نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

الإمام، الحافظ، عالم أهل البصرة سعید بن ابی عروبةؒ کی امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں گواہی – ایک جلیل القدر محدث کی زبانی عظمتِ امام اعظمؒ کا اعتراف


الإمام، الحافظ، عالم أهل البصرة  سعید بن ابی عروبةؒ کی امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں گواہی – ایک جلیل القدر محدث کی زبانی عظمتِ امام اعظمؒ کا اعتراف


سعید بن ابی عروبةؒ، جنہیں امام ذہبی نے "الإمام، الحافظ، عالم أهل البصرة" اور "واسع الحديث عالم فقيه كبير الشأن" کے تعریفی الفاظ  سے یاد کیا ہے، وہ نہ صرف حفظ و روایت میں بلند مرتبہ رکھتے تھے بلکہ ان کے علم، تقویٰ، اور حدیث کے فہم پر تمام جرح و تعدیل کے ائمہ کا اتفاق ہے۔ امام یحییٰ بن معینؒ، ابو زرعہؒ، ابو حاتمؒ، امام احمد بن حنبلؒ، یزید بن ہارونؒ، اور یحییٰ القطانؒ جیسے اکابر محدثین نے ان کی ثقاہت پر مہر ثبت کی ہے۔ ان سے امام بخاری، امام مسلم، اور دیگر بڑے محدثین نے روایت کی ہے، صحیحین میں ان سے تقریبا 150 روایات لی گئی ہیں ،  اگرچہ وہ مدلس تھے اور اواخر عمر میں اختلاط کا عارضہ لاحق ہو چکا تھا لیکن اختلاط سے پہلے پہلے تمام محدثین نے ان کی ثقاہت کو مانا ہے۔

ایسے عظیم، محتاط، اور ثقہ محدث جب کسی شخصیت کے علم و فضل کی گواہی دیں، تو وہ الفاظ تاریخ میں ایک زندہ شہادت بن جاتے ہیں۔ امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں سعید بن ابی عروبةؒ نے نہایت واضح اور بلند پایہ الفاظ کہے ہیں:

"كان أبو حنيفة عالم الكوفة"

یعنی ابو حنیفہؒ شہر کوفہ کے عالم تھے۔ (فضائل أبي حنيفة، رقم 383، سند میں المثنی بن رجاء پر کلام فضول ہے جیسا کہ الانتقاء میں یہی الفاظ صحیح سند سے منقول ہیں)


نَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ نَا يَحْيَى بن أَبى طَالب قَالَ نَا عبد الوهاب بْنُ عَطَاءٍ الْخَفَّافُ قَالَ سُئِلَ سَعِيدُ بْنُ ابى عرُوبَة عَن شئ مِنْ عِلْمِ الطَّلاقِ فَأَجَابَ فِيهِ فَقِيلَ لَهُ هَكَذَا قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ فِيهَا فَقَالَ سَعِيدٌ كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ عَالِمَ الْعِرَاقِ قَالَ وَقَالَ سعيد ابْن أَبِي عَرُوبَةَ قَدِمْتُ الْكُوفَةَ فَحَضَرْتُ مَجْلِسَ أَبِي حَنِيفَةَ فَذَكَرَ يَوْمًا عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَتَرَحَّمَ عَلَيْهِ فَقلت لَهُ وَأَنْتَ يَرْحَمُكَ اللَّهُ فَمَا سَمِعْتُ أَحَدًا فِي هَذَا الْبَلَدِ يَتَرَحَّمُ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ غَيْرَكَ فَعَرَفْتُ فَضْلَهُ

(الانتقاء ص 130 ، سند صحیح)

یعنی ایک موقع پر جب سعید بن ابی عروبہ سے طلاق کے ایک فقہی مسئلے میں سوال کیا گیا اور سائل نے کہا: اسی طرح تو امام ابو حنیفہؒ نے بھی فتویٰ دیا ہے! تو سعید بن ابی عروبةؒ نے نہ تردید کی، نہ اعتراض، بلکہ برجستہ فرمایا: "كان أبو حنيفة عالم العراق" یعنی ابو حنیفہؒ پورے عراق کے  عالم تھے۔

فائدہ : 

یہ محض ایک علمی لقب نہیں، بلکہ فقہ و حدیث میں امام ابو حنیفہؒ کی امامت کا اعلان ہے، جو اس زمانے کے بڑے محدث کی زبانی ہو رہا ہے۔

مزید برآں، سعید بن ابی عروبةؒ خود بیان کرتے ہیں:

"قدمتُ الكوفة، فحضرتُ مجلس أبي حنيفة، فذكر يوماً عثمان بن عفّان، فترحّم عليه، فقلتُ له: وأنت يرحمك الله، فما سمعتُ أحداً في هذا البلد يترحّم على عثمان غيرك، فعرفتُ فضله."

یعنی: میں کوفہ آیا اور امام ابو حنیفہؒ کی مجلس میں حاضر ہوا۔ ایک دن انہوں نے حضرت عثمان بن عفّانؓ کا ذکر کیا اور ان کے لیے دعا رحمت کی۔ میں نے کہا: "اللہ آپ پر بھی رحم فرمائے، کیونکہ میں نے اس شہر میں آپ کے سوا کسی کو حضرت عثمانؓ پر درود یا رحمت بھیجتے نہیں سنا۔" اس وقت مجھے امام ابو حنیفہؒ کے علم و فضل کا احساس ہوا۔ (الانتقاء ص 130 ، سند صحیح)


اس قول سے نہ صرف امام ابو حنیفہؒ کی علمی عظمت ظاہر ہوتی ہے، بلکہ ان کی اعتقادی استقامت، صحابہ کرامؓ کی تعظیم اور دینی حمیت و غیرت کا بھی ثبوت ملتا ہے۔


حاصل کلام :

سعید بن ابی عروبةؒ جیسے جلیل القدر، ثقہ، اور اجلّ محدث کی زبان سے امام ابو حنیفہؒ کے لیے "عالم الکوفہ" اور "عالم العراق" جیسے الفاظ صرف ایک ذاتی رائے نہیں بلکہ علم، تقویٰ، فقاہت اور اجتہاد کے متفقہ اعتراف کا اعلان ہیں۔ یہ وہ الفاظ نہیں جو رسمی تعارف یا برائے ادب کہے جائیں، بلکہ ان کے پیچھے ایک صاحبِ بصیرت محدث کی تجربہ کار نگاہ، دقیق علمی معیار، اور شخصی دیانت کا عکس چھپا ہوا ہے۔ جب ایک ایسا محدث جو أهل البصرة کا امام کہلائے، جو امام احمدؒ، یحییٰ بن معینؒ، ابو زرعہؒ، اور ابو حاتمؒ جیسے ناقدینِ حدیث کے نزدیک ثقة، مأمون، حافظ اور قتادہؒ کے علم میں سب سے آگے ہو، وہ اگر امام ابو حنیفہؒ کو "عالم العراق" کہے — تو یہ دراصل اس بات کا اقرار ہے کہ ابو حنیفہؒ نہ صرف کوفہ بلکہ پورے عراق میں علم و فقہ کی سب سے بلند چوٹی تھے۔

یہ القابات امام ابو حنیفہؒ کے لیے اس وقت استعمال ہوئے جب فقہی اختلافات عروج پر تھے، مگر اس کے باوجود ایک بصیرت مند محدث کا ایسا واضح اور مثبت کلمہ کہنا اس بات کی علامت ہے کہ علمی دنیا میں ان کی امامت مسلم تھی، اور ان کی فقہ کسی محدود طبقے یا خاص زمانے کی نہیں، بلکہ ایک امت گیر بصیرت اور رہنمائی کی علامت تھی۔

سعید بن ابی عروبةؒ کی یہ شہادت رہتی دنیا تک اس بات کی دلیل ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کی علمی عظمت اور فقہی بصیرت کا لوہا صرف عوام نہیں، بلکہ اہلِ فن، ناقدین، اور حفاظِ حدیث بھی بخوبی مانتے تھے۔ ان کے یہ الفاظ امام ابو حنیفہؒ کی فقہی قیادت پر ایک روشن مہرِ تصدیق ہیں۔



تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 2 :امام اعظم ابو حنیفہ ؒ (م۱۵۰؁ھ) امام ابن معین ؒ (م۲۳۳؁ھ) کی نظر میں

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...