نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 19 : امام یعقوب فسوی (م 277ھ) اپنی کتاب المعرفة والتاریخ میں نقل کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ نے زنا کے ایک معاملے میں بدنامی سے بچانے کے لیے ایک حکیمانہ شرعی حیلہ تجویز کیا، اور ایوب سختیانیؒ کا علمی مقام جانچنے کے لیے ان کا علمی امتحان لینے کا ارادہ کیا۔


 کتاب "المعرفة والتاريخ" از یعقوب فسوی

 میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ : 


اعتراض نمبر 19 :

امام یعقوب فسوی (م 277ھ) اپنی کتاب المعرفة والتاریخ میں نقل کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ نے زنا کے ایک معاملے میں بدنامی سے بچانے کے لیے ایک حکیمانہ شرعی حیلہ تجویز کیا، اور ایوب سختیانیؒ کا علمی مقام جانچنے کے لیے ان کا علمی امتحان لینے کا ارادہ کیا۔


 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ عَنْ بِشْرِ بْنِ الْمُفَضَّلِ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَنِيفَةَ عَنِ امْرَأَةٍ مِنَ الْحَيِّ لَهَا غُلَامٌ فَجَامَعَهَا دُونَ الْفَرْجِ، فَضَاعَ الْمَاءُ فِي فَرْجِهَا فَحَمَلَتْ مَا حِيلَتُهُ؟ قَالَ: لَهَا عَمَّةٌ؟ قَالُوا نَعَمْ. قَالَ: فَلْتَهَبْهُ لِعَمَّتِهَا ثُمَّ تُزَوِّجْهَا مِنْهُ، فَإِذًا أُلِمَّ عَنْ مُجَالَسَتِهِ.

قَالَ حَمَّادٌ: فجلست الى أبي حنيفة في مسجد الحرام فقال: قدم أبواب الْمَدِينَةَ، فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ لِعَلِيٍّ أَتُعَلِّقْ عَلَيْهِ سقطة. قال: فجاء ( أ) حَتَّى قَامَ بَيْنَ الْمِنْبَرِ وَالْقَبْرِ. قَالَ: فَمَا ذَكَرْتُ مَقَامَهُ إِلَّا اقْشَعَرَّ جِلْدِي- قَالَ سُلَيْمَانُ: وَمَا أَرَاهُ إِلَّا كَذَبَ-. ثُمّ قَالَ سُلَيْمَانُ: تَرَوْنَ كَانَ فِي قَلْبِهِ إِيمَانٌ حَيْثُ هَمّ أَنْ يَتَعَلَّقَ لِأَيُّوبَ بِسَقْطَةٍ! هَلْ رَأَيْتُمْ أَسْوَأَ أَدَبًا مِنْهُ حِينَ يَعْلَمُ أَنَّ حَمَّادًا جَلِيسٌ لِأَيُّوبَ ثُمَّ يَقُولُ لَهُ هَذَا الْقَوْلَ!؟

بشر بن مفضل کہتے ہیں کہ میں نے امام ابو حنیفہ سے سنا کہ ایک محلے کی عورت تھی، اس کا ایک غلام تھا۔ اس غلام نے اس عورت سے جماع کیا لیکن شرمگاہ میں دخول نہیں کیا، لیکن اس کا پانی عورت کی شرمگاہ میں پہنچ گیا، جس سے وہ حاملہ ہو گئی۔ پوچھا گیا: اب کیا کیا جائے؟ (یعنی کیا شرعی حل ہے؟ جس سے معاشعرے میں بدنامی سے بچا جا سکے اور جو اولاد پیدا ہو گی وہ ولد الزنا سے مشہور نہ ہو۔) (تو اس شرعی مسئلے میں ) امام ابو حنیفہ نے پوچھا: کیا اس عورت کی کوئی پھوپھی ہے؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، ہے۔ تو امام ابو حنیفہ نے فرمایا: اس (غلام) کو اس عورت کی پھوپھی کو ہبہ (تحفے) میں دے دو، پھر اس عورت کا نکاح اس غلام سے کر دو۔ اس کے بعد (ان دونوں کا) میل جول جائز ہو جائے گا۔ 

حماد کہتے ہیں:

میں مسجدِ حرام میں امام ابو حنیفہ کے پاس بیٹھا تھا۔ امام صاحب نے فرمایا کہ  ایوب السختیانی مدینہ آئے تو میں ان کے پس جا کر بیٹھا ، اور میں نے کہا کہ میں آج انہیں کسی علمی لغزش کے اندر مبتلا کروں گا۔  پھر ایوب آئے اور منبر و قبر (نبی ﷺ) کے درمیان تشریف فرما ہوئے ، امام صاحب کہتے ہیں جب میں نے ان کے مقام کا تصور کیا تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ،  اس روایت کا راوی سلیمان بن حرب کہتا ہیکہ شاید ابو حنیفہ نے یہ بات جھوٹ میں کہی ہو ۔

پھر سلیمان نے کہا: کیا تم سمجھتے ہو کہ ابو حنیفہ کے دل میں ایمان تھا، جب کہ وہ یہ ارادہ کر رہا تھا کہ ایوب کی غلطی تلاش کرے؟ کیا تم نے اس سے بدتر بدادبی دیکھی ہے؟ ابو حنیفہ جانتا ہے کہ حماد، ایوب کے مجلس نشین (شاگرد) ہیں، پھر بھی اُن سے یہ بات کہہ رہا ہے!

(المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق 2/787 )


جواب :  سب سے پہلے بات اس روایت کے راوی سلیمان بن حرب رحمہ اللہ کی کریں تو اگرچہ وہ ثقہ راوی شمار ہوتے ہیں، لیکن وہ امام ابو حنیفہؒ اور ان کے مکتبِ فکر (احناف) کے شدید مخالف تھے۔ ان کی کئی باتوں میں یہ تعصب کھل کر نظر آتا ہے، جن میں وہ امام ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب پر بے دلیل الزامات لگاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک روایت میں وہ کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ اور ان کے ساتھی اللہ کے راستے سے روکتے تھے۔  یہ انتہائی سنگین الزام ہے، لیکن سلیمان نہ اس کا کوئی ثبوت پیش کرتے ہیں، نہ کوئی عقلی یا شرعی دلیل۔ یہ انداز نہ علمی ہے، نہ دیانتدارانہ۔ اس کا جواب یہاں دیکھیں

اعترض نمبر 78 : کہ سلیمان بن حرب نے کہا کہ ابو حنیفہ اور اس کے اصحاب اللہ کے راستہ سے روکتے تھے۔


تعصب کا یہی اثر ان کی اُس روایت میں بھی دکھائی دیتا ہے، جس میں وہ امام ابو حنیفہؒ کی طرف جھوٹ بولنے کا گمان ظاہر کرتے ہیں۔ ایک ایسا شخص جو علمی عظمت، تقویٰ اور دیانت میں مشہور ہو، اس پر یوں "شاید انہوں نے جھوٹ بولا ہو" جیسے الفاظ استعمال کرنا خود سلیمان بن حرب کے کردار اور نیت پر سوال اٹھاتا ہے۔

اب پہلی روایت کو لیتے ہیں:

بشر بن مفضل بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام ابو حنیفہؒ سے ایک مسئلہ سنا: ایک عورت تھی جو ایک محلے میں رہتی تھی۔ اس کے پاس ایک غلام تھا۔ اس غلام نے عورت سے مباشرت کی، لیکن دخول نہیں ہوا۔ مگر انزال کا پانی عورت کی شرمگاہ میں داخل ہو گیا، جس سے وہ حاملہ ہو گئی۔ سوال کیا گیا: اب اس مسئلے کا کیا شرعی حل ہے؟ یعنی ایسا کیا جائے کہ بچہ "ولد الزنا" شمار نہ ہو، اور عورت اور غلام ایک دوسرے کے لیے شرعی طور پر حلال ہو جائیں، تاکہ معاشرتی اور دینی خرابی سے بچا جا سکے۔

امام ابو حنیفہؒ نے سوال کا جواب دیتے ہوئے پوچھا: کیا اس عورت کی کوئی پھوپھی (عَمّہ) ہے؟ جواب دیا گیا: ہاں۔ امام صاحب نے فرمایا: غلام کو اس عورت کی پھوپھی کو ہبہ (تحفے) میں دے دو، اور پھر اس عورت کا نکاح اسی غلام سے کر دو۔ اس کے بعد دونوں کا میل ملاپ شرعی طور پر جائز ہو جائے گا، اور بچہ بھی حلال نسبت سے پیدا ہو گا ، اسے حرامی نسبت سے نہیں پکارا جائے گا 

یہ جواب ایک مفتی کا شرعی فتویٰ تھا، جو معاشرتی نقصان اور حرام ولادت کے الزام سے بچانے کے لیے دیا گیا۔ اس میں کوئی غیرشرعی بات نہ تھی، نہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی اصول ٹوٹا۔ بلکہ یہ "شرعی حیلے" کا ایک جائز استعمال تھا، جس کی فقہ میں بہت سی مثالیں موجود ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ یعقوب فسوی یا دیگر معترضین اس جواب پر اعتراض کیوں کرتے ہیں؟ کیا انہوں نے یہ بتایا کہ یہ فتویٰ کسی حدیث یا آیت کے خلاف ہے؟ اگر واقعی یہ جواب غلط تھا تو معترضین نے خود صحیح جواب کیوں پیش نہیں کیا؟ اگر اعتراض صرف اس بنیاد پر ہے کہ "شرعی حیلہ" استعمال کیا گیا، تو یہ اعتراض خود بے بنیاد ہے، کیونکہ شریعت میں ایسے حیلوں کی مثالیں موجود ہیں۔

قرآن میں حضرت یوسفؑ نے اپنے بھائی بنیامین کو روکنے کے لیے جو تدبیر اختیار کی، وہ بھی شرعی حیلہ تھا۔ حضرت ایوبؑ کا واقعہ بھی اسی اصول پر قائم ہے۔ فقہ کی کتابوں میں "حیلہ شرعیہ" پر مکمل ابواب موجود ہیں۔ اس لیے امام ابو حنیفہؒ کا جواب نہ صرف جائز تھا بلکہ فقہی بصیرت کی اعلیٰ مثال بھی تھا۔

اگر امام ابو حنیفہؒ اس مسئلے میں کوئی شرعی حل نہ بتاتے، تو پیدا ہونے والے بچے پر دائمی ولد الزنا یا حرامی کا داغ لگ جاتا جس سے وہ چاہ کر بھی چھٹکارا نہ پا سکتا ، حالانکہ اس معصوم کا کیا قصور ؟ 

جبکہ امام ابو حنیفہؒ نے اس سب سے بچانے کے لیے ایک جائز، شرعی اور حکیمانہ راستہ بتایا، یہی امام ابو حنیفہؒ کی فقہی بصیرت تھی کہ انہوں نے شریعت کے اصولوں کے اندر رہ کر ایسا ذہین، پاکیزہ اور مؤثر حل بتایا، جو دین کی روح – اصلاح، عفت اور معاشرتی تحفظ – کے عین مطابق ہے۔

اور اگر بالفرض اس فقہی جواب میں کوئی خطا ہو بھی گئی ہو، تو حدیث کے مطابق مجتہد کو غلطی پر بھی ایک اجر ملتا ہے، تو کیا اعتراض کرنے والے اسی اجر پر اعتراض کر رہے ہیں؟ یہ بات کسی عقلمند کو سمجھ نہیں آتی۔

اب آتے ہیں دوسری روایت کی طرف:

دوسری روایت کا مضمون پہلی سے بالکل مختلف ہے۔ 

روایت کے مطابق امام ابو حنیفہؒ مسجد حرام میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایوب سختیانی مدینہ آئے، تو میں ان کے پاس گیا۔ میں نے اپنے دل میں ارادہ کیا کہ آج ان کو کسی علمی مسئلہ میں الجھاوں گا۔  پھر جب ایوب منبر اور نبی ﷺ کی قبر کے درمیان آ کر بیٹھے، تو امام ابو حنیفہؒ پر ایک خاص روحانی کیفیت طاری ہو گئی، اور فرمایا کہ ان کے مقام کو دیکھ کر میرے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا۔

یہ روایت سلیمان بن حرب نقل کرتے ہیں، اور کہتے ہیں: "مجھے لگتا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے یہ بات جھوٹ میں کہی تھی"۔ پھر کہتے ہیں: "کیا تم سمجھتے ہو کہ ان کے دل میں ایمان تھا جب وہ ایوب کی غلطی تلاش کرنے کا ارادہ کر رہے تھے؟ کیا تم نے اس سے بدتر بے ادبی دیکھی ہے؟" سلیمان مزید کہتے ہیں کہ امام صاحب یہ بات حماد جیسے شخص سے کہہ رہے تھے، جو ایوب کا شاگرد تھا! انتھی

اب سوال یہ ہے کہ سلیمان کو امام ابو حنیفہ کے ارادے تک کیسے معلوم ہو گیا؟ جبکہ امام صاحب نے خود تسلیم کیا کہ جیسے ہی ایوب کو دیکھا، ان پر روحانی کیفیت طاری ہو گئی اور انہوں نے کچھ بھی کہنا مناسب نہ سمجھا۔ اس میں نہ بے ادبی ہے، نہ بد نیتی۔ بلکہ یہی ایک بڑے عالم کی علمی دیانت ہے کہ جب موقع دیکھا، تو خاموشی اختیار کر لی۔

مزید یہ کہ اگر کوئی محدث یا فقیہ کسی دوسرے عالم کا علمی امتحان لینا چاہے، تو یہ طریقہ اُس زمانے میں رائج تھا۔ خود یحییٰ بن معین جیسے جلیل القدر محدث ایسا کرتے تھے، جان بوجھ کر علمی غلطی کرتے تاکہ سامنے والے کی بصیرت کو جانچ سکیں۔  مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود

المجروحین لابن حبان میں اعتراض نمبر 29 : حماد بن زید بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام ابو حنیفہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: "میں شاید ہی کسی شیخ سے ملا ہوں مگر میں نے اس پر ایسی بات داخل کی جو اس کی حدیث نہ تھی، سوائے هشام بن عروة کے۔"


تو اگر امام ابو حنیفہؒ نے بھی کسی علمی مقصد سے ایسا سوچا، تو اس پر سلیمان بن حرب جیسے راوی کو جذباتی ہونا سمجھ سے باہر ہے۔

یہی تو تعصب ہے، کہ جو کام دوسرے محدثین کریں، وہ قابلِ ستائش، لیکن اگر وہی کام امام ابو حنیفہ کریں تو اُس پر اعتراض؟ یہ دوہرا معیار کسی انصاف پسند کو زیب نہیں دیتا۔


پھر جس حماد کے احترام کے نام پر سلیمان بن حرب امام ابو حنیفہ پر برس پڑے، وہ حماد خود امام ابو حنیفہ کے مجلس نشین تھے، اور ان سے کبھی علیحدہ نہیں ہوئے۔ تو پھر اعتراض کی بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے۔ معلوم ہوا حماد بن زید بھی سمجھ چکے تھے کہ امام صاحب امتحان کے واسطے ایسا کرتے ہیں ۔  حماد بن زید کو امام ابو حنیفہؒ کا یہ طرزِ عمل معلوم تھا، بلکہ وہ خود اس بات کو بیان کرتے تھے (المجروحين لابن حبان ت زاید 3/72  )  کیونکہ حماد بن زید خود اس مسئلے کی حقیقت اور امام ابو حنیفہؒ کی حکمت کو سمجھتے تھے۔

لہٰذا واضح ہو گیا کہ سلیمان بن حرب کی روایت امام ابو حنیفہ پر طعن کے لیے نہیں، بلکہ خود سلیمان کے تعصب کی علامت ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے مقام و مرتبے پر اس سے کوئی حرف نہیں آتا، نہ علمی طور پر نہ دینی طور پر۔

خلاصہ کلام :

ان دونوں روایات سے فقیہ ملت امام ابو حنیفہؒ پر کوئی اعتراض ثابت نہیں ہوتا۔ پہلی روایت ایک شرعی فتویٰ ہے جس کا مقصد معاشرت فساد سے بچاؤ تھا، اور دوسری روایت محض ایک واقعے کا ذکر ہے، جسے سلیمان بن حرب کے تعصب نے بگاڑ کر پیش کیا۔ اگر کوئی اس سے امام ابو حنیفہؒ پر اعتراض نکالنا چاہتا ہے، تو وہ علم و انصاف کے بجائے تعصب کی راہ پر ہے۔


مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود


تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 1 :امام ابو حنیفہ ؒ (م ۱۵۰؁ھ) امام ایوب سختیانیؒ (م ۱۳۱؁ھ) کی نظر میں۔


تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 18 :امام حماد بن زید ؒ(م۱۷۹؁ھ) کی نظر میں امام ابو حنیفہ ؒ(م۱۵۰؁ھ) ثقہ ہیں۔


اعتراض نمبر 12 : امام یعقوب فسوی (م 277ھ) اپنی کتاب المعرفة والتاريخ میں نقل کرتے ہیں کہ ایوب سختیانی رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہؒ کے ذکر پر آیت ﴿يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِؤُا نُورَ اللَّهِ بِأَفْواهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ﴾ تلاوت کی


اعتراض نمبر 73 : کہ ایوب السختیانی نے ابو حنیفہ کو دیکھ کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تتر بتر ہو جاؤ تا کہ وہ اپنی بیماری ہمیں نہ لگا دے۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...