نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ کی حنفیت (باب دوم ) وکیع کا فقہ اہل الرائے کی تعلیم حاصل کرنا :


(امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ کی حنفیت

مصنف : مولانا ابو حمزہ زیشان صاحب فاضل رائیونڈ

تحقیق و حواشی : حافظ انجینئر مساعد زیب  

پیکش:  النعمان سوشل میڈیا سروسز

 مکمل pdf   کتاب دفاع احناف لائبریری میں دفاع اکابر سیکشن میں موجود ہے۔  )

 

امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ کی حنفیت باب اول

باب دوم :

امام وکیع رحمہ اللہ علیہ کو دیگر محدثین میں سے نمایاں کرنے والی جو چیز ہے وہ فقاہت ہے۔ طلبہ حدیث کو بار بار فرمایا کرتے تھے

 یا فتیان تفھموا فقہ الحدیث فابکم ان تفھمتم فقہ الحدیث لم یقھرکم اھل الرأی

کہ اے جوانوں ، حدیث کی فقہ کو سیکھو کیونکہ اگر تم نے حدیث کی فقہ کو سمجھ لیا تو اہل الرائے تم پر غالب نہیں آ سکیں گے۔

اور یہ فقہی ذوق آپ کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی بدولت نصیب ہوا.

امام وکیع کی حنفیت:

 

وکیع کا فقہ اہل الرائے کی تعلیم حاصل کرنا :

امام وکیع رحمۃ اللہ علیہ نے جہاں امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ اور امام  قاضی القضاہ ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے علم دین حاصل کیا وہاں انہوں نے امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی شرف تلمذ پایا۔ امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کوفہ کے ممتاز محدثین و فقہاء میں سے  تھے۔ حدیث کی کتابوں میں اور خاص طور پر جامع ترمذی میں ان کے اجتہادات اور آراء کا کثرت سے ذکر ملتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے اجتہادات اور فقہی آراء دیگر کتب میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں مثلاً: مصنف عبد الرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ ، سنن الکبری للبیہقی، تفسیر ابن جریر الطبری، الحلی لابن حزم، التمہید لابن عبد البر مالکی، المغنی لابن قدامہ حنبلی، المجموع للفتاوى، فتح الباری لابن حجر شافعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ۔ اور ان کا اجتہاد اکثر و بیشتر امام ابو حنیفہ کے موافق ہوتا تھا۔[1]

فقہ حنفی اور فقہ ثوری میں مماثلت:

ذیل میں ہم امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے صرف چند اجتہادی مسائل کو نقل کریں گے جن میں انہوں نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی موافقت کی ہے۔

1۔مسئلہ ترک رفع الیدین

ترک رفع الیدین والی حدیث(ترمذی 257) کے ذیل میں امام ترمذی فرماتے ہیں:

حديث ابن مسعود حديث حسن، وبه يقول: غير واحد من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين، وهو قول سفيان الثوري واهل الكوفة.

ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، صحابہ کرام اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم یہی کہتے ہیں اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔[2]

2۔طہارت میں نیت ضروری نہیں۔[3]

3۔اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔[4]

4۔عورت کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔[5]

5۔سورہ الحج میں ایک سجدہ ہے۔[6]

6۔نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا فرض یا واجب نہیں۔[7]

7۔نماز فجر اجالے میں پڑھنا افضل ہے۔[8]

8۔دس درہم کی چوری پر ہی ہاتھ کاٹا جائے گا۔[9]

9۔دیت دس ہزار درہم ہے۔[10]

10۔ الْمَضْمَضَةِ (کلی کرنا) الاِسْتِنْشَاقِ (ناک میں پانی ڈالنا) وضو میں سنت جبکہ غسل جنابت میں واجب ہیں۔[11]

امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ کو ماضی قریب کے مشہور محقق شیخ محمد رواس قلعجی حنفی رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی کتاب " موسوعہ فقہ سفیان ثوری"  میں  انتہائی محنت کے ساتھ جمع کیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے یہ بات بخوبی معلوم ہو جاتی ہےکہ فقہ سفیان ثوری اور فقہ حنفی میں 90 فیصد موافقت ہے۔ یہی بات محقق شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا سعید احمد پالنپوری صاحب نے لکھی ہے۔( تحفۃ الالمعی ج 1 ص 140 )

اسی طرح جامع سفيان الثوري  کے مؤلف رياض حسين عبد اللطيف الطائي امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا دونوں ایک ہی مکتب یعنی مدرسہ اہل الرائے ہے اور دونوں کے فتوے کثرت سے ملتے جلتے ہیں۔ [12]

امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے مسائل طلاق پر تحقیقی رسالہ پر طائرانہ نگاہ سے یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ مذہب ثوری حنفی مذہب سے کس قدر موافقت رکھتا ہے۔[13]

اسی طرح آپ کے اساتذہ میں امام ابو حنیفہ کے خاص شاگرد ،فقہ حنفی کی تدوینی مجلس کے اہم رکن محدث مالک بن مغول رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل ہیں۔ انہی اساتذہ کی وجہ سے وکیع رحمۃ اللہ علیہ  کا فروعی مسائل میں رجحان فقہ حنفی یا اہل الرائے کی طرف ہوا اور امام وکیع رحمۃ اللہ علیہ  نے حنفیت اختیار کی ۔امام صاحب کی حنفیت پر اور ان کا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے اور قول پر فتوٰی دینے کے بارے میں ہم آئمہ کرام سے حوالہ جات پیش کریں گے۔

1 ۔امام ابن عبدالبر مالکی رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ:

نا حكم بن منذر بن سعيد قال نا يوسف بن أحمد بمكة قال نا أبو سعيد بن الأعرابي قال نا عباس الدوري قال سمعت يحيى بن معين يقول ما رأيت مثل وكيع وكان يفتى برأي أبي حنيفة

امام عباس دورى  رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ انہوں نے  امام یحیی بن معین رحمۃ اللہ علیہ سے سنا کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے وکیع سے افضل کسی کو نہیں دیکھا اور وہ ابو حنیفہ کے قول پر فتوی دیتے تھے۔[14]

ایک اور مقام پر ابن عبد البر لکھتے ہیں :۔

قال يحيى بن معين ما رأيت احدا اقدمه على وكيع و كان وكيع يفتي برأی ابی حنيفة

 يحيى بن معین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں نے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جسکو میں وکیع پر مقدم کروں اور وکیع امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے پر فتویٰ دیا کرتے تھے۔ [15]

2 ۔امام صیمری حنفی رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ:

أخبرنا عمر بن إبراهيم قال أنبأ مكرم قال أنبأ علي بن الحسين بن حبان عن أبيه قال سمعت يحيى بن معين قال ما رأيت أفضل من وكيع بن الجراح قيل له ولا ابن المبارك قال قد كان لابن المبارك فضل ولكن ما رأيت أفضل من وكيع كان يستقبل القبلة ويحفظ حديثه ويقوم الليل ويسرد الصوم ويفتي بقول أبي حنيفة وكان قد سمع منه شيئاً كثيراً قال يحيى بن معين وكان يحيى بن سعيد القطان يفتي بقول أبي حنيفة أيضاً.[16]

3۔ خطیب بغدادی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ:

أجاز لنا إبراهيم ابن مخلد، قَالَ: أَخْبَرَنَا مكرم بن أَحْمَد الْقَاضِي، ثم قَالَ: أَخْبَرَنَا الصيمري، قراءة قَالَ: أَخْبَرَنَا عُمَر بن إبراهيم المقرئ، قَالَ: حَدَّثَنَا مكرم، قَالَ: أَخْبَرَنَا علي بن الحسين بن حبان، عن أبيه، قال: سمعت يحيى بن معين، قال: ما رأيت أفضل من وكيع بن الجراح، قيل له: ولا ابن المبارك؟ قال: قد كان لابن المبارك فضل، ولكن ما رأيت أفضل من وكيع، كان يستقبل القبلة، ويحفظ حديثه، ويقوم الليل، ويسرد الصوم، ويفتي بقول أبي حنيفة، وكان قد سمع منه شيئا كثيرا، قال يحيى بن معين: وكان يحيى بن سعيد القطان يفتي بقوله أيضا.

" حسین بن حبان کہتے ہیں میں نے سنا امام یحیی بن معین رحمۃ اللہ علیہ  سے انہوں نے کہا  میں نے وکع بن جراح سے افضل کوئی نہیں دیکھا ہے کہا گیا کہ ابن مبارک سے بھی نہیں ؟  ابن معین  رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ابن مبارک بھی اہل فضل ہیں لیکن میں نے امام وکیع بن جراح سے افضل نہیں دیکھا جو راتوں کو قیام کرتے مستقل قبلہ جانب ہو کر ، احادیث کو یاد کرتے،روزے بھی رکھتے تھے اور امام ابو حنیفہ کے قول پر فتویٰ دیتے اور  وکیع نے ان سے بہت زیادہ سنا ہے اور پھر امام ابن معین نے فرمایا کہ امام یحییٰ بن سعید القطان بھی ابو حنیفہ کے قول پر فتویٰ دیتے تھے۔"[17]

4۔ محدث ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ  کا حوالہ :

محدث امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے جن اصحاب ابی حنیفہ کے ناموں کو مستقل سرخی اور عنوان دے کر تذکرہ کیا ہے، ان میں  وکیع بن الجراح کا تذکرہ مناقب قاری رحمۃ اللہ علیہ بذیل الجواہر ج ٢  ص٥٤٠ میں مذکور ہے۔[18]

ایک اور جگہ آپ لکھتے ہیں

وكيع  بن الجراح بن مليح أخذ العلم عن أبي حنيفة، وكان يفتي بقوله

" وکیع نے  امام ابوحنیفہ  سے علم حاصل کیا اور ان کے قول پر فتوی دیا کرتے تھے۔"[19]

5۔ امام عبد القادر بن محمد القرشي محيي الدين الحنفي کا حوالہ :

ويفتي بقول أبي حنيفة

"وکیع امام ابوحنیفہ کے قول پر فتوی دیا کرتے تھے۔"[20]

6۔ محدث امام ذہبی شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کا حوالہ:

ويفتي بقول ابى حنيفة رحمة اللہ علیہ [21]

7۔ محدث بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ :

وَقَالَ ابْن معِين: مَا رَأَيْت أفضل من وَكِيع، وَكَانَ يُفْتِي بقول أبي حنيفَة، وَكَانَ قد سمع مِنْهُ شَيْئا كثيرا[22]

8 ۔محدث امام ابن حجر شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ:

ويفتي بقول ابى حنيفة [23]

9۔ مورخ امام ابن تغری بردی حنفی کا حوالہ :

ويفتي بقول أبي حنيفة [24]

10۔ امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کا حوالہ:

ويفتي بقول أبي حنيفَة [25]

11۔ امام طاش کبری زادہ کا حوالہ:

ومن الائمة الحنفية وكيع بن الجراح

اور ائمہ حنفیہ میں وکیع بن الجراح بھی ہیں۔[26]

12۔ امام الحافظ محمد بن یوسف الصالحی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ:

امام صاحب کے شاگردوں میں وکیع بن جراح بن ملیح رؤاسی ابو سفیان الکوفی ہیں۔[27]

13۔امم محمد بن علي بن أحمد شمس الدين الداوودي المالكی کا حوالہ :

وقال يحيى: ما رأيت أفضل منه، يقوم الليل، ويسرد الصوم، ويفتي بقول أبي حنيفة، وكان يحيى القطان يفتي بقول أبي حنيفة أيضا [28]

 14۔محدث أبو الحسنات محمد عبد الحی لكھنوی الهندی الحنفی کا حوالہ

ويفتي بقول أبي حنيفة [29]

15۔ محقق وقت وکیل احناف نائب شیخ الاسلام خلافت عثمانیہ امام زاہد الحسن الکوثری کا حوالہ:

ہماری معلومات کے مطابق جب سب سے پہلے مبارکپوری غیر مقلد نے امام وکیع بن جراح رحمۃ اللہ علیہ کی حنفیت کا انکار کیا تو تانیب الخطیب میں امام کوثری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا رد کیا اور اسے غیر معقول کلام کہا۔ [30]

16۔ محدث امام العصر مولانا انور شاہ کشمیری حنفی رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ:

أن وكيعا حنفى كان يفتي بمذهب أبي حنيفة كما في عقودالجواهر مثله في كتاب الضعفاء لأبي الفتح الازدي امام الجرحمۃ اللہ علیہ والتعديل

  وکیع حنفی تھے اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب پر فتوی دیا کرتے تھے جیسا کہ [عقود الجواہر المصنف الزبیدی] میں ہے اور اسی طرح امام الجرح والتعدیل ابو الفتح الازدي رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الضعفاء میں بھی ہے ۔[31]

17۔ محدث ظفر احمد عثمانی تھانوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ:

آپ  نے وکیع رحمۃ اللہ علیہ کا تعارف لکھا ہے اور آپکو  اصحاب ابو حنیفہ میں شمار کیا ہے۔[32]

18۔ محقق امام اہل السنہ مولانا سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ:

آپ نے اس موضوع پر مفصل لکھا ہے۔کتاب کے آخر میں آپکا مضمون شامل کیا گیا ہے ۔

چند مزید علماء کے حوالہ جات جنہوں نے وکیع رحمۃ اللہ علیہ کی حنفیت کو تسلیم کیا ہے۔

19۔ امام ابو السعادت ابن الاثیر رحمۃ اللہ علیہ[33]

20۔ امام محمد بن عبد الله الشبلی الدمشقيی الحنفی [34]

21۔ امام شمس الدین کرمانی  [35]

22۔ امام ابن حماد حنبلی [36]

23۔ امام ابن کثیر شافعی [37]

24۔ ابن ارسلان رحمۃ اللہ علیہ  [38]

25۔محدث عبدالحق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ [39]

26۔ ابو الامداد برھان الدین اللقانی المالکی [40]

27۔ شیخ محمد خضر شنقیطی مالکی رحمۃ اللہ علیہ [41]

28۔ محدث خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ[42]

29۔ شیخ الحنفیہ فی بغداد محمد محروس مدرس الحنفی رحمۃ اللہ علیہ [43]

30۔ سلفی محقق حسن أبو الأشبال الزهيري نے  وکیع رحمۃ اللہ علیہ کا امام صاحب کے قول پر فتوی دینے کو نقل کیا ہے اور اس پر سکوت اختیار کیا ہے۔

وقال ابن معين أيضًا: ما رأيت أفضل من وكيع، قيل له: فـ ابن المبارك؟ يعني: ما رأيك في ابن المبارك؟ قال: قد كان له فضل، ولكن ما رأيت أفضل من وكيع، كان يستقبل القبلة ويحفظ حديثه ويقوم الليل ويسرد الصوم سردًا ويفتي بقول أبي حنيفة، ووالله ما رأيت أحدًا يحدث لله تعالى غير وكيع، يعني: ما رأيت أحدًا يحدث بإخلاص لله تعالى دون أن يصبو إلى غرض من أغراض الدنيا، وما رأيت أحفظ منه، ووكيع في زمانه كـ الأوزاعي في زمانه.[44]

31۔ غیر مقلد عبدالرشید صاحب کا حوالہ

امام وکیع بن الجراح ؒ اگرچہ منصب امامت واجتہاد پر فائز تھے۔لیکن فتویٰ امام ابوحنیفہ (م150ھ) کے مسلک کے مطابق دیتے تھے۔اس سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ وہ حنفی مسلک کی طرف مائل تھے۔[45]

امام وکیع رحمۃ اللہ علیہ کی حنفیت پر شواہد :

آپ کے حنفی ہونے کے کئی شواہد ہیں اور آئمہ کے صریح الفاظ بھی موجود ہیں جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے۔ ذیل میں آپ کے حنفی ہونے کے چند شواہد  نقل کیے جاتے ہیں۔

شواہد :

1۔ الحاكم : حدثنا يحيى بن محمد العنبري ، حدثنا أحمد بن سلمة ، حدثنا عبد الله بن هاشم ، قال لنا وكيع : أي الإسنادين أحب إليكم : الأعمش ، عن أبي وائل ، عن عبد الله ، أو سفيان ، عن منصور ، عن  إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ؟ فقلنا . الأول ، فقال : الأعمش شيخ ، وأبو وائل شيخ ، وسفيان فقيه ، ومنصور فقيه ، وإبراهيم فقيه ، وعلقمة فقيه . وحديث يتداوله الفقهاء خير مما يتداوله الشيوخ .[46]

2۔ أخبرني الحسن بن محمد بن الحسن الخلال نا محمد بن العباس الخزاز نا أبو بكر بن أبي داود نا علي بن خشرم قال: سمعت وكيعا غير مرة يقول: " يا فتيان تفهموا فقه الحديث، فإنكم إن تفهمتم فقه الحديث لم يقهركم أهل الرأي ".

وکیع رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر تم حدیث کی فقہ کو حاصل کر لو اور اس کو سیکھ لو تو فقہاء تم پر غالب نہیں آسکیں گے۔[47]

ایک اور روایت میں وکیع رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ

" لو أنكم تفقهتم الحديث وتعلمتموه ، ما غلبكم أصحاب الرأي، ما قال أبو حنيفة في شئ يحتاج إليه إلا ونحن نروي فيه بابا " .

  امام وکیع رحمۃ اللہ علیہ ایک دن حدیث کے طلبہ کو فرمانے لگے

 کہ اگر تم حدیث کی فقہ کو حاصل کر لو اور اس کو سیکھ لو تو فقہاء تم پر غالب نہیں آسکیں گے(اس زمانے میں محدثین اس بارے میں بہت کمی کا شکار تھے ، کئی احادیث زبانی یاد ہونے کے باوجود مسئلہ اخذ کرنے میں فقہاء سے پیچھے رہ جاتے تھے) امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے جس بھی ضروری مسئلے کے بارے میں کچھ کہا ہے ہم اس میں ایک پورا باب روایت کرتے ہیں۔ [48]

جیسا کہ روایت میں گزرا کہ وکیع رحمۃ اللہ علیہ نے اہل الحدیث کو تاکید کی اور یہ بھی کہا کہ امام ابو حنیفہ مسائل بیان کرتے ہوئے پورا باب بیان کرتے ہیں یہ واضح کرتا ہے کہ وکیع رحمۃ اللہ علیہ کو  امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ پر  دسترس تھی اور اس کے بارے میں اتنی احادیث کو اکٹھا کرنا ان کے حنفی ہونے کو روز روشن کی طرح واضح کر دیتا ہے۔

حدثنا ابن كرامة، قال: كنا عند وكيع يوماً فقال رجل: أخطأ أبو حنيفة، فقال وكيع: كيف يقدر أبو حنيفة يخطئ ومعه مثل أبي يوسف، وزفر في قياسهما، ومثل يحيى بن أبي زائدة، وحفص بن غياث، وحبان، ومندل في حفظهم الحديث، والقاسم بن معن في معرفته باللغة العربية، وداود الطائي، وفضيل بن عياض في زهدهما وورعهما؟ من كان هؤلاء جلساؤه لم يكد يخطئ؛ لأنه إن أخطأ ردوه.[49]

الإمام الحافظ المجود الحسن بن أبي طالب محمد بن الحسن بن علي البغدادي الخلال :

ثقة [50]

علي بن عمرو بن سهل أبو الحسن السلمي الحريري :

 ثقة [51]

أبو إبراهيم نجيح بن إبراهيم بن محمد بن الحسين الزهري القرشي الكرماني

ابن حبان نے آپ کو ثقات میں ذکر کیا ہے (الثقات لابن حبان 9/220) اور اور امام ابو عوانہ نے اپنی صحیح میں روایت لی ہے۔ جو ان دونوں کے نزدیک ثقہ ہونے کی دلیل ہے اور مسلمہ بن قاسم کی جرح حجت نہیں کیونکہ وہ خود ضعیف ہے

۔ ابو عوانہ والی روایت ملاحظہ ہو۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِشْكَابَ ، وَنَجِيحُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، رحمۃ اللہ علیہمَهُمَا اللَّهُ قَالَا : حدثنا سَعِيدُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَا : حدثنا عَبْثَرٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ لِابْنِ عَبَّاسٍ : إِنَّكَ امْرُؤٌ تَائِهٌ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ يَوْمَ خَيْبَرَ ، وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ

باب بيان الرد على ابن عباس في إباحته نكاح المتعة، وأنّ النبي نهى عنها يوم خيبر ، مستخرج ابی عوانة 11/243 ط الجامعة الإسلامية ، نیز اس باب کے نام سے ان غیر مقلدوں کو بھی مسکت جواب مل گیا جو کہتے  تھے کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں امام ابو حنیفہ کے رد پر باب قائم کیا گیا ہے ، اب یہاں صحابی جلیل پر جو رد کا باب قائم ہے اس پر غیر مقلد کیا گل افشانی کریں گے ؟؟؟ بہرحال ابن ابی شیبہ والے باب کی حقیقت جاننے کیلئے امام کوثری رحمۃ اللہ علیہ کی شاندار کتاب  النكت الطريفة في التحدث عن ردود بن ابي شيبه على أبي حنيفة دیکھنے لائق ہے ۔ 

علي بن محمد بن الحسن بن محمد النخعي الكوفي ابن كاس:

 ثقة [تاريخ بغداد 12/ 70 ، تاريخ دمشق 43/ 159 ، تاريخ الإسلام للذھبی 24/ 159]

الإمام المحدث الثقة أبو جعفر  محمد بن عثمان بن كرامة :

صاحب حديث، صدوق [الكاشف 4/ 164]

امام  ابن کرامہ حنفی ایک دن امام وکیع حنفی رحمۃ اللہ علیہ  کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک آدمی نے کہا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  نے خطا کی تو امام وکیع رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  خطا کر کیسے سکتے ہیں ؟ حالانکہ ان کے ساتھ ابو یوسف اور امام زفر اپنے قیاس کی مہارت سمیت موجود ہیں اور یحیی بن ابی زائدہ ، حفص بن غیاث ، حبان اور مندل اپنے حفظ حدیث کے ساتھ موجود ہیں اور قاسم بن معن عربی لغت کی معرفت کے ساتھ موجود ہیں اور داؤد طائی اور فضیل بن عیاض اپنے زہد اور تقوی کے ساتھ موجود ہیں جس کے ہم نشین ایسے ہوں اس سے خطا نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ اگر وہ خطا کرے گا تو یہ ہم نشین اس کو صحیح کی طرف پھیر دیں گے۔

اب خود سوچیں کہ جس کو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کی آراء پر اتنا قوی اعتماد ہو وہ بھلا حضرت امام کےاقوال کو چھوڑ کر کسی دوسرے فقیہ کے اقوال کو کیوں اختیار کرے گا ؟

4۔ وکیع بن جراح رحمۃ اللہ علیہ امام ابو حنیفہ کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے ۔انہیں تقوی و صحت دین سے متصف کرتے تھے۔ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے حدیث میں وہ تقوی و احتیاط پائی گی ہے جو دوسروں میں نہیں۔

(مناقب ابی حنیفہ للمکی ص 172 طبع بیروت ۔مزید تفصیلات کیلئے قارئین الاجماع شمارہ 20 ص 27 تا 34 دیکھیں جس میں مکمل مدلل بحث کی گئی ہے)

  یہ تاریخی شواہد ہیں جن میں سے ایک ایک گواہی چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ امام وکیع رحمۃ اللہ علیہ  امام ابو حنیفہ اور ان کی فقہ سے پوری طرح متأثر تھے ، ان کی فقہ حنفی پر گہری دسترس تھی ،اسی پر فتوی دیتے تھے ،  فقہ حنفی جن احادیث سے اخذ کی گئی ہے ایک ایک مسئلے میں پورا باب ان کے پاس موجود تھا ، اس فقہ کو وسعت انسانی کے بقدر بالکل صحیح سمجھتے تھے ۔

5۔ حدثنا يزيد بن عبد ربه قال: سمعت وكيع بن الجراح يقول ليحيى بن صالح الوحاظي : يا أبا زكريا احذر الرأي ، فإني سمعت أبا حنيفة يقول: للبول في المسجد أحسن من بعض قياسهم.

یزید بن عبد ربہ کہتے ہیں میں نے امام وکیع بن جراح کو یحییٰ بن صالح کو کہتے ہوئے سنا کہ :

"اے ابو زکریا رائے دینے سے ہوشیار رہو ۔ میں نے امام ابو حنیفہؓ کو یہ کہتے سنا ہے کہ مسجد میں پیشاب کرنا بعض (باطل) قیاس کرنے سے بہتر ہے"

( الفقيه والمتفقه ت العزازي  1/510 ، سلفی محقق لکھتے ہیں اسنادہ صحیح )

اس سے تین باتیں معلوم ہوئیں ۔

1۔ وکیع بن جراح رحمۃ اللہ علیہ  صحیح قیاس کرنے والوں (احناف) کے قول پہ فتوی دیتے تھے ۔

2۔جو صحیح قیاس کرنا نہیں جانتے تھے انکو قیاس سے روکتے تھے۔

3۔ اور وہ بھی امام ابو حنیفہ ؒ کے حوالے سے یعنی وکیع ؒ نے

کان قد سمع منہ شیئا کثیرا

امام صاحب پر حدیث میں بھی اعتماد کیا اور قیاس صحیح میں بھی اعتماد کیا۔



[1]                         حدثنا محمد بن أحمد بن عمرو قال ثنا رسته قال سمعت أبا سفيان يقول جامع سفيان الذي تقاتل الناس عليه ما خالف أبا حنيفة إلا في خمس عشرة مسألة

ابو سفیان صالح بن مہران فرماتے ہیں کہ "جامع سفیان" (سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب) جس کی وجہ سے تم لوگوں کے ساتھ جھگڑا کرتے ہو  انہوں نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کے ساتھ صرف 15 مسئلوں میں اختلاف کیا ہے۔( طبقات المحدثين بأصبهان 2/218 )۔ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عمرو الأبهري : ثقة[طبقات المحدثين بأصبهان 3/307]

أبو الفرج عبد الرحمۃ اللہ علیہمن بن عمر بن يزيد بن كثير  الزهري المديني الأصبهاني  رسته[سیر اعلام النبلاء 12/243]

صالح بن مهران  أبو سفيان الشيباني  مولاهم الأصبهاني الصوفي العارف : ثقة[تاریخ الاسلام  5/332 ، تہذیب الکمال 2840 ]

اسی طرح سنن ترمذی میں جابجا ہمیں یہ قول ملتا ہے  وهو قول سفيان الثوري واهل الكوفة  یعنی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی  قول ہے  ۔

[2]                       اہل کوفہ سے مراد  کون ہے غیر مقلد  مبارکپوری لکھتے ہیں "  میں کہتا ہوں کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اہل کوفہ سے وہ حضرات مراد لیے ہیں جو اہل علم وہاں رہتے تھے مثلا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ ، سفیان بن عینیہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ" (مقدمہ تحفتہ الاحوذی ص 209  )

[3]                       قال أبو حنيفة وأبو يوسف ومحمد :  كل طهارة بماء تجوز بغير نية ولا يجزي التيمم إلا بنية  ، وهو قول الثوري( أحكام القرآن للجصاص 3/337)

[4]                       بعض اہل علم سے مروی ہے کہ ان لوگوں کی رائے ہے کہ اونٹ کے گوشت سے وضو نہیں ہے اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے(ترمذی 81)

[5]                       صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم سے اسی طرحمۃ اللہ علیہ مروی ہے اور یہی قول سفیان ثوری، اور اہل کوفہ کا ہے کہ بوسہ لینے سے وضو (واجب) نہیں ہے(ترمذی 86)

[6]                       وَرَأَى بَعْضُهُمْ فِيهَا سَجْدَةً، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكٍ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.[سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 578]

اور بعض کی رائے ہے کہ اس میں ایک سجدہ ہے۔ یہ سفیان ثوری، مالک اور اہل کوفہ کا قول ہے۔

[7]                       بعض اہل علم کہتے ہیں کہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی جائے گی  اس میں تو صرف اللہ کی ثنا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) اور میت کے لیے دعا ہوتی ہے۔ اہل کوفہ میں سے ثوری وغیرہ کا یہی قول ہے۔(ترمذی 1027)

[8]                       صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم کی رائے نماز فجر اجالا ہونے پر پڑھنے کی ہے۔ یہی سفیان ثوری بھی کہتے ہیں(سنن ترمذی 154)

[9]                       وقد روي عن ابن مسعود , انه قال: لا قطع إلا في دينار , او عشرة دراهم , وهو حديث مرسل , رواه القاسم بن عبد الرحمن , عن ابن مسعود , والقاسم لم يسمع من ابن مسعود , والعمل على هذا عند بعض اهل العلم , وهو قول سفيان الثوري , واهل الكوفة (ترمذی 1445)

[10]                      وراى بعض اهل العلم الدية عشرة آلاف , وهو قول: سفيان الثوري , واهل الكوفة (ترمذی 1389)

[11]                      قال ابو عيسى: وقالت طائفة من اهل العلم: يعيد في الجنابة ولا يعيد في الوضوء , وهو قول سفيان الثوري وبعض اهل الكوفة(ترمذی 27)

[12]                      جامع سفيان الثوري، منزلته .. معالمه .. رواياته. ص 18-19 نشر: الدار الأثرية، عَمّان

[13]                      مذهب سفيان الثوري في الطلاق والخلع: رسالة جامعية ، ماهر نبيل إدريس جامعة الخليل فلسطين رسالہ جات کا لنک۔

   https://archive.org/details/fikh-sofiane-thawry

 

[14]                      ( الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء، ص 136 ) اس روایت کی سند صحیح ہے ،

الحكم بن منذر بن سعيد أبو العاصي : ثقة [الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة 3/490 ]

حكم بن منذر بن سعيد بن عبد الله بن عبد الرحمن بن القاسم بن عبد الله بن نجيح من أهل قرطبة يكنى‏:‏ أبا العاصي‏.‏وهو ولد القاضي الجماعة منذر ابن سعيد‏.‏روى عن أبيه وعن أبي علي البغدادي وغيرهما‏.‏ورحیل إلى المشرق وأخذ بمكة عن أبي يعقوب بن الدخيل وغيره‏.‏

روى عنه أبو عمر بن عبد البر وأبو عمر بن سميق والبشكلاري وغيرهم‏.‏

قال أبو علي‏:‏ سمعت أبا أحمد جعفر بن عبد الله يقول‏:‏ كان حكم بن منذر من أهل المعرفة والذكاء متقد الذهن طود علم في الأدب لا يجاري‏.‏[الصلة في تاريخ أئمة الأندلس لابن بشكوال ص146]

زبیر علی زئی کے اصول کے مطابق آپکی دینی شہرت کی وجہ سے آپ صدوق ہیں( اضواء المصابیح : ص 251 ) مزید تفصیل دیکھیں۔ راوی ابن دخیل جواب نمبر 5

2- أبو يعقوب يوسف بن أحمد بن يوسف بن الدخيل الصيدلاني المكي

اعتراض:

غیر مقلد زبیر علی زئی لکھتا ہیکہ یہ راوی مجہول ہے (فتاوی علمیہ ج 2 ص 389)۔ ایک مجہول غیر مقلد  ابو حمزہ  نے مولانا ابو الوفاء الافغانی رحمۃ اللہ علیہ  کے حوالے سے لکھا ہیکہ انکو باوجود کوشش ابن دخیل الصیدلانی کے حالات نہ مل سکے۔

جواب نمبر 1:

امام ابن دخیل صیدلانی رحمۃ اللہ علیہ کو  امام ابن عبد البر مالکی رحمۃ اللہ علیہ عادل راوی کہتے ہیں

 " من نقل الآحاد العدول في ذلك "(الاستذکار ج 1 ص 185 ، حدیث 73- 74 )

 ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ نے  ابن دخیل الصیدلانی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کی توثیق کی ہے اور غیر مقلد اہلحدیثوں کے نزدیک جب محدث کسی روایت کی تصحیح یا تحسین کرے تو اس محدث کے نزدیک اس روایت کا ہر ہر راوی ثقہ یا صدوق ہوتا ہے (انوار البدر ص 246 ،247)۔ غیر مقلد اہلحدیث زبیر علی زئی بھی اسی طرح لکھتا ہیکہ : "محدث اگر کسی روایت کی تصحیح یا تحسین کرے یعنی صحیح یا حسن کہے  تو یہ اس کے نزدیک اس روایت کے راویوں کی توثیق ہوتی ہے۔" (الحدیث شمارہ 14 ص 32) ۔۔۔لہذا اس اصول کے مطابق امام ابن دخیل الصیدلانی رحمۃ اللہ علیہ کی توثیق ثابت ہے۔

جواب نمبر 2 :

ابن دخیل صیدلانی رحمۃ اللہ علیہ کے تعلق سے جرح میں کچھ مذکور نہیں ہے اور امام ذہبی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کا سیر، تاریخ اور تذکرۃ الحفاظ میں ذکر کیا ہے اورکہیں محدث مکہ  ( سیر اعلام النبلاء ج 17 ص 27)  تو کہیں مسند مکہ کے الفاظ سے ان کو یاد کیا ہے " ومسند مكة أبو يعقوب يوسف بن الدخيل تلميذ العقيلي. (تذكرة الحفاظ 3/150) اور محدث اور مسند کے القاب سے ان کا ذکر ہی بتارہا ہے کہ وہ حفظ کے ساتھ متصف ہیں اوران پر کوئی جرح نہیں ہے تو یہ ہی اعتبار کیلئے کافی ہے، علاوہ ازیں وہ حافظ عقیلی کی کتاب الضعفاء الکبیر کے راوی بھی ہیں، اس سے بھی ان کی ثقاہت واضح ہے ، مزید برآں انہوں نے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے فضائل پر مشتمل ایک کتاب بھی لکھی ہے، جس کانام’’ سیرۃ ابی حنیفۃ ‘‘ ہے۔

امام  ابو عبد الله محمد بن أحمد بن عبد الهادی الدمشقی الصالحی نے بھی آپ کو مسند مکہ کے لقب سے یاد کیا ہے ۔(طبقات علماء الحديث ت:  إبراهيم الزيبق 3/216)

جواب 3:

صاحب تاج العروس امام الحافظ مرتضی حسنی زبیدی حنفی رحمۃ اللہ علیہ  نے آپکو محدث کہا ہے (لفظ محدث سے زبیر علی زئی غیر مقلد کسی راوی کی توثیق ثابت کرتے ہیں ۔(مقالات زبیر علی زئی ج 6 ص 134۔ 135۔145)(تاج العروس 28/486 بحوالہ الاجماع شمارہ  3 ص 285 )

جواب 4:

نیز ابن دخیل صیدلانی  رحمۃ اللہ علیہ کو ثقہ تو غیر مقلدین کے کفایت اللہ سنابلی بھی مانتے ہیں (انوار البدر ص 333-334 ) بلکہ سونے پہ سہاگا یہ کہ جس کتاب میں سنابلی نے ابن دخیل کو ثقہ لکھا ہے اس کتاب کے تیسرے ایڈیشن میں برصغیر پاک و ہند کے درجن بھر غیر مقلدوں کی تقریظ ہے جن کے نام سرورق پر لکھے ہیں اور وہ یہ ہیں۔

1۔ غیر مقلد اہلحدیث ارشاد الحق اثری

2۔غیر مقلد اہلحدیث حافظ صلاح الدین یوسف

3۔غیر مقلد اہلحدیث مبشر احمد ربانی

4۔غیر مقلد اہلحدیث ابتسام الہی ظہیر

5۔غیر مقلد اہلحدیث داود ارشد

 6۔غیر مقلد اہلحدیث محمد رفیق طاہر

7۔غیر مقلد اہلحدیث عبدالمعید مدنی

8۔غیر مقلد اہلحدیث رضا اللہ مدنی

9۔غیر مقلد اہلحدیث محفوظ الرحمۃ فیضی

10۔غیر مقلد اہلحدیث عبدالسلام سلفی

11۔غیر مقلد اہلحدیث ابو زید ضمیر

12۔غیر مقلد اہلحدیث صلاح الدین مقبول

لہذا مولانا افغانی رحمۃ اللہ علیہ پر طنز سے بہتر ہیکہ انگریزوں سے نام الاٹ کرنے والے جدید اہلحدیث  اپنے سنابلی اور درجن بھر دیگر غیر مقلد علماء کا گریبان پکڑیں۔

ایک نامعلوم اور غیر مہذب غیر مقلد کہتا ہے کہ سنابلی کی توثیق کو ہم اہل حدیث نہیں مانتے۔ ہماری گزارش ہے کہ غیر مقلدیت نام ہی اسی نفس پرستی کا ہے ۔اس نفس پرستی کو احناف کی مخالفت کے لیے سنابلی کے فتوے میں تسکین ملتی ہے تو اس کی بات پر یقین کر کے قربانی کے چار دن مانتے ہیں۔ جبکہ ابن الدخیل صیدلانی کے معاملے میں یہی نفس پرستی سنابلی کو چھوڑ کر علی زئی کے دامن سے وابستہ ہو جاتی ہے۔ کیونکہ سنابلی کی توثیق سے امام وکیع کی حنفیت اجاگر ہوتی ہے جس سے غیر مقلدیت انگاروں پہ لوٹنے لگ جاتی ہے ، الغرض علی زئی معتبر ہے نہ ہی سنابلی نہ درجن بھر غیر مقلد  بلکہ غیر مقلد اہلحدیثوں کے ہاں معتبر ترین چیز نفس پرستی ہے۔

جواب 5:

زبیر علی زئی کی امام ابن صیدلانی پر جرح خود ان کے اصول کے خلاف ہے۔ چنانچہ ایک راوی کی تحقیق میں وہ کہتے ہیں " مذکورہ عباس بن یوسف (المتوفی ۳۱۴) کے متعلق خطیب بغدادی اور ابن الجوزی نے کہا کان صالحا متنسکا وہ نیک اور دیندار تھے۔ ان سے ان کے شاگردوں کی ایک جماعت نے روایات بیان کی ہیں۔ تیسری صدی ہجری کے بعد اگر مشہور عالم پر جرح نہ ہو تو اسکی توثیق کی صراحت ضروری نہیں بلکہ علم فقاہت نیکی دینداری کے ساتھ شہرت ہونے کا مطلب  یہ ہیکہ ایسے شخص کی حدیث حسن درجے سے کبھی نہیں گرتی۔(اضواء المصابیح : ص 251)(اسکین نمبر---)

اس اصول کے مطابق محدث کا لقب پانے والے ابن دخیل المتوفی 388  مجہول کیسے؟ (الاجماع شمارہ 2 ص 110)

3-  الحافظ أحمد بن محمد بن زياد بن بشر بن درهم أبو سعيد ابن الأعرابي البصري الصوفي : ثقة

[سیر اعلام النبلاء 15/408، إرشاد القاصي والداني إلى تراجم شيوخ الطبراني ص 159 ]

4- الإمام الحافظ الثقة الناقد  أبو الفضل  عباس بن محمد بن حاتم بن واقد  الدوري ثم البغدادي : ثقة[سیر اعلام النبلاء 12/523 ]

معلوم ہوا یہ سند بالکل صحیح ہے ۔

[15]                      (جامع بیان العلم ج ٢ ص١٤٩ )

[16]                      (كتاب أخبار أبي حنيفة وأصحابه ص155، تاريخ مدينة دمشق - ابن عساكر - ج ٦٣ - الصفحة ٧٦)

[17]                      (تاريخ بغداد ت بشار ج 15  ص 647)

سند کی تحقیق :

1. إبراهيم بن مخلد أبو إسحاق البَاقَرحي : صدوق[تاريخ بغداد 7/ 139، 140 ، الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة 2/244 ، تاريخ الإسلام ط التوفيقية 28/116]

2.مكرم بن أحمد بن محمد بن مكرم، أبو بكر القاضي، البزاز، البغدادي : ثقة[تاريخ بغداد - ط العلمية 13/222]

3.أبو عبد الله الحسين بن علي بن محمد بن جعفر الصيمري : صدوق  [سیر اعلام النبلاء 17/616]

4.الإمام المقرئ المحدث المعمر أبو حفص  عمر بن إبراهيم بن  أحمد بن كثير البغدادي الكتاني  : ثقة[سير أعلام النبلاء 16/483]

5.علي بن حسين بن حبان بن عمار بن الحكم بن واقد المروزي البغدادي : ثقة[تاریخ بغداد 7/90]

6 حسين بن حبان بن عمار بن الحكم بن واقد المروزي البغدادي

اعتراض: حسین بن حبان مجہول ہیں

جواب:

حسین بن حبان  کا تاریخ بغداد میں ترجمہ ملاحظہ ہو

الحسین بن حبان بن عمار بن الحكم بن عمار بن واقد، أَبُو عَلِيّ- صاحب يَحْيَى بن معين-: كَانَ من أهل الفضل، والتقدم فِي العلم، وله عَنْ يَحْيَى كتاب غزير الفائدة. روى عنه ابنه عَلِيّ بن الْحُسَيْن ذلك الكتاب عَنْ أَبِيهِ وجادة. والحسين بن حبان قديم الموت توفي فيما ذكر ابنه سنة اثنتين وثلاثين ومائتين بالعسيلة . وهو ذاهب إِلَى الحج، وذلك قبل وفاة يَحْيَى بن معين بسنة.

وقال الخطيب أيضاً :

ترجمة : عبد الله بن أَحْمَد بن علي بن أَبِي طالب، أبو القاسم البغدادي

نزل مصر وروى بها كتاب تاريخ يَحْيَى بن معين الذي يرويه حسين بن حبان عنه، فرواه ابن طالب وجادة، عن كتاب حسين بن حبان، وكان جد أمه، وأمه بنت علي بن الْحُسَيْن بن حبان سمعه منه عبد الغني بن سعيد، وأبو سعد الماليني وغيرهما. أقول : وهذا يدل على رواية هؤلاء الحفاظ لهذا التاريخ .انتهى

اس سے کچھ باتیں معلوم ہوتی ہیں

1۔حسین بن حبان   امام یحیی بن معین  رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے

2۔آپ نے امام یحیی بن معین  رحمۃ اللہ علیہ سے ایک بہت زیادہ فائدے والی کتاب روایت کی ہے۔یہ کتاب تاريخ حسين بن حبان عن يحيى بن معين کے نام سے ہے۔

(اس کتاب کا ذکر کئی علماء نے کیا ہے اور کتاب کو حسین بن حبان کے واسطے سے ابن معین سے ثابت مانا ہے  مثلا  المؤتَلِف والمختَلِف للامام لدارقطني 1/422 ، تهذيب الكمال في أسماء الرجال 8/13 ، الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب البغدادي 2/186 ، تبصير المنتبه بتحرير المشتبه لابن حجر العسقلاني 1/278 ، ٥٦٤ ، الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة  لابن قطلوبغا 7/483 ، تاج العروس من جواهر القاموس للزبیدی 2/236   ، نیز الإكمال  لابن ماكولا  2/338 کے حاشیہ میں غیر مقلدین کے امیر المومنین فی الحدیث معلمی یمانی نے لکھا ہیکہ یہ کتاب حسین بن حبان نے ابن معین سے روایت کی ہے  ، اگر یہ راوی مجہول ہے تو اس کی روایت کردہ کتاب کو آئمہ کیوں قبول کر رہے ہیں ؟ )

عبداللہ بن احمد بن علی بن ابی طالب ابو القاسم البغدادی  جب وہ مصر آئے تو یحیی بن معین رحمۃ اللہ علیہ کی تاریخ کی وہ کتاب روایت کی جس کو یحیی بن معین رحمۃ اللہ علیہ  سے حسین بن حبان روایت کرتے ہیں پھر  ابن طالب نے حسین بن حبان  کی کتاب سے وجادۃ روایت کیا۔ ابن طالب سے اس کتاب کو عبد الغنی بن سعید اور اور ابو سعد مالینی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے روایت کیا۔ خطیب کہتے ہیں میں کہتا ہوں یہ بات ان حفاظ کا اس تاریخ کو روایت کرنے پر دلالت کرتی ہے اور حفاظ کی ایک جماعت نے اس تاریخ کو روایت کیا ہے ۔خطیب کا کلام ختم ہوا۔ انہی حفاظ جن کے سردار حافظ دار قطنی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔

3۔آپ اہل فضل میں سے تھے اور علم میں مقدم تھے۔

4۔حافظ الذہبی  کہتے ہیں کہ " الحسين بن حبان صاحب يحيى بن معين له كتاب " سؤالات " عن ابن معين غزير الفوائد " حسین بن حبان ابن معین " کے تلمیذ خاص ہیں، آپ نے ابن معین سے پوچھے گئے سوالات کو اپنی کتاب میں جمع کیا ہے، جو بڑی مفید کتاب ہے۔ ( تاریخ الاسلام: ج 5/812) معلوم ہوا کہ آپ ابن معین سے روایت کرنے میں "صدوق" ہیں ۔ واللہ اعلم (الاجماع شمارہ 3 ص 282) نیز اس روایت کو تقویت ابن عبدالبر کی روایت سے بھی ہوتی ہے لہذا یہ روایت بھی صحیح ہے

[18]                      (طائفہ منصورہ ص 65 )

[19]                      (طبقات القاري الأثمار الجنية في أسماء الحنفية ج 2 ص 677۔678 ، جمع الوسائل في شرحمۃ اللہ علیہ الشمائل 1/19 )

[20]                      (الجواهر المضية في طبقات الحنفية 2/208 )

[21]                      ( تاريخ الإسلام - ت بشار 4/1231 ، تذكرة الحفاظ طبقات الحفاظ للذهبي 1/224 )

[22]                      (عمدة القاري شرحمۃ اللہ علیہ صحيح البخاري 2/158 ،مغاني الأخيار في شرحمۃ اللہ علیہ أسامي رجال معاني الآثار 3/157 )

[23]                      (تهذيب التهذيب 11/128)

[24]                      ( النجوم الزاهرة فى ملوك مصر والقاهرة 2/153 )

[25]                      (طبقات الحفاظ طبقات 1/133 ، جمع الجوامع 17/695)

[26]                      (مفتاح السعادة 2/117)

[27]                      ( عقود الجمان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ نعمان از الحافظ محمد بن یوسف الصالحی شافعی شامی رحمۃ اللہ علیہ ص 257 )

[28]                      ( طبقات المفسرين للداوودي 2/359 )

[29]                      (الفوائد البهية في تراجم الحنفية 1/233 ، التعليق الممجد على موطأ محمد 1/20)

[30]                      (تانیب الخطیب ص 86 ، تانیب الخطیب مترجم ص 232 ) 

[31]                      (العرف الشذي ص 320 بحوالہ طائفہ منصورہ ص 65)

[32]                      ( اعلاء السنن: ابو حنیفہ واصحابہ المحدثون  21/103 )

[33]                      ( جامع الأصول 12/971 )

[34]                      ( آكام المرجان في أحكام الجان 1/205 )

[35]                      (الكواكب الدراري في شرحمۃ اللہ علیہ صحيح البخاري 2/118)

[36]                      ( شذرات الذهب في أخبار من ذهب 2/458 )

[37]                      ( التكميل في الجرحمۃ اللہ علیہ والتعديل ومعرفة الثقات والضعفاء والمجاهيل 2/83 )

[38]                      ( شرح سنن أبي داود 8/231 )

[39]                      ( لمعات التنقيح في شرحمۃ اللہ علیہ مشكاة المصابيح 10/237 )

[40]                      ( بَهْجَة المحَافِل وأجمل الوَسائل بالتعريف برواة الشَّمَائل 1/186 ، 2/210 )

[41]                      (كوثر المعاني الدراري في كشف خبايا صحيح البخاري 12/4)

[42]                      ( بذل المجهود في حل سنن أبي داود 1/177 )

[43]                      ( المباحث الضرورية لدراسة مذهب الحنفية ص 39)

[44]                      (شرح صحيح مسلم  5/75)

[45]                      ( محدث میگزین ،ملک عبدالرشید عراقی، جنوری 1992ء) میگزین لنک

https://magazine.mohaddis.com/home/articledetail/3138

 

[46]                      ( سیر أعلام النبلاء 12/329 ،  ﻣﻌﺮﻓﺔ علوم الحدیث ص 11 ، الکفایہ ص 611 )

اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے ، رواة کی تحقیق ملاحظہ ہو۔

الإمام الثقة المفسر المحدث الأديب العلامة ، أبو زكريا  يحيى بن محمد بن عبد الله بن عنبر بن عطاء السلمي مولاهم  العنبري النيسابوري المعدل[سیر أعلام النبلاء   15/534]

 2۔أحمد بن سلمة بن عبد الله البزاز  أبو الفضل : حافظ حجة [سیر أعلام النبلاء   13/373]

3۔ عبد الله بن هاشم بن حيان : الإمام الحافظ المتقن [سیر أعلام النبلاء 12/329]

عبداللہ بن ہاشم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک دن امام وکیع رحمۃ اللہ علیہ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے ان دو سندوں میں سے کون سی تمہیں زیادہ محبوب ہے ؟ اعمش عن ابی وائل عن عبداللہ ؟  یا سفیان عن منصور عن ابراہیم عن عبداللہ ؟

تو ہم نے عرض کی اعمش والی سند کیونکہ وہ اعلی ہے تو امام وکیع رحمۃ اللہ علیہ  فرمانے لگے نہیں بلکہ دوسری سند کیونکہ اس میں فقیہ فقیہ سے روایت کر رہا ہے اور اعمش والی سند میں شیخ شیخ سے روایت کر رہا ہے اور وہ حدیث جس کو فقہاء ایک دوسرے سے روایت کر رہے ہوں اس حدیث سے بہتر ہوتی ہے جس میں شیخ شیخ سے روایت کر رہا ہو۔

 اور یہی بات امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے امام اوزاعی کے ساتھ اپنے مناظرے کے اندر کہی تھی۔(اس مناظرے کی اسنادی حیثیت کیلئے دیکھیں اعلاء السنن 3/74 )

اس سے یہ بات  بھی معلوم ہوتی ہے کہ کوفی محدثین کا فقہاء خاص کر اہل الرائے پر مکمل اعتماد تھا ۔

[47]                      (نصيحة أهل الحديث ص 41 ، الفقيه والمتفقه 2/161)سلفی محقق عمرو عبدالمنعم سلیم کے مطابق اس کی سند صحیح ہے ، شرف اصحاب الحدیث و نصيحة أهل الحديث ص 257 ، ایک اور سلفی عادل العزازی الفقيه والمتفقه 2/161 میں اس روایت کے بارے میں کہتے ہیں رجالہ ثقات یعنی اس روایت کے رجال ثقات ہیں ، نیز فرقہ اہلحدیث کے زبیر علی زئی کے مطابق ابوبکر بن ابی داود ثقہ ہیں (مجلہ الحدیث رقم 84 میں صفحہ 26 تا 39)

[48]                      ( نصيحة أهل الحديث  ص 41 ) سند میں النعالی پر کلام ہے لیکن پہلی روایت سے تقویت پا کر یہ سند بھی قابل اعتماد ہو جاتی ہے ، نیز سلفی محقق عادل العزازی نے اس روایت کی تحقیق میں لکھا ہے رجالہ ثقات الفقيه والمتفقه 2/162 ، چونکہ شواہد میں ضعیف روایات بھی قابل قبول ہیں  جیسا کہ غیر مقلدوں کے فتاوی راشدیہ کتاب الطہارت ص 246 پر شواہد و متابعات میں ضعیف روایات پیش کی گئی ہیں۔

[49]                      (تاريخ بغداد ت بشار 16/365 )أخبار أبي حنيفة وأصحابه ص158 ، وهذا إسناد صحیح

[50]                      [سير أعلام النبلاء 17/594]

[51]                      [تاریخ مدينة دمشق  43/113]




(امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ کی حنفیت

مصنف : مولانا ابو حمزہ زیشان صاحب فاضل رائیونڈ

تحقیق و حواشی : حافظ انجینئر مساعد زیب  

پیکش:  النعمان سوشل میڈیا سروسز

 مکمل pdf   کتاب دفاع احناف لائبریری میں دفاع اکابر سیکشن میں موجود ہے۔  )

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...