علمِ حدیث کے اُفق پر چمکتا ستارہ:
تابعی، ثقہ، ثبت، حافظ الحدیث، امام اعظم ابو حنیفہؒ
جب علمِ حدیث کی نہایت دقیق مباحث، صناعتِ روایت کے رموز و دقائق، اور جرح و تعدیل کے معیاری و نقدی اصولوں پر علمی کلام ہو تو امامِ اعظم ابو حنیفہؒ کی ذاتِ گرامی ایک جلیل القدر، متبحّر، متثبت، اور راسخالقدم محدث کے طور پر آفتابِ ہدایت بن کر جلوہ گر ہوتی ہے۔ائمۂ حدیث و فنِ اسماء الرجال نے ان کی عدالت، ثقاہت، اور ضبط پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے انہیں ثقہ، ثبت، اور امام فی الحدیث جیسے الفاظ سے یاد کیا ہے۔ روایتِ حدیث میں آپ کا اسلوب دقیق، محتاط، اور معیارِ حدیث کے اعلیٰ اصولوں پر مبنی تھا۔ذیل میں چند جلیل القدر محدثین کی آراء پیش کی جا رہی ہیں، جنہوں نے امام ابو حنیفہؒ کو ثقہ، ثبت اور امام فی الحدیث قرار دیا:
1. امام شعبہؒ جو اپنے وقت کے "امیر المؤمنین فی الحدیث" مانے جاتے ہیں، انہوں نے امام ابو حنیفہؒ سے روایت کی ہے۔ (ناسخ الحدیث و منسوخہ لابن شاہین: ص 474، مسند امام ابو حنیفہ بروایت ابن خسرو، ج1، ص 306، ج2، ص 893)۔ اور چونکہ غیر مقلدین کے نزدیک امام شعبہؒ صرف ثقہ راویوں سے روایت کرتے ہیں، اس لیے ان کی امام ابو حنیفہؒ سے روایت بذاتِ خود امام صاحب کی ثقاہت کی دلیل ہے۔ چنانچہ غیر مقلد محدث زبیر علی زئی لکھتے ہیں کہ "امام شعبہ عام طور پر اپنے نزدیک ثقہ ہی سے روایت کرتے تھے" (مقالات، ج6، ص 157)۔ کفایت اللہ سنابلی لکھتے ہیں کہ "امام شعبہ صرف ثقہ سے روایت کرتے تھے" (انوار البدر، ص 134)۔ شیخ ابو الحسن سلیمانی، جو کہ شیخ البانی اور شیخ مقبل کے شاگرد ہیں، ان کے نزدیک بھی امام شعبہ صرف ثقہ راوی سے روایت کرتے تھے (اتحاف النبیل، ج2، ص99)۔ البانی ایک راوی کے بارے میں لکھتے ہیں: "روایۃ شعبۃ عنہ توثیق لہ" یعنی امام شعبہ کا کسی سے روایت لینا اس کی توثیق ہے (ارواء الغلیل، ج1، ص280)۔ اس سب سے واضح ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ امام شعبہؒ کے نزدیک ثقہ اور معتبر راوی تھے۔ مزید تفصیل کے لیے قارئین ملاحظہ کریں۔
2. امام یحییٰ بن معینؒ، جو علم جرح و تعدیل کے امام مانے جاتے ہیں، ان سے بھی امام ابو حنیفہ کی ثقاہت ثابت ہے۔ حافظ ابن محرز کہتے ہیں: "وسمعت یحیی بن معین یقول کان ابو حنیفہ لا بأس بہ وکان لا یکذب" (معرفۃ الرجال لابن معین بروایت ابن محرز، ج1، ص79)۔ یعنی میں نے یحییٰ بن معین کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ امام ابو حنیفہؒ قابل اعتماد تھے اور جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ مزید تفصیل کے لیے قارئین ملاحظہ کریں۔
یہ دونوں حضرات (ابن معین اور شعبہؒ ) متشدد ناقدین میں شمار ہوتے ہیں، اور متشدد ناقد کی توثیق کو ہمیشہ غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی جانب سے کسی راوی کی توثیق ایک مضبوط دلیل مانی جاتی ہے۔ جب متشدد جارح کسی راوی کی توثیق کریں تو اس کی ثقاہت مزید واضح ہو جاتی ہے۔جیسا کہ خود غیر مقلدین بھی اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں کہ:
"متشدد کی توثیق بہت اہمیت رکھتی ہے" (جرح و تعدیل، صفحہ 25، از غیر مقلد محمد ابراہیم بن بشیر الحسنوی)۔
3. امام یزید بن ہارونؒ، جو ثقہ، ثبت، عابد، متقن، حافظ الحدیث اور عظیم محدث تھے، وہ اپنے نزدیک صرف ثقہ راویوں سے روایت کرتے تھے، اور انہوں نے امام ابو حنیفہؒ سے روایت کی ہے (تہذیب الکمال، ج29، ص421، سیر، ج6، ص694)۔ پس ثابت ہوا کہ امام ابو حنیفہؒ ان کے نزدیک ثقہ تھے۔ مزید یہ کہ امام خطیب بغدادیؒ لکھتے ہیں کہ امام یزید بن ہارون نے کہا: "ادركت الناس فما رأيت أحدا أعقل، ولا أفضل، ولا أروع، من أبي حنيفة" یعنی میں نے کئی لوگوں کو دیکھا، مگر امام ابو حنیفہؒ سے زیادہ عقلمند، متقن، اور افضل کوئی نہیں پایا (تاریخ بغداد، ج13، ص361)۔
مزید تفصیل کے لیے قارئین ملاحظہ کریں۔
4. امام حماد بن زیدؒ بھی صرف ثقہ راویوں سے روایت کرتے تھے، جیسا کہ غیر مقلدین کی کتاب (دراسات حدیثیہ متعلقہ بمن لا یروی الا عن ثقہ، ص232) میں درج ہے۔ وہ کہتے ہیں: "قسم بخدا! میں ابو حنیفہ سے محبت کرتا ہوں، کیونکہ وہ ایوبؒ سے محبت کرتے ہیں" (الانتقاء لابن عبد البر، ص130)۔ اور انہوں نے امام صاحب سے کئی احادیث روایت کی ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ امام ابو حنیفہؒ ان کے نزدیک ثقہ تھے۔
مزید تفصیل کے لیے قارئین ملاحظہ کریں۔
5. امام ابو نعیم فضل بن دکینؒ (م219ھ) بھی صرف ثقہ سے روایت کرتے تھے (دراسات حدیثیہ متعلقہ بمن لا یروی الا عن ثقہ، ص301-302)۔ اور انہوں نے بھی امام ابو حنیفہؒ سے روایت کی ہے (سیر، ج6، ص393، تہذیب الکمال، ج29، ص471)۔ لہٰذا ان کے نزدیک بھی امام ابو حنیفہ ثقہ ہیں۔مزید تفصیل کے لیے قارئین ملاحظہ کریں۔
6. مشہور امام ، حافظ الحدیث ، زہیر بن معاویہ نے امام اعظم ، نعمان بن ثابت الکوفی (م ۱۵۰ھ) سے روایت لی ہے۔ (فضائل ابی حقیقة لابن ابی العوام: ص ۱۴۳، مناقب ابی حنیفہ لکردری: ص ۵۰۱ طبع معه مناقب المکی ، بیروت، کشف الآثار ) اور حافظ زہیر بن معاویہ (م 174ھ) اپنے نزدیک صرف ثقہ سے روایت کرتے تھے۔ (دراسات حديثية متعلقة بمن لا يروى الا عن ثقة للشيخ ابي عمر و الوصابي : ص ۲۳۹) معلوم ہوا کہ زہیر بن معاویہ (م ۷۴ھ) کے نزدیک امام ابو حنیفہ (م ۱۵۰ھ) ثقہ ہیں۔مزید تفصیل کے لیے قارئین ملاحظہ کریں۔
7. امام سفیان بن عیینہؒ، جنہوں نے امام مالک، امام سفیان ثوری، امام شافعی اور امام احمدؒ جیسے بڑے آئمہ کو دیکھا، وہ فرماتے ہیں: "ما رأت عيني مثل أبي حنيفة" یعنی میری آنکھوں نے ابو حنیفہ جیسا کوئی نہیں دیکھا (تاریخ بغداد، ج15، ص459، تحقیق بشار عواد معروف؛ مسند امام اعظم بروایت ابن خسرو، ج1، ص163)۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ سے زیادہ فقیہ، اللہ سے ڈرنے والا، اور افضل کوئی نہیں تھا۔ یہ
الفاظ محدثین کے ہاں اعلیٰ درجہ کی توثیق کے لیے کافی ہیں (فتح المغیث، ج2، ص114)۔ امام سفیان بن عیینہ ؒ نے امام ابوحنیفہؒ سے روایت کی ہے ۔( مسند امام اعظم بروایت ابن خسرو ج:۱ص:۲۰۸،۲۰۹، جامع المسانید ج:۱ص:۴۷۱،مسند امام ابوحنیفہ بروایت حارثی ج : ۱ ص:۱۲۴،ص:۷۸۷) اور امام ابن عیینہ ؒ اپنے نزدیک صرف ثقات سے روایت کرتے ہیں ،جیسا کہ غیرمقلد اہل حدیث عالم شیخ ابوالحسن مصطفی بن اسماعیل السلیمانی کا کہنا ہے ،جو کہ شیخ البانی اور شیخ مقبل کے شاگرد ہیں ۔ (اتحاف النبیل ج:۲ص:۹۶) اس لحاظ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ (م ۱۵۰ھ) امام سفیان بن عیینہ ؒ کے نزدیک ثقہ ہیں۔مزید تفصیل کے لیے قارئین ملاحظہ کریں۔
8. امام وکیع بن جراحؒ نے بھی امام ابو حنیفہؒ سے روایت کی (تاریخ بغداد، رقم 1083)۔
امام وکیع اپنے نزدیک صرف ثقات سے روایت کرتے ہیں اس لحاظ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ (م ۱۵۰ھ) اامام وکیع بن جراحؒ کے نزدیک ثقہ ہیں۔ ان کی حنفیت پر مکمل تحقیق مولانا ابو حمزہ زیشان صاحب کی تصنیف کردہ کتاب "امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ کی حنفیت" میں موجود ہے۔ مکمل پی ڈی ایف دفاع احناف لائبریری میں دستیاب ہے۔
فقہ کی تعریف درحقیقت امام ابو حنیفہؒ کی حدیث میں مہارت کا اعتراف ہے
جب بھی امام ابو حنیفہؒ کی فقہی عظمت کا اعتراف کیا جاتا ہے، بالخصوص جب امام ابو حنیفہؒ کو "عظیم فقیہ" یا "فقہ میں سب سے بلند مقام رکھنے والا" کہا جاتا ہے، تو یہ محض ان کی فقہ دانی کی تعریف نہیں ہوتی، بلکہ درحقیقت یہ حدیث نبویؐ میں ان کی مہارت، بصیرت اور ثقاہت کا واضح اعتراف ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فقہ کا پورا ڈھانچہ قرآن و سنت، بالخصوص احادیث نبویہ پر قائم ہے۔ کوئی بھی فقیہ اس وقت تک معتبر نہیں ٹھہرایا جا سکتا جب تک وہ حدیث کے مفاہیم، اسناد، رجال، علل اور اصولِ درایت پر کامل دسترس نہ رکھتا ہو۔فقہ صرف قیاس و رائے کا نام نہیں، بلکہ وہ علم ہے جو قرآن و سنت کی بنیاد پر پروان چڑھتا ہے۔ جو شخص حدیث سے ناواقف ہو، وہ کبھی صحیح معنوں میں فقہی اجتہاد نہیں کر سکتا۔ اسی تناظر میں، جب ائمہ و محدثین امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی تعریف کرتے ہیں، تو وہ درحقیقت ان کی حدیث میں مہارت، دقتِ نظر، اصولی فہم، اور علمی بصیرت کو بھی تسلیم کر رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ فقہ میں بلندی اور عمق اُس وقت ہی معتبر ہوتا ہے جب اس کے پیچھے حدیث کا گہرا علم اور اعتماد موجود ہو۔ اس لیے کہنا بے جا نہ ہوگا کہ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی تعریف، ان کی حدیث فہمی کی روشن دلیل ہے۔پس، جو لوگ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی تعریف کرتے ہیں، وہ خواہ شعوری طور پر نہ بھی کریں، درحقیقت ان کی حدیث میں مہارت، استدلال کی قوت، اور ثقاہت کو بھی تسلیم کر رہے ہوتے ہیں۔
9. عبداللہ بن مبارکؒ کا قول بھی نہایت اہم ہے۔ وہ فرماتے ہیں: "قول ابی حنیفہ عندنا اثر اذا لم یکن فیہ اثر" یعنی امام ابو حنیفہ کا قول ہمارے نزدیک اثر (صحابہ کے قول) کی طرح ہوتا ہے جب کوئی اثر موجود نہ ہو (فضائل ابی حنیفہ، ص84، اسنادہ صحیح)۔
جب ایک جلیل القدر محدث عبد اللہ بن المبارک رحمہ اللہ یہ فرمائیں کہ اگر کسی مسئلے میں کوئی حدیث یا صحابی کا اثر موجود نہ ہو، تو ہمارے نزدیک امام ابو حنیفہ کا قول اثر کے درجہ میں ہوتا ہے" — تو یہ محض ایک تعریفی جملہ نہیں بلکہ امام ابو حنیفہؒ کی حدیث میں ثقاہت، مہارت، اور دینی مقام کی صریح گواہی ہے۔ ان کی فقاہت، اصولی بصیرت، اور فہم الحدیث پر خود محدثین کو ایسا اعتماد تھا کہ وہ ان کے اجتہاد کو حجت مانتے تھے۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ امام ابو حنیفہؒ حدیث کے ماہر، ثقہ تھے، اور ان کا علم، تقویٰ، اور دیانت اس درجے پر فائز تھا کہ ان کا قول نص کی عدم موجودگی میں شریعت کی رہنمائی کے لیے معتبر و قابلِ اتباع سمجھا جاتا تھا۔
عبداللہ بن مبارکؒ فرماتے ہیں میں نے سب سے زیادہ فقاہت رکھنے والا دیکھا ہے، سب سے زیادہ فقاہت رکھنے والے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں .. میں نے ان جیسا فقاہت وا لا نہیں دیکھا... ( تاریخ بغداد 469/15 سند صحیح ) یہ الفاظ محدثین کے ہاں اعلیٰ درجہ کی توثیق کے لیے کافی ہیں (فتح المغیث، ج2، ص114)۔
مزید تفصیل کے لیے قارئین ملاحظہ کریں۔
10 . امام ابو داودؒ، جو سنن کے مصنف اور حدیث کے امام ہیں، فرماتے ہیں: "رحم الله مالكاً، كان إماماً، رحم الله الشافعي، كان إماماً، رحم الله أبا حنيفةَ..." (الانتقاء لابن عبد البر، ص32)۔ اس میں امام ابو داودؒ تینوں ائمہ کے لیے اجتہاد اور دینی امامت کی توثیق
فرما رہے ہیں۔ غیر مقلد زبیر علی زئی کے مطابق بھی اس کی سند صحیح ہے۔مزید تفصیل کے لیے قارئین ملاحظہ کریں۔
تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 36 : امام ابو حنیفہ، امام ابو داود کی نظر میں – مقامِ امامت کا اعتراف
11 . امام مکی بن ابراہیمؒ، جو امام بخاری کے اساتذہ میں سے ہیں، نے امام ابو حنیفہ کو "اپنے زمانے کا سب سے بڑا عالم" کہا (تاریخ بغداد، ج13، ص344، اسنادہ صحیح)۔ مزید
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔
تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 37 : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، جلیل القدر محدث مکی بن ابراہیمؒ کی نظر میں – "اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم"
12. امام عبدالرزاق صنعانیؒ، امام ابو حنیفہ کے حلم، فہم اور علمی مقام کے معترف تھے (الإنتقاء فی فضائل الثلاثۃ الأئمۃ الفقہاء، ابن عبد البر، ص135).مزید تفصیل کے لیے قارئین ملاحظہ کریں۔
13. امام حسن بن صالحؒ کے بارے میں امام یحییٰ بن آدمؒ (م203ھ) کہتے ہیں کہ میں نے انہیں یہ فرماتے سنا کہ امام ابو حنیفہؒ عقلمند عالم تھے، اپنے علم میں مضبوط (ثبت) تھے۔ جب ان کے نزدیک کوئی حدیث صحیح ہوتی تو وہ کسی اور کی طرف توجہ نہ دیتے (الانتقاء، ص128)۔
مزید تفصیل کے لیے قارئین ملاحظہ کریں۔
تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 4 :امام حسن بن صالح بن صالح بن حی ؒ (م۱۶۹ھ) کے نزدیک امام اعظم ابو حنیفہ ؒ (م۱۵۰ھ) ثبت ہیں۔
14. جب امام شافعیؒ جیسی شخصیت، جنہیں خود ائمہ فقہاء و محدثین کا پیشوا کہا جاتا ہے، کسی کی علمی عظمت کا اعتراف کرے، تو وہ صداقت کی مہر بن جاتی ہے ۔ امام شافعیؒ جنہیں امام احمد بن حنبلؒ نے نہ صرف دوسری صدی کا مجدد اور امت محمدیہ ﷺ کے لیے اللہ کی رحمت قرار دیا بلکہ ان کے قول کو حدیث کے بعد سب سے مضبوط حجت کہا: "اگر حدیث نہیں تو شافعی کا قول اور اس کی دلیل ہی سب سے مضبوط بات ہے!" (تهذيب التهذيب 3/497، تهذيب الكمال 24/355، الجرح والتعديل 7/201) ایسا جلیل القدر امام جب امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں یہ فرما دے: "میں نے ابو حنیفہؒ سے بڑا فقیہ کسی کو نہیں پایا " (تاریخ بغداد، ت بشار 474/15، سند صحیح)
تو یہ صرف مدح نہیں ہے بلکہ علمی طور پر امام ابو حنیفہ کے قدر منزلت کا اعتراف ہے ۔ امام شافعیؒ نے امام مالکؒ، احمد بن حنبلؒ، اسحاق بن راہویہؒ، ابو ثورؒ سمیت بے شمار جید محدثین و فقہاء کو دیکھا، مگر فوقیت دی تو صرف امام اعظم ابو حنیفہؒ کو ۔ امام شافعیؒ کا یہ فرمان صرف فقہ کی تعریف نہیں، بلکہ امام ابو حنیفہؒ کی حدیث میں مہارت کا اعتراف بھی ہے۔
کیونکہ جب کسی کو "عظیم فقیہ" کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ صرف فقہی مہارت نہیں بلکہ حدیث میں بھی کامل بصیرت اور گہرائی ہوتی ہے، کیونکہ فقہ کی بنیاد ہی قرآن و سنت، خصوصاً احادیث نبویہ پر ہوتی ہے۔ ایک فقیہ جب مسائل کا استخراج کرتا ہے تو وہ مکمل طور پر احادیث کے صحیح مفہوم، اسناد، رجال اور علل پر دسترس رکھتا ہے، ورنہ اس کا اجتہاد معتبر نہیں رہتا۔ فقہ صرف رائے یا قیاس پر مبنی نہیں، بلکہ وہ اسی وقت قابلِ قبول ہوتی ہے جب وہ احادیث کی روشنی میں ہو۔ یہی وجہ ہے کہ امت نے ہمیشہ اُنہی فقہاء پر اعتماد کیا ہے جو حدیث میں بھی جید اور ماہر تھے۔ امام ابو حنیفہؒ کو جب امام شافعیؒ جیسے محدث و فقیہ "سب سے بڑا فقیہ" کہتے ہیں تو یہ درحقیقت اُن کی حدیث فہمی، درایت، ثقاہت اور استدلال پر واضح گواہی ہے۔ کیونکہ امام شافعیؒ خود اس اصول کے قائل تھے کہ فقہ، بغیر حدیث کی معرفت کے ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ ، مجتہد مطلق وہی شخص ہو سکتا ہے جو نہ صرف حدیث کی روایت جانتا ہو بلکہ اس کے معانی و مفہوم ، دلائل اور صحت و ضعف کے اصولوں پر بھی عبور رکھتا ہو۔
دلچسپ اور قابلِ غور بات یہ ہے کہ امام شافعیؒ نے صرف امام اعظم کی تعریف پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ امام محمد بن حسنؒ کے واسطے سے امام ابو حنیفہؒ کی احادیث روایت کیں، جیسا کہ ان کی معروف کتاب "الام" میں تفصیل موجود ہے اور امام ذہبی فرماتے ہیں :
"وأما الشافعي فاحتج بمحمد بن الحسن فی الحدیث" (مناقب الامام ابی حنیفہ و صاحبَیہ، ص55، نیز: تاریخ الاسلام 4/956)
یہاں صرف روایت نہیں بلکہ استدلال (حجت پکڑنا) بھی مراد ہے، جو دونوں حضرات کی ثقاہت پر امام شافعی کی مہر تصدیق ہے۔ بلکہ امام شافعی سے حدیث روایت کرنے والے ربیع بن سلیمانؒ اور پھر ان سے روایت کرنے راوی بھی اپنے آخری وقت تک امام ابو حنیفہؒ سے روایت کرتے رہے (السنن الکبریٰ للبیہقی، 8/167، طبع: العلمیۃ) جو اس بات کی دلیل ہے کہ امام شافعی آخری وقت تک امام محمد اور امام ابو حنیفہ کو حدیث میں حجت مانتے تھے. امام شافعیؒ کا امام محمد بن حسنؒ کے واسطے سے امام ابو حنیفہؒ سے مرویات کو روایت کرنا، اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے نزدیک امام ابو حنیفہؒ نہ صرف اعلٰی درجے کے فقیہ تھے، بلکہ علمِ حدیث میں بھی معتبر تھے ۔ امام شافعیؒ نے امام ابو حنیفہؒ کو "رضی اللہ عنہ" جیسے جلیل القدر کلمے سے یاد فرمایا، جو امام اعظم کی توقیر، علمی منزلت اور دینی مقام پر امام شافعیؒ کی طرف سے مہر ہے۔ نیز، امام شافعی کی پوری علمی زندگی میں، خصوصاً آخری عمر تک، محمد بن حسن عن ابی حنیفہ کی مرویات کا روایت کیا جانا اس بات پر واضح دلیل ہے کہ امام شافعی ، فقیہ ملت امام ابو حنیفہؒ کو فقہ میں عظیم شخصیت سمجھنے کے ساتھ روایت حدیث میں بھی معتبر سمجھتے تھے ۔مزید تفصیل کے لیے قارئین ملاحظہ کریں۔
15. جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پوتے، قاضی کوفہ، فقیہِ وقت اور امامِ مجتہد حضرت قاسم بن معن رحمہ اللہ سے ایک شخص نے سوال کیا: "کیا آپ، جو ابنِ مسعودؓ کی نسل سے ہیں، اس بات پر راضی ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ جیسے شخص کے شاگردوں میں شامل ہوں؟" اس پر حضرت قاسم بن معنؒ نے جلال کے ساتھ فرمایا: "لوگوں نے کسی کی مجلس کو امام ابو حنیفہؒ کی مجلس سے زیادہ نفع بخش نہیں پایا" (الانتقاء 134/1 ، اسنادہ حسن)
حضرت قاسم بن معنؒ کا یہ قول اس بات کی دلیل ہے کہ امام ابو حنیفہؒ روایتِ حدیث اور فقہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے سچے اور مستحق علمی وارث ہیں، اور ان کی مستقل صحبت اختیار کرنا امام ابو حنیفہؒ کی شخصیت، علم، اور دیانت کی عملی توثیق ہے۔مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
17. امام علی بن صالح بن حييؒ ہیں، جنہیں محدثین کے ہاں "الإمام، القدوة، الثقة، مامون، رأسٌ في العلم، عابدٌ "جب امام ابو حنیفہؒ کی وفات کی خبر سنتے ہیں تو گہرے دکھ اور عظیم اعتراف کے ساتھ کہتے ہیں : ذهب مفتي العراق ، ذهب فقيه أهل العراق ( فضائل أبي حنيفة ص 81 ، سند حسن ) یعنی "عراق کا مفتی چلا گیا، اہلِ عراق کا فقیہ رخصت ہو گیا۔" مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
امام اعمش کا اعتراف میں یہ جملہ صادر ہوا کہ : "تم طبیب ہو، ہم صیادلہ" — اس جملے میں فقہ اور حدیث کی نسبت سے امام ابو حنیفہ کی اجتہادی قوت اور دینی بصیرت کی صریح توثیق ہے۔صیادلہ (دوا فروش / پنساری) صرف حدیث نقل کرتے ہیں، مگر طبیب (امام ابو حنیفہ جیسے فقیہ) تشخیص کرکے اس سے شریعت کے احکام نکالتے ہیں۔ مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
19. روح بن عبادہ بیان کرتے ہیں: میں سنہ 150 ہجری میں امام ابن جریج کے پاس موجود تھا، کسی نے آ کر کہا: ابو حنیفہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ تو امام ابن جریج رحمہ اللہ نے فرمایا: اللہ ان پر رحم کرے، ان کے ساتھ بہت سا علم بھی چلا گیا (فضائل أبي حنيفة، ص 82، سند حسن) امام ابن جریج، جنہیں امام احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، امام علی بن مدینی، امام ابو زرعہ الرازی اور حافظ ذہبی جیسے اکابرین نے ثقہ، ثبت، اور امام الحدیث تسلیم کیا ہے، اُن کی زبان سے یہ جملہ، امام ابو حنیفہ کی حدیث اور فقہ دونوں میں غیر معمولی گہرائی کا بین ثبوت ہے۔ کیونکہ اہلِ حدیث کے ہاں اگر کسی کے جانے پر یہ کہا جائے کہ "بہت سا علم رخصت ہو گیا"، تو اس سے مراد صرف فقہی آراء نہیں ہوتیں، بلکہ وہ حدیث، اصول، اجتہاد، تقویٰ اور بصیرتِ دینی جیسے جامع علوم کا ختم ہونا ہوتا ہے۔مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
20. حسن بن علی حلوانی بیان کرتے ہیں: میں نے یزید بن ہارون سے سوال کیا: "اے ابو خالد! آپ نے اپنی زندگی میں سب سے بڑا فقیہ کسے پایا؟" انہوں نے جواب دیا: "ابو حنیفہ۔" (راوی حسن بن علی مزید کہتے ہیں:) پھر میں نے ابو عاصم النبیل سے پوچھا: "آپ کے نزدیک ابو حنیفہ فقیہ تھے یا سفیان (ثوری)؟" تو ابو عاصم نے جواب دیا: "میرے نزدیک ابو حنیفہ، سفیان سے زیادہ فقیہ تھے۔" مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
21. ثقہ،امام نضر بن محمد القرشیؒ(م۱۸۳ھ) کہتے ہیں میں نے ابو حنیفہ سے زیادہ آثار (یعنی احادیث و آثارِ صحابہ) کا پابند کوئی شخص نہیں دیکھا۔ ( فضائل أبي حنيفة ص 219، سند صحیح ) یہ قول اس بات کا ثبوت ہے کہ امام ابو حنیفہ کی علم حدیث سے وابستگی صرف زبانی دعویٰ نہیں تھی بلکہ وہ عملی طور پر آثار کی اتباع میں ممتاز تھے۔ ان کی علمی زندگی سنت و آثار کے گرد گھومتی تھی، اور وہ سچے معنوں میں امام تھے
22.الإمام، الحافظ، عالم أهل البصرة سعید بن ابی عروبةؒ کے علم، تقویٰ، اور حدیث کے فہم پر تمام جرح و تعدیل کے ائمہ کا اتفاق ہے۔ امام یحییٰ بن معینؒ، ابو زرعہؒ، ابو حاتمؒ، امام احمد بن حنبلؒ، یزید بن ہارونؒ، اور یحییٰ القطانؒ جیسے اکابر محدثین نے ان کی ثقاہت پر مہر ثبت کی ہے۔ ان سے امام بخاری، امام مسلم، اور دیگر بڑے محدثین نے روایت کی ہے، صحیحین میں ان سے تقریبا 150 روایات لی گئی ہیں. وہ بیان کرتے ہیں "كان أبو حنيفة عالم العراق" یعنی ابو حنیفہؒ پورے عراق کے عالم تھے۔ (الانتقاء ص 130 ، سند صحیح)
مزید برآں، سعید بن ابی عروبةؒ خود بیان کرتے ہیں: "قدمتُ الكوفة، فحضرتُ مجلس أبي حنيفة، فذكر يوماً عثمان بن عفّان، فترحّم عليه، فقلتُ له: وأنت يرحمك الله، فما سمعتُ أحداً في هذا البلد يترحّم على عثمان غيرك، فعرفتُ فضله." یعنی: میں کوفہ آیا اور امام ابو حنیفہؒ کی مجلس میں حاضر ہوا۔ ایک دن انہوں نے حضرت عثمان بن عفّانؓ کا ذکر کیا اور ان کے لیے دعا رحمت کی۔ میں نے کہا: "اللہ آپ پر بھی رحم فرمائے، کیونکہ میں نے اس شہر میں آپ کے سوا کسی کو حضرت عثمانؓ پر درود یا رحمت بھیجتے نہیں سنا۔" اس وقت مجھے امام ابو حنیفہؒ کے علم و فضل کا احساس ہوا۔ (الانتقاء ص 130 ، سند صحیح) اس قول سے نہ صرف امام ابو حنیفہؒ کی علمی عظمت ظاہر ہوتی ہے، بلکہ ان کی اعتقادی استقامت، صحابہ کرامؓ کی تعظیم اور دینی حمیت و غیرت کا بھی ثبوت ملتا ہے۔
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
23.الحافظ، المجود، محدث البصرة ريحانة البصرة یزید بن زُریعؒ جیسے جلیل القدر، ثقہ، متقن، اور محدثِ وقت جب امام اعظم ابو حنیفہؒ کا تذکرہ کرتے ہیں تو ان کے الفاظ علم و فضل کی خوشبو سے معطر ہوتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
388 - حدثني أبي قال: حدثني أبي قال: حدثني أبو بكر محمد بن جعفر بن أعين قال: ثنا يعقوب بن شيبة، عن علي بن المديني قال: كان يزيد ابن زريع إذا ذكر أبا حنيفة قال: هيهات! طارت بفتواه البغال الشهب. یعنی: واہ! ان کے فتوے تو سفید خچروں پر سوار ہو کر ہر سمت اُڑ گئے۔(فضائل أبي حنيفة، رقم 388، سند صحيح)یہ صرف ایک ادبی جملہ نہیں، بلکہ امام ابو حنیفہؒ اور فقہِ حنفی کی علمی وسعت، غیر معمولی قبولیت، اور عالمگیر اثر پذیری کا نہایت بلیغ، فصیح اور دل نشین اظہار ہے۔ واہ! ان کے فتوے اتنے مشہور و مقبول ہوئے کہ گویا وہ سفید خچروں (یعنی اُس دور کی شاہی اور تیز ترین سواریوں) پر سوار ہو کر ہر سمت دلوں کو فتح کرتے ہوئے پھیل گئے۔ هَيهَات! طَارَت بِفَتْوَاهُ البِغَالُ الشُّهْبُ یزید بن زریعؒ کا یہ قول امام ابو حنیفہؒ کے علمی مقام اور ان کے فتاویٰ کی عالمگیر شہرت کی بھرپور تصویر کشی کرتا ہے۔
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
24.یحیی بن زکریا جن کو امام ذہبی رحمہ اللہ نے الحافظ ، العلم ، الحجة جیسے القاب سے یاد فرمایا یے اور امام ابو حاتم رازی ، ابن حبان ، احمد بن حنبل ، یحیی بن معین ، امام نسائی ، امام علی بن مدینی ، یعقوب بن شیبہ ، امام ذہبی ، ابن حجر سب نے ان کو ثقہ کہا ہے۔ وہ امام ابو حنیفہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں، جانتے ہیں :-
محمد بن سليمان لوين یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدة اور عمرو بن ثابت کا قول نقل کرتے ہیں کہ : ہم نے کبھی کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جس نے امام ابو حنیفہؒ کا علم اس وجہ سے چھوڑا ہو کہ وہ دین میں زیادہ پرہیزگار یا محتاط بننا چاہتا ہو۔ ( فضائل أبي حنيفة 815 ، سند حسن ) دوسرے الفاظ میں کہیں تو امام ابو حنیفہ کا علم اتنا معتبر تھا کہ جو ایک بار امام ابو حنیفہ اور انکی مجلس سے جڑ جاتا تو ان سے مستفید ہوئے بغیر نہیں رہتا .مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
25. امام ترمذی رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ذکر ان جلیل القدر آئمہ میں کیا ہے، جن کی رائے جرح و تعدیل کے باب میں حجت و معیار سمجھی جاتی ہے۔ یعنی امام ابو حنیفہؒ کو صرف ایک فقیہ یا مجتہد ہی نہیں، بلکہ فنِ رجال الحدیث کے امام کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا۔ جیسا کہ امام ترمذی نے "کتاب العلل" میں فرمایا: وقد عاب بعض من لا يفهم على اهل الحديث الكلام في الرجال، وقد وجدنا غير واحد من الائمة من التابعين قد تكلموا في الرجال منهم۔۔۔۔۔۔
"بعض ناسمجھ لوگوں نے اہلِ حدیث کو رواۃ پر جرح کرنے کے باعث تنقید کا نشانہ بنایا، حالانکہ ہم نے خود دیکھا کہ بہت سے آئمہ تابعین نے رواۃ الحدیث پر کلام فرمایا، ان میں سے..."
پھر امام ترمذی نے ایک روایت نقل فرمائی:
حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابويحيى الحماني، قال: سمعت ابا حنيفة يقول: ما رأيت احدا اكذب من جابر الجعفي، ولا افضل من عطاء بن ابي رباح. "ابویحییٰ حمانی کہتے ہیں: میں نے امام ابو حنیفہؒ کو فرماتے ہوئے سنا کہ: میں نے جابر جعفی سے زیادہ جھوٹا راوی نہیں دیکھا، اور نہ ہی عطاء بن ابی رباح سے زیادہ فاضل کسی کو پایا۔" (سنن ترمذی، کتاب العلل)
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
26.الإمام العلامة المحدث، الثقة، قاضي البصرة محمد بن عبد اللہ انصاری صحیح بخاری میں امام بخاریؒ نے ان سے ثلاثیات (تین واسطوں والی احادیث) روایت کی ہے۔ فرماتے ہیں: "ابو حنیفہؒ کی عقل و فہم ان کی گفتگو، ان کی چال، ان کے اندر آنے اور باہر جانے یعنی روزمرہ حرکات و سکنات سے ظاہر ہوتی تھی۔" (تاريخ بغداد، 13/364، سند صحيح)
27. ثقہ اسحاق بن ابی اسرائیل امام ابو حنیفہؒ کا ذکر کر رہے تھے، تو انہوں نے فرمایا: اللہ ان پر رحم فرمائے، لوگوں نے ان سے روایت کی ہے۔
"مجھے عارم نے بیان کیا، انہوں نے ابو عوانہ سے، اور انہوں نے امام ابو حنیفہؒ سے روایت کی۔ اور ابن المبارکؒ نے بھی ان سے حدیث بیان کی ہے۔ عباد بن عوام، حماد بن زید، ہشیم بن بشیر، وکیع بن جراح، حفص بن غیاث، یحییٰ بن یمان، فضل بن دکین، ہوذہ بن خلیفہ، عبداللہ بن داود خریبی، حسان بن ابراہیم، سفیان بن عیینہ، یحییٰ بن سلیم، داؤد طائی، جریر بن عبدالحمید، اور رباح بن زید نے بھی امام ابو حنیفہؒ سے روایت کی ہے۔ان تمام لوگوں نے امام ابو حنیفہؒ سے روایت مناولۃ کے ذریعہ حاصل کی۔" (فضائل و مناقب ابن ابی العوام ، برقم : 164 ، اسنادہ صحیح ) یہ روایت امام ابو حنیفہؒ کے علمی مقام و مرتبہ پر واضح دلیل ہے کہ اکابر و جلیل القدر محدثین جیسے:
امام ابن المبارک
امام حماد بن زید
امام وکیع
امام سفیان بن عیینہ
امام ابن عوانہ
امام ابو نعیم فضل بن دکین
وغیرہ جو صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے امام اعظم سے روایت کی ہے یعنی ان تمام حضرات کے نزدیک امام اعظم ابو حنیفہ ثقہ تھے ، اور یہ بات واضح کرتی ہے کہ امام ابو حنیفہ ثقہ و معتبر اور معتمد علیہ امام تھے جن سے کثیر تعداد میں حفاظ نے روایات کیں ہیں۔ اس کے علاوہ امام حفص بن غیاث اور ابو عاصم النبیل جو صحیحین کے ثقہ ثبت راوی ہیں ، داود الخریبی رحمہ اللہ بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں ، داود الطائی اپنے زہد و تقوی میں امام سمجھے جاتے تھے و دیگر حفاظ کا امام اعظم سے حدیثیں روایت کرنا امام اعظم کی علم حدیث میں مہارت کا واضح ثبوت ہے
28. صدوق راوی ابو یحیی الحمانی نے سفیان ثوری، الأعمش، مالک بن مغول، مسعر بن کدام، عبداللہ بن عون جیسے بڑے بڑے حفاظِ حدیث اور آئمہ فن کو نہ صرف دیکھا بلکہ ان سے روایت بھی کی۔ مگر ان سب کو دیکھنے کے باوجود ابو یحییٰ الحمانی نے ببانِ صدق یہ اعلان کیا: "میں نے امام ابو حنیفہ سے بہتر کوئی شخص نہیں دیکھا۔" (مسند أبي حنيفة - أبو نعيم الأصبهاني - الصفحة ٢١ ، سند حسن)
29. یونس بن ابی اسحاق، جنہیں امام ذہبیؒ نے "محدثِ کوفہ" اور "أحد العلماء الصادقين" کہا ہے، اور جنہیں ابن حجرؒ اور ذہبیؒ دونوں نے "صدوق" شمار کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: نعمان بن ثابت ، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی صحیح حدیث کی سخت اتباع کرنے والے تھے، اگر استدلال کیلئے انہیں کوئی حدیث رسول نہیں ملتی تو اہل کوفہ میں سے آپ کے اصحاب کی صحیح روایت کو لیتے ، اگر اس میں علماء کا آپ کے اہل شہر علماء سے اختلاف ہوتا تو آپ کے ہم عصر اہل کوفہ نے اہل کوفہ سے جو نقل کیا ہوتا آپ اس سے تجاوز نہ فرماتے ( فضائل أبي حنيفة ص 150 ، سند حسن ) یہ روایت واضح کرتی ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ حدیث نبوی ﷺ کے سخت پیروکار تھے۔
30. امام حاکم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب معرفة علوم الحديث میں ایک باب باندھا ہے هذا النوع من هذه العلوم معرفة الأئمة الثقات المشهورين من التابعين وأتباعهم ممن يجمع حديثهم للحفظ، والمذاكرة، والتبرك بهم " ثقہ اور مشہور آئمہ دین ، جن کی احادیث حفظ اور مذاکرہ اور حصول برکت کیلئے جمع کی جاتیں ہیں" ۔ اس باب میں امام حاکم نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ذکر بھی کیا ہے ۔
جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امام حاکم جیسے جلیل القدر محدث کی نظر میں امام ابو حنیفہؒ نہ صرف ثقہ اور مشہور تھے، بلکہ ان کا شمار ان برگزیدہ محدثین و فقہاء میں ہوتا تھا جن کے اقوال و احادیث علمی قدر، دینی استفادہ اور روحانی برکت کے لیے محفوظ کیے جاتے تھے۔ یہ روایت امام ابو حنیفہ کی علمی عظمت، ثقاہت، اور امت میں ان کی مقبولیت کا روشن ثبوت ہے۔
امام ذھبی فرماتے ہیں کہ وَرَوَى عَنْهُ مِنَ الْمُحَدِّثِينَ وَالْفُقَهَاءِ عِدَّةٌ لا يُحْصَوْنَ فَمِنْ أَقْرَانِهِ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے محدثین اور فقہاء میں سے اس قدر زیادہ لوگوں نے روایات کیں ہیں کہ ان کی تعداد بیان کرنا مشکل ہے۔ ( مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه للذھبی ص 20 )
اگر امام صاحب محدث نہ تھے تو محدثین اور فقہاء نے کیسے ان سے ان گنت روایات نقل کیں ؟
یہ تمام گواہیاں امام ابو حنیفہؒ کی ثقاہت، علم، دیانت، اور اجتہاد کی روشن دلیل ہیں، جنہیں محدثین، فقہاء، اور آئمہ نے قبول کیا۔
امام ابو حنیفہؒ پر کثرت سے مسانید مرتب کی گئی ہیں، جو اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ آپ علمِ حدیث میں اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ ان مسانید کی تفصیلات درج ذیل کتب میں دیکھی جا سکتی ہیں:
الموسوعۃ الحدیثیہ فی روایات الامام ابو حنیفہ
امام ابو حنیفہ کا محدثانہ مقام
ثقہ، ثبت، حافظ الحدیث امام ابو حنیفہؒ (۴ جلدوں پر مشتمل ایک علمی شاہکار) اس میں ہم نے "الاجماع شمارہ" کے حوالے سے امام ابو حنیفہؒ کی توثیق و تعریف کو مکمل اسناد اور تفصیلی تحقیق کے ساتھ جمع کیا ہے۔ ہر روایت پر اسناد، جرح و تعدیل اور درایت کے اصولوں کے مطابق تفصیلی علمی تحقیق کی گئی ہے۔
دفاعِ احناف لائبریری میں امام ابو حنیفہؒ کی سیرت و فضائل پر 100 سے زائد عربی و اردو کتب موجود ہیں۔
ائمۂ حدیث کی نظر میں امام ابو حنیفہؒ: ایک تحقیقی اشاراتی جائزہ
ذیل میں ان جلیل القدر ائمۂ حدیث کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جنہوں نے امام اعظم ابو حنیفہؒ کے فقہی مذہب کو قبول کیا، اس کو عام کیا اور اپنی زندگیوں سے اس کی حقانیت کی گواہی دی۔یہ وہ محدثین ہیں جنہوں نے نہ صرف فقہِ حنفی کو اپنایا بلکہ امام ابو حنیفہؒ کو اپنا امام و پیشوا تسلیم کیا۔ ظاہر ہے کہ ایک محدث اپنی علمی دیانت، بصیرت اور تقویٰ کے باعث کسی ضعیف یا غیر ماہر شخص کی پیروی نہیں کر سکتا۔ اگر ان جلیل القدر ائمہ نے امام ابو حنیفہؒ کو اپنا امام مانا ہے تو یہ بذاتِ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ امام ابو حنیفہؒ علمِ حدیث میں کامل مہارت رکھتے تھے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ شخصیت، جس کی فقہ سفیان بن عیینہ کے بقول "زندگی ہی میں آفاق میں پھیل چکی تھی"، وہ حدیث سے ناواقف ہو؟ حاشا و کلا! چودہ سو سالہ تاریخِ امت مسلمہ گواہ ہے کہ جس امام کو امت کا بڑا طبقہ "امام مجتہد" مانتا ہے، وہ یقینا حدیث میں بھی راسخ و ماہر ہے۔ کیونکہ کسی مضبوط حدیثی بنیاد کے بغیر ایسی فقہ ممکن ہی نہیں جسے رب تعالیٰ مقبولیت عطا فرمائے۔ بہر حال، ذیل میں ان ثقہ و ثبت محدثین کے نام پیش کیے جا رہے ہیں جنہوں نے فقہ حنفی کو اختیار کیا اور اسے علمی سند بخشی:
-
امام ابو یوسفؒ – قاضی القضاة، شاگردِ خاص امام ابو حنیفہؒ، ثقہ و ثبت محدث .حدثني أبي قال : حدثني أبي قال : حدثني محمد بن أحمد بن حماد قال : ثنا أحمد بن القاسم البرتي قال : حدثني ابن أبي رزمة قال : أخبرني خالد بن صبيح قال : سمعت أبا يوسف يقول : ما رأيت أحداً أعلم بتفسير الحديث من أبي حنيفة . ( فضائل أبي حنيفة ص 87 ، سند صحیح ) ابو یوسف کہتے ہیں: میں نے حدیث کی تشریح میں ابو حنیفہ سے زیادہ علم والا کوئی نہیں دیکھا۔ مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود امام ابو یوسف ؒ(م۱۸۲ھ) ثقہ، امام ،فقیہ،حافظ الحدیث اور ثبت،متقن ہیں۔
امام محمد بن حسن الشیبانیؒ – شاگردِ خاص، ثقہ و ثبت محدث
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
3. امام وکیع بن الجراحؒ، 4. امام یحییٰ بن معینؒ، 5. امام یحییٰ بن سعید القطانؒ، 6. امام عبد اللہ بن مبارکؒ، 7. امام طحاویؒ، 8. امام شعیب بن اسحاقؒ، 9. ابن کاس نخعیؒ، 10. امام محمد بن نضر الجارودیؒ، 11. ابو بشر دولابیؒ، 12. امام علاء الدین مغلطائیؒ، 13. امام مارینی حنفیؒ، 14. امام زیلعیؒ، 15. امام عینیؒ، 16. امام قاسم بن قطلوبغاؒ.
کتبِ مناقب کی روشنی میں امام ابو حنیفہؒ کی توثیق
امام ابو یحییٰ زکریا بن یحییٰ نیشاپوریؒ، امام طحاویؒ، امام ابنِ ابی العوامؒ، امام ابو الفضل الزرنجری البخاریؒ، امام ابو الموید موفق بن احمد خوارزمی مکیؒ، امام صیمری حنفیؒ، قاضی ابو جعفر بلخی سرماریؒ، امام ابن عبدالبرؒ، امام ابو احمد محمد بن احمد شعیبیؒ، امام القاضی ابنِ کاس النخعی الحنفیؒ، شیخ یحییٰ بن محمد الکرمانی الشافعیؒ، صاحبِ قاموس ابو طاہر مجدالدین محمد بن یعقوب شیرازیؒ، امام نوح بن مصطفی رومی حنفیؒ، امام ذہبیؒ، امام سیوطیؒ، امام ابنِ حجر ہیتمیؒ، ابنِ المبرد الحنبلیؒ، امام یوسف صالح دمشقیؒ، الملک المعظم عیسی ابوبکر الایوبیؒ، حافظ عبدالقادر قرشیؒ، محدث مکّہ یوسف صیدلانیؒ، امام ابنِ ہادی الحنبلیؒ،امام ابن عابدینؒ،محدث شیخ زکریا کاندھلویؒ، امام زاہد الکوثریؒ، علامہ عبد الرشید نعمانیؒ، علامہ ظفر احمد عثمانیؒ ، ڈاکٹر طحّان حنفیؒ وغیرہ جیسے جلیل القدر ائمہ نے امام ابو حنیفہؒ کی تعریف و توثیق پر مستقل کتب تحریر فرمائیں۔ سب کتب کی تفصیل دفاع احناف لائبریری میں موجود کتاب "مناقب ابی حنیفہ پر لکھی گئی کتب" از مولانا عبید اختر رحمانی میں دیکھ سکتے ہیں.یہ تمام شخصیات صرف حنفی نہیں بلکہ ان میں مالکی، شافعی اور حنبلی ائمہ بھی شامل ہیں، جنہیں ہم نے نیلے رنگ سے نمایاں کیا ہے۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ خواہ کوئی امام ابو حنیفہؒ کا مقلد ہو یا نہ ہو، جب اس نے امام ابو حنیفہؒ کی سیرت و مقام پر قلم اٹھایا تو گویا اس نے پوری امت کو یہ پیغام دیا کہ امام ابو حنیفہؒ "ثقہ" ہیں، "امام" ہیں، "حجت" ہیں، اور "تعریف و توصیف کے لائق" ہیں۔ان علماء نے امام صاحبؒ کی سیرت، فقاہت، ثقاہت اور علمی مقام پر تفصیلی کلام کیا، اور ان کی توثیق کے دلائل ذکر کیے۔ان کتابوں میں امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں جو اقوال نقل کیے گئے ہیں وہ اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ان حضرات کے نزدیک امام ابو حنیفہؒ ثقہ، حجت، فقیہ، اور علمِ حدیث میں معتبر و معتمد علیہ امام تھے۔ ان کی سیرت اور ثقاہت پر کی گئی یہ تحریریں اس بات کی روشن دلیل ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ نہ صرف علمِ فقہ میں، بلکہ علمِ حدیث میں بھی ان ائمہ کے نزدیک ایک قابلِ حجت اور مستند شخصیت تھے۔
جلیل القدر ائمہ جرح و تعدیل کی رائے:
امام ذہبی، امام مزی، اور امام ابن حجر جیسے جلیل القدر ائمہ نے امام ابو حنیفہؒ پر وارد جرحات کو رد کرتے ہوئے اُن کی توثیق کو اختیار کیا ہے۔ ان اکابر ائمہ کے پاس اپنے سے پہلے تمام محدثین کے اقوال موجود تھے، اس کے باوجود ان حضرات کا صرف امام ابو حنیفہؒ کی تعریف و توثیق ہی کو نقل کرنا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ امام ابو حنیفہؒ پر کی گئی جرحات مردود، ناقابلِ اعتبار اور غیر معتبر ہیں۔ لہٰذا ثابت ہوتا ہے کہ: ان حضرات کے نزدیک امام ابو حنیفہؒ ثقہ، ثبت، فقیہ اور امام مجتہد ہیں۔
اختتامی کلمات:
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نہ صرف علمِ فقہ کے بانیوں میں سے ہیں، بلکہ شریعتِ اسلامیہ میں فہم و بصیرت اور علمِ حدیث و اجتہاد کے ایسے درخشاں مینار ہیں، جن پر پورے اسلامی علمی ورثے کا دار و مدار قائم ہے۔ جیسا کہ امام شافعیؒ کا قول ہے: "العلم يدور على ثلاثة: مالك، والليث، وابن عيينة" یعنی: "علم ( حدیث ) کا مدار تین شخصیات پر ہے: امام مالکؒ، امام لیثؒ، اور ابن عیینہؒ"۔ امام ذہبیؒ (م 748ھ) اس قول پر اضافہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"قلت: بل وعلى سبعة معهم، وهم: الأوزاعي، والثوري، ومعمر، وأبو حنيفة، وشعبة، والحمادان" (سیر أعلام النبلاء: ج 8، ص 94)
گویا امام ابو حنیفہؒ کو اُن سات ائمہ میں شمار کیا گیا ہے جن پر علم حدیث کا دارومدار ہے۔
اس کے علاوہ امام ابو حنیفہ کی فقہ اور علمی بصیرت ان کی زندگی ہی میں اس قدر پھیل چکی تھی کہ امام سفیان بن عیینہؒ جیسے اجلّ حفاظ کو کہنا پڑا:
"دو چیزوں کے بارے میں میرا گمان تھا کہ وہ کوفہ کے پل سے آگے نہ بڑھیں گی، مگر وہ پوری آفاق ( دنیا ) میں پھیل گئیں: ایک حمزہ کی قراءت، اور دوسرے ابو حنیفہ کی فقہ "
(تاریخ بغداد، ج 15، ص 475، بشار عواد معروف نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے )
یہ صرف فقہ نہیں بلکہ امام اعظم کی حدیث میں مہارت کا بھی بین ثبوت ہے کہ:
● سخت گیر ناقدینِ حدیث جیسے یحییٰ بن معین اور شعبہ بن الحجاج نے بھی امام ابو حنیفہ کو ثقہ تسلیم کیا۔ کیونکہ ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی اگر کسی غیر معروف ( مجہول ) راوی سے حدیث روایت کر دیں تو وہ ثقہ شمار ہوتا ہے، تو جب انہوں نے ابو حنیفہؒ کی واضح توثیق کی، تو اس سے بڑا علمی اعتراف کیا ہو سکتا ہے؟
● اس کے علاوہ عبداللہ بن المبارک، ابن معین ، یحییٰ بن سعید قطان، وکیع بن الجراح، اور مکی بن ابراہیم جیسے حفاظِ حدیث امام ابو حنیفہ کی رائے اور ان کے اجتہادات پر نہ صرف اعتماد کرتے تھے بلکہ بقول امام ابن معین امام یحیی بن سعید القطان اور امام وکیع امام ابو حنیفہ کے قول پر فتویٰ بھی دیتے تھے ۔
● سید الفقہاء امام شافعی، شیخ الاسلام یزید بن ہارون، محدث عبدالرزاق الصنعانی ، قاضی کوفہ قاسم بن معن ، صاحب سنن امام ابو داود ، جلیل القدر محدث مسعر بن کدام جیسے اکابرین امت نے انہیں اپنے دور کا ( سب سے بڑا ) فقیہ ، متقی ، پرہیزگار ، امام ، شریعت کا ماہر قرار دیا۔
یہی وہ مقام تھا جس کے باعث: امام فضل بن دکین ، محدث وکیع بن الجراح ، محدث زہیر بن معاویہ اور محدث حماد بن زید جیسے محدثین، جو صرف ثقہ راویوں سے روایت کرتے تھے، امام ابو حنیفہ سے روایت کرتے تھے۔ جو امام ابو حنیفہ کی روایت حدیث میں ثقہ ہونے کی علامت ہے.
آخرکار، انہی تمام خصوصیات کے نتیجے میں:
عباسی خلیفہ وقت کو امام اعظمؒ کو منصبِ قضاء کی پیش کش کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
حالانکہ اس دور میں سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ ، اوزاعی ، امام مالک، عبداللہ بن مبارک، اور شعبہ جیسے اکابر محدثین اور فقہاء موجود تھے، مگر قاضی القضاة کے لیے انتخاب صرف امام ابو حنیفہؒ کا ہوا ، نہ صرف انتخاب ہوا بلکہ امام اعظم کو کوڑے تک مارے گئے کہ زبردستی منصب قبول کریں۔ اس تمام علمی و تاریخی تجزیے کا واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ:
امام اعظم ابو حنیفہؒ وہ عظیم المرتبت مجتہد، فقیہ، اور محدث ہیں جن کی فقہ، بصیرت، حدیث فہمی اور تقویٰ پر نہ صرف ان کے معاصرین بلکہ بعد کے ائمہ کرام نے بھی اعتماد کرا ۔ امام ابو حنیفہؒ کا مقام محض ایک فقیہ کا نہیں، بلکہ ایک مجتہد مطلق، محدثِ بصیر اور مفکرِ ملت کا تھا، جنہوں نے فقہ کو روایت کے ساتھ درایت کا لباس عطا کیا۔ مزید تفصیل کے لیے قارئین ملاحظہ کریں۔
امام ابوحنیفہ ثقہ ہیں۔ سلسلہ تعریف و توثیق ابو حنیفہ رحمہ اللہ
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر متفرق اعتراضات
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں