نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تعریف و توصیف ، حدیث کی مشہور و معروف کتاب "مصنف عبدالرزاق" کے مصنف امام عبدالرزاق بن ہمام رحمہ اللہ سے :


  امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تعریف و توصیف ، 

حدیث کی مشہور و معروف کتاب "مصنف عبدالرزاق"

 کے مصنف امام عبدالرزاق بن ہمام رحمہ اللہ سے : 


امام عبدالرزاق الصنعانی جیسے محدث بھیامام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے حلم، فہم، اور علمی مقام کے معترف تھے۔

قال أبو يعقوب يوسف بن أحمد نا أبو علي محمد بن علي السامري قال نا أحمد بن منصور الرمادي قال سمعت عبد الرزاق بن همام يقول ما رأيت أحدا قط احلم من أبى حنيفة لقد رأيته في المسجد الحرام والناس يتحلقون حوله إذ سأله رجل عن مسئلة فأفتاه بها فقال له رجل قال فيها الحسن كذا وكذا وقال فيها عبد الله بن مسعود كذا فقال أبو حنيفة أخطأ الحسن وأصاب عبد الله بن مسعود فصاحوا به قال عبد الرزاق فنظرت في المسئلة فإذا قول ابن مسعود فيها كما قال أبو حنيفة وتابعه أصحاب عبد الله بن مسعود

 (الإنتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء - ابن عبد البر - الصفحة ١٣٥)

مصنف عبدالرزاق کے مولف امام عبدالرزاق بن ہمام فرماتے ہیں 

"میں نے ابو حنیفہ سے زیادہ بردبار (حلیم) شخص کبھی نہیں دیکھا، میں نے انہیں مسجد حرام میں دیکھا جبکہ لوگ ان کے گرد حلقے بنا کر بیٹھے تھے۔ ایک شخص نے ان سے ایک مسئلہ پوچھا، تو انہوں نے اس پر فتویٰ دیا۔ پھر ایک دوسرے شخص نے کہا: اس مسئلے میں حسن بصری نے یہ کہا ہے، اور عبداللہ بن مسعود نے یوں کہا ہے۔ تو امام ابو حنیفہ نے فرمایا: حسن نے غلط کہا اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے درست کہا۔ اس پر لوگ ان پر شور مچانے لگے۔  امام عبدالرزاق کہتے ہیں: میں نے اس مسئلے پر غور کیا، تو پایا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول بالکل وہی تھا جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ  نے کہا تھا، اور ابن مسعود کے اصحاب بھی امام ابو حنیفہ ہی کے قول کے موافق تھے۔"

محدث امام عبدالرزاق کی زبانی امام ابو حنیفہ کے مناقب :

1۔ بردباری (حلم):

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نہایت نرم مزاج اور بردبار تھے، حتیٰ کہ تنقید اور شور میں بھی سکون اور علم سے جواب دیتے۔

2۔ علمی اور فقہی گہرائی:

امام صاحب نے مسئلے میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کو ترجیح دی، جو بعد میں درست ثابت ہوا۔ یہ ان کی گہری فقہی بصیرت کا ثبوت ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام صاحب کی بات دلیل اور تحقیق پر مبنی ہوتی تھی، نہ کہ ظن یا رائے پر۔

3۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے فقہی منہج سے وابستگی:

امام کا قول صرف انفرادی رائے نہ تھی، بلکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کا بھی یہی موقف تھا۔امام ابو حنیفہ کا فقہی منہج دراصل حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے فہمِ دین کا تسلسل ہے، جس کی تائید اس واقعے میں ہوتی ہے۔ 

4۔ علمی جرأت:

امام نے بلا جھجک حق بات کہی، خواہ وہ کسی معروف تابعی (امام حسن بصری رحمہ اللہ) کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ شخصیت یا شہرت نہیں دیکھتے تھے، بلکہ صرف حق کو معیار مانتے تھے۔

5۔ علم کی مقبولیت اور عوامی اعتماد:

مسجد حرام جیسے عظیم مقام پر لوگ ان کے گرد علمی حلقے میں جمع تھے، جو ان کے مقام و مرتبے کا ثبوت ہے۔مسجد الحرام میں حلقہ علم اور سوال و جواب کی محفل اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام و خواص امام پر بھروسہ کرتے تھے۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...