نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام اعظم ابو حنیفہ ؒ (م۱۵۰؁ھ) امام ابن معین ؒ (م۲۳۳؁ھ) کی نظر میں

 

امام اعظم ابو حنیفہ ؒ (م۱۵۰؁ھ) امام ابن معین ؒ (م۲۳۳؁ھ) کی نظر میں

تحقیق : طحاوی الحنفی

ترتیب و اضافہ و نظر ثانی : مفتی ابن اسماعیل المدنی

ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 3

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

اہل حدیث حضرات نے جب امام ابو حنیفہ ؒ کے تعلق سے ،امام ابن معینؒ (م۲۳۳؁ھ) سے واضح تعدیل دیکھی ،تو اس کا رد کرنے کیلئےان کے کئی علماء نے  مضامین  لکھے جیسےحافظ زبیر علی زئی وغیرہ،مگرحقیقت میں ابن معین ؒ سے امام ابو حنیفہ ؒ کی تعدیل کو رد کرنا درست نہیں ہے ، جسےان شاء اللہ ذیل میں ہم تفصیل سے بیان کریں گے :

(۱)         امام سبط ابن الجوزی ؒ (م۶۵۴؁ھ) نے اپنی کتاب ’الانتصارو الترجیح‘ میں روایت لائی ہے :

أخبرنا الشیخ الصالح الثقۃ ابو طاھر أحمد بن محمد بن حمدیۃ العکبری بمحروسۃ بغداد فی سنۃ ست وثمانین وخمس مائۃ، قال : أبنانا ابو الکرم ابن الشہرزوری قال : أخبرنا ابو الحسین محمد بن علی بن محمد المہتدی باللہ قال : أخبرنا أبو الفتح محمد بن احمد بن ابی الفوارس إجازۃ قال : حدثنا ابو بکر محمد بن حمید بن سہل المخرمی قراءۃ علیہ ، حدثنا ابو الحسین علی بن الحسین بن حبان قال : وجدت فی کتاب ابی بخط یدہ :

قال ابو زکریا یحیٰ بن معینؒ : روی عن ابی حنیفۃ سفیان الثوری، وعبداللہ بن المبارک ، وحماد بن زید ، وھشیم ، ووکیع ، وعباد بن العوام ، وجعفر بن عون ، وابو عبدالرحمن عبداللہ بن یزید المقری ، وجماعۃ کثیرۃ ، وھو ثقہ لابأس بہ ۔

امام ابو زکریا یحیٰ بن معین ؒ کہتے ہیں : امام ابو حنیفہ ؒسے کثیر جماعت نے حدیث بیان کی ہے ............آپؒ ثقہ ہیں۔ آپ میں کوئی خرابی نہیں ہے ۔ (الانتصار والترجیح :ص٦ ،وسند صحیح)[1]

اسکین :

(۲)         حافظ المشرق امام خطیب بغدادیؒ  (م۴۶۳؁ھ)  فرماتے ہیں کہ

أخبرنا عبيد الله بن عمر الواعظ، حدثنا أبي، حدثنا محمد بن يونس الأزرق، حدثنا جعفر بن أبي عثمان قال: سمعت يحيى- وسألته عن أبي يوسف وأبي حنيفة- فقال: أبو يوسف أوثق منه في الحديث. قلت: فكان أبو حنيفة يكذب؟ قال: كان أنبل في نفسه من أن يكذب.

جعفر بن محمد بن ابی عثمان الطیالسیؒ  کہتے ہیں کہ میں نے امام یحییٰ بن معین سے سنا اورمیں نے ان سے ابویوسف اورابوحنیفہ کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے کہا : ابو یوسف حدیث میں ابوحنیفہ سے زیادہ ثقہ ہیں  ، میں نے عرض کیا ، کیا ابوحنیفہ جھوٹ بولتے تھے ؟  فرمایا ، وہ جھوٹ بولنے سے پاک تھے ۔ (تاریخ بغداد وذیولہ:جلد ۱۳: صفحہ۴۲۱۔ وسندہ صحیح، طبع علمیۃ)[2]

یہ نسبی تعدیل ہے ،اس کے متعلق اصول یہ ہے کہ جس سے نسبت دی جارہی ہے اس کےمتعلق اسی امام کی رائے جان لی جائے،لہذا اس اصول کے تناظر میں ہم ابن معینؒ کی رائے امام ابو یوسفؒ کے متعلق دیکھتے ہیں:

-              امام عباس الدرویؒ (م۲۷۱؁ھ)  کہتے ہیں :

’’سمعت يحيى يقول كان أبو يوسف القاضي يميل إلى أصحاب الحديث وكتبت عنه وقد حدثنا يحيى عنه‘‘ ۔ (میں نے یحیٰ ؒ کو کہتے ہوئے سنا کہ قاضی ابو یوسف ؒ کا میلان اصحاب حدیث کی طرف تھا، میں نے ان سے حدیث لی ہے، اور یحیٰ نے ان کے واسطہ سے ہمیں حدیث بیان کی ہے) (تاریخ ابن معین :روایۃ الدوری :جلد ۴:صفحہ ۴۷۴:رقم ٥٣٥٣)

-             امام صیمریؒ(م۴۳۶؁ھ)  بسند متصل امام احمد بن کامل ؒ (م۳۵۰؁ھ) کا  قول نقل کرتے ہیں : ’’ولم يختلف يحيى بن معين واحمد بن حنبل وعلي بن المديني في ثقته في النقل‘‘۔(اور حدیثیں نقل کرنے کے باب میں، ان کی ثقاہت پر ،ابن معین، ابن المدینی اور امام کے درمیان کوئی اختلاف نہیں) (أخبار ابی حنیفہ :صفحہ۹۷،وسند صحیح)        

ان اقوال سے واضح ہواکہ امام ابن معین ؒ کے نزدیک امام ابو یوسفؒ  ثقہ فی الحدیث تھے، یوں اس نسبت سے  امام ابو حنیفہؒ  کی بھی تعدیل ہوگئی، اگرچہ امام ابو یوسفؒ  کی بنسبت  کم درجہ کی۔

(۳)        حافظ المغرب امام ابن عبد البرؒ  (م۴۶۳؁ھ) کہتے  ہیں:

قَالَ ابویعقوب یوسف بن احمد بن یوسف المکی الصیدلانی (ابن الدخیل) نا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْحَافِظُ قَالَ نَا عبد الله بْنُ أَحْمَدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ قَالَ سُئِلَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ وَأَنَا أَسْمَعُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ فَقَالَ ثِقَةٌ مَا سَمِعْتُ أَحَدًا ضَعَّفَهُ ، هَذَا شُعْبَةُ بْنُ الْحَجَّاجِ يَكْتُبُ إِلَيْهِ أَنْ يحدث ويأمره ، وَشعْبَة شُعْبَة۔

عبداللہ بن احمد بن ابراہیم الدورقی سے روایت ہے کہ یحییٰ بن معین نے ابوحنیفہ کے بارے میں فرمایاکہ :  وہ ثقہ تھے، میں نے نہیں سنا کہ کسی ایک نے بھی انھیں ضعیف کہا ہو ، یہ شعبہ بن الحجاج  ،انہیں (خط ) لکھتے ہیں کہ وہ حدیث بیان کریں اور انہیں حکم دیتے ہیں، اور شعبہ تو آخر شعبہ تھے۔  (الانتقاء لابن عبدالبر: صفحہ ۱۲۷ ، وسندہ حسن ، الجواہر المضیہ:  جلد۱ :صفحہ۲۹۔ مقام ابی حنیفہ: صفحہ۱۳۰ )[3]

 

(۴)        امام صیمریؒ  (م۴۳۶؁ھ) فرماتے ہیں :

أخبرنا عبد الله بن محمد قال ثنا القاضي أبو بكر مكرم بن أحمد قال ثنا علي بن الحسين بن حبان عن أبيه قال قيل لأبي زكريا يحيى بن معين ۔۔۔۔۔۔۔واما ابو حنيفة فقد حدث عنه قوم صالحون وأما ابو يوسف فلم يكن من اهل الكذب كان صدوقا فقيل له فأبو حنيفة كان يصدق في الحديث قال نعم صدوق (أخبار ابی حنیفه: صفحہ ٨٦ :واسنادہ حسن )[4]

(۵)         ابن معینؒ کے شاگرد ابن الجنیدؒ ، امام ابو حنیفہؒ  کی فقہی رائے سے متعلق،ابن معین ؒ  کا قول نقل کرتے ہیں:

’’قلت ليحيى بن معين: ترى أن ينظر الرجل في شيء من الرأي؟ فقال: أي رأي؟، قلت: رأي الشافعي وأبي حنيفة، فقال: «ما أرى لمسلم أن ينظر في رأي الشافعي، ينظر في رأي أبي حنيفة أحب إلي من أن ينظر في رأي الشافعي‘‘ اس روایت کاخلاصہ یہ ہے کہ امام ابن معین ؒ سے امام شافعیؒ اورامام ابو حنیفہؒ کی رائے کے بارے میں پوچھا گیا، تو امام ابن معین ؒنے امام ابو حنیفہؒ کی رائے کو پسند فرمایا اور ترجیح دی ۔(سوالات الجنید: ج١ :ص٢٩٥)

یہی وجہ ہے کہ امام ذہبیؒ،امام  ابن معین ؒ  کو "غالی حنفی " تک کہتے ہیں ۔

سوال :      کیا اہل حدیث حضرات ضعیف اور متروک کی رائے سے استدلال کو جائز سمجھتے ہیں؟ اگر نہیں تو ’امام المحدثین،امام العلل ، امام الجرح و التعدیل اور امیر المومنین فی الحدیث ابن معینؒ   کیسے ضعیف   راوی کی رائے کو بسند اور ترجیح دے  سکتے  ہیں ؟معلوم ہوا کہ یہ روایت  بھی امام         ابو حنیفہ ؒ کی ثقاہت پر دلالت  ہوتی ہے۔

(۶)          حافظ ابن المحرزؒ کہتے ہیں کہ ’’وسمعت يحيى بن معين يقول كان ابو حنيفة لا بأس به وكان لا يكذب‘‘ (ابن محرزؒ کہتے ہیں کہ میں نے ابن معین ؒ کو کہتے ہوئے سنا کہ امام ابو حنیفہ ؒ ثقہ تھے ، اور آپ جھوٹ نہیں بولتے تھے)۔ (معرفۃ الرجال لابن معین ،روایۃ ابن محرز: ج١:ص٧٩)[5]

نوٹ :     امام ابن معینؒ  اگر ’لا باس بہ‘کہیں تو اس سے مراد" ثقہ" ہوتا ہے ،چنانچہ اہل حدیث علما ءکے" محدث العصر " ارشاد الحق اثری لکھتے ہیں  اور یحیی بن معین نے یہ بھی کہا ہے کہ جس کے بارے میں" لیس به باس "کہوں تو وہ آدمی ثقہ ہوتا ہے ۔ (ضوابط الجرح والتعدیل: صفحہ٩٦)

اسی طرح ایک اور مقام پر امام ابن معین ؒ کہتے ہیں کہ ’’ابو حَنيفَة عندنا مِن أَهل الصِّدقِ، ولم يتَّهَم بالكَذِب ‘‘(امام کی  ابو حنیفہ ؒ سچوں میں سے تھے ، آپ پر جھوٹ بولنےکی تہمت نہیں لگائی گئی)۔ (معرفۃ الرجال لابن معین ،روایۃ ابن محرز: ج١:ص۲۳۰)

(۷)        حافظ المشرق امام خطیب بغدادیؒ  (م۴۶۳؁ھ)  فرماتے ہیں کہ

أخبرنا ابن رزق، قال: حدثنا أحمد بن علي بن عمر بن حبيش الرازي، قال: سمعت محمد بن أحمد بن عصام، يقول: سمعت محمد بن سعد العوفي، يقول: سمعت يحيى بن معين، يقول: كان أبو حنيفة ثقة لا يحدث بالحديث إلا ما يحفظ، ولا يحدث بما لا يحفظ. (امام ابو حنیفہ ؒ ثقہ تھے ، وہی حدیث بیان کرتے جو آپ کو یاد ہوتی ، جو یاد نہ ہوتی اسے بیان نہیں کرتے)۔ (تاریخ بغداد : ج ۱۵ : ص ۵۸۰-۵۸۱، و اسنادہ حسن بالمطابع)[6]

امام ابن معین ؒ كی طرف منسوب جرح کا جواب:

امام ابن معین ؒسے  جو تعدیلی اقوال منقول ہیں ان سے ،امام ابوحنیفہ کے بارے میں ان کا موقف واضح ہوجاتا ہے۔ ذیل میں امام ابن معینؒ کی طرف منسوب جرح کےاقوال کا جائزہ لیتے ہیں :

(۱)         امام عقیلی ؒ (م۳۲۲؁ھ) کہتے ہیں : کہ

حدّثنا محمّد بن عثمان (بن أبی شیبۃ) قال: سمعت یحیٰی بن معین وسئل عن أبی حنیفہ، فقال: کان یضعّف فی الحدیث ’’محمد بن عثمان بن ابی شیبہ کہتے ہیں کہ میں نے امام یحیٰ بن معینؒ سے سنا، ان سے امام ابو حنیفہ کے بارے میں  سوال کیا گیا ،توا نہوں نے فرمایا، وہ حدیث میں ضعیف قرار دئیے جاتے تھے‘‘۔ (الضعفاء الکبیر للعقیلی:جلد۴: صفحہ ۲۸۵،تاریخ بغداد للخطیب:جلد۱۳:صفحہ ۴۵۰)

الجواب :

اولا         اس قول میں  ابن معین ؒ کا خود کا حکم موجود نہیں ہے ۔

دوم       یہ کہ اس قول میں کہ  یضعّف ‘ ان کی تضعیف کی جاتی تھی۔لیکن سوال یہ ہے کہ  تعضیف کرنے والا کون ہے یعنی  یضعّف ‘ کا فاعل کون ہے ۔اس کوئی  اتا بتا  نہیں ہے۔ خود زبیر علی زئی صاحب نے کئی مقامات پر جارح نہ معلوم ہونے کی وجہ سے جرح کو مردود قرار دیا ہے۔ دیکھئے  (دو الاجماع مجلہ : شمارہ ۲ : ص ۱۰۵) لہذا  خود اہل حدیثوں کے اصول کی روشنی میں یہ جرح مردود ہے۔

نوٹ : لیکن شایدموصوف زبیر صاحب کو  امام صاحب ؒ کو ضعیف ثابت کرنا تھا  اس  لئے نے اپنا ہی قاعدہ    بھولادیا اور امام صاحب ؒ  کو مجروح قرار  دینے کے لئے  یہی جرح پیش کی۔ (فتاوی علمہ : ج ۲ : ص ۳۹۹)

(۲)         امام ابن عدی ؒ (م۳۶۵؁ھ) فرماتے ہیں کہ

حدثنا علي بن أحمد بن سليمان، حدثنا ابن أبي مريم، قال: سألت يحيى بن معين، عن أبي حنيفة؟ قال: لا يكتب حديثه۔ (الكامل لابن عدي ج٨ ص٢٣٦)

الجواب :

یہ قول جمہور اصحاب ابن معین ؒکے خلاف ہونے کی وجہ سے شاز و مردود ہے۔ پس ثابت ہوا امام ابو حنیفہؒ کے متعلق امام ابن معین ؒکی راجح رائے تعدیل کی ہی ہے، جب کہ جرح کے اقوال شاذ و مردود ہیں


[1] سند کی تحقیق  :

۱-             امام سبط ابن الجوزی ؒ (م۶۵۴؁ھ)

امام ذہبی ؒ  (م۷۴۸؁ھ) آپؒ کو ان الفاظ سے یاد کرتے ہیں : الشَّيْخُ، العَالِمُ ، المُتَفَنِّن، الوَاعِظُ ، البَلِيْغُ ، المُؤَرِّخ ، الأَخْبَارِيُّ ، واعظ الشام ، شمس الدین۔ (سير اعلام النبلا ء:ج : ١٦ ص : ٤٤٩) دوسری جگہ لکھتے ہیں :  الإِمَام، الواعظ، المؤرّخ، شمس الدّين۔ (تاریخ اسلام: جلد ٤٨ :صفحہ ١٨٣)۔ امام صلاح الدین الصفدی ؒ کہتے ہیں: وَكَانَ إِمَامًا ، فَقِيها ، واعظا ، وحيدا فِي الْوَعْظ، عَلّامَةً فِي التَّارِيخ۔ (وہ امام ، فقیہ، واعظ ،(بلکہ) وعظ ونصیحت میں یکتا، اور تاریخ میں علامہ تھے ) (الوافی بالوفيات : جلد ٢٩: صفحہ ١٢١)،امام ابن تغری بردی ؒ   (م۸۷۴؁ھ)کہتے ہیں : الإِمَام النَّاقِد البارع [شمس الدّين] يُوسُف بن قزاغلي۔ (مورد اللطافة : جلد١ :صفحہ ١٣٦) اور النجوم الزھراۃ : ج۷ : ص ۳۹ پر کہتے ہیں کہ الشيخ الإمام الفقيه الواعظ المؤرّخ العلّامة شمس الدين۔امام بدرالدین العینی ؒ(م۸۵۵؁ھ)  فرماتے ہیں : كان حسن الصورة، طيب الصوت، حسن الوعظ، كثير الفضائل والمصنفات، وله مرآۃ الزمان في عشرين مجلداً من أحسن التواريخ۔(وہ خوبصورت، خوش آواز، بہترین واعظ اوربہت سے فضائل ومصنفات کے مالک تھے ، بیس جلدوں میں ان کی تصنیف مرآۃ الزمان ، تاریخ کےموضوع پر بہترین کتابوں میں سے ایک ہے ۔  ) (عقد الجمان في تاريخ اهل الزمان: جلد ١ :صفحہ ٣٠) امام عبدالقادر القرشی  ؒ(م۷۷۵؁ھ)   فرماتے ہیں : يوسف بن قزاعلي بن عبد الله ويقال زعلى أبو المظفر سبط الإمام الحافظ أبي الْفرج ابن الْجَوْزِيّ ۔ ۔ ۔ ۔  سمع بالموصل ودمشق وَحدث بهَا وبمصر وَأعْطى الْقبُول من الْمُلُوك والأمراء وَالْعُلَمَاء والعامة فى الْوَعْظ وَغَيره۔(آپ کا نام یوسف بن قزاعلی بن عبد اللہ ہے، قزاعلی کی جگہ زعلی بھی کہا جاتا ہے، آپ کی کنیت ابو المظر ہے، آپ امام وحافظ ابن الجوزی ؒ کے پوتے ہیں، آپ نے موصل اور دمشق میں حدیثیں حاصل کی، اور دمشق ومصر میں حدیث بیان کی ،وعظ ونصیحت اور دوسری چیزوں میں آپ،  بادشاہوں ، امراء ، علماء اور عام لوگوں کے درمیان مقبول تھے  ) (الجواهر المضيۃ : جلد٢  :صفحہ٢٣١) الامام الحافظ الناقد ابن قطلوبغا ؒ   (م۸۷۹؁ھ) فرماتے ہیں : يوسف بن قزأغلي بن عبد الله، شمس الدين، أبوالمظفر، سبط الإمام الحافظ أبي الفرج عبدالرحمن بن الجوزي ........ ، وصنف الكتب المفيدة، فمن ذلك كتابه "مرآة الزمان" في التاريخ۔(۔۔۔آپ نے مفید کتابیں تصنیف فرمائی ہیں ، ان میں سے تاریخ کے موضوع پر آپ کی کتاب مرآۃ الزمان ہے ) (تاج التراجم :جلد١ :صفحہ ٣٢١)،  ابن  العماد الحنبلی ؒ (م۱۰۸۴؁ھ) فرماتے ہیں کہ سبط ابن الجوزي العلّامة الواعظ، المؤرخ شمس الدّين أبو المظفّر يوسف بن قزغلي۔ (شذرات الذھب : ج۷ : ص ۴۶۰) اسی طرح  ’ معجم المؤلفين ‘ میں سبط ابن الجوزی ؒ کو    محدث، حافظ، فقيه، مفسر، مؤرخ، واعظ قرار دیا گیا ہے۔(ج۳ : ص ۳۲۴) ان تصریحات علمائے اہل سنت سے یہ واضح ہوگیا کہ سبط ابن الجوزی ؒ،امام ، بے نظیر واعظ،ماہر مؤرخ ،محدث،حافظ،  ناقد،اورفقیہ ہیں۔

امام سبط ابن الجوزی ؒ پر جرح کا جواب :

 امام سبط ابن الجوزیؒ کے بارے میں ،امام ذہبی ؒ ( میزان الاعتدال: جلد ٣: صفحہ٤٧١ پر ) لکھتے ہیں ’’ وألف كتاب مرآة الزمان، فتراه يأتي فيه بمناكير الحكايات، وما أظنه بثقة فيما ينقله، بل يجنف ويجازف، ثم إنه ترفض‘‘ انہوں نے مرآة الزمان تالیف کی،آپ اس میں دیکھیں گے کہ انہوں نے منکر حکایات نقل کی ہیں، میرا خیال ہے جو وہ نقل کرتے ہیں،اس میں وہ ثقہ نہیں ہیں، بلکہ خلاف حق اور بے تکی باتیں کرتے ہیں ، پھر وہ رافضی ہوگئے تھے ۔

الجواب  :

اولاً              امام ذہبیؒ  کی جرح  کا دارومدار ،امام سبط ابن الجوزیؒ کے منکر حکایات ذکر کرنے پر ہے،حالانکہ یہ غیر مقلدین کے نزدیک  وجہ ضعف  نہیں ہے ۔ چنانچہ کفایت اللہ سنابلی لکھتے ہیں:  منکر روایات نقل کرنے سے راوی کی تضعیف ثابت نہیں ہوتی ۔(مسنون رکعات تراویح :صفحہ٢٣) مزید اقوال اور تفصیل کے لئے دیکھئے الاجماع   مجلہ: شمارہ ۲ : ص ۹۳-۹۴)

دوم             امام ذہبیؒ نے اپنی رائے سے رجوع فرمالیا تھا، کیونکہ  آپ ؒ نے سیر اعلام النبلاءکو  ان  کو  ’’‘الشَّيْخُ، العَالِمُ ، المُتَفَنِّن، الوَاعِظُ ، البَلِيْغُ ، المُؤَرِّخ ، الأَخْبَارِيُّ ، واعظ الشامقرار دے کر ان کی توثیق فرمادی۔اور امام ذہبی ؒ  نے سیر اعلام النبلاء کو میزان کےبعد تالیف فرمایا۔ (الاجماع   مجلہ: شمارہ ۲ : ص۴۸،۷۰، الحافظ الذہبی مورخ الاسلام،ناقد المحدثین،عبد الستار الشیخ : ص ۴۲۳)

 سوم            امام ذہبیؒ  کی رائے سے جمہور نے اختلاف کیا ہے۔ اور  غیر مقلدین کے نزدیک  جمہور کے مقابلے میں ہر ایک کی بات مردود ہے۔(مقالات زبیر علی زئی : ج۶ : ص ۱۴۳) چنانچہ امام عینی ؒاور امام ابن قطلوبغا ؒوغیرہ نے آپ کی اس کتاب(مرآة الزمان) کی تعریف کی ہے، خود امام ذہبیؒ نے اپنی کتاب، تاریخ الاسلام میں بکثرت اس کتاب سے نقل کیا ہے اور بہت سے رواۃکے ترجمہ میں امام سبط ابن الجوزی کی رائےلکھی ہے۔ (جلد١٢:صفحہ٦٨٢۔جلد١٣:صفحہ٩٣٠۔وغیرہ)

رافضیت کے الزام کا جواب:

جیسا کہ ہم نے اقوال محدثین سے ثابت کیا ہے کہ امام سبط ابن الجوزی اہل سنت  کے امام ہیں ،اس کے بعد  کسی کا بنادلیل آپؒ کو رافضی کہنا مردود ہے ،آئیے دیکھتے ہیں ،رافضیت کےالزام کی حقیقت کیا ہے: امام ذہبیؒ کہتے ہیں : قال الشيخ محيى الدين السوسى: لما بلغ جدى موت سبط ابن الجوزي قال: لا رحمه الله، كان رافضيا. (شیخ محی الدین السوسی کہتے ہیں : جب میرے دادا کو ابن الجوزی ؒ کے پوتے کی وفات کی خبر پہنچی تو انہوں نے کہا : اللہ ان پر رحم نہ کرے، وہ رافضی شیعہ تھے) (ميزان الاعتدال ج٤ص٤٧١)

الجواب  :

اولاً              اس سند میں محی الدین السوسی کون ہیں،اس راوی کا ترجمہ نہیں مل سکا ۔

دوم             محی الدین السوسی کے دادا بھی مجہول العین ہیں۔  اس اعتبار سے یہ حکایت ضعیف ہے، اور اس پر اعتبار کر کے رافضی ہونے کی جرح کرنا بھی از خود مردودہے ۔

سوم            امام سبط ابن الجوزیؒ  کی کتاب’ الایثار والانصاف فی آثار الخلاف‘ کے پڑھنے ہی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ آپؒ  کے نزدیک تمام صحابہ معتبر ہیں، جس طرح کہ آپؒ اصحاب رسول اللہ ﷺکی مرویات سے استدلال کرتے ہیں ۔اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے رافضی ہونے کی بات صحیح  نہیں ہے۔

۲-          ابو طاھر احمد بن محمد بن حمدیہ العکبریؒ

 خود امام،ناقد ،حافظ سبط ابن الجوزی ؒاپنے استاذ کو " شیخ،صالح اور ثقہ" کہتے ہیں ۔(الانتصار: ص ٦)

۳ -        أبو الكرم المبارك بن الحسن بن أحمد بن علي بن فتحان الشهرزوري البغداديؒ (م۵۵۰؁ھ)

ان کے متعلق امام ذہبیؒ فرماتے ہیں: الإمام المقرئ المجود الأوحد ، شيخ القراء۔ امام بو سعد سمعانیؒ کہتے ہیں کہ : شيخ صالح ديّن خيّر، قيّم بكتاب الله، عارف باختلاف الروايات والقراءات، حسن السيرة، جيد الأخذ على الطلاب، عالي الروايات۔(وہ نیک ، دین دار اور صاحب خیر ، اللہ کی کتاب کے خادم ، روایات اور قراءات کے اختلاف کے جاننے والے، خوب سیرت ، طلبہ کے بہترین نگراں اور عالی روایت بزرگ ہیں) (سیر اعلام النبلا ء: جلد١٥ :صفحہ٩٣۔ طبع الحدیث ) لہذا آپؒ ثقہ ہے۔

۴ –          ابو الحسین محمد بن علی ابن المھتدی بالله  ؒ (م۴۷۶؁ھ)            

ان كے بارے میں امام ذہبیؒ فرماتے ہیں : الإمام العالم الخطيب ، المحدث الحجة ، مُسنِد العراق۔(آپ امام ، بڑے عالم ، خطیب ، اونچے درجہ کےمحدث، اور عراقی محدثین کے استاد ہیں) اور حافظ المشرق خطیب البغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں ’’كان ثقة نبيلًا‘‘کہ آپ شریف (اور)ثقہ تھے۔ (سیر اعلام النبلاء : جلد ۱۳ :صفحہ۴۰۳)

۵ –          امام ابو الفتح  بن ابی الفوارس ؒ (م۴۱۲؁ھ)

امام ذہبیؒ فرماتے ہیں : الإمام الحافظ المحقق الرحال ،أبو الفتح۔ (سیر اعلام النبلا :ج ١٣ :ص٣٠ ) حافظ قاسم بن قطلوبغا ؒ   نے آپ ؒ کو ثقات میں شمار کیا ہیں۔ (کتاب الثقات للقاسم : ج ۸ : ص ۱۵۳) اور آپ ؒ ثقہ ہیں۔( السلسبيل النقي في تراجم شيوخ البيهقي: ص ۵۴۴)

۶ –        ابو بکر محمد بن حمید بن سھيل المخرمی

حافظ المشرق خطیب البغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں ’’سألت أبا نعيم الحافظ ، عن محمد بن حميد المخرمي ، فقال: ثقة‘‘ الامام الناقد ابو نعیم ؒ سے آپؒ کے بارے میں پوچھا گیا تو کہا وہ ثقہ ہیں۔ (تاریخ بغداد جلد 3 ص ٦٨) امام ضيا الدين المقدسي ؒ نے اپنی کتاب میں ان سے روایت لی ہے۔دیکھئے:الاحادیث المختارۃ: رقم ٢٤٩٦) اورغیر مقلدین کے نزدیک وہ اس کتاب میں اپنے نزدیک ثقہ راوی سے ہی حدیث لاتے ہیں ۔(انوار البدر : ص ۲۲۳)

۷ –       علي بن الحسين بن حبان بن عمار، أبو الحسن المروزي  البغداديؒ (م۳۰۵؁ھ)

امام خطیبؒ فرماتے ہیں: ’’کان ثقة‘‘ آپ ؒ ثقہ ہیں۔ (تاریخ بغداد :جلد۱۳:صفحہ ٣۳۳، تحقیق بشار )

۸ –        الحسین بن حبان ؒ (م۲۳۲؁ھ)

امام خطیب بغدادی ؒ(م۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں : كان من أهل الفضل، والتقدم في العلم، وله عن يحيى كتاب غزير الفائدة۔
روى ابنه علي بن الحسين ذلك الكتاب عن أبيه وجادة۔
(وہ بلند مرتبہ لوگوں ، اور اعلیٰ درجہ کے علماء میں سےتھے،آپ نے امام یحیٰ بن معین ؒسے بڑی مفید کتاب نقل فرمائی ہے ) (تاریخ بغداد:جلد٨ :صفحہ ٥٦٤، بشار)،  حافظ الذہبی ؒ (م۷۴۸؁ھ) کہتے ہیں کہ  ’’ الحسين بن حبان، صاحب يحيى بن معين له كتاب " سؤالات " عن ابن معين غزير الفوائد. ‘‘ (حسین بن حبان ابن معین ؒ کے تلمیذ خاص ہیں، آپ نے ابن معین ؒ سے پوچھے گئے سوالات کو اپنی کتاب میں جمع کیا ہے ، جو بڑی مفید کتاب ہے)۔ (تاریخ الاسلام : ج۵ : ص ۸۱۲) معلوم ہوا  کہ آپ ؒ  ابن معین ؒ سے روایت کرنے میں ’صدوق‘ ہیں۔ واللہ اعلم

۹ –        امام یحیی بن معین ؒ   (م۲۳۳؁ھ)مشہور  ثقہ،حافظ الحدیث، اور امام الجرح والتعدیل ہیں۔(تقریب : رقم ۷۶۵۱) ساس روایت سے ثابت ہوا کہ امام ابن معینؒ ، امام ابو حنیفہؒ  کو حدیث میں ثقہ سمجھتے تھے، اور آپ کی زبردست توثیق کرتے تھے ۔

[2]  سند کی تحقیق :

۱ -         حافظ المشرق امام خطیب بغدادیؒ  (م۴۶۳؁ھ)  مشہور ثقہ،امام ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۱۰: ص ۱۷۵)

۲-          شیخ خطیب عبید اللہ بن عمر بن احمد بن عثمانؒ (م۴۴۰؁ھ)

امام خطیبؒ کہتے ہیں: كتبت عنه وكان صدوقاَ(میں نے ان سے علم حاصل کیا ہے ، وہ صدوق تھے)۔(تاریخ بغداد :جلد ١٠:صفحہ ٣٨۴)

۳ -           امام ابن شاہینؒ(م۳۸۵؁ھ)   ہیں ،جو مشہور ثقہ امام ہیں اور تعریف کے محتاج نہیں ۔(تاریخ الاسلام : ج۸: ص ۵۸۰)

۴ -     محمد بن يونس بن عبد الله، أبو بكر الأزرق المقرئ المطرزؒ

امام خطیب ان کو ثقہ کہتے ہیں۔ (تاریخ بغداد :جلد ٤ :صفحہ۲۱۶)

۵-          جعفر بن محمد بن ابی عثمان الطیالسیؒ

امام خطيب البغدادي ؒ،ان کے بارے میں کہتے ہیں  ’’ثقة ثبت‘‘۔ (تاریخ بغداد: جلد ۷ :صفحہ ١٩۷)

۶ -          امام یحیی بن معین ؒ   (م۲۳۳؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔ اس روایت سے ثابت ہوا کہ امام یحٰیؒ، امام ابو حنیفہؒ  کو حدیث میں ثقہ سمجھتے تھے ،اور آپ کے سچے ہونے کی بھی گواہی دی ہے۔

[3] تحقیق درج ذیل ہیں :

۱ -            حافظ المغرب امام ابن عبد البرؒ  (م۴۶۳؁ھ) مشہور ثقہ ،امام ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۱۰: ص ۱۹۹)

۲ -          ابویعقوب یوسف بن احمد بن یوسف المکی الصیدلانی ابن الدخیلؒ بھی صدوق ہیں۔

اعتراض  :

زبیر علی زئی  صاحب کہتے ہیں : کہ الانتقاء میں اس کا بنیادی راوی ابویعقوب یوسف بن احمد بن یوسف المکی الصیدلانی (ابن الدخیل) مجہول الحال ہے۔  (فتاوی علمیہ:  ج ٢:ص ٣٨٩)

الجواب :

ابو یعقوب یوسف بن احمد المکی الصیدلانی رحمہ اللہ کوامام ذہبیؒ  (م۷۴۸؁ھ) تذکرۃ الحفاظ (جلد۳ :صفحہ١۵٠)  میں  "مسند مکہ "کے گراں قدرلقب سےنوازا ہے،اور سیر اعلام النبلاء میں "محدث مکہ" جیسے الفاظ سے تعدیل کی ہے،  اسی طرح الامام الحافظ محمد مرتضی الحسنی الزبیدی ؒ (م۱۲۰۵؁ھ) بھی ان کی تعدیل کرتے ہوئے انہیں محدث کہتے ہیں ( تاج العروس :جلد ٢٨:صفحہ٤٨٦)

مزید آپ امام عقیلیؒ  کی کتاب الضعفا الکبیر کے بنیادی راوی ہیں،جیسا کہ امام ذہبیؒ کہتے ہیں : ’’ابو یعقوب الصیدلانی راوی کتاب الضعفاء لابی جعفر العقیلی عنہ‘‘(ابو یعقوب الصیدلانی ، جو ابو جعفر العقیلی ؒ کی کتاب الضعفاء کےراوی ہیں)۔ (تاریخ الاسلام ج ٢٧ص١٧٨) تو اگر حافظ زبیر علی زئی اور دیگر غیر مقلدین کے نزدیک یہ راوی مجہول اورساقط الاعتبار ہے تو انہیں چاہیے کہ امام عقیلی ؒ کی کتاب کا رد کردیں ۔

زبیرعلی زئی کی یہ جرح ، خود ان کے اپنے  نظریے کےبھی خلاف  ہے ،چنانچہ ایک راوی کی تحقیق میں وہ کہتے ہیں :
مذکورعباس بن یوسف (المتوفی ٣١٤) کے متعلق خطیب بغدادی اور ابن الجوزی نے کہا "
كان صالحا متنسكا " وہ نیک اور دیندار تھے۔ ان سے ان کے شاگردوں کی ایک جماعت نے روایات بیان کی ہیں ،تیسری صدی ہجری کے بعد مشہور عالم پر اگر جرح   نہ ہو تو اس کی توثیق کی صراحت ،ضروری نہیں ہے ، بلکہ علم ،فقاہت ،نیکی اور دینداری کے ساتھ مشہور ہونے کا یہی مطلب ہے کہ ایسے شخص کی حدیث حسن درجے سے کبھی نہیں گرتی اور اس کا مقام کم از کم صدوق ضرور ہوتا ہے۔ (اضواء المصابیح: ص٢٥١)

اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ خود جناب زبیر علی زئی کے اصول سے ہی یہ راوی "کم از کم" صدوق درجے کا ہے جب کہ ان کے متعلق محدث مکہ اورمسند مکہ کی صراحت بھی ہے اور ابن عبدالبرؒ نے کثرت سے آپ کی روایات نقل کی ہیں ، لہذا عدم جرح اور تعدیل کی موجودگی میں ابو یعقوب المکی (م٣٨٨؁ھ)حسن الحدیث صدوق درجے کے راوی ہیں ، جو شخص ان کو ساقط الاعتبار مانتا ہےوہ کتاب الضعفاء للعقیلی کا بھی انکار کرے ،ورنہ جو جواب ادھر دیا جائےگا ،وہی ہماری طرف سے رکھ لیں ۔

۳ –           حافظ احمد بن الحسن بھی ثقہ ہیں۔

اعتراض :

زئی  صاحب کہتے ہیں : ابن الدخیل کا استاذ احمد بن الحسن الحافظ غیرمتعین ہونے کی وجہ سے بمنزلۂ  مجہول ہے۔(فتاوی علمیہ:  ج ٢:ص ٣٨٩)

الجواب :   احمدبن الحسن کا تعین :

احمد بن الحسن  سے ابو یعقوب مکی نے بہت سی روایات نقل کی ہیں جن میں انہوں نے احمد بن الحسن کا تعین کردیا ہے،  قال أبو يعقوب ونا أحمد بن الحسن الدينوري قال نا القاسم بن عباد.... ۔(الانتقاء: ص ١٤٥)

اس سے معلوم ہوا کہ احمد بن الحسن الحافظ سے مراد احمد بن الحسن الدینوری شیخ دارقطنی ہیں اور  ان کے متعلق امام خطیب کہتے ہیں :وکان ثقۃ وہ ثقہ ہیں۔ (تاریخ بغداد ، بشار: جلد ٦:صفحہ١١٠)

نیز اس طبقہ میں یہی راوی معروف ہے اس کے علاوہ ایسا کوئی راوی نہ مل سکا  جو احمد بن الحسن الدینوری کے نام سے مشہور ہو، 
جیسے  سنابلی صاحب کہتے ہیں : عبدالرحمن بن معاویہ سے مراد عبدالرحمن بن معاویہ ابو الحویرث ہیں ،کیونکہ اس طبقہ میں صرف یہی مشہور ہیں ، اور کسی طبقہ میں مطلق کسی راوی کا نام ذکر ہو تو اس نام سے جو مشہور راوی ہوتا، وہی مراد ہوتا ہے۔(یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ: ص ٦٣٢) لہذا خود اہل حدیثوں کے اصول سے بھی احمد بن الحسن الحافظ سے مراد احمد بن الحسن الدینوری  ہی ثابت ہوتے ہےاوروہ ثقہ ہیں ۔

۴ –          امام عبد الله بْنُ أَحْمَدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ (م۲۷۶؁ھ) ثقہ،امام ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۵ : ص ۴۶۶)

۵ -          امام یحیی بن معین ؒ   (م۲۳۳؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔ اس روایت میں امام یحیی بن معین ؒ   کے ساتھ،ساتھ امام شعبہ ؒ سے بھی امام صاحبؒ کی تعدیل ثابت ہوگئی۔ (دوماہی الاجماع :شمارہ ۲ : ص ۱۲۵)

[4] تفصیل یہ ہیں :

۱ -           امام صیمریؒ  (م۴۳۶؁ھ)  مشہور صدوق ،امام ہیں۔ (تاریخ بغداد ،وغیرہ)

۲-          عبد اللہ بن محمد البزار ابو القاسم الشاہد ؒ۔

اس راوی کی صراحت سے تعدیل موجود نہیں ،لیکن امام ناقد محدث صیمری ؒ اس راوی کے ساتھ" المعدل" بھی کہتے ہیں۔ (أخبارأبی حنیفۃ: ص ١٢٣) اور اہل حدیث عالم ارشاد الحق اثری بحوالہ امام سمعانی ؒ لکھتے ہیں : ’’المعدل‘‘اس راوی کا نام ہے ،جس کی تعدیل اور تزکیہ بیان ہوا ہواوراسکی شہادت مقبول ہو..........المعدل کسی ضعیف کا لقب نہیں، بلکہ اس کا لقب ہے جو عادل اور قابل قبول ہو، تو اس کی عدالت اور توثیق کا انکار محض مجادلہ ہے۔ (مقالات ج٢ ص٢٦٨،٢٦٩) تو ہم نے ایک حوالہ  سے محدث سمعانی ؒ کی رائے بھی نقل کردی ،اوراس پر علماء اہل حدیث کے اعتماد سےیوں ثابت ہوا کہ عبداللہ بن محمد القاضی امام صیمریؒ کے نزدیک مقبول الروایہ ہیں۔

یہ بات بھی ذہن نشین کرلی جائے کہ یہ راوی بھی تیسری صدی ہجری کے بعد کا ہے، یوں زبیر علی زئی کے اصول کے مطابق راوی کی عدالت کی گواہی ہی کافی ہوگی ۔

نوٹ :       کچھ محدثین نے ان پر کذب بیانی کی تہمت لگائی ہے۔ (تاریخ بغداد ، بشار: جلد ۱۱:صفحہ ۳۶۳)    لیکن کچھ نے ان کا عادل ہونا بھی تسلیم کیا ہے، جیسا کہ امام صیمری ؒ کے حوالہ سے انکا معدل ہونا پہلے نقل کیا گیا ہے ۔ اور پھر یہ بات بھی ذہن میں رکھی جائے  کہ ان پر جرح نقل کرنے والے خطیب بغدادی ؒبذات خود ان پر جرح کو مطلقا ً تسلیم نہیں کرتے، چنانچہ امام خطیب بغدادی کہتے ہیں : ’’إن کان ابن الثلاج صدق في روايته عنه‘‘(اگر ابن ثلاج ؒ نے ان سےروایت کرنے میں سچ کہا ہے) ۔(تاریخ بغداد ،: جلد ۸: صفحہ ۴۰۷،ت بشار) پھر دوسرے طریق سے بھی  ابن معین ؒ سے  امام صاحب ؒ کی توثیق  ثابت ہے۔لہذا اس مطابع کی وجہ سے اس روایت میں ان پر کلام مردود ہے۔

۳ -          مکرم بن احمد القاضیؒ (م۳۴۵؁ھ)  بھی ثقہ ہیں۔(تاریخ بغداد،: جلد ١٥؛صفحہ٢٩٥،ت بشار)

۴ -          علي بن الحسين بن حبان

۵ -          الحسين بن حبان

۶ -          امام یحیی بن معین ؒ   (م۲۳۳؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔

نوٹ :     کاتب کی غلطی کی وجہ سے  ’علي بن الحسين بن حبان ‘ کے بجائے ’الحسين بن علي بن حبان ‘ ہوگیا۔جب کہ صحیح ’علي بن الحسين بن حبان ‘ ہے۔کیونکہ اسی کتاب کے دوسری مقامات پر’ مکرم عن علي بن الحسين بن حبان عن أبيه ‘   کی صراحت موجود ہیں۔ (ص۶۵،۱۵۵)

[5] اس روایت پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ امام ابن محرز ؒصاحب ابن معینؒ  مجہول ہیں ۔(انوار البدر : ص ۱۷۹، فتاوی علمہ : ج ۲ : ص ۳۹۵)

الجواب :

ابن محرز ؒکی توثیق :

ابن محرز جس سے ابن معین رحمہ اللہ کے جرح و تعدیل میں اقوال اور ابن محرز کے سوالات وارد ہیں اور ان اقوال کو محدثین نے قبول کیا ہے چاہے وہ حافظ مزی ہو یا ابن حجر ہو یا امام ذہبی رحمہم اللہ ہو یا ان کے علاوہ سبھی نے ابن محرز سے ابن معین رحمہ اللہ کے اقوال کو اپنی کتابوں میں لیا ہے ان حضرات نے یہ نہیں کہا کہ ابن محرز مجھول ہے لہذا ان کے اقوال قابل اعتبار نہیں بلکہ ان کے اقوال کو قبول کیا ہے امام ذہبی تو اپنی کتاب میزان الاعتدال میں اتنی احتیاط برتی ہے  کہ کہیں جگہ تو انہیں یہ کہنا پڑا کہ میں فلاں کا تذکرہ اس کتاب میں نہیں کرتا صرف ابن عدی نے اپنی کتاب الکامل میں ان کا تذکرہ کیا اسلیے مجھے بھی کرنا پڑا ـ ایسی کتاب میں بھی امام ذہبی نے ابن محرز کے اقوال نقل کیے۔

 لیکن کچھ تعصب پسند حضرات کہتے ہیں کہ چونکہ ابن محرز کی توثیق منقول نہیں لہذا ان کے واسطہ سے ابن معین کے جرح وتعدیل کے اقوال غیرمعتبر ہیں، جب کہ آپ کتب جرح وتعدیل کاجائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ کسی بھی امام جرح وتعدیل نے محض اس بنیاد پر ابن محرز کی واسطہ سے نقل اقوال کو مسترد نہیں کیا کہ اس کی توثیق منقول نہیں ہے، ایسے میں ہمیں سوچنا اور غور کرنا چاہئے کہ جولوگ آج ابن محرز کو غیرمعتبر قراردے رہے ہیں، کیا ان کا یہ طرزعمل ائمہ جرح وتعدیل کے طرز عمل سے مطابقت رکھتا؟؟ کیا ائمہ جرح وتعدیل کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ ابن محرز کی توثیق کسی سے منقول نہیں ہے؟

چلیے ہم ابن محرز کی توثیق بتلاتے ہیں :

امام الجرح والتعدیل یحیی بن معین بن عون ؒ۲۳۳؁ھ) کی مشہور کتاب معرفۃ الرجا ل ہے جس کو ان کے شاگرد حافظ ابوالعباس احمد بن محمد بن قاسم بن محرز البغدادی ؒنے ان سے روایت کی ہے ۔

امام ابن ابی حاتم ؒ (م۳۲۷؁) کہتے ہیں کہ

’’نا عبد الرحمن حدثني أبي حدثنى أبوالعباس المحرزى قال سألت على بن المدينى عن ابى كعب صاحب الحرير فقال كان يحيى بن سعيد يوثقه ‘‘ عبدالرحمن ابن ابو حاتم کہتے ہیں مجھے میرے والد نے بیان کیا انہیں ابو العباس محرزی نے، کہتے ہیں علی بن مدینی سے میں نے ابو کعب کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا یحی بن سعید القطان ان کی توثیق کرتے تھےـ (الجرح والتعديل: ج۶ : ص۴۱)

اس روایت میں امام  ابو حاتم ؒ (م۲۷۷؁ھ) نے ابو العباس   المحرزیؒ سے روایت کی ہے  جو کہ  علی ابن المدینی ؒ کے شاگرد ہے۔ معرفۃ الرجال لابن معین ،روایۃ ابن محرز کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن محرز ؒ نے علی ابن المدینی ؒ سے بھی روایت کیا ہے۔نیز ان کی کنیت بھی ابو العباس ہے۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام  ابو حاتم ؒ (م۲۷۷؁ھ) کے استاد ابو العباس   المحرزیؒ دراصل حافظ ابوالعباس احمد بن محمد بن قاسم بن محرز البغدادی ؒ ہی ہے۔

اور غیر مقلدین نے صراحت کی ہے کہ ابو حاتم الرازیؒ اور ابو زرعہ الرازی ؒ وغیرہ رحمہم اللہ صرف ثقات سے روایت کرتے تھے۔دکتور بشار عواد معروف اور شعیب الارنووط  اپنی کتاب تحریر التقریب میں صالح بن سهيل کے ترجمہ میں لکھتے ہیں ’’فقد روى عنه جمع من الثقات منهم أبو داود في سننه وهو لا يروي فيها الا عن ثقة، وأبو زرعة وأبو حاتم الرازيان وهما من تعرف في شدة التحري‘‘ صالح بن سہیل سے ثقات کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے جن میں ابو داؤد، رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں اور وہ ثقہ کے علاوہ کسی سے روایت نہیں کرتے، اور ابو زرعہ اور ابو حاتم الرازی بھی اور یہ دونوں حضرات رایوں کے حال جاننے میں بڑے ہی سخت ہیں ـ(تحریر التقریب التہذیب  : ۲/۱۲۹)

اسی طرح  دوسری جگہ احمد بن عبیداللہ کے ترجمہ میں وہ دونوں  لکھتے ہیں  : ’’ولو لم يكن ثقة عند أبي حاتم لما روى عنه‘‘ اور کیوں وہ ابو حاتم کے نزدیک ثقہ نہیں ہوسکتے جبکہ انہوں نے ان سے روایت کیا ـ (تحریر التقريب التهذيب : ج ۱ : ص ۷۰)

اسی طرح کفایت اللہ سنابلی صاحب بھی ابن محرز کو مجھول کہتے نہیں تھکتے ، مگر وہ خود لکھتے ہیں : ابو حاتم صرف ثقات سے روایت کرتے ہیں۔ (انوار البدر :ص ۲۸۲) لہذا امام ابو حاتم الرازی صرف ثقات سے روایت کرتے تھے اس لیے ابن محرز بھی ثقہ ہیں۔

پھر اصول حدیث کے مطابق اگر کتاب مشہور ہو تو اس کے مؤلف تک اس کی سند پر اعتراض نہیں ہوتا ،  اس اصول کو امام ابن حجر عسقلانی ؒ ذکر کیا ہے : ’’لأن الكتاب المشهور الغني بشهرته عن اعتبار الإسناد منا إلى مصنفه: كسنن النسائي مثلا لا يحتاج في صحة نسبته إلى النسائي إلى اعتبار حال رجال الإسناد منا إلى مصنفه۔‘‘ (النكت لابن حجر :ج١:ص٢٤٧،فتح المغيث :ج١:ص٦٥) اورمعرفۃ الرجال لابن محرز، یہ کتاب محدثین میں مشہور ہے ،اورخطیب ،ابن عساکر، مزی ،ابن حجر، ذہبی،  ابن قطلوبغا ،بدرالدین عینی، وغیرہ محدثین اور ائمہ جرح وتعدیل رحمہم اللہ اس کتاب سے احتجاج کرتے ہیں۔

اور اہل حدیث عالم کفایت اللہ سنابلی  بھی کہتے ہیں کہ: "اور رہی نسخہ کی سند تو ان کی یہ کتاب اہل علم میں متداول و مشہور رہی ہے، اور ایسا نسخہ سند کا محتاج نہیں ہوتا " ۔(انوار البدر : ص٦٩) اسی طرح اپنی کتاب" یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ "میں بلاذری کی بلا سند کتاب سے استدلال صرف اس وجہ سے کرتے ہیں کہ یہ کتاب اہل علم کے ہاں مشہور ہے ۔(ص٣٦٢)

اس تفصیل سے واضح ہوا کہ غیر مقلدین کے نزدیک جب کتاب مشہور ہو اور مستند علماء کے ہاں قابل استدلال ہو تو اسکی سند پر اعتراض نہیں ہوتا، لیکن افسوس  یہی قاعدہ اہل حدیث حضرات اور کفایت اللہ صاحب کو ابن محرز ؒ کی کتاب  کے تعلق سے یاد نہیں رہا۔

نیز محدثین نے اس کتاب سے  حجت بھی پکڑی ہے ،مثلاً: امام ذہبی ؒ، امام ابو حنیفہ ؒسے متعلق ،امام ابن معین ؒ کا  قول ،امام ابن محرز ؒہی کی سند سےلائے ہیں : وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحْرِزٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ لا بَأْسَ بِهِ۔ (مناقب ابی حنیفہ و صاحبیہ :ص ٤٦)اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ بھی اس کتاب سے استدلال کرتے ہیں۔(فتح الباری :ج٩ :ص٢٧٩)

یہی وجہ ہے کہ سلفی عرب علماؤں میں ایک ممتاز شخصیت ہے ابو اسحاق الحویني ،جو روایت حدیث و کتاب کے بارے میں رائے بتلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ

’’وكذلك ابن محرز وهو أبو العباس احمد بن محمد بن القاسم بن محرز راوي كتاب "معرفة الرجال" وهو سؤالاته لابن معين في "الجرح والتعديل" ولا اعرفه له بجرح ولا تعديل، ولم أجد له ترجمة فيما بين يدي من المراجع ومع ذلك  فالعلماء ينسبون الكلام لابن معين بروايته وما علمت أحدا توقف في قبوله والأمثلة على ذلك تطول‘‘ اسی طرح ابن محرز کا معاملہ ہے، جو ابو عباس احمد بن محمد بن قاسم بن محرز کتاب معرفۃ الرجال کا راوی ہے جس میں اُنھوں نے ابن معین سے جرح و تعدیل کی بابت (اقوال) کیے ہیں۔ مجھے اس کے بارے میں جرح یا تعدیل کا کوئی علم نہیں۔ میری دسترس میں موجود مراجع میں اس کا ترجمہ موجود نہیں۔ اس کے باوجود علماء اس کی وساطت سے ابن معین کی طرف قول کو منسوب کرتے ہیں۔ میں کسی کو نہیں جانتا جس نے اسے قبول کرنے میں توقف کیا ہو۔ اس بارے میں مثالوں کا ذکر ہی تطویل کا باعث ہے۔( نثل النبال بمعجم الرجال الذين ترجم لهم فضيلة الشيخ المحدث أبو إسحاق الحويني : ج۱ : ص  ۱۷۶)

ابو اسحاق حوینی کے قول سے بھی معلوم ہوتا ہے علماء اور محدثین نے ابن محرز کے اقوال کو قبول کیا ہے اور انہوں نے کہیں مضمون طویل نہ ہوجائے اس وجہ سے مثالوں کو تک ذکر نہیں کیا کیونکہ ایک دو مثالیں تھوڑی نہ ہیں ـ مزید تفصیل دوماہی الاجماع مجلہ: شمارہ  ۱ : ص ۳۳ پر موجود ہے۔

الغرض امام ابن معین ؒ کا قول بلا شک ثابت ہے۔

[6] رواۃ کی تفصیل یہ ہے :

۱۔           امام خطیب البغدادی ؒ کی توثیق اور ان کا ترجمہ گزرچکا۔

۲۔          محدث محمد بن احمد بن رزق ابو الحسن رزقویہ ؒ (م ۴۱۲؁ھ) ثقہ ہیں ۔( تاریخ الاسلام :جلد ۹: صفحہ ۲۰۶)

۳۔          احمد بن علی بن عمر بن حبیش ؒ بھی ثقہ ہیں ، امام خطیب بغدادی ؒ نے ثقہ اور حافظ قاسم بن قطلوبغا ؒ (۸۷۹؁ھ) نے ثقات میں شمار کیا ہے ۔ (کتاب الثقات للقاسم :جلد۱:صفحہ ۴۲۸)

لہذا زبیر علی زئی صاحب کا اسے مجہول کہنا (فتاویٰ علمیہ :جلد۲:۳۹۲) مردود ہے ۔

۴۔          محمد بن احمد بن عیسیٰ ؒ بھی مقبول راوی ہیں ، کیوں کہ ان سے دو ثقہ لوگوں نے روایت لی ہے :

۱ :            (ثقہ راوی ) احمد بن علی بن عمر بن حبیشؒ۔

۲:           (ثقہ محدث وامام ) امام ابو الشیخ الاصبہانی ؒ (م۳۶۹؁ھ) (ذکر الأقران وروایتھم عن بعضھم بعضاً:صفحہ ۳۰، ۳۱)

لہذا یہ راوی مجہول العین تو نہیں ، اور چونکہ ان کے متابع موجود ہیں ، اس لئے یہ مقبول ہیں ۔

۵۔          محمد بن سعد بن العوفی ؒ (م۲۷۶؁ھ)بھی جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں ۔ اعتراض : علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ محمد بن سعد العوفی کو خطیب اور ابن الجوزی ؒ نے لین اور دارقطنی نے’لابأس بہ ‘ کہا ہے، جمہور  کی تجریح کی وجہ سے جرح مقدم ہے۔الجواب : یہ اعتراض ہی مردود ہے، کیونکہ دار قطنی ؒ کے ساتھ ساتھ انہیں حافظ قاسم بن قطلوبغا ؒ نے ثقات میں شمار کیا ہے، امام حاکم ؒ امام ذہبی ؒ ، امام ابو عوانہ ؒ ، امام ضیاء الدین مقدسی ؒ اور امام ابن عساکر ؒ نے آپ کی روایت کی تصحیح وتحسین کی ہے ۔ (۲ ماہی مجلہ الاجماع :شمارہ نمبر ۲:صفحہ نمبر ۲۵)

اور خود زبیرعلی زئی اور دوسرے غیر مقلدین علماء کا اصول ہے کہ روایت کی تصحیح وتحسین اس روایت کے ہر ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے ، جس کا حوالہ پہلے گزر چکا ۔

لہذا یہ اعتراض بھی باطل ہے ۔

نوٹ نمبر ۱:

لین کی جرح کی وضاحت کرتے ہوئے، اہل حدیثوں کے محقق کفایت اللہ صاحب کہتےہیں کہ یہ بہت ہلکی جرح ہے، جس سے تضعیف لازم نہیں آتی ۔ (مسنون رکعات تراویح :صفحہ ۲۴)لہذا جب غیر مقلدین کے نزدیک لین کی جرح سے تضعیف لازم ہی نہیں آتی ، تو اس جرح سے غیر مقلدین اور علی زئی صاحب کا محمد بن سعد العوفی ؒ کو ضعیف ثابت کرنا ، ان کےاصول سے ہی مردود ہے۔

لطیفہ :

خو د کفایت اللہ سنابلی صاحب نے فورم پر اپنے ہی اصول کی مخالفت کرتے ہوئے ، لین کی جرح سے محمد بن سعد العوفی ؒ کو ضعیف ثابت کرتے ہوئے دوغلی پالیسی کا ثبوت دیا ہے ۔دیکھئے : محدث فورم کا لنک

http://forum.mohaddis.com/threads/%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%A7%D8%A8%D9%88%D8%AD%D9%86%DB%8C%D9%81%DB%81-%D8%B1%D8%B6%DB%8C-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%D8%B9%D9%86%DB%81-%DA%A9%D8%A7-%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%85-%D9%88%D9%85%D8%B1%D8%AA%D8%A8%DB%81-%D8%AD%D8%A7%D9%81%D8%B8-%D8%B0%DB%81%D8%A8%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D9%86%DA%AF%D8%A7%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA.1508/page-2#post-8801

الغرض محمد بن سعد العوفی ؒ (م ۲۷۶؁ھ)بھی جمہور کےنزدیک ثقہ ہیں ۔

لہذا یہ سند مطابع کی وجہ سےحسن درجہ کی ہے ۔


ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 3

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں



 امام یحیی بن معین رحمہ اللہ کا امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا دفاع

دفاع حنفیت - یحیی بن معین کا طریقہ 

181) قال أبو داود النحوي سليمان بن معبد ليحيى بن معين:حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال: سمعت حماد بن سلمة يقول: أعض الله أبا حنيفة بكذا وكذا، لا يكني، فقال ابن معين: «أساء أساء» .

امام حماد بن سلمہ نے کہا کہ اللہ ابو حنیفہ کا فلاں فلاں عضو کاٹ دے ، اس روایت پر امام یحیی بن معین فرماتے ہیں کہ حماد نے برا کہا ، حماد نے برا کہا۔


یہ حماد بن سلمہ کی شان کے خلاف تھا کہ وہ اس قسم کے فضول جملے کہتے البتہ یحیی بن معین رحمہ اللہ نے اپنے حنفی ہونے کا کمال مظاہرہ فرمایا اور ببانگ دہل حماد بن سلمہ کے جملوں پر ان کو غلط کہا۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہیکہ بعض محدثین جیسے حماد بن سلمہ کا رویہ اہل الرائے خصوصا امام اعظم کیلئے انتہائی متشدد ، متعصب اور سخت تھا ،

 اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہیکہ جرح و تعدیل کے امام ، یحیی بن معین نے دفاع ابو حنیفہ کر کے امت کو تعلیم دی ہیکہ امام اعظم کے خلاف بعض محدثین کی جو رائے ہے وہ انصاف پر مبنی نہیں ہے لہذا وہ رائے بھی قابل قبول نہیں ۔

لہذا دفاع حنفیت ، یہ یحیی بن معین کا طریقہ ہے جو ہم سب کیلئے مشعل راہ ہے۔ 




  مزید تفصیل قارئین   ان لنکس  پر پڑھ سکتے ہیں۔

اعتراض نمبر 19: امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ اور امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں ایک علمی و تاریخی جائزہ

تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 2 :امام اعظم ابو حنیفہ ؒ (م۱۵۰؁ھ) امام ابن معین ؒ (م۲۳۳؁ھ) کی نظر میں

اعتراض نمبر 129: کہ یحیی بن سعید نے کہا کہ ابوحنیفہ صاحب حدیث نہ تھے۔ اور ابن معین نے کہا کہ ابو حنیفہ حدیث میں کیا چیز تھی کہ تو اس کے بارہ میں پوچھتا ہے؟

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...