نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ کی حنفیت باب اول


(امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ کی حنفیت

مصنف : مولانا ابو حمزہ زیشان صاحب فاضل رائیونڈ

تحقیق و حواشی : حافظ انجینئر مساعد زیب  

پیکش:  النعمان سوشل میڈیا سروسز

 مکمل pdf   کتاب دفاع احناف لائبریری میں دفاع اکابر سیکشن میں موجود ہے۔  )


باب اول

تعارف :

آپ کا نام وكيع ،  کنیت ابو سفیان ، پیدائش 129 ہجری میں امام ابو حنیفہ رح کے وطن کوفہ میں ہوئی اور  الامام الزاھد المحدث وكيع بن الجراح الرؤاسي الکوفی کے نام سے شہرت پائی۔[1]

تحصیل علم اور شیوخ

آپ نے تحصیل علم کا آغاز بچپن ہی سے کردیا تھا۔آپ نے جن شیوخ سے علم حاصل کیا ان میں سے کچھ کے نام درج ذیل ہیں

امام ہشام بن عروہ ، امام سلیمان الاعمش ، امام ابن جریج ،  امام اوزاعی ، امام سفیان ثوری ، امام مالک بن مغول[2] امام ابن ابی لیلیٰ ، امام حماد بن سلمہ ، امام سعید بن عبدالعزیز التنوخی ، امام سلیمان بن المغیرہ ، امام صالح بن ابی خضرہ اور امام مبارک بن فضالہ رحمہ اللہ اجمعین[3]

تلامذہ

چند نامور علماء جنہوں نے آپ سے علم حاصل کیا ان میں

امام عبد اللہ بن مبارک حنفی[4] ، امام فضل بن موسیٰ ، امام یحیی بن آدم ، امام  عبد الرحمٰن بن مھدی ، امام حمیدی ، امام مسدد ، امام احمد بن حنبل ، امام یحیی بن معین حنفی[5] رحمہ اللہ اجمعین شامل ہیں ۔[6]

عبادت ،  فقہ حدیث اور زہد و تقوی کی جامع شخصیت:

کسی ایک شعبے میں ترقی کر کے کمال کو بہت لوگ پہنچے ہیں لیکن کئی شعبوں میں کمال کو پہنچنا یہ امتیاز کم ہستیوں کو ہی نصیب ہوا ہے۔ انہی پرعزم ہستیوں میں سے ایک ابھرتا ہوا نام امام وکیع رحمہ اللہ کا بھی ہے آپ بیک وقت ایک گراں قدر فقیہ اور عظیم محدث ہونے کے ساتھ زہد و قناعت اور عبادت و ریاضت میں بھی یکتا تھے۔

عبادت:

آپ کو عبادت میں اس قدر انہماک اور لذت نصیب ہوتی تھی کہ ایک دن طلبہ کو فرمانے لگے اگر میں علم حدیث پڑھانے کو نماز سے افضل نہ سمجھتا تو تمہیں حدیث پڑھانے ہی نہ آتا [7]۔ذوق عبادت اور کثرت عبادت کی وجہ سے اپ کے چہرے پر انوار کا ہجوم رہتا تھا۔

 ایک دفعہ کچھ احباب ملنے کے لیے امام بخیر رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آئے۔ آپ گھر سے باہر تشریف لائے تو عبادت کے انوار چہرے پر یوں کھل رہے تھے کہ آنے والوں میں سے ایک نے دوسرے سے پوچھا اھو ملک ؟ "کیا یہ فرشتہ ہیں؟"[8]

روزانہ کا معمول :

أخبرنا البرقاني  أخبرنا ابن حميرويه  أخبرنا الحسین بن ادریس قـال : قال ابن عمار: كان وكيع يصوم الدهر، ويفطر يوم الشك والعيد۔ [9]

امام ہشام بن عمار فرماتے ہیں کہ امام وکیع رحمہ اللہ ہمیشہ روزہ رکھتے تھے اور یوم الشک اور عید کے دن روزہ نہ رکھتے تھے [10]

أخبرني محمد بن أحمد بن يعقوب اخبرنا محمد بن نعيم الضبي قال سمعت إسماعيل بن محمد بن الفضل الشعراني يقول سمعت جدي يقول سمعت يحيى بن أكثم القاضي يقول صحبت وكيعا في الحضر والسفر فكان يصوم الدهر ويختم القرآن كل ليلة[11]

یحیی ابن اکثم کہتے ہیں کہ میں نے حضر و سفر میں آپ کی صحبت اختیارکی۔ آپ ہمیشہ روزہ رکھتے  اور ہر رات پورا قرآن پڑھتے تھے۔[12]

اسی طرح ایک اور روایت میں ہےکہ

كان وكيع لا ينام حتى يقرأ جزءه من كل ليلة ثلث القرآن، ثم يقوم في آخر الليل[13]

اور وکیع جب تک تیسرا حصہ قرآن کا نہ پڑھ لیتے نہ سوتے تھے پھر اخیر رات کو اٹھ کھڑے ہوتے۔

أَخْبَرَنَا علي بن طلحة المقرئ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن إبراهيم الغازي، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن مُحَمَّد بن داود الكرجي، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْد الرَّحْمَن بن يوسف بن خراش، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سعيد الأشج، قَالَ: حَدَّثَنِي إبراهيم بن وكيع، قال: كان أبي يصلي الليل، فلا يبقى في دارنا أحد إلا صلى، حتى إن جارية لنا سوداء لتصلي.

آپ کے صاحبزادے ابراہیم بن وکیع فرماتے ہیں کہ :

میرے والد صاحب تہجد پڑھا کرتے تھے تو اُن کی وجہ سے سارے گھر والوں نے تہجد پڑھنی شروع کر دی یہاں تک کہ ہماری ایک سیاہ فام لونڈی تھی، وہ بھی تہجد گزار بن گئی۔[14]

ایک اور روایت میں سفیان بن وکیع  اپنے والد امام وکیع رحمہ اللہ کے معمولات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

" میرے والد ہمیشہ روزہ رکھتے تھے ، صبح سویرے بیدار ہوجاتے، فجر کی نماز کے بعد مجلس درس شروع ہوجاتی، دن نکلنے تک اس میں مشغول رہتے پھر گھر جاکر ظہر کی نماز تک قیلولہ فرماتے اس کے بعد ظہر کی نماز ادا کرتے پھر عصر تک طلبہ کو قرآن کا درس دیتے اور پھر مسجد آکر عصر کی نماز پڑھتے اور اس سے فارغ ہوکر پھر درس قرآن شروع ہوجاتا اور شام تک مذاکرہ میں منہمک رہتے، پھر مکان تشریف لاکر افطار فرماتے ، اس سے فارغ ہوکر نماز پڑھتے تھے۔"[15]

محدثانہ شان:

عظیم مستقبل کے آثار بچپن ہی سے آپ کے چہرے پر نمایاں تھے۔ ایک دفعہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ علیہ انکی انکھوں میں دیکھ کر فرمانے لگے

ترون هذا الرؤاسي؟ لا يموت حتى يكون له شأن [16]

یہ رواسی ( امام وکیع بن جراح ) نہیں فوت ہوگا یہاں تک کہ ان کی بڑی شان ہوگی۔

امام سفیان ثوری کی بصیرت پوری طرح درست ثابت ہوئی ، نہ صرف یہ کہ امام وکیع نے علم حدیث میں اونچا مقام حاصل کیا بلکہ سفیان ثوری کی وفات کے بعد ان کی مسند حدیث کا اعزاز بھی انہی کے حصے میں آیا۔ خود سفیان ثوری نے استاد ہوتے ہوئے ان سے سماع کیا ہے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ قعنبی فرماتے ہیں کہ ہم حماد بن زید کے پاس بیٹھے تھے ،

وکیع جب باہر نکلے تو احباب نے کہا کہ یہ سفیان کے بڑے راوی ہیں تو حماد کہنے لگے

هذا إن شئتم أرجح من سفيان

اگر تم اجازت دو تو میں کہوں گا یہ سفیان پر بھی فوقیت رکھتے ہیں ۔[17]

قال قاسم بن يزيد الجرمي : كان الثوري يدعو وكيعا ، وهو غلام فيقول : يا رؤاسي ! تعال ، أي شيء سمعت ؟ فيقول : حدثني فلان بكذا ، وسفيان يتبسم ، ويتعجب من حفظه

قاسم بن یزید الجرمی کہتے ہیں کہ سفیان ثوری وکیع کو بلاتے( ابھی امام وکیع بچے تھے) فرماتے : اے رواسی !  ادھر آؤ کیا حدیث سنی ہے ؟ تو وکیع فرماتے کہ حدثنی فلان بکذا۔۔۔  سفیان ثوری ان کے حافظے سے تعجب کر رہے ہوتے تھے اور مسکرا رہے ہوتے تھے۔[18]

حدثنا عبد الرحمن نا أحمد بن سلمة النيسابوري قال سمعت اسحاق ابن إبراهيم - يعني ابن راهويه - يقول: حفظي وحفظ ابن المبارك تكلف وحفظ وكيع أصلي، قام وكيع يوما قائما ووضع يده على الحائط وحدث سبعمائة حديث حفظا.

امام اسحاق بن راہویہ فرماتے ہیں :

میرا اور  عبداللہ بن مبارک کا حافظہ تو محض ایک تکلف ہے ، اصل حافظہ تو امام وکیع کا ہے وہ ایک دن دیوار پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوئے اور 700 حدیثیں زبانی بیان کیں۔[19]

طلبہ کا پروانوں جیسا ہجوم:

قال أحمد بن أبي خيثمة : حدثنا محمد بن يزيد ، حدثني حسين  أخو زيدان قال : كنت مع وكيع ، فأقبلنا جميعا من المصيصة أو طرسوس ، فأتينا الشام ، فما أتينا بلدا إلا استقبلنا واليها ، وشهدنا الجمعة بدمشق ، فلما سلم الإمام ، أطافوا بوكيع ، فما انصرف إلى أهله يعني إلى الليل . قال : فحدث به مليحا ابنه ، فقال : رأيت في جسد أبي آثار خضرة مما زحم ذلك اليوم

راوی فرماتے ہیں کہ میں اور امام وکیع  مصیصہ یا طرطوس سے آ رہے تھے۔ ہم شام پہنچے۔ تو جس  شہر کے پاس پہنچتے تو شہر کا حاکم نکل کے ہمارا استقبال کرتا۔ جمعہ کے دن ہم دمشق  تھے جب امام نے سلام پھیرا تو طلبہ نے امام وکیع کو گھیر لیا۔ مشکل رات کو گھر پہنچے۔ راوی کہتے ہیں میں نے یہ بات امام وکیع کے بیٹے کو بتائی تو وہ کہتے ہیں کہ اس دن میرے والد کے جسم پر سبز سبز نشانات تھے یعنی اس قدر ہجوم تھا کہ جسم رگڑتا رہا حتی کہ سبز نشان پڑگئے۔[20]

:امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ سے شرف تلمذ:

امام وکیع وہ خوش نصیب ہیں جن کو امام ابو حنیفہ کی شاگردی نصیب ہوئی ، اس بابت ذیل میں مختصراً اسلاف کی شہادتیں ملاحظہ ہوں۔

1.     خطیب بغدادی امام یحیی بن معین کے واسطہ سے  لکھتے ہیں کہ:

ويفتي بقول أبي حنيفة، وكان قد سمع منه شيئا كثيرا[21]

وہ امام ابو حنیفہ کے قول پر فتوٰی دیتے تھے اور انہوں نے امام ابو حنیفہ سے بہت زیادہ اکتساب فیض کیا۔(اسکی اسنادی حیثیت پر بحث ص ___69__ پر ہو گی)۔

2.     محدث ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ نے جن اصحاب ابی حنیفہ  کے ناموں کو مستقل سرخی اور عنوان دے کر تذکرہ کیا ہے، ان میں  وکیع بن الجراح کا تذکرہ مناقب قاری ؒ بذیل الجواہر ج 2 ص540 میں مذکور ہے۔

3.      محدث ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

وكيع  بن الجراح بن مليح أخذ العلم عن أبي حنيفة[22]

4.     وَكِيع بن الْجراح بن مليح بن عدي أَبُو سُفْيَان الْكُوفِي ذكره الصَّيْمَرِيّ فِيمَن أَخذ الْعلم عَن أبي حنيفَة[23]

5.    وكيع بن الجراح بن مليح بن عدي أبو سفيان الكوفي أصله من نيسابور وقيل من السند أخذ العلم عن أبي حنيفة وسمع من أبي يوسف وزفر[24]

6.     امام صیمری حنفی رحمہ اللہ نے وکیع رحمہ اللہ کو اصحاب ابو حنیفہ  میں شمار کیا ہے۔[25]

7.     الحافظ محمد بن یوسف الصالحی شافعی شامی ﷫ لکھتے ہیں: امام صاحب کے شاگردوں میں وکیع بن جراح بن ملیح رؤاسی ابو سفیان الکوفی ہیں۔[26]

8.      علامہ شامی رحمہ اللہ نے وکیع رحمہ اللہ کو اصحاب ابی حنیفہ میں شمار کیا ہے ۔[27]

9.      شیخ زاہد الکوثری ؒ لکھتے ہیں : وکیع نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ سے بھی علم لیا اور ان سے بہت کچھ سنا اور امام صاحب ہی کے قول پہ فتوی دیتے تھے اور 197 ہجری میں فوت ہوئے ۔[28]

10.  محدث امام مولانا ظفر احمد عثمانی تھانوی حنفی رح نے وکیع رحمہ اللہ کا تعارف لکھا ہے اور آپکو  اصحاب ابو حنیفہ میں شمار کیا ہے۔[29]

11.  امام اہل السنہ مولانا سرفراز خان صفدر رح بھی وکیع رح کو اصحاب ابی حنیفہ میں شمار کرتے ہیں۔[30]

12.  غیر مقلد عبدالرشید صاحب خطیب بغدادی کے حوالے سے لکھتے ہیں :

"وکیع   نے امام ابو حنیفہؒ سے کافی سماعت بھی کی تھی"۔[31]

ان تمام حوالہ جات سے یہ بات آفتاب نیمروز کی طرح روشن اور واضح ہو گئی ہے کہ امام وکیع بن الجراح نے امام ابو حنیفہ رح سے شرف تلمذ حاصل کیا  ۔

غیر مقلد اہلحدیث کو دعوت فکر

درج بالا حوالہ جات سے یہ بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ امام وکیع رحمہ اللہ  نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے بہت کچھ سنا ہے ۔اگر جیسا کہ غیر مقلد اہلحدیث امام ابو حنیفہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کو صرف 17 احادیث یاد تھیں اور وہ قلیل الحدیث  تھے تو جس انسان کو صرف 17 احادیث یاد ہوں یا قلیل الحدیث ہو تو اس کے بارے میں یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اس سے بہت کچھ سنا گیا ہے ؟

 لہذا ان حوالہ جات سے غیر مقلدین اہلحدیثوں کا واضح بطلان ہوتا ہے جن کا موقف یہ ہے کہ امام صاحب حدیث میں کچھ نہ تھے ۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر ہم سلف صالحین سے مختصراً امام صاحب کے محدث ہونے کی تصریح پیش کر دیں ۔

1-    امام ابن البر مالکی نے آپکو محدثین میں شمار کیا ہے ۔[32]

2-    جلیل القدر محدث امام طحاوی حنفی نے آپ کو محدث شمار کیا ہے ۔[33]

3-    امام حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ نے آپ کے محدث ہونے کی تصریح کی ہے ۔[34]

4-    امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں محدثین کے طبقات میں آپ رحمہ اللہ کو  شمار کیا ہے۔[35]

اسکے علاوہ جن محدثین نے امام صاحب کو  ثقہ ، ثبت ، شہنشاہ حدیث  اور حافظ الحدیث قرار دیا ہے ان پر تفصیلی  مطالعہ کیلئے ملاحظہ ہو "الاجماع" شمارہ جات ۔جسکے ہر شمارے میں امام ابو حنیفہ کے متعلق  محدثین کی رائے کو  محققانہ انداز  میں پیش کا گیا ہے۔ تمام شمارے دفاع احناف لائبریری موبائل ایپ میں موجود ہیں ۔[36]

امام وکیع رحمہ اللہ کی امام اعظم  رح سے روایت :[37]

أخبرنا العتيقي، أخبرنا أبو عبد الله محمد بن عبد الله الحريري، حدثنا أبو حامد محمد بن هارون الحضرمي، حدثنا يوسف بن موسى القطان، حدثنا وكيع، حدثنا أبو حنيفة، عن أبي الزبير، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من باع عبدا وله مال فماله للبائع إلا أن يشترط المبتاع

امام وکیع بن جراح کہتے ہیں مجھے حدیث بیان کی امام ابو حنیفہؓ نے حضرت ابو زبیر ؓ سے انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہؓ سے  انہوں نے نبی اکرمﷺ سے فرمایا :جس نے کوئی ایسا غلام بیچا جس کے پاس مال ہو تو مال بیچنے والے کو ملے گا، الا یہ کہ خریدار خریدتے وقت شرط لگا لے ۔[38]

سند کے رجال کا مختصر تعارف!

1-    پہلے راوی :

أحمد بن محمد بن أحمد  أبو الحسن المجهز المعروف بالعتيقي

امام خطیب انکی توثیق کرتے ہیں اور دیگر ناقدین سے بھی توثیق نقل کرتے ہیں :

كتبت عنه، وكان صدوقا، سمعت أبا القاسم الأزهري ذكر أبا الحسن العتيقي، فأثنى عليه خيرا ووثقه.[39]

2-    دوسرے راوی : 

محمد بن عبد الله بن محمدأبو عبد الله الحريري

وقال العتيقي: وكان ثقة.[40]

3-    تیسرے راوی :

 مُحَمَّد بْن هارون بْن عَبْد الله  أبو حامد الحضرمي

أن يُوسُف بن عمر القواس ذكر أبا حامد الحضرمي في شيوخه الثقات.

وسألت الدارقطني عن مُحَمَّد بْن هارون الحضرمي فقال: ثقه[41]

4-    چوتھے راوی:

يوسف بن موسى بن راشد   القطان الكوفي

امام ذھبی  سیر اعلام النبلاء میں کہتے ہیں :  

الإمام، المحدث، الثقة، وحدث عن وكيع ۔۔۔الخ[42]

5-    پانچویں راوی:

امام وکیع بن جراح

 حافظ و ناقد الرجال اور فروع میں حنفی مذہب پر تھے۔

6-    چھٹے راوی:

امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت  مجتہد کوفہ

امام ذھبی ؒانکے بارے فرماتے ہیں :

الإمام، فقيه الملة، عالم العراق،

نیز اسی تصنیف میں دوسری جگہ فرماتے ہیں :

قال الشافعي: العلم يدور على ثلاثة: مالك، والليث، وابن عيينة.

قلت: بل وعلى سبعة معهم، وهم: الأوزاعي، والثوري، ومعمر، وأبو حنيفة، وشعبة، والحمادان.

امام شافعی ؒفرماتے ہیں علم (حدیث) کا مدار تین ا شخاص پر ہے  امام مالک ، امام لیث اور امام ابن عیینہ

(اس پر امام ذھبیؒ اضافہ کرتے ہوئے فرماتےہیں)  "میں (الذھبی) کہتا ہوں بلکہ  (علم حدیث  کا مدار ) اور سات اشخاص پر بھی ہے ، جن میں امام اوزاعی ، امام سفیان ثوری ، امام معمر ، امام ابو حنیفہ ، امام شعبہ اور امام حماد بن زید  و امام حماد بن سلمہ"[43]

معلوم ہوا کہ متقدمین میں دین اسلام میں ان دس شخصیات پر حدیث کی بنیاد قائم تھی۔

نیز امام یحییٰ بن معین   امام ابو حنیفہ کے بارے فرماتے ہیں :

سمعت يحيى بن معين يقول: كان أبو حنيفة لا بأس به

ابن محرز کہتے ہیں میں نے امام یحییٰ بن معینؒ کو کہتے سنا : ابو حنیفہؒ  میں کوئی حرج نہیں ۔[44]

اسی طرح امام ابن معینؒ سے امام ابن عبدالبرؒ نے بھی سند صحیح سے نقل کیا ہے

الدورقي قال سئل يحيى بن معين وأنا أسمع عن أبي حنيفة فقال ثقة ما سمعت أحدا ضعفه هذا شعبة بن الحجاج يكتب إليه أن يحدث ويأمره وشعبة شعبة

امام دروقیؒ کہتے ہیں امام ابن معینؒ سے سوال کیا گیا  ابو حنیفہ کے بارے اور میں انکو سن رہاتھا   تو ابن  معینؒ نے کہا یہ ثقہ ہیں اور میں نے کسی کو انکی (ابو حنیفہ) کی تضعیف کرتے نہیں سنا ۔ اورمیں نے کسی کو انکی (ابو حنیفہ) کی تضعیف کرتے نہیں سنا ۔ اور یہ شعبہؒ ہیں جو انکو خط لکھ کر حدیث اور احکام بیان کرنے کی فرمائش  کرتے اور امام شعبہ تو پھر امام شعبہ ہیں۔[45]

67-ساتویں راوی :

 أبو الزبير محمد بن مسلم بن تدرس

امام ذھبیؒ انکے بارے فرماتے ہیں :

  الإمام، الحافظ، الصدوق، أبو الزبير القرشي روى عن: جابر بن عبد الله، وابن عباس، وابن عمر، وعبد الله بن عمرو، وأبي الطفيل، وابن الزبير.[46]

اور

آٹھویں راوی:

 صحابی رسول حضرت جابر بن عبداللہ﷛ ہیں ۔

اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس روایت کی سند صحیح ہے اور امام وکیع بن جراح امام ابو حنیفہ  سے روایت کرتے تھے ۔ اس روایت کو امام ابو داؤد نے بھی اپنی سند سے روایت کیا ہے:

حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن سفيان، حدثني سلمة بن كهيل، حدثني من سمع جابر بن عبد الله، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من باع عبدا، وله مال فماله، للبائع إلا ان يشترط المبتاع"[47]




[1]                       (سیر اعلام النبلاء 9/141 )

[2]                       ثقہ ثبت علم و فضل میں نمایاں مقام رکھنے والے مالک بن مغول ﷫ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ فقہ حنفی کو مدون کرنے والےاصحاب میں سے تھے ۔ (امانی الاحبار، الجواہر المضیئہ بحوالہ امام اعظیم ابوحنیفہ رحمہ اللہ ص 183 ، 184 موٴلفہ مفتی عزیز الرحمن صاحب بجنوری ، نیز دیکھئے مناقب ابی حنیفہ للموفق أحمد المکی (فتاوی رحیمیہ جلد 1 ص 365 تا 376 ، ط: احسان دیوبند)

[3]                       ( سیر اعلام النبلاء 9/141 ، تهذيب التهذيب ط دبي 14/199)

[4]                        بعض غیر مقلد اہلحدیث یہ جھوٹ  پھیلاتے ہیں کہ امیر المومنین فی الحدیث  امام عبداللہ بن مبارک نے امام ابو حنیفہ کو آخری عمر میں ترک کر دیا تھا  اور یہ کہ امام عبداللہ بن مبارک سے امام ابو حنیفہ کی توثیق ثابت نہیں  ان اعتراضات کا  زبردست تحقیقی جواب  الاجماع رسالہ کے شمارہ نمبر 22 صفحہ نمبر 24 تا 30 اور 33 تا 37 دیا گیا ہے ۔یہ رسالہ موبائل ایپ دفاع احناف لائبریری میں موجود ہے۔

[5]                       امام یحیی بن معیں امام ابو حنیفہ کے اصحاب میں سے تھے اور ابن معیں سے امام صاحب کی توثیق ثابت ہے دیکھیں دو ماہی رسالہ الاجماع شمارہ 3 ص 278

[6]                       (سیر اعلام النبلاء 9/141)

[7]                        یعنی نماز میں اس قدر لطف ملتا تھا کہ کسی اور کام میں لگنا مشکل تھا ، بس علم حدیث کی فضیلت کی وجہ سے پڑھانے آتے تھے۔( سیر اعلام النبلاء  9/152)

[8]                       (سیر اعلام النبلاء 9/147)

[9]                       (تاریخ بغداد 16/655  ، سیر اعلام النبلاء 9/149  ) اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے ۔

توثیق رواۃ:

أبو بكر  أحمد بن محمد بن أحمد بن غالب البرقاني : ثقة  [سیر اعلام النبلاء 17/465 ]

مسند هراة أبو الفضل محمد بن عبد الله بن محمد بن خميرويه بن سيار الهروي : ثقة [سیر اعلام النبلاء 16/311]

الحسين بن إدريس ابن مبارك بن الهيثم  أبو علي الأنصاري الهروي : ثقة [سیر اعلام النبلاء 14/111]

هشام بن عمار بن نصير بن ميسرة بن أبان :  ثقة صدوق [سیر اعلام النبلاء 11/421]

[10]                      اس کے برعکس غیر مقلد اہلحدیث  لکھتے ہیں کہ " اس سے معلوم ہوا کہ ہمیشہ روزے(صائم الدھر) رکھنے والے کو بالکل ثواب نہیں ملتا " سنن ابن ماجہ شرح از غیر مقلد عطا الله ساجد ص 1706۔ اسی طرح غیر مقلد فتاوی قرآن و حدیث کی روشنی میں احکام و مسائل جلد 2 ص 425-439 میں صیام الدھر کو ممنوع لکھا گیا ہے ۔ باقی صیام الدھر کے بارے میں تفصیل کیلئے دیکھیں فتوی نمبر : 144208200137دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

[11]                      (تاریخ بغداد ت بشار 16/653 ، سير أعلام النبلاء 9/142 ، تهذيب الكمال 3/481 ، اس روایت کی سند میں محمد بن أحمد بن يعقوب کا ترجمہ نہیں ملا لیکن شواہد کی بناء پر یہ روایت قوی ہے جیسا کہ ابن عمار کی صحیح روایت میں گزر چکا ہے اور دیگر حضرات نے بھی اس بات کی گواہی دی ہے ۔ أخبرنا عثمان بن محمّد الْعَلافُ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الشَّافِعِيُّ، حدّثنا محمّد بن غالب، حدّثنا يحيى بن أيّوب، حَدَّثَنِي بعض أصحاب وكيع الذين كانوا يلزمونه. قالوا: كان لا ينام- يعني وكيعا- حتى يقرأ حزبه في كل ليلة ثلث القرآن،ثم يقوم في آخر الليل فيقرأ المفصل، ثم يجلس فيأخذ في الاستغفار حتى يطلع الفجر، فيصلي الركعتين.( تاریخ بغداد ت بشار 16/653 )

[12]                      اس کے برعکس غیر مقلدین کہتے ہیں کہ " ہمارے نزدیک راجح بات یہی ہے کہ قرآن مجید کو تین دنوں سے کم میں نہ ختم کیاجائے۔" مجلۃ الدعوۃ جون 1988ء آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد 2 كتاب الصلاة ص نمبر 157۔

تین دن سے کم قرآن ختم کرنے والی روایات کے بارے میں عظیم محقق و محدث مولانا محمد سرفراز خان صفدر رح فرماتے ہیں :

" اس حدیث کے دیگر بیان کردہ مطالب کے علاوہ ایک آسان مطلب یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد تین دن سے کم میں قرآن کریم ختم نہ کرو امت پر شفقت اور ترحم کے سلسلہ میں ہے۔ تاکہ ان دنوں میں غور وفکر سے قرآن کریم پڑھا جائے اور اس کے معانی کو سمجھا جاسکے۔ کیونکہ ہر آدمی تو مثلاً امام شافعی رح نہیں کہ مسئلہ اجماع کو سمجھنے کے لیے تین دن میں نو مرتبہ قرآن کریم ختم کرے اور منتہائے نظر یہ ہو کہ مسئلہ استنباط کرنا ہے۔ ہر ایک کو بھلا یہ مقام کہاں نصیب ہو سکتا ہے؟" مقام ابی حنیفہ ص 243 ۔  مزید دیکھیں۔ فتوی نمبر : 144008200283دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن )

[13]                      (سير أعلام النبلاء 9/157)

[14]                      (تہذیب الکمال 30/441)

[15]                      تاریخ بغداد 13/471 ، سفیان بن وکیع پر کلام ہے لیکن ان کو  الصحیفہ من کلام۔۔ کے مصنف غیر مقلد ابو خرم شہزاد نے صفحہ پر 94 صدوق لکھا ہے۔

[16]                      (سیر اعلام النبلاء 9/147)

[17]                      (سیر اعلام النبلاء 9/142)

[18]                      (سیر اعلام النبلاء 9/146 )

[19]                      ( الجرح والتعديل ، ابن أبي حاتم الرازي – دار إحياء التراث 1/221)

[20]                      (سیر اعلام النبلاء 9/144  )

[21]                      (تاریخ بغداد ت بشار 16/653)

[22]                      (طبقات القاري : الأثمار الجنية في أسماء الحنفية ج 2 ص 677۔678 )

[23]                      (الجواهر المضية في طبقات الحنفية 2/209 ، عبد القادر بن محمد بن نصر الله القرشي محيي الدين الحنفي)                       

[24]                   ( الفوائد البهية في تراجم الحنفية - أبو الحسنات محمد عبد الحي اللكنوي الهندي)

درج بالا اقوال اس لنک سے بھی دیکھے جا سکتے ہیں

https://tarajm.com/people/16396

[25]                      (اخبار ابي حنيفه واصحابه :  أبو عبد الله الصيمري 1/155 )

[26]                      ( عقود الجمان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ نعمان از الحافظ محمد بن یوسف الصالحی شافعی شامی ص 257 )

[27]                      (حاشية رد المحتار  لابن عابدين 1/63)

[28]                      (حسن تقاضی فی سیرۃ الامام ابی یوسف القاضی ص 78 )

[29]                      ( اعلاء السنن : ابو حنیفہ واصحابہ المحدثون  ج 21 ص 103)

[30]                      (طائفہ منصورہ ص 65)

[31]                      ( محدث میگزین ،ملک عبدالرشید عراقی، جنوری 1992ء)

[32]                      (التمہید ج 2 ص 235)،(التمہید ج 5 ص 98)

[33]                      (مشکل الآثار 4/365)

[34]                      (معرفت علوم الحدیث ص 281۔ص 283)

[35]                      (المعین فی طبقات المحدثین ص 57 ص238) اسکین نمبر ---

[36]                      ایپ کا لنک :

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.blogvali.al_noman

اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ والی کیٹیگری میں "ثقہ ثبت حافظ الحدیث امام ابو حنیفہ " کے نام سے pdf فائل میں 4 جلدوں میں مکمل حوالہ جات کے ساتھ قارئین اس کو پڑھ سکتے ہیں۔

[37]                          یہ مضمون درج ذیل لنک سے لیا گیا ہے

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=pfbid034AYjBQtUT1wvB2BGbrQ3PDqKZ4a7nfYJeVNTC8G2KVXfApJx7xP9AcW2Fuqm1XQql&id=100072731767800&mibextid=Nif5oz

[38]                      [تاريخ بغداد برقم: 1083]

[39]                      [تاریخ بغدد برقم: 2522]

[40]                      [تاریخ بغداد برقم: 1083]

[41]                      [تاریخ بغداد برقم: 1782]

[42]                      [سیر اعلام النبلاء برقم: 76]

[43]                      [سیر اعلام النبلاء ]

[44]                      نوٹ: امام یحییٰ بن معین کا لاباس بہ،،، ثقہ کے برابر توثیق ہے۔[معرفة الرجال للإمام أبي زكريا يحيى بن معين برقم: 230]

[45]                      [الانتقاء وسندہ صحیح ]

[46]                      [سیر اعلام النبلاء برقم: 174]

[47]                      [سنن ابی داود برقم: 3435]


(امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ کی حنفیت

مصنف : مولانا ابو حمزہ زیشان صاحب فاضل رائیونڈ

تحقیق و حواشی : حافظ انجینئر مساعد زیب  

پیکش:  النعمان سوشل میڈیا سروسز

 مکمل pdf   کتاب دفاع احناف لائبریری میں دفاع اکابر سیکشن میں موجود ہے۔  )

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...