نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام اعظم ابو حنیفہؒ پر محدثین کے تعصب کی چند شرمناک مثالیں



امام اعظم ابو حنیفہؒ پر محدثین کے تعصب کی چند شرمناک مثالیں

امام اعظم ابو حنیفہؒ وہ مظلوم ترین محدث، فقیہ اور تابعی ہیں جن پر صرف عباسی حکمران ابن ہبیرہ ہی نے کوڑے نہیں برسائے، بلکہ بعض "محدثینِ کرام" نے بھی تعصب، حسد، اور علمی خیانتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان پر جو قلم کے ظلم کئے اس تو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ تعصب اور آپسی رنجش نیک صفت لوگوں سے بھی علمی اور اخلاقی نا انصافیاں کرا سکتی ہے. 

انصاف کو پَسِ پُشت ڈالتے ہوئے، ان محدثین نے ایسے راویوں سے اقوال نقل کیے جنہیں وہ خود کذاب، وضّاع اور مجہول الحال کہتے ہیں۔ سبحان اللہ! جنہیں اپنی کتابوں میں جھوٹا لکھا، انہی کے گھڑے گئے الزامات کو امام ابو حنیفہؒ کے خلاف بطور "ثبوت" پیش کیا۔ یہی علمی خیانت یا تعصب ہے جو عدل/انصاف کی تمیز بھلا دیتا ہے. 

آج جب ہم امام اعظم کے مقام و مرتبے کو تاریخی روایات کی روشنی میں اور اہل علم کی شہادتوں کے ذریعے دیکھتے ہیں، تو ان "ناقدین" کا چہرہ نہ صرف بے نقاب ہوتا ہے بلکہ علم کے دربار میں شرمندگی کی علامت بن جاتا ہے۔ یہ وہی حضرات ہیں جو نشانہ تو امام ابو حنیفہ کو بناتے ہیں لیکن خود تاریخ کے کٹہرے میں سوالیہ نشان بن جاتے ہیں۔

ہم اس پوسٹ میں واضح کریں گے کہ کس طرح کئی محدثین نے امام ابو حنیفہؒ کے ساتھ نا انصافی اور تعصبانہ روش اختیار کی اور بغیر خاص تحقیق کے ایسی باتوں کو اپنی کتابوں میں جگہ دی جس پر آج اگر کوئی طالبعلم بھی غور کرے تو منہ چھپاتا پھرے۔

اول حصہ میں درج ذیل محدثین کے تعصب کی چند مثالیں پیش کی جائے گیں۔

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ المتوفی 161 ھجری 

امام حمیدی رحمہ اللہ المتوفی 219 ھجری

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ المتوفی 241 ھجری

امام بخاری رحمہ اللہ  المتوفی 256 ھجری 

امام عقیلی رحمہ اللہ المتوفی 322 ھجری

امام ابن عدی رحمہ اللہ المتوفی 365 ھجری

امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ المتوفی 463 ھجری


حصہ دوم میں متفرق طور پر محدثین کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے تعلق سے نا انصافی اور دوہری پالیسی کو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔

 حصہ اول

1. امام سفیاں ثوری رحمہ اللہ  کے  تعصب کی مثال


1. ۔ قال الإمام أحمد في «العلل» رواية المروزي وغيره (ص١٧٢):

حدثنا شعيب بن حرب قال سمعت سفيان ثوري يقول: ما أحب أن أوافقهم على الحق - يعني أبا حنيفة 

 محدث امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ  مجھے حق بات میں بھی ابو حنیفہ کی موافقت قبول نہیں۔ ( یعنی اگر ابو حنیفہ حق پر بھی ہو تب بھی میں اس کی مخالفت کروں گا ) 

قارئین کرام ، تعصب کا یہ عالم ہیکہ امیر المؤمنین کے درجہ پر فائز امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مخالفت میں حق کی مخالفت کرنے کو تیار ہیں. یہاں سے معاصرانہ چشمک اور تعصب کا اندازہ لگایا جا سکتا ہیکہ جو انسان حق بات کا بھی مخالف ہو جائے ، تو کیا وہ اپنی بات میں انصاف سے کام لے سکتا ہے اور بھلا اب اس کی جرح کا اعتبار ہو گا ؟

2 .  مام یحییٰ بن ضریس بیان کرتے ہیں : میں سفیان ثوری رحمہ اللہ کے پاس موجود تھا ، ایک شخص ان کے پاس آیا جو علم اور عبادت میں کچھ حیثیت رکھتا تھا ، اس نے ان(سفیان) سے کہا اے ابو عبداللہ! آپ ابو حنیفہ پر  تنقید کیوں کرتے ہیں ؟ انہوں (سفیان) نے دریافت کیا کہ کیوں کیا ہوا ہے؟  اس نے کہا : میں نے انہیں ایک بات کہتے سنا ہے جس میں انصاف اور حجت پائے جاتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں جب مجھے اللہ کی کتاب میں (مسلہ کا جواب) مل جائے گا تو میں اللہ کی کتاب کے مطابق فتویٰ دوں گا ، اگر وہ مجھے اس میں نہیں ملتا تو میں اللہ کے رسولﷺ کی سنت اور آپ سے منقول مستند آثار کے مطابق فتویٰ دونگا ، جو ثقہ راویوں کے حوالے سے منقول ہو کر ثقہ راویوں کے درمیان پھیلے ہیں ، اگر مجھے اللہ کی کتاب میں اور سنت رسولﷺ میں (مسئلے کا جواب) نہیں ملتا ، تو میں نبی اکرمﷺ کے اصحاب (میں سے کسی کے) قول کے مطابق فتویٰ دوں گا ، جس کے قول کو چاہوں گا اسے ترک کر دوں گا ، اور جس کےقول کو چاہوں گا اس کو اختیار کر لوں گا ، لیکن میں صحابہ کرام کے اقوال میں سے نکل کر کس دوسرے کے قول کی طرف نہیں جاونگا ، جب معاملہ (تابعین) ابراہیم نخعی ، شعبی ، حسن بصری ، عطاء بن ابی رباح ، ابن سیرین ، سعید بن مسیب انہوں (ابو حنیفہ ) نے اسکے علاوہ بھی متعدد لوگوں کے نام لیے ، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اجتہاد کیا تھا ، جب معاملہ ان تک پہنچے گا تو میں بھی اسی طرح اجتہاد کروں گا ، جس طرح انہوں نے اجتہاد کیا تھا ، راوی بیان کرتے ہیں تو سفیان ثوری خاصی دیر خاموش رہے ، پھر انہوں نے اپنی رائے پر متشتمل کلمات ارشاد فرمائے ، محفل میں موجود ہر شخص نے انہیں نوٹ کر لیا

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے فرمایا :

ہم کو احادیث میں شدت والی احادیث بھی سننے کو ملتی ہیں ، اور ہم ان سے ڈر کے رہتے ہیں ، اور ہمیں نرمی کے متعلق بھی روایات سننے کو ملتی ہیں ، تو ہم اس کی امید رکھتے ہیں

ہم زندہ لوگوں کا محاسبہ نہیں کرتے ہیں اور مرحومین کے خلاف فیصلہ نہیں دیتے ہیں ، جو روایات ہم نے سنی ہیں انہیں تسلیم کرتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں علم نہیں  ہم ان کا علم اس شخص کے سپرد کرتے ہیں جو ان سے واقفیت رکھتا ہو (جو ان روایات کی معرفت کو پہچان سکے کہ روایات میں کن کن مسائل کا استنباط موجود ہے ) اور ہم اپنی رائے کا الزام ان کی رائے پر عائد کرتے ہیں (یعنی ہم انکے اجتیہاد کے مطابق فتویٰ دے دیتے ہیں اور ہمارے فتویٰ میں کوئی کمی بیشی ہوئی تو ہم نے اپنے سے پہلے بزرگوں کی پیروی میں ہی فتویٰ دیا )

(تاریخ بغداد ت بشار 15/504 ، اسنادہ صحیح : الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء ابن عبدالبر ، ص ۱۴۴ ، مترجم ص 347 )

اس روایت سے  2 باتیں معلوم ہوتی ہیں

نمبر 1:  بھری مجلس میں سفیان ثوری رحمہ اللہ ، اس بات کا انکار نہ کر سکے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کسی  مسئلہ کو سب سے پہلے قرآن سے اخذ کرتے ، وہاں نہ ملے تو پھر سنت ، پھر صحابہ سے یا پھر اجتہاد ۔  امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ہر گز اس بات کا رد نہیں کر سکے بلکہ سفیان ثوری رحمہ اللہ کی فقہ ، فقہ حنفی سے مماثلت رکھتی تھی جیسا کہ ہم نے آغاز میں طبقات المحدثین باصبھان میں تفصیل دی ہے۔

 نمبر 2 : قارئین ایک طرف سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں حق بات میں بھی ابو حنیفہ کی موافقت نہیں پسند کرتا ،  جبکہ دوسری طرف جب کوئی ذی علم انسان ان سے سوال کرتا ہیکہ آپ ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراض کیوں کرتے ہیں ؟ کیوں تنقید کرتے ہیں ؟  کہ ابو حنیفہ  یا قرآن سے مسئلہ اخذ کرتے ہیں یا سنت سے یا صحابہ سے یا اجتہاد سے ، اس پر سفیان ثوری رحمہ اللہ کو چاہیے تھا وہ بیان کرتے کہ کیسے ابو حنیفہ غلط ہے  ؟ کیسے ابو حنیفہ نے اسلام کے حلقے اور کڑے کو توڑا ؟ کیسے ابو حنیفہ اسلام میں سب سے شر پسند ہے (وہ یہ باتیں ہیں جو سفیان ثوری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ کے خلاف منقول ہیں)

لیکن امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے کوئی معقول جواب بن ہی نہ سکا ، اور سائل نے جو پوچھا کہ آپ ابو حنیفہ پر کیوں تنقید کرتے ہیں ؟ ، یہ اصل سوال کا جواب تو امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے دیا ہی نہیں کہ کن وجوہات کی بناء پر ، میں سفیان ثوری ، ابو حنیفہ کو برا بھلا کہتا ہوں ، کن مسائل میں ابو حنیفہ غلط ہے وغیرہ وغیرہ  ۔ 

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ     کے  تعصب کی مزید مثالیں دیکھنے کیلئے قارئیں یہ مضمون پڑھیں ۔

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر متفرق اعتراضات اعتراض نمبر 18 : امام سفیان ثوری رحمہ اللہ اور امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ :

2. امام حمیدی کے تعصب کی مثال : 

سمعت الحميدي يقول قال أبو حنيفة قدمت مكة فأخذت من الحجام ثلاث سنن لما قعدت بين يديه قال لي استقبل القبلة فبدأ بشق رأسي الأيمن وبلغ إلى العظمين، قال الحميدي فرجل ليس عنده سنن عن رسول الله صلى الله عليه و سلم ولا أصحابه في المناسك وغيرها كيف يقلد أحكام الله في المواريث والفرائض والزكاة والصلاة وأمور الإسلام۔

امام بخاری کہتے ہیں کہ میں نے حمیدی کو یہ کہتے ہوئے سنا انہوں نے کہا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں میں مکہ آیا تو میں نے حجام سے تین سنتیں سیکھی کہ میں اس کے سامنے بیٹھا تو اس نے مجھے کہا قبلے کی طرف منہ کرو ، پھر اس نے میرے سر کے دائیں طرف سے شروع کیا اور استرا ہڈیوں تک پہنچایا۔  حمیدی نے کہا ایسا آدمی جس کے پاس مناسک وغیرہ کی سنتیں نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہیں نہ صحابہ سے تو وہ میراث ، فرائض ،زکوۃ ،نماز اور دیگر امور اسلام میں کیسے اس کی تقلید کی جائے گی۔  [التاريخ الصغير 2/ 43]۔

جواب :

 امام حمیدی رحمہ اللہ نے تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو نہ دیکھا ہے نہ ان سے کچھ سماع کیا ہے ۔ امام حمیدی کی پیدائش ، امام صاحب کی وفات کے بعد ہے۔ پھر ان کا امام ابو حنیفہ کی شان گھٹانے کیلئے غیر مستند واقعہ بیان کرنا ، یہ اس بات کی دلیل ہیکہ وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے چڑ رکھتے تھے اور اس سے بھی عجیب بات ہیکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے حمیدی رحمہ اللہ سے اس بات کو نقل کیا جبکہ وہ جانتے تھے کہ ان کا سماع ابو حنیفہ سے نہیں ہے۔ 

حمیدی لوگوں کے سامنے ابو حنیفہ کو ابو جیفہ کہتے تھے۔

 أخبرنا ابن رزق، أخبرنا عثمان بن أحمد، حدثنا حنبل بن إسحاق قال: سمعت الحميدي يقول: لأبي حنيفة - إذا كناه - أبو جيفة لا يكنى عن ذاك، ويظهره في المسجد الحرام في حلقته والناس حوله

۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا نام ابو حنیفہ ( ابو حنیفہ کا معنی ہے  دینِ خالص کو مرتب(تدوین) کرنے والا) سے بگاڑ کر ابو جیفہ (مرداروں کا باپ) کہنا ، یہ امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد جناب محدث حمیدی کے تعصب کی ایک اور مثال ہیکہ مسجد الحرام جیسی مقدس مسجد میں بیٹھ کر بھی ، ان کو ذرا برابر بھی شرم و حیا نہ آئی اور انہوں نے قرآن کے حکم  《وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ  》 اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو (الحجرات آیت  11 ) 

کی واضح کھلم کھلا مخالفت کی ۔ 

محدث حمیدی کے  تعصب کی مزید مثالیں دیکھنے کیلئے قارئیں یہ مضمون پڑھیں ۔

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر متفرق اعتراضات اعتراض نمبر26 : امام حمیدی رحمہ اللہ کا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے تعصب

  3. امام بخاریؒ   کے تعصب کی مثال
(الف) امام بخاریؒ اپنی کتاب "الضعفاء" میں محمد بن مسلمہؒ سے نقل کرتے ہیں کہ دجال مدینہ میں داخل نہیں ہو سکتا، اور امام ابو حنیفہؒ دجالوں کا دجال ہیں...

جواب: امام بخاریؒ نے جس شخص سے یہ جرح سنی، اس کا معلوم نہیں کیوں نام ذکر نہیں کیا... پھر ہمیں معلوم نہیں امام بخاریؒ کو کیا ضرورت پیش آئی کہ وہ دو مجہول واسطوں سے محمد بن مسلمہ کا کلام نقل کر رہے ہیں، کیونکہ محمد بن مسلمہ امام بخاریؒ کے استاد ہیں، وہ چاہتے تو براہِ راست ان سے نقل کر سکتے تھے، لیکن دو واسطوں کا سہارا کیوں لینا پڑا، معلوم نہیں...

اب کوئی کہے گا کہ امام بخاریؒ نے یہ بات اپنے استاد سے نہیں سنی ہوگی، اس لئے دو واسطوں سے نقل کر رہے ہیں، تو ہم کہیں گے کہ پھر امام بخاریؒ نے اس شخص کا نام کیوں نہیں لیا، جس سے انہوں نے یہ جرح نقل کی؟

(ب) امام بخاریؒ "ضرار بن صراد" کے واسطے سے اپنی کتاب "تاریخ الکبیر" میں نقل کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ قرآن کو مخلوق سمجھتے تھے... (تاریخ الکبیر 127/2)

جواب: اس ضرار بن صراد کو خود امام بخاریؒ منکر الحدیث کہتے ہیں (الضعفاء عقیلی 222/2)

اور جس راوی کو امام بخاریؒ منکر الحدیث کہتے ہیں، اس سے روایت لینا بالکل جائز نہیں سمجھتے، لیکن معلوم نہیں کیوں اسی راوی سے یہ قول نقل کرتے ہیں...

۔ لہذا یہ واقعہ بھی جھوٹا ہے لیکن اس کے باوجود امام بخاری نے امام ابو حنیفہ کے خلاف اس وقعہ کو اپنی کتاب میں لکھا ہے ، اللہ امام بخاری رحمہ اللہ سے در گزر فرمائے۔

(ج) امام بخاریؒ اپنی کتاب "تاریخ الاوسط" میں اسماعیل بن عرعرہ سے نقل کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا کہ "جہام بن صفوان" (کافر) کی بیوی ہماری عورتوں کو سکھانے آتی تھی... (تاریخ الاوسط 382/4)

جواب: اول تو یہ اسماعیل بن عرعرہ مجہول ہے، پھر دوسری بات یہ ہے کہ اس نے یہ قول امام ابو حنیفہؒ سے سنا ہی نہیں، جیسا کہ سند دیکھ کر معلوم ہوتا ہے... پھر معلوم نہیں کیوں امام بخاریؒ ایسی بات نقل کرتے ہیں، جبکہ امام ابو حنیفہؒ سے خود منقول ہے کہ وہ جہم بن صفوان کو کافر کہتے تھے...(تاریخ بغداد 515/15)

تو جو شخص کافر ہے، اس کی بیوی سے اپنی عورتوں  کو دین سیکھنے کیوں دیں گے؟

۔ لہذا یہ واقعہ بھی جھوٹا ہے لیکن اس کے باوجود امام بخاری نے امام ابو حنیفہ کے خلاف اس وقعہ کو اپنی کتاب میں لکھا ہے ، اللہ امام بخاری رحمہ اللہ سے در گزر فرمائے۔

امام بخاری رحمہ اللہ سے جروحات کی تفصیلی پوسٹ کیلئے دیکھیں ، النعمان سوشل میڈیا سروسز کی ویب سائٹ پر موجود ، سلسلہ امام ابوحنیفہ پر متفرق اعتراضات ، اعتراض نمبر 1۔ 


 4. امام عقیلی رحمہ اللہ  کے تعصب کی مثال

امام عقیلی رحمہ اللہ ضرار بن صراد کے واسطے سے نقل کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ قرآن کے مخلوق ہونے کے قائل تھے.... (الضعفاء عقیلی 92/4)

جواب: امام عقیلی رحمہ اللہ نے اپنی اسی کتاب میں امام بخاری رحمہ اللہ سے ضرار بن صراد کا منکر الحدیث ہونا نقل کیا ہے، تو جو شخص منکر الحدیث ہے اس کے واسطے سے جرح نقل کرنا کیا انصاف ہے؟

5.  امام ابن حبان رحمہ اللہ  کے تعصب کی مثال

(الف) امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ابو البختری کے واسطے سے جرح نقل کی کہ امام جعفر صادق رحمہ اللہ نے اپنی اور اپنے خاندانِ نبوی کی طرف سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر لعنت کی… (الجرحین 407/2)

جواب: ابو البختری کا نام وہب بن وہب ہے، یہ کذاب ہے اور خود امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسی کتاب میں اس پر جرح کی ہے کہ یہ ثقات سے موضوع روایات بیان کرتا ہے… (الجرحین 415/2)

اب جو راوی خود آپ کے نزدیک احادیث گھڑتا ہے، اس سے معلوم نہیں کیوں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر (موضوع) جرح نقل کرتے ہیں….

(ب) امام ابن حبان رحمہ اللہ سوید بن عبد العزیز کے واسطے سے نقل کرتے ہیں کہ کسی نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے سور کے گوشت کھانے کے متعلق سوال کیا، تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں… (الجرحین 413/2)

جواب: اس سوید بن عبد العزیز پر خود امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسی کتاب میں جرح کی ہے کہ یہ کثیر الخطا ہے اور اسے فحش قسم کا وہم ہوتا ہے… (الجرحین 445/1)

اب جو شخص اس قسم کا ہو، اس کے واسطے سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح نقل کرنا معلوم نہیں کیوں ضروری تھا….

(ج) امام ابن حبان رحمہ اللہ نے یحییٰ بن عبداللہ بن ماھان کے واسطے سے نقل کیا کہ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے کہا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے بارے میں کہا کہ اس پر پیشاب کر دو… (الجرحین 410/2)

جواب: اگر یہاں تحقیق سے کام لیا گیا ہوتا تو معلوم ہوتا کہ یحییٰ کی امام ابن عیینہ رحمہ اللہ سے نہ ملاقات ہے اور نہ ہی سماع… یعنی یحییٰ اور امام ابن عیینہ رحمہ اللہ کے درمیان انقطاع ہے۔ یعنی یحییٰ جن لوگوں سے روایت کرتا ہے وہ 230 ہجری کے آس پاس کے ہیں جبکہ امام ابن عیینہ رحمہ اللہ کا انتقال 198 ہجری میں ہو گیا تھا… یعنی یحییٰ اور امام ابن عیینہ رحمہ اللہ میں 30 سال کا فاصلہ ہے، اور اس کا امام ابن عیینہ رحمہ اللہ سے سننا ممکن نہیں لیکن اس بات پر غور کیے بغیر اتنی بڑی بات امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف بغیر تحقیق نقل کی جاتی ہے…

امام ابن حبان سے جروحات کی تفصیلی پوسٹ کیلئے دیکھیں ، النعمان سوشل میڈیا سروسز کی ویب سائٹ   پر موجود ، سلسلہ "المجروحین لابن حبان میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کے جوابات"

6.  امام ابن عدی رحمہ اللہ  کے تعصب کی مثال

ویسے دیگر محدثین کے مقابلے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ کا معاملہ کچھ بہتر ہے کہ وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح نقل کرنے کے ساتھ تعدیل بھی نقل کر دیتے ہیں… لیکن افسوس وہ بھی غفلت کر جاتے ہیں… انہوں نے یوسف بن اسباط کے واسطے سے نقل کیا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر مجھے پالیتے (مجھ سے مل لیتے) تو میری باتوں کو اختیار کر لیتے… (الکامل ابن عدی 240/8)

جواب: یوسف بن اسباط کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ اس کی کتابیں دفن ہو گئی تھیں پھر یہ اس طرح حدیث بیان نہیں کر پاتا تھا جیسے کرنا چاہیے تھا… یعنی اس کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ روایت کس طرح بیان کرنی چاہیے…. (الکامل 497/8)

اور وہی غلطی اس سے یہاں ہوئی… دراصل امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے یہ بات امام عثمان البتی رحمہ اللہ کے بارے میں کہی تھی کہ "اگر البتی مجھے پا لیتے تو میری باتیں اختیار کر لیتے" جیسا کہ بقول امام کوثری رحمہ اللہ محمد بن محمود الجزائری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں نقل کیا… دراصل پہلے زمانے میں عربی الفاظ پر نقطے نہیں ہوتے تھے تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا البتی لیکن یوسف نے بغیر نقطوں کے سمجھا النبی … اب چونکہ بغیر نقطوں کے دونوں (البتي اور النبي) ایک جیسے نظر آتے ہیں اس لیے یوسف نے البتی کو نبی سمجھ لیا اور پھر روایت بالمعنی بیان کرتے ہوئے کسی سند میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرنے لگا… اگر صحیح تحقیق کی جاتی تو یہ جرح نقل کرنے کی ضرورت نہ پڑتی…

 مزید تفصیل کیلئے دیکھیں  : اعتراض نمبر 49: کہ ابو حنیفہ نے کہا کہ اگر رسول اللہ ﷺ میرا زمانہ پالیتے یا میں ان کو پالیتا تو وہ میری اکثر باتوں کو اختیار کر لیتے ، نیز ابو حنیفہ کے سامنے حدیث پیش کی جاتی تو وہ اس کی مخالفت کرتے.

7.امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ   کے تعصب کی مثال

 (الف) امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ابوالفضل محمد بن عبداللہ شیبانی کے واسطے سے نقل کیا کہ امام عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ دجال کے فتنے کے بعد نہیں جانتا جو ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے سے بڑا فتنہ ہو…. (تاریخ بغداد 546/15)

جواب: دراصل دجال ابوالفضل خود ہے اور یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ خود خطیب نے نقل کیا اور خود خطیب کا کہنا ہے کہ یہ احادیث گھڑتا تھا… اب جو شخص خود دجال ہو اس کے واسطے سے جرح نقل کرنا کیا انصاف ہے؟

(ب) امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں نقل کیا کہ ان سے پوچھا گیا کہ ایک شخص جو اپنے باپ کو قتل کر دے اور اپنی ماں سے نکاح کر لے اور باپ کی کھوپڑی میں شراب پئے؟ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا وہ مومن ہے (تاریخ بغداد 511/15)

جواب: اس کی سند کا راوی علی بن عمر بن محمد المشہری ہے ہمیں نہیں معلوم کہ کسی محدث نے اس کی توثیق کی ہو… اس کا استاد محمد بن جعفر العدوی حدیثوں کو بیان کرنے میں غلطی کر جاتا تھا، پھر اس کا استاد احمد بن عبید مناکیر بیان کرتا ہے جیسا کہ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا اور اس کی روایات کا کوئی متابع نہیں ہوتا تھا جیسا کہ ابو احمد الحاکم رحمہ اللہ نے فرمایا… لیکن امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ پھر بھی ایسی سند سے ایسی باتیں نقل کرتے ہیں….

(ج). أخبرني الخلال، حدثنا أبو الفضل عبد الله بن عبد الرحمن بن محمد الزهري، حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن أبو محمد السكري، حدثنا العباس بن عبيد الله الترقفي قال: سمعت الفريابي يقول: كنا في مجلس سعيد بن عبد العزيز بدمشق فقال رجل: رأيت فيما يرى النائم كأن النبي صلى الله عليه وسلم قد دخل من باب الشرقي - يعني باب المسجد - ومعه أبو بكر وعمر، وذكر غير واحد من الصحابة، وفي القوم رجل وسخ الثياب رث الهيئة، فقال: تدري من ذا؟ قلت: لا، قال: هذا أبو حنيفة، هذا ممن أعين بعقله على الفجور. فقال له سعيد بن عبد العزيز: أنا أشهد أنك صادق، لولا أنك رأيت هذا. لم يكن الحسن يقول هذا.

 کہ ایک آدمی نے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر اور بعض دیگر صحابہ کرام کو دیکھا اور اس جماعت میں ایک میلے کچیلے کپڑوں اور خستہ حالت والا آدمی تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تو جانتا ہے کہ یہ کون ہے تو میں نے کہا کہ نہیں، میں نہیں جانتا تو آپ نے فرمایا یہ ابوحنیفہ ہے جو ان لوگوں میں سے ہے جو اپنی عقل کی وجہ سے گناہ گاروں پر سردار بنتا ہے۔ 

تو اس کو سعید بن عبد العزیز نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک تو سچ کہتا ہے۔

 اگر تو نے یہ خواب نہ دیکھی ہوتی تو یہ بات تو اچھے طریقہ سے نہ کر سکتا۔

جواب: خواب دیکھنے والا شخص مجہول ہے یعنی اس کا جرح و تعدیل میں کیا مقام ہے ، معلوم نہیں ، دینی رتبہ کیا ہے معلوم نہین ، ثقہ ہے یا رطب و یابس کا دوکاندار ، معلوم نہیں 

شاید وہ اس قابل تھا ہی نہیں کہ اس کا ذکر کیا جائے ، جب خواب دیکھنے والا شخص نا معلوم ہے ، اس کی عدالت کا پتہ نہیں ، پھر کیسے ایسے مجہول شخص کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف حجت سمجھا جا سکتا ہے جبکہ یہ معلوم نہیں کہ وہ سچ بھی بول رہا ہے یا نہیں ؟

یہاں سے خطیب بغدادی اور بعض محدثین کے دوہرے معیار کا اندازہ لگائیے کہ امام ابو حنیفہ کے خلاف ایک مجہول شخص کا خواب بھی ان لوگوں کیلئے حجت تھا ، گویا خطیب بغدادی نے اس مجہول شخص کے خواب کو نبیوں کے خواب کی طرح وحی سمجھ لیا ؟ 

دوم : سعید بن عبدالعزیز نے خواب کی تصدیق پر عجیب انداز سے ہمایت کی ہے ، گویا کہ وہ خود اس شخص کے ساتھ خواب میں شامل ہوں یا خود انہوں نے بھی یہی خواب دیکھا ہو. اگر وہ شخص عدالت اور دیانتداری میں معتبر اور روایت حدیث میں ثقہ ہوتا تو یہاں اسکا نام درج ہوتا لیکن افسوس اس کی ذات کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں. 

اور بنا تصدیق کے امام ابو حنیفہ کے خلاف بات کو نقل کرنا اور شہرت دینا یہ صرف سعید بن عبدالعزیز ہی کا طریقہ نہیں بلکہ کئی محدثین جو احادیث کی جانچ پڑتال میں جتنی محنت و مشقت کرتے ہیں تاکہ صحیح بات تک پہنچا جا سکے وہ بھی امام ابو حنیفہ کے خلاف کسی بھی طرح کی بات کو بغیر تصدیق یا بغیر تحقیق کے نقل کر دیتے ہیں. گویا یہاں اصول حدیث کی طرح صحیح بات تک پہنچنا شرط ہی نہ ہو. 

نکتہ : حدیث کے مطابق آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات ( بغیر تصدیق ) بیان کر دے (صحیح مسلم باب النَّهْىِ عَنِ الْحَدِيثِ بِكُلِّ مَا سَمِعَ ‏ ، رقم 7 ) ، اب سوال یہ ہے کیا وہ ثقہ راوی امام ابو حنیفہ کے خلاف جرح نقل کرنے میں معتبر شمار ہوں گے جنہوں نے امام صاحب کے خلاف روایات بیان کین لیکن کوئی تحقیق نہیں کی۔  مثلا امام صاحب نے توبہ کیوں کی ، ہر ایک محدث اسے بیان کرتا ہے ، لیکن بات کی تحقیق صرف امام ابو قطن نے کی ، اگر وہ بات کی تحقیق نہ کرتے تو شاید ہمیں معلوم ہی نہ ہو پاتا کہ کیا واقعی کسی کفریہ نظریہ کی وجہ سے امام صاحب نے توبہ کی تھی یا وہ خوارج (باطل فرقہ) والوں کی چال تھی۔


خطیب بغدادی کی تاریخ بغداد سے جروحات کی تفصیلی پوسٹ کیلئے دیکھیں ، النعمان سوشل میڈیا سروسز کی ویب سائٹ پر موجود ، سلسلہ : تانیب الخطیب تاریخ بغداد میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کے جوابات

 8.امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ  کے تعصب کی مثال

1▪︎ قال عبد اللَّه: سمعت أبي يقول: أهل الرأي لا يروى عنهم الحديث.

امام احمد نے کہا اہل الرای سے احادیث روایت نہیں کی جائے گی.

"العلل" برواية عبد اللَّه (١٧٠٧)

حالانکہ راوی کے حفظ و عدالت کے ہوتے ہوئے اہل الرائے ہونا یہ سرے سے کوئی علت ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے اس سے حدیث روایت نا کی جائے نا ہی اہل علم میں سے آج تک کسی نے صحت حدیث کے لئے ایسی کوئی شرط مقرر فرمائی ہے کہ راوی رائے و اجتھاد سے پیدل ہو۔ 

2▪︎ شعیب ابن اسحاق جوکہ امام احمد کے نزدیک خود صاحب حفظ و عدالت تھا ان کے متعلق امام احمد سے پوچھا گیا تو جواب میں امام احمد نے کہا

وقال عبدالله في العلل ومعرفة الرجال :

3127 - وَسَأَلته عَن شُعَيْب بن إِسْحَاق قَالَ : مَا أرى بِهِ بَأْسا وَلكنه جَالس أَصْحَاب الرَّأْي كَانَ جَالس أَبَا حنيفَة .

یعنی امام احمد کہتے ہیں میرے نزدیک اس راوی میں کوئی خرابی موجود نہیں ہے سوائے یہ کہ اصحاب الرائ کی مجالس اور امام ابو حنیفہ کی مجلس میں بیٹھتا تھا.

قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ راوی میں ایسی کوئی خرابی موجود نہیں جس کی وجہ سے اس کی حدیث مشکوک ہو لیکن پھر بھی امام احمد رحمہ اللہ کو ان سے اصحاب الرائے کی مجالس میں بیٹھنے کا گلہ ہے ۔ یعنی ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان کرنے کے قابل ہے ، وہ تمام شرائط جو محدثین رکھتے ہیں اس پر پورا اترتا ہے ، اس کے باوجود امام احمد نے اس سے خرابی یہ نکالی کہ وہ امام ابو حنیفہ کی مجلس میں بیٹھتا ہے ، یہ سراسر تعصب ہے ، ابو حنیفہ کی مجلس میں تو عبداللہ بن مبارک بھی بیٹھتے تھے ، وہی عبداللہ بن مبارک جن سے صحیح اسانید سے امام ابو حنیفہ کے مناقب منقول ہیں ۔ بہرحال امام احمد کا اہل الرائے سے رویہ غیر منصفانہ ہے۔ 

3▪︎ امام ابو حنیفہ کے مشہور شاگرد امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ کے متعلق امام احمد سے پوچھا گیا کہ محمد بن حسن شیبانی جو کہ امام ابو حنیفہ کے شاگرد ہیں اور اصحاب الرائے میں سے ہے انکے بارے میں کیا فرماتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا میں ان سے کچھ بھی روایت نہیں کرتا ۔

سألت ابی عن محمد بن الحسن صاحب ابی حنیفة صاحب الرای قال لا اروی عنه شیئا،

( العلل ومعرفۃ الرجال 5329 مع 5330)

حالانکہ امام احمد رحمہ اللہ جن کی شاگردی پر ناز کرتے تھے اور کہتے تھے کہ فقہ و حدیث صرف شافعی رحمہ اللہ میں ہے ، وہ شافعی رحمہ اللہ امام محمد بن حسن رحمہ اللہ کے گن گاتے نظر آتے ہیں ، مسند شافعی ہو یا کتاب الام ، ہر جگہ امام شافعی رحمہ اللہ ، اپنے استاد محمد بن حسن الشیبانی کی علمی جلالت کے گرویدہ پائے جاتے ہیں ، قارئین تفصیل مضمون کے آخر میں لنک پر دیکھ سکتے ہیں ۔ معلوم ہوا ، امام احمد بن حنبل کا امام محمد سے رویہ نا انصافی پر مبنی تھا اور اپنے استاد شافعی رحمہ اللہ کے موقف کے صریح مخالف تھا۔


4▪︎ اسی طرح امام قاضی ابو یوسف کے جید لائق شاگرد امام ابو یعلی معلی بن منصور رحمہ اللہ ثقہ ہیں ، امام بخاری نے ان سے صحیح میں روایت لی ہے ، تمام آئمہ ان کی تعریف و توصیف کرتے نظر آتے ہیں سوائے امام احمد کے ، جنہوں نے اپنے اس انوکھے رویہ پر کوئی جواب نہیں دیا ۔ بعض کی رائے یہ ہیکہ امام احمد نے ان پر جھوٹ کی تہمت بھی لگائی تھی لیکن ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی نفی کی ہے ، البتہ امام احمد کے اقوال سے معلوم ہوتا ہیکہ چونکہ امام معلی بن منصور رازی ، حنفی تھے ، بس اسی وجہ سے انہوں نے ان سے حدیث نہ لی ۔ امام احمد کہتے تھے کہ معلی بن منصور اہل الرائے سے ہیں ، ان کی کتب تصنیف کرتے ہیں لہذا وہ جھوٹ سے بچ نہ سکتے ہیں ، یہ بھی امام احمد کا ایک غلط اندازہ ہے ، کتنے ہی لوگ امام ابو حنیفہ یا صاحبین کی مجلس میں بیٹھتے تھے ، بخاری شریف میں کتنے ہی راوی حنفی ہیں ، کیا وہ سب بھی جھوٹے تھے ؟ مکی بن ابراہیم جھوٹے تھے ؟ ابو عاصم النبیل ، عبداللہ بن مبارک ؟

5.وقال عبد الله: سألت أبي، من أسد بن عمرو. قال: كان صدوقًا، وأبو يوسف صدوق، ولكن أصحاب أبي حنيفة لا ينبغي أن يروى عنهم شيء.

امام ابو یوسف ، امام احمد کے ہاں صدوق تھے ، لیکن امام احمد پھر بھی ان سے روایت نہ کرنے کی تلقین کر رہے ہیں۔

العلل (٥٣٣٢)

یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ایک انسان آپکے نزدیک صدوق اور حدیث بیان کرنے کے قابل ہے لیکن آپ صرف اس وجہ سے اس سے احادیث نقل نہیں کرتے کیونکہ وہ امام ابو حنیفہ کا شاگرد ہے. کیا یہی انصاف کا تقاضہ ہے؟ 

کیا کسی محدث سے صرف اس لئے حدیث نقل نہیں کرنا کہ وہ جس امام کا شاگرد ہے آپ اس امام کو پسند نہیں کرتے، یہی دین کی خدمت ہے؟ چلیں مان بھی لیں آپ کو امام ابو حنیفہ پسند نہیں لیکن امام ابو یوسف کے دوسرے بھی کئی استاد ہیں جن سے وہ احادیث نقل کرتے ہیں تو آپ کسی دوسرے استاد کے واسطہ سے تو احادیث نقل کر ہی سکتے ہیں. بلکہ ہم کہیں گے کہ آپ ایسے راویوں سے تو روایت بیان کرتے ہیں جسے آپ خود ضعیف کہتے ہیں لیکن ایسے محدث سے روایت بیان نہیں کرتے جو آپ کے اور دوسرے محدثین کے نزدیک ثقہ صدوق ہے. کیا یہ طریقہ درست ہے؟

 6.قال الإمام أحمد رحمه الله في «العلل» (ج٢ص٣٢٩):

حدثنا إسحاق بن عيسى الطباع عن ابن عيينة قال قلت لسفيان الثوري: لعله يحملك على أن تفتي أنك ترى من ليس بأهل الفتوى يفتي فتفتي؟ قال عبد الله بن أحمد: قال أبي: يعني أبا حنيفة.

ابن عیینہ کہتے ہیں: میں نے سفیان ثوری سے کہا: شاید آپ کو فتویٰ دینے پر اس وجہ سے آمادہ کیا ہو کہ آپ دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ فتویٰ دے رہے ہیں جو اس کے اہل نہیں، تو آپ بھی فتویٰ دینے لگے؟  

عبداللہ بن احمد کہتے ہیں: میرے والد (احمد بن حنبل) نے کہا: اس سے مراد ابو حنیفہ ہیں۔

جواب : 

اول : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا تعصب اس روایت سے واضح ہو گیا ہے ، خود امام احمد بن حنبل نے فقہ کے مشکل ترین مسائل جن سے سیکھے ، اب انھی کو فقہ سے نا بلد کہہ رہے ہیں ، کیا احسان کا بدلہ یہی ہوتا ہے ؟ کیا جن سے علم حاصل کیا جاتا ہے ، ان سے ایسا سلوک کرنا بہتر ہے ؟  اللہ امام احمد سے درگزر فرمائیں 

دوم : اس روایت میں سفیان بن عیینہ یا سفیان الثوری نے کہیں بھی امام ابو حنیفہ کا تذکرہ نہیں کیا ۔ الٹا سفیان بن عیینہ امام ابو حنیفہ کی فقہ کو آفاق پر پھیلاو کا اعلان کر چکے ہیں جیسا کہ روایات میں مذکور ہے ، یعنی وہ فقہ میں امام ابو حنیفہ کی مہارت تسلیم کر چکے ہیں ، 

اعتراض نمبر 71 : کہ سفیان نے کہا کہ اسلام میں سب سے بڑی شر ابوحنیفہ نے پھیلائی

تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 3 :امام اعظم ابوحنیفہ ؒ (م۱۵۰؁ھ) امام سفیان بن عیینہ ؒ (م ۱۹۸؁ھ) کی نظر میں

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر متفرق اعتراضات , اعتراض نمبر 36 , امام سفيان بن عيينة رحمه الله سے منقول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات :

اور امام سفیان ثوری کی فقہ بھی فقہ حنفی سے مماثلت رکھتی تھی جیسا کہ قارئیں ان مضامین میں تفصیل دیکھ سکتے ہیں ۔ 

فقہ حنفی اور فقہ ثوری میں مماثلت: امام وکیع کی حنفیت:

اس صراحت کے باوجود امام احمد بن حنبل نے جو تعصب ظاہر کیا ، یہ ان کی شان کے لائق نہ تھا۔

ان روایات سے یہ معلوم ہوتا ہیکہ امام احمد بن حنبل جیسے جرح و تعدیل میں معتدل ترین امام نے بھی امام ابو حنیفہ کے معاملے پر حد سے زیادہ بے انصافی کی ہے ، لہذا امام احمد سے منقول کوئی بھی ایسی روایت ہو جس میں وہ امام ابو حنیفہ پر جرح کریں ، کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں ہو سکتی


حصہ دوم 

امام ابو حنیفہؒ مخالفین کے ہمیشہ سے نشانہ رہے ہیں، چاہے تنقید کرنے والا کوئی بڑا امام ہو یا کوئی عام راوی۔ جتنی بےوجہ جرح امام ابو حنیفہؒ پر کی گئی ہے شاید کسی اور پر نہیں ہوئی... اور ضروری نہیں کہ جرح کرنے والے کے پاس جرح کی کوئی مناسب وجہ ہو۔ اگر ضعیف اسناد کی بات نہ بھی کریں تو ثقہ راوی کا امام ابو حنیفہؒ پر غلط بیانی کرنا، غلط نسبت کرنا، یہاں تک کہ ثقہ راویوں کی طرف سے سند و متن میں بھی کمی زیادتی دکھائی دیتی ہے، جن کا ذکر آج ان شاء اللہ ہم کریں گے کہ کس طرح ثقہ راوی بھی امام ابو حنیفہؒ کے معاملے میں غلط طریقے سے پیش آتے ہیں۔   

محدثین کے تعصب کے مزید اور نمونے قارئین ان لنکس پر دیکھیں

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر متفرق اعتراضات

اعتراض نمبر 33 : امام ابو حنیفہؒ پر جرح: ایک تحقیقی جائزہ – حصہ اول ثقہ راویوں کا کردار

اعتراض نمبر 27 : محدث و فقیہ امام ابو حنیفہؒ پر مشہور محدثین کرام کا دوہرا / نا انصافی پر مبنی معیار ( امام بخاریؒ , امام عقیلی رحمہ اللہ , امام ابن حبان رحمہ اللہ , امام ابن عدی رحمہ اللہ , امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ)

اعتراض نمبر 35 : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح 

المجروحین لابن حبان میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کے جوابات


تاریخ بغداد میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کے جوابات


اعتراض نمبر 94 : کہ ابن ادریس نے کہا کہ دنیا کے اندر میری خواہش یہ ہے کہ کوفہ سے ابو حنیفہ کی فقہ اور نشہ آور چیزوں کا پینا اور حمزہ قاری کی قراءت نکال دی جائے۔

اعتراض نمبر 105: کہ محمد بن علی بن النعمان شیعہ نے جس کو شیطان الطاق کہا جاتا تھا اس نے ابوحنیفہ کو گفتگو میں لاجواب کر دیا تھا۔

امام ابو حنیفہؒ: علم و فقہ کا مینار، اور اہلِ تعصب کی بے بسی

ان محدثین کا طرزِ عمل گویا یہی تاثر دیتا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ صرف ایک فقیہ نہیں تھے، بلکہ ان کے وجود سے ہی ان حضرات کو ایک مستقل خطرہ محسوس ہوتا تھا۔ آخر ایسا کیوں؟ اس لیے کہ امام ابو حنیفہؒ نے جو فقہی بنیادیں قائم کیں، وہ صرف روایت حدیث کرنے والوں کی سمجھ اور طریقہ کار کے خلاف تھیں ۔ وہ عقل و قیاس کی بات کرتے تھے، اصول و ضوابط کی دنیا دکھاتے تھے، اور یہی بات ان اہلِ روایت پر گراں گزرتی تھی جن کے لیے ہر بات صرف "سند" پر موقوف تھی، چاہے اس کا مطلب فہمِ دین کی قربانی ہی کیوں نہ ہو۔

ان حضرات نے امامؒ کے خلاف جو کچھ لکھا، وہ علمی نقد سے زیادہ ایک "فکری خفگی" کا اظہار تھا  آئیے دیکھیں وہ خود کیا کہتے ہیں:

ضعیف راویوں سے منسوب اقوال نقل کرنا؟

خود جنہیں "کذاب" کہا، انہی سے ابو حنیفہؒ کے خلاف روایت لینا؟

امامؒ کی باتوں کو سیاق و سباق سے کاٹ کر، الگ کر کے بے بنیاد الزام لگانا؟

سچ تو یہ ہے کہ یہ اعتراضات دراصل اپنے وقت کے علم و فقہ کی بے بسی تھے، جو امام ابو حنیفہؒ کے علم کے سامنے دم توڑ بیٹھے۔ ان کے پاس نہ اس درجے کا استنباط تھا، نہ وہ اصولوں کے معمار تھے، نہ وہ علم کو اجتماعی سطح پر نافذ کر پائے۔

امام ابو حنیفہؒ نے جب علم کو قیاس، استحسان، مصالح، عرف اور اجماع کے ساتھ جوڑا تو ان لوگوں کو ناگوار گزرا۔ کیونکہ اُن کی علمی قابلیت عام طور پر اس بات پر تھی کہ "ہم نے سنا ہے"، جبکہ امام اعظمؒ کہتے تھے: "ہم نے سمجھا ہے" — اور یہ فرق ہر تعصب پر بھاری ہے۔

امامؒ پر تنقید کرنے والوں کی اپنی علمی معیار ؟

آج یہ سوال پوچھنا ہمارا حق ہے کہ جو حضرات امام ابو حنیفہؒ کی ذات پر طنز کرتے رہے، ان میں سے کتنے ایسے ہیں جنہوں نے مکمل فقہی نظام مرتب کیا؟ کتنے ایسے ہیں جن کے اصول آج بھی صدیوں بعد زندہ ہیں؟ کتنے ایسے ہیں جن کے شاگردوں نے ان کے علم کو پوری دنیا تک پہنچایا؟

امام ابو حنیفہؒ کی علمی میراث میں نہ صرف ہزاروں مسائل کے جوابات ہیں، بلکہ فقہ اسلامی کا سب سے پہلا جامع، اصولی، اور مسلسل علمی نظام بھی انہی کا مرہونِ منت ہے۔


خاتمہ: اہلِ تعصب کے چہرے، اور ہمارے کردار کا آئینہ

اب جب ہم محدثین کے اس متعصب رویے کا تاریخی جائزہ لیتے ہیں تو ایک تلخ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے — کہ امام اعظم ابو حنیفہؒ کے خلاف الزامات لگانے کا سلسلہ محض چند افراد کی لغزش نہیں، گویا کہ ایک منظم مہم تھی جو ہر دور میں کسی نہ کسی طریقے سے زندہ رکھی گئی۔ امام کی وفات کو صدیاں بیت گئیں، مگر انکی مخالفت کم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ چاہے اعتراض کرنے والے کے پاس معقول وجہ ہو یا نہ ہو چاہے وہ علم و مرتبہ میں امام ابو حنیفہ کا ہم پلہ ہو یا نہ ہو چاہے متعرض امام ابو حنیفہ کی عبارات سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو یا نہ ہو بلکہ جوں جوں وقت گزرتا گیا، تعصب کی آگ اور بھڑکتی چلی گئی۔

کبھی کسی نے امام کو کذاب کہا، تو کسی نے ضعیف راویوں کے جھوٹے اقوال جمع کر کے کتابیں بھر دیں۔ مگر المیہ یہ نہیں کہ وہ کہتے رہے، المیہ یہ ہے کہ انہیں "ثقہ یا صحیح " سمجھ کر دہرايا بھی جاتا رہا۔


آخر میں ایک سوال ہے کہ کیا ہم امانت اور انصاف کے اصول کو بھول چکے ہیں؟

جب امام یحییٰ بن معینؒ اور ابن عبدالبرؒ امام ابو حنیفہؒ کے مدافع بنے... تو ہم کیوں خاموش ہیں؟

تاریخ کے صفحات یہ چیخ چیخ کر بتاتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ پر جو بے جا الزامات لگائے گئے، وہ علمی تحقیق کی روح کے سراسر خلاف تھے۔ مگر اس تعصب کے ماحول میں بھی کچھ ایسے ستارے چمکے جنہوں نے اندھی تقلید نہیں کی، بلکہ امانت و دیانت کا علم بلند رکھا۔

 امام یحییٰ بن معینؒ – جرح و تعدیل کے تاجدار

امام یحییٰ بن معینؒ، جنہیں محدثین کے ہاں سخت گیر نقاد سمجھا جاتا ہے، جب وہ خود یہ اعلان کریں:

"أصحابنا يفرطون في أبي حنيفة وأصحابه

"ہمارے ساتھی ( محدثین ) امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب پر حد سے زیادہ سختی کرتے ہیں۔"

اور جب ان سے پوچھا گیا: "کیا ابو حنیفہ جھوٹ بولتے تھے؟" تو انہوں نے بغیر جھجھک فرمایا:

"كان أنبل من ذلك"  "وہ اس سے بہت بلند تھے!"

جامع بیان العلم و فضله لابن عبد البر، 2/1081

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے: اگر امام ابو حنیفہؒ واقعی ناقابلِ اعتبار ہوتے، تو یحییٰ بن معینؒ جیسے سخت گیر اور محتاط محدث ان کی وکالت کیوں کرتے؟

امام ابن عبدالبرؒ – اہلِ عدل و تحقیق کی صدا

اسی تسلسل میں جب پانچویں صدی میں خطیب بغدادیؒ جیسے محدث تعصب سے بھرے قصے نقل کر رہے تھے، تو اسی زمانے میں حافظ المغرب، امام ابن عبدالبر مالکیؒ نے حضرات اہلِ حدیث کے ان رویوں پر کھل کر تنقید کی:

"أفرط بعض أصحاب الحديث في ذمّ أبي حنيفة، وتجاوزوا الحدّ في ذلك"

"بعض اہلِ حدیث نے امام ابو حنیفہؒ کی مذمت میں بے اعتدالی اور زیادتی کی۔"

 جامع بيان العلم و فضله، 2/1080

اب دیکھیے، یحییٰ بن معینؒ جرح و تعدیل کے امام، اور ابن عبدالبرؒ اہلِ سنت کے محقق امام — دونوں امام ابو حنیفہؒ کے دفاع میں کھڑے ہیں۔

لیکن افسوس!

آج کچھ لوگ جو خود کو سلف صالحین کے پیروکار کہتے ہیں، وہی ان دو جلیل القدر آئمہ کے ان اقوال کو ماننے کے بجائے ان باتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

یہی وہ بصیرت کا فقدان اور تعصب کا اندھیرا ہے، جس نے علمی دیانت کا چہرہ مسخ کر کے رکھ دیا۔

 وقت کی پکار

آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سچ کو سچ مانیں، چاہے وہ ہماری پسند کے مطابق ہو یا نہ ہو۔

ہمیں امام ابو حنیفہؒ کی ذات کو اندھی تنقید سے نہیں، بلکہ عدل و علم کی نظر سے دیکھنا ہو گا — جیسا کہ یحییٰ بن معینؒ اور ابن عبدالبرؒ اور متاخرین میں سے امام مزی، امام ذہبی اور امام ابن حجر نے کیا۔

ہمارا پیغام: ہم حنفی ہیں، ظرف رکھتے ہیں

اب آخر میں ایک بات ہم واضح کر دیں —

مگر ہم، جو فقہِ امام اعظم کے پیروکار ہیں، ہم بھی اُن جیسے سخت نہیں ہیں — ہم نہ تو سفیان ثوریؒ کی طرح کسی کی وفات پر "الحمد للہ" کہتے ہیں، اور نہ حمیدیؒ کی طرح گالم گلوچ پر اترتے ہیں۔ ہم تو حنفی ہیں… امام ابو حنیفہؒ کے پیروکار… ہمارے سینے کشادہ ہیں، ہماری زبانیں آراستہ ہیں، اور ہمارے دل بغض سے پاک ہیں۔

ہم نہ ان کے بدلے میں بددعا کرتے ہیں، نہ ہم ان کے مقام سے انکاری ہیں۔ بلکہ ہم تو وہ لوگ ہیں جو ان محدثین کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں — اس امید پر کہ شاید ان کی یہ لغزشوں کو اللہ معاف فرما دے جن کی پاداش میں انہوں نے امامِ وقت پر ظلم کیا۔

ہاں، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ امام اعظمؒ پر تنقید کرنے والے خود کبھی "علم کی عدالت" میں کھڑے ہوں گے — اور وہاں دلیل ضعیف راویوں کی نہیں، اعمال کی چلے گی۔

سو، ہم ان سب حضرات کے حق میں دعا گو ہیں، مگر ان کی جھوٹی روایتوں، من گھڑت الزامات، اور تاریخی خیانتوں کو نہ کبھی مانا ہے، نہ مانیں گے۔

کیونکہ ہم امام ابو حنیفہؒ کے پیروکار ہیں — اُس امام کے، جس کے علم کے سامنے بغداد کے در و دیوار گواہ ہیں، اور جس کے فقہی اصولوں سے آج بھی ملت اسلامیہ کے کروڑوں افراد اپنی زندگیاں منور کر رہے ہیں۔

ہم ان حضرات کے حق میں دعا گو ہیں کہ اللہ ان کے تعصبات، کج فہمی، اور بغض پر انہیں معاف فرما دے، کیونکہ ہم اپنے امامؒ کے اس اسلوب کے وارث ہیں جس میں "اختلاف" ہوتا ہے، "توہین" نہیں — "علم" ہوتا ہے، "گالم گلوچ" نہیں — "عدل" ہوتا ہے، "انتقام" نہیں۔

لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی اعلان کرتے ہیں کہ ہم ان شاء اللہ امام ابو حنیفہؒ پر لگائے گئے ہر بہتان کو رد کرتے رہیں گے، ہر تعصب کو بے نقاب کرتے رہیں گے، اور ہر نسل کو بتاتے رہیں گے کہ 

تاریخِ اسلام کا سب سے مظلوم مگر سب سے عظیم فقیہ کون تھا — امام ابو حنیفہؒ۔

تعصب کی تاریخ نے امام کا کچھ نہ بگاڑا — البتہ خود  محدثین  کو ضرور بے نقاب کر دیا۔


تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...