نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 68 : کہ محمد بن مسلمہ نے کہا کہ ابو حنیفہ دجال من الدجاجلہ ہے اس لیے اس کا مذہب مدینہ میں داخل نہیں ہوا


 اعتراض نمبر 68 : 

کہ محمد بن مسلمہ نے کہا کہ ابو حنیفہ دجال من الدجاجلہ ہے اس لیے اس کا مذہب مدینہ میں داخل نہیں ہوا


أخبرنا ابن الفضل، حدثنا علي بن إبراهيم بن شعيب الغازي، حدثنا محمد ابن إسماعيل البخاري، حدثنا صاحب لنا عن حمدويه قال: قلت لمحمد بن مسلمة: ما لرأي النعمان دخل البلدان كلها إلا المدينة. قال: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يدخلها الدجال ولا الطاعون " وهو دجال من الدجاجلة.


الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ مطبوعہ تینوں نسخوں میں پہلی سند میں عبارت اس طرح ہے انبانا ابن الفضل حدثنا على بن ابراهيم بن شعيب حدثنا البخاري ليكن تصور نہیں کیا جا سکتا کہ ایک ہی واسطہ کے ساتھ ابن الفضل کی سند بخاری تک پہنچ جائے اس لیے کہ ابن الفضل کی وفات 415ھ اور بخاری کی وفات 256 ہے تو سند سے کئی نام ساقط ہیں۔ 

اور درست وہی ہے جو ہم نے ذکر کیا ہے جیسا کہ خطیب کی تاریخ کی ص 422 ج 3 اور ص 452 ج 10 سے معلوم ہوتا ہے تو عبارت اس طرح ہوگی  انبانا ابن الفضل حدثنا على بن ابراهيم المستملى حدثنا محمد بن ابراهيم بن شعيب الغازي حدثنا محمد بن اسماعیل البخاری اور امام بخاری کا کہنا کہ ہمارا ایک ساتھی روایت کرتا تھا تو یہ راویت مجہول سے ہے اور اگر وہ ساتھی بخاری کی شرط کے مطابق ہوتا جس سے وہ روایت کرتے ہیں تو اس کے نام کی صراحت ضرور کرتے تو یہ انداز اس پر دلالت کرتا ہے که روایت ایسی ہے جس پر اعتماد نہیں۔ اور محمد بن مسلمہ متعصب مسکین ہے۔ جو کوئی بھی ہو۔ بے شک اس کا ثواب ضائع اور اس کا جواب کمزور ہو کر ساقط ہو جاتا ہے۔ پس اس کی کلام کی مخالفت ظاہر ہو جانے کے بعد کسی اور چیز کی طرف ضرورت ہی نہیں رہتی کیونکہ یقینی طور پر اس نے اعتراف کیا ہے کہ جو شخص مدینہ منورہ میں داخل ہو گیا تو وہ دجالوں میں سے نہیں ہے۔ اللہ تعالی اس مدینہ منورہ کے شرف کو اور زیادہ کرے۔

اور بے شک ابو حنیفہ نے پچپن کے قریب حج کیے اور مدینہ منورہ میں بے شمار دفعہ داخل ہوئے اور امام مالک ان سے مسجد نبوی میں فقہ کا مذاکرہ کرتے تھے۔

 ابن ابی العوام نے احمد بن محمد بن سلامه - جبرون بن سعید بن یزید - ایوب بن عبد الرحمن ابو هشام - محمد بن رشید جو کہ ابن القاسم کا ساتھی اور سحنون سے عمر رسیدہ تھا۔ یوسف بن عمرو عبد العزيز الدراوردی یا ابن ابی سلمہ کی سند نقل کر کے کہا کہ دراوردی یا ابن ابی سلمہ نے کہا کہ میں نے ابو حنیفہ اور مالک بن انس کو رسول الله ﷺ کی مسجد میں عشاء کی نماز کے بعد دیکھا کہ وہ دونوں تکرار کرتے اور پڑھتے پڑھاتے تھے یہاں تک کہ جب ان دونوں میں سے کوئی کسی بات میں شک کرتا جو اس کے صاحب نے کہی ہوتی تو دوسرا ناک چڑھائے اور غصہ کیے بغیر اور خطا کار قرار دیے بغیر دلیل پیش کرتا یہاں تک کہ وہ دونوں صبح کی نماز اپنی اسی جگہ میں ادا کرتے۔ 

اور اس کے قریب قریب الصیمری کی عبارت ہے۔ 

اور امام مالک نے بہت سے مسائل میں بلکہ اکثر مسائل میں اس کے ساتھ موافقت کی ہے۔ بلکہ ان کے پاس ابو حنیفہ سے حاصل کیے گئے مسائل میں سے ساٹھ ہزار مسائل تھے جیسا کہ الدراوردی نے ان سے روایت کی ہے [1] اور پہلے گزر چکا ہے کہ امام شافعی نے کتاب الام ص 248 ج 7 میں کہا اور بے شک میں نے الدراوروی سے پوچھا کہ کیا اہل مدینہ میں سے کوئی ہے جس نے یہ قول کیا ہو کہ ربع دینار سے کم مہر نہیں ہوتا تو اس نے کہا نہیں اللہ کی قسم میں، مالک سے پہلے اس نظریہ کا کوئی آدمی نہیں جانتا اور الدراوردی نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ نظریہ امام مالک نے ابو حنیفہ سے لیا ہے۔ الخ

 اور ابو حنیفہ کے اصحاب اور اصحاب کے اصحاب زمانہ در زمانہ مدینہ میں داخل ہوتے رہے اور وہاں اپنی فقہ کی نشر و اشاعت کرتے رہے۔ 

اور تمام طبقات (علماء قراء اور تاجر حضرات ) میں حرمین کے اندر کتنے ہی اس کے اصحاب تھے اور مدینہ منورہ میں ابو حنیفہ کے اصحاب جن کا ذکر صرف ابن ابی العوام کی کتاب میں ہے، ان کی تعداد کوئی کم نہیں ہے اور اسی طرح ہی معاملہ تمام طبقات میں رہا تو کیا اس جیسے آدمی کو اور اس جیسے ساتھیوں کو کہا جا سکتا ہے کہ وہ دجال تھے اسی لیے وہ مدینہ میں داخل نہیں ہوئے۔ 

اور یہ تو چمکتے دن میں سورج کا انکار ہے۔

 اور ہم آہستہ سے اس متعصب بیہودہ گو سے کان میں بات کر کے پوچھتے ہیں کہ اگر تو ابو حنیفہ کے کلام کو دجالوں کا کلام شمار کرتا ہے تو تیری رائے اپنے امام کے بارہ میں کیا ہے جس نے ابو حنیفہ کے کلام کو بہت سی جگہوں میں لیا ہے بلکہ اس کی فقہ کا تو تانا ہی ابو حنیفہ کی فقہ ہے۔ 

پس اگر تجھے اس سے انکار ہے تو یقینا اختلافی کتابوں میں اس کی تفصیل پائے گا اور اس کثرت سے اس پر دلائل ہیں کہ ہر جانب سے تجھ پر سانس لینا دشوار ہو جائے گا۔

 اور تجھے ذلیل ہو کر اس کا اعتراف کرنا ہی پڑے گا اور خلاصہ یہ ہے کہ بے شک اس متعصب نے خود جو قاعدہ وضع کیا ہے اس کے مطابق اس نے اعتراف کر لیا کہ بے شک ابو حنیفہ اور اس کے اصحاب اور اس کے اصحاب کے اصحاب دجال نہیں ہیں اس لیے کہ بے شک وہ مدینہ منورہ میں داخل ہوتے رہے ہیں اور نہ ہی ان کی فقہ دجالوں کا وسوسہ ہے۔

 اس لیے کہ وہ قدیم زمانہ سے اس کو اپنا وطن بنائے ہوئے ہیں۔ اور اس گھٹیا کلام کو زبان پر لانا اور اس کو کتابوں میں لکھنا جبکہ اس کا گھٹیا ہونا ثابت ہے تو یہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ مخالف انتہائی گھٹیا آدمی ہے۔ 

اور بے شک قدریہ کے ایک گروہ نے مدینہ کو امام مالک کے زمانہ میں اپنا وطن بنائے رکھا۔

 ان میں سے ابراہیم بن محمد بن ابی یحیی الاسلمی بھی ہے جس کے بارہ میں کتب جرح والوں نے ہر قسم کی مذمت کی ہے اور وہ امام مالک کے متعلق ہر قسم کی برائی کہتا تھا۔ 

بے شک اس کا علم وہاں پھیلا اور اس سے امام شافعی نے علم حاصل کیا جیسا کہ انہوں نے امام مالک سے حاصل کیا۔

 اور اس کے باوجود صحیح نہیں کہ ان میں سے کسی کے بارہ میں کہا گیا ہو کہ بے شک وہ دجال ہے بلکہ دجال وہ ہے جو اس نادانی اور بے وقوفی کے ساتھ دین کے اماموں کے بارہ میں کلام کرتا ہے۔

 اور دوسری سند[2] میں جو محمد بن الحسن ہے وہ النقاش المفسر المقری ہے جو مشہور کذاب اور مشہور مجسم ہے (یعنی اللہ تعالی کے لیے جسم ماننے والے گروہ میں سے ہے) اور ابو رجاء المروزی کی کلام منقطع ہے۔ اور اس نے مرو کی تاریخ میں منکر قسم کی عجیب باتیں درج کی ہیں[3]


امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔

[1]۔ دیکھیں الاجماع شمارہ 14 ص 59

[2]۔أخبرني محمد بن الحسين الأزرق، أخبرنا محمد بن الحسن بن زياد المقرئ أن أبا رجاء المروزي أخبرهم قال: قال حمدويه بن مخلد: قال محمد بن مسلمة المديني - وقيل له: ما بال رأي أبي حنيفة دخل هذه الأمصار كلها، ولم يدخل المدينة؟ قال: لأن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " على كل نقب من أنقابها ملك يمنع الدجال من دخولها " وهذا من كلام الدجالين فمن ثم لم يدخلها. والله أعلم.

[3]۔یہ روایت سخت ضعیف ہے کیونکہ

پہلی سند میں دو راوی مجہول ہیں

1۔امام بخاری رحمہ اللہ کا شیخ مجہول ہے 

2۔ حمدویہ بن مخلد بھی مجہول ہیں۔

جبکہ دوسری سند میں محمد بن الحسن بن زیاد المقرئی النقاش مشہور کذاب اور منکر روایتیں نقل کرنے والا ہے  (سیر اعلام النبلاء 15/574)   اور اس سند میں بھی حمدویہ بن مخلد مجہول ہیں ۔

 لہذا سند کے اعتبار سے یہ روایت کمزور ترین ہے جس سے فقیہ ملت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ پر اعتراض کرنا باطل ہے۔

اور عجیب بات ہے جو متعصب سلفی شیخ مقبل بن ھادی الوداعی اور ایک اور سلفی محقق أبو عبد الله أحمد بن إبراهيم بن أبي العينين نے حمدویہ کا تعین محمد بن ابان بن وزیر سے کیا ہے جو کہ اسماء الرجال کے علم سے نا واقفی اور تعصب کا نتیجہ ہے کیونکہ 

اول تو ایک سند میں صراحتا حمدویہ بن مخلد لکھا ہوا ہے ، 

دوم یہ کہ محمد بن مسلمہ المدینی کے تلامذہ میں محمد بن ابان بن وزیر نامی کوئی شاگرد نہیں لیکن حمدویہ بن مخلد نامی شاگرد موجود ہے۔

سوم یہ کہ ابو رجاء المروزی کے شیوخ میں محمد بن ابان بن وزیر نہیں البتہ حمدویہ بن مخلد ضرور ہے ۔

چہارم یہ کہ اگر حمدویہ سے مراد محمد بن أبان ہے تو امام بخاری نے اس سے بلا واسطہ روایت کیوں بیان نہیں کی ؟. کسی مجہول شیخ کے واسطہ سے روایت کیوں لی ہے ؟ کیونکہ محمد بن أبان ثقہ ہیں اور حمدویہ مجہول تو ، امام بخاری نے جان بوجھ کر سند خود ہی کیوں ضعیف کی ؟ جبکہ کم واسطوں سے وہ سند صحیح ہو سکتی تھی جس میں شیخ مجہول نہ ہوتا ، معلوم ہوا کہ 

حمدویہ سے مراد حمدویہ بن مخلد مجہول راوی ہے ۔

لہذا سلفی و غیر مقلد کذابوں کا امام اعظم پر ہر قسم کا اعتراض ، امام صاحب کو مجروح کرنے کی ہر ناپاک کوشش بالکل اسی طرح مردود ہے جس طرح سلفی و غیر مقلد اپنی ذات میں مردود و مجروح ہیں۔


اور امام صاحب کا مذہب اور ان کے مقلدین مدینہ میں اس قدر تھے کہ جن کا شمار مشکل ہے ، صرف خلافت عثمانیہ میں ہی لاکھوں حنفی مدینہ منورہ کی مبارک سرزمین میں آباد تھے ۔ 

قارئین مزید تفصیل کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ پر اعتراض نمبر 68۔


-----------------------------------------------------------

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے دوران حج واقعات : 


نا عبد الوارث بن سفيان قال نا قاسم بن اصبغ قال نا احمد ابن زهير قال نا سليمان بن أبي شيخ قال نا أبو سفيان الحميري قال قال ابن شبرمة كنت شديد الازراء على أبى حنيفة فحضر الموسم وكنت حاجا يومئذ فاجتمع عليه قوم يسألونه فوقفت من حيث لا يعلم من أنا فجاءه رجل فقال يا أبا حنيفة قصدتك أسألك عن امر قد أهمنى واعجزنى قال ما هو قال لي ولد ليس لي غيره فان زوجته طلق وان سريته اعتق وقد عجزت عن هذا فهل من حلة فقال له للوقت اشتر الجارية التي يرضاها هو لنفسك ثم زوجها منه فان طلق رجعت مملوكتك إليك وان اعتق اعتق ما لا يملك قال فعلمت ان الرجل فقيه فمن يومئذ كففت عن ذكره الابخير 

(الانتقاء ص 153 ، نسخہ ابو غدہ ص 300 ، اسنادہ حسن )


مزید تفصیل کیلئے دیکھیں الموسوعہ الحدیثیہ لمرویات الامام ابی حنیفہ ، ج 11 ص 54 


امام ابو حنیفہ مدینہ میں : 

امام صاحب نے بہت سے مدنی شیوخ سے علم حاصل کیا ہے اور امام صاحب کے مذہب کے کتنے ہی افراد مدینہ میں داخل ہوئے ، اور نہیں تو صرف امام محمد رحمہ اللہ ہی کو دیکھ لیں جن سے امام شافعی رحمہ اللہ نے اونٹوں کے بوجھ جتنا علم حاصل کیا ۔


حدثني أبي قال: حدثني أبي قال: حدثني أحمد بن محمد بن سلامة قال: ثنا جبرون بن سعيد بن يزيد قال: ثنا أيوب بن عبد الرحمن أبو هشام قال: حدثني محمد بن رشيد صاحب عبد الرحمن بن القاسم، وكان أسن من سحنون، عن يوسف بن عمرو، عن عبد العزيز الدراوردي أو ابن أبي سلمة قال: رأيت أبا حنيفة ومالك بن أنس في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد صلاة العشاء الآخرة وهما يتذاكران ويتدارسان، حتى إذا وقف أحدهما على القول الذي قال به أمسك الآخر عن غير تعنيف ولا تمعير ولا تخطئة، حتى يصليا الغداة في مجلسهما ذلك.

( فضائل ابی حنیفہ لابن ابی العوام ت بہرائچی ص 103 )


-----------------------------------------------------







امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

تفصیل کے لیے قارئین دیکھیں :  "النعمان سوشل میڈیا سروسز"  کی ویب سائٹ پر موجود


اعتراض نمبر 1 : امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ   نے   امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب:  اسلامی تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ و علم میں ایسی بے مثال شخصیت تھے جن کی عظمت اور مقام پر محدثین و فقہاء کا بڑا طبقہ متفق ہے۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر بعد کے ادوار میں چند محدثین بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح منقول ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے امام الحدیث جیسے جلیل القدر عالم، امام اعظم جیسے فقیہ ملت پر کلام کرتے نظر آتے ہیں؟ تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے بارے میں زیادہ تر وہی روایات پہنچیں جو ضعیف، منقطع یا من گھڑت تھیں، اور یہ روایات اکثر ایسے متعصب یا کمزور رواة سے منقول تھیں جنہیں خود ائمہ حدیث نے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ یہی جھوٹی حکایات اور کمزور اساتذہ کی صحبت امام بخاری کے ذہن میں منفی تاثر پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ اس مضمون میں ہم انہی اسباب کو تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ امام ابو حنیفہ پر ا...