اعتراض : محمد بن جابر اليمامى نے کہا کہ ابو حنیفہ نے مجھ سے حماد کی کتابیں چوری کیں ۔
نا عبد الرحمن انا إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني فيما كتب إلى حدثني إسحاق بن راهويه قال سمعت جريرا يقول قال محمد بن جابر اليمامي: سرق أبو حنيفة كتب حماد منى.
اسحاق بن راهويه کہتے ہیں میں نے جریر کو سنا کہ محمد بن جابر اليمامى نے کہا کہ ابو حنیفہ نے مجھ سے حماد کی کتابیں چوری کیں
الجرح والتعديل - الرازي - ج 8 - الصفحة 450
جواب :
یہ روایت صحیح نہیں کیونکہ
1)۔ ابراہیم بن یعقوب جوزجانی اہل کوفہ کے بارے میں متشدد تھا ، اور اس کی کوفی محدثین کے خلاف جرح اور گواہی کا اعتبار ہی نہیں ہے ۔
امام ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں
وممن ينبغي ان يتوقف في قبوله قوله في الجرح من كان بينه وبين من جرحه عداوة سببها الاختلاف في الاعتقاد فان الحاذق إذا تأمل ثلب أبى إسحاق الجوزجاني لأهل الكوفة رأى العجب وذلك لشدة انحرافه في النصب وشهرة أهلها بالتشيع فتراه لا يتوقف في جرح من ذكره منهم بلسان ذلقة وعبارة طلقة حتى أنه اخذ يلين مثل الأعمش وأبى نعيم وعبيد الله بن موسى ۔۔الخ‘‘
(لسان الميزان 1/16)
" یعنی ایسے شخص کی جرح سے احتراز کرنا چاہیے ، جو بوجہ عداوت کے ہو ۔ سمجھدار آدمی جب جوزجانی کی اہل کوفہ کے متعلق جرح اور مثالب دیکھے گا ، تو تعجب کرے گا ، کیونکہ اس کو بوجہ ناصبی ہونے کے ان سے ایک طرح کی کد تھی ، لہٰذا وہ اس کد کی بنا پر محدثین کوفہ کو مورد جرح ٹھہراتا تھا۔"
کچھ غیر مقلدین جوزجانی کو ناصبی نہیں مانتے ، ان کیلئے ان کے اکابر غیر مقلدین کے حوالہ جات پیش کئے جاتے ہیں۔
▪︎ غیر مقلد ابو طاہر حافظ زبیر علیزئی نے لکھا ہے :
جوزجانی (ناصبی)
( نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 28 )
▪︎غلام مصطفی ظہیر امن پوری
جوزجانی اپنے علم و فضل کے باوجود متعصب ناصبی تھے۔اہل کوفہ اور محبانِ اہل بیت پر ناحق جرح کرنا ان کا معمول ہے۔
(حدیث عود روح اور ڈاکٹر عثمانی کی جہالتیں، غلام مصطفی ظہیر امن پوری 14 ستمبر 2017)
▪︎غیر مقلد مولانا اسماعیل سلفی
نے ابن حجر کے حوالہ سے جوزجانی کو ناصبی لکھا ہے اور اہل کوفہ کا دشمن۔
(مقالات حدیث 579 )
2)۔ محمد بن جابر یمامی خود غیر مقلدین کے ہاں سخت ضعیف راوی ہیں۔
یہاں غیر مقلد ایک اور روایت پیش کرتے ہیں کہ
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَابِرٍ قَالَ: جَاءَنِي أَبُو حَنِيفَةَ يَسْأَلُنِي عَنْ كِتَابِ حَمَّادٍ، فَلَمْ أَعْطِهِ كِتَابًا، فَدَسَّ إِلَيَّ ابْنَهُ فَدَفَعْتُ كُتُبِي إِلَيْهِ، فَدَفَعَهَا إِلَى أَبِيهِ، فَرَوَاهَا أَبُو حَنِيفَةَ مِنْ كُتُبِي، عَنْ حَمَّادٍ
محمد بن عیسی نے ہم سے روایت کی: ابراہیم بن سعید نے ہم سے روایت کی: محمد بن حمید نے جریر سے، اور جریر نے محمد بن جابر سے روایت کی کہ ابو حنیفہ میرے پاس آئے اور حماد کی کتاب کے بارے میں پوچھا۔ میں نے انہیں کوئی کتاب نہیں دی، لیکن ان کے بیٹے نے مجھے ایک خفیہ پیغام بھیجا، جس پر میں نے اپنی کتابیں انہیں دے دیں اور انہوں نے انہیں اپنے والد کے پاس پہنچا دیا۔ پھر ابو حنیفہ نے ان کتابوں کو میرے ذریعے حماد سے روایت کیا۔
(الضعفاء الكبير للعقيلي ٤/٢٦٨)
جواب :
یہ روایت بھی غیر مقلدین کو مفید نہیں کیونکہ سند میں راوی محمد بن حمید الرازی پر کذاب اور
سخت ضعیف ہونے کی جروحات ہیں۔
محمد بن حميد بن حيان
الجرح والتعديل :
محمد بن إسماعيل البخاري :
حديثه فيه نظر، ومرة: تركه
أحمد بن شعيب النسائي :
ليس بثقة، ومرة: كذاب
أبو حاتم الرازي :
ضعيف جدا، وقال مرة: كذاب، لا يحسن يكذب
أبو حاتم بن حبان البستي :
كان ممن ينفرد عن الثقات بالأشياء المقلوبات ولا سيما إذا حدث عن شيوخ بلده
أبو زرعة الرازي :
تركه، ومرة: رماه بالكذب
إسحاق بن منصور الكوسج :
أشهد علي محمد بن حميد، وعبيد بن إسحاق العطار بين يدي الله أنهما كذابان
عبد الرحمن بن يوسف بن خراش :
كان والله يكذب، ومرة: ضعيف الحديث جدا
محمد بن مسلم بن وارة :
تركه، ومرة: كذاب
يعقوب بن شيبة السدوسي :
كثير المناكير
3)۔ جبکہ اس بارے میں صحیح ترین روایت ، اسی صفحہ پر موجود ہیکہ
نا عبد الرحمن نا أحمد بن منصور المروزي قال سمعت سلمة بن سليمان قال قال عبد الله - يعنى ابن المبارك: ان أصحابي ليلومونني في الرواية عن أبي حنيفة، وذاك انه اخذ كتاب محمد بن جابر عن حماد بن أبي سليمان فروى عن حماد ولم يسمعه منه.
امام عبد الله بن مبارک کہتے ھیں: میرے اصحاب مجھے ابوحنیفہ سے روایت کرنے پر ملامت کرتے ھیں، وہ اِس لئے ، کہ ابو حنیفہ نے محمد بن جابر یمامی کے یہاں رکھی ھوئی حماد بن ابی سلیمان کی کتابیں حاصل کر لیں، پھر ابو حنیفہ اِن کتابوں سے روایت بیان کرنے لگے ، حالانکہ انہوں نے یہ کتابیں حماد سے نہیں سنی تھیں۔
الجرح والتعديل - الرازي - ج ٨ - الصفحة ٤٥٠
روایت میں یہ ہیکہ انہوں نے یہ کتابیں اخذ کیں ، نہ کہ چوری کیں ، اخذ کا مطلب یہ ہو سکتا ہیکہ یا تو وہ کتب خرید لیں ، یا وقتی طور پر ان سے ادھار لیں تا کہ روایات نقل کریں وغیرہ وغیرہ لیکن چوری ہر گز نہیں کیں۔
" چوری " کا لفظ یا تو جوزجانی ناصبی کا کوفی محدثین کے بارے میں تعصب کی وجہ سے ہے یا پھر محمد بن جابر یمامی کا الزام۔
جب کہ صحیح ترین سند سے ثقہ محدث عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ یہی فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے یہ کتابیں اخذ کیں تھیں ، سرقہ / چوری نہیں ۔
فائدہ نمبر 1 :
اب جب خود حماد رحمہ اللہ سے روایات نہ سنی تھیں ، بلکہ ان کی کتاب سے بیان کر رہے تھے ، تو یہ کوئی غلط بات نہیں ، کتنے ہی محدثین دوسرے محدثین کی کتب سے روایات نقل کرتے ہیں اور آگے بیان کرتے ہیں ، مثلا ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے پاس امام محدث یوسف صیدلانی مکی رحمہ اللہ کی کتاب تھی ، جس سے وہ الانتقاء میں روایات نقل کرتے ہیں ۔ اس کی بیسیوں مثالیں ہیں ، لیکن غیر مقلدیت ، امام ابو حنیفہ کی ضد میں تعصب اور جہالت کی کسی بھی حد جا سکتی ہے۔
فائدہ نمبر 2 : یہاں معترض کہہ سکتا ہیکہ بعض شاگرد ، عبداللہ بن مبارک سے ابو حنیفہ کی روایات نہ لکھتے تھے ، جواب یہ ہیکہ اول تو یہاں وہ مذکور ہی نہیں ، نا معلوم ہیں ، معلوم ہی نہیں کہ وہ کون کون تھے جن کو ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی روایت لکھنا گوارا نہ تھا ، لہذا نا معلوم لوگوں کی وجہ سے فقیہ ملت پر اعتراض ہو ہی نہیں سکتا ۔ دوم یہ کہ جب استاد یعنی عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ خود ابو حنیفہ کی روایات لکھوا رہے ہیں ، لیکن چند نا معلوم شاگرد ، اپنے ہے استاد کو ملامت کر رہے (یاد رہے یہ استاد معمولی بندہ۔ نہیں امیر المومنین فی الحدیث ہے) ، تو وہ شاگرد اپنی کم حیثیتی کو دکھلا رہے ہیں کہ امیر المومنین فی الحدیث کو ملامت کر رہے ہیں ، یہی وجہ ہیکہ وہ اس قابل تھے ہی نہ کہ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ ان کے نام ذکر کرتے۔ (یعنی علم حدیث میں ان کی کچھ وقعت تھی ہی نہیں ، ان کا کچھ علمی مقام تھا ہی نہیں ، وگرنہ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ ضرور نام لیتے کہ میرے فلاں ذی علم طالب علم کو ناگوار گزرا ۔ چونکہ یہاں ملامت کرنے والے چند معمولی درجہ کے لوگ تھے ، جو نہ تو امیر المومنین فی الحدیث کے مرتبہ کو جانتے ہیں کہ الٹا ان کو ملامت کر رہے ہیں بلکہ امیر المومنین فی الحدیث کے استاد محترم فقیہ ملت جن کے بارے میں ابن مبارک فرماتے ہیں کہ میں نے سب سے بڑا فقیہ ابو حنیفہ کو دیکھا ہے (تاریخ بغداد ت بشار 15/469 اسنادہ صحیح) ، ان پر بھی طعن کرنے کی جسارت کر رہے ہیں ، لہذا عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے ایسے نا خلف طالب علموں کا نام ہی زبان پر نہ لیا۔)
بعض غیر مقلدین کہتے ہیں کہ محمد بن جابر یمامی کو ضعیف کہو گے تو ترک رفع الیدین کہاں سے ثابت کرو گے ، ان کیلئے ذیل میں صرف 2 حوالے ہیں۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ حَسَنِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبْجَرَ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ عُمَرَ، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِهِ إِلَّا حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ“۔
’’حضرت اسودؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کےساتھ نماز پڑھی تو انہوں نے نماز میں کسی جگہ بھی رفع یدین نہیں کیا سوائے ابتداءنمازکے‘‘۔
(رواۃ ابن أبی شیبۃ فی المصنف وسندصحیح علی شرط الشیخین: ج۲، ص۶۱)
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُد، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحِمَّانِيُّ، قَالَ:حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَيَّاش، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبْجَرَ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ إبْرَاهِيمَ، عَنْ الأَسْوَدِ، قَالَ: رَأَيْت عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي الله عنه يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ، ثُمَّ لاَ يَعُود۔ قَالَ: وَرَأَيْت إبْرَاهِيم، وَالشَّعْبِيَّ يَفْعَلاَنِ ذَلِكَ۔ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَهَذَا عُمَرُ رضي الله عنه لَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ أَيْضًا إلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الآُولَى فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَهُوَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ لِأَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَيَّاشٍ، وَإِنْ كَانَ هَذَا الْحَدِيثُ
إنَّمَا دَارَ عَلَيْهِ، فَإِنَّهُ ثِقَةٌ حُجَّةٌ، قَدْ ذَكَرَ ذَلِكَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ وَغَيْرُهُ‘‘۔
’’حضرت ابراہیم نے اسود سے نقل کی ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کو دیکھا کہ وہ پہلی تکبیرمیں صرف ہاتھ اٹھاتے پھر دوبارہ ہاتھ نہ اٹھاتے اور میں نے ابراہیم نخعیؒ اور شعبی ؒ کو اسی طرح کرتے دیکھا۔ امام طحاویؒ فرماتے ہیں کہ یہ حضرت عمررضی اﷲعنہ جو اس روایت کے مطابق صرف پہلی تکبیرمیں ہاتھ اٹھاتے ہیں اور یہ روایت صحیح ہے۔ کیونکہ اس کا دارمدار حسن بن عیاش راوی پر ہے۔ اور وہ قابل اعتماد وپختہ راوی ہے۔ جیساکہ یحییٰ بن معینؒ وغیرہ نے بیان کیا ہے‘‘۔
(المعانی الآثار للطحاوی: ج۱، ص۲۲۸؛ نصب الرایۃ: ج۱، ص۴۰۵، رقم ۱۷۲۴)
جبکہ اس کی تفصیل النعمان سوشل میڈیا سروسز کی ویب سائٹ پر موجود سلسلہ ترک رفع الیدین
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں