امام اعظم ابوحنیفہ ؒ (م ۱۵۰ھ) امام شعبہ ابن الحجاج ؒ (م ۱۶۰ھ)کے نزدیک ثقہ ہیں ۔
مولانا نذیر الدین قاسمی
امام اعظم ابوحنیفہ ؒ (م ۱۵۰ھ) امام شعبہ ابن الحجاج ؒ (م ۱۶۰ھ)کے نزدیک ثقہ ہیں، تفصیل درج ذیل ہیں :
(۱) ثقہ ،حافظ شبابہ بن سوار ؒ (م ۲۰۶ھ)فرماتے ہیں کہ ’’کان شعبۃ حسن الرأی فی أبی حنیفۃ ‘‘ امام شعبہ ؒ امام ابو حنیفہ ؒ کے بارے میں اچھی رکھتے تھے۔
نوٹ: حافظ شبابہ بن سوار ؒ امام شعبہؒ کے شاگرد ہیں ،جیسا کہ تہذیب الکمال سے ظاہر ہے ۔
ایک اور قول میں یحیی بن آدم ؒ (م ۲۰۳ھ) کہتے ہیں کہ’’ قال کان شعبۃ اذا سئل عن ابی حنیفۃ اطنب فی مدحہ وکان یہدی الیہ فی کل عام طرقہ‘‘ امام شعبہ ؒ سے جب امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں پوچھاجاتا ،تو وہ آپ کی بہت زیادہ تعریف کرتے اور ہر سال وہ آپ کی طرف کوئی تحفہ بھیجتے ۔ (مناقب امام اعظم للموفق ص:۳۱۹)
(۲) امام شعبہ بن الحجاج ؒ (م ۱۶۰ھ) نے امام ابوحنیفہ ؒ سے روایت کی ہے ۔(ناسخ الحدیث ومنسوخہ لا ابن شاہین : ص:۴۷۴،مسند امام ابوحنیفہؒ بروایت ابن خسرو ج:۱ص:۳۰۶،جلد :۲ص:۸۹۳)
اور غیر مقلدین کے نزدیک امام شعبہؒ صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے ہیں چنانچہ :غیر مقلد ین کے محدث ،زبیر علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ امام شعبہ ؒ عام طور پر اپنے نزدیک ثقہ ہی سے روایت کرتے تھے ۔(مقالات ج:۶ص:۱۵۷) اہل حدیث عالم کفایت اللہ سنابلی صاحب لکھتے ہیں کہ امام شعبہ ؒ صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے تھے۔(انوار البدر ص:۱۳۴) ،شیخ ابو الحسن سلیمانی ؒ جو کہ شیخ البانی اور شیخ مقبل کے شاگرد ہیں ،ان کے نزدیک امام شعبہ ؒ صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے تھے ۔(اتحاف النبیل ج:۲ص:۹۹)شیخ البانی ؒ ایک راوی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’روایۃ شعبۃ عنہ توثیق لہ ‘‘امام شعبہؒ کا اس سے روایت لینا شعبہؒ کی طرف سے اس کی توثیق ہے ۔(ارواء الغلیل ج:۱ص:۲۸۰)
ثابت ہوا کہ امام ابو حنیفہ ؒ امام شعبہؒ کے نزدیک ثقہ ہیں ۔
نوٹ :
امام ابن معین ؒ کے قول سے بھی امام شعبہؒ کا امام ابوحنیفہؒ سے روایت کرنے کا ذکر ملتا ہے ،چنانچہ حافظ المغرب امام ابن عبدالبر ؒ (م ۴۶۳ھ) کہتے ہیں :
قال ابو یعقوب یوسف بن احمد بن یوسف المکی الصیدلانی (ابن الدخیل )نا احمد بن الحسن الحافظ قال نا عبداللہ بن احمد بن ابراہیم الدورقی قال سئل یحی بن معین وانا اسمع عن ابی حنیفۃ فقال ثقۃ ما سمعت احدا ضعفہ،ہذا شعبۃ بن الحجاج یکتب الیہ ان یحدث ویامرہ وشعبۃ شعبۃ ۔
عبداللہ بن احمد بن ابراہیم الدورقی سے روایت ہے کہ یحی بن معین نے ابوحنیفہ ؒ کے بارے میں فرمایا کہ وہ ثقہ تھے ،میں نے سنا کہ کسی ایک نے بھی انہیں ضعیف کہا ہو ،یہ شعبہ بن الحجاج ،انہیں (خط ) لکھتے ہیں کہ وہ حدیث بیان کریں اور انہیں حکم دیتے ہیں ،اور شعبہ تو آخر شعبہ تھے ۔(الانتقاء لابن عبدالبر ص:۱۲۷،وسندہ حسن ،الجوہر المضیۃ ج:۱ص:۱۹۔مقام ابی حنیفہ ص:۱۳۰)
یہ قول امام ابن معین ؒ سے ثابت ہے جس کی تفصیل ’’الاجماع شمارہ نمبر: ۳ص:۲۸۴‘‘پر موجود ہے ۔
اس پوری تحقیق سے معلوم ہوا کہ امام ابوحنیفہؒ امام شعبہؒ کے نزدیک ثقہ ہیں ۔
آخری قول :
حافظ المغرب ؒ (م ۴۶۳ھ) ہی فرماتے ہیں کہ :
قال ابو یعقوب وحدثنا اسحاق بن احمد الحلبی قال ،نا سلیمان بن سیف قال نا عبدالصمد بن عبدالوارث قال کنا عند شعبۃ بن الحجاج فقیل لہ مات ابو حنیفۃ فقال شعبۃ لقد ذہب معہ فقہ الکوفۃ تفضل اللہ علینا وعلیہ برحمتہ ۔
حافظ عبدالصمد بن عبدالوارث ؒ (م ۲۰۷ھ) کہتے ہیں کہ ہم امام شعبہؒ کی خدمت میں تھے،کسی نے ان سے کہا کہ امام ابوحنیفہؒ فوت ہوچکے ہیں تو امام شعبہؒ نے کہا کہ یقیناامام ابوحنیفہؒ کے ساتھ کوفہ کی فقہ بھی چلی گئی اللہ اپنی رحمت سے ان پر اور ہم پر فضل فرمائے ۔(الانتقاء لابن عبدالبر ص:۱۲۶،واسنادہ حسن )
رئیس سلفی اور مقبل بن ہادی کی پیش کردہ اعتراض کی حقیقت :
رئیس صاحب کہتے ہیں کہ امام شعبہؒ اور حماد بن سلمہ امام ابوحنیفہؒ کو ملعون کہا کرتے تھے۔(ضعفاء للعقیلی )(سلفی تحقیقی جائزہ ص:۱۱۹) اسی طرح مقبل بن ہادی صاحب بھی امام ابوحنیفہؒ کی تضعیف کا یہ قول بحوالہ کتاب السنہ پیش کیا ہے۔(نشر الصحیفہ ص:۳۵۳)
الجواب :
یہ حضرات ایک طرف کہتے ہیں کہ صحیح سند سے اقوال پیش کئے جائیں لیکن اپنے لیے ۱۰۰ خون بھی معاف ہے ۔
بہر حال عرض یہ ہے کہ اس کی سند میں ’’منصور بن سلمہ الخزاعی قال سمعت حماد بن سلمۃ‘‘حافظ منصور بن سلمہ الخزاعی ؒ (م ۲۱۰ھ) امام حماد بن سلمہ ؒ (م ۱۶۷ھ) سے روایت کررہے ہیں ۔(کتاب الضعفاء للعقیلی ج:۴ص:۲۸۱،نشر الصحیفہ ص:۳۵۳)
اور امام حماد بن سلمہ ؒ(م ۱۶۷ھ) اگرچہ ثقہ ہیں لیکن خود غیرمقلدین کے نزدیک ان کا اخیر میں اختلاط ہوگیا تھا۔(احادیث ہدایہ، فنی و تحقیقی حیثیت : ص ۹۹،ایام قربانی اور آثار صحابہ : ص ۳۷،تقریب رقم :۱۴۹۹، الکاشف رقم:۱۲۲۰، الکواکب النیرات ص:۴۶۰، الاغتباط بمن رمی من الرواۃ بالاختلاط :۹۶)
اور کسی امام نے صراحت نہیں کی کہ حافظ منصور بن سلمہ الخزاعی ؒ (م ۲۱۰ھ) امام حماد بن سلمہ ؒ (م ۱۶۷ھ) سے اختلاط سے پہلے سنا ہے ۔
لہذا رئیس صاحب اور مقبل صاحب کا استدلال باطل ومردود ہے ۔
نیز یہ روایت الانتقاء کی روایت کے بھی خلاف ہے ،جس میں امام شعبہ ؒ نے امام ابوحنیفہ ؒ کی وفات ان کے لئے پر رحمت کی دعا کی ،اسی طرح یہ مردود روایت ان روایات کے بھی خلاف ہے جس میں امام شعبہؒ نے امام ابوحنیفہؒ کی توثیق کی ہے ۔
پھر امام شعبہؒ نے امام ابوحنیفہؒ سے روایت بھی کی ہے جو کہ باصول غیرمقلدین یہ ثابت کرتا ہے کہ امام شعبہؒ کے نزدیک امام ابوحنیفہؒ ثقہ ہیں ۔
ایک اور بات :
اخیر میں یہ بھی عرض ہے کہ ہمارا سلف اور متاخرین ائمہ جرح وتعدیل مثلاً امام نووی ؒ(م ۶۷۱ھ) ، امام مزی ؒ (م۷۴۲ھ) اور ان کے اصحاب امام ذہبی ؒ (م۷۴۸ھ) ، حافظ ابن کثیر ؒ (م ۷۷۶ھ)،حافظ مغلطائی ؒ (م ۷۶۲ھ) ،حافظ ابوالمحاسن ابن الحسینی ؒ (م ۷۶۵ھ) ،امام ابن الملقن ؒ(م ۸۰۴ھ)اور حافظ ابن حجرعسقلانیؒ (م ۸۵۲ھ) وغیرہ نے امام صاحب کے باریمیں وارد جروحات کو نظر انداز کرکے ان اقوال کوترجیح دی ہے جن میں آپ کی توثیق وثنا ء مروی ہے ،اور اسی کو ان ائمہ نے اپنی اپنی اسماء الرجال کی کتابوں میں نقل کیا ہے ، جس کی تفصیل اگلی قسطوں میں آئے گی ۔(ان شاء اللہ )
لہذا ہمارے اسلاف اور ائمہ جرح وتعدیل کے منہج کی وجہ سے امام ابوحنیفہؒ کے توثیقی اقوال کو ترجیح حاصل ہوگی ،اور ان پروارد جروحات کو نظر انداز کردیا جائیگا ۔
----
شبابہ بن سوا ر ؒ (م ۲۰۶ھ) صحیحین کے راوی ہیں اور ثقہ ،حافظ ہیں ۔(تقریب رقم : ۲۷۳۳)اور جمہور نے انہیں ثقہ کہا ہے اور ان پر کلا م صرف مرجی ہونے کی وجہ سے ہوا ہے ،لیکن رئیس صاحب نے صرف مسلکی تعصب کے چکر میں صحیحین کے راوی پر جرح کردی ،جوکہ باطل ومردود ہے ۔
نیز تعجب ہے کہ موصوف نے امام صاحب اور ان کے اصحاب پر الکامل لابن عدی ؒ سے کئی جروحات نقل کیں۔ (اللمعات ،سلفی تحقیقی جائزہ ص:۸۹،وغیرہ ) لیکن اسی کتاب میں موصوف کو یہ قول سند کے ساتھ نظر نہیں آیا ۔
اعتراض نمبر۲:
رئیس صاحب ایک اور جاہلانہ اعتراض یہ کرتے ہیں کہ ’’کان شعبۃ حسن الرأی فی ابی حنیفۃ ‘‘یہ قول توثیق نہیں۔ (سلفی تحقیقی جائزہ ص:۱۱۹)
الجواب :
جب لوگ مسلکی تعصب میں اندھی اور ہٹ دھرمی پر اتر آتے ہیں ،تو ایسے ہی اعتراض کرتے ہیں ، کتب ِ اسماء الرجال میں کئی مثالیں موجود ہیں ،جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ’’حسن الرأی ‘‘الفاظ توثیق میں سے ہے۔فی الحال ایک مثال ملاحظہ فرمائے :
محمد بن حمید الرازی ؒ کے بارے میں امام ابن معین ؒ نے کہا کہ وہ ثقہ ہیں ،ان میں کوئی خرابی نہیں ہے ۔ (تہذیب التہذیب ج:۹ص:۱۳۱)اسی بات کو محمد بن حمید الرازی ؒکے ترجمے میں حافظ ابن حجر ؒ نے یوں کہا ہے ’’کان ابن معین حسن الرأی فیہ ‘‘۔(تقریب رقم : ۵۸۳۴)
لہذا رئیس صاحب کا جاہلانہ اعتراض باطل ومردود ہے۔
۱۱- حافظ المغرب ؒ نے اس کی دوسری سند ذکر فرمائی ہے کہ:
قال أبویعقوب حدثنا أبومروان عبدالملک بن الحر الجلاب وابوالعباس محمد بن الحسن الفارض قال نا محمد بن اسماعیل الصائغ قال سمعت شبابۃ بن سوار یقول کان شعبۃ حسن الرأی فی ابی حنیفۃ۔(الانتقاء ص:۱۲۶)
سند کے روات کی تحقیق درج ذیل ہے :
۱) حافظ المغرب امام ابوعمر بن عبدالبر ؒ (م ۴۶۳ھ) اور
۲) ان کے شیخ محدث مکہ ابو یعقوب یوسف بن احمد المکی الصیدلانی ؒ (م ۳۸۵ھ)بھی صدوق اور ثقہ ہیں ۔
نیز یہ کتاب الانتقاء لابن عبدالبر بھی حافظ المغرب سے ثابت ہے ،جس کی تفصیل ’’الاجماع شمارہ نمبر:۳ص:۲۸۴‘‘ پر موجود ہے۔
۳) ابو مروان عبدالملک بن بحر ؒ (م ۳۳۴ھ) ثقہ ،مکثر ہیں ۔(کتاب الثقات للقاسم ج:۶ص :۴۳۶ ) اسی طرح ان کے متابع میں ابوالعباس محمد بن الحسن الفارسی ؒ بھی موجود ہے ،جن کے حالات نہیں مل سکے ۔
۴) محمد بن اسماعیل الصائغ ؒ (م ۲۷۶ھ) سنن ابوداؤد کے راوی ہیں اور صدوق ہیں ۔(تقریب رقم :۵۷۳۱)
۵) حافظ شبابہ بن سوار ؒ (م ۲۰۶ھ) صحیحین کے راوی ہیں اور ثقہ ،حافظ ہیں ۔(تقریب رقم : ۲۷۳۳)
۶) امام شعبہؒ (م ۱۶۰ھ) ثقہ ،مضبوط اور امیر المؤمنین فی الحدیث ہیں ۔(تقریب رقم : ۲۷۹۰،الکاشف للذہبی )معلوم ہواکہ اس یہ سند حسن ہے ۔
۱۱۱- اس قول کی تیسری سند حافظ ابن عدی ؒ (م ۳۶۵ھ) نے یوں ذکر کی ہے کہ :
حدثنا ابن حماد قال وحدثنی ابوبکر الاعین ،حدثنی یعقوب بن شیبۃ عن الحسن الحلوانی سمعت شبابۃ یقول کان شعبۃ حسن الرأی فی ابی حنیفۃ۔(الکامل لابن عدی ج:۸ص:۲۴۱)
اس سند کے راویوں کی تفصیل یہ ہے ۔
۱) حافظ ابن عدی ؒ(م ۳۶۵ھ) کی ذات کسی تعارف کی محتاج نہیں آپ مشہور ثقہ ائمہ جرح و تعدیل میں سے ہیں ۔
۲) ان کے استاذ حافظ ابن حماد ابوالبشر الدولابی ؒ (م ۳۱۰ھ) بھی جمہور کے نزدیک ثقہ ،حافظ ہیں ۔ (الاجماع شمارہ نمبر:۲ ص:۴) پھر ان کے متابع میں ابوبکر محمد بن جعفر بن اعین ؒ (م ۲۹۳ھ) بھی ثقہ ہیں ۔ (کتاب الثقات للقاسم ج:۸ص:۲۲۰،تاریخ الاسلام ج:۶ص:۱۰۱۸)
۳) حافظ امام یعقوب بن شیبہؒ (م ۲۶۸ھ) ثقہ ،امام ہیں ۔(سیر اعلام النبلاء ج:۱۲ ص:۴۷۶، تاریخ الاسلام ج:۶ ص:۴۵۱)
۴) امام حسن بن علی الحلوانی ؒ (م ۲۴۲ھ)
۵) حافظ شبابہ بن سوار ؒ (م ۲۰۶ھ) اور
۶) امام شعبہ ؒ کی توثیق پہلے گزر چکی ۔
لہذا یہ سند بھی صحیح ہے۔
اس قول کی ایک اور سند امام موفق بن احمد مکی ؒ (م ۵۶۸ھ) نے یوں بیان کی ہے :
اخبرنی تاج الاسلام ابوسعد السمعانی فی کتابہ الی ،انا ابوالفرج الاصبہانی بہا اجازۃ انا ابوالحسین قراء ۃ انا الحافظ ابوعبداللہ بن مندۃ نا الاستاذ ابومحمد الحارثی قال حدثنا العباس بن حمزۃ انبانا محمد بن المہاجر انبا یحی بن آدم قال کان شعبۃ اذا سئل عن ابی حنیفۃ اطنب فی مدحہ وکان یہدی الیہ فی کل عام طرقۃ ۔(مناقب امام اعظم للموفق :ص:۳۱۹)
اس سند کے راویوں کی تفصیل یہ ہے :
۱) امام موفق بن احمد المکی ؒ (م ۵۶۸ھ) صدوق ہیں ۔(الاجماع شمارہ :۴ص:۷۰)
۲) امام ابوسعد السمعانی ؒ (م۵۶۲ھ)مشہور ثقہ ،امام اور محدث مشرق ہیں ۔(تاریخ الاسلام ج: ۱۲ ص : ۲۷۴)
۳) ابوجعفر سعید بن ابی رجاء الاصبہانی ؒ (م ۵۳۲ھ)
۴) ابوالحسین احمد بن محمد الاسکافی ؒ ،
۵) امام ابوعبداللہ بن مندہ ؒ (م ۳۹۵ھ) وغیرہ کی توثیق گزر چکی ۔(دیکھئے الاجماع شمارہ:۴ص:۶۲ ، ۶۳ )
۶) امام ابومحمد الحارثی ؒ (م ۳۴۰ھ) کی توثیق ’’الاجماع شمارہ :۲ص:۸۹‘‘پر موجود ہے نیز امام حارثی ؒ کی تائید میں کئی ثقہ راوی موجود ہیں،جس کاذکر امام شعبہؒ کے پہلے قول کے تحت گزرچکا۔
۷) عباس بن حمزہ نیساپوری ؒ (م ۲۸۸ھ) بھی ثقہ ہیں۔ (التذییل علی کتب الجرح والتعدیل ص: ۱۵۳ ، مسند امام بوحنیفہؒ بروایت الحارثی ج:۱ص:۱۷۴)
۸) محمد بن المہاجر البغدادیؒ (م ۲۶۴ھ) ضعیف ہے ۔(تاریخ بغداد ج:۴ص؛۷۱) لیکن امام شعبہؒ کے پچھلے قول سے اس قول کی تائید ہوتی ہے،اور محمد بن المہاجر ؒ کے متابع میں امام حسن بن علی الحلوانی ؒ اور محمد بن اسماعیل الصائغ ؒ جیسے ثقات موجود ہیں ،لہذا اس روایت میں آپ پر کلام مردود ہے ۔
۹) یحیی بن آدم ؒ (م ۲۰۳ھ) ثقہ ،حافظ اور فاضل ہیں ۔(تقریب رقم : ۷۴۹۶)
۱۰) امام شعبہ ؒ کی توثیق گزر چکی ۔
لہذا متابعت کی وجہ سے اس قول کی سند حسن ہے ۔
اس سند کے راویوں کا حال ملاحظہ فرمائیں :
۱) حافظ المغرب امام ابوعمر بن العبدالبر ؒ (م ۴۶۳ھ) اور
۲) ان کے شیخ محدث ِمکہ ابویعقو ب یوسف بن احمد المکی الصیدلانی ؒ (م ۳۸۸ھ) کی توثیق گزر چکی ۔
۳) اسحٰق بن محمد بن احمد الحلبی ؒ (م ۳۲۱ھ) بھی ثقہ ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم ج:۲ص:۳۳۶،الدلیل المغنی ص:۱۴۸)
۴) حافظ سلیمان بن سیف ؒ (م ۲۷۲ھ) سنن نسائی کے راوی ہے اور ثقہ ،حافظ ہیں ۔(تقریب رقم: ۲۵۷۱)
۵) حافظ عبدالصمد بن عبدالوارث ؒ (م ۲۰۷ھ) صحیحین کے راوی ہیں اور صدوق ،حجت اور شعبہؒ کی روایت میں مضبوط ہیں۔(تقریب رقم :۴۰۸۰)
۶) امام شعبہؒ کی توثیق گزر چکی ۔ لہذا یہ سند حسن ہے ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں