بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
امام ابو حنیفہؒ پر جرح: ایک تحقیقی جائزہ – حصہ اول
ثقہ راویوں کا کردار
(پیشکش :النعمان سوشل میڈیا سروسز)
امام ابو حنیفہؒ مخالفین کے ہمیشہ سے نشانہ رہے ہیں، چاہے تنقید کرنے والا کوئی بڑا امام ہو یا کوئی عام راوی۔ جتنی بےوجہ جرح امام ابو حنیفہؒ پر کی گئی ہے شاید کسی اور پر نہیں ہوئی... اور ضروری نہیں کہ جرح کرنے والے کے پاس جرح کی کوئی مناسب وجہ ہو۔ اگر ضعیف اسناد کی بات نہ بھی کریں تو ثقہ راوی کا امام ابو حنیفہؒ پر غلط بیانی کرنا، غلط نسبت کرنا، یہاں تک کہ ثقہ راویوں کی طرف سے سند و متن میں بھی کمی زیادتی دکھائی دیتی ہے، جن کا ذکر آج ان شاء اللہ ہم کریں گے کہ کس طرح ثقہ راوی بھی امام ابو حنیفہؒ کے معاملے میں غلط طریقے سے پیش آتے ہیں۔
مثال نمبر ۱:
أخبرنا محمد بن الحسين بن الفضل القطان , قال أخبرنا عبد اللہ بن جعفر بن درستويہ , قال حدثنا يعقوب بن سفيان , قال حدثني علي بن عثمان بن نفيل , قال حدثنا أبو مسهر , قال حدثنا يحيى بن حمزة , وسعيد يسمع , أن أبا حنيفة قال : لو أن رجلا عبد هذه النعل يتقرب بها إلى الله , لم أر بذلك بأسا , فقال سعيد : هذا الكفر صراحا
یحییٰ بن حمزہؒ نے بیان کیا اور سعید بن عبدالعزیزؒ سن رہے تھے کہ یحییٰ نے فرمایا کہ امام ابو حنیفہؒ نے کہا کہ اگر کوئی شخص اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے جوتے کی عبادت کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس پر سعید بن عبدالعزیزؒ نے کہا یہ تو کفر ہے...
(تاریخ بغداد ت بشار 509/15)
جواب:
یہ امام ابو حنیفہؒ پر بہتان لگایا گیا ہے۔ یحییٰ بن حمزہؒ جو کہ روایت حدیث میں ثقہ ہیں، لیکن یہاں غلط بیانی کر رہے ہیں۔ اب اگر کوئی کہے کہ غلط بیانی کی کیا دلیل ہے تو ہم کہیں گے پہلے اس قول کے صحیح ہونے کی دلیل موجود ہونی چاہیے۔ اگر اس کے سچ ہونے کی دلیل نہیں تو یہ بہتان اور غلط اپنے آپ بن جاتا ہے۔
اعتراض کرنے والوں سے ہم سوال کرتے ہیں:
1. کیا یہ قول یحییٰ بن حمزہؒ نے امام ابو حنیفہؒ سے خود سنا ہے؟ (جواب: نہیں)
2. کیا یحییٰ بن حمزہؒ کے علاوہ کوئی اور یہ بات نقل کرتا ہے؟ (جواب: نہیں)
3. اہل سنت کے کسی امام کو چھوڑیں، کسی باطل فرقے کے عالم کو بھی چھوڑیں، کیا باطل فرقے کے کسی جاہل کا بھی یہ عقیدہ ہو سکتا ہے؟ (جواب: نہیں)
تو جو عقیدہ کسی باطل فرقے کے جاہل کا بھی نہیں ہو سکتا، اس عقیدے کی نسبت یحییٰ بن حمزہؒ اہل سنت کے امام کی طرف کیسے کر سکتے ہیں؟
دراصل ہمیں لگتا ہے یہ امام ابو حنیفہؒ کے ایکشن کا ری ایکشن ہے، کیونکہ جیسا کہ امام ابن ندیمؒ نے اپنی کتاب الفہرست میں لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے قدریوں کے رد میں "رد علی القدریہ" نام کی کتاب لکھی ہے اور یحییٰ بن حمزہ کا تعلق اسی فرقے سے ہے، اس لیے اس نے ایسی غلط بات امام ابو حنیفہؒ پر باندھی ہے۔
لیکن حیرت ہے کہ سعید بن عبدالعزیزؒ بغیر تحقیق کے امام ابو حنیفہؒ کی طرف کفر کی نسبت کیسے کر رہے ہیں۔
یہاں ایک بات یہ بھی قابل غور ہے کہ یحییٰ سے یہ قول نقل کرنے والے ابو مسہر عبدالاعلی بن مسہرؒ ہیں اور وہ 140 ہجری میں پیدا ہوئے ہیں، جیسا کہ امام ذہبیؒ نے تاریخ الاسلام میں ان کے ترجمے میں لکھا۔ تو اگر ابو مسہرؒ نے یہ قول 20 سال کی عمر میں بھی یحییٰ سے سنا ہو تو اس کا مطلب یہ 160 ہجری کا واقعہ ہے، یعنی امام ابو حنیفہؒ کے انتقال کے سالوں بعد کا، یعنی سننے والا خود امام ابو حنیفہؒ سے اس کی تصدیق بھی نہیں کر سکتا.
مثال نمبر 2:-
حدثنا عبد الله بن أحمد قال حدثنا محمد بن سهل بن عسكر قال حدثنا أبو صالح الفراء قال سمعت أبا إسحاق الفزاري يقول: كان أبو حنيفة مرجئاً يرى السيف.
ابو اسحاق الفزاریؒ کا کہنا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ (امت محمدیہ) پر تلوار (ان کا قتل عام) جائز سمجھتے تھے…
(الضعفاء العقیلی 283/4)
جواب:- یہ بھی امام ابو حنیفہؒ پر بہتان ہے کیونکہ امام ابو حنیفہؒ ظالم حکمران (بادشاہ) کے خلاف خروج (بغاوت) کے تو قائل تھے لیکن امت میں قتل عام کے نہیں، کیونکہ ظالم بادشاہ کے خلاف امام ابو حنیفہؒ سے پہلے بھی کئی بار بغاوت اور خروج ہوا ہے اور اگر صحابہؓ کی بات نہ بھی کریں تو کئی تابعینؒ اس میں شہید ہوئے ہیں۔ تو کیا اس کا مطلب وہ سب بھی امت پر تلوار جائز سمجھتے تھے؟
اس بات کی نسبت کرنے والا اور اسے دوسرے لوگوں میں پھیلانے والا ابو اسحاق الفزاریؒ ہی ہے کیونکہ اس کا بھائی بادشاہ کے خلاف بغاوت کی وجہ سے شہید کر دیا گیا تھا اور الفزاریؒ اس کا ذمہ دار امام ابو حنیفہؒ کو مانتا تھا۔ اس لیے اس نے ان کے خلاف یہ بات چلانی شروع کر دی کہ وہ مسلمانوں پر تلوار کو (چلانا) جائز سمجھتے ہیں…
مثال 3:-
أخبرنا أبو القاسم عبد الرحمن بن محمد بن عبد الله السراج - بنيسابور - أخبرنا أبو الحسن أحمد بن محمد بن عبدوس الطرائفي، حدثنا عثمان بن سعيد الدارمي، حدثنا محبوب بن موسى الأنطاكي قال: سمعت أبا إسحاق الفزاري يقول: سمعت أبا حنيفة يقول: إيمان أبي بكر الصديق، وإيمان إبليس واحد، قال إبليس يا رب، وقال أبو بكر الصديق يا رب. قال أبو إسحاق: ومن كان من المرجئة ثم لم يقل هذا. انكسر عليه قوله.
أخبرنا ابن الفضل، أخبرنا عبد الله بن جعفر، حدثنا يعقوب بن سفيان، حدثنا أبو بكر الحميدي عن أبي صالح الفراء عن الفزاري قال: قال أبو حنيفة: إيمان آدم، وإيمان إبليس واحد. قال إبليس: * (رب بما أغويتني) * [الحجر 39]، وقال: * (رب فأنظرني إلى يوم يبعثون) * [الحجر 36] وقال آدم: * (ربنا ظلمنا أنفسنا) * [الأعراف 23].
ابو اسحاق الفزاریؒ کے ہی واسطے سے یہ بات بھی منقول ہے، اس کا کہنا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک حضرت ابو بکرؓ اور ابلیس کا ایمان ایک جیسا ہے کیونکہ حضرت ابو بکرؓ بھی کہتے ہیں یا رب اور شیطان بھی کہتا ہے یا رب… الفزاری یہیں نہیں رکا بلکہ حضرت آدمؑ اور شیطان کا بھی ایمان ایک جیسا ہے، اس قول کی نسبت بھی امام ابو حنیفہؒ کی طرف کر دی…
(تاریخ بغداد 509/15)
جواب:
ابو اسحاق الفزاریؒ کی باتیں حجت نہیں کیونکہ وہ امام ابو حنیفہؒ سے عداوت رکھنے والا ہے جس کی وجہ اوپر بیان کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ الفزاریؒ سے یہ قول نقل کرنے والا ابی صالح الفراء یعنی محبوب بن موسیؒ اگرچہ روایت حدیث میں ثقہ لیکن حکایات نقل کرنے میں حجت نہیں، سوائے کسی کتاب کے جیسا کہ امام ابو داؤدؒ نے فرمایا۔ (سوالات ابی عبید الآجری 258/2)
یہ تو ہوئی وہ باتیں جن میں ثقہ راویوں نے غلط نسبت امام ابو حنیفہؒ کی طرف کی تھی، اب کچھ وہ اقوال بھی دیکھ لیتے ہیں جن میں ثقہ راویوں کی طرف سے سند و متن میں کمی یا زیادتی ملتی ہے یا اپنے سے زیادہ ثقہ کی مخالفت…
مثال نمبر 4:-
حدثنا أبو بكر الأعين عن الحسن بن ربيع قال: ضرب ابن المبارك على حديث أبي حنيفة قبل أن يموت بأيام يسيرة.
امام احمد بن حنبلؒ کے بیٹے امام عبداللہؒ ابو بکر العیونؒ کے واسطے سے امام ابن مبارکؒ کے شاگرد سے نقل کرتے ہیں کہ امام ابن مبارکؒ نے انتقال سے کچھ دن پہلے امام ابو حنیفہؒ کی حدیث مٹانے کا حکم دیا
[العلل ومعرفت الرجال 269]
لیکن یہی بات جب تاریخ بغداد میں آ جاتی ہے تو وہاں امام عبد اللہ رحمہ اللہ سے اوپر امام احمد رحمہ اللہ کا واسطہ جُڑ (Add) جاتا ہے یعنی وہاں امام عبداللہ اپنے والد امام احمد رحمہ اللہ سے اور وہ ابو بکر الاعین سے یہ قول نقل کرتے ہیں اور اس زیادتی کی طرف امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ اور محقق بشار عواد بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس سند میں امام احمد رحمہ اللہ کے واسطے کی زیادتی ہے… یعنی کسی راوی نے امام احمد رحمہ اللہ کے نام کی زیادتی کر دی…
مثال نمبر 5:-
حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن علي بن مخلد الوراق لفظا، قال: في كتابي عن أبي بكر مُحَمَّد بن عبد الله بن صالح الأبهري الفقيه المالكي، قال: سمعت أبا بكر بن أبي داود السجستاني، يوما وهو يقول لأصحابه: ما تقولون في مسألة اتفق عليها مالك وأصحابه، والشافعي وأصحابه، والأوزاعي وأصحابه، والحسن بن صالح وأصحابه، وسفيان الثوري وأصحابه، وأحمد بن حنبل وأصحابه؟ فقالوا له: يا أبا بكر، لا تكون مسألة أصح من هذه، فقال: هؤلاء كلهم اتفقوا على تضليل أبي حنيفة
ابو بکر ابن ابی داؤد رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب، امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب، امام اوزاعی رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب، امام حسن بن صالح رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب، امام سفیان ثوری رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب، امام احمد رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی گمراہی پر متفق تھے…
(تاریخ بغداد 527/15)
جواب: – سب سے پہلی بات ابو بکر ابن ابی داؤد رحمہ اللہ کی ان میں سے کسی امام سے ملاقات نہیں… بلکہ امام احمد رحمہ اللہ کو چھوڑ کر یہ سب محدثین ابو بکر ابن ابی داؤد کے پیدا ہونے سے پہلے ہی انتقال فرما چکے تھے، اس لیے چونکہ سند میں انقطاع ہے اس لیے حجت نہیں لیکن ہمارا اصل مقصد اس کے متن میں بدلاؤ کی طرف ہے۔ کچھ ایسی ہی بات امام ابن عدی رحمہ اللہ نے الکامل میں بھی ابن ابی داؤد سے نقل کی ہے لیکن وہاں الفاظ ہیں کہ یہ لوگ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کلام کرتے تھے۔
سمعت ابن أبي داود يقول الوقيعة في أبي حنيفة جماعة من العلماء لان امام البصرة أيوب السختياني وقد تكلم فيه وإمام الكوفة الثوري وقد تكلم فيه وامام الحجاز مالك وقد تكلم فيه وامام مصر الليث بن سعد وقد تكلم فيه وامام الشام الأوزاعي وقد تكلم فيه وامام خراسان عبد الله بن المبارك وقد تكلم فيه فالوقيعة فيه إجماع من العلماء في جميع الأفاق أو كما قال.
اب یہ کلام جائز تھا یا نہیں اس سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف ہوتی ہے یا نہیں اس کی کوئی وضاحت نہیں… یعنی ایک بات جب امام ابن عدی رحمہ اللہ جیسا ثقہ ثبت محدث نقل کرتا ہے تو وہاں الفاظ ہوتے ہیں کہ یہ محدثین امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کلام کرتے تھے لیکن یہی بات جب تاریخ بغداد میں آ جاتی ہے اور سند میں کچھ راوی زیادہ ہو جاتے ہیں تو الفاظ ہو جاتے ہیں کہ گمراہی پر متفق تھے…
مثال نمبر 6:-
قال نا أحمد بن الحسن الحافظ قال نا عبد الله بن أحمد بن إبراهيم الدورقي قال سئل يحيى بن معين وأنا أسمع عن أبي حنيفة فقال ثقة ما سمعت أحدا ضعفه هذا شعبة بن الحجاج يكتب إليه أن يحدث ويأمره وشعبة شعبة.
امام یحییٰ ابن معین رحمہ اللہ سے ان کے مختلف شاگرد امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تعریف و توثیق، ان کا دفاع اور ثقہ ہونے کی بات نقل کرتے ہیں جس کے لیے ان کے شاگردوں کے واسطے سے تاریخ ابن معین اور امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی الانتقاء دیکھی جا سکتی ہیں۔
لیکن ان کے ایک واحد شاگرد احمد ابن ابی مریم تاریخ بغداد میں امام ابن معین رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی حدیث نقل نہ کرنے کی بات نقل کرتے ہیں جو کہ ایک طرح سے جرح ہے۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَد بن عَبْد الله الأَنْمَاطِي، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن المُظَفَّر، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَليّ بن أَحْمَد بن سُلَيْمَان المَصْرِيّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَد بن سَعْد بن أَبِي مريم، قَالَ: وسَأَلْتُهُ، يعني: يَحْيَى بن معين عن أَبِي حنيفة، فَقَالَ لا يكتب حديثه.
اب کوئی کہے گا کہ اس میں عجیب کیا ہے، عجیب یہ ہے کہ احمد ابن ابی مریم صرف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر نہیں بلکہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ اور امام اسد بن عمرو رحمہ اللہ کے بارے میں بھی ان جرحوں کو نقل کرنے میں اکیلا ہے، کوئی اور شاگرد امام ابن معین رحمہ اللہ کے واسطے سے جرح نقل نہیں کرتا… اور اس بات کی نشاندہی خود امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے امام ابو یوسف رحمہ اللہ اور امام اسد بن عمرو رحمہ اللہ کے تراجم میں کر دی ہے کہ امام ابن معین رحمہ اللہ سے دوسرے شاگرد احمد بن ابی مریم کے (مقابلے) توثیق ہی نقل کرتے ہیں۔
أخبرنا أحمد بن عبد الله الأنماطي أخبرنا محمد بن المظفر أخبرنا على بن أحمد ابن سليمان المصري حدثنا أحمد بن سعد بن أبي مريم قال وسألته - يعنى يحيى بن معين - عن أسد بن عمرو فقال: كذوب ليس بشئ، لا يكتب حديثه.
قلت: قد روى غيره عن يحيى بن معين خلاف هذا القول.
(تاريخ بغداد - الخطيب البغدادي - ج ٧ - الصفحة ١٩)
أَخْبَرَنِي أَحْمَد بْن عَبْد الله الأنماطي، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بْن المظفر الحافظ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَلِيّ بْن أَحْمَد بْن سُلَيْمَان الْمِصْرِيّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَد بْن سعد بْن أبي مريم، قَالَ: وسألته، يعني: يَحْيَى بْن معين، عَن أبي يوسف، فقال: لا يُكْتَبُ حديثه قلت: قد رَوى غير ابن أبي مريم، عَن يَحْيَى، أَنَّهُ وثقه.
(تاریخ بغداد ت بشار 16/378)
مثال 7:-
جواب: – امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی ذات اس سے کافی بلند ہے کہ وہ کسی کی کتابیں چرائیں کیونکہ ایک تو ان کی مالی حیثیت بہت اچھی تھی وہ تو دیگر محدثین کو تحفے بھیجا کرتے تھے اور دوسرا یہ کہ آپ کے تقویٰ عبادت گزاری کے تو مخالفین بھی قائل ہیں، تو یہ ممکن نہیں کہ ایسا آدمی چوری کرے۔
دوسری بات یہ کہ اسی کتاب کے اس کے بعد والے قول میں وضاحت ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے وہ کتابیں اخذ کی تھیں یعنی حاصل کی تھیں۔
وجہ یہ ہے کہ سند کے راوی الجوزجانی کی بات اہل کوفہ کے خلاف قبول نہیں جیسا کہ امام ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھا ہے۔ اس کے علاوہ الجوزجانی ناصبی بھی ہیں اس لیے ان کا قول اہل سنت کے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں حجت نہیں…
اسی بابت مزید مکمل تفصیل کیلئے ، اس لنک پر کلک کریں۔
یہاں ہم الجوزجانی کے واسطے سے ایک اور قول نقل کرنا بہتر سمجھتے ہیں جو انہوں نے امام اعمش رحمہ اللہ کے بارے میں اپنی کتاب احوال الرجال میں نقل کیا ہے کہ "امام اعمش رحمہ اللہ نے اپنے آخری وقت میں اللہ سے توبہ کی جو احادیث انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف وضع کی (من گھڑت بنائیں) تھیں۔"
قال الأعمش حين حضرته الوفاة: أستغفر الله وأتوب إليه من أحاديث وضعناها في عثمان
(احوال الرجال 326)۔
اس کتاب کے محقق عبدالعلیم بستوی صاحب نے اس قول کی وضاحت کی ہے جس کا خلاصہ پیش خدمت ہے:
"اللہ الجوزجانی پر رحم کرے، ان کی شان کے لائق نہیں کہ وہ اس طرح کی باتیں اپنی کتاب میں نقل کریں... اس طرح کی بات (سوائے) الجوزجانی کے کسی نے نقل نہیں کی۔ وضع کے مطلب یہاں ہوں گے کہ ہم نے جمع کی ہیں..."
اس بات کی تائید اس قول سے بھی ہوتی ہے جو حضرت مغلطائی رحمہ اللہ نے اکمال تہذیب الکمال (97/6) میں نقل کیا ہے، اس میں وضع کی جگہ جمع کا لفظ ہے۔ یعنی امام اعمش رحمہ اللہ نے اللہ سے توبہ کی جو احادیث انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے (خلاف) جمع کی تھیں۔
مثال نمبر 8 :-
أخبرنا أبو نعيم الحافظ، أخبرنا عبد الله بن جعفر بن فارس - فيما أذن لي أن أرويه عنه - قال: حدثنا هارون بن سليمان، حدثنا علي بن المديني قال: سمعت سفيان بن عيينة يقول: كان أبو حنيفة له مروءة، وله صلاة في أول زمانه. قال سفيان: اشترى أبي مملوكا فأعتقه، وكان له صلاة من الليل في داره، فكان الناس ينتابونه فيها يصلون معه من الليل، فكان أبو حنيفة فيمن يجيء يصلي.
امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ شروع زمانے میں بہت مروت (رحمدل/انسانیت والے) اور بہت نماز پڑھنے والے تھے۔
(گویا راوی بیان کرنا چاہتا ہے کہ کثرت عبادت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی شروع زمانے کی بات ہے)۔
جواب:- امام سفیان رحمہ اللہ سے جو بات صحیح سند سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ
سفيان بن عيينة يقول: رحم الله أبا حنيفة كان من المصلين - أعني أنه كان كثير الصلاة -
"اللہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر رحم کرے، وہ کثرت سے نماز پڑھنے والے تھے"
(تاریخ بغداد 482/15)۔
اب بات تو اصل یہ تھی کہ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کہہ رہے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کثرت سے نماز پڑھنے والے تھے، لیکن راوی نے بیان کیا کہ "شروع زمانے میں" (کثرت سے) نماز پڑھنے والے تھے۔
جو قول ہم نے پہلے پیش کیا، وہ امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کے واسطے سے ہے لیکن پیچھے کے کسی راوی نے "شروع زمانے" کی بات اپنے پاس سے بیان کردی۔ کیونکہ امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کے ہی واسطے سے امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے حسن سند کے ساتھ (جو تاریخ بغداد کی دوسری سند کے ساتھ مل کر صحیح ہو جاتی ہے) امام ابن عیینہ رحمہ اللہ کا قول نقل کیا کہ "امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ مروت والے اور کثرت سے نماز پڑھنے والے تھے۔"
مثال نمبر 9 :-
وأما القول بخلق القرآن، فقد قيل: إن أبا حنيفة لم يكن يذهب إليه، والمشهور عنه أنه كان يقوله
واستتيب منه. فأما من روى عنه نفى خلقه.
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے تاریخ بغداد میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قرآن کے مخلوق ہونے کے تعلق سے لکھا ہے کہ اس کا انکار کیا گیا ہے اور مشہور یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ قرآن کے مخلوق ہونے کے قائل تھے اور ان سے توبہ کرائی گئی۔ پھر پہلے وہ اقوال نقل کیے جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے قرآن کے مخلوق ہونے کے انکار میں ہیں
(تاریخ بغداد ت بشار 516/15)۔
لیکن امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی یہ بات جب امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب
المنتظم میں نقل کی تو راوی نے صرف اتنا بیان کیا کہ
أخبرنا عبد الرحمن بن محمد قال: أخبرنا أبو بكر أحمد بن علي الحافظ قال: المشهور عن أبي حنيفة أنه كان يقول بخلق القرآن ثم استتيب منه .
"خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مشہور یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ قرآن کے مخلوق ہونے کے قائل تھے اور ان سے توبہ کرائی گئی۔"
(المنتظم 8/133)
اب یہاں دو باتیں قابل غور ہیں:
1:- خطیب کا قول ادھورا بیان کیا گیا (چاہے وہ راوی نے ادھورا بیان کیا یا خود خطیب نے )، جبکہ تاریخ بغداد میں مکمل بات ہے۔
2:- اور اہم بات یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے تعلق سے یہ بات ایسی چلائی گئی کہ 463 ہجری میں انتقال فرمانے والے خطیب بغدادی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ "یہ مشہور ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ قرآن کے مخلوق ہونے کے قائل تھے اور ان سے توبہ کرائی گئی،" جبکہ کسی صحیح سند سے یہ بات ثابت ہی نہیں۔ صحیح سند سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قرآن کا غیر مخلوق ہونے کا قائل ہونا ثابت ہے۔
لیکن اسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف پروپیگنڈا کہیں یا ضعیف اقوال کو ایک سے دوسرے تک پہنچانے کی بات، یہ بات اتنی مشہور ہوگئی کہ خطیب کو بھی یہی کہنا پڑا کہ "مشہور یہی ہے" ، جبکہ صحیح سندوں سے بات اس کے خلاف ثابت ہے۔
اب کوئی یہ کہے کہ جو بات اتنی مشہور ہے تو وہ ضرور ثابت بھی ہوگی، تب ہی تو مشہور ہے۔ ان لوگوں سے ہم پوچھیں گے کہ "مشہور تو ایک بڑھیا کا حضور ﷺ پر کوڑا پھینکنا بھی ہے، مشہور تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا اذان نہ دینا اور سورج کا طلوع نہ ہونا بھی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ واقعات یا اس جیسے دوسرے واقعات ثابت ہیں؟"
معلوم ہوا کسی بات کا مشہور ہونا اس کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں۔
ان تمام حوالوں سے معلوم ہوا کہ ثقہ راوی بھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر نہ صرف جھوٹ بولتے ہیں بلکہ ان کے ذریعے سند میں کمی زیادتی یا اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کی مخالفت بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔
پوسٹ زیادہ لمبی نہ ہوجائے اس لیے ہم نے مزید حوالے نقل نہیں کیے، ورنہ ایسی اور بھی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔
اب کوئی یہ کہے چونکہ دونوں طرف ثقہ راوی ہیں تو ہوسکتا ہے یہ بات بھی ثابت ہو اور دوسری بھی۔ اس پر ہم کہیں گے کہ یہ فرق عام طور پر تب ہی دیکھنے کو کیوں ملتا ہے جب سند میں راوی زیادہ ہوتے ہیں؟ یعنی جب نقل کرنے والا ایک راوی ہو تو بات الگ ہوتی ہے اور جب سند میں راوی زیادہ ہوں تو بات الگ ہوتی ہے۔
کیا کوئی نقل کرنے والا امام ابن عدی رحمہ اللہ سے زیادہ ثقہ ہے؟ کیا کوئی نقل کرنے والا امام عبداللہ بن احمد رحمہ اللہ سے زیادہ ثقہ ہے؟ یا احمد بن ابی مریم امام ابن معین رحمہ اللہ کے دیگر شاگردوں سے زیادہ ثقہ ہے؟
ویسے بھی اصول حدیث ہے کہ سند کا صحیح ہونا متن (حدیث) کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں۔ تو جب سند کا صحیح ہونا حدیث کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں تو سند کا صحیح ہونا جرح کے صحیح ہونے کی دلیل کیسے بن سکتا ہے؟
ویسے بھی کیا ثقہ راویوں کے ذریعے سے شاذ روایات منقول نہیں ہوتیں؟
ویسے بھی خود غیر مقلد عالم زبیر علی زئی نے اپنی کتاب فتاویٰ علمیّہ میں لکھا ہے کہ "بعض ثقہ و صدوق راوی صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین کو گالیاں بکتے تھے۔"
جب ثقہ اور صدوق راوی صحابہ رضی اللہ عنہم پر بدکلامی کرسکتے ہیں، ان سے صحابہ رضی اللہ عنہم جیسی شخصیات محفوظ نہیں تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ان باتوں سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟
اگر کوئی کہے کہ جب ثقہ راوی پر ہی اعتبار نہیں تو پھر کس پر اعتبار کیا جائے؟ تو ہم کہیں گے ایسے معاملات میں مکمل اور انصاف پسندی کے ساتھ تحقیق کی ضرورت ہے کہ کہیں کوئی اپنی حسد یا لاعلمی یا کسی اور وجہ سے تو جرح نہیں کر رہا؟ اس بات کی تحقیق کی ضرورت ہے کہ جرح کرنے والا متشدد، متعصب، حاسد یا ہم عصر میں جو کھٹ پٹ ہوتی ہے اس سے تو متاثر نہیں؟ ایسے راویوں کی لمبی چوڑی فہرست تیار کی جا سکتی ہے جو الگ الگ وجوہات سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف جرح کرنے میں حجت نہیں۔
Imam Abu Hanifa r.a aur Siqah Rawiyon ka Kirdar
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
《النعمان سوشل میڈیا سروسز》دفاع اہلسنت والجماعت احناف دیوبند اور فرقہ ضالہ و باطلہ کا رد
▪︎1) النعمان سوشل میڈیا سروسز کی فخریہ پیشکش موبائل ایپلیکیشن
▪︎2) موبائل ایپلیکیشن غیر معتبر روایات کی تحقیق لنک:
▪︎3) النعمان وٹس ایپ چینل لنک :
▪︎4) النعمان سوشل میڈیا سروسز ٹیلیگرام مکتبہ لنک :
▪︎5) النعمان سوشل میڈیا سروسز فیس بک پیج لنک :
▪︎6) النعمان سوشل میڈیا سروسز ویب سائٹ :
▪︎7) النعمان سوشل میڈیا سروسز یوٹیوب چینل لنک:
▪︎8) النعمان سوشل میڈیا سروسز گوگل ڈرائیو سکین لنک :
▪︎9) النعمان سوشل میڈیا سروسز ، دفاع امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سکین فولڈر لنک :
---------------------------------------------------------------------------------------------
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں