محدث و فقیہ امام ابو حنیفہؒ پر مشہور محدثین کرام کا دوہرا / نا انصافی پر مبنی معیار
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تحریر : رئیس صاحب
النعمان سوشل میڈیا سروسز
ایک امام اور محدث و فقیہ کی حیثیت سے امام ابو حنیفہؒ شاید امت کی سب سے مظلوم شخصیت ہیں، کیونکہ جتنا بےوجہ کلام آپ پر ہوا، کسی اور پر نہیں ہوا... اور اگر تحقیق سے کام لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جتنی ضعیف اسناد سے محدثین نے ان پر کلام نقل کیا، کسی اور پر نہیں کیا... امام ابو حنیفہؒ کے معاملے میں اگر دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ محدثین نے بالکل تحقیق سے کام نہیں لیا، بلکہ اگر کہیں کہ انصاف سے کام نہیں لیا تو یہ بات بھی غلط نہیں ہوگی... کیونکہ جتنی ضعیف اسناد سے آپ پر کلام نقل کیا، اسے ایک جگہ جمع کریں تو مکمل ایک کتاب بن سکتی ہے، اور اگر ہم یہ کہیں کہ ہو سکتا ہے ان محدثین کو کسی راوی کے ضعف کے بارے میں معلوم نہ ہوا ہو، اس لئے ضعیف اسناد سے بھی جرح نقل کردی... لیکن ان راویوں کا کیا، جن کے بارے میں محدثین خود سخت کلام یا تو کرتے ہیں یا نقل کرتے ہیں... انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ کم از کم ایسے راویوں سے جرح نقل نہ کی جاتی، لیکن افسوس کہ یہ محدثین کی کافی بڑی زیادتی امام ابو حنیفہؒ پر رہی کہ انہوں نے بہت ضعیف اسناد سے بھی امام ابو حنیفہؒ پر کلام نقل کیا... آج اس پوسٹ میں ہم ان شاء اللہ ایسی ہی زیادتیوں کے بارے میں ذکر کریں گے کہ محدثین نے اگر انصاف اور تحقیق سے کام لیا ہوتا تو ایسی جرح نقل نہ کرتے... اگر عام کلام کو ایک طرف بھی کر دیں، تو جب آپ امام ابو حنیفہؒ کے عقیدے، ان کے ایمان اور دین کے بارے میں جرح نقل کرتے ہیں، تو تب تو کم از کم انصاف اور تحقیق سے کام لے لیں، لیکن افسوس، ایسا دیکھنے کو نہیں ملتا...
یہاں ہم صرف ایک مثال امام ابن حبانؒ کی کتاب "المجروحین" کی دینا چاہتے ہیں، جس میں امام ابن حبانؒ نے 23-24 اسناد سے امام ابو حنیفہؒ پر کلام نقل کیا ہے، اور ان میں سے 19 کی اسناد ضعیف ہیں، اور جن کی اسناد صحیح ہیں، ان سے امام ابو حنیفہؒ کی تضعیف لازم نہیں آتی... کوئی کہہ سکتا ہے کہ جیسا کتاب کا نام (المجروحین) ویسا ہی اسناد سے کلام بھی نقل کیا ہے... اس ایک کتاب سے باقی کی کتابوں کا حال کا احساس ہو جاتا ہے... ساری اسناد کو نقل کرنے سے تو پوسٹ بہت لمبی ہو جائے گی، یہاں صرف مختلف محدثین سے کچھ مثالیں پیش کرتے ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ محدثین بغیر تحقیق اور انصاف کے امام ابو حنیفہؒ کے خلاف کچھ بھی جرح نقل کر دیتے ہیں...
جواب: امام بخاریؒ نے جس شخص سے یہ جرح سنی، اس کا معلوم نہیں کیوں نام ذکر نہیں کیا... پھر ہمیں معلوم نہیں امام بخاریؒ کو کیا ضرورت پیش آئی کہ وہ دو مجہول واسطوں سے محمد بن مسلمہ کا کلام نقل کر رہے ہیں، کیونکہ محمد بن مسلمہ امام بخاریؒ کے استاد ہیں، وہ چاہتے تو براہِ راست ان سے نقل کر سکتے تھے، لیکن دو واسطوں کا سہارا کیوں لینا پڑا، معلوم نہیں...
اب کوئی کہے گا کہ امام بخاریؒ نے یہ بات اپنے استاد سے نہیں سنی ہوگی، اس لئے دو واسطوں سے نقل کر رہے ہیں، تو ہم کہیں گے کہ پھر امام بخاریؒ نے اس شخص کا نام کیوں نہیں لیا، جس سے انہوں نے یہ جرح نقل کی؟
(ب) امام بخاریؒ "ضرار بن صراد" کے واسطے سے اپنی کتاب "تاریخ الکبیر" میں نقل کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ قرآن کو مخلوق سمجھتے تھے... (تاریخ الکبیر 127/2)
جواب: اس ضرار بن صراد کو خود امام بخاریؒ منکر الحدیث کہتے ہیں (الضعفاء عقیلی 222/2)
اور جس راوی کو امام بخاریؒ منکر الحدیث کہتے ہیں، اس سے روایت لینا بالکل جائز نہیں سمجھتے، لیکن معلوم نہیں کیوں اسی راوی سے یہ قول نقل کرتے ہیں...
(ج) امام بخاریؒ اپنی کتاب "تاریخ الاوسط" میں اسماعیل بن عرعرہ سے نقل کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا کہ "جہام بن صفوان" (کافر) کی بیوی ہماری عورتوں کو سکھانے آتی تھی... (تاریخ الاوسط 382/4)
جواب: اول تو یہ اسماعیل بن عرعرہ مجہول ہے، پھر دوسری بات یہ ہے کہ اس نے یہ قول امام ابو حنیفہؒ سے سنا ہی نہیں، جیسا کہ سند دیکھ کر معلوم ہوتا ہے... پھر معلوم نہیں کیوں امام بخاریؒ ایسی بات نقل کرتے ہیں، جبکہ امام ابو حنیفہؒ سے خود منقول ہے کہ وہ جہام بن صفوان کو کافر کہتے تھے...(تاریخ بغداد 515/15)
تو جو شخص کافر ہے، اس کی بیوی سے اپنی عورتوں کو دین سیکھنے کیوں دیں گے؟
2:- امام عقیلی رحمہ اللہ:-
امام عقیلی رحمہ اللہ ضرار بن صراد کے واسطے سے نقل کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ قرآن کے مخلوق ہونے کے قائل تھے.... (الضعفاء عقیلی 92/4)
جواب: امام عقیلی رحمہ اللہ نے اپنی اسی کتاب میں امام بخاری رحمہ اللہ سے ضرار بن صراد کا منکر الحدیث ہونا نقل کیا ہے، تو جو شخص منکر الحدیث ہے اس کے واسطے سے جرح نقل کرنا کیا انصاف ہے؟
3:- امام ابن حبان رحمہ اللہ:-
(الف) امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ابو البختری کے واسطے سے جرح نقل کی کہ امام جعفر صادق رحمہ اللہ نے اپنی اور اپنے خاندانِ نبوی کی طرف سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر لعنت کی… (الجرحین 407/2)
جواب: ابو البختری کا نام وہب بن وہب ہے، یہ کذاب ہے اور خود امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسی کتاب میں اس پر جرح کی ہے کہ یہ ثقات سے موضوع روایات بیان کرتا ہے… (الجرحین 415/2)
اب جو راوی خود آپ کے نزدیک احادیث گھڑتا ہے، اس سے معلوم نہیں کیوں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر (موضوع) جرح نقل کرتے ہیں….
(ب) امام ابن حبان رحمہ اللہ سوید بن عبد العزیز کے واسطے سے نقل کرتے ہیں کہ کسی نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے سور کے گوشت کھانے کے متعلق سوال کیا، تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں… (الجرحین 413/2)
جواب: اس سوید بن عبد العزیز پر خود امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسی کتاب میں جرح کی ہے کہ یہ کثیر الخطا ہے اور اسے فحش قسم کا وہم ہوتا ہے… (الجرحین 445/1)
اب جو شخص اس قسم کا ہو، اس کے واسطے سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح نقل کرنا معلوم نہیں کیوں ضروری تھا….
(ج) امام ابن حبان رحمہ اللہ نے یحییٰ بن عبداللہ بن ماھان کے واسطے سے نقل کیا کہ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے کہا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے بارے میں کہا کہ اس پر پیشاب کر دو… (الجرحین 410/2)
جواب: اگر یہاں تحقیق سے کام لیا گیا ہوتا تو معلوم ہوتا کہ یحییٰ کی امام ابن عیینہ رحمہ اللہ سے نہ ملاقات ہے اور نہ ہی سماع… یعنی یحییٰ اور امام ابن عیینہ رحمہ اللہ کے درمیان انقطاع ہے۔ یعنی یحییٰ جن لوگوں سے روایت کرتا ہے وہ 230 ہجری کے آس پاس کے ہیں جبکہ امام ابن عیینہ رحمہ اللہ کا انتقال 198 ہجری میں ہو گیا تھا… یعنی یحییٰ اور امام ابن عیینہ رحمہ اللہ میں 30 سال کا فاصلہ ہے، اور اس کا امام ابن عیینہ رحمہ اللہ سے سننا ممکن نہیں لیکن اس بات پر غور کیے بغیر اتنی بڑی بات امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف بغیر تحقیق نقل کی جاتی ہے…
4:- امام ابن عدی رحمہ اللہ:-
ویسے دیگر محدثین کے مقابلے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ کا معاملہ کچھ بہتر ہے کہ وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح نقل کرنے کے ساتھ تعدیل بھی نقل کر دیتے ہیں… لیکن افسوس وہ بھی غفلت کر جاتے ہیں… انہوں نے یوسف بن اسباط کے واسطے سے نقل کیا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر مجھے پالیتے (مجھ سے مل لیتے) تو میری باتوں کو اختیار کر لیتے… (الکامل ابن عدی 240/8)
جواب: یوسف بن اسباط کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ اس کی کتابیں دفن ہو گئی تھیں پھر یہ اس طرح حدیث بیان نہیں کر پاتا تھا جیسے کرنا چاہیے تھا… یعنی اس کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ روایت کس طرح بیان کرنی چاہیے…. (الکامل 497/8)
اور وہی غلطی اس سے یہاں ہوئی… دراصل امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے یہ بات امام عثمان البتی رحمہ اللہ کے بارے میں کہی تھی کہ "اگر البتی مجھے پا لیتے تو میری باتیں اختیار کر لیتے" جیسا کہ بقول امام کوثری رحمہ اللہ محمد بن محمود الجزائری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں نقل کیا… دراصل پہلے زمانے میں عربی الفاظ پر نقطے نہیں ہوتے تھے تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا البتی لیکن یوسف نے بغیر نقطوں کے سمجھا النبی … اب چونکہ بغیر نقطوں کے دونوں (البتي اور النبي) ایک جیسے نظر آتے ہیں اس لیے یوسف نے البتی کو نبی سمجھ لیا اور پھر روایت بالمعنی بیان کرتے ہوئے کسی سند میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرنے لگا… اگر صحیح تحقیق کی جاتی تو یہ جرح نقل کرنے کی ضرورت نہ پڑتی…
5:- امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ:-
(الف) امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ابوالفضل محمد بن عبداللہ شیبانی کے واسطے سے نقل کیا کہ امام عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ دجال کے فتنے کے بعد نہیں جانتا جو ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے سے بڑا فتنہ ہو…. (تاریخ بغداد 546/15)
جواب: دراصل دجال ابوالفضل خود ہے اور یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ خود خطیب نے نقل کیا اور خود خطیب کا کہنا ہے کہ یہ احادیث گھڑتا تھا… اب جو شخص خود دجال ہو اس کے واسطے سے جرح نقل کرنا کیا انصاف ہے؟
(ب) امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں نقل کیا کہ ان سے پوچھا گیا کہ ایک شخص جو اپنے باپ کو قتل کر دے اور اپنی ماں سے نکاح کر لے اور باپ کی کھوپڑی میں شراب پئے؟ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا وہ مومن ہے (تاریخ بغداد 511/15)
جواب: اس کی سند کا راوی علی بن عمر بن محمد المشہری ہے ہمیں نہیں معلوم کہ کسی محدث نے اس کی توثیق کی ہو… اس کا استاد محمد بن جعفر العدوی حدیثوں کو بیان کرنے میں غلطی کر جاتا تھا، پھر اس کا استاد احمد بن عبید مناکیر بیان کرتا ہے جیسا کہ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا اور اس کی روایات کا کوئی متابع نہیں ہوتا تھا جیسا کہ ابو احمد الحاکم رحمہ اللہ نے فرمایا… لیکن امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ پھر بھی ایسی سند سے ایسی باتیں نقل کرتے ہیں….
ان تمام حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ محدثین کے پاس جس طرح اور جیسی سند سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کلام آیا اسے بغیر تحقیق اور انصاف کے نقل کر دیا گیا…
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں