نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مرجئہ اہل سنت اور مرجئہ اہل بدعت - امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر جرح: ایک تحقیقی جائزہ



مرجئہ اہل سنت اور مرجئہ اہل بدعت 

  امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر جرح: ایک تحقیقی جائزہ 

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


ایک بہت اہم موضوع جو کافی زیر بحث رہتا ہے وہ ہے ارجاء کا... اور اس کے قائل یعنی مرجئہ کا... کیونکہ لوگوں کو اس کی زیادہ تفصیل معلوم نہیں اس لیے بے علمی میں لوگ اس پر اعتراض اور بحث کرتے ہیں۔۔۔ اس لیے آج ہم ارجاء اور اس کی تفصیل دیکھیں گے اور جانیں گے کہ مرجئہ اہل سنت اور مرجئہ اہل بدعت میں کیا فرق ہے... اور لوگ کس طرح بے علمی میں مرجئہ اہل بدعت والے اعتراض مرجئہ اہل سنت پر بھی کرتے ہیں...

ارجاء کی تعریف: ارجاء کا اصل معنی ہے تاخیر اور مہلت دینا... جیسا کہ علامہ محمد بن عبدالکریم شہرستانی رحمۃ اللہ علیہ اس کے تعلق سے لکھتے ہیں – ارجاء کے 2 معنی ہیں: - (1) تاخیر کرنا قرآن میں ہے قالوا ارجه واخاه (انہوں نے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی کو مہلت دے) یعنی ان کے بارے میں فیصلہ کرنے میں تاخیر سے کام کرنا چاہیے، انہیں مہلت دینی چاہیے۔..

(2) امید دلانا (یعنی یہ بھروسہ دینا کہ ایمان لانے کے بعد گناہ نقصان نہیں دیتے [جیسا کہ مرجئہ اہل بدعت کا کہنا ہے])

(3) کچھ کے نزدیک ارجاء یہ بھی ہے کہ گناہ کبیرہ کرنے والے کا فیصلہ قیامت پر چھوڑ دیا جائے اور دنیا میں اس کے لیے جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ نہ کیا جائے (جیسا کہ مرجئہ اہل سنت کا کہنا ہے)

(4) کچھ کے نزدیک ارجاء یہ بھی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پہلے خلیفہ کے بجائے 4 خلیفہ قرار دیا جائے... (الملل و النحل 137)

تو اس لحاظ سے جو لوگ کبیرہ گناہ کرنے والے کا فیصلہ اللہ اور قیامت پر چھوڑ دیتے ہیں کہ اللہ چاہے تو معاف کردے اور جنت میں بھیج دے یا سزا دے کر جہنم میں ڈال دے، وہ سب مرجئہ (اہل سنت) ہیں... اس لیے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر محدثین کو مرجئہ کہا گیا ہے... جیسا کہ حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: پھر رہے کہ قونوی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو مرجئہ کہا جاتا تھا کیونکہ وہ کبیرہ گناہ کرنے والے کا فیصلہ اللہ کی رضا پر چھوڑ دیتے ہیں... اور ارجاء کے معنی کی موخر (تاخیر) کرنے کے ہیں۔۔۔ (شرح فقہ الاکبر 64)

تو معلوم ہوا کہ مرجئہ اپنے میں بھی 2 طرح کے لوگ ہیں... ایک مرجئہ اہل بدعت جن کے بارے میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: پھر مرجئہ مذمومہ بدعتی قدریہ سے الگ ایک فرقہ ہے، جن کا عقیدہ یہ ہے کہ ایمان لانے کے بعد کوئی کبیرہ گناہ نقصان دینے والا نہیں جیسا کہ کفر کے بعد کوئی نیکی فائدہ مند نہیں، ان کا ماننا ہے کہ مسلمان جیسا بھی ہو اسے کبیرہ گناہ کے لیے عذاب نہیں دیا جائے گا... بس اس ارجاء (اہل بدعت) اور اس ارجاء (اہل سنت [امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ]) میں کیا نسبت ؟ (شرح فقہ الاکبر 65)

جبکہ مرجئہ اہل سنت یعنی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ: اور ہم یہ نہیں کہتے کہ مومن کے لیے گناہ مضر (نقصان دہ) نہیں اور نہ ہم اس کے قائل ہیں کہ مومن بالکل جہنم میں داخل نہیں ہوگا اور نہ یہ کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اگرچہ فاسق ہو دنیا سے ایمان کی حالت میں نکلا ہو... اور نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہماری تمام نیکیاں مقبول ہیں اور تمام گناہ معاف ہیں جیسا کہ مرجئہ (اہل بدعت) کا عقیدہ ہے۔۔۔ (فقہ الاکبر 227-234)

اس وضاحت سے مرجئہ اہل سنت اور اہل بدعت کے عقیدہ کا صاف واضح فرق پتہ چل گیا اور ایک اہم بات معلوم ہوئی کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ خود مرجئہ (اہل بدعت) کے عقیدہ کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ ان کے خلاف (صحیح) عقیدہ رکھتے ہیں۔۔۔

اب رہی یہ بات کہ پھر امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو مرجئہ کیوں کہا گیا اور محدثین نے ان پر اعتراض کیوں کرا... تو بات دراصل یہ ہے کہ ایک تو محدثین کو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدہ سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی ہے اور دوسرا یہ کہ مرجئہ (اہل بدعت) اپنے فرقے کی نسبت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف کرتے تھے (تاکہ ان کے باطل عقائد کو کسی بڑے امام کے نام سے سپورٹ مل سکے اور لوگ انہیں صحیح سمجھیں) [یہاں ایک بات قابل غور یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ فروعی مسائل میں تو حنفی تھے یعنی عام معاملات میں احناف جیسا نظریہ رکھتے تھے لیکن عقائد میں باطل نظریات کے ماننے والے تھے اب چونکہ وہ اپنی نسبت احناف کی طرف کرتے تھے تو اس لیے یہ سمجھا گیا کہ احناف کا عقیدہ ہی یہ ہے].... اور اس کا رد خود دیگر محدثین نے کرا ہے جیسا کہ امام شہرستانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: تعجب ہے کہ غسان (مرجئہ اہل بدعت) بھی اپنے مذہب کو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب سا ظاہر کرتا تھا اور امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو بھی مرجئہ شمار کرتا تھا غالبًا یہ جھوٹ ہے... مجھے زندگی عطا کرنے والے کی قسم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اصحاب کو تو مرجئہ اہل سنت کہا جاتا تھا۔۔۔ (الملل و النحل 139)

اسی طرح کی بات امام عبدالقادر بن طاہر بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کہی ہے۔۔۔ (الفرق بین الفرق 179)

معلوم ہوا کہ غسان اپنے باطل نظریات کو لوگوں میں عام کرنے کے لیے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اپنی نسبت کرتا تھا، جب کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے خود مرجئہ کا رد موجود ہے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا۔۔۔

اب ذکر کرتے ہیں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس عقیدہ کی جس کو سمجھانے میں غلط فہمی ہوئی ہے... لیکن اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ایمان اور اعمال میں فرق کرتے ہیں (یعنی اعمال کو ایمان کا حصہ نہیں مانتے) جب کہ محدثین اعمال کو ایمان کا حصہ تسلیم کرتے ہیں... امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ اور ایمان نام ہے زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کرنے کا، اہل آسمان اور اہل زمین کا ایمان گھٹتا بڑھتا نہیں، ایمان اور توحید میں سب مومن برابر ہیں اور اعمال کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہیں (یعنی درجے میں ایک دوسرے سے افضل یا کمتر ہیں) (فقہ الاکبر 251)... جب کہ محدثین کے مطابق اعمال ایمان کا حصہ ہے اور انسان کے ایمان میں کمی زیادتی ہوتی ہے... اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ان دونوں ہی باتوں کا نتیجہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ انسان درجے اور فضیلت میں ایک دوسرے سے کم یا زیادہ ہوتے ہیں... چونکہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق ایمان اور توحید میں سب ایک جیسے ہیں (یعنی ایک ہی بات کا اقرار اور تصدیق کرتے ہیں کہ اللہ ہی صرف بندگی کے لائق ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں – اس معاملے میں اور عقیدہ میں کمی زیادتی نہیں ہوتی سب لوگ اور فرشتے اسی چیز کا اقرار اور تصدیق کرتے ہیں اور اس میں کوئی ایک دوسرے سے افضل یا کمتر نہیں ہوسکتا کیونکہ سبھی ایک ہی چیز کی گواہی دے رہے ہیں)....

فرق اعمال سے پیدا ہوتا ہے جو بندہ جیسے اعمال کرتا ہے اس کا درجہ ویسا ہی بن جاتا ہے... اچھے اعمال سے درجات بلند ہوتے ہیں اور اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے جب کہ برے اعمال سے درجات میں کمی آتی ہے... خلاصہ یہ کہ اعمال انسان کے درجات میں کمی زیادتی کا سبب بنتے ہیں۔۔۔ جب کہ جو محدثین اعمال کو ایمان کا حصہ تسلیم کرتے ہیں ان کے مطابق انسان کے ایمان میں کمی زیادتی ہوتی ہے لیکن اگر ہم دیکھیں تو وہ کمی زیادتی بھی اعمال ہی کی وجہ سے ہوتی ہے یعنی اچھے اعمال کرے تو درجات میں بلندی کے ساتھ ایمان میں زیادتی اور برے اعمال کرے تو درجات میں گراوٹ یعنی ایمان میں کمی... کہنے کا مقصد دونوں ہی معاملات میں نتیجہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ کمی اور زیادتی کا سبب اعمال ہیں جیسے اعمال ویسا نتیجہ۔۔۔

یہاں ایک بات قابل غور سے بھی ہے کہ انسان کے اپنے اعمال برباد کرنے سے اس کے ایمان پر اثر نہیں پڑتا، یعنی اگر کوئی مسلمان ظالم ہے یا گنہگار ہے تو اس سے اس کی توحید پر اثر نہیں پڑتا رہتا وہ بھی ایمان والا ہی ہے ہاں ظلم یا گناہ کی وجہ سے سزا کا مستحق ضرور بن جاتا ہے۔۔۔ اس لیے جو مسلمان نیک اعمال کرتا ہے تو جنت کا مستحق بن جاتا ہے لیکن جو گناہ کی وجہ سے جہنم کا مستحق بنتا ہے لیکن آخرکار اپنے ایمان کی وجہ سے آخر میں جنت ضرور جاتا ہے... تو معلوم ہوا کہ اعمال برباد کرنے کی وجہ سے ایمان برباد نہیں ہوتا اور اعمال کے برباد ہونے کی وجہ سے وہ ایمان سے بھی خارج نہیں ہوتا بلکہ رہتا ایمان والا ہی ہے۔۔۔ اس بات سے ایمان اور اعمال میں فرق کو سمجھا جا سکتا ہے کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کے اچھا ہونے سے دوسرا اچھا نہیں ہوتا اسی طرح کسی ایک کے خراب ہونے کا اثر دوسرے پر نہیں پڑتا۔۔۔ ایمان صحیح ہے تو یہ دلیل نہیں کہ اعمال بھی صحیح ہوں گے اور ایمان ہی صحیح نہیں تو اچھے اعمال کسی کام کے نہیں... خلاصہ یہ کہ اگر انسان کے کوئی نیک اعمال ہی اس کے کھاتے میں نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا ایمان بھی ختم ہو گیا، بلکہ حدیث میں ہے کہ جو شخص رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان بچا کر اس دنیا سے لے گیا وہ تو جنت میں (ایک دن ضرور) جائے گا۔۔۔

تو یہ اختلاف صرف لفظی ہے یعنی بات امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور محدثین ایک ہی کہہ رہے ہیں بیان کرنے کا انداز الگ الگ ہے۔۔۔ مثال کے طور پر کوئی کہے کہ جنت میں جانے کا آسان طریقہ کیا ہے ایک شخص کہے کہ نیک اعمال کرو جنت میں پہنچ جاؤ گے جب کہ دوسرا شخص کہے کہ گناہوں سے بچ جاؤ جنت میں پہنچ جاؤ گے اب اگرچہ دونوں شخصوں کے مشورے اور الفاظوں میں فرق ہے لیکن نتیجہ جنت میں انٹری ہی ہے، اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور محدثین کے بیچ بات کو بیان کرنے میں فرق ہے لیکن دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ انسان کے درجات میں کمی زیادتی ہوتی ہے اور وہ کمی زیادتی اعمال ہی کی وجہ سے ہوتی ہے۔۔۔

اس لیے صدر الدین علی بن محمد رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ایمان کے بارے میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر ائمہ اہل سنت کے درمیان جو اختلاف ہے وہ محض لفظی اختلاف ہے۔۔۔ (شرح عقیدہ طحاویہ 462)

اسی طرح حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ بھی لکھتے ہیں کہ یہ نزاع (اختلاف) صرف لفظی ہے۔۔۔ (تفہیمات الہیہ 28/1)

اب ذکر کرتے ہیں کہ کیا صرف امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہی مرجئہ اہل سنت والا عقیدہ رکھتے ہیں اور کیا صرف انہیں ہی مرجئہ کہا گیا ہے...

امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: مسعر (بن کدام رحمۃ اللہ علیہ)، حماد بن ابی سلیمان رحمۃ اللہ علیہ، نعمان (بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ)، عمرو بن مرہ رحمۃ اللہ علیہ، عبد العزیز بن ابی رواد رحمۃ اللہ علیہ، ابو معاویہ رحمۃ اللہ علیہ، عمر بن زر رحمۃ اللہ علیہ یہ سب مرجئہ (اہل سنت) تھے...

میں (امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ) کہتا ہوں ارجاء تو بڑے بڑے علماء کی جماعت کا مذہب رہا ہے، اس کے قائل پر گرفت (اعتراض) نہیں کرنا چاہیے۔۔۔ (میزان الاعتدال 99/4)

امام شہرستانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

جیسے کہ منقول ہے ان لوگوں کو مرجئہ کہا گیا ہے حضرت حسن بن محمد بن علی بن ابی طالب رحمۃ اللہ علیہ، امام سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ، حضرت طلق بن حبیب رحمۃ اللہ علیہ، حضرت عمرو بن مرہ رحمۃ اللہ علیہ، محارب بن دثار رحمۃ اللہ علیہ، مقاتل بن سلیمان رحمۃ اللہ علیہ، ضر رحمۃ اللہ علیہ، عمر بن ضر رحمۃ اللہ علیہ، حماد بن ابی سلیمان رحمۃ اللہ علیہ، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ، امام محمد بن حسن رحمۃ اللہ علیہ، قدید بن جعفر رحمۃ اللہ علیہ... حالانکہ یہ سب حدیث کے امام ہیں اور کبیرہ گناہ کرنے والے کی تکفیر کے قائل نہیں اور اس کے ابدی (ہمیشہ) جہنمی کا حکم نہیں لگاتے... برخلاف خوارج اور قدریہ کے (وہ ایسا کرتے ہیں) (الملل و النحل 142)

اسی طرح امام ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

بعض محدثین نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر ارجاء کا الزام لگایا ہے حالانکہ اہل علم میں سے ایسے لوگ کثرت سے موجود ہیں جن کو مرجئہ کہا گیا ہے... لیکن جس طرح امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی امامت کی وجہ سے اس میں برا پہلو ظاہر کیا گیا ہے دوسروں کے بارے میں ایسا نہیں کیا گیا... اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض حضرات ان سے بہت جلتے تھے اور ان کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے تھے جن سے ان کا دامن بالکل پاک تھا... اور ان کے بارے میں نامناسب باتیں گھڑی (بنائی) جاتی تھی، حالانکہ علماء کی ایک بڑی جماعت نے ان کی تعریف کی ہے اور ان کی فضیلت کا اقرار کیا ہے۔۔۔ (جامع بیان العلم 1081)

معلوم ہوا کہ ارجاء بہت سے محدثین کا مذہب ہے اور اس کے ماننے والوں پر اعتراض کرنا صحیح نہیں۔۔۔


اصل مضمون کا لنک

Murjiah AhLe Sunnat aur Murjiah AhLe Bid’at


تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...