نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ اور امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں ایک علمی و تاریخی جائزہ


امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ اور امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں ایک علمی و تاریخی جائزہ


امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ جلیل القدر محدثین میں سے ہیں، جن کی خدماتِ حدیث بے حد و بے حساب ہیں۔ ان کے مقام و مرتبہ کا ہم دل سے اعتراف کرتے ہیں۔ تاہم بعض تاریخی حوالوں سے ان کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں رائے میں سختی نظر آتی ہے۔ اس کا پس منظر سمجھنا انصاف کا تقاضا ہے۔ تین بنیادی اسباب ان کے اس موقف کے پیچھے نظر آتے ہیں:


1۔ جب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علم علل الحدیث میں معرفت کی بنیاد پر بعض حدیث پر کلام کرتے تو اس کو امام حماد یہ سمجھتے کہ امام ابو حنیفہ اپنی رائے سے حدیث کو رد کر رہے ہیں۔

2۔ امام حماد ان محدثین میں سے تھے جو اہل الرائے سے سخت تعصب رکھتے تھے۔

3. امام حماد کا شدت مزاج اور سخت رویہ


1. علمِ علل الحدیث کی محدود تدوین

 امام ابو حنیفہ کا علل الحدیث سے حدیث کی جانچ کرنے کو امام حماد بن سلمہ یہ سمجھتے تھے کہ امام صاحب اپنی رائے سے حدیث کو ترک کرتے ہیں

امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کے زمانے میں علمِ علل الحدیث اپنی مکمل صورت میں مدون نہیں ہوا تھا۔ علمِ علل ایک نہایت باریک اور دقیق فن ہے، جس میں احادیث کے مخفی نقائص کو پہچانا جاتا ہے۔ اس علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ نے اسے "سب سے دقیق اور بلند پایہ علم" قرار دیا ہے، اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ "یہ علم صرف اسے حاصل ہوتا ہے جسے اللہ نے غیر معمولی فہم اور حفظ عطا کیا ہو"۔

امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے اس علم کی فطری بصیرت عطا فرمائی تھی۔ باوجود اس کے کہ علمِ علل اُس زمانے میں مدون نہیں تھا، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ گہری بصیرت کے ذریعے حدیث کی علتوں کو پہچان لیتے تھے۔ چنانچہ بعض روایات، جو بظاہر صحیح دکھائی دیتی تھیں، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ان کی گہرائی میں جا کر ان کے نقص کو پہچانا اور امت کو علمی بنیاد پر ان کے عمل سے روکا۔ بعد کے محدثین نے بھی کئی مواقع پر ان کی تحقیق کی تصدیق کی۔ مثلا

اکثر غیر مقلدین امام اعظم کے خلاف تاریخ بغداد سے ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ امام صاحب نے ایک حدیث کو سجع (شاعری کی ایک قسم ) کہہ کر رد کیا۔ 

أخبرنا أبو بكر البرقاني قال: قرأت على محمد بن محمود المحمودي - بمرو - حدثكم محمد بن علي الحافظ، حدثنا إسحاق بن منصور، أخبرنا عبد الصمد عن أبيه قال: ذكر لأبي حنيفة قول النبي صلى الله عليه وسلم " أفطر الحاجم والمحجوم " فقال: هذا سجع.

اب یہاں ہمارا جواب یہ ہیکہ  《 افطر الحاجم والمحجوم》 والی حدیث ہی منسوخ ہے ،

امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت پر کلام کیا ہے ، جبکہ بعض دیگر محدثین نے بھی اس صحیح سند سے مروی روایت پر کلام کیا ہے جس کی تفصیل نصب الرایہ للزیلعی میں دیکھیں ۔ مزید یہ کہ غیر مقلد البانی نے بھی اس کو منسوخ کہا ہے۔ بلکہ علل الحدیث کے  امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے اس روایت کو  "باطل" کہا ہے  (علل رقم 732)  جو کہ سجع سے کہیں گنا زیادہ سخت لفظ ہے تو سب سے پہلے امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ پر گستاخی کا فتوی لگایا جائے  ۔ لیکن وہاں متعصب اصحاب الحدیث کی زبانوں کو تالا لگ جائے گا کہ یہاں ابو حنیفہ تو ہے نہیں  ، یہاں ہمارا ابو حاتم رازی رحمہ اللہ ہے ، لہذا وہ کہیں گیں کہ علل الحدیث کی وجہ سے ، اس روایت کو ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے باطل کہا ہے ، تو یہی علل اگر ابو حنفیہ رحمہ اللہ استعمال کریں تو اصحاب الحدیث کے آئمہ ، بلا سوچے سمجھے اندھی تقلید میں ، امام ابو حنیفہ  رحمہ اللہ کا نام نامی تک بگاڑنے  ، لعن طعن اور کافر کہنے تک آ جاتے ہیں ، اللہ ہمیں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر تعصب کرنے والوں سے درگزر فرمائے ۔

اعتراض نمبر 53 کہ ابو حنیفہ نے حدیث کو مسجع اور ولاء کے بارہ میں حضرت عمر کے فیصلہ والی روایت کو قول شیطان کہا۔

 اسی طرح امام صاحب نے سفیاں ثوری رحمہ اللہ کے تعلق سے ایک علل کی ایک بات یوں کہی کہ  , ابن عدی کہتے ہیں :

"حدثنا عبد الله بن محمد بن عبد العزيز، حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الحميد الحماني سمعت أبا سعد الصاغاني يقول جاء رجل إلى أبي حنيفة فقال ما ترى في الأخذ عن الثوري فقال اكتب عنه ما خلا حديث أبي إسحاق عن الحارث عن علي وحديث جابر الجعفي."

ایک شخص ابو حنیفہ کے پاس آیا اور پوچھا ثوری سے روایت لینے کے بارے میں آپکی کیا راۓ ہے ابو حنیفہ نے کہا :"کہ ان سے روایت لکھ سکتے ہو سوائے حدیث ابی اسحاق عن حارث عن علی اور جابر جعفی کی روایت سےـ" (الكامل ابن عدي ج٢ ص ٣٢٨)

یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا علل الحدیث سے واقفیت کی ایک مثال ہیکہ امام صاحب نے اس وقت خاص سند کی خامی بتائی جب باقیوں کا دھیان نہ تھا ۔ اسی طرح جابر جعفی کی حقیقیت کسی پر عیاں نہ تھی یہاں تک کہ امام صاحب نے اس کو کذاب کہا اور بعد کے تمام محدثین نے  اسی امام صاحب کی اس جرح کو بالکل قبول کیا  ، تفصیل دیکھیں (امام ابو حنیفہ کا محدثانہ مقام 393 )

  لہٰذا جب امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بعض فیصلوں پر تعجب یا اعتراض کیا، تو یہ اختلاف دراصل علمِ علل کی اُس وقت کی محدود تفہیم کی وجہ سے تھا، نہ کہ کوئی ذاتی عناد۔

2. امام حماد بن سلمہ اہل الحدیث سے تھے جن کا اہل الرائے سے رویہ تعصب والا تھا۔

 قارئیں تفصیل  ان لنکس  پر پڑھ سکتے ہیں۔

اعتراض نمبر 27 : محدث و فقیہ امام ابو حنیفہؒ پر مشہور محدثین کرام کا دوہرا / نا انصافی پر مبنی معیار ( امام بخاریؒ , امام عقیلی رحمہ اللہ , امام ابن حبان رحمہ اللہ , امام ابن عدی رحمہ اللہ , امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ)


اعتراض نمبر 33 : امام ابو حنیفہؒ پر جرح: ایک تحقیقی جائزہ – حصہ اول ثقہ راویوں کا کردار


اعتراض نمبر 35 : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح 


اعتراض نمبر 37 : امام اعظم ابو حنیفہؒ پر محدثین کے تعصب کی چند شرمناک مثالیں



3. فطری غصہ اور شدتِ مزاج

تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ طبیعت میں کچھ سخت مزاج تھے۔ سخت مزاجی بعض اوقات انسان کی رائے میں شدت لے آتی ہے۔ چنانچہ ان سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں بعض سخت الفاظ بھی منقول ہیں،

181) قال أبو داود النحوي سليمان بن معبد ليحيى بن معين:حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال: سمعت حماد بن سلمة يقول: أعض الله أبا حنيفة بكذا وكذا، لا يكني، فقال ابن معين: «أساء أساء» .

حماد بن سلمہ نے کہا : اللہ ابو حنیفہ کی فلاں فلاں چیز کاٹ دے اور یہ بات کنایتہ نہیں کہی گئی تو امام ابن معین فرماتے تھے حماد نے برا کہا ، برا کہا۔

یہ حماد بن سلمہ کی شان کے خلاف تھا کہ وہ اس قسم کے فضول جملے کہتے البتہ یحیی بن معین رحمہ اللہ نے اپنے حنفی ہونے کا کمال مظاہرہ فرمایا اور ببانگ دہل حماد بن سلمہ کے جملوں پر ان کو غلط کہا۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہیکہ بعض محدثین جیسے حماد بن سلمہ کا رویہ اہل الرائے خصوصا امام اعظم کیلئے انتہائی متشدد ، متعصب اور سخت تھا ،

 اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہیکہ جرح و تعدیل کے امام ، یحیی بن معین نے دفاع ابو حنیفہ کر کے امت کو تعلیم دی ہیکہ امام اعظم کے خلاف بعض محدثین کی جو رائے ہے وہ انصاف پر مبنی نہیں ہے لہذا وہ رائے بھی قابل قبول نہیں ۔

لہذا دفاع حنفیت ، یہ یحیی بن معین کا طریقہ ہے جو ہم سب کیلئے مشعل راہ ہے۔ 



حدثنا محمد بن ابراہیم بن جناد ، قال حدثنا ابو بکر الاعین قال: حدثنا  منصور بن سلمة ابو سلمة الخزاعی  ، قال:سمعت  حماد بن سلمة یلعن ابا حنیفة و سمعت شعبة یلعن ابا حنیفة

یہ امر انسان کی فطری بشریت کا مظہر ہے کہ شدید غصے یا جذباتی کیفیت میں بعض سخت کلمات زبان سے نکل جاتے ہیں، جو عمومی حالات میں نہ نکلتے۔ ہم حسنِ ظن رکھتے ہیں کہ یہ سختی امام حماد رحمہ اللہ کے ذاتی غم و غصہ کا نتیجہ تھی، اور علمی دنیا میں اس کا وزن دلائل پر ہوتا ہے، نہ کہ جذبات پر۔

لہٰذا اس بنیاد پر امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی شان میں کوئی کمی نہیں آتی، اور امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کا عمومی مقام بھی محفوظ ہے۔

نوٹ : امام شعبہ سے لعنت کے الفاظ ثابت نہیں ۔  

مزید تفصیل قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 133 میں دیکھ سکتے ہیں۔


ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ، ﻋﻦ ﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺳﻠﻤﺔ، ﻗﺎﻝ: " ﻛﺎﻥ ﺭﺟﻞ ﻓﻲ اﻝﺟﺎﻫﻠﻴﺔ ﻟﻪ ﻣﺤﺠﻦ ﻳﺴﺮﻕ ﺑﻪ ﻣﺘﺎﻉ اﻟﺤﺎﺝ، ﻓﺈﺫا ﻗﻴﻞ ﻟﻪ: ﺗﺴﺮﻕ اﻟﺤﺎﺝ؟ ﻗﺎﻝ: ﻣﺎ ﺃﺳﺮﻕ ﺇﻧﻤﺎ ﻳﺴﺮﻕ ﻣﺤﺠﻨﻲ.

ﻗﺎﻝ ﺣﻤﺎﺩ: ﻟﻮ ﻛﺎﻥ ﻫﺬا ﺣﻴﺎ اﻟﻴﻮﻡ، ﻛﺎﻥ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ

(الأخبار الموفقيات لزبير بن بكار)

کہ زمانی جاہلیت کا ایک چور اگر آج ہوتا تو امام ابو حنیفہ کا شاگرد ہوتا۔

امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کی اس روایت میں طنزیہ انداز میں اصحابِ امام ابوحنیفہ پر تبصرہ موجود ہے۔ مگر اگر اصحابِ امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ کی سیرت پر نگاہ ڈالی جائے تو حقیقت بالکل برعکس نظر آتی ہے۔

▪︎کیا ان اصحاب ابی حنیفہ میں قاضی القضاة امام ابو یوسف رحمہ اللہ نہیں تھے، جنہوں نے عدل و انصاف کی عظیم مثالیں قائم کیں؟

▪︎کیا وہ امام محمد بن حسن الشیبانی رحمہ اللہ نہیں تھے، جن کی تصنیفات سے امام شافعی اور امام احمد بن حنبل جیسے عظیم آئمہ نے استفادہ کیا؟

▪︎کیا وہ وکیع بن جراح، مکی بن ابراہیم، اور دیگر جلیل القدر محدثین نہیں تھے، جن سے صحیح بخاری کی اعلیٰ اسانید چلتی ہیں؟

ان تمام عظیم شخصیات کا تعلق امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے تھا۔ یہ حضرات نہ صرف علم و تقویٰ میں یگانہ روزگار تھے بلکہ امتِ مسلمہ کے علمی سرمائے کا ناقابلِ فراموش حصہ ہیں۔

لہٰذا اصحابِ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر طنز کرنا دراصل تاریخی حقیقتوں سے بے خبری کا نتیجہ ہے، جسے حسنِ ظن اور علم کی روشنی میں درست انداز میں دیکھنا چاہیے۔

نتیجہ:

ہم امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کے مقام و مرتبے کا پورا احترام کرتے ہیں، اور ان کی دینی خدمات ہمارے لیے قابلِ قدر ہیں۔ تاہم امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر ان کی طرف سے کیے گئے اعتراضات کو قبول کرنا علمی دیانت کے خلاف ہوگا، کیونکہ:

1۔ یا تو یہ اعتراضات غصے اور شدتِ مزاج کے تحت صادر ہوئے تھے، جیسا کہ دیگر ائمہ کرام کے تبصروں سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔

2۔ یا ان اعتراضات کی بنیاد علمِ علل الحدیث کی عدم تدوین اور اس فن کی باریکیوں کے عدمِ فہم پر تھی، جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی بصیرت اور علمی گہرائی کو نہ سمجھ سکنے کا نتیجہ تھا۔

3۔ نیز امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کی رائے کو اگر معیار مانا جائے تو اس سے امت کے ان جلیل القدر محدثین اور فقہاء کی توہین لازم آئے گی، جنہوں نے براہ راست امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے استفادہ کیا، اور جن کے علم و تقویٰ پر پوری امت کا اجماع ہے۔

4۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی علمی عظمت کا ثبوت نہ صرف ان کے زمانے کے علما کے اقرار سے ملتا ہے بلکہ آج تک چودہ صدیوں پر محیط ان کے علمی نظام کے اثرات سے بھی واضح ہوتا ہے۔

5۔ کسی ایک عالم کا وقتی غصے میں کوئی سخت تبصرہ کرنا ان کی اپنی بشری کمزوری کا مظہر ہو سکتا ہے، مگر اس کی بنیاد پر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ جیسی آفاقی شخصیت کے مقام میں کوئی کمی نہیں آ سکتی۔

لہٰذا ہم پورے حسنِ ادب کے ساتھ یہ مؤقف اپناتے ہیں کہ امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں کیے گئے اعتراضات نہ علمی معیار پر پورے اترتے ہیں، نہ عدل و انصاف کے تقاضے پر، اور نہ ہی امت کے متفقہ اجماعی موقف سے ہم آہنگ ہیں۔

ایسے اقوال کو حسنِ ظن اور علمی اصولوں کی روشنی میں نظر انداز کرنا ہی دانشمندی اور دیانت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو پہچاننے، اہلِ حق کا ادب کرنے اور اپنی زبان و قلم کو عدل و انصاف کے دائرے میں رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین یا رب العالمین۔


 قارئیں تفصیل  ان لنکس  پر پڑھ سکتے ہیں۔

امام ابوحنیفہ ثقہ ہیں۔ سلسلہ تعریف و توثیق ابو حنیفہ رحمہ اللہ


تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر21 : "امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ کی نظر میں"


تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر20 : امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، جلیل القدر محدث و فقیہ امیر المومنین فی الحدیث امام عبد اللہ 

ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں

▪︎ دفاع احناف لائبریری میں موجود رسالہ : امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ کی حنفیت ، مصنف : مولانا ابو حمزہ زیشان صاحب


اعتراض نمبر 27 : محدث و فقیہ امام ابو حنیفہؒ پر مشہور محدثین کرام کا دوہرا / نا انصافی پر مبنی معیار ( امام بخاریؒ , امام عقیلی رحمہ اللہ , امام ابن حبان رحمہ اللہ , امام ابن عدی رحمہ اللہ , امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ)


 امام شافعی رحمہ اللہ سے امام محمد رحمہ اللہ کی تعریف و توثیق پر دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود 

● سلسلہ دفاع امام محمد ، قسط نمبر 1 :

 الفضل الربانی فی حیاۃ الامام محمد بن الحسن الشیبانی  امام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ (م۱۸۹؁ھ) کا مقام و مرتبہ ائمہ و علماء کی نظر میں (مکمل )  از حافظ ظہور احمد الحسینی حفظہ اللہ





تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...