ایک حجام (نائی) اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے واقعہ کی تحقیق۔
سوال
ایک واقعہ مشہور ہے جسکی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
حضرت امام ابوحنیفہ رحمه اللہ جب حج سے لوٹے اور ملاقاتیوں نے حج کے احوال دریافت کئے تو انہوں نے فرمایا:
مجھ سے مناسک میں پانچ غلطیاں ہوئیں اور وہ پانچوں ایک نائی نے درست کروائیں.
لوگ چونکے اور اسکی تفصیل پوچھی تو فرمایا کہ جب میں سر منڈوانے کے لئے نائی کے پاس گیا اور اس سے پوچھا:
١. سر مونڈنے کے کتنے پیسے لوگے؟
اس نے مجھے ٹوکتے ہوئے کہا: اللہ تمہیں ہدایت دے.. مناسک میں بھاؤ تاؤ ناجائز ہے، بیٹھو جو جی کرے دے دینا. میں شرمندہ ہو کر بیٹھ گیا تو اس نے پھر ٹوکا:
٢. یہ کیسے بیٹھے ہو؟ اپنا رُخ قبلے کی جانب کرو.
میں مزید شرمندہ ہوا اور رُخ قبلے کی طرف کرکے سر اس کے آگے کیا تو بائیں جانب آگے کردی. اس نے پھر ٹوکا اور کہا:
٣. بائیں نہیں، دائیں جانب آگے کرو.
میں نے دائیں جانب آگے کردی، اس نے کام شروع کردیا اور میں چپ چاپ بیٹھا رہا. یہ دیکھ کر اس نے پھر ٹوکا:
٤. چپ کیوں بیٹھے ہو، تکبیرات پڑھو.
جب وہ فارغ ہوگیا تو میں پیسے دے کر روانہ ہوگیا. مجھے جاتا دیکھ کر اس نے پوچھا:
٥. کدھر جا رہے ہو؟
میں نے بتایا: اپنے خیمے میں… تو اس نے کہا: خیمے میں بعد میں جانا، پہلے جاکر دو نفل پڑھو.
امام صاحب نے زچ ہو کر پوچھا: آپ یہ سب کیسے جانتے ہیں؟ نائی نے کہا کہ میں یہاں حرم میں حضرت عطاء ابن ابی رباح رحمه اللہ کے درس کا مستقل شریک رہا ہوں.
الجواب :
یہ واقعہ مختلف کتب میں منقول ہے، بعض کتب میں پانچ مسائل کا تذکرہ ہے بعض میں تین.
واقعہ کی اسنادی حیثیت :
روایت نمبر 1۔
امام ابن جوزی حنبلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں
أخبرنا أبو المعمر الأنصاري، أنبأنا جعفر بن أحمد، أنبأنا أبومحمد الخلال، أنبأنا أحمد بن محمد بن القاسم الرازي، حدثنا أحمد بن محمد الجوهري، أنبأنا إبراهيم بن سهل المدائني، حدثني سيف بن جابر القاضي، عن وكيع، قال: قال لي أبوحنيفة النعمان بن ثابت رضي الله عنه: أخطأت في خمسة أبواب من المناسك، فعلمنيها حجام، وذلك أني حين أردت أن أحلق رأسي وقف علي حجام، فقلت له: بكم تحلق رأسي؟ فقال: أعراقي؟ قلت: نعم. قال: النسك لا يشارط عليه، اجلس. فجلست منحرفا عن القبلة، فقال لي: حوّل وجهك إلى القبلة. فحولته، وأردت أن أحلق من الجانب الأيسر، فقال: أدر الشق الأيمن من رأسك، فأدرته، وجعل يحلق وأنا ساكت، فقال: كبر. فجعلت أكبر حتى قمت لأذهب، فقال: إلى أين تريد؟ قلت: رحلي. قال: صل ركعتين، ثم امض. فقلت: ما ينبغي أن يكون ما رأيت من عقل هذا الحجام. فقلت: من أين لك ما أمرتني به؟ فقال: رأيت عطاء بن أبي رباح يفعل هذا.
( مثیر العزم الساکن الی اشرف الاماکن ، باب الحلاق والتقصیر ، روایت نمبر 122 ، صفحہ 127)
سند کی تحقیق :
1۔ راوی أحمد بن محمد بن القاسم الرازي کا ترجمہ نہیں مل سکا ، اگر کوئی یہ کہے کہ أحمد بن محمد بن القاسم الرازي سے مراد ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﻘﺎﺳﻢ ﺑﻦ ﻋﻄﻴﺔ (جس کی کنیت ﺃﺑﻮﺑﻜﺮ ہے) تو یہ ناممکن ہے ، کیونکہ اسکی وفات 261ھ یا 270ھ میں ہوئی یا ان دس سالوں کے درمیان۔ جبکہ سند میں مذکور جس ابو محمد الخلال نے روایت لی ان کی پیدائش 350ھ ہے۔
2۔ راوی إبراهيم بن سهل المدائني سے مراد إبراهيم بن سهل المدائني الكاتب ہے ، خطیب بغدادی نے بغیر کسی جرح و توثیق کے اس کا ترجمہ نقل کیا ہے۔ لہذا راوی کی توثیق نا معلوم ہے۔
(تاریخ بغداد ت بشار عواد 6/626)
3۔راوی أَحْمَد بْن مُحَمَّد بْن عَبْد اللَّه، أَبُو بَكْر الجوهري مستور/مجہول الحال ہے ۔
(تاریخ الاسلام ت عمر عبدالسلام جلد 25 صفحہ 87)
4۔راوی سیف بن جابر القاضی کو خود غیر مقلد مجہول کہتے ہیں۔
لہذا یہ سند انتہائی ضعیف ہے ۔

روایت نمبر 2۔
ثم رأيت الدوري قال في تاريخ ابن معين (٣/٤٧٥): سمعت يحيى يقول: قال أبو حنيفة: تعلمت من حجام بمكة ثلاثة أشياء: قعدت قدامه فقلت احلق شق الأيسر فقال: ابدأ بالأيمن، وقال الحجام استقبل القبلة، وقال لي :الحجام ابلغ إلى العظمين بالحلق ۔
جواب :
امام یحیی بن معین رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ملاقات ہی ثابت نہیں ،کیونکہ امام یحیی بن معین رحمہ اللہ کی پیدائش امام صاحب کی وفات کے بعد ہے ۔ لہذا یہ روایت بھی درست نہیں
روایت نمبر 3۔
سمعت الحميدي يقول قال أبو حنيفة قدمت مكة فأخذت من الحجام ثلاث سنن لما قعدت بين يديه قال لي استقبل القبلة فبدأ بشق رأسي الأيمن وبلغ إلى العظمين، قال الحميدي فرجل ليس عنده سنن عن رسول الله صلى الله عليه و سلم ولا أصحابه في المناسك وغيرها كيف يقلد أحكام الله في المواريث والفرائض والزكاة والصلاة وأمور الإسلام۔
امام بخاری کہتے ہیں کہ میں نے حمیدی کو یہ کہتے ہوئے سنا انہوں نے کہا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں میں مکہ آیا تو میں نے حجام سے تین سنتیں سیکھی کہ میں اس کے سامنے بیٹھا تو اس نے مجھے کہا قبلے کی طرف منہ کرو ، پھر اس نے میرے سر کے دائیں طرف سے شروع کیا اور استرا ہڈیوں تک پہنچایا۔
حمیدی نے کہا ایسا آدمی جس کے پاس مناسک وغیرہ کی سنتیں نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہیں نہ صحابہ سے تو وہ میراث ، فرائض ،زکوۃ ،نماز اور دیگر امور اسلام میں کیسے اس کی تقلید کی جائے گی۔
[التاريخ الصغير 2/ 43]۔
جواب :
یہ روایت من گھڑت ہے کیونکہ امام حمیدی رحمہ اللہ نے تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو نہ دیکھا ہے نہ ان سے کچھ سماع کیا ہے ۔ امام حمیدی کی پیدائش ، امام صاحب کی وفات کے بعد ہے۔ لہذا یہ روایت بھی مردود ہے۔

اشکال :
احناف سے چڑ رکھنے والا ایک غیر مقلد مولوی عبدالرحمان مبارکپوری کہتا ہیکہ امام ابن حجر فرماتے ہیں کہ یہ قصہ مشہور ہے اور ابن جوزی نے اپنی سند سے اس کو نقل کیا ہے جو سند وکیع تک پہنچتی ہے.
وَهِيَ مَشْهُورَةٌ، أَخْرَجَهَا ابْنُ الْجَوْزِيِّ فِي مُثِيرِ الْعَزْمِ السَّاكِنِ بِإِسْنَادِهِ إلَى وَكِيعٍ عَنْہ
جواب :
امام ابن جوزی رحمہ اللہ کی مذکورہ سند ضعیف راویوں سے منقول ہے ، واقعہ کی مشہورگی سے واقعہ درست نہیں ہو جاتا ، درست یہی ہے کہ اس یہ واقعہ حاسد کا من گھڑت ہے۔
اسی لئے امام العصر محدث علامہ محمد انور شاہ محدث کشمیریؒ لکھتے ہیں
هذه الحكاية ثبوتها لا يعلم
( العرف الشذی 2/270)
کہ اس واقعے کے ثبوت کا کوئی (قطعی) علم نہیں.
اشکال :
بعض فقہاء حنفیہ نے بھی اس واقعہ کو نقل کیا ہے اور درست سمجھا ہے ۔
جواب : ممکن ہے اس وقت ان کے پاس کتب اسماء الرجال وغیرہ موجود نہ ہوں ، کیونکہ وہ زمانہ آج کل کی طرح جدید نہ تھا ، اس وجہ سے انہوں نے صرف آئمہ پر اعتماد کرتے ہوئے اس واقعہ کو نقل کر دیا ، اور وہ فقہاء کرام امام صاحب سے حسن ظن رکھنے والے ، امام صاحب سے عقیدت و محبت رکھنے والے تھے نہ کہ غیر مقلدوں کی طرح امام ابو حنیفہ سے بغض و حسد کی آگ میں جلے ہوئے کوئلے۔ بالفرض اگر اس واقعہ کو صحیح مان بھی لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ امام صاحب کے بچپن کا واقعہ ہو گا لیکن معترض پر لازم ہیکہ وہ پہلے سندا ثابت کرے۔
واقعہ کی روایات کا جائزہ اصول درایت کی روشنی میں:
اس منگھڑت واقعہ کی اسنادی حیثیت واضح ہونے کے بعد اب ہم اس کی درایتی تحقیق پیش کرتے ہیں۔
1۔ روایت نمبر 2 کے مطابق امام حمیدی رحمہ اللہ نے ان باتوں کو مناسک حج میں سے قرار دیا ہے۔
اس روایت سے قطع نظر کیا حمیدی رح ان باتوں کو مناسک حج سمجھتے ہیں؟؟؟
اگر مناسک حج میں سے سمجھتے تھے تو اس بات پر حمیدی رح کی طرف سے ایک حدیث پیش کی جائے کہ حاجی کا بال کٹواتے ہوئے قبلہ رخ ہونا مناسک حج میں سے ہے۔
2۔ اعتراض کا لب لباب یہ ہے کہ اس بات کو سیکھنے سے پہلے امام صاحب کو یہ بات نہیں پتہ تھی۔
تو دنیا کا کون سا آدمی ہے جس کو سیکھنے سے پہلے ہی پتہ ہوتا ہے ؟
رہا حجام سے سیکھنے پر اعتراض کرنا ، تو نہ تو یہ اہل علم کے شایان شان ہے اور نہ ہی حجام سے حجامت کے متعلق کوئی سنت سیکھنا کوئی عیب کی بات ہے ۔ کیونکہ جو آدمی جس فن کا ہوتا ہے اس کے پاس بڑے علماء بھی آتے رہتے ہیں۔ تو اہل علم اسے اس کے فن کے متعلق سنتیں سکھا دیتے ہیں بلکہ اس خود ساختہ روایت ہی کے بعد طرق کے اندر ہے کہ یہ باتیں حجام نے عطاء رحمۃ اللہ علیہ سے سیکھی تھیں۔ تو روایت اور حمیدی کے استدلال میں تعارض ہو گیا
3۔ کیا کوئی صاحب علم اگر ایک بات نہ جانتا ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی بات بھی نہیں جانتا؟
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ جمعہ کے دن فجر کی نماز میں سورہ سجدہ اور سورہ دہر پڑھنے کی سنت کو نہیں جانتے تھے۔
اب حمیدی صاحب کو امام مالک کے بارے میں بھی یہی کہنا چاہیے تھا۔
خلاصہ کلام :
یہ واقعہ سندا ثابت نہیں ، اس واقعہ کی تمام سندیں ضعیف ہیں ۔
النعمان میڈیا سروسز
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں