اعتراض نمبر 105: کہ محمد بن علی بن النعمان شیعہ نے جس کو شیطان الطاق کہا جاتا تھا اس نے ابوحنیفہ کو گفتگو میں لاجواب کر دیا تھا۔
اعتراض نمبر 105:
کہ محمد بن علی بن النعمان شیعہ نے جس کو شیطان الطاق کہا جاتا تھا اس نے ابوحنیفہ کو گفتگو میں لاجواب کر دیا تھا۔
أخبرنا أبو حازم عمر بن أحمد بن إبراهيم العبدوي الحافظ - بنيسابور - أخبرنا محمد بن أحمد بن الغطريف العبدي - بجرجان - حدثنا محمد بن علي البلخي، حدثني محمد بن أحمد التميمي - بمصر - حدثنا محمد بن جعفر الأسامي قال: كان أبو حنيفة يتهم شيطان الطاق بالرجعة، وكان شيطان الطاق يتهم أبا حنيفة بالتناسخ، قال: فخرج أبو حنيفة يوما إلى السوق، فاستقبله شيطان الطاق ومعه ثوب يريد بيعه. فقال له أبو حنيفة: أتبيع هذا الثوب إلى رجوع علي؟ فقال: إن أعطيتني كفيلا أن لا تمسخ قردا بعتك، فبهت أبو حنيفة. قال: ولما مات جعفر بن محمد، التقى هو وأبو حنيفة، فقال له أبو حنيفة: أما إمامك فقد مات، فقال له شيطان الطاق: أما إمامك فمن المنظرين إلى يوم الوقت المعلوم.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ خطیب دیوانہ ہو گیا ہے کیونکہ اس نے ابو حنیفہ کے بارہ میں وہ باتیں شروع کر دی ہیں جو باتیں شیطان الطاق جیسے آدمی کی طرف منسوب کی گئی ہیں تاکہ خطیب اپنے غصہ کو ٹھنڈا کرے۔
اور ادب ہمیں مانع ہے اس بات سے کہ ہم وہ کچھ نقل کریں جو شیطان الطاق کے ساتھیوں نے اس (خطیب) کے امام (شافعی) کے متعلق کہی ہیں۔
اور بحار الانوار اور روضات الجنات میں اس قسم کی بہت سی باتیں مذکور ہیں۔
کیا ان باتوں میں دلوں کی شفاء ہے۔ ہرگز نہیں بلکہ اس میں تو دلوں کی بیماریاں ہیں۔
اور اس خبر کا راوی ابن العطریف کی روایات کو محدثین نے منکر کہا ہے۔ جیسا کہ لسان المیزان میں ہے۔اور محمد بن علی بن الحسین البلخی الہروی کی اکثر روایات منکر ہیں۔
اور محمد بن احمد التميمي العامری المصری کذاب تھا۔ کتابوں سے موضوع روایات کرتا تھا۔ جیسا کہ ابن یونس نے کہا ہے اور یہ بات دیکھتے ہوئے کہ اس کی وفات 343ھ میں ہے تو اس کے شیخ کی ولادت تیسری صدی کے نصف آخر میں ہی ہوگی تو اس کے شیخ محمد بن جعفر الاسامی اور شیطان الطاق کے درمیان بیابان ہیں اور شیطان الطاق تو ابوحنیفہ کا ہم عصر ہے۔
سند میں ظاہرا تو اتصال نہیں۔ ہاں ایسا کوئی رابطہ ہو جو شیاطین کے درمیان ہوتا ہے تو وہ الگ بات ہے۔
ہم شیاطین سے بھی اور جن پر یہ اپنی روایات میں اعتماد کرتے ہیں ان سب سے اللہ تعالی کی پناہ مانگتے ہیں[1]۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ یہ روایت ابن جوزی رحمہ اللہ نے بھی نقل کی ہے ( أخبار الظراف والمتماجنين ص 73 ) ،سند یہی تاریخ بغداد والی ہے جو کہ انتہائی ناکارہ ہے
▪︎محمد بن جعفر الأسامي نا معلوم ہیں ۔
▪︎محمد بن احمد سے مراد اگر مُحَمَّد بن أَحْمد بن عبد الْجَبَّار بن هَاشم العامري الْمصْرِيّ ہیں تو اس پر کذب اور وضع کی جرح موجود ہے
( لسان الميزان ت أبي غدة ٦/٥٠٤ )
اگر اس سے مراد "محمد بن أحمد بن الهيثم بن صالح بن عبد الله بن الحصين بن علقمة بن لبيد بن نعيم بن عطارد بن حاجب بن زرارة، أبو الحسن التميمي المصري فروجة" ہیں تو وہ ثقہ ہیں لیکن ان کی وفات 304ھ میں ہوئی ہے ، اس لحاظ سے اگر وہ 60 یا 70 سال پہلے بھی اپنے شیخ سے روایت کریں (یعنی 240ھ آس پاس)
تب بھی سند میں انقطاع ہے کہ امام صاحب رحمہ اللہ متوفی 150ھ تک سند نہیں پہنچتی۔
▪︎محمد بن علی البلخی کون ہیں ؟ یہ بھی نا معلوم ہیں ۔
غیر مقلدین کے معلمی یمانی لکھتے ہیں
فالحاصل أننا لم نعرف التميمي ولا الأسامي، ولم نتحقق من هو البلخي؟
( التنکیل : آثار عبد الرحمن بن يحيى المعلمي اليماني 10/777)
کہ محمد بن علی البلخی ، محمد بن جعفر الاسامی اور محمد بن احمد التمیمی تینوں کو میں نہیں جانتا کہ کون ہیں۔
لہذا اس جیسی واہی سند سے خطیب بغدادی کا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر طعن نقل کرنا سراسر تعصب ہے ، اور امام صاحب پر اعتراض باطل ہے۔
اس روایت کے ذیل میں عظیم حنفی سلطان جناب الملك المعظم أبي المظفر عيسى بن أبي بكر بن أيوب الحنفي لکھتے ہیں :
قد تقدم القول فيما مضى أن أبا حنيفة وأصحابه على غير هذا المذهب فكيف كان يليق بالخطيب أن يقول هذا المحفوظ ويحيل على رجل يخالفه أصحاب أبى حنيفة كلهم، ثم إن شيطان الطاق كان رافضيا وقد كان يسب كبار الصحابة، فلأبى حنيفة رضى الله عنه أسوة بأبى بكر وعمر رضى الله عنهما، والحمد لله الذي بين لك صحة ما ذكرت من أن الخطيب لم يكن غرضه الرد على أبى حنيفة، وإنما أراد الرد على النبي عليه الصلاة وأفضل السلام وأصحابه، فلذلك رجح قول من يبغض الصحابة ويسبهم.
یہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب اس (غلط)مذہب پر نہیں تھے، تو پھر خطیب کے لیے کیسے مناسب تھا کہ وہ یہ روایت بیان کرے اور اسے ایک ایسے شخص(رافظی شیطان الطاق) کی طرف منسوب کرے جس سے امام ابو حنیفہ کے تمام اصحاب اختلاف رکھتے تھے؟
پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ شیطان الطاق رافضی تھا اور وہ بڑے صحابہ کرام کی توہین کرتا تھا۔
تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے لیے، ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی طرح ایک نمونہ موجود ہے۔
الحمد للہ جس نے آپ پر واضح کیا کہ جو کچھ بیان کیا گیا، اس کی صحت ظاہر ہو گئی کہ خطیب کا مقصد ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مخالفت کرنا نہیں تھا، بلکہ اس کا مقصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے صحابہ کی مخالفت کرنا تھا۔
اسی لیے اس نے ان لوگوں کی رائے کو ترجیح دی جو صحابہ سے بغض رکھتے ہیں اور ان کی توہین کرتے ہیں۔
( السهم المصيب في الرد على الخطيب ص 86 - ط العلمية )
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں