اعتراض نمبر 137 : کہ عبد الرزاق نے کہا کہ میں ابو حنیفہ سے روایت صرف اس لیے لکھتا ہوں تاکہ میرے رجال زیادہ ہو جائیں اور وہ ان سے بیس سے کچھ اوپر روایات کیا کرتے تھے۔
اعتراض نمبر 137 :
کہ عبد الرزاق نے کہا کہ میں ابو حنیفہ سے روایت صرف اس لیے لکھتا ہوں تاکہ میرے رجال زیادہ ہو جائیں اور وہ ان سے بیس سے کچھ اوپر روایات کیا کرتے تھے۔
أخبرنا رضوان بن محمد بن الحسن الدينوري، حدثنا علي بن أحمد بن علي الهمذاني - بها - قال: حدثنا الفضل بن الفضل الكندي قال: سمعت الحسن بن صاحب يقول: سمعت أبا سلمة الفقيه يقول: سمعت عبد الرزاق يقول: ما كتبت عن أبي حنيفة إلا لأكثر به رجالي، وكان يروي عنه نيفا وعشرين حديثا.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ عبد الرزاق کا ابو حنیفہ سے اس لیے روایت کرتا کہ اس کے رجال اور شیوخ میں اضافہ ہو جائے اگر چہ وہ احادیث اس کے پاس دوسرے مشائخ سے بھی مروی ہوتی تھیں تو بے شک یہ محدثین کے ہاں انتہائی عظمت کی بات ہے تو اس خبر سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ بے شک ابوحنیفہ اسی روایت کو بیان کرتے تھے جس میں اور بھی ان کے ساتھ شریک ہوتے۔ اور غریب روایات بیان نہ کرتے تھے۔ اور یہ تو ان کی تعریف ہے[1]۔ اور بے شک عبدالرزاق نے کئی مقامات میں ابوحنیفہ کی تعریف کی ہے۔ تفصیل کے لیے الانتقاء ص 135 اور خطیب کی تاریخ کی اسی جلد کا ص 351 دیکھیں[2]۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ امام عبدالرزاق کا قول "ما كتبت عن أبي حنيفة إلا لأكثر به رجالي" کا تحقیقی جائزہ
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر بعض مخالفین کی جانب سے روایت کی بنیاد پر طعن کیا جاتا ہے جو امام عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی سے منقول ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں:
میں نے امام ابو حنیفہ سے صرف اس لیے روایت لکھی تاکہ میرے شیوخ کی تعداد زیادہ ہو جائے، اور وہ ان سے بیس سے کچھ زائد احادیث روایت کرتے تھے۔"
بعض افراد اس جملے کو تنقید کے طور پر لیتے ہیں، گویا امام عبدالرزاق نے امام ابو حنیفہ سے محض رسمی طور پر روایت لی، نہ کہ ان کی علمی و دینی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے۔ مگر جب اس قول کو اصولِ تحدیث، رجال اور محدثین کے منہج کی روشنی میں دیکھا جائے، تو یہ اعتراض خود ہی گر جاتا ہے اور حقیقت اس کے برعکس سامنے آتی ہے۔
یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ محدثین کا طریقہ رہا ہے کہ وہ اپنی رجال کی فہرست کو کثیر بناتے تھے، نہ صرف روایت کے تحفظ کے لیے بلکہ اس کی صحت و قوت کے لیے بھی۔
خود خطیب بغدادی، جو امام ابو حنیفہ پر سخت نکتہ چیں شمار ہوتے ہیں، وہ تاریخ بغداد (جلد 8، ص 618) میں امام ابراہیم بن سعید الجوهری سے نقل کرتے ہیں: "من لم يكن عنده الحديث من مائة طريق، فهو يتيم فيه." یعنی: "جو شخص ایک حدیث کو سو سندوں سے نقل نہ کرے، وہ اس حدیث میں یتیم ہے۔"
اس سے واضح ہوتا ہے کہ رجال کی کثرت، صرف عددی فخر نہیں بلکہ علمی پختگی کی علامت تھی۔ چنانچہ اگر امام عبدالرزاق نے امام ابو حنیفہ سے روایت لے کر یہ کہا کہ "لأكثر به رجالي"، تو یہ دراصل امام ابو حنیفہ کی ثقاہت اور اعتماد کی دلیل ہے، نہ کہ تنقیص جیسا کہ بعض تعصب ذہنوں نے غلط سمجھا۔
مزید برآں، اگر امام عبدالرزاق صرف رسمی اضافے کے لیے روایت لیتے تو انہیں اپنی شہرہ آفاق حدیثی تصنیف "مصنف عبدالرزاق" میں امام ابو حنیفہ سے متعدد احادیث اور آثار نقل کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ مصنف عبدالرزاق میں امام ابو حنیفہ سے منقول اقوال و روایات کا ایک معتد بہ ذخیرہ موجود ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ نہ صرف ان سے روایت کرتے تھے بلکہ ان کے علم و فقہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ یہ بات بھی تسلیم شدہ ہے کہ محدثین ایک ہی حدیث کو مختلف شیوخ سے سنتے تھے تاکہ یہ طے ہو سکے کہ یہ روایت شاذ یا غریب نہیں بلکہ متواتر یا متعدد طرق سے منقول ہے۔ متعدد ضعیف سندیں بھی جب جمع ہو جائیں تو وہ حدیث کے صحیح یا حسن ہونے کی طرف میلان پیدا کرتی ہیں۔ لہٰذا، اگر امام عبدالرزاق نے امام ابو حنیفہ سے صرف بیس پچیس روایات ہی نقل کیں، تب بھی ان کا رجالی مقام اس قابل تھا کہ انہیں رجال کی فہرست میں فخر کے ساتھ شامل کیا جائے۔ ضعیف اور ناقابلِ اعتبار راویوں کو عام طور پر رجال کی زینت نہیں بنایا جاتا، خصوصاً ایسے محدث کے ہاں جو خود حدیث کے اعلیٰ معیار کے قائل ہوں۔
خلاصہ یہ کہ "ما كتبت عنه إلا لأكثر به رجالي" کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ امام عبدالرزاق امام ابو حنیفہ کو ناپسند کرتے تھے یا ان سے روایت لینا مجبوری تھی۔ بلکہ یہ جملہ ان کے رجالی وقار، علمی ثقاہت اور فقہی عظمت کا ایک اور ثبوت ہے۔
1۔ محدثین کا منہج
2۔ امام عبدالرزاق کی علمی دیانت،
3۔ اور امام عبدالرزاق سے امام ابو حنیفہ کی تعریف –
تینوں باتیں اس بات پر گواہ ہیں کہ اس قول سے امام ابو حنیفہ پر طعن نہیں بلکہ ان کی عظمت کا اعتراف جھلکتا ہے۔ جو لوگ اس قول کو سیاق سے کاٹ کر امام ابو حنیفہ کے خلاف بطورِ اعتراض پیش کرتے ہیں، وہ یا تو حدیث کے اصولوں سے ناآشنا ہیں یا تعصب کا شکار۔
[2]۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تعریف و توصیف ، حدیث کی مشہور و معروف کتاب "مصنف عبدالرزاق" کے مصنف امام عبدالرزاق بن ہمام رحمہ اللہ سے :
امام عبدالرزاق الصنعانی جیسے محدث بھیامام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے حلم، فہم، اور علمی مقام کے معترف تھے۔
قال أبو يعقوب يوسف بن أحمد نا أبو علي محمد بن علي السامري قال نا أحمد بن منصور الرمادي قال سمعت عبد الرزاق بن همام يقول ما رأيت أحدا قط احلم من أبى حنيفة لقد رأيته في المسجد الحرام والناس يتحلقون حوله إذ سأله رجل عن مسئلة فأفتاه بها فقال له رجل قال فيها الحسن كذا وكذا وقال فيها عبد الله بن مسعود كذا فقال أبو حنيفة أخطأ الحسن وأصاب عبد الله بن مسعود فصاحوا به قال عبد الرزاق فنظرت في المسئلة فإذا قول ابن مسعود فيها كما قال أبو حنيفة وتابعه أصحاب عبد الله بن مسعود
(الإنتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء - ابن عبد البر - الصفحة ١٣٥)
مصنف عبدالرزاق کے مولف امام عبدالرزاق بن ہمام فرماتے ہیں
"میں نے ابو حنیفہ سے زیادہ بردبار (حلیم) شخص کبھی نہیں دیکھا، میں نے انہیں مسجد حرام میں دیکھا جبکہ لوگ ان کے گرد حلقے بنا کر بیٹھے تھے۔ ایک شخص نے ان سے ایک مسئلہ پوچھا، تو انہوں نے اس پر فتویٰ دیا۔ پھر ایک دوسرے شخص نے کہا: اس مسئلے میں حسن بصری نے یہ کہا ہے، اور عبداللہ بن مسعود نے یوں کہا ہے۔ تو امام ابو حنیفہ نے فرمایا: حسن نے غلط کہا اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے درست کہا۔ اس پر لوگ ان پر شور مچانے لگے۔ امام عبدالرزاق کہتے ہیں: میں نے اس مسئلے پر غور کیا، تو پایا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول بالکل وہی تھا جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا تھا، اور ابن مسعود کے اصحاب بھی امام ابو حنیفہ ہی کے قول کے موافق تھے۔"
محدث امام عبدالرزاق کی زبانی امام ابو حنیفہ کے مناقب :
1۔ بردباری (حلم):
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نہایت نرم مزاج اور بردبار تھے، حتیٰ کہ تنقید اور شور میں بھی سکون اور علم سے جواب دیتے۔
2۔ علمی اور فقہی گہرائی:
امام صاحب نے مسئلے میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کو ترجیح دی، جو بعد میں درست ثابت ہوا۔ یہ ان کی گہری فقہی بصیرت کا ثبوت ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام صاحب کی بات دلیل اور تحقیق پر مبنی ہوتی تھی، نہ کہ ظن یا رائے پر۔
3۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے فقہی منہج سے وابستگی:
امام کا قول صرف انفرادی رائے نہ تھی، بلکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کا بھی یہی موقف تھا۔امام ابو حنیفہ کا فقہی منہج دراصل حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے فہمِ دین کا تسلسل ہے، جس کی تائید اس واقعے میں ہوتی ہے۔
4۔ علمی جرأت:
امام نے بلا جھجک حق بات کہی، خواہ وہ کسی معروف تابعی (امام حسن بصری رحمہ اللہ) کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ شخصیت یا شہرت نہیں دیکھتے تھے، بلکہ صرف حق کو معیار مانتے تھے۔
5۔ علم کی مقبولیت اور عوامی اعتماد:
مسجد حرام جیسے عظیم مقام پر لوگ ان کے گرد علمی حلقے میں جمع تھے، جو ان کے مقام و مرتبے کا ثبوت ہے۔مسجد الحرام میں حلقہ علم اور سوال و جواب کی محفل اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام و خواص امام پر بھروسہ کرتے تھے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں