اعتراض نمبر 25 : کہ ابو حنیفہ نے کہا کہ جہم بن صفوان کی عورت ہماری عورتوں کو ادب سکھاتی تھی ۔
أخبرنا محمد بن إسماعيل بن عمر البجلي، حدثنا محمد بن محمد بن عبد الله الطويل النيسابوري، حدثنا أبو حامد بن بلال، حدثنا ابن سختويه بن مازيار، حدثنا علي بن عثمان قال: سمعت زنبورا يقول: سمعت أبا حنيفة يقول: قدمت علينا امرأة جهم بن صفوان فأدبت نساءنا.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ اس خبر کی تردید کے لیے یہی کافی ہے کہ اس کی سند میں زنبور ہے اور وہ محمد بن یعلی السلمی ہے۔ اور بے شک بخاری رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں کہا کہ وہ ذاہب الحدیث ہے۔ (اور یہ متروک الحدیث کے برابر کی جرح ہے) اور نسائی رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ ثقہ نہیں ہے۔ اور ابو حاتم رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ متروک ہے۔ اور احمد بن سنان رحمہ اللہ نے کہا کہ وہ جہمی تھا . اور اہل نقد کے ہاں یہ بات پختہ ہے کہ بدعتی آدمی کی وہ روایت قابل قبول نہیں ہوتی، جو اس کی بدعت کی تائید کرتی ہو تو اس کی روایت جھم کے مذہب کی تائید میں قبول نہیں کی جا سکتی۔
علاوہ اس کے یہ بات بھی ہو سکتی ہے کہ بے شک وہ 202ھ میں فوت ہوا تو تصور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ دولت امویہ کے آخر زمانہ میں پائے جانے والے واقعات کو کم عمری کی وجہ سے معلوم کر سکا ہو تو خبر میں انقطاع بھی ہے. اور متروک الحدیث اور مجہول راوی بھی ہیں. اس لیے کہ بے شک علی بن عثمان جو ہے وہ النفیلی نہیں ہو سکتاکہ اس لیے کہ وہ وقت کے لحاظ سے بہت بعد زمانہ کا ہے تو وہ زنبور کو نہیں پا سکتا (تو یہ علی بن عثمان نہ جانے کونسا ہے) اور ابن نحتویہ بن مازیار جو ہے وہ محمد بن عمرو الشیرازی نہیں ہے کیونکہ اس کی وفات بہت پہلے کی ہے اور نہ ہی وہ ابراہیم بن محمد المزکی النیسابوری ہے ، اس لیے کہ اس کی وفات ابوحامد بن بلال کی وفات کے بہت عرصہ بعد ہوئی ہے۔ اور نہ ہی وہ المزکی کے آباؤ اجداد میں سے کوئی ہے اس لیے کہ اس خاندان کا جد " نحتویہ بن عبد اللہ " ہے نہ کہ " نختویہ بن مازیار " جیسا کہ یہاں ہے۔ اور اگر فرض کر لیا جائے کہ عبد اللہ کی جگہ مازیار کا ذکر کر دیا گیا ہے تو بھی یہ مجہول ہے اس لیے کہ اس کی صفت معلوم نہیں ہو سکی۔ (تو یہ راوی مجہول
الصفت ہے) اور رہی بات ابو عبد الله الجعفی کی جو اس نے اپنی تاریخ صغیر میں کہی ہے کہ میں نے اسماعیل بن عرعرہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ ابو حنیفہ نے کہا کہ ہمارے ہاں جھم کی عورت آئی تو اس نے ہماری عورتوں کو ادب سکھایا [1]۔تو اس روایت کی حالت بھی پہلی روایت سے کوئی اچھی نہیں ہے۔ اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ اسماعیل بن عرعرہ کا زمانہ بہت بعد کا ہے تو اس کے اور ابو حنیفہ کے درمیان انقطاع ہے۔ اور اسماعیل بن عرعرہ مجهول الصفت بھی ہے[2]۔ اس کا تذکرہ تاریخ والوں میں سے کسی نے نہیں کیا جن کا ہم نے مطالعہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ امام بخاری نے بھی اپنی تاریخ کبیر میں اس کا ذکر نہیں کیا ، حالانکہ انہوں نے اس سے یہ مقطوع خبر روایت کی ہے۔ ہاں اس کا ذکر عبد اللہ بن احمد کی کتاب السنہ ص 27 اور ص 154 میں ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ بے شک یہ بصری ہے اور عباس بن عبد العظیم العنبری کا ہم عصر ہے۔ اور اس میں معمولی سا فائدہ بھی نہیں ہے۔ یہ جاننے کے بعد کہ صحاح ستہ والوں میں سے کسی نے بھی اس عرعرہ سے روایت نہیں لی۔ اور بہر حال جو اس نے الحلاق کے قصہ میں الحمیدی سے روایت کی ہے تو وہ بھی منقطع ہے [3]۔ کیونکہ الحمیدی کا زمانہ ابو حنیفہ کے زمانہ سے بہت بعد کا ہے۔ اور بہر حال اس نے جو روایت سفیان بن عيينة سے نعیم بن حماد کے طریق سے کی ہے تو اس کی سند میں نعیم کا ہونا ہی اس کے رد کے لیے کافی ہے۔ اور اس کے بارہ میں کم از کم جو الفاظ کئے گئے ہیں وہ یہ ہیں کہ بے شک وہ صاحب مناکیر تھا اور ابو حنیفہ کے مطاعن وضع کرنے کے ساتھ متہم تھا (کہ ابو حنیفہ کے بارہ میں طعن والے واقعات گھڑتا تھا) اور بہر حال امام بخاری رحمہ اللہ کا اپنی تاریخ کبیر میں کہنا کہ ابو حنیفہ مرجئہ تھے اور حضرات محدثین نے اس سے اور اس کی رائے سے اور اس کی حدیث سے سکوت کیا ہے [4]۔ تو یہ اس بات کی وضاحت ہے کہ جن حضرات نے اس سے اعراض کیا ہے تو ان کے اعتراض کی یہ وجہ تھی۔ علاوہ اس کے یہ بات بھی ہے کہ بے شک جس ارجاء کی نسبت ان کی طرف کی جاتی تھی وہ تو خالص سنت ہے۔ غلط باتیں منسوب کرنے والے جاہل ناقلین ذلیل ہوں۔ اور اس کے نظریہ کے خلاف تو خوارج کی طرف میلان ہوگا جیسا کہ آپ اس کی وضاحت اس کتاب میں انتہائی وضاحت سے پائیں گے۔ تو اس سے اعتراض کرنے والا یا تو خارجی ہوگا جیسا کہ عمران بن حطان اور حریز بن عثمان ہیں یا معتزلی ہوگا جو کہ کفر اور ایمان کے درمیان درجہ مانتے ہیں۔ اور اس کے بارہ میں اگر اس سے بعض ناتجربہ کار ناقلین کا سکوت مراد ہو تب تو سکوت کا دعوی صحیح ہوگا۔ اور یہ چیز اس کو کوئی نقصان نہیں دیتی بعد اس کے کہ اس کی فقہ زمین کے مشارق اور مغارب میں ایسی عام ہو چکی ہے کہ اگر بالفرض اس کی کتابیں اور اس کے اصحاب کی کتابیں صفحہ ہستی سے مٹا بھی دی جائیں تو اس کے مسائل اس کے مخالفین کی کتابوں میں اسی طرح عرصہ دراز تک زندہ رہیں گے اور وہ کتابیں ان لوگوں کی ہیں جو فقہاء کے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ بے شک اس کے حاسد ذلیل و خوار ہوتے رہیں۔
اور اگر سکوت کے دعوی سے قائل کی مراد اس کے علاوہ ہے تو وہ یقیناً لاپرواہی کے راستہ پر چلنے والا ہے۔ اپنی زندگی کے ان حالات کو بھولنے والا ہے جو اس کو ابو حفص الكبير البخاری کے حلقہ میں پیش آئے اور ان کو جو نیشاپور اور بخارا کے لوگوں سے اس کو روحانی سزا ملیں اللہ تعالی اس سے درگزر کا معاملہ فرمائے۔ اور جو اس کی تاریخ اوسط میں ہے وہ بھی راہ راست سے ہٹے ہوئے ہونے میں اسی قبیل کی ہے۔ اور عجیب بات ہے کہ روایت میں انقطاع اور راوی میں عدم ضبط اور اس پر کذب کی تہمت اور راوی کا مجہول العین ہونا اور مجہول الوصف ہونا اور راوی میں بدعت کے پائے جانے کے احکام ناقلین کے ہاں یہ ہیں کہ ان میں سے کسی ایک چیز کی وجہ سے خبر رد ہو جاتی ہے ۔
مگر جب ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر طعن کی خبریں ہوتی ہیں تو تمام کمزوریوں کے باوجود ان خبروں کو قبول کر لیا جاتا ہے حالانکہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ وہ ہیں جن کو زمانہ لگا تار گزرنے کے باوجود نصف امت بلکہ امت کی دو تہائی اکثریت نے دین میں اپنا امام بنالیا ہے۔ بے شک کینہ ور جاہل غلط باتیں منسوب کرنے والے خواہ کتنے ہی سیخ پا ہوں۔ ہم اللہ تعالی سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہمیں خواہشات کی اتباع سے دور رکھے۔
اور اگر ہم فرض کرلیں کہ بے شک جھم کی بیوی کوفہ کی عورتوں کو ادب سکھاتی تھی تو اس کی وجہ سے ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیا طعن ہے؟ اور کیا اس واقعہ کو پیش کرنے والا یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ بے شک وہ کوفہ کی عورتوں کو جھم کا باطل مذہب سکھاتی تھی اور اس عورت سے ابو حنیفہ کے گھر والے اس باطل مذہب کو قبول کرتے تھے تو اس سے ثابت ہوا کہ ابو حنیفہ بھی قبول کرتے تھے۔ مگر اس سے یہ سب کچھ کیسے ثابت ہو سکتا ہے؟ اور اس جیسی روایت بیہقی کی الاسماء والصفات [5] میں ہے جو اس نے ص 428 میں یحییٰ بن یعلی۔ نعیم بن حماد نوح بن ابی مریم ابا عصمہ کی سند کے ساتھ ذکر کی ہے کہ ابو عصمہ کہتے ہیں کہ ہم ابو حنیفہ کے پاس تھے جبکہ جہم کا معاملہ اول اول ظاہر ہوا تھا اس وقت ایک عورت ترمذ سے اس کے پاس آئی جو کہ جہم کے پاس اٹھتی بیٹھتی تھی تو جب وہ کوفہ میں داخل ہوئی تو میرا خیال ہے کہ کم از کم دس ہزار لوگ اس کے گرد جھمی تھے جن کو وہ اپنی رائے کی طرف دعوت دیتی تھی تو اس عورت سے کہ کہا گیا کہ بیشک یہاں ایک آدمی ہے جو منطق پر گہری نظر رکھتا ہے اور اس کو ابو حنیفہ کہا جاتا ہے تو وہ عورت ان کے پاس آئی تو اس نے کہا کہ تو وہ شخص ہے جو لوگوں کو مسائل سکھاتا ہے اور بیشک میں نے تیرا دین چھوڑ دیا ہے۔ مجھے بتلا کہ تیرا معبود کہاں ہے جس کی تو عبادت کرتا ہے؟ تو ابو حنیفہ نے اس عورت کو جواب دینے سے خاموشی اختیار کی پھر سات دن گزر گئے کہ اس کو جواب نہ دیا پھر اس عورت کے پاس آئے اور کتاب کو رکھا اور کہا بیشک اللہ تعالی آسمانوں میں ہے، زمین میں نہیں تو ایک آدمی نے اس سے کہا کہ پھر آپ کا اس آیت کے بارے میں کیا نظریہ ہے جس میں اللہ تعالی فرماتے ہیں وهُوَ مَعَكُمْ [6] کہ وہ اللہ تعالی تمہارے ساتھ ہے۔ تو اس نے کہا یہ اسی طرح ہے جس طرح ایک آدمی دوسرے کی طرف لکھتا ہے کہ بیشک میں تیرے ساتھ ہوں حالانکہ وہ اس کے پاس موجود نہیں ہوتا۔ میں (امام بیہقی) کہتا ہوں کہ بیشک ابو حنیفہ نے اچھا نظریہ اختیار کیا کہ اللہ تعالی کے زمین میں ہونے کی نفی کی اور جو اس نے آیت کی تاویل میں طریق اختیار کیا وہ بھی اچھا ہے اور اللہ تعالٰی کے اس قول میں مطلق سماع کی اتباع کی جس میں ہے کہ بیشک اللہ تعالی آسمان میں ہے اور اس قول کی مراد اللہ تعالی ہی جانتا ہے۔ پس یہ حکایت جو ہم نے ذکر کی ہے، اگر اس سے ثابت ہے تو اللہ تعالٰی کے فرمان اءمنتم من فی السَّمَاءِ کے معنی کے مطابق ہے۔[7] الخ یعنی اس آیت میں فی کو علی کے معنی میں محمول کر کے یہ معنی کریں گے کہ اس کو مخلوق پر غلبہ اور تدبیر کے لحاظ سے کنٹرول حاصل ہے اور مخلوق کے ساتھ اختلاط سے منزہ ہے اور مسافت کے لحاظ سے اس سے دور ہے۔ اللہ تعالیٰ مخلوق کی صفات سے بلند اور منزہ ہے جیسا کہ میں نے بیہقی کی الاسماء والصفات میں کئی مقام پر حاشیہ میں وضاحت کی ہے (امام بیہقی نے اس خبر پر جو تبصرہ کیا ہے، اس کے بارے میں علامہ کوثری فرماتے ہیں) لیکن ابو حنیفہ ایسے دفاع سے بے نیاز ہیں جس قسم کا دفاع یہاں بیہقی نے کیا ہے اور بیشک ابو حنیفہ کو تو اللہ تعالی نے بیک وقت جہم کے باطل نظریہ اور اللہ تعالٰی کے جسم ماننے کے باطل نظریہ سے پاک رکھا ہے بلکہ بیہقی پر واجب تھا کہ اس خبر کی تکذیب کرتے اور تاویل میں مبالغہ کرنے سے دور رہتے۔
اور اس واقعہ کی سند میں بہت مشکوک راوی ہیں۔ اور ابو محمد بن حیان جو ہے وہ ابو الشیخ ہے جس کی کتاب العظمة اور کتاب السنہ ہیں اور ان دونوں کتابوں میں ایسے من گھڑت واقعات ہیں جو کسی اور میں نہیں ملتے اور اس کو اس کے ہم وطن الحافظ العسال نے ضعیف کہا ہے اور نعیم بن حماد تو ابو حنیفہ کے خلاف مطاعن گھڑنے میں مشہور ہے اور اہل جرح کی اس کے بارے میں کلام بہت طویل ہے اور اصول دین کے بہت سے بڑے بڑے علماء نے اس کو مجسمہ میں شمار کیا ہے (یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالی کے لیے جسم مانتے ہیں) بلکہ وہ تو اللہ تعالٰی کے لیے گوشت اور خون بھی مانتے ہیں اور وہ ابن ابی مریم کا ربیب (لے پالک تھا اور اس کے بارے میں اہل جرح کا کلام مشہور ہے اور وہ بھی مقاتل بن سلیمان کا لے پالک تھا جو کہ مجسمہ کا شیخ تھا اور ہو سکتا ہے کہ بیہقی نے اپنے اس قول میں اسی طرف اشارہ کیا ہو کہ اگر یہ واقعہ ثابت ہو جائے لیکن بیہقی کا یہ اشارہ کافی نہیں ہے اور حالات اس کے جھوٹا ہونے کے گواہ ہیں کیونکہ یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ بیشک ابو حنیفہ اس شخص کو کافر خیال کرتے تھے جو یہ نظریہ رکھتا تھا کہ اللہ تعالی کسی مکان میں متمکن ہے اور اس کی تفصیل دیکھنی ہو تو علامہ البیاضی کی اشارات المرام کی طرف مراجعت کریں اور وہ دار الکتب المصریہ میں محفوظ ہے۔
اور جو حکایت ابن ابی مریم کی طرف منسوب ہے، اگر اس کا وقوع بنو امیہ کے آخر زمانہ میں فرض کر لیا جائے تو اس وقت تک تو ابن ابی مریم نے عراق کی طرف سفر ہی نہیں کیا تھا اور اگر عباسی دور میں ہو تو جسم کے معاملے سے اس وقت فراغت حاصل کر لی گئی تھی اور اس کا کوئی اثر باقی نہ رہا تھا اور بالخصوص اگر ایک ایسی عورت سے اس قسم کی دعوت فرض کر لی جائے جس کے ارد گرد دس ہزار افراد ہوں تو اتنی بڑی خبر کا تو تاریخ کی کتابوں میں بہت تذکرہ ہونا چاہئے حالانکہ اس خبر کا ذرا بھی تذکرہ تاریخ کی ان کتابوں میں نہیں ہے جو ہمارے پاس اور دیگر جمہور اہل علم کے پاس ہیں خواہ وہ قلمی نسخے ہوں یا مطبوعہ ہوں۔ اور اس خبر کے بارہ میں ہر جانب سے کذب ظاہر ہے اور بیشک میں (علامہ کوثری) نے الاسماء والصفات کا کئی مقامات پر حاشیہ لکھا اس کے مطابق جو پہلے گزر چکا اور اسی طرح آپ دیکھیں گے کہ ان میں (ابو حنیفہ کے مخالفین) سے دفاع کرنے والے تہمت کا دفاع کرتے ہیں اور جھوٹے مخالفین علانیہ تہمتیں لگاتے ہیں۔
![]() |
اعتراض نمبر 25 : کہ ابو حنیفہ نے کہا کہ جہم بن صفوان کی عورت ہماری عورتوں کو ادب سکھاتی تھی۔ |
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا
[1]۔ [١٧٢٣] سمعت إسماعيل بن عرعرة يقول قال أبو حنيفة جاءت امرأة جهم إلينا ههنا فأدبت نساءنا
( التاريخ الصغير - البخاري - جلد 2 - صفحہ 41 )
[2]۔ الأسم : إسماعيل بن عرعرة بن البرند بن النعمان بن علجة
الشهرة : إسماعيل بن عرعرة السامي
النسب : البصري, القرشي, السامي
الرتبة : مجهول الحال
[3۔ ] سمعت الحميدي يقول قال أبو حنيفة قدمت مكة فأخذت من الحجام ثلاث سنن لما قعدت بين يديه قال لي استقبل القبلة فبدأ بشق رأسي الأيمن وبلغ إلى العظمين، قال الحميدي فرجل ليس عنده سنن عن رسول الله صلى الله عليه و سلم ولا أصحابه في المناسك وغيرها كيف يقلد أحكام الله في المواريث والفرائض والزكاة والصلاة وأمور الإسلام۔
امام بخاری کہتے ہیں کہ میں نے حمیدی کو یہ کہتے ہوئے سنا انہوں نے کہا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں میں مکہ آیا تو میں نے حجام سے تین سنتیں سیکھی کہ میں اس کے سامنے بیٹھا تو اس نے مجھے کہا قبلے کی طرف منہ کرو ، پھر اس نے میرے سر کے دائیں طرف سے شروع کیا اور استرا ہڈیوں تک پہنچایا۔
حمیدی نے کہا ایسا آدمی جس کے پاس مناسک وغیرہ کی سنتیں نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہیں نہ صحابہ سے تو وہ میراث ، فرائض ،زکوۃ ،نماز اور دیگر امور اسلام میں کیسے اس کی تقلید کی جائے گی۔
[التاريخ الصغير 2/ 43]۔ یہ روایت من گھڑت ہے جیسا کہ امام کوثری رحمہ اللہ نے تفصیل بیان کی۔
[4]۔ قال البخاري: نعمان بن ثابت، أبو حنيفة الكوفي، مولًى لبني تيم الله بن ثعلبة، كان مرجئًا، سكتوا عنه، وعن رأيه، وعن حديثه. ((التاريخ الكبير)) 8/ 81
[5]۔ أخبرنا أبو بكر بن الحارث الفقيه أنا أبو محمد بن حيان أنا أحمد بن جعفر بن نصر حدثنا يحيى بن يعلى قال سمعت نعيم بن حماد يقول سمعت نوح بن أبي مريم أبا عصمة يقول كنا عند أبي حنيفة أول ما ظهر إذ جاءته امرأة من ترمذ كانت تجالس جهما فدخلت الكوفة فأظنني أقل ما رأيت عليها عشرة آلاف من الناس تدعو إلى رأيها، فقيل لها: إن هاهنا رجلا قد نظر في المعقول يقال له أبو حنيفة ، فأتته فقالت: أنت الذي تعلم الناس المسائل و قد تركت دينك؟ أين إلهك الذي تعبده؟
فسكت عنها ثم مكث سبعة أيام لا يجيبها، ثم خرج إليها و قد وضع كتابان: اللّه تبارك في السماء دون الأرض، فقال له رجل: أ رأيت قول اللّه عز و جل وَ هُوَ مَعَكُمْ قال هو كما تكتب إلى الرجل إني معك و أنت غائب عنه.
[6]. سورة الحديد آية 4.
[7]۔ سورة الملك آية 16.
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں