الإمام ، العلامة ، الحافظ شيخ الحرم ، صاحب التصانيف ابن جريج رحمہ اللہ کی نظر میں امام اعظم ابو حنیفہ :
الإمام ، العلامة ، الحافظ شيخ الحرم ، صاحب التصانيف ابن جريج رحمہ اللہ کی نظر میں امام اعظم ابو حنیفہ :
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی علمی عظمت و جلالت پر جلیل القدر محدثین و فقہاء کے اقوال روشن چراغوں کی مانند ہیں، جو آپ کی شخصیت کو تاریخِ اسلام میں بے نظیر مقام عطا کرتے ہیں۔ انہی روشن شہادتوں میں سے ایک، امام الحرم، حافظ الحدیث، فقیہِ مکہ، امام ابن جُرَیج رحمہ اللہ کا قول ہے، جو اس وقت ارشاد فرمایا گیا جب امام ابو حنیفہؒ کے وصال کی خبر پہنچی۔
حدثني أبي قال : حدثني أبي قال : حدثني محمد بن احمد بن حماد قال : ثنا إبراهيم بن سعيد الجوهري قال : ثنا روح بن عبادة قال : كنت عند ابن جريج سنة خمسين ومائة فقيل له : مات أبو حنيفة ، فقال : رحمه الله لقد ذهب معه علم كثير
روح بن عبادہ بیان کرتے ہیں:
میں سنہ 150 ہجری میں امام ابن جریج کے پاس موجود تھا، کسی نے آ کر کہا: ابو حنیفہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ تو امام ابن جریج رحمہ اللہ نے فرمایا:
اللہ ان پر رحم کرے، ان کے ساتھ بہت سا علم بھی چلا گیا۔
(فضائل أبي حنيفة، ص 82، سند حسن)
ابن جریج رحمہ اللہ کے یہ الفاظ محض اظہارِ افسوس نہیں بلکہ ایک جلیل القدر عالم و محدث کی طرف سے امام ابو حنیفہ کے مقامِ علمی کی زبردست گواہی ہے۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ امام ابو حنیفہ صرف ایک فقیہ نہ تھے، بلکہ وہ علومِ شریعت کا ایسا بحرِ ناپیدا کنار تھے، کہ ان کے جانے سے علم کے کئی باب بھی ساتھ رخصت ہو گئے۔ یہ فقرہ دراصل اس درد کا اظہار ہے جو اہلِ علم صرف اُس وقت محسوس کرتے ہیں جب کوئی "علم کا قلعہ" ڈھہ جاتا ہے۔
امام ابن جریج، جنہیں امام احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، امام علی بن مدینی، امام ابو زرعہ الرازی اور حافظ ذہبی جیسے اکابرین نے ثقہ، ثبت، اور امام الحدیث تسلیم کیا ہے، اُن کی زبان سے یہ جملہ، امام ابو حنیفہ کی حدیث اور فقہ دونوں میں غیر معمولی گہرائی کا بین ثبوت ہے۔ کیونکہ اہلِ حدیث کے ہاں اگر کسی کے جانے پر یہ کہا جائے کہ "بہت سا علم رخصت ہو گیا"، تو اس سے مراد صرف فقہی آراء نہیں ہوتیں، بلکہ وہ حدیث، اصول، اجتہاد، تقویٰ اور بصیرتِ دینی جیسے جامع علوم کا ختم ہونا ہوتا ہے۔
فقہ کی تعریف درحقیقت امام ابو حنیفہؒ کی حدیث میں مہارت کا اعتراف ہے
جب بھی امام ابو حنیفہؒ کی فقہی عظمت کا اعتراف کیا جاتا ہے، بالخصوص جب امام ابو حنیفہؒ کو "عظیم فقیہ" یا "فقہ میں سب سے بلند مقام رکھنے والا" کہا جاتا ہے، تو یہ محض ان کی فقہ دانی کی تعریف نہیں ہوتی، بلکہ درحقیقت یہ حدیث نبویؐ میں ان کی مہارت، بصیرت اور ثقاہت کا واضح اعتراف ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فقہ کا پورا ڈھانچہ قرآن و سنت، بالخصوص احادیث نبویہ پر قائم ہے۔ کوئی بھی فقیہ اس وقت تک معتبر نہیں ٹھہرایا جا سکتا جب تک وہ حدیث کے مفاہیم، اسناد، رجال، علل اور اصولِ درایت پر کامل دسترس نہ رکھتا ہو۔فقہ صرف قیاس و رائے کا نام نہیں، بلکہ وہ علم ہے جو قرآن و سنت کی بنیاد پر پروان چڑھتا ہے۔ جو شخص حدیث سے ناواقف ہو، وہ کبھی صحیح معنوں میں فقہی اجتہاد نہیں کر سکتا۔ اسی تناظر میں، جب ائمہ و محدثین امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی تعریف کرتے ہیں، تو وہ درحقیقت ان کی حدیث میں مہارت، دقتِ نظر، اصولی فہم، اور علمی بصیرت کو بھی تسلیم کر رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ فقہ میں بلندی اور عمق اُس وقت ہی معتبر ہوتا ہے جب اس کے پیچھے حدیث کا گہرا علم اور اعتماد موجود ہو۔ اس لیے کہنا بے جا نہ ہوگا کہ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی تعریف، ان کی حدیث فہمی کی روشن دلیل ہے۔پس، جو لوگ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی تعریف کرتے ہیں، وہ خواہ شعوری طور پر نہ بھی کریں، درحقیقت ان کی حدیث میں مہارت، استدلال کی قوت، اور ثقاہت کو بھی تسلیم کر رہے ہوتے ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں