امام ابو حنیفہ اور عقیدہ خلق قرآن
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 9
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
امامؒ
خلق قرآن کے مسئلے میں اہل سنت کی ہی رائے رکھتے ہیں، امام کے شاگردوں میں سے کوئی
بھی ایسا ثقہ راوی نہیں ہے جس نے یہ گواہی دی ہو کہ میں نے خود امام صاحبؒ کو قرآن کو مخلوق
کہتے ہوئے سنا، بلکہ امام کے ثقہ اصحاب سے تو اس بات کی نفی ملتی ہے
تو پھر یہی اصحاب امام سے قرآن کے مسئلے میں کیسے توبہ لے سکتے ہیں؟
۱- امام ابو بکر احمد بن حسین بیہقیؒ (م۴۵۸ھ) کہتے ہیں:
"وقرأت
في كتاب أبي عبد الله محمد بن محمد بن يوسف بن إبراهيم الدقاق بروايته عن القاسم
بن أبي صالح الهمذاني , عن محمد بن أيوب الرازي , قال: سمعت محمد بن سابق , يقول:
سألت أبا يوسف , فقلت: أكان أبو حنيفة يقول القرآن مخلوق؟ , قال: معاذ الله , ولا
أنا أقوله , فقلت: أكان يرى رأي جهم؟ فقال: معاذ الله ولا أنا أقوله "
رواته ثقات
محمد
بن سابق کہتے ہیں میں نے ابو یوسف سے پوچھا :
"
کیا ابو حنیفہ قرآن کو مخلوق کہتے تھے؟ انہوں نے کہا : اللہ کی پناہ! میں
بھی ایسا نہیں کہتا ، میں نے کہا : کیا وہ
جہم والے خیالات رکھتے تھے؟ انہوں نے کہا اللہ کی پناہ! میں بھی ایسا نہیں
کہتا "۔(الأسماء والصفات للبیہقی:١/ ٢١١ رقم ٥٥٠،اسناده صحيح)
اس
روایت کے روات کی تحقیق یہ ہے :
i –
محمد بن محمد بن یوسف بن ابراھیم الدقاق ؒ صدوق ہیں۔(الرّوض الباسم في تراجم شيوخ الحاكم:
۲ / ۱۲۸۷)
ii –
ان کے شیخ القاسم بن أبي
صالح الهمذاني (م۳۳۸ھ)بھی
صدوق ہیں۔(تاریخ الاوسلام : ج۷: ص ۷۲۰)
iii- محدث محمد بن ایوب
الرازی ؒ (م۲۹۴ھ) متفقہ طور پر ثقہ ہیں۔ (کتاب الثقات للقاسم : ج۸ : ص
۱۹۷)
iv - ابو سعید محمد بن
سعید بن سابق الرازیؒ (م۲۱۶ھ) سنن ابو داود اور نسائی کے راوی اور ثقہ ہیں۔ (تقریب
: رقم ۵۹۱۰)
v- امام قاضی ابو یوسف ؒ (م۱۸۲ھ)بھی
مشہور ثقہ،ثبت ، فقیہ اور حافظ الحدیث ہیں۔(تلامذہ امام ابو حنیفہ کا محدثانہ
مقام از حافظ ظہور احمد الحسینی : ص ۱۳۸)
معلوم
ہوا کہ اس روایت کی سند حسن ہے۔
اسی
طرح امام صاحب ؒ کے دیگر اصحاب کی بھی یہی
گواہی ہے کہ امام صاحب ؒ قرآن کو مخلوق
نہیں کہتے تھے،چنانچہ :
۲- حافظ المشرق خطیب بغدادی ؒ (م۴۵۸ھ)
کہتے ہیں کہ :
" (أخبرنا الخلال قال: أخبرنا علي بن عمرو
الحريري، أن علي بن محمد بن كاس النخعي، حدثهم) وقال
النخعي: حدثنا محمد بن شاذان الجوهري قال: سمعت أبا سليمان الجوزجاني، ومعلى بن
منصور الرازي يقولان: ما تكلم أبو حنيفة ولا أبو يوسف، ولا زفر، ولا محمد، ولا أحد
من أصحابهم في القرآن، وإنما تكلم في القرآن بشر المريسي، وابن أبي دؤاد، فهؤلاء
شانوا أصحاب أبي حنيفة."
محمد
بن شاذان جوہریؒ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سلیمان الجوزجانی(ثقہ امام) اور معلی بن
منصور رازی(ثقہ فقیہ) کو کہتے ہوئےسنا کہ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد اور امام
زفر نے قرآن کے بارے میں لب کشائی نہیں کی، بشر مریسی اور ابن ابی دُؤَاد نے
اس بارے میں لب کشائی (قرآن کو مخلوق کہنا) کی اور امام ابوحنیفہ ؒاور ان کے اصحاب
کی شان کو مجروح کیا۔ (تاریخ
بغداد وذیولہ ط العلمیة : ج ١٣ ص ٣٧٤)
سند کی تحقیق :
i- خطیب بغدادیؒ (م۴۶۳ھ) مشہور
امام،ثقہ،متقن،حافظ المشرق ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۱: ص ۴۱۸،
سیراعلام النبلاء :ج۱۸:
ص ۱۵۹)
ii- الحسن بن محمد الخلالؒ (م۴۳۹ھ) بھی ثقہ،امام،حافظ ہیں۔(سیراعلام النبلاء :ج۱۷: ص ۵۹۳)
iii- علی بن عمرو الحریریؒ (م۳۸۰ھ) ثقہ ہیں۔(تاریخ
الاسلام : ج۸: ص ۴۸۲)
iv- ابو القاسم علی بن محمدبن کاس النخعیؒ (م۳۲۴) ثقہ،قاضی ہیں۔(ارشاد القاصی و الدانی : ص۴۳۹)
v- محمد بن شاذان الجوھری البغدادی ؒ (م۲۸۶ھ)
بھی ثقہ ہیں۔ (تقریب : رقم ۵۹۵۰)
vi- معلی بن منصور الرازیؒ (م۲۱۱ھ) صحیحین کے راوی ہے اور ثقہ،سنی، فقیہ
ہیں۔(تقریب :رقم ۶۸۰۶)
اسی طرح ان کے متابع امام
ابو سلیمان الجوزجانی بھی صدوق ہیں۔ (تاریخ
بغداد :ج۱۵: ص ۲۶،تحقیق بشار)
معلوم
ہوا کہ یہ سند صحیح ہے ۔
وضاحت
:
امام ابو سلیمان جوزجانیؒ اور امام معلی بن
منصورؒ (م۲۱۱ھ) دونوں ،امام ابو
یوسفؒ (م۱۸۲ھ)اور امام محمد بن
الحسنؒ (م۱۸۹ھ) کے شاگرد ہیں،اوردونوں نے اس معاملے میں
امام صاحب ؒ کی طرف اس نسبت کا انکار کیا ہے جو دلیل ہے کہ امام ؒ سے
خلق قرآن کے مسئلے میں ایسا کچھ بھی مروی نہیں جو قابل گرفت ہو بلکہ امام ابو
سلیمان الجوزجانی کے متعلق ابن ابی حاتم نے یہاں تک کہا ہے کہ وہ خلق قرآن کے قائل
کی تکفیر کرتے تھے ـ(تاریخ
بغداد :ج۱۵: ص ۲۶،تحقیق بشار)
۳- حافظ المشرق خطیب بغدادی ؒ (م۴۵۸ھ)
کہتے ہیں کہ:
"(أخبرنا الخلال قال: أخبرنا علي بن عمرو
الحريري، أن علي بن محمد بن كاس النخعي، حدثهم)قال
النخعي: حدثنا أبو بكر المروزي قال: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل يقول: لم يصح
عندنا أن أبا حنيفة كان يقول القرآن مخلوق‘‘۔
امام
احمد بن حنبل ؒ (م۲۴۱ھ)کہتےہیں کہ ہمارے نزدیک امام ابو حنیفہ ؒ کے تعلق سے یہ بات صحیح نہیں ہے کہ انہوں نے کہا
: ’’قرآن مخلوق ہے‘‘۔(
تاریخ بغداد وذيولہ ، ط العلمية ج ١٣ ص ٣٧٤)
سند کی تحقیق :
i- خطیب بغدادیؒ (م۴۶۳ھ)
ii- الحسن بن محمد الخلالؒ (م۴۳۹ھ)
iii- علی بن عمرو الحریریؒ (م۳۸۰ھ)
iv- ابو القاسم علی بن محمدبن کاس النخعیؒ (م۳۲۴) وغیرہ کی توثیق گزرچکی۔
v- ابوبکر احمد
بن علی القرشی المروزی القاضی ؒ (م۲۹۲ھ) ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم ۸۱)
vi- امام احمد بن محمد بن حنبلؒ (م۲۴۱ھ)
مشہور ثقہ،امام،حافظ الحدیث اور حجت ہیں۔(تقریب)
معلوم ہو ا کہ یہ سند
صحیح ہے۔[1]
۴- امام ابو عبد الرحمٰن بن ابی حاتم الرازی ؒ (م۳۲۷ھ) اپنے
کتاب میں کہا :
حدثنا أحمد بن محمد بن مسلم حدثنا علي بن
الحسن الكراعي قال قال أبو يوسف ناظرت أبا حنيفة ستة أشهر فاتفق رأينا على أن من
قال القرآن مخلوق فهو كافر۔
امام ابو یوسفؒ (م۱۸۲ھ) کہتے ہیں
کہ میں امام ابو حنیفہؒ سے ۶ مہینے مناظرہ کیا اور پھر ہم اس بات پر متفق ہو گئے کہ جو کوئی کہے
کہ قرآن مخلوق ہے وہ کافر ہے۔(بحوالہ العلو للعلي الغفارللذہبی : ص ۱۵۲، ص۱۴۳،۱۷۴)
سند کی تحقیق :
i- امام عبد الرحمٰن بن ابی حاتم الرازی ؒ (م۳۲۷ھ)
مشہور ثقہ ،امام جرح و تعدیل اور امام بن امام ہیں۔ ( الثقات للقاسم)
ii- احمد
بن محمد بن یزید بن مسلم الانصاری ؒ (م۲۷۴ھ)
صدوق راوی ہیں۔ (کتاب الثقات للقاسم:ج۲: ص ۸۷)
iii- علی
بن الحسن التمیمیؒ بھی صدوق ہیں۔(تقریب : رقم ۴۷۱۰)
iv- ابو
یوسف ؒ (م۱۸۲ھ)کی توثیق گزرچکی۔
معلوم ہوا کہ اس کی سند حسن ہے۔اور
شیخ البانی ؒ نے اس کی سند کو جید کہا ہے۔( العلو بتحقیق الالبانی : ص ۱۵۵)
۵- امام عبد الرحمٰن بن ابی حاتم الرازی ؒ (م۳۲۷ھ) نےاپنی
کتاب میں کہا :
قال أحمد بن القاسم بن عطية سمعت
أبا سليمان الجوزجاني يقول سمعت محمد بن الحسن يقول والله لا أصلي خلف من يقول
القرآن مخلوق ولا استفتاني ألا أمرت بالإعادة۔
امام محمدؒ فرماتے ہیں
: کہ قسم بخدا، میں اس شخص کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا ، جو قرآن کو مخلوق کہے، اور
اگر وہ مجھ سے فتویٰ پوچھے گا تو میں اسے نماز کے اعادہ کا حکم دوں گا۔(بحوالہ العلو للعلي الغفارللذہبی : ص ۱۵۲، ص۱۴۳،۱۷۴)
سند کی تحقیق :
i- امام عبد الرحمٰن بن ابی حاتم الرازی ؒ (م۳۲۷ھ)
کی توثیق گزرچکی۔
ii- حافظ احمد بن قاسم
بن عطیہؒ بھی ثقہ ہیں۔(کتاب
الثقات للقاسم : ج۱ : ص ۴۶۲)
iii- امام
ابو سلیمان الجوزجانیؒ کی توثیق گزرچکی۔
iv- امام حافظ فقیہ محمد بن الحسن شیبانی ؒ (م۱۸۹ھ) مشہور امام ربانی،اورثقہ مجتہد ہیں۔(تلامذہ امام ابو حنیفہ کا
محدثانہ مقام، از حافظ ظہور احمد الحسینی
: ص ۳۲۳)
ملاحظہ
فرمائیں !امام صاحب ؒ کے خاص شاگرد امام محمدؒ بھی
نہ قرآن کو مخلوق مانتےہیں اور نہ ہی اس
شخص کی اقتداء میں نماز پڑتے ہیں،جو قرآن کو مخلوق کہے۔
۶- حافظ المشرق ،امام خطیب بغدادیؒ (م۴۶۳ھ)
نے کہا :
(أخبرنا الخلال قال: أخبرنا علي بن عمرو
الحريري، أن علي بن محمد بن كاس النخعي، حدثهم) وقال النخعي حدثنا نجيح بن إبراهيم، حدثني ابن كرامة - وراق أبي بكر ابن أبي شيبة- قال: قدم ابن مبارك
على أبي حنيفة. فقال له أبو حنيفة: ما هذا الذي دب فيكم؟ قال له : رجل يقال له
جهم، قال: وما يقول؟ قال: يقول القرآن مخلوق، فقال أبو حنيفة: ﴿كبرت كلمة تخرج من
أفواههم إن يقولون إلا كذبا﴾۔
ابن
کرامۃؒ کہتے ہیں کہ امام ابن مبارکؒ ، امام ابو حنیفہ ؒ کے پاس آئے ، تو امام ابو
حنیفہؒ نے ان سے کہا : تمہارے یہاں یہ کیا باتیں چل رہی ہیں ؟ انہوں نے کہا : ایک
آدمی ہے جسے جہم کہا جاتا ہے ، امام صاحب نے کہا: اس کا کیا کہنا ہے ؟ انہوں نے
کہا : وہ کہتا ہے کہ قرآن مخلوق ہے ، تو امام ابو حنیفۃ ؒ فرمایا : بڑی سنگین بات
ہے جو ان کے منہ سے نکل رہی ہے ، جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔
( تاریخ بغداد وذيولہ ، ط العلمية ج ١٣ ص ٣٧٤)
سند کی تحقیق :
i- خطیب بغدادیؒ (م۴۶۳ھ)
ii- الحسن بن محمد الخلالؒ (م۴۳۹ھ)
iii- علی بن عمرو الحریریؒ (م۳۸۰ھ)
iv- ابو القاسم علی بن محمدبن کاس النخعیؒ (م۳۲۴) وغیرہ کی توثیق گزرچکی۔
v- فقیہ نجیح بن ابراہیم الکوفی ؒ (م۲۷۸ھ) صدوق ہیں۔[2]
vi- محمد بن عثمان بن کرامہ ؒ (م۲۵۶ھ) بھی ثقہ،صاحب
حدیث ہیں۔(تقریب : رقم ۶۱۳۴،الکاشف)
لہذا
اس روایت کی سند بھی حسن ہے۔
۷- ثقہ ثبت حافظ الحدیث فقیہ جرح و تعدیل کے
ماہر،امام طحاویؒ (م۳۲۱ھ) اپنی مشہور کتاب ’العقیدۃ
الطحاویۃ‘ میں فرماتے ہیں کہ :
’ إن
القرآن كلام الله منه بدا بلا كيفية قولا وأنزله على رسوله وحيا وصدقه المؤمنون
على ذلك حقا وأيقنوا أنه كلام الله تعالى بالحقيقة ليس بمخلوق‘۔
یقیناً قرآن ، اللہ کا کلام ہے ، جو بلا
کسی کیفیت کے، بطور قول کے اسی سے ظاہر ہوا ، جسے اللہ نے وحی کے ذریعہ اپنے رسول ﷺ
پر اتارا ، اور ایمان والوں نے اسی طرح اس کے حق ہونے کی تصدیق کی ، اور انہوں نے
یقین کیا کہ وہ حقیقت میں اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں ہے۔
اوراس کتاب کے شروع میں
کہتے ہیں کہ ’’ هذا ذكر بيان
عقيدة أهل السنة والجماعة على مذهب فقهاء الملة أبي حنيفة النعمان بن ثابت الكوفي
وأبي يوسف يعقوب بن إبراهيم الأنصاري وأبي عبد الله محمد بن الحسن الشيباني رضوان
الله عليهم أجمعين ‘‘۔
یہ فقہاء ملت امام ابوحنیفہ ، امام ابو یوسف اور امام محمدرحمہم
اللہ کے مذہب پر اہل سنت وجماعت کے عقیدہ کا بیان ہے ۔ ( عقیدۃ الطحاوی : ص ۴۰،۳۱)
اہل سنت کے عقیدے کی اس بنیادی کتاب میں بھی
صراحت ہے کہ امام ابو حنیفہ ؒ اور
ان کے اصحاب ؒ ،قرآن کو مخلوق
نہیں،بلکہ کلام اللہ مانتے تھے۔
۸- حافظ
الحدیث ،امام مجد الدین ابن الاثیر الجزریؒ (م۶۰۶ھ)فرماتے ہیں کہ :
لو
ذهبنا إلى شرح مناقبه وفضائله لأطلْنا الخُطب، ولم نصلْ إلى الغرض منها، فإنه كان
عالماً عاملاً، زاهداً، عابداً، ورعاً، تقياً، إماماً في علوم الشريعة مرضياً، وقد
نسب إليه وقيل عنه من الأقاويل المختلفة التي نجلُّ قدره عنها ويتنزه منها؛ من
القول بخلقِ القرآن، والقول بالقدر، والقول بالإرجاء، وغير ذلك مما نُسب إليه.
ولا حاجة إلى ذكرها ولا إلى ذكر قائليها، والظاهر أنه
كان منزهاً عنها، ويدل على صحة نزاهته عنها، ما نشر الله تعالى له من الذِّكْر
المنتشر في الآفاق، والعلم الذي طبق الأرض، والأَخْذ بمذهبه وفقهه والرجوع إلى
قوله وفعله، وإن ذلك لو لم يكن لله فيه سرّ خفي، ورضى إِلهيّ، وفقه الله له لما
اجتمع شطرُ الإسلامِ أو ما يقاربهُ على تقليده، والعمل برأيه ومذهبه حتى قد عُبِدَ
اللهُ ودِيْنَ بفقهه، وعُمل برأيه، ومذهبه، وأُخذَ بقوله إلى يومنا هذا ما يقارب
أربعمائة وخمسين سنة،
وفي هذا أدل دليل على صحة مذهبه، وعقيدته، وأنما قيل عنه
هو منزَّه منه، وقد جمع أبو جعفر الطحاوي - وهو من أكبر الآخذين بمذهبه - كتاباً
سماه «عقيدةُ أبي حنيفةَ - رحمه الله-» وهي عقيدةُ أهل السُّنَّة والجماعة، وليس
فيها شيء مما نُسبَ إليه وقيل عنه، وأصحابه أخبرُ بحاله وبقوله من غيرهم، فالرجوعُ
إلى ما نقلوه عنه أوْلى مما نقله غيرُهم عنه، وقد ذُكِر أيضاً سبب قول من قال عنه
ما قال والحامل له على ما نسب إليه، ولا حاجة بنا إلى ذكر ما قالوه، فإن مثل أبي
حنيفة ومحلُه في الإسلام لا يحتاجُ إلى دليل يُعْتَذَرُ به مما نُسب إليه. والله
أعلم
اگر ہم آپکے مناقب وفضائل کی تفصیل میں جائیں گے تو بات
طویل ہوجائیگی ، اور ہم مقصد تک نہیں پہنچ پائیں گے ، یقیناً آپ عالمِ باعمل، عابد وزاہد ، متقی پرہیزگار،
اور علوم شریعت کے پسندیدہ امام ہیں ، اور آپ کی طرف منسوب کرکے یا آپ کے بارے
میں جو باتیں کہی گئی ہیں ، ہم آپ کی شان کو اس سے بلند سمجھتے ہیں ، آپ ان
چیزوں سے بری ہیں ، یعنی قرآن کو مخلوق کہنا، تقدیر کے بارے میں کلام کرنا ، یا
ارجاء کا عقیدہ رکھنا ، وغیرہ چیزیں جو آپ کی طرف منسوب کی گئی ہیں ۔
نہ ان باتوں کو بیان کرنے کی نہ انکے قائلین کا تذکرہ
کرنے کی ضرورت ہے ،واضح طور پر آپ ان باتوں سے بری ہیں ، ’’ان باتوں سے آپ بری
ہیں‘‘ اس بات کے صحیح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سارے عالم میں آپ کا
شہرہ فرمادیا، اور آپ کا علم جس نے روئے زمین کو بھر دیا، اور آپ کے مذہب وفقہ
کو اختیار کیا گیا، اور آپ کے قول وفعل کی طرف رجوع کیا گیا، اگر اس میں اللہ
تعالیٰ کا کوئی رازِ سربستہ اور رضاء الٰہی جس (کے حصول ) کی اللہ نے آپ کو توفیق
دی ، شامل نہ ہوتی تو تمام مسلمانوں میں سے تقریباً آدھی تعداد آپ کی تقلید اور
آپ کی رائے ومذہب کے مطابق عمل کرنے پر مجتمع نہ ہوتی ، یہاں تک کہ آج تقریباً
ساڑھے چار سو سال سے آپ کی فقہ اورآپ کی رائے ومذہب پر عمل کرکے نیز آپ کے قول
کو اختیار کرکے ، اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے دین کے پر عمل کیا جارہا ہے۔
یہ آپ کے مذہب وعقیدہ کے صحیح ہونے اور جو کچھ آپ کی
طرف منسوب کیا گیا ہے ، اس سے آپ کے بری ہونے کی بہت مضبوط دلیل ہے ، ابو جعفر
طحاویؒ جو آپ کے مذہب کے سب سے بڑے اختیار کرنے والوں میں سے ہیں ، انہوں نے ’عقیدۃ
ابی حنیفۃ ‘نامی ایک کتاب تالیف فرمائی ہے ، وہ اہل سنت وجماعت ہی کے عقائد ہیں ،
ان میں آپ کی طرف منسوب کردہ اور آپ کے بارے میں کہی گئی باتوں میں سے کچھ بھی
موجود نہیں ، دوسروں کے مقابلہ میں آپ کے اصحاب، آپ کے حال و قال سے زیادہ واقف
ہیں ، اس لئے جو کچھ انہوں نے آپ سے نقل کیا اس کی طرف رجوع کرنا زیادہ بہتر ہے
بنسبت دوسروں کی نقل کردہ چیزوں کے ، کہنے والے نے کس سبب سے آپ کے بارے میں کہا
، اور آپ کی طرف باتیں منسوب کرنے کیلئے کیا چیز باعث بنی ، یہ بھی بیان کیا گیا
ہے ، لیکن لوگوں نے جو کچھ کہا ہے وہ سب ذکر کرنے کی ہمیں کوئی حاجت نہیں ، اس لئے
کہ ابو حنیفہ ؒ جیسی شخصیت اور اسلام میں آپ کا مقام ومرتبہ کسی دلیل کا محتاج
نہیں ، نہ آپ کی طرف منسوب کردہ باتوں کے
بارے میں کوئی عذر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
واللہ اعلم ۔ (جامع الاصول : ج۱۲: ص۹۵۳-۹۵۴)
امام حافظ مجد الدین ابن الاثیر الجزریؒ (م۶۰۶ھ)
کے اس جامع کلام کے بعد،مزید کچھ اور عرض کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۹- امام
ابو حنیفہؒ (م۱۵۰ھ) اپنی کتاب ’ الفقه الاكبر ‘[3] میں فرماتے ہیں’’الْقُرْآن
غير مَخْلُوق‘‘قرآن
مخلوق نہیں ہے۔ ( الفقه الاكبر: ص ۲۰)
[1]
اس روایت سے ۲ باتیں ممکن ہوسکتی ہیں:
۱- پہلے قول کی، امام احمد کی طرف راوی نے
غلط نسبت کی ہے۔
اور
وہ قول یہ ہے کہ امام احمد سے ان کے بیٹے
نقل کرتے ہیں کہ:
"استتابوه
أظن في هذه الآية: {سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ} قال: هو
مخلوق."
"ان
سے جو توبہ کرائی گئی، میرے خیال میں وہ اس آیت کے متعلق تھی﴿ سبحن
ربک رب العزة عما یصفون ﴾ آپ نے کہا کہ یہ
مخلوق ہےـ" (العلل
ج٢ص٥٤٦)
۲- امام احمدؒ کا پہلا کا قول تحقیق پر مبنی نہیں تھا بعد میں
آپ نے اپنے قول سے رجوع کرلیا ـ واللہ
اعلم
[2]
ان کوامام ابن حبان نے کتاب
الثقات میں شمار کیا ہے،اورامام ابن عدی ؒنے
باجود ان کا علم ہونے کے،ان کا ترجمہ الکامل میں ذکر نہیں کیا۔ یعنی یہ
راوی،امام ابو احمد ابن عدی ؒ کے نزدیک صدوق یا ثقہ ہیں،جیسا کہ غیرمقلدین کا اصول
ہے۔(کتاب الثقات لابن حبان : ج۹: ص ۲۲۰، الکامل : ج۲ : ص۲۵۴،انوار البدر :
ص۲۲۵)، لہذا یہ راوی صدوق ہیں۔
[3] (اتحاف السادة المتقين بشرح إحياء علوم الدين:ج۲: ص۱۲)
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 9
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں