نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

المجروحین لابن حبان میں اعتراض نمبر 29 : حماد بن زید بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام ابو حنیفہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: "میں شاید ہی کسی شیخ سے ملا ہوں مگر میں نے اس پر ایسی بات داخل کی جو اس کی حدیث نہ تھی، سوائے هشام بن عروة کے۔"


امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر  متشدد محدث ابن حبان رحمہ اللہ کی جروحات کا جائزہ : 

المجروحین لابن حبان میں اعتراض نمبر 29 :


وأخبرني محمد ابن المنذر قال: حدثنا عثمان بن سعيد قال: حدثنا أبو الربيع الزهراني قال: سمعت حماد بن زيد يقول: سمعت أبا حنيفة يقول: لم أكد ألقى شيخا إلا أدخلت عليه ما ليس من حديثه إلا هشام بن عروة.

محدث ابن حبان نقل کرتے ہیں کہ  حماد بن زید بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام ابو حنیفہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: "میں شاید ہی کسی شیخ سے ملا ہوں مگر میں نے اس پر ایسی بات داخل کی جو اس کی حدیث نہ تھی، سوائے هشام بن عروة کے۔"

(المجروحين لابن حبان ت زاید 3/72  )

جواب  :

بعض لوگوں نے اس روایت کو بنیاد بنا کر امام ابو حنیفہؒ پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ جان بوجھ کر احادیث میں "ملاوٹ" (تحریف) کرتے تھے، یعنی ایسی باتیں راوی کے ذمے لگا دیتے جو اس کی نہ تھیں، جو کہ سخت گمراہی اور تحریفِ حدیث کے زمرے میں آتا ہے۔

✦ جواب 

 محدثین کی آزمائش کا طریقہ

یہ بات واضح ہے کہ محدثین کا معمول تھا کہ وہ کبھی کبھار کسی راوی یا محدّث کو آزمانے کے لیے جان بوجھ کر غلط سند یا متن بیان کرتے تھے تاکہ معلوم ہو کہ وہ راوی حفظ میں کتنا مضبوط ہے؟ کیا تلقین قبول کرتا ہے یا نہیں؟ یہ حدیث میں ملاوٹ یا تحریف نہیں کہلاتی بلکہ یہ ایک علمی طریقۂ امتحان تھا، جیسا کہ درج ذیل مثالوں سے واضح ہوتا ہے۔

❖ 1. امام یحییٰ بن معین کا امام ابو نعیم کو امتحان لینا

سمعت هارون بن عيسى بن المسكين ببلد الموصل قال: سمعت أحمد بن منصور الرمادي يقول: كنا عند أبي نعيم نسمع مع أحمد بن حنبل ويحيى بن معين، فجاءنا يوما يحيى ومعه ورقة قد كتب فيها أحاديث من أحاديث أبي نعيم، وأدخل في خلالها ما ليس من حديثه، وقال: أعطه بحضرتنا حتى يقرأ... فلما خف المجلس ناولته الورقة... قال: على تعمل! فقام إليه يحيى وقبله، وقال: جزاك الله عن الإسلام خيرا. مثلك من يُحدث، إنما أردت أن أجربك.

(المجروحين، ابن حبان، 1/33)

یحییٰ بن معین نے امام ابو نعیم کے سامنے ان کی چند روایات پیش کیں جن میں کچھ خود گھڑی ہوئی باتیں شامل کر دیں، صرف یہ جانچنے کے لیے کہ امام ابو نعیم ان کی پہچان کر سکتے ہیں یا نہیں۔ امام ابو نعیم نے فوراً فرق پہچان لیا اور سخت ردِعمل دیا، حتیٰ کہ یحییٰ کو لات مار دی، تو انہوں نے فوراً قدم چوم کر کہا: ’’اللہ آپ کو جزا دے، میں صرف آپ کو آزمانا چاہتا تھا۔‘‘

(المجروحين - ابن حبان - ج ١ - الصفحة ٣٣ ، اس روایت کی سند صحیح ہے (دروس للشيخ أبي إسحاق الحويني ١/‏٣ ) ، هارون بن عيسى بن السكين أبو يزيد الشيباني سے امام ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت لی ہے اور بقول غیر مقلد کفایت اللہ اگر ابن حبان کسی راوی سے اپنی صحیح میں روایت لیں تو وہ قابل قبول ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح الکامل میں امام ابن عدی نے بھی ہارون سے کئی اقوال نقل کئے ہیں (الكامل في ضعفاء الرجال  ٣/‏٩٠ ، ٤/‏٢٥ ، ٨/‏٣٦٦) اور امام ابن عدی اپنے نزدیک صرف ثقہ سے روایت لیتے ہیں ، مزید یہ کہ امام ضیاء الدین المقدسی نے بھی ان سے اپنی صحیح میں روایت لی ہے اور وہ بھی صرف ثقہ سے روایت لیتے ہیں ، شیخ شعیب ارنووط ، حسین سلیم اسد اور البانی نے بھی ان کی روایات کو متعدد مقامات پر صحیح کہا ہے (موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان - ت حسين أسد ٣/‏٣١٨ ، التعليقات الحسان على صحيح ابن حبان ٦/‏٥٠ ،٨/‏٢٥٩ ،  (حب) ٣٨٣٧ [قال الألباني]: صحيح) ، اس روایت کو متعدد حضرات نے بطور حجت پیش کیا ہے تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية ١٢/‏٣٤٩  ، المدخل إلى السنن الكبرى - البيهقي - ت عوامة ١/‏٣٦٨  ، مناقب الإمام أحمد ١/‏١٠٢ ،سير أعلام النبلاء - ط الحديث ٨/‏٣٠٨  ، تهذيب التهذيب ٨/‏٢٧٤ ، النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر ٢/‏٨٦٧  ،  توضيح الأفكار لمعاني تنقيح الأنظار ٢/‏٧٧ ، نثل النبال بمعجم الرجال ٤/‏٣٤١ ، بذل الإحسان بتقريب سنن النسائي أبي عبد الرحمن ١/‏٣٥٤ — أبو إسحق الحويني ، دروس للشيخ محمد المنجد ٣٧/‏١٩ ، حياة التابعين ١/‏١٢١١ ياسر الحمداني ، علوم الحديث ومصطلحه ١/‏١٩٣ صبحي الصالح   )


رواة کے امتحان کا یہ طریقہ امام یحیی بن معین نے خود امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے سیکھا ہے ۔ چنانچہ امام ابو یوسفؒ (امام ابو حنیفہؒ کے شاگردِ خاص) نقل کرتے ہیں: قال الطحاوي: حدثنا سليمان بن شعيب، حدثنا أبي، قال: أَمْلَى عَلَيْنَا أَبُو يُوسُفَ، قال: قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: "لاَ يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ يُحَدِّثَ مِنَ الحَدِيثِ إِلاَّ بِمَا حَفِظَهُ مِنْ يَوْمِ سَمِعَهُ إِلَى يَوْمِ يُحَدِّثُ بِهِ"

امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا: کسی شخص کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ حدیث بیان کرے مگر اسی کو جو اس نے جس دن سنی ہو، اس دن سے لے کر جس دن وہ اسے بیان کر رہا ہو، اس دن تک یاد رکھی ہو۔ یعنی، وہی حدیث بیان کرے جسے مسلسل یاد رکھا ہو، نہ کہ بھول بھال یا شک کی بنیاد پر۔ (الجواهر المضية في طبقات الحنفية 1/61، طبقات القاري 1/445 – سند لا بأس به)

اسی مضمون کو امام یحییٰ بن معینؒ بھی امام ابو حنیفہؒ کے تعلق سے بیان کرتے ہیں:

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْكَاتِبُ، أنا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ سَهْلٍ الْمُخَرِّمِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ حِبَّانَ، قَالَ وَجَدْتُ فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ قَالَ أَبُو زَكَرِيَّا يَعْنِي يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ وَسُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ، يَجِدُ الْحَدِيثَ بِخَطِّهِ لَا بِحِفْظِهِ فَقَالَ أَبُو زَكَرِيَّا «كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يَقُولُ لَا تُحَدِّثُ إِلَّا بِمَا تَعْرِفُ وَتَحْفَظُ» (الكفاية في علم الرواية للخطيب البغدادي 1/231)

یعنی یحییٰ بن معین سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو کوئی   حدیث اپنی لکھی ہوئی کتاب میں پائے، لیکن وہ اسے یاد نہ ہو (یعنی زبانی حفظ نہ ہو)، تو یحییٰ بن معین نے کہا: "ابو حنیفہ کہا کرتے تھے: صرف وہی حدیث بیان کرو جسے تم پہچانتے اور یاد رکھتے ہو۔"

( الكفاية في علم الرواية للخطيب البغدادي ١/‏٢٣١ ، سند میں محمد بن سہل پر کلام بھی ہے اور ان کی توثیق بھی ہے ، جب کہ حسین بن حبان کے تعلق سے دیکھیں ہمارا رسالہ : امام وکیع بن جراح کی حنفیت ، لہذا اگر کچھ ضعف ہے بھی تو وہ مختلف سندوں سے منقول ہونے کہ وجہ سے ذائل ہو گیا ہے۔)

اسی طرح ایک اور روایت میں ہے  "كان أبو حنيفة ثقة، لا يحدث بالحديث إلا بما يحفظه، ولا يحدث بما لا يحفظ" (تاریخ بغداد، ت بشار، 15/573)

امام ابو حنیفہؒ حدیث کے معاملے میں کس قدر احتیاط سے کام لیتے تھے

قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللهُ: لَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يَرْوِيَ الْحَدِيثَ إِلَّا إِذَا سَمِعَهُ مِنْ فَمِ الْمُحَدِّثِ، فَيَحْفَظُهُ، ثُمَّ يُحَدِّثُ بِهِ. امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا: کسی آدمی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ حدیث بیان کرے جب تک وہ اسے محدث کے منہ سے خود نہ سن لے، پھر اُسے یاد کرے، اس کے بعد بیان کرے۔ (المدخل إلى كتاب الإكليل ١/٤٨)

امام ابو حنیفہؒ کا حدیث کے باب میں معیار اس قدر سخت اور محتاط تھا کہ وہ صرف اسی حدیث کو قبول کرتے تھے جو راوی نے براہِ راست سنی ہو، یاد رکھی ہو، اور اس میں کسی قسم کی بھول چوک یا تلقین نہ ہو۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ وہ خود حدیث میں کسی قسم کی آمیزش یا کمی بیشی کے قائل نہیں تھے، بلکہ حدیث کو اس کی اصل پاکیزہ شکل میں محفوظ رکھنے کے خواہاں تھے۔ ان پر حدیث گھڑنے یا ترک کرنے کا الزام نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ ان کی علمی عظمت، فقہی بصیرت اور حدیث کے لیے ان کی غیر معمولی احتیاط کے سراسر خلاف ہے۔ امام ابو حنیفہؒ حدیث کے باب میں کسی قسم کی کوتاہی یا نرمی کے قائل نہ تھے بلکہ ان کی حدیث روایت کرنے کی شرائط دیگر محدثین کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت تھیں۔ اس حقیقت کا اعتراف نہ صرف حنفی فقہاء نے کیا بلکہ دیگر ائمہ حدیث نے بھی کیا ہے۔ چنانچہ امام صدر الشہید رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "والشرط عند أبي حنيفة لحل الرواية أن يحفظ الحديث عن ظهر القلب من حين سمع إلى حين يروي" (شرح أدب القاضي للخصاف 3/98) یعنی امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک حدیث روایت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ راوی کو وہ حدیث روزِ اول سے لے کر روایت کے وقت تک زبانی یاد ہو۔

امام جلال الدین سیوطیؒ نے تدریب الراوی میں امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ کے حوالے سے ذکر کیا: "فمن المشددين من قال: لا حجة إلا فيما رواه من حفظه وتذكره، روي عن مالك، وأبي حنيفة" (تدريب الراوي 1/526) یعنی امام مالکؒ اور امام ابو حنیفہؒ جیسے محدثین کا یہ سخت موقف تھا کہ حجت صرف وہی حدیث بن سکتی ہے جو راوی نے اپنے حافظے سے روایت کی ہو۔ بلکہ امام سیوطیؒ نے اس معیار کی شدت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "وهذا مذهب شديد، وقد استقر العمل على خلافه، فلعل الرواة في الصحيحين ممن يوصف بالحفظ لا يبلغون النصف" (تدريب الراوي 1/527) یعنی امام ابو حنیفہؒ کا یہ موقف اتنا سخت تھا کہ اگر صحیحین (بخاری و مسلم) میں راویوں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں نصف سے بھی کم ایسے ہوں گے جو اس معیار پر پورے اتریں۔

الغرض، امام ابو حنیفہؒ پر حدیث گھڑنے یا دانستہ آمیزش کا الزام نہ صرف علمی خیانت ہے بلکہ ان کی محدثانہ عظمت اور اصولی دیانت کے خلاف ہے۔


❖ 2. امام شعبہ بن الحجاج کا راویوں کا امتحان لینا

وممن كان يفعل ذلك لقصد الامتحان كان شعبة يفعله كثيرا لقصد اختبار حفظ الراوي، فإن أطاعه على القلب عرف أنه غير حافظ وإن خالفه عرف أنه ضابط.

امام شعبہ راویوں کے حدیث میں کچھ اضافہ کر کے ان کا امتحان لیتے تھے تاکہ ان کے ضبط اور قوتِ حفظ کا اندازہ ہو۔

(النكت على كتاب ابن الصلاح، ابن حجر، 2/867)

❖ 3. امام بخاریؒ کا بغداد میں امتحان

امام بخاری کے بغداد میں آنے پر ان کے امتحان کے لیے 100 حدیثیں ان کی سند و متن کو الٹ کر پیش کی گئیں۔ امام بخاریؒ نے نہ صرف تمام احادیث کی غلطیوں کو پہچان لیا بلکہ انہیں درست طریقے سے ترتیب بھی دے دیا۔

(النكت على كتاب ابن الصلاح، ابن حجر، 2/867)

❖ 4. کیا امام ابو حنیفہ بھی یہی طریقہ اپناتے تھے؟

جی ہاں! امام ابو حنیفہؒ نے بھی یہی طریقہ اپنایا، جیسا کہ خود ان کی بات سے ظاہر ہوتا ہے: "لم ألقَ شيخا إلا أدخلت عليه ما ليس من حديثه إلا هشام بن عروة." امام صاحب کی مراد یہ ہے کہ وہ راویوں کو آزمانے کے لیے ایسا کرتے، لہذا یہ کوئی "جرم" نہیں، بلکہ محدثین کا علمی طریقہ امتحان تھا۔

❖ 5. اگر امام ابو حنیفہ حدیث میں ملاوٹ کرتے، تو:

✦ 1. حماد بن زید ؒ اپنے نزدیک صرف ثقہ سے روایت کرتے تھے ، جیسا کہ غیر مقلدین نے واضح کیاہے ۔ (دراسات حدیثیۃ متعلقۃ بمن لا یروی الا عن ثقۃ للشیخ  ابی عمرو الوصابی : صفحہ ۲۳۲)

امام حماد بن زید، جو خود ثقہ راویوں کے پابند تھے،  لہذا اگر امام ابو حنیفہ جان بوجھ کر حدیث میں ملاوٹ کرتے تھر پھر ثقہ حماد بن زید نے یہ بات جاننے کے بعد بھی امام صاحب سے روایت ترک کیوں نہ کی ؟ معلوم ہوا حماد بن زید بھی سمجھ چکے تھے کہ امام صاحب امتحان کے واسطے ایسا کرتے ہیں ۔   مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود

تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 18 :امام حماد بن زید ؒ(م۱۷۹؁ھ) کی نظر میں امام ابو حنیفہ ؒ(م۱۵۰؁ھ) ثقہ ہیں۔

✦ 2. ایک شخص اپنی بری بات خود مجمع میں کیوں بیان کرے؟


❖ امام ابو حنیفہؒ کی تعریفات کو اعتراض میں بدل دینا 

– ایک غیر منصفانہ رویہ

بعض محدثین نے امام ابو حنیفہؒ کی تعریف پر مبنی اقوال کو سیاق و سباق سے کاٹ کر تنقید میں تبدیل کر دیا۔ حالانکہ اگر ان اقوال کو دیگر روایات، محدثین کے منہج اور امام ابو حنیفہؒ کی علمی خدمات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ سب ان کے علمی مقام کا اعتراف اور اعلیٰ درجے کی مدح ہے، نہ کہ اعتراض۔ یہ رویہ دراصل تعصب یا منہج کی نا سمجھی کی علامت ہے، نہ کہ علمی انصاف۔

امام مالکؒ کا قول:

امام مالک ؒ سے کہا گیا کہ : کیا آپ نے امام ابو حنیفہؒ کو دیکھا ہے ؟  تو امام مالک ؒ نے جواب دیا کہ : ہاں ! میں ایک ایسے آدمی کو دیکھا ہے کہ جو اگر تم سے اس ستون کے بارے میں بحث کرے ، کہ وہ اس کو سونے کا ثابت کر دے گا ، تو وہ دلیل سے اسے سونے کا ثابت کرے گا

 (السہم المصیب : صفحہ ۷۰، طبعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت ، مع تاریخ بغداد)

یہ دراصل امام ابو حنیفہؒ کی فقہی ذہانت، استدلالی قوت اور علمی گہرائی کی زبردست تعریف تھی، لیکن ابن ابی حاتمؒ جیسے بعض ناقدین نے اسے ضد، ہٹ دھرمی اور "خطا پر اصرار" کے مفہوم میں توڑ مروڑ کر پیش کیا، حالانکہ امام ذہبیؒ، ابن کاسؒ اور دیگر معتبر علماء نے واضح کیا کہ یہ قول درحقیقت مدح اور تعریف ہے، نہ کہ تنقیص۔مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود

تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 19 :امام ابوحنیفہؒ (م۱۵۰؁ھ) امام مالک بن انس ؒ (م۱۷۹؁ھ) کے نزدیک ثقہ ہیں ۔

امام عبدالرزاقؒ کا قول:

"میں نے امام ابو حنیفہؒ سے صرف اس لیے روایت لی کہ میرے شیوخ کی تعداد زیادہ ہو جائے۔"

یہ جملہ رجال کی کثرت اور علمی اہتمام کی طرف اشارہ ہے، نہ کہ امام ابو حنیفہؒ کی علمی حیثیت کی نفی۔ مصنف عبدالرزاق میں امام ابو حنیفہ سے کئی روایات کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ امام عبدالرزاقؒ ان کے ثقہ اور قابلِ اعتماد عالم ہونے کو تسلیم کرتے تھے۔ اس قول کو بھی خطیب بغدادی جیسے متعصب ناقدین نے اعتراض میں بدل دیا۔

مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود

اعتراض نمبر 137 : کہ عبد الرزاق نے کہا کہ میں ابو حنیفہ سے روایت صرف اس لیے لکھتا ہوں تاکہ میرے رجال زیادہ ہو جائیں اور وہ ان سے بیس سے کچھ اوپر روایات کیا کرتے تھے۔

اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی اس روایت کو کہ وہ اپنے شیوخ کا امتحان لیا کرتے تھے،

یہ بھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تعریف تھی کہ وہ احادیث بیان کرنے والے رواہ کا امتحان لیتے تھے لیکن ابن حبان  نے سیاق و سباق سے کاٹ کر اس روایت کو طعن بنا دیا اور گمان کیا کہ امام صاحب جان بوجھ کر حدیث میں ملاوٹ کرتے تھے۔ حالانکہ خود ابن حبان نے "المجروحین" میں  واقعہ یحییٰ بن معین سے نقل کیا ہے۔ مگر تعصب کی بنا پر ابن حبان کی رائے میں توازن باقی نہ رہا

فائدہ :

 امام شعبہ اور امام یحیی بن معین دونوں سے امام ابو حنیفہ کی تعریف واضح ملتی ہے اور دونوں کا عمل بھی وہی ہے جو امام ابو حنیفہ نے یہاں کیا ، یہ بھی ایک قرینہ ہیکہ امام ابو حنیفہ امتحان لینے واسطے حدیث میں اضافہ کرتے تھے جیسا کہ یحیی بن معین اور امام شعبہ کرتے تھے مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود


تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 2 :امام اعظم ابو حنیفہ ؒ (م۱۵۰؁ھ) امام ابن معین ؒ (م۲۳۳؁ھ) کی نظر میں

تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 23 : امام یحیی بن معین رحمہ اللہ کا امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا دفاع , دفاع حنفیت - یحیی بن معین کا طریقہ

تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 26 : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تعریف و توصیف ، حدیث کی مشہور و معروف کتاب "مصنف عبدالرزاق" کے مصنف امام عبدالرزاق بن ہمام رحمہ اللہ سے :

تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 27 : امام اعظم ابوحنیفہ ؒ (م ۱۵۰؁ھ) امام شعبہ ابن الحجاج ؒ (م ۱۶۰؁ھ)کے نزدیک ثقہ ہیں ۔

خلاصہ :

امام ابو حنیفہؒ پر یہ الزام کہ انہوں نے احادیث میں "ملاوٹ" (تحریف) کیں، درحقیقت ایک غلط فہمی پر مبنی ہے۔ یہ عمل حدیث میں تحریف نہیں تھا، بلکہ روات کے ضبط و صلاحیت کو پرکھنے کا ایک معروف علمی طریقہ تھا، جو محدثین کے ہاں تسلیم شدہ تھا۔ امام شعبہ، یحییٰ بن معین اور دیگر اکابر محدثین بھی اسی نوعیت کے امتحانی طریقے اپناتے رہے۔ امام ابو حنیفہؒ کا مقصد بھی یہی تھا کہ حدیث کی روایت صرف انہی سے لی جائے جو سچے، مضبوط حافظے والے اور معتبر ہوں۔

ابن حبانؒ جیسے محدثین کی طرف سے امام ابو حنیفہؒ پر سخت تنقید دراصل ان کے ذاتی تعصب یا فہم کی لغزش کا نتیجہ تھی، جس پر کئی محققین اور محدثین نے علمی طور پر روشنی ڈالی ہے۔ امام ابو حنیفہؒ نہایت محتاط، حدیث کی جعل سازی سے پاک، اور روایتِ حدیث میں اعلیٰ ترین معیار کے قائل تھے۔ اگر وہ واقعی غیر معتبر ہوتے، تو امام حماد بن زید، امام عبدالرزاق اور دیگر جلیل القدر محدثین ان سے روایت نہ لیتے، اور نہ ہی ان کی فقاہت کے معترف ہوتے۔ لہٰذا امام ابو حنیفہؒ کے اس عمل کو بدگمانی یا سوء ظن کی بنیاد بنا کر ان کی شخصیت کو مجروح کرنا علمی دیانت کے سراسر خلاف ہے۔ تحقیق و انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ان کے طرزِ عمل کو محدثین کی سنت اور ایک فقیہ کی بصیرت افروز حکمت عملی کے طور پر تسلیم کیا جائے، جو حدیث کی حفاظت اور تحقیق کے بلند ترین اصولوں کے عین مطابق تھا۔



تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...