اعتراض نمبر 129: کہ یحیی بن سعید نے کہا کہ ابوحنیفہ صاحب حدیث نہ تھے۔ اور ابن معین نے کہا کہ ابو حنیفہ حدیث میں کیا چیز تھی کہ تو اس کے بارہ میں پوچھتا ہے؟
اعتراض نمبر 129:
کہ یحیی بن سعید نے کہا کہ ابوحنیفہ صاحب حدیث نہ تھے۔ اور ابن معین نے کہا کہ ابو حنیفہ حدیث میں کیا چیز تھی کہ تو اس کے بارہ میں پوچھتا ہے؟
أخبرنا البرقاني، أخبرنا محمد بن العباس بن حيويه، أخبرنا محمد ابن مخلد، حدثنا صالح بن أحمد بن حنبل، حدثنا علي - يعني ابن المديني - قال:
سمعت يحيى، هو ابن سعيد القطان - وذكر عنده أبو حنيفة - قالوا: كيف كان حديثه؟ قال: لم يكن بصاحب حديث.
أخبرنا الخلال، حدثنا أحمد بن إبراهيم بن شاذان، أخبرنا علي بن محمد ابن مهران السواق، حدثنا محمد بن حماد المقرئ قال: وسألت يحيى بن معين عن أبي حنيفة فقال: وأيش كان عند أبي حنيفة من الحديث حتى تسأل عنه.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ پہلی سند میں محمد بن العباس الخراز اور دوسری سند میں علی بن محمد بن مهران السواق ہیں جو الدار قطنی کے ان شیوخ میں سے ہیں جو ضعیف ہیں۔
پھر اگر صاحب الحدیث سے قائل کی مراد یہ ہے کہ وہ ہر اڑتی اور پوشیدہ قسم کی لاکھوں حدیثیں روایت کرے اور ہر اس روایت کو بیان کرے جس کے گرد حائک ۔حلاق ۔ حمال ۔فخام۔ بزار۔ بزاز ۔اور باقی ہر قسم کے فیق کار لپٹے ہوئے ہوں تو ہم اعتراف کرتے ہیں کہ بے شک ابوحنیفہ ایسے نہ تھے۔
بلکہ ان کا طریق کار تو اللہ کے دین میں علم تلاش کرنے والوں کو فقہ سکھانا اور ان کو وہ حدیثیں بیان کرنا تھا جو ان کے پاس صحیح احادیث اور آثار ہوتے تھے جو احکام میں مناسب ہوتے تھے جیسا کہ مخفی نہیں ہے[1]۔
ابو حنیفہ بڑے حفاظ حدیث میں سے تھے
اور السیرة الکبری الشامیہ کے مولف الحافظ محمد بن یوسف الصالحی الشافعی نے عقود الجمان میں کہا ہے کہ " ابو حنيفة من كبار حفاظ الحديث واعيانهم " بڑے حفاظ میں سے اور ان کے سردار تھے۔ اور اگر حدیث میں ان کی گہری نظر نہ ہوتی تو وہ فقہ میں مسائل استنباط کرنے کے قابل نہ ہوتے اور الذہبی نے طبقات الحفاظ میں اس کا ذکر کیا ہے اور بڑے اچھے انداز میں بیان کیا ہے۔ الخ۔
پھر اس نے عقود الجمان کے تیسویں باب میں کہا کہ امام صاحب اگرچہ وسیع حافظہ والے تھے اس کے باوجود ان سے روایات کم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ احکام استنباط کرنے میں مشغول رہتے تھے اور اسی طرح امام مالک اور امام شافعی نے جس قدر روایات سنی ہوئی تھیں اتنی مقدار ان سے روایات نہیں کی گئیں۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر جیسے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کہ ان کو معلومات بہت تھیں مگر ان سے روایات کم ہیں حالانکہ ان سے کم درجہ لوگوں کی روایات ان کی بہ نسبت زیادہ ہیں۔ الخ۔
پھر اس نے وہ اخبار بیان کیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ابوحنیفہ کے پاس احادیث بہت زیادہ تھیں۔
پھر اس نے لمبی بحث کی۔
ان اسانید کے ضمن میں جو سترہ مسانید ابی حنیفہ کی روایت میں ہیں جن کو جمع کرنے والے حماد بن ابی حنیفہ - ابو یوسف ۔ محمد بن الحسن - الحسن بن زیاد ۔ ابو محمد الحارثی - ابن ابی العوام - طلحہ بن محمد ابن المظفر - ابن عدی، ابونعیم الاصبھانی، عمرو بن الحسن الاشنانی۔ ابوبکر الکلاعی - ابوبکر بن المقرئی، ابن خسرو اور ابو علی البکری ہیں۔ جو امام ابوحنیفہ کی کثرت احادیث پر دلالت کرتی ہیں۔
اور ہم ان مسانید کو الخير الرملی - محمد بن السراج عمر الحانوتي - الشمس ابن طولون الحافظ کی سند کے ساتھ اجازة روایت کرتے ہیں۔
ان سترہ مسانید کی سندیں الفہرست الاوسط میں بھی بیان کی گئی ہیں۔ اور ہماری سند اس تک التحریر الوجیز میں مذکور ہے۔
بلکہ خود خطیب جب دمشق کی طرف سفر کر کے گیا تو وہ اپنے ساتھ دارقطنی کی مسند ابی حنیفہ اور ابن شاہین کی مسند ابی حنیفہ لے کر گیا تھا۔
اور یہ ان سترہ مسانید کے علاوہ ہیں اور بدر الدین العینی نے اپنی تاریخ کبیر میں ذکر کیا ہے کہ بے شک ابن عقدہ کی مسند ابی حنیفہ اکیلی ہزار احادیث سے زیادہ پر مشتمل ہے۔ یہ بھی ان مسانید کے علاوہ ہے۔ اور امام سیوطی نے التعقبات میں کہا کہ ابن عقدہ بڑے حفاظ میں سے ہے۔
لوگوں نے اس کی توثیق کی ہے اور اس کی شک تضعیف متعصب کے علاوہ کسی نے نہیں کی۔ الخ
اور اسی طرح زفر کی کتاب الاثار بھی ہے جس میں اکثر روایات ابو حنیفہ سے ہیں اور حدیث میں امام زفر کی دو کتابیں ہیں جن کا ذکر امام حاکم نے معرفت علوم الحدیث میں کیا ہے۔
اور یحییٰ بن سعید القطان جس کے بارہ میں اس راویت میں ہے کہ اس سے اس کے بارہ میں پوچھا گیا تھا۔ اس کے متعلق تو یحییٰ بن معین نے اپنی تاریخ میں ذکر کیا جو الدوری کی روایت سے ہے اور مکتبہ الظاہریہ دمشق میں ہے کہ یہ ان لوگوں میں سے تھے جو وکیع بن الجراح کی طرح ابوحنیفہ کے فتوئ کے مطابق عمل کرتے تھے۔ اور اس کا ذکر ابن عبدالبر نے بھی الانتقاء ص 131 میں کیا ہے بلکہ خود خطیب نے بھی ص 345 و 346 میں اس کا ذکر کیا ہے[2]۔
اور ہو سکتا ہے کہ ابوحنیفہ کے پاس جو احادیث تھیں ان کو ابن معین ان لوگوں کی روایات کے مقابلہ میں کم سمجھتے ہوں جو صرف راویوں سے محض روایت کو بکثرت بیان کرنے والے ہوں جیسا کہ خود ابن معین۔
اورابن معین کا کثیر الحدیث ہونا ایسا تھا کہ کہا جاتا ہے کہ بے شک اس نے اپنے خط کے ساتھ چھ لاکھ احادیث لکھی تھیں۔
ابوحنیفہ تو ایسے لوگوں میں سے نہ تھے جو ہر اڑتی اور پوشیدہ روایت کو روایت کرتے بلکہ وہ صرف ان احادیث کو لیتے تھے جو احکام سے متعلق ہوتی تھیں اور ان آثار کو لیتے جو احکام کے بارہ ہے مروی ہوتے تھے۔
اور پہلے یہ بات گزر چکی ہے کہ وہ حدیث لینے کےلیے ہر زیات حائک لبان اور بناء کے پاس نہیں بیٹھے رہتے تھے بلکہ اس کا حدیث بیان کرنا اس کی فقہ بیان کرنے کے دوران ہوتا تھا جو مناسبات کے ساتھ ان لوگوں کے سامنے ہوتا تھا جو اس سے فقہ حاصل کرنے والے تھے، اور اس جیسی احادیث مختلف قسم کے ان رفیق کار لوگوں کے ہاتھوں نہیں لگ سکتی تھیں جن کی روایتیں لاکھوں تک پہنچی ہوں۔ اور ابن معین حنفی تھے۔ انہوں نے محمد بن الحسن سے الجامع الصغیر پڑھی[3]۔ بلکہ ان کو تو حنفیت میں تعصب کا طعن دیا جاتا ہے جبکہ وہ امام شافعی کے بارہ میں کلام کرتے ہیں[4]۔
پھر راوی جو اس کی طرف ابو حنیفہ اور اس کے اصحاب کے بارہ میں جو چاہیں جس طرح کے چاہیں اقوال منسوب کریں۔ حالانکہ وہ اس سے بری الذمہ ہیں اور یہ تعجب کی انتہاء ہے۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ پہلا نکتہ: "لیس بصاحب الحدیث" کا مطلب کیا ہے؟
امام یحییٰ بن سعید القطانؒ نے جب یہ فرمایا کہ "ابو حنیفہ صاحبِ حدیث نہیں تھے" تو اس سے مراد یہ نہیں کہ آپؒ حدیث سے نابلد یا کمزور تھے۔ بلکہ اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ محدثین کے مخصوص انداز سے جدا ایک فقیہ تھے۔
محدثین عام طور پر احادیث کے طرق، اسانید اور روایت کی زیادتی پر زور دیتے تھے۔
امام ابو حنیفہؒ کا رجحان اس کے برعکس احادیث کے فہم، استنباط اور استخراجِ احکام کی طرف تھا۔
اسی لیے امام ابو حنیفہؒ ایک حدیث سے بیسیوں فقہی مسائل نکال لیتے، اور یہی درحقیقت فقہ کی روح ہے۔
دوسرا نکتہ: کیا یہ جرح ہے؟
اگر یہ قول کوئی تنقیص یا جرح ہوتی تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ:
امام یحییٰ بن سعید القطانؒ خود فقہ میں حنفی کیوں تھے؟
اگر امام ابو حنیفہ پر انہیں کوئی اعتراض ہوتا تو وہ ان کے بجائے کسی اور امام کی فقہ کو اختیار کرتے — جبکہ اس دور میں کئی فقہاء موجود تھے۔
یہی بات خود امام یحییٰؒ کے امام ابو حنیفہؒ سے علمی و فقہی تعلق کی تصدیق کرتی ہے، اور اس بات کی دلیل ہے کہ "لیس بصاحب الحدیث" جیسا جملہ تعریفی معنی رکھتا ہے نہ کہ تنقیصی۔
تیسرا نکتہ: بازار میں روایت نہ سننے کا واقعہ
روایت میں یہ بھی نقل ہوا کہ امام یحییٰ بن سعیدؒ نے بازار میں امام ابو حنیفہؒ سے روایت نہیں سنی۔(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج 8 ص 450 واسنادہ صحیح)
تو یہاں بھی انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ہم محدثین کے آدابِ سماع کو سامنے رکھیں:
بازار جیسی جگہ کو احادیث سننے کے لیے نامناسب سمجھا جاتا تھا جیسا کہ حدیث میں ہیکہ بازار اللہ کے ہاں نا پسندیدہ جگہوں میں سے ہے۔
اسی لیے اگر کسی امام نے وہاں سماع سے گریز کیا تو یہ حدیث یا راوی پر اعتراض نہیں بلکہ محلِ سماع کا ادب تھا۔
تو یہ واقعہ امام ابو حنیفہؒ کی شخصیت پر کسی تنقیص کی دلیل نہیں بن سکتا، جیسا کہ بعض متعصب ذہنوں نے سمجھا۔
حقیقت یہ ہے کہ…
امام ابو حنیفہؒ کو صاحبِ فقہ کہا گیا، نہ کہ "صاحبِ حدیث" — کیونکہ آپ کا اصل میدان استنباط، استخراج اور فقہی اصول کی تدوین تھا۔ آپ وہ امام تھے جنہوں نے احادیثِ صحیحہ سے پورے پورے فقہی مکاتب فکر کی بنیاد رکھی۔
آپ کی فقہی بصیرت، عقلِ سلیم اور اصولی سوچ آج بھی اہل علم کی رہنمائی کر رہی ہے۔
اختتامی بات:
امام ابو حنیفہؒ پر کیے گئے بعض اقوال کو اگر تعصب سے ہٹ کر، خلوص سے دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ ان اقوال میں علمی عظمت کا اعتراف ہے نہ کہ جرح۔
اللہ تعالیٰ نے امام ابو حنیفہؒ کو حلم، علم، بصیرت اور دینی فہم میں جو مقام عطا کیا، وہ ان کا ربانی انعام ہے۔
[2]۔ اس پر تفصیلی بحث کیلئے دیکھیں ہمارا رسالہ "امام وکیع بن جراح کی حنفیت" ، نیز امام یحیی بن معین اور امام یحیی بن سعید قطان بھی حنفی تھے ، دیکھیں
"النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
▪︎ سلسلہ تعریف و توثیق ابو حنیفہ رحمہ اللہ : سلسلہ نمبر 2
▪︎ امام یحیی بن سعید القطان کاامام ابوحنیفہ سے اخذ واستفادہ
[3]۔ امام یحیی بن معین سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تعریف و توثیق ثابت ہے ، دیکھیں
اس روایت میں جس میں محمد بن حماد المقرئ ان سے پوچھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ حدیث میں کیا تھے جو تم ان کے بارے میں سوال کرتے ہو ، یہ صحیح روایات کے خلاف ہے جیسا کہ اوپر توثیقی اقوال والی پوسٹ سے ظاہر ہے۔
دوم: محمد بن حماد المقرئ کی کسی امام نے توثیق نہیں کی جس سے پتہ چلتا کہ روایت حدیث میں انکا کیا مقام ہے ؟عابد یا زاہد ہونا حدیث میں ثقہ یا حجت ہونے کی علامت نہیں۔
تیسری بات یہ کہ یحییٰ ابن معین سے انکے ثقہ شاگرد امام ابو حنیفہ کی توثیق نقل کر چکے ہیں اسکے مقابلے میں یہ قول حجت نہیں بن سکتا ، اور بالفرض اس قول کو درست مان بھی لیں تو اس قول میں جرح جیسا کچھ بھی نہیں ہے اور ویسے بھی جس سے متعدد محدثین حدیث روایت کرتے ہوں اس کی عدالت ایک غیر واضح اور مبہم قول سے متاثر نہیں ہو سکتی۔
[4]۔ سیر اعلام النبلاء، جز:9، ص:133
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں