حضرت عمرؓ اور حضرت زبیر بن العوامؓ کو عورتوں کامسجد جانا پسند نہیں تھا
ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 2
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین کیلئے الاجماع (PDF ) دیکھیں
معتبرروایات سے ثابت ہے کہ حضرت عمرؓ اور حضرت زبیر ابن العوامؓ
کو عورتوں کا نماز کے لئے مسجد جانا پسند نہیں تھا۔
امام بخاریؒ (م۲۵۶ھ)
فرماتے ہیں کہ:
’’حدثنا
یوسف بن موسیٰ، حدثنا ابو الاسامہ، حدثنا عبید اللہ بن عمرعن نافع عن ابن عمرؓ
قال: کانت امرأۃ لعمر تشھد صلاۃ الصبح والعشاء فی الجماعۃ فی المسجد، فقیل لھا:
لم تخرجین وقد تعلمین ان عمر یکرہ ذلک ویغار؟
قالت: وما یمنعہ قول رسول اللہ ﷺ: لا تمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ۔‘‘
حضرت
عبدا للہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہاکہ حضرت عمرؓ کی ایک بیوی عشاء اور فجر
کے وقت مسجد جاکر جماعت میں شریک ہوتی تھی، ان سے کہا گیا: آپ (نماز کے لئے ) مسجد
کیوں جاتی ہیں؟ جب کہ آپ کے باہر نکلنے پر حضرت عمرؓ کو غیرت آتی ہے، انہوں (یعنی
حضرت عمرؓ کی اہلیہ نے )جواب دیا کہ اگر میرا مسجد میں جانا حضرت عمر ؓ کو ناپسند ہے)
تو مجھے روک دینے سے انہیں کون سی چیز مانع ہے؟ ان سے گفتگو کرنے والے نے کہا کہ :حضور
ﷺ کا ارشاد: اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث: ۹۰۰)
نوٹ: مصنف عبد الرزاق میں موجود امام زہریؒ کی (مرسل)
روایت میں ذکر ہے کہ وہ حضرت عاتکہ بنت زید تھیں۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
’’عبد
الرزاق عن معمر، عن الزھری، ان عاتکۃ بنت زید بن عمرو بن نفیل وکانت تحت عمربن
الخطاب وکانت تشھد الصلا فی المسجد، وکان عمرؓ یقول لھا: واللہ انک لتعلمین ما
أحب ھذا؟ فقالت: واللہ لا انتھی حتی تنھانی، قال: انی لا أنھاک، قالت: فلقد طعن
عمر یوم طعن، وانھا لفی المسجد۔‘‘ (مصنف عبد الرزاق رقم
الحدیث: ۵۱۱۱،
واسنادہٗ صحیح، مرسل)
وضاحت:
حضرت
عمربن الخطابؓ حالات کے بدلنے اور فتنے کے خوف سے رات میں بھی عورتوں کے مسجد جانے
کو پسند نہیں کرتے تھے، جیسا کہ ان روایات سے ظاہر ہے ، لیکن حضرت عمرؓ کی اہلیہ عاتکہ
بنت زیدؓ کا خیال تھا کہ ابھی حالات اس درجہ نہیں بگڑے ہیں کہ مسجد جانے میں فتنے کا
اندیشہ ہو۔
اس
لئے وہ اپنی ذات اور رائے پر اعتماد کرتے ہوئے جماعت میں شریک ہوتی رہتی تھیں، لیکن
بعد میں انہیں بھی احساس ہوا کہ اب مسجد جاکر نماز پڑھنے کا زمانہ نہیں رہا تو انہوں
نے مسجد جانا ترک کردیا۔
ائمہ
حدیث نے ان کا واقعہ تفصیل سے یوں بیان فرمایا ہے کہ:
’’حضرت
فاروقِ اعظمؓ کی یہ اہلیہ جن کا ذکر اس روایت میں ہے وہ مشہور صحابی سعید بن زیدؓ جو
کہ عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں ان کی بہن حضرت عاتکہ بنت زیدؓ ہیں،یہ پہلے حضرت صدیقِ اکبرؓ
کے بیٹے عبداللہؓ کے نکاح میں تھیں،حضرت عبداللہؓ کی شہادت کے بعد حضرت عمرؓ نے ان
کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا، حضرت عاتکہؓ نے تین شرطوں پر اپنی رضامندی ظاہر کی:
(۱) مجھے
زدوکوب نہیں کروگے۔ (یعنی مجھے نہیں ماروگے)
(۲) حق
بات سے منع نہیں کروگے۔
(۳) مسجدِ
نبویﷺ میں جاکر عشاء (اور فجر) کی نماز ادا کرنے سے نہیں روکو گے۔
حضرت
عمرؓ نے ان شرطوں کو منظور کر لیا اور انہوں نے حضرت عاتکہؓ سے نکاح کر لیا۔اور حضرت
عاتکہؓ حضرت عمرؓ کی شہادت تک ان کے نکاح میں رہی۔
حضرت
فاروقِ اعظمؓ کی شہادت کے بعد حضرت زبیر ابن العوامؓ جو کہ عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں
انہوں نے حضرت عاتکہؓ کے پاس پیغامِ نکاح بھیجا، حضرت عاتکہؓ نے ان کو بھی وہی تین
شرطوں کے ساتھ اپنی رضامندی ظاہر کی، حضرت زبیر ابن العوامؓ نے بھی ان شرطوں کو قبول
کر لیا اور ان سے نکاح کر لیا۔
حضرت
عاتکہؓ معمول کے مطابق مسجد جاکر نماز باجماعت ادا کرنے کا ارادہ کیا تو یہ بات حضرت
زبیر ابن العوامؓ پر شاق گزری(یعنی ان کو برا لگا)جس پر حضرت عاتکہؓ نے کہا:
کیا
ارادہ ہے؟
(یعنی
شرط کی خلاف ورزی کرکے) کیا آپ مجھے مسجد جانے سے روکنا چاہتے ہیں۔
(حضرت
زبیرؓ خاموش ہوگئے اور وہ مسجد جاتی رہیں) پھر جب حضرت زبیر ؓ پر صبر دشوار ہوگیا(اور
برداشت کی قوت جواب دینے لگی، اس لئے کہ وہ فتنے اور فساد کو دیکھ رہے تھے)تو شرط کا
لحاظ رکھتے ہوئے (صراحتاً تو انہیں مسجد جانے سے منع نہیں کیا، البتہ ایک لطیف تدبیر
کے ذریعہ حضرت عاتکہؓ کو اس بات کا احساس دلایا کہ اب زمانہ مسجد جاکر نماز ادا کرنے
کا نہیں رہا، چنانچہ) ایک شب (رات) حضرت عاتکہؓ کے گھر سے نکلنے سے پہلے حضرت زبیرؓ
جاکر راستے میں ایک جگہ چھپ کر بیٹھ گئے، اور جب حضرت عاتکہؓ وہاں سے گزریں تو پیچھے
سے ان کی کمر کے نیچے ہاتھ مارکر نکل گئے،اس انجان حرکت سے حضرت عاتکہؓ کو گھبراہٹ
ہوئی اور تیزی کے ساتھ وہاں سے بھاگ نکلیں۔
اس
واقعہ کی اگلی شب میں اذان کی آواز ان کے کانوں تک پہنچی مگر وہ اپنے معمول کے خلاف
مسجد جانے کی تیاری کرنے کے بجائے بیٹھی رہیں تو حضرت زیبرؓ نے پوچھا:
خیریت
تو ہے؟ اذان ہوگئی اور تم بیٹھی ہو؟
حضرت
عاتکہؓ نے جواب میں کہا کہ : لوگوں میں بگاڑ
آگیا ہے۔(اب زمانہ مسجد جاکر نماز ادا کرنے کا نہیں رہا) پھر کبھی مسجد جانے کے لئے
گھر سے نہیں نکلیں۔ اس واقعہ کو تفصیل سے امام ابن عبدالبر(م۴۶۳ھ) نے
اپنی کتاب’’التمہید‘‘ میں بیان فرمایا ہے:
جس کی سند یوں ہے:
’’اخبرنا
احمدبن عبداللہ بن محمد و احمد بن سعید بن بشر قالا: حدثنا مسلمۃ بن القاسم قال،
حدثنا احمد بن عیسی المقری المعروف بابن الوشا، قال حدثنا محمد بن ابراھیم بن زیاد
مولی بن ھاشم قال: حدثنا ابراھیم بن عبداللہ الھروی، قال حدثنا رجل من اھل المدینۃ
یقال لہ محمد بن مجبر عن زید بن اسلم وعبد الرحمن بن القاسم عن ابیہ۔‘‘
(التمھید:ص۴۰۴،۴۰۷ج۲۳)
سند کے راویوں کی تحقیق درج ذیل ہے:
(۱) حافظ
امام ابن عبدالبرؒ (م۴۶۳ھ)
مشہور امام، ثقہ اور حافظ المغرب ہیں۔ ( سیر اعلام النبلاء:ص۱۵۳ج۱۸، تاریخ الاسلام)
(۲) امام
ابو عمر احمد بن عبداللہ بن محمد ابن الباجیؒ (م۳۹۶ھ) ثقہ ہیں، امام قاسم بن
قطلوبغاؒ نے ’’کتاب الثقات‘‘ میں شمار کیا ہے۔
(کتاب الثقات للقاسم:ص۳۸۲ج۱)
اسی
طرح امام ابن عبد البرؒ نے امام ابن الباجیؒ کا متابع ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں اسی
روایت کو محدث احمد بن سعید بن بشرؒ (م۳۹۲ھ) سے بھی سنا ہے، اور محدث احمد بن سعید بن
بشرؒ بھی حسن درجے کے راوی ہیں ، جس کی تفصیل تاریخ الاسلام ص۷۱۰ ج۸ پر
موجود ہے۔
لہٰذا
دونوں راوی ثقہ ہیں۔
(۳) امام
مسلمہ بن قاسم ؒ(م۳۵۳ھ)
بھی ثقہ راوی ہیں۔
اگرچہ
امام ذہبیؒ نے آپ کو ضعیف کہاہے : لیکن امام ابن حجر عسقلانیؒ امام ذہبیؒ کا رد کرتے
ہوئے فرماتے ہیں کہ امام مسلمہؒ بڑے مقام والے (امام ) ہیں ، ان کو صرف ان کے دشمنوں
نے ہی تشبیہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ امام ابن حزمؒ (م۴۵۶ھ)
نے ان کو کثیر السماع کثیر الحدیث کثیر الروایۃ اور علم کے بہت زیادہ جامع قرار دیا
ہے۔ (لسان المیزان:ص ۴۳ج۲) امام
ابو عبداللہ بن ابی نصر الحمیدی (م۴۸۸ھ)
نے آپ کو ’’اندلس کا محدث‘‘ قرار دیا ہے،
اور ابو جعفر الظبیؒ (۵۹۹ھ)
بھی فرماتے ہیں کہ آپؒ ’’اندلس کے محدث ہیں۔‘‘
(جذوۃ المقتبس: ص۳۴۶، بغیۃ الملتمس:ص۴۶۳)
لہٰذا
آپؒ بھی ثقہ ہیں۔
(۴) احمد
بن عیسیٰ المقری جو کہ ابن الوساؒ کے نام سے مشہور ہیں ان سے دو راویوں نے روایت کیا
ہے۔
i - امام ابن عدیؒ (م۳۶۵ھ)
جو کہ مشہور ثقہ امام اور ائمہ جرح وتعدیل میں سے ہیں۔[1]
ii - حافظ محمد بن عبداللہ
ابو الحسین الرازی ؒ (م۳۴۷ھ)
بھی ثقہ ہیں۔ (تاریخ الاسلام : ج۷ص ۸۵۷)
معلوم
ہواکہ احمد بن عیسیٰ المقریؒ سے دو ثقہ راویوں نے روایت کی ہے اور آپ کا ترجمہ لسان
المیزان:ج۱ص۵۷۲ پر
موجود ہے۔
معلوم
ہوا کہ ان سے دوثقہ راویوں نے روایت کیاہے،اور اصول گزچکا کہ جس راوی سے دو یا دو سے
زیادہ راوی روایت کریں تو وہ مجہول نہیں بلکہ مقبول ہوتا ہے۔
لہٰذا یہ راوی مقبول ہوئے۔نیزامام ابن حبانؒ نے ان سے روایت
لے کر انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔ (المجروحین:ص۱۸۲ج۲) کیونکہ
غیر مقلدین کے نزدیک اصول ہے کہ ابن حبانؓ صرف ثقہ ہی سے روایت کرتے تھے۔ (اتحاف النبیل: ص۱۱۷ج۲) ثابت
ہوا کہ غیر مقلدین کے اصول میں امام ابن حبانؒ کے نزدیک احمد بن عیسیٰ المقریؒ ثقہ ہیں۔
پھر امام مسلمہ ابن القاسمؒ
فرماتے ہیں:
’’کتبت
عنہ حدیثا کثیراً وکان جامعا للعلم وکان اصحاب الحدیث یختلفون فیہ فبعضھم یوثقہ
وبعضھم یضعفہْ‘‘
میں
نے ان سے بہت سی احادیث لکھی ہے، اور وہ علم میں جامع (پختہ) تھے اور اصحاب المحدثین
یعنی محدثین ان کے بارے میں اختلاف کر تے تھے، بعض ان کو ثقہ قرار دیتے تھے اور بعض
انہیں ضعیف قرار دیتے تھے۔ (کتاب
الصلہ للمسلمہ، بحوالہ لسان المیزان:ج۱ص۵۷۱)[2]
وضاحت:
یہ قول بتا رہا ہے کہ امام
مسلمہ بن قاسمؒ کے نزدیک احمد بن عیسیٰؒ
مختلف فیہ راوی ہے اور مختلف فیہ
راوی کی روایت غیر مقلدین کے نزدیک حسن درجہ کی ہوتی ہے۔(خیر الکلام : ص ۲۳۸)[3]
(۵) امام
محمد بن ابراھیم بن زیادؒ بھی ثقہ راوی ہیں۔
(کتاب الثقات للقاسم:ص۱۰۱ج۸)
(۶) ابراہیم
ابن عبداللہ الھرویؒ (م۲۴۴ھ)بھی
ثقہ راوی ہیں۔ (اکمال تہذیب الکمال: ج۱ص۲۲۹)
(۷) حسین
بن بشیرؒ (م۱۸۳ھ)
بھی صحیحین کے راوی ہیں ، اور ثقہ مضبوط ہیں۔ (تقریب ، رقم:۷۳۱۲)
(۸) محمد
بن عبدالرحمن ابن المجبرؒ بھی ثقہ ہیں۔
آپ
کی توثیق درج ذیل ہے:
(الف) امام احمدبن حنبلؒ (م۲۴۱ھ)نے آپ کو ثقہ قرار دیا
ہے، (المنتخب من العلل للخلال: ص۸۶)
(ب) امام حاکمؒ (م۴۰۵ھ)
فرماتے ہیں کہ محمدبن عبدالرحمن بن المجبر ثقہ ہیں ، نیز ان کی روایت کو صحیح بھی قرار
دیا ہے۔
(ج) امام ذہبیؒ (م۷۴۸ھ)
نے بھی ان کی روایت کو شیخین کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔ (المستدرک: ص۳۲۳ج۱، رقم الحدیث:۷۴۱)
(د) امام ہشیم بن بشیرؒ نے آپ سے روایت کی ہے،
غیر مقلدین کے نزدیک امام ہشیمؒ صرف ثقہ سے روایت کرتے تھے۔ (اتحاف النبیل:ص۸۴، ۱۲۲ج۲)
ثابت
ہوا کہ امام ہشیمؒ کے نزدیک بھی آپؒ ثقہ ہیں۔ [4]
(۸) امام
زید بن اسلمؒ (م۱۳۶ھ)
صحیح کے راوی ہیں اور ثقہ، عالم ہیں۔ (تقریب، رقم: ۲۱۱۷)
اسی
طرح امام زید بن اسلمؒ کے متابع میں ایک اور راوی امام عبد الرحمن بن القاسمؒ (م۱۲۶ھ)
ہیں اور وہ بھی صحیحین کے راوی ہیں ، اور ثقہ ، جلیل ہیں ۔ (تقریب، رقم:۳۹۸۱)
(۹) اسلمؒ
(م۶۰ھ)مشہور
مخضرم، ثقہ راوی ہیں۔ (تقریب، رقم:۴۰۶)
معلوم
ہوا کہ اس کے سارے راوی صدوق ہیں اور اس کی سند حسن ہے۔ واللہ
اعلم
وضاحت:
ان
روایات سے معلوم ہوا کہ حضرت عمربن الخطابؓ اور حضرت زبیر ابن العوامؓ کو عورتوں کا
مسجد جانا پسند نہیں تھا، کیونکہ انہوں حضورﷺ کے بعد عورتوں میں جو خرابیاں اور فساد
آیا گیا تھا اس کو پہلے سے ہی محسوس کر لیا تھا، اسی وجہ سے ان دونوں حضرات نے عورتوں
کا مسجد جانا پسند نہ کیا۔
حضورﷺ کے ارشاد کی وجہ سے ہی صحابہ کرامؓ
نے عورتوں کو مسجد میں آنے سے روکا تھا
حضورﷺ کے ارشاد کی وجہ سے
ہی صحابہ کرامؓ نے عورتوں کو مسجد میں آنے سے روک دیاتھا، کیونکہ حضورﷺ نے عورتوں
کو جہاں مسجد آنے کی اجازت دی وہاں ان کے لئے کچھ شرائط بھی بتائے ہیں کہ جب وہ مسجد
میں آئیں تو ان شرائط کا لحاظ رکھیں، ان شرائط کی تفصیل ص : ۱۶۲ موجود ہے۔
حضورﷺ کی مقرر کی ہوئی شرائط
کی خلاف ورزی پر خود آپ ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا تھا کہ وہ خواتین کو مسجد میں آنے
سے روکیں۔
لہٰذا اب وہ احادیث ملاحظہ
فرمائیں جن میں حضور ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو حکم دیا کہ عورتیں اگر مسجدشرائط کی پابندی
نہ کریں تو انہیں مسجد میں آنے نہ دیں۔
روایت نمبر ۱ :
ام المؤمنین حضرت عائشہؓ (م۵۸ھ)
بیان کرتی ہیں کہ:
قالت:
بینما رسول اللہ ﷺجالس فی المسجد، اذ دخلت امرأۃ من مزینۃ ترفل فی زینۃ لھا فی
المسجد فقال النبی ﷺ: یاایھا الناس! انھوا نساء کم عن لبس الزینۃ والتبختر فی
المسجد، فان بنی اسرائیل لم یلعنوا حتی لبس نساء ھم الزینۃ، وتبخترن فی المساجد۔‘‘
حضورﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ قبیلہ مزینہ کی ایک عورت
خوبصورت کپڑوں میں مزین ناز ونخرے کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئی(اس کی یہ ناپسندیدہ کیفیت
دیکھ کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اے لوگو! اپنی عورتوں کو زینت سے آراستہ ہوکر اور خوش رفتاری
کے ساتھ مسجد میں آنے سے روکو، بنی اسرائیل اسی وقت ملعون کئے گئے جب ان کی عورتیں
سج دھج کر ناز ونخرے سے مسجدوں میں آنے لگیں۔
(سنن بن ماجہ، رقم الحدیث:۴۰۰۱،واسنادہٗ حسن)[5]
وضاحت:
غور فرمائیں ! حضور ﷺ اس روایت کوصحابہ کرامؓ کو حکم دے رہے ہیں
کہ عورتوں کوزینت کے ساتھ آنے سے روکو۔
آگے حضرت عائشہؓ کی روایت
سلف صالحین کی تفسیر کے ساتھ آرہی ہے کہ عورتوں نے حضور ﷺ کی وفات کے بعدحضور ﷺ کی
شرائط کی مخالفت کی تھی اور زینت کے ساتھ مسجد کو آنے لگیں تھیں، جس کی وجہ سے صحابہ
کرامؓ نے حضور ﷺ کے ارشاد ہی کی وجہ سے عورتوں کو مسجد مٰں آنے سے روک دیاتھا۔
روایت نمبر ۲ :
حضرت
ابو ہریرہؓ (م۵۹ھ)
سے روایت ہے کہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ایماامرأۃ
اصابت بخوراً فلاتشھد معنا العشاء الآخرۃ۔‘‘ جس
عورت نے بھی خوشبو کی دھونی لی ہوتو وہ ہمارے ساتھ عشاء کی جماعت میں حاضر نہ ہو۔ (صحیح
مسلم:ج۱ص۳۲۸)
لیجئے ! خود آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو عورت خوشبو لگائے ہوئے
ہوتو وہ مسجد کو ہی نہ آئے۔
اور موسیٰ بن یسار کی روایت ہے کہ:
’’
مرت بأبی امرأۃ وریحھا تعصف، فقال لھا: الیٰ این تریدین یا امۃ الجبار؟ قالت:
الی المسجد،قال تطیبت؟ قالت: نعم،قال: فارجعی فاغتسلی، فانی سمعت رسول اللہ ﷺ
یقول: لا یقبل اللہ من امراۃصلاۃ خرجت الی المسجد وریحھا تعصف حتی ترجع فتغتسل۔‘‘
حضرت ابو ہریرہؓ کے قریب سے ایک عورت گزری اور خوشبو اس
کے کپڑوں سے مہک رہی تھی، حضرت ابو ہریرہؓ نے پوچھا کہ اے خدائے جبارکی بندی ! کہاں
کا ارادہ ہے؟
اس نے کہا : مسجد کا۔
ابوہریرہؓ نے پوچھا : تونے خوشبو لگارکھی ہے؟
اس نے کہا: ہاں۔
حضرت ابو ہریرہؓ نے کہا: لوٹ
جا، اور اسے دھو ڈال، کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی عورت
کی نماز قبول نہیں کرتا جو اس حالت میں مسجد کے لئے نکلے، کہ خوشبو اس کے کپڑوں سے
مہک رہی ہو۔ (صحیح بن خزیمۃ، رقم الحدیث:۱۶۸۲،والحدیث
صحیح)
اس حدیث میں بھی حضرت ابو
ہریرہ نے اس خاتون کو مسجد آنے سے روک دیا، کیونکہ اس نے حضورﷺ کی شرائط کی مخالفت
کی تھی۔ اور
پھر حضرت ابو ہریرہؓ نے حضور ﷺ کی تنبیہ نقل فرمائی۔
روایت نمبر ۳ :
حضرت
عائشہؓ (م۵۸ھ)
کا ارشاد :
ام المؤمنین حضرت عائشہؓ
(م۵۸ھ)
بیان کرتی ہیں کہ:
’’
لو ادرک رسول اللہ ﷺ ما احدث النساء لمنعھن کما منعت نساء بنی اسرائیل۔‘‘
عورتوں نے زیب وزینت اور خوبصورتی
کی نمائش کا جو طریقہ ایجاد کر لیا ہے، اگر رسول اللہ ﷺاسے ملاحظہ کر لیتے تو انہیں
مسجدوںسے ضرور روک دیتے ، جیسے بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں۔ (صحیح بخاری:رقم
الحدیث: ۸۶۹)
اعتراض:
رئیس احمد سلفی اس قول کو
حضرت عائشہؓ کا ذاتی قول قرار دیتے ہیں اور محض ادھر اُدھر کی بکواس کی ہیں۔ (سلفی
تحقیقی جائزہ:۷۹۴)
الجواب:
اگر کوئی اپنے مسلک کا اندھی
تقلید میں حضرت عائشہؓ کا قول سمجھ نہیں پارہا ہے تو ہم سلف صالحین کی تفسیر کو پیش
کرتے ہیں تاکہ وہ حضرت عائشہؓ کے ارشاد کا مفہوم سمجھ جائے۔
(۱) امام
ابن رجبؒ(م۷۹۵ھ)فرماتے
ہیں: کہ
’’تشیر
عائشۃؓ الی النبی ﷺ کان یرخص فی بعض مایرخص فیہ حیث لم یکن فی زمنہ فساد، ثم یطرأ
الفساد ویحدث بعدہ، فلو أدرک ما حدث بعدہ لما استمر علی الرخصۃ بل نھی عنہ، فانہ
انما یامر بالصلاح، وینھی عن الفساد۔‘‘
حضرت عائشہؓ اس بات کی طرف
اشارہ کررہی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے بعض چیزوں کی اجازت دی تھی، اس حیثیت سے کہ آپ ﷺ
کے زمانے میں (عمومی اعتبار سے) فساد نہیں تھا۔ پھر آپ ﷺ (کی وفات) کے بعد
فساد عام ہورہاہے، اور (مزید فساد) پیدا ہورہا ہے۔
لہٰذا اگر آپ ﷺ وہ چیزیں
جو آپ کے بعد پیدا ہوئی ہیں پا لیتے (یعنی حضورﷺ کی شرائط کے معاملہ میں کوتاہی کرنا،
جس سے فساد ہورہا تھا)تو آپ اجازت پر قائم نہ رہتے، بلکہ اس سے (یعنی عورتوں کو مسجد
آنے سے)روک دیتے، کیونکہ آپ ﷺ اچھی بات کا حکم دیتے اور بری بات سے روکتے تھے۔ (فتح
الباری لابن رجب:ص۴۱ج۸)
معلو م ہوا کہ حضرت عائشہؓ
حضور کے وفات کے بعد عورتوںکو مسجد آنے کے لئے جو شرائط حضور ﷺ نے متعین کی تھی، ان
میں عورتوں کی کوتاہیوں اور لاپرواہیوں کی طرف اشارہ فرما رہی ہیں، جس سے فساد برپا
ہور ہا تھا۔
اور جب عورتیں حضور ﷺ کی مقرر
کی ہوئی شرطوں میں کوتاہی کیں تو آپﷺ نے صحابہ کرامؓ کو حکم دیا تھا کہ وہ عورتوں
کو مسجد آنے سے روک دیں، یہی وجہ ہے کہ عورتوں کی اس حالت کو دیکھ کر حضرت عائشہؓ
بھی فرماتی ہیں کہ عورتوں نے زیب و زینت اور خوبصورتی کی نمائش کا جو طریقہ ایجاد کر
لیا ہے اگر رسول اللہ ﷺاسے ملاحظہ کر لیتے توانہیں مسجدوں سے ضرور روک دیتے۔
(۲) حافظ
ابن حجر عسقلانیؒ (م۸۵۲ھ)فرماتے
ہیں:
ویتاکد
ذلک بعد وجود ما احدث النساء من التبرج والزینۃ ومن ثم قالت عائشۃ ماقالت۔‘‘
(شرائط کا لحاظ نہ کرنے کی وجہ سے) عورتوں میں
آرائش وجمال اور مردوں کے سامنے جلوہ آرائی کی بری رسم کے پیداہونے کے بعد ان کے
لئے مسجد کے بجائے گھروں میں نماز ادا کرنے کا حکم مزید مؤکد ہوجاتا ہے، (اس لئے کہ
انہوں نے حضور ﷺ کے شرائط کی پابندی نہیں کی جس کی وجہ سے ان کی مسجد میں حاضرہونے
کی اجازت باقی نہیں رہی)۔
حضرت عائشہؓ نے اپنے ارشاد
(کہ اگر حضور ﷺ کے عہد مبارک میں عورتوں کی اس بری رسم کا ظہور ہوگیا ہوتا تو آپ ﷺ
انہیں مسجد میں آنے سے روک دیتے، اس)میں اس حالت کے بدلنے کی وجہ سے حکم کے بدلنے
کی بات کہی ہے۔
یعنی حافظؒ کہنا چاہتے ہیں
کہ عورتوں شرائط کی پابندی کے سلسلے میں کوتاہی کی بری رسم کی وجہ سے ان کا مسجد جانے
کا حکم بدل گیا، اسی بات کی خبر حضرت عائشہؓ نے دی تھی۔ (فتح الباری لابن حجر:ص۳۴۹ج۲)
اس سے بھی معلوم ہورہا ہے
کہ حضور ﷺ کے بعد عورتوں سے شرائط کی خلاف ورزی ہوئی تھی، اسی بات کا ذکر حضرت عائشہؓ
نے دیا ہے۔
(۳) امام
ابن الجوزیؒ (م۵۹۷ھ)
فرماتے ہیں: کہ
’’انما
اشارت عائشۃ بما احدث النساء من الزینۃ واللباس والطیب ونحو ذلک مما یخاف منہ
الفتنۃ۔‘‘
حضرت عائشہؓ نے اپنے فرمان
سے ان چیزوں کی طرف اشارہ کیا جنہیں عورتوں نے (حضورﷺکی وفات کے )بعدمیں ایجاد کر لیا۔ مثلاً زینت، لباس، خوشبو اور
(اسی طرح) ان چیزوں کو جن سے فتنے کا خوف ہے۔
(کشف المشکل لابن الجوزی:ص۳۶۷ج۴)
(۴) حافظ
ابن دقیق العیدؒ (م۷۰۹ھ)نے
بھی حضرت عائشہؓ کے قول سے زینت کے وہ نئے نئے طریقے جو عورتوں نے ایجاد کر لئے تھی
اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے، اوراس سے منع بھی کیا ہے۔ (احکام الاحکام:ص:۱۹۷ج۱)
(۵) امام
بدرالدین العینیؒ (م۸۵۵ھ)
فرماتے ہیں:
’’قولہ:
ما احدث النساء فی محل النصب علی انہ مفعول ادرک أی ما احدثت من الزینۃ والطیب
وحسن الثیاب ونحوہ۔‘‘
حضرت عائشہؓ نے (حضور ﷺ کے
دور کے بعد) اپنے زمانے میں عورتوں کے جن نئے پیدا شدہ حالات کا ذکر کیا ہے، اس سے
(مراد)زیب وزینت، خوشبو اور خوبصورت لباس کا باہراستعمال کرنا ہے۔ (عمدۃ القاری:ص۱۵۸ج۶)
یہی وجہ ہے کہ بعض محدثین
نے حضرت عائشہؓ کے فرمان کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا کہ عورتوں میں جب خرابی پیدا ہوجائے
یعنی جب ان سے حضورﷺ کی مقرر کی ہوئی شرائط کی خلاف ورزی ہو تو ان کا مسجد جانا درست
نہیں ہے۔
(۶) امام
ابن بطالؒ (م۴۴۹ھ)
فرماتے ہیں:
’’اما
حدیث عائشۃ ففیہ دلیل لا ینبغی ان یخرجن الی المساجد اذا حدث فی الناس الفساد۔‘‘
جہاں تک حضرت عائشہؓ کا ارشاد
ہے تو اس میں دلیل ہے کہ جب عورتوں میں بگاڑ پیدا ہوجائے (یعنی شرائط میں کوتاہی کی
وجہ سے اس میں فتنہ اور بگاڑ پیدا ہوجائے) تو پھر ان کا مسجدوں میں جانا درست نہیں
ہے۔ (شرح بخاری لابن بطال: ص۴۷۱ج۲)
(۷) امام
عراقیؒ نے بھی امام ابن بطالؒ کا ارشاد نقل کیاہے، اور علی زئی صاحب کے اصول کے مطابق
امام عراقیؒ نے ابن بطالؒ کی تائید فرمائی
ہے۔ (طرح التثریب فی شرح التقریب:ص۳۱۵ج۲، انوار الطریق:ص:۸)
(۸) امام
کرمانیؒ (م۷۸۶ھ)
نے بھی یہی بات فرمائی ہے کہ:
’’فیہ دلیل انہ لا ینبغی للنساء أن یخرجن الی المساجد اذا حدث فی الناس
الفساد۔‘‘
حضرت عائشہؓ کے ارشاد میں دلیل ہے کہ عورتوں میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو پھر
ان کا مسجدوں میں جانا درست نہیں ہے۔ (الکواکب
الدراری:ص۲۰۹ج۵)
نوٹ: بعض ائمہ محدثین نے حضرت عائشہؓ کے قول سے خصوصاً
جوان اور خوبصورت عورتوں کو مسجد نہ جانے پر استدلال فرمایا ہے، کیونکہ اکثر جوان اور
خوبصورت عورتیں لباس اور خوشبو اور زینت کی طرح طرح کی چیزیں استعمال کرتی ہیں، جن
سے اکثر حضور ﷺ کی مقرر کی ہوئی شرائط ٹوٹتی اور پامال ہوتی ہیں، اورانہی سے فتنہ برپا
ہوتاہیں۔
چنانچہ
(۹) امام
ابن الملقنؒ (م۸۰۴ھ)
فرماتے ہیں:
’’أما
الیوم فلاتخر الشابۃ ذات الھیئۃ، ولھذا قالت عائشۃؓ: لو رأی رسول اللہ ﷺماأحدث
النساء بعدہ لمنعھن المساجد کما منعت بنی اسرائیل۔‘‘
(لیکن) بہرحال توخوبصورت اور جوان لڑکیاں (مسجد
کے لئے) نہیں نکلیں گی، اس لئے حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ عورتوں نے زیب وزینت اور
خوبصورتی کی نمائش کا جو طریقہ ایجاد کر لیا ہے، اگر رسول اللہ ﷺاس ملاحظہ کرلیتے تو
انہیں مسجدوں سے ضرور روک دیتے، جیسے بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں۔ (التوضیح لابن الملقن: ص۵۱ج۵)
(۱۰) امام
نوویؒ (م۶۷۶ھ)
فرماتے ہیں کہ:
’’اجابوا
عن اخراج ذوات الخدور والمخبأۃ بان المفسدۃ فی ذلک الزمن کانت مامونۃ بخلاف الیوم
ولھذاصح عائشۃؓ لورأی رسول اللہ ﷺمااحدث النساء لمنعھن المساجد کما منعت نساء بنی
اسرائیل۔‘‘
ہمارے اصحاب نے جوان اور پردہ
نشین عورتوں کو مسجد جانے کے تعلق سے جو روایت آئی ہے ان کا جواب دیا ہے، کہ اس زمانے
میں (یعنی حضور ﷺ کے) زمانے میں فساد سے (عموماً) امن تھا ، برخلاف آج کے (یعنی آج
کا دور فساد کا دور ہے) ، اس لئے حضرت عائشہؓ سے صحیح ثابت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ:
عورتوں نے زیب وزینت اور خوبصورتی
کی نمائش کا جو طریقہ ایجاد کر لیا ہے اگر رسول اللہ ﷺ اسے ملاحظہ کر لیتے تو انہیں
مسجدوں سے ضرور روک دیتے، جیسے بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں۔ (شرح صحیح مسلم للنووی:ص۱۷۸ج۶)
الغرض ان تمام ارشادات سے
معلوم ہوا کہ حضرت عائشہؓ حضورﷺ کے وفات کے بعد عورتوں کے مسجد آنے کے معاملہ میں
جو شرائط حضورﷺ نے متعین کی تھی ان میں کوتاہیوں اور لاپرواہیوں کی طرف اشارہ فرما
رہی ہیں، جس سے فساد برپا ہو رہا تھا۔
اور جب عورتیں حضورﷺ کی مقرر
کی ہوئی شرائط میں کوتاہی کریں تو خود آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو حکم دیا تھا کہ وہ عورتوں
کو مسجد آنے سے روک دیں، جیسا کہ احادیث اوپر گذر چکی۔ تو صحابہؓ نے حضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق عورتوں کو مسجد آنے سے روک دیا۔
معلوم ہوا کہ ائمہ محدثین نے حضرت عائشہؓ کا جو معنی و مفہوم لیاہے اسے چھوڑ
کر غیر مقلدین نے محض اپنے مسلک کی اندھی تقلید میں حضرت عائشہؓ کے قول کا رد کر تے
ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ان کا ذاتی قول ہے، جو کہ باطل و مردود ہے۔
حضرت عائشہؓ کا ایک اور ارشاد:
امام احمد ؒ (م۲۴۱ھ)
فرماتے ہیں کہ:
’’حدثنا
الحکم، حدثنا عبد الرحمن بن ابی الرجال، فقال ابی: یذکرہ عن أمہ، عن عائشۃ ، عن
النبیﷺ قال: لاتمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ، ولیخرجن تفلات: قالت عائشۃ: ولو رأی
حالھن الیوم منعھن۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی
بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو، اور وہ گھروں سے اس حالت میں نکلیں کہ ان کے
کپڑوں سے بو آتی ہو۔حضرت عائشہؓ آگے بیان کرتی ہیں کہ اگر حضورﷺ آج کے حالت دیکھ
لیتے تو آپ ﷺ عورتوں مسجد آنے سے روک دیتے۔
(مسند احمد: رقم الحدیث:۲۴۴۰۶، واسنادہ صحیح، ورجالہ
کلھم ثقات)
اس حدیث سے بھی معلوم ہورہا
ہے کہ حضرت عائشہؓ نے حضورﷺ کے وفات کے بعد عورتوں نے حضور ﷺ کی مقرر کی ہوئی شرطوں
کی جو خلاف ورزی کی ہے، اس کا ذکر کر رہی ہیں۔
الغرض ہر لحاظ سے اہل حدیثوں
کا اعتراض مردود ہے۔
اور ہم اس مسئلہ پر اور کیا
کہیں، خود اہلِ حدیث عالم شیخ محمد فاروق رفیع صاحب لکھتے ہیں کہ:
’’اگر عورتیں زیب وزینت کا استعمال کا معمول بنالیں
اور انہیں ڈانٹنے سے وہ ترک نہ کریں، تو ان کے مسجد میں داخلے پر پابندی لگائی جاسکتی
ہے۔ ‘‘ (صحیح بن خزیمہ مترجم :ص۲۱۴ج۳، طبع انصار السنہ لاہور)
یہی بات واقعی ہوئی کہ حضورﷺ
کی وفات کے بعد صحابہ کرامؓ کے زمانے میں عورتوں نے حضورﷺ کی مقرر کی ہوئی شرائط کی خلاف ورزی کا ماحول بنایا
تھا، تو صحابہ کرام ؓ نے ان شرائط کی خلاف ورزی پر تنبیہ کی ، پھر ایک حد تک برداشت
کرنے کے بعد انہیں مسجد کے بجائے گھر ہی میں نماز پڑھنے کا حکم دے دیا۔
اور صحابہ کرامؓ کا حضورﷺ
کی شرائط کی خلاف ورزی کو ایک حد تک برداشت کرنے کا اشارہ حضرت عائشہؓ کی روایت (جو
کہ نمبر(۳) کے
تحت گذر چکی ، اس) سے بھی ملتا ہے۔
کیونکہ حضرت عائشہؓ مستقل
طور پر عورتوں کی کیفیت کو دیکھ رہی تھیں، کہ وہ حضور کی مقرر کی ہوئی شرائط کی کیسی
خلاف ورزی کر رہی ہیں، ایک حد تک برداشت کرنے کے بعد حضرت عائشہؓ کو بھی کہنا پڑا کہ
اگر حضور ﷺ ہوتے تو عورتوں کی بدلی ہوئی حالت کی وجہ سے انہیں مسجد آنے سے روک دیتے۔
معلوم ہوا کہ صحابہ کرامؓ
کا یہ عمل تو خود اہل حدیث حضرات کے علماء کے نزدیک بھی صحیح اور درست ہے۔لیکن ضد
کا کوئی علاج نہیں ہے۔
[1] امام ابن عدیؒ نے ان سے روایت کی ہے اور ان کی تضعیف نہیں کی ۔جو کہ غیر مقلدین کے نزدیک
اس بات کی دلیل ہے کہ امام ابن عدیؒ کی نظر میں یہ راوی ثقہ ہیں۔ (انوار البدر
: ص ۲۲۵) معلوم ہوا کہ یہ راوی ابن
عدی ؒ کے نزدیک بھی ثقہ ہیں
[2] امام مسلمہ ؒ فرماتے
ہیں کہ : ’’انفرد باحادیث انکرت علیہ لم یأت بھا
غیرہ۔‘‘
احمد بن عیسیٰ المقری بعض احادیث میں منفرد ہےجس کی وجہ سے ان احادیث کو منکر قرار
دیا گیا (کیوں کہ) دوسرے لوگوں نے اسن جیسی روایت کو ذکر نہیں کیا ہے۔یہ جرح خود
اہل حدیث حضرات کے اصول کی روشنی میں مردود ہے۔کیونکہ
اول
تو اس کا جارح نا معلوم ہے۔ (مقالات علی زئی)
دوم
محض روایت میں اکیلے ہونے سے راوی کا ضعف ثابت نہیں ہوتا۔
سوم
اہل حدیثوں کے نزدیک منکر روایت نقل کرنے سے
کسی راوی کا ضعف ثابت نہیں ہوتا ، جیسا کہ کفایت اللہ سنابلیؒ کہتے ہیں: (مسنون تراویح: ص۲۳؍۲۴) لہٰذا یہ
عبارت ’’جرح‘‘ ہی نہیں۔
[3] یہ بھی یاد رہے کہ غیر مقلدین کے نزدیک
’’جرح‘‘ غیر مفسر مردود ہے، اس کے مقابلہ میں تعدیل مقدم ہے۔ چنانچہ اہلِ حدیث عالم
ابو شعیب داؤد ارشاد صاحب لکھتے ہیں ہیں کہ ’’جرح غیر مفسر‘‘ کی بالمقابل بالمشابہ
(یعنی جرح غیر مفسرکے مقابلے میں) تعدیل معتبر ہے۔ (دین الحق:ج ۱ص۶۷) جلال الدین قاسمی صاحب لکھتے
ہیں کہ جرح مبہم کے مقابلے میں تعدیل مقبول ہے۔
(احسن الجدال: ص۹۲)
اور
صرف کسی راوی کوضعیف کہنا، یہ خود اہل حدیثوں کے نزدیک ’’جرح غیر مفسر‘‘ ہے، دیکھئے
(تعدادِ قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ: ص۴۳، انوار المصابیح: ص۱۰۷)
لہٰذا
اگر کسی غیر مقلد نے احمد بن عیسیٰ المقریؒ کو ضعیف کہا بھی ہے تو وہ جرح مبہم ہونے
کی وجہ سے خود اہل حدیثوں کے نزدیک مردود ہے، اور گزارش ہے کہ احمد بن عیسیٰ کے تعلق
سے جرح مفسر پیش کی جائے، ورنہ تسلیم کریں کہ یہ راوی حسن درجے کے ہیں، جیسا کہ تفصیل
اوپر گذر چکی۔
[4]
محمد بن المجبرؒ پر
’’جرح‘‘ کا جواب:
محمد بن عبدالرحمن بن المجبرؒ
پر جتنے جرح موجود ہیں، وہ سب کے سب جرح غیر مفسر اور مبہم ہیں۔
ابن معینؒ کی طرف منسوب حرح:
ابن معینؒ فرماتے ہیں کہ
: ’’لیس بشئی‘‘ ان کا کوئی مقام نہیں۔ الجواب: ابن
معینؒ کا کسی راوی کو لیس بشئی کہنا یہ غیر مقلدین کے نزدیک حرح ہی نہیں ہے، جیسا کہ
کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں۔ (مسنون تراویح:ص
۲۲) جب یہ جرح ہی نہیں
تو پھر اس سے راوی کا ضعیف ہونا کیسے ثابت ہوگا؟
امام نسائیؒ امام فلاسؒ وغیر ہ کی جرح:
امام نسائیؒ فرماتے ہیں کہ
ابن مجبرؒ متروک ہیں۔ امام فلاسؒ کہتے ہیں کہ ضعیف ہیں۔
الجواب: پہلے بات آچکی ہے کہ خود
غیر مقلدین کے نزدیک جرح غیر مفسر مردود ہے۔ اور کسی راوی کو صرف متروک یا ضعیف کہنا
اہل حدیثوں کے نزدیک ہی جرح مباح ہے۔ زبیر علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ صرف ضعیف متروک
یا منکر الحدیث کہہ دینا جرح مفسر نہیں ہے۔
(تعداد رکعات قیامِ رمضان:ص۴۳) اور
جرح غیر مفسر کے بارے میں غیر مقلدوں کے شیخ الاسلام ابوالقاسم بنارسی صاحب لکھتے ہیں
کہ جو جرح غیر مفسرہو وہ مقبول نہیں، اس پر تعدیل مقدم ہوگی۔ (دفاعِ صحیح بخاری:ص۱۵۱) اہل
حدیث عالم ابو شعیب داؤد ارشد صاحب بھی یہی کہتے ہیں کہ جرح مفسر پر تعدیل مقدم ہے۔ (دین الحق:ص۶۷ج۱) جلال
الدین قاسمی صاحب لکھتے ہیں کہ جرح مبہم کے مقابلے میں تعدیل مقبول ہوگی۔ (احسن الجدال :ص۹۲)
تو
پھر یہ سب جرح بھی توثیق کے مقابلے میں خود اہلِ حدیثوں کے اصول کے مطابق مردود ہے۔
امام بخاریؒ کی جرح کا جواب:
امام بخاریؒ فرماتے ہیں کہ
ان کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی۔
الجواب: یہ
جرح بھی اہل حدیثوں کے اصول کی روشنی میں مردود ہے۔ رفع الیدین کی روایت کے ایک راوی
پر امام ابن ابی حاتمؒ نے جرح کی جس کا جواب دیتے ہوئے زبیر علی زئی صاحب نے کہا کہ ابو حاتم کا قول
’’اس میں کلام کیا گیا ‘‘ کئی لحاظ سے مردود ہے۔
اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
(۱) یہ
جرح غیر مفسر ہے۔
(۲) اس
کا جارح نا معلوم ہے، (یعنی کسنے کلام کیا ہے، اس کا ذکر نہیں ہے) ۔ (نور العینین :ص۱۲۱)
زبیر علی زئی صاحب کے جواب کی روشنی میں امام بخاریؒ کی
یہ جرح کہ: ان کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی ہے‘‘ کا جواب بھی سن لیں:
(۱) یہ
جرح غیر مفسر ہے، کیونکہ کس وجہ سے خاموشی اختیار کی گئی ، اس کا ذکر نہیں ہے۔
(۲) اس
کا جارح نامعلوم ہے ( یعنی کس نے خاموشی اختیار
کی اس کا بھی اتا پتہ نہیں۔)
الغرض
یہ جرح بھی غیر مقلدوں کے اپنے اصولوں کی روشنی میں مردود ہے۔
اور
ثابت ہوا( خصوصاً اہل حدیث حضرات کے اصول کی روشنی میں ) کہ محمد بن المجبرؒ ثقہ ہیں
، اور ان پر کوئی جرح غیر مفسر نہیں ہے ، جن سے ان کا ضعیف ہونا ثابت ہوتا ہو۔
[5] اس روایت کے حسن ہونے کی تفصیل ص : ۱۵۸
پر موجود ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں