نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام ابو حنیفہ ؒ (م ۱۵۰؁ھ) امام ایوب سختیانیؒ (م ۱۳۱؁ھ) کی نظر میں۔

 


امام ابو حنیفہ ؒ (م ۱۵۰؁ھ) امام ایوب سختیانیؒ (م ۱۳۱؁ھ) کی نظر میں۔

-مولانا نذیر الدین قاسمی


حافظ المشرق، امام خطیب بغدادیؒ (م۴۶۳؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

أخبرنا القاضي أبو جعفر محمد بن أحمد بن محمد السمناني، أخبرنا اسماعیل بن الحسين بن علي البخاري الزاهد، حدثنا أبو بكر أحمد بن سعد بن نصر، حدثنا علي ابن موسى القمي، حدثني محمد بن سعدان قال: سمعت أبا سليمان الجوزجاني يقول: سمعت حماد بن زيد يقول: أردت الحج، فأتيت أيوب أودعه، فقال: بلغني أن الرجل الصالح فقيه أهل الكوفة- يعني أبا حنيفة- يحج العام، فإذا لقيته فأقرئه مني السلام۔

ابو سلیمان جوزجانیؒ کہتے ہیں کہ میں نے حماد بن زیدؒ کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے حج کا ارادہ کیا، تو میں ایوبؒ کو الوداع کہنے آیا ، انہوں نے کہا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ بندہ نیک ، اہل کوفہ کے فقیہ یعنی ابو حنیفہؒ اس سال سے حج کرنے والے ہیں ، تو جب تمہاری ان سے ملاقات ہوتو انہیں میرا سلام کہنا۔ (تاریخ بغداد : جلد۱۳ : صفحہ ۳۴۱)

اس روایت کے روات کی تفصیل درجِ ذیل ہے :

۱ –         امام خطیب بغدادیؒ (م ۴۶۳؁ھ) مشہور ثقہ ، حافظ الحدیث ہیں ۔ (کتاب الثقات للقاسم)

۲ –         قاضی ابو جعفر محمد بن احمد السمنانیؒ ( م۴۴۴؁ھ) بھی ثقہ ہیں ۔ (کتاب الثقات للقاسم : جلد۸ : صفحہ ۱۴۶)

۳ –       امام اسماعیل بن حسین بن علی بخاریؒ(م ۴۰۲؁ھ) مشہور زاہد ، فقیہ  اور فقہ میں اپنے وقت کے امام اور بہت ہی پرہیزگار تھے ۔  (تاریخ بغداد : جلد۱۳ : صفحہ ۳۴۱، جلد۱۹: صفحہ ۱۷۰، المنتخب من کتاب السیاق لتاریخ نیسابور : صفحہ ۱۳۵)جو کہ ان کے صدوق اور حسن الحدیث ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔ (اضواء المصابیح : صفحہ ۲۵۱)

۴ –       امام ابو بکر احمد بن سعد بن نصر البخاریؒ (م ۳۵۷؁ھ) بھی صدوق ، فقیہ اور زاہد ہیں ۔(الروض الباسم : صفحہ ۲۱۸)

۵ –        امام علی بن موسیٰ قمی (م ۳۰۵؁ھ) صدوق راوی ہیں ، امام ذہبی ؒ نے ان کی تعریف ، اور امام حاکمؒ نے بھی ان کی توثیق کی ہے ۔ (سیر اعلام النبلاء : جلد۱۴ : صفحہ ۲۳۶)

۶ –        محمد بن سعد ؒ کو امام ابو بکر محمد بن جعفر المطیریؒ (م۳۳۵؁ھ) نے فقیہ کہاہے۔ (مسند امام اعظم لابن خسرو: جلد۲: صفحہ ۶۵۹) ، اور سلفی شیخ بشار عواد معروف نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے ۔ (تاریخ بغداد : جلد۱۵ : صفحہ ۴۶۷، بتحقیق بشار )  لہذا وہ بھی مقبول ہیں ۔ (اضواء المصابیح : صفحہ ۲۵۱)

۷ –       ابو سلیمان موسیٰ بن سلیمان الجوزجانیؒ بھی صدوق ہیں ۔ (تاریخ بغداد : جلد۱۳ : صفحہ ۳۸)

۸ –       حماد بن زیدؒ (م ۱۷۹؁ھ) صحیحین کے راوی اور ثقہ مضبوط ہیں ۔ (تقریب : رقم ۱۴۹۸)

۹ –        امام ایوب سختیانیؒ (م ۱۳۳؁ھ) بھی صحیحین کے راوی اور ثقہ ، مضبوط اور حجت ہیں ۔ (تقریب : رقم ۶۰۵)

معلوم ہوا کہ یہ سند حسن ہے ۔

نیز، دیکھئے (الانتقاء لابن عبد البر : صفحہ ۱۲۵، اخبار ابی حنیفۃ وأصحابہ :صفحہ ۷۹، فضائل أبی حنیفۃ أصحابہ : صفحہ ۱۰۴)


ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 9

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...