اعتراض نمبر 36:
کہ حماد بن ابی سلیمان نے ابو حنیفہ کو مشرک کہا اور اس کے مذہب سے بیزاری ظاہر کی۔
أخبرنا محمد بن عبيد الله الحنائي، والحسن بن أبي بكر، ومحمد بن عمر القرشي قالوا: أخبرنا محمد بن عبد الله الشافعي، حدثنا محمد بن يونس، حدثنا ضرار بن صرد قال: حدثني سليم المقرئ، حدثنا سفيان الثوري قال: قال لي حماد بن أبي سليمان: أبلغ عني أبا حنيفة المشرك أني بريء منه حتى يرجع عن قوله في القرآن.
أخبرنا الحسين بن شجاع، أخبرنا عمر بن جعفر بن سلم، حدثنا أحمد بن علي الأبار، حدثنا عبد الأعلى بن واصل، حدثنا أبو نعيم - ضرار بن صرد - قال: سمعت سليم بن عيسى المقرئ قال: سمعت سفيان بن سعيد الثوري يقول: سمعت حماد بن أبي سليمان يقول: أبلغوا أبا حنيف المشرك أني من دينه بريء إلى أن يتوب. قال سليم: كان يزعم أن القرآن مخلوق
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ خلق قرآن کا نظریہ تو حماد بن ابی سلیمان کی وفات کے بعد رونما ہوا جیسا کہ علماء کی صراحت سے پہلے بیان ہو چکا ہے[1]۔
اور پہلی خبر کی سند میں محمد بن یونس الکدیمی متکلم فیہ راوی ہے[2]۔ تفصیل کے لیے دیکھیں میزان الاعتدال[3]۔
اور اس کا راوی ضرار بن صرد ہے وہ نعیم الطحان ہے جس کے بارے میں ابن معین نے کہا کہ بیشک وہ کذاب ہے[4] ۔
اور سلیم بن عیسیٰ القاری قراءت میں تو امام تھا مگر حدیث میں ضعیف تھا[5]۔ اور قراء میں کتنے ہی اس طرح کے ہیں۔
اور ثوری سے منکر خبر روایت کی گئی ہے جس کو العقیلی نے نقل کیا[6] ہے اور اس کے راویوں میں ضرار اور سلیم بھی موجود ہیں ۔
اور وہ روایت جو بخاری نے خلق افعال کی بحث کے آغاز میں کی ہے کہ ابو فلاں مشرک کو پیغام دے دے کہ بیشک میں اس کے دین سے بیزار ہوں [7] واللہ اعلم کہ اس ابو فلاں سے کون مراد ہے؟ آپ ان راویوں کو دیکھیں کہ انہوں نے دونوں خبروں میں ابو فلاں کی جگہ ابو حنیفہ کر دیا۔ اور روایت کے متن میں کلام قرآن کے بارے میں کر دیا۔ اور دوسری خبر سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیشک وہ سلیم کا کلام ہے تو راویوں نے اس کو متن میں درج کر دیا ہے۔ اور اللہ تعالی کو ہر کا خالق مانے سے شرک کہاں لازم آتا ہے؟ اور قرآن کریم کے الفاظ کو مخلوق کہنا تو شرک نہیں کہلاتا۔ پس سبحان اللہ کیسے ابو حنیفہ کو حماد سے دور شمار کیا جا رہا ہے جو کہ حماد کے علم کو پھیلانے والے تھے ؟ اور کیسے سفیان ثوری کو حماد کا قاصد ابو حنیفہ کی طرف شمار کیا جا رہا
ہے؟ اللہ تعالی اسی طرح رسوا کرتا ہے ان لوگوں کو جو دین کے ائمہ کے بارے میں نازیبا کلام ارادہ کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی دونوں خبروں کا حال آپ کو معلوم ہو گیا۔[8]
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[2]۔ الأسم : محمد بن يونس بن موسى بن سليمان بن عبيد بن ربيعة بن كديم
الشهرة : محمد بن يونس الكديمي , الكنيه: أبو العباس
النسب : البصري, الكديمي, القرشي, السامي
الرتبة : متهم بالوضع
[3]۔ 8353 - محمد بن يونس بن موسى القرشي السامي الكديمي البصري الحافظ أحد المتروكين
(ميزان الاعتدال - الذهبي - ج ٤ - الصفحة ٧٤)
[4]۔ الأسم : ضرار بن صرد
الشهرة : ضرار بن صرد التيمي , الكنيه: أبو نعيم
الرتبة : متروك الحديث
الجرح والتعدیل :
محمد بن إسماعيل البخاري : متروك الحديث
مصنفوا تحرير تقريب التهذيب : ضعيف جدا، الوحيد الذي حسن الرأي فيه هو أبو حاتم
نور الدين الهيثمي : ضعيف جدا
يحيى بن معين : كذاب
[5]۔سليم بن عيسى بن سليم بن عامر بن غالب
الشهرة : سليم بن عيسى المقرئ , الكنيه: أبو محمد, أبو عيسى
النسب : الحنفي, الكوفي
الرتبة : مقبول
[6]۔ 674 سليم بن عيسى مجهول في النقل حديثه منكر غير محفوظ
(ضعفاء العقيلي - العقيلي - ج ٢ - الصفحة ١٦٣)
[7]۔ خلق أفعال العباد والرد على الجهمية وأصحاب التعطيل ت: عميرة صفحہ 29
[8]۔ ایسی ہی ایک اور روایت امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ الکبیر میں ذکر کی ہے۔
2198 - سليم بن عيسى القارئ الكوفي، سمع الثوري وحمزة الزيات، روى عنه أحمد بن حميد وضرار بن صرد، قال لي ضرار بن صرد حدثنا سليم سمع سفيان: قال لي حماد بن أبي سليمان أبلغ أبا حنيفة المشرك أني برئ منه، قال: وكان يقول: القرآن مخلوق
(التاريخ الكبير - البخاري - ج ٤ - الصفحة ١٢٧)
اس کی سند میں ضرار بن صرد (متروک الحدیث) اور سلیم (منکر) موجود ہیں لہذا یہ بھی باطل
روایت ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں