلت لمحمد بن مسلمة: ما لرأي النعمان دخل البلدان كلها إلا المدينة. قال: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:

" لا يدخلها الدجال ولا الطاعون " وهو دجال من الدجاجلة.


الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ مطبوعہ تینوں نسخوں میں پہلی سند میں عبارت اس طرح ہے

انبانا ابن الفضل حدثنا على بن ابراهيم بن شعيب حدثنا البخاري ليكن تصور نہیں کیا جا سکتا کہ ایک ہی واسطہ کے ساتھ ابن الفضل کی سند بخاری تک پہنچ جائے اس لیے کہ ابن الفضل کی وفات 415ھ اور بخاری کی وفات 256 ہے تو سند سے کئی نام ساقط ہیں۔ 

اور درست وہی ہے جو ہم نے ذکر کیا ہے جیسا کہ خطیب کی تاریخ کی ص 422 ج 3 اور ص 452 ج 10 سے معلوم ہوتا ہے تو عبارت اس طرح ہوگی

 انبانا ابن الفضل حدثنا على بن ابراهيم المستملى حدثنا محمد بن ابراهيم بن شعيب الغازي حدثنا محمد بن اسماعیل البخاری

 اور امام بخاری کا کہنا کہ ہمارا ایک ساتھی روایت کرتا تھا تو یہ راویت مجہول سے ہے اور اگر وہ ساتھی بخاری کی شرط کے مطابق ہوتا جس سے وہ روایت کرتے ہیں تو اس کے نام کی صراحت ضرور کرتے تو یہ انداز اس پر دلالت کرتا ہے که روایت ایسی ہے جس پر اعتماد نہیں۔ اور محمد بن مسلمہ متعصب مسکین ہے۔ جو کوئی بھی ہو۔ بے شک اس کا ثواب ضائع اور اس کا جواب کمزور ہو کر ساقط ہو جاتا ہے۔ پس اس کی کلام کی مخالفت ظاہر ہو جانے کے بعد کسی اور چیز کی طرف ضرورت ہی نہیں رہتی کیونکہ یقینی طور پر اس نے اعتراف کیا ہے کہ جو شخص مدینہ منورہ میں داخل ہو گیا تو وہ دجالوں میں سے نہیں ہے۔ اللہ تعالی اس مدینہ منورہ کے شرف کو اور زیادہ کرے۔

اور بے شک ابو حنیفہ نے پچپن کے قریب حج کیے اور مدینہ منورہ میں بے شمار دفعہ داخل ہوئے اور امام مالک ان سے مسجد نبوی میں فقہ کا مذاکرہ کرتے تھے۔

 ابن ابی العوام نے احمد بن محمد بن سلامه - جبرون بن سعید بن یزید - ایوب بن عبد الرحمن ابو هشام - محمد بن رشید جو کہ ابن القاسم کا ساتھی اور سحنون سے عمر رسیدہ تھا۔ یوسف بن عمرو عبد العزيز الدراوردی یا ابن ابی سلمہ کی سند نقل کر کے کہا کہ دراوردی یا ابن ابی سلمہ نے کہا کہ میں نے ابو حنیفہ اور مالک بن انس کو رسول الله ﷺ کی مسجد میں عشاء کی نماز کے بعد دیکھا کہ وہ دونوں تکرار کرتے اور پڑھتے پڑھاتے تھے یہاں تک کہ جب ان دونوں میں سے کوئی کسی بات میں شک کرتا جو اس کے صاحب نے کہی ہوتی تو دوسرا ناک چڑھائے اور غصہ کیے بغیر اور خطا کار قرار دیے بغیر دلیل پیش کرتا یہاں تک کہ وہ دونوں صبح کی نماز اپنی اسی جگہ میں ادا کرتے۔ 

اور اس کے قریب قریب الصیمری کی عبارت ہے۔ 

اور امام مالک نے بہت سے مسائل میں بلکہ اکثر مسائل میں اس کے ساتھ موافقت کی ہے۔ بلکہ ان کے پاس ابو حنیفہ سے حاصل کیے گئے مسائل میں سے ساٹھ ہزار مسائل تھے جیسا کہ الدراوردی نے ان سے روایت کی ہے [1] اور پہلے گزر چکا ہے کہ امام شافعی نے کتاب الام ص 248 ج 7 میں کہا اور بے شک میں نے الدراوروی سے پوچھا کہ کیا اہل مدینہ میں سے کوئی ہے جس نے یہ قول کیا ہو کہ ربع دینار سے کم مہر نہیں ہوتا تو اس نے کہا نہیں اللہ کی قسم میں، مالک سے پہلے اس نظریہ کا کوئی آدمی نہیں جانتا اور الدراوردی نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ نظریہ امام مالک نے ابو حنیفہ سے لیا ہے۔ الخ

 اور ابو حنیفہ کے اصحاب اور اصحاب کے اصحاب زمانہ در زمانہ مدینہ میں داخل ہوتے رہے اور وہاں اپنی فقہ کی نشر و اشاعت کرتے رہے۔ 

اور تمام طبقات (علماء قراء اور تاجر حضرات ) میں حرمین کے اندر کتنے ہی اس کے اصحاب تھے اور مدینہ منورہ میں ابو حنیفہ کے اصحاب جن کا ذکر صرف ابن ابی العوام کی کتاب میں ہے، ان کی تعداد کوئی کم نہیں ہے اور اسی طرح ہی معاملہ تمام طبقات میں رہا تو کیا اس جیسے آدمی کو اور اس جیسے ساتھیوں کو کہا جا سکتا ہے کہ وہ دجال تھے اسی لیے وہ مدینہ میں داخل نہیں ہوئے۔ 

اور یہ تو چمکتے دن میں سورج کا انکار ہے۔

 اور ہم آہستہ سے اس متعصب بیہودہ گو سے کان میں بات کر کے پوچھتے ہیں کہ اگر تو ابو حنیفہ کے کلام کو دجالوں کا کلام شمار کرتا ہے تو تیری رائے اپنے امام کے بارہ میں کیا ہے جس نے ابو حنیفہ کے کلام کو بہت سی جگہوں میں لیا ہے بلکہ اس کی فقہ کا تو تانا ہی ابو حنیفہ کی فقہ ہے۔ 

پس اگر تجھے اس سے انکار ہے تو یقینا اختلافی کتابوں میں اس کی تفصیل پائے گا اور اس کثرت سے اس پر دلائل ہیں کہ ہر جانب سے تجھ پر سانس لینا دشوار ہو جائے گا۔

 اور تجھے ذلیل ہو کر اس کا اعتراف کرنا ہی پڑے گا اور خلاصہ یہ ہے کہ بے شک اس متعصب نے خود جو قاعدہ وضع کیا ہے اس کے مطابق اس نے اعتراف کر لیا کہ بے شک ابو حنیفہ اور اس کے اصحاب اور اس کے اصحاب کے اصحاب دجال نہیں ہیں اس لیے کہ بے شک وہ مدینہ منورہ میں داخل ہوتے رہے ہیں اور نہ ہی ان کی فقہ دجالوں کا وسوسہ ہے۔

 اس لیے کہ وہ قدیم زمانہ سے اس کو اپنا وطن بنائے ہوئے ہیں۔ اور اس گھٹیا کلام کو زبان پر لانا اور اس کو کتابوں میں لکھنا جبکہ اس کا گھٹیا ہونا ثابت ہے تو یہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ مخالف انتہائی گھٹیا آدمی ہے۔ 

اور بے شک قدریہ کے ایک گروہ نے مدینہ کو امام مالک کے زمانہ میں اپنا وطن بنائے رکھا۔

 ان میں سے ابراہیم بن محمد بن ابی یحیی الاسلمی بھی ہے جس کے بارہ میں کتب جرح والوں نے ہر قسم کی مذمت کی ہے اور وہ امام مالک کے متعلق ہر قسم کی برائی کہتا تھا۔ 

بے شک اس کا علم وہاں پھیلا اور اس سے امام شافعی نے علم حاصل کیا جیسا کہ انہوں نے امام مالک سے حاصل کیا۔

 اور اس کے باوجود صحیح نہیں کہ ان میں سے کسی کے بارہ میں کہا گیا ہو کہ بے شک وہ دجال ہے بلکہ دجال وہ ہے جو اس نادانی اور بے وقوفی کے ساتھ دین کے اماموں کے بارہ میں کلام کرتا ہے۔

 اور دوسری سند[2] میں جو محمد بن الحسن ہے وہ النقاش المفسر المقری ہے جو مشہور کذاب اور مشہور مجسم ہے (یعنی اللہ تعالی کے لیے جسم ماننے والے گروہ میں سے ہے) اور ابو رجاء المروزی کی کلام منقطع ہے۔ اور اس نے مرو کی تاریخ میں منکر قسم کی عجیب باتیں درج کی ہیں[3]


امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔

[1]۔ دیکھیں الاجماع شمارہ 14 ص 59

[2]۔أخبرني محمد بن الحسين الأزرق، أخبرنا محمد بن الحسن بن زياد المقرئ أن أبا رجاء المروزي أخبرهم قال: قال حمدويه بن مخلد: قال محمد بن مسلمة المديني - وقيل له: ما بال رأي أبي حنيفة دخل هذه الأمصار كلها، ولم يدخل المدينة؟ قال: لأن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " على كل نقب من أنقابها ملك يمنع الدجال من دخولها " وهذا من كلام الدجالين فمن ثم لم يدخلها. والله أعلم.

[3]۔یہ روایت سخت ضعیف ہے کیونکہ

پہلی سند میں دو راوی مجہول ہیں

1۔امام بخاری رحمہ اللہ کا شیخ مجہول ہے 

2۔ حمدویہ بن مخلد بھی مجہول ہیں۔

جبکہ دوسری سند میں محمد بن الحسن بن زیاد المقرئی النقاش مشہور کذاب اور منکر روایتیں نقل کرنے والا ہے 

(سیر اعلام النبلاء 15/574) 

 اور اس سند میں بھی حمدویہ بن مخلد مجہول ہیں ۔

 لہذا سند کے اعتبار سے یہ روایت کمزور ترین ہے جس سے فقیہ ملت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ پر اعتراض کرنا باطل ہے۔

اور عجیب بات ہے جو متعصب سلفی شیخ مقبل بن ھادی الوداعی اور ایک اور سلفی محقق أبو عبد الله أحمد بن إبراهيم بن أبي العينين نے حمدویہ کا تعین محمد بن ابان بن وزیر سے کیا ہے جو کہ اسماء الرجال کے علم سے نا واقفی اور تعصب کا نتیجہ ہے کیونکہ 

اول تو ایک سند میں صراحتا حمدویہ بن مخلد لکھا ہوا ہے ، 

دوم یہ کہ محمد بن مسلمہ المدینی کے تلامذہ میں محمد بن ابان بن وزیر نامی کوئی شاگرد نہیں لیکن حمدویہ بن مخلد نامی شاگرد موجود ہے۔

سوم یہ کہ ابو رجاء المروزی کے شیوخ میں محمد بن ابان بن وزیر نہیں البتہ حمدویہ بن مخلد ضرور ہے ۔

چہارم یہ کہ اگر حمدویہ سے مراد محمد بن أبان ہے تو امام بخاری نے اس سے بلا واسطہ روایت کیوں بیان نہیں کی ؟. کسی مجہول شیخ کے واسطہ سے روایت کیوں لی ہے ؟ کیونکہ محمد بن أبان ثقہ ہیں اور حمدویہ مجہول تو ، امام بخاری نے جان بوجھ کر سند خود ہی کیوں ضعیف کی ؟ جبکہ کم واسطوں سے وہ سند صحیح ہو سکتی تھی جس میں شیخ مجہول نہ ہوتا ، معلوم ہوا کہ 

حمدویہ سے مراد حمدویہ بن مخلد مجہول راوی ہے ۔

لہذا سلفی و غیر مقلد کذابوں کا امام اعظم پر ہر قسم کا اعتراض ، امام صاحب کو مجروح کرنے کی ہر ناپاک کوشش بالکل اسی طرح مردود ہے جس طرح سلفی و غیر مقلد اپنی ذات میں مردود و مجروح ہیں۔


اور امام صاحب کا مذہب اور ان کے مقلدین مدینہ میں اس قدر تھے کہ جن کا شمار مشکل ہے ، صرف خلافت عثمانیہ میں ہی لاکھوں حنفی مدینہ منورہ کی مبارک سرزمین میں آباد تھے ۔ 

قارئین مزید تفصیل کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ پر اعتراض نمبر 68۔


-----------------------------------------------------------

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے دوران حج واقعات : 


نا عبد الوارث بن سفيان قال نا قاسم بن اصبغ قال نا احمد ابن زهير قال نا سليمان بن أبي شيخ قال نا أبو سفيان الحميري قال قال ابن شبرمة كنت شديد الازراء على أبى حنيفة فحضر الموسم وكنت حاجا يومئذ فاجتمع عليه قوم يسألونه فوقفت من حيث لا يعلم من أنا فجاءه رجل فقال يا أبا حنيفة قصدتك أسألك عن امر قد أهمنى واعجزنى قال ما هو قال لي ولد ليس لي غيره فان زوجته طلق وان سريته اعتق وقد عجزت عن هذا فهل من حلة فقال له للوقت اشتر الجارية التي يرضاها هو لنفسك ثم زوجها منه فان طلق رجعت مملوكتك إليك وان اعتق اعتق ما لا يملك قال فعلمت ان الرجل فقيه فمن يومئذ كففت عن ذكره الابخير 

(الانتقاء ص 153 ، نسخہ ابو غدہ ص 300 ، اسنادہ حسن )


مزید تفصیل کیلئے دیکھیں الموسوعہ الحدیثیہ لمرویات الامام ابی حنیفہ ، ج 11 ص 54 


امام ابو حنیفہ مدینہ میں : 

امام صاحب نے بہت سے مدنی شیوخ سے علم حاصل کیا ہے اور امام صاحب کے مذہب کے کتنے ہی افراد مدینہ میں داخل ہوئے ، اور نہیں تو صرف امام محمد رحمہ اللہ ہی کو دیکھ لیں جن سے امام شافعی رحمہ اللہ نے اونٹوں کے بوجھ جتنا علم حاصل کیا ۔


حدثني أبي قال: حدثني أبي قال: حدثني أحمد بن محمد بن سلامة قال: ثنا جبرون بن سعيد بن يزيد قال: ثنا أيوب بن عبد الرحمن أبو هشام قال: حدثني محمد بن رشيد صاحب عبد الرحمن بن القاسم، وكان أسن من سحنون، عن يوسف بن عمرو، عن عبد العزيز الدراوردي أو ابن أبي سلمة قال: رأيت أبا حنيفة ومالك بن أنس في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد صلاة العشاء الآخرة وهما يتذاكران ويتدارسان، حتى إذا وقف أحدهما على القول الذي قال به أمسك الآخر عن غير تعنيف ولا تمعير ولا تخطئة، حتى يصليا الغداة في مجلسهما ذلك.

( فضائل ابی حنیفہ لابن ابی العوام ت بہرائچی ص 103 )


-----------------------------------------------------







امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

جواب:

1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔

مثلا

 1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔

أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب

( تھذیب التھذیب 4/412 )

نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔ 

أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم

أبو دواد السجستاني : لينه

أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس

أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس

أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات

أبو عروبة الحراني : مظلم الأمر

الدارقطني : إمام في السنة، كثير الوهم


 جیسا کہ غیر مقلدوں نے لکھا ہے کہ نعیم کا حافظہ سخت خراب تھا 

( تراجع البانی 224 )

 لیکن یہ بات متفق ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف من گھڑت حکایتیں گھڑتا تھا ، پس اس متعصب ، متشدد شخص نعیم بن حماد کی صحبت کی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف من گھڑت ، جعلی ، جھوٹی اور بے بنیاد باتیں ، نعیم بن حماد کے واسطے سے پہنچیں ، جس وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح کے نشتر چلائے ، امام بخاری رحمہ اللہ نے جب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا تعارف اپنی کتاب میں لکھا تو اسی متشدد متعصب اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف روایات گھڑنے والے راوی سے روایتیں بیان کیں ، اللہ امام بخاری سے در گزر فرمائے ۔

2)۔ امام بخاری کے ایک اور استاد امام حمیدی رحمہ اللہ ، امام ابو حنیفہ اور احناف سے سخت تعصب رکھتے تھے ، 

مثلا 

امام بخاری کہتے ہیں کہ میں نے حمیدی کو یہ کہتے ہوئے سنا انہوں نے کہا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں میں مکہ آیا تو میں نے حجام سے تین سنتیں سیکھی کہ میں اس کے سامنے بیٹھا تو اس نے مجھے کہا قبلے کی طرف منہ کرو ، پھر اس نے میرے سر کے دائیں طرف سے شروع کیا اور استرا ہڈیوں تک پہنچایا۔

 حمیدی نے کہا ایسا آدمی جس کے پاس مناسک وغیرہ کی سنتیں نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہیں نہ صحابہ سے تو وہ میراث ، فرائض ،زکوۃ ،نماز اور دیگر امور اسلام میں کیسے اس کی تقلید کی جائے گی۔

 [التاريخ الصغير 2/ 43]۔

جواب :

یہ روایت من گھڑت ہے کیونکہ امام حمیدی رحمہ اللہ نے تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو نہ دیکھا ہے نہ ان سے کچھ سماع کیا ہے ۔ امام حمیدی کی پیدائش ، امام صاحب کی وفات کے بعد ہے۔ لہذا یہ روایت مردود ہے ، معلوم نہیں محدث حمیدی نے امام ابو حنیفہ سے کیسے یہ بات سن کی جبکہ ان کی پیدائش بھی نہ ہوئی تھی اور اگر درمیان کا کوئی واسطہ تھا تو اس کو بیان کیوں نہ کیا ، بہرحال اللہ ان سے درگزر فرمائے۔ 

لہذا یہ واقعہ بھی جھوٹا ہے لیکن اس کے باوجود امام بخاری نے امام ابو حنیفہ کے خلاف اس وقعہ کو اپنی کتاب میں لکھا ہے ، اللہ امام بخاری رحمہ اللہ سے در گزر فرمائے۔

اس واقعے کی مزید تفصیل اس لنک پر دیکھیں ۔

ایک حجام (نائی) اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے واقعہ کی تحقیق


3)۔ اسماعیل بن عرعرہ مجہول شخص نے امام بخاری کو روایت کی کہ ابو حنیفہ نے کہا کہ ہمارے ہاں جھم کی عورت آئی تو اس نے ہماری عورتوں کو ادب سکھایا۔

جواب : 

اسماعیل بن عرعرہ کا زمانہ بہت بعد کا ہے ، اس کے اور امام ابو حنیفہ کے درمیان انقطاع ہے۔ اور اسماعیل بن عرعرہ مجهول بھی ہے ۔ لہذا یہ واقعہ بھی جھوٹا ہے لیکن اس کے باوجود امام بخاری نے امام ابو حنیفہ کے خلاف اس وقعہ کو اپنی کتاب میں لکھا ہے ، اللہ امام بخاری رحمہ اللہ سے در گزر فرمائے۔

4)۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب تاریخ الکبیر میں ایک اور روایت نقل کی ہے ۔

2198 - سليم بن عيسى القارئ الكوفي، سمع الثوري وحمزة الزيات، روى عنه أحمد بن حميد وضرار بن صرد، قال لي ضرار بن صرد حدثنا سليم سمع سفيان: قال لي حماد بن أبي سليمان أبلغ أبا حنيفة المشرك أني برئ منه، قال: وكان يقول: القرآن مخلوق

(التاريخ الكبير - البخاري - ج ٤ - الصفحة ١٢٧)

امام بخاری ضرار بن صرد سے نقل کرتے ہیں کہ امام حماد نے ابو حنیفہ کو مشرک کہا ہے ۔

جواب : 

اس کی سند میں ضرار بن صرد (متروک الحدیث) اور سلیم (منکر) موجود ہیں ، خود امام بخاری نے ضرار بن صرد کو متروک کہا ہے ، امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی متروک الحدیث کہا ہے ، امام یحیی بن معین نے ضرار بن صرد کو کذاب کہا ہے ، لیکن اس کے باوجود امام بخاری رحمہ اللہ نے اس راوی سے امام ابو حنیفہ پر جرح پیش کی ، اللہ ان سے در گزر فرمائے

 مذکورہ بالا روایت بھی باطل ہے ، اور یہ بات جھوٹی ہے لیکن اس کے باوجود امام بخاری نے امام ابو حنیفہ کے خلاف اس روایت کو اپنی کتاب میں لکھا ہے ، اللہ امام بخاری رحمہ اللہ سے در گزر فرمائے۔

مزید تفصیل اس لنک پر : 


اعتراض نمبر 36: کہ حماد بن ابی سلیمان نے ابو حنیفہ کو مشرک کہا اور اس کے مذہب سے بیزاری ظاہر کی۔

5)۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ میرے ایک استاد نے مجھے روایت بیان کی جن کو حمدویہ بن مخلد نے روایت بیان کی کہ ابو حنیفہ دجال تھا۔

جواب:

قارئین ، محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ کا یہاں اپنے استاد کا نام نہ لینا ، اس بات کی طرف اشارہ ہیکہ استاد اس قابل تھا ہی نہیں کہ اس کا نام لیا جائے یعنی وہ کذاب بھی ہو سکتا ہے ، وضع والا بھی ہو سکتا ہے یا اس سے بھی گرا ہوا ، اور اصول حدیث کی رو سے ایسی روایت ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جاتی ہے جس کی سند مجاہیل پر مشتمل ہو ، جیسا کہ اس سند کی تفصیل النعمان سوشل میڈیا سروسز کی ویب سائٹ پر موجود ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ پر اعتراض نمبر 68 میں موجود ہے۔


لہذا یہاں بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے کمزور ترین سند سے امام ابو حنیفہ پر جرح کی ، اللہ ان سے در گزر فرمائے ۔


6۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ فرمانا کہ ابو حنیفہ مرجئہ تھے اور محدثین نے ان کو ترک کر دیا اور ان سے روایت نہیں لی ، یہ بات بالکل غلط ہے ۔

کیونکہ :

 امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مرجئہ اہل بدعت سے ذرا بھی تعلق نہ تھا۔ 

اس موضوع پر تفصیل سے پڑھنے کیلئے یہ دو مضامین دیکھیں۔


لنک نمبر 1 :

امام ابوحنیفہ " عقیده اِرجاء " رکهتے تهے

لنک نمبر 2 :

امام اعظم رحمہ اللہ اور الزام ارجاء!

درج بالا مضامین سے یہ بات بخوبی معلوم ہو جاتی ہیکہ امام صاحب باطل فرقہ مرجئہ سے نہ تھے ، اور مرجئہ اہل السنت میں اہل السنت کے بڑے بڑے اہل علم تھے جیسا کہ امام ذہبی نے لکھا ہے 


مسعر بن كدام حجة إمام، ولا عبرة بقول السليماني: كان من المرجئة مسعر وحماد بن أبي سليمان والنعمان وعمرو بن مرة وعبد العزيز بن أبي رواد وأبو معاوية وعمرو بن ذر...، وسرد جماعة. 

قلت: الارجاء مذهب لعدة من جلة العلماء لا ينبغي التحامل على قائله 

( میزان 4/99 )


یہاں سے معلوم ہوا کہ مرجئہ اہل السنت بالکل قابل حجت ہیں ، ان پر اعتراض باطل ہے۔

مزید یہ کہ اگر ارجاء اتنی ہی بری چیز ہے تو خود امام بخاری نے مرجئہ رواہ سے بخاری شریف میں روایات کیوں نقل کیں ہیں ؟ اگر خود امام بخاری نے مرجئہ سے صحیح بخاری میں روایات لی ہیں تو معلوم ہوا کہ ارجاء کی وجہ سے راوی کی عدالت اور توثیق پر کوئی حرف نہیں آتا ۔


7) آخری بات یہ کہ امام بخاری کے شیوخ اور تلامذہ ، ہر کسی نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایات نقل کیں ہیں ، تفصیل اس کتاب 

" امام ابو حنیفہ سے مردوی بعض احادیث کی تحقیق "

میں دیکھی جا سکتی ہے ، یہ pdf کتاب دفاع احناف لائبریری میں موجود ہے۔

معلوم ہوا کہ محدث امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے حالات صحیح راویوں سے نہ پہنچے تھے جیسا کہ امام بخاری کی کتب سے ہم نے روایات نقل کیں ، جس وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ سے تسامح ہوا اور انہوں نے فقیہ ملت پر جرح کی ، اللہ ان سے در گزر فرمائے۔

(النعمان سوشل میڈیا سروسز)

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...