نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام ابو نعیم فضل بن دکینؒ(م۲۱۹؁ھ) کے نزدیک ،امام ابو حنیفہ ؒ(م۱۵۰؁ھ) ثقہ ہیں۔


امام ابو نعیم فضل بن دکینؒ(م۲۱۹؁ھ) کے نزدیک ،امام ابو حنیفہ ؒ(م۱۵۰؁ھ) ثقہ ہیں۔

-مولانا نذیر الدین قاسمی


امام ابو نعیم،فضل بن دکینؒ(م۲۱۹؁ھ) اپنے نزدیک صرف ثقہ سے روایت کرتے تھے :

امام ابو نعیم ؒ (م۲۱۹؁ھ) کہتے ہیں کہ 

’’لا ينبغي أن يؤخذ الحديث إلا عن ثلاثة حافظ له وأمين عليه وعارف بالرجال‘‘

کسی کے لئے بھی مناسب نہیں ہے کہ وہ حدیث لیں مگر ۳ لوگوں سے۔

(۱) حدیث کو محفوظ رکھنے والے سے،

(۲) حدیث کے سلسلے میں امانت دار سے،

(۳) رجال کےجاننے والے سے۔(المستخرج علی مسلم لابی نعیم : ج۱: ص ۵۲)

اور مشہور سلفی عالم و محدث ابو عبد الرحمٰن مقبل بن ھادی کے شاگرد،سلفی شیخ نورالدین الوصابی اس قول کی شرح میں فرماتے ہیں کہ 

’’ولم یکن لیامر غیرہ ان لا یاخذ الا عن من کان ہذا حالہ ثم یترخص لنفسی فی الروایۃ عن الضعفاء ،واللہ اعلم‘‘

ایسا نہیں ہوسکتا، کہ امام ابو نعیم ؒ دوسروں کو حکم دے، کہ وہ حدیث ایسے آدمی سے لے،جس کاحال گزرچکا، پھروہ خود ضعفاء سے روایت کرنے میں متساہل ہوجائے۔(دراسات حدیثیۃ متعلقۃ بمن لایروی الا عن ثقۃ للوصابی : ص ۳۰۱-۳۰۲)

اسی طرح امام ابو نعیم ؒ (م۲۱۹؁ھ) کا ایک اور قول ’’ میں نے سعید بن ابی عروبہؒ کو حالت اختلاط میں پایا،تو میں نے ان سے روایت نہیں لی،بلکہ میں نے سفیان کے طریق سے ان سے روایت بیان کی ہے،لیکن ان سے ،اس حالت میں روایت نہیں لی ‘‘ بھی ان کے روات کے سلسلے میں ان کے ورع وا تقان پر دلالت کرتا ہے۔جیسا کہ شیخ وصابی نے صراحت کی ہے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام ابو نعیم فضل بن دکینؒ(م۲۱۹؁ھ) صرف ثقہ سے روایت کرتے تھے ۔

اور امام ابو نعیم فضل بن دکینؒ(م۲۱۹؁ھ)نے امام صاحب ؒسے بھی روایت لی ہے۔(سیر : ج۶: ص ۳۹۳،تہذیب الکمال : ۲۹: ص ۴۷۱)

یعنی امام ابو نعیم فضل بن دکینؒ(م۲۱۹؁ھ) کے نزدیک ،امام ابو حنیفہ ؒ(م۱۵۰؁ھ) ثقہ ہیں۔

دیگر اقوال سے تائید : 

(۱) امام ابن کاس النخعی ؒ(م۳۲۴؁ھ) اپنی کتاب میں کہتے ہیں کہ 

’’( قال ابن كأس القاضي: ثنا الحسین بن الحكم الحبري قال) قال أبو نعيم:كان أبو حنيفة حسن الدين، عظيم الأمانة ‘‘

امام ابو نعیم ،فضل بن دکینؒ(م۲۱۹؁ھ) کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ ؒ دین کے اچھے (اور) بڑے امانت دار تھے۔ (بحوالہ مناقب للذہبی : ص ۴۱)

روات کی تحقیق :

(۱) حافظ ابن کاس النخعیؒ(م۳۲۴؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔(دیکھئے تاریخ الاسلام للذہبی)

(۱۱) ابو عبد اللہ حسین بن حکم الحبریؒ(م۲۸۱؁ھ) بھی ثقہ ہیں۔(سوالات حاکم للدارقطنی: رقم ۹۰)

(۱۱۱) امام ابو نعیم،فضل بن دکینؒ(م۲۱۹؁ھ) مشہور ثقہ،حافظ الحدیث اور ثبت امام ہیں۔(تقریب : رقم ۵۴۰۱،سیر)

لہذا یہ قول کی سند صحیح ہے۔

{ FR 334 }اس سے معلوم ہوا کہ امام ابو نعیمؒ(م۲۱۹؁ھ) کے نزدیک امام صاحب ؒ دین میں اچھے ،درست اور صحیح تھے۔

نوٹ :

ایک اور روایت میں امام نعیم فضل بن دکینؒ(م۲۱۹؁ھ) نے کہا : ’’كان والله عظيم الأمانة ‘‘  اللہ کی قسم ،وہ بڑے امانت دار تھے۔(فضائل ابی حنیفہ : ص ۵۶) [2]

اور یہاں روایت میں امانت داری سے دین کی امانت داری بھی مراد ہے،جیسا کہ پہلےروایت سے معلوم ہوتا ہے۔

اور حافظ ابو نعیمؒ(م۲۱۹؁ھ) نے صراحت بھی کی، کہ حدیث اس سے لو،جو حدیث کے سلسلے میں امانت دار ہے،جیسا کہ گزرچکا،اور خود حافظ ابو نعیمؒ(م۲۱۹؁ھ) نےامام صاحبؒسے حدیث بھی لی ہے۔

لہذا ’’ عظيم الأمانة ‘‘  کا تعلق حدیث سے بھی ہے۔

اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام ابو نعیمؒ(م۲۱۹؁ھ) کے نزدیک،امام ابو حنیفہ ؒ(م۱۵۰؁ھ) ثقہ،حسن الدین اور نیک انسان تھے۔

غالباً یہی وجہ ہے کہ 

- ائمہ محدثین،مثلاً حافظ المغرب،امام ابن عبد البرؒ(م۴۶۳؁ھ) اور 

- حافظ مغلطائیؒ(م۷۶۳؁ھ)وغیرہ نے کہا : کہ 

ممن انتهى الينا ثناؤه على أبى حنيفة ومدحه له۔۔۔۔۔۔۔۔وأبو نعيم الفضل بن دكين‘‘

امام ابو نعیم فضل بن دکینؒ(م۲۱۹؁ھ)، امام ابو حنیفہ ؒ(م۱۵۰؁ھ) کی تعریف و ثناء اور مدح فرماتے تھے۔(الانتقاء لابن عبد البر : ص ۱۳۷،والفظ لہ،اکمال تہذیب الکمال : ج۱۲: ص ۵۶)




(1) حافظ ذہبیؒ نے ابن کاس ؒ کے حوالے سےایک قول ذکر کیا اور اس کے متصلاً امام ابو نعیم ؒ کے اس قول کوبھی نقل کیا ہے۔ان کی عبارت ملاحظہ فرمائیں : قال ابن كأس القاضي: ثنا الحسن بن الحكم الحبري، ثنا علي بن حفص البزاز، قال: كان حفص بن عبد الرحمن شريك أبي حنيفة،وكان أبو حنيفة يجهز عليه، فبعث إليه أن في ثوب كذا عيبا، فإذا بعته فبين، فنسي حفص وباعه من غير تبيان من رجل غريب، وعلم أبو حنيفة، فتصدق بجميع ثمنه قال أبو نعيم: كان أبو حنيفة حسن الدين، عظيم الأمانة۔(مناقب للذہبی: ص۴۱)

اور ابو عبد اللہ حسین بن حکم الحبری (م ۲۸۱ھ) ، امام ابو نعیم (م ۱۹ ھ ) کے بھی شاگرد ہے ۔ (شرح مشکل الآثار : ج ۹: ص ۴۰۹، مستخرج ابی عوانہ : ج ۱۷ : ص ۴۲۰)

لہذا اب اس قول کی مکمل سند اس طرح ہوئی :

قال ابن كأس القاضي : ثنا الحسين بن الحكم الحبري قال قال أبو نعيم : كان أبو حنيفة حسن الدين عظيم الأمانة ، والله اعلم .

نوٹ نمبر ۲:

یہ روایت ابن کاس کی کتاب سے لی گئی ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے مجلہ الا جماع : ش ۱۳ : ص ۱۲۸۔

(2) ثقه، مثبت، حافظ ابو القاسم ابن ابی العوام (م ۳۳۴ھ) نے اس کی سند ہوں ذکر کی ہے کہ

حدثني أحمد بن محمد بن سلامة قال : حدثني مضر بن محمد بن مضر قال : ثنا عثمان بن أبي شيبة قال: سمعت أبا نعيم الفضل بن دكين يقول : وذكر أبا حنيفة فقال: كان والله عظيم الأمانة (فضائل ابي حنيفة : ص (۵۶)

سند کے روات :

(1) حافظ ابو القاسم ابن ابی العوام (م ۳۳۴ھ) اور

(۲) امام احمد بن محمد بن سلامه ابو جعفر الطحاوی (م ۳۲۱ھ) کی توثیق گزرچکی ۔

(۳) مضر بن محمد (۲۷۷ھ) ثقہ ہیں ۔ ( تاریخ الاسلام : ج ۶ : ص ۶۲۹)

(۴) امام، حافظ عثمان بن ابی شیبہ (م ۳۹ ۲ ھ ) بھی ثقہ ہیں ۔ ( تاریخ الاسلام : ج ۵: ص ۸۸۴)

(۵) امام ابو نعیم (۱۹۴ھ) کی توثیق گزر چکی ۔

لہذا یہ سند بھی صحیح ہے۔



تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...