تعویذ سلف صالحین کی نظر میں۔ کیا تعویذ گلے میں لٹکانا شرک ہے ؟
مسئلہ تعویذ پر دلائل سکین کی صورت میں دیکھنے اور ڈاونلوڈ کرنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
اہلحدیث غیرمقلدین ہر قسم کے تعویذات چاہے قرآنی ہوں یا غیر قرآنی سب کو شرک قرار دیتے ہیں۔ اور اس پر انکی بنیادی دلیل وہ حدیث ہے جس میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا 《"مَنْ عَلَّقَ تَمِيمَةً فَقَدْ أَشْرَكَ." 》
مفہوم : جس شخص نے تمیمہ لٹکایا اس نے شرک کیا۔
(السلسلة الصحيحة 2961 ، مسند احمد 16781)
غیر مقلدین اس حدیث میں تمیمہ کا معنی تعویذ کرتے ہیں جوکہ بالکل غلط ہے "تمیمہ کا معنی تعویذ نہیں منکے ہیں" جیساکہ مختلف کتابوں میں مذکور ہے مثلاً
1۔ صاحب منجد لکھتے ہیں:
تمیمہ کی جمع تمائم اور تمیمات آتی ہیں اور تمیمہ منکے یا اس سے ملتی جلتی چیزوں کو کہا جاتا ہے (المنجد ص 64)
2۔ ابن اثیر فرماتے ہیں:
تمائم تمیمہ کی جمع ہے اور وہ منکے ہیں (النھایہ ص 198 ج 1)
3۔ یہی بات طاہر احمد الزاوی کہتے ہیں۔
(القاموس المحیط ص 380 ج 1)
4۔یہی معنی اہلحدیث غیر مقلد شیخ ناصر الدین البانی صاحب نے
حاشیہ مشکوۃ ص 1285 ج 2 پر کیا ہے
5۔6علامہ منذری اور ابو السعادات کا قول فتح المجید ص 120 پر۔
7۔ علامہ قاضی شوکانی یمنی نے نیل الاوطار ص 212 ج 8 پر۔
8۔ امام بیہقی شافعی رحمہ اللہ نے سنن الکبری ص 350 ج 9 پر۔
9۔ امام عبد الرزاق رح نے مصنف عبد الرزاق ص 208 ج 11 پر
10۔ اور ابن حجر شافعی رحمہ اللہ نے فتح الباری ص 166 ج 10 پر
11۔ یہی بات لسان العرب ص 70 ج 12 پر
12۔ الصحاح للجوہری میں ص 1878 ج 5 پر
13۔ اور حاشیہ کنز العمال میں ص 73 ج 10 پر ہے
"کہ تمیمہ کا معنی منکا ہے"۔
14۔ صاحب لسان العرب نے ابومنصور کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ تمائم کی واحد تمیمہ ہے اور وہ منکے ہوتے ہیں۔
15۔ اسی طرح علامہ خلخالی تمیمہ کا معنی بیان فرماتے ہیں: تمیمہ ان ہڈیوں اور منکوں کو کہا جاتا ہے جو بچوں کے گلے میں لٹکائی جاتی ہیں۔ (فتح المجید ص 127)
16۔ امام زہری ؒ نے فرمایا کہ جس نے تعویذ کو تمیمہ کہا وہ غلطی پر ہے
(المغرب 1/107)
17۔ حضرت عطاء ؒ متوفی 114ھ نے کہا جو تعویذ قرآن مجید سے لکھی جائے اسکو تمائم شمار نہیں کیا جائے گا۔
(شرح السنہ 12/158)
18۔ امام بغوی شافعی فرماتے ہیں: تمائم، تمیمہ کی جمع ہے، اور یہ منکے ہیں جنھیں عرب اپنے گمان میں اپنی اولاد کو نظربد وغیرہ سے بچانے کے لیے پہناتے تھے۔
(شرح السنۃ 12/157)
لسان العرب کے مصنف نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ " اعراب میں اس بات پر کسی کا اختلاف نہیں کہ تمیمہ فی نفسہ منکوں کو کہا جاتا ہے اور یہی مسلک ائمہ لغت کا بھی ہے (لسان العرب ج 12 ص 70)
19: جبکہ "تعویذ" کے لغوی معنی "حفاظت کی دعا کرنا" ہے. (مصباح اللغات : 583) فعل کے حساب سے (عربی میں) مادہ عوذ کے تحت "عَوَّذَ تَعوِِِيذًا وِ أعَاذَ" باب تفعيل کے وزن سے تعویذ بنتا ہے.
(المنجد : صفحہ 593)
20: امام رازی شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وہ تعویذ جس میں قرآنی آیات اللہ کے اسماء درج ہوں تو ان میں کوئی حرج نہیں۔
(مختار الصحاح 122)
ہم نے تمیمہ اور تعویذ میں فرق اہل لغت سے ثابت کر دیا لہذا ثابت ہوا کے جو حضرات تمیمہ کا معنی تعویذ کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں اور اگر بالفرض ان دونوں کو ایک ہی سمجھا جائے تو بھی قرآنی تعویذ شرک ثابت نہیں ہوتا کیونکہ تمیمہ کا شرک ہونا اصل میں اسکے شرکیہ کلمات اور اس سے جڑے باطل عقیدے پر منحصر ہے۔
مثال کے طور پر حدیث میں آتا ہے کہ
عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "إن الرقى والتمائم والتِّوَلَة شرك".
ترجمہ: عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا آپ فرما رہے تھے: ”دم، تمائم اور تولہ سب شرک ہیں“۔ [صحيح] -
[رواه أبو داود وابن ماجه وأحمد]
اب اس حدیث سے کوئی یہ مراد لے کے تمام قسم کے دم شرک ہیں تو یہ غلط ہوگا کیونکہ دم کرنے کی اجازت بلکہ ترغیب خود رسول ﷲﷺ نے دی ہے۔ صحیح مسلم حدیث نمبر 5732 میں حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
" اعرضوا علي رقاكم لا باس بالرقى ما لم يكن فيه شرك"
حضرت عوف بن مالک اشجعی ؓ سے روایت ہے، کہا: ہم زمانہ جاہلیت میں دم کیا کرتے تھے ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا: " اپنے دم کے کلمات میرے سامنے پیش کرو دم میں کوئی حرج نہیں جب تک اس میں شرک نہ ہو۔"
قارئین ذرا غور فرمائیں قرانی آیات اور ادعیہ ماثورہ سے دم کے جائز ہونے میں تو کسی کو اختلاف نہیں جبکہ یہاں دور جاہلیت کے دم کو بھی آپ ﷺ نے جائز قرار دیا بشرطیکہ شرکیہ کلمات نہ ہوں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دم اور تعویذ میں اصل وجہِ منع کفر و شرک ہے، جب یہ نہ ہو تو وہ دم اور تعویذ جائز ہے۔
قارئین کرام علاج بالقرآن اگر دم سے ہو سکتا ہے تو لکھے ہوئے پاک اور طیب کلمات سے کیوں نہیں ہو سکتا؟! وہاں بھی اس میں تاثیر اذنِ الٰہی سے آتی ہے،اور تعویذ میں بھی حروف و کلمات مؤثر بالذات نہیں، اثر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے جب وہ چاہے۔
لہذا ایسے تعویذ جن میں اسماء اللہ تعالیٰ یا ادعیہ ماثورہ ہوں اور اس کو موٴثر حقیقی نہ سمجھا جاتا ہو تو اس قسم کے تعویذ کو بھی شرک قرار دینا تحکم و زیادتی ہے، اس لیے کہ اس قسم کے تعویذ کے لینے دینے اور استعمال کی اجازت کتب احادیث سے ملتی ہے۔
صحابہ و تابعین کے قول و عمل سے تعویذ کا ثبوت
حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ: جو شخص اپنی نیند میں گھبرا جائے اُسے چاہیے کہ وہ یہ کلمات پڑھے :
’’اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِہٖ وَعِقَابِہٖ وَشَرِّ عِبَادِہٖ وَمِنْ ھَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ وَاَنْ یَّحْضُرُوْنَ۔‘‘
تو وہ خواب اُسے ہر گز نقصان نہ دے گا ، آپؓ کے پوتے کہتے ہیں کہ: حضرت عبد اللہؓ کی اولاد میں جو بالغ ہو جاتا تو آپ اُسے یہ کلمات سکھادیتے ، اور جو نابالغ ہوتا تو آپ اس کے گلے میں یہ دعا لٹکا دیتے تھے :
’’و کان عبد اللہ بن عمروؓ یعلمھا من بلغ من ولدہٖ و من لم یبلغ منھم کتبھا في صک ، ثم علقھا في عنقہٖ۔‘‘
تخریج حدیث:
یہ حدیث ابوداؤد 3893 ،ترمذی 3528 ، نسائی، مسند احمد، مستدرک حاکم وغیرہ کتب میں موجود ہے
حکم حدیث: یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے۔
1۔امام حاکم نے اسے صحیح الاسناد لکھا
2۔امام ترمذی نے حسن غریب کہا ہے اور
3غیر مقلد ناصر البانی نے حاشیہ ترمذی میں حسن لکھا ہے۔
شرح حدیث: حدیث مذکور کے تحت شیخ عبدالحق حنفی محدث دہلوی ؒ نے اللمعات میں لکھا ہے:
یہ حدیث دلیل ہے ان تعویذات کے جواز پر جو بچوں کے گلے میں لٹکائے جاتے ہیں اس میں کلام ہے لیکن وہ گنڈے جو زمانہ جاہلیت میں لٹکائے جاتے تھے وہ بلا اختلاف حرام ہیں
(مرعاۃ المفاتیح 239/8)
مذکورہ حدیث کی شرح میں امام ملا علی قاری ؒ حنفی نے تحریر فرمایا ہے۔
یہ دلیل ہے ان تعویذات کو لٹکانے کے جواز پر جن میں اسماء الہی مکتوب ہوں۔
(مرقاۃ المفاتیح 1712/4)
پھر ممنوع تعویذات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
جن تمائم کو لٹکانے کی ممانعت ہے ان سے مراد وہ تعویذات ہیں جن میں جاہلیت کے منتر ہوتے ہیں مثلا شیاطین کے نام اور ایسے الفاظ جن کے معانی معلوم نہیں
(مرقاۃ 2803/7)
1:*جلیل القدر تابعی حضرت سعید بن مسیب ؒ سے ابو عصمہ نے تعویذ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کوئی حرج نہیں جبکہ تعویذ چمڑے میں سلا ہوا ہو
(مصنف ابن ابی شیبہ 24008)
2: حضرت عطاء سے اس حائضہ کے بارے میں جس نے تعویذ لٹکایا ہو، روایت ہے، فرماتے ہیں کہ اگر تعویذ چمڑے میں ہو تو عورت کو چاہیے کہ اس کو اتار دے اور اگر چاندی کے خول میں ہو تو پھر چاہے تو اتار دے اور چاہے نہ اتارے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ 24009)
3: حضرت جعفر ؒ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اس بات میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے کہ قرآن مجید کو چمڑے میں لکھا جائے اور پھر اس کو (گلے میں) لٹکایا جائے۔
( ایضاً 24011)
4: حضرت ثویر سے روایت ہے کہتے ہیں کہ حضرت مجاہد، لوگوں کو تعویذ لکھ کردیتے تھے اور پھر وہ تعویذ لوگوں کو پہناتے بھی تھے۔ ( ایضاً 24010)
*5:* حضرت یونس بن خباب ؒ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر سے اس تعویذ کے بارے میں سوال کیا جو بچوں پر لٹکائے جاتے ہیں؟ تو انھوں نے اس کی اجازت دی۔
( ایضاً 24016)
6۔ امام دارمی ؒ نے اپنی سنن میں صحیح سند کے ساتھ حضرت عطاء کی یہ روایت نقل کی ہے:
حضرت عطاء تابعی سے پوچھا گیا کہ حائضہ عورت کے گلے میں تعویذ یا قرآنی سورت لکھ کر لٹکایا جائے تو کیسا ہے؟ انہوں نے کہا اگر چمڑے میں ہو تو اتار دے اور اگر چاندی کے خول میں کے اندر ہو تو کوئی حرج نہیں چاہے اتارے یا نہ اتارے۔ امام دارمیؒ سے کہا گیا کیا آپ کی بھی یہ رائے ہے انہوں نے کہا: ہاں۔
(سنن دارمی 1152)
7۔ حضرت ضحاک سے روایت ہے کہ جس میں قرآن ہو اس کے لٹکانے میں کوئی حرج نہیں ہے جبکہ نہانے اور قضائے حاجت کے وقت اتار دیا جائے۔
(مصنف ص 43 ج 5)
8۔ ابن سیرین ؒ تعویذات قرانیہ میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ ( ایضاً )
آئمہ مجتہدین کے اقوال:
1: امام احمد بن حنبل ؒ کے صاحب زادے حضرت عبداللہ نے یہ فرمایا ہے:
میں نے اپنے والد کو دیکھا ہے کہ گھبراہٹ اور بخار کے علاج کے لیے تعویذات لکھ کر اپنے گھر والوں اور قربت داروں کو دیتے تھے اور وضع حمل کی آسانی کے لیے کسی پیالے یا ملائم چیز میں تعویذ لکھ کر عورت کو پینے کے لیے دیتے تھے۔ (مسائل الامام احمد 437/1)
۔
2: امام محمد بن مفلح مقدسی متوفی 763ھ نے لکھا ہے۔
میمونی نے کہا کہ میں نے سنا کسی نے امام احمد بن حنبل ؒ سے پوچھا کہ مصیبت نازل ہونے پر تعویذات لٹکانا کیسا ہے ؟ انہوں نے کہا میری رائے یہ ہے کہ اس میں کوئی گناہ نہیں۔ امام ابو داؤد نے کہا میں نے امام احمد بن حنبل ؒ کے ایک چھوٹے بچے کے گلے میں ایک تعویذ دیکھا جو چمڑے میں سلا ہوا تھا۔ خلال نے کہا امام احمد نے بخار کے لیے تعویذ لکھا۔ کراہت نزول بلا سے پہلے تعویذ لٹکانے میں ہے اسی پر عمل ہے (امام احمد کا راجح قول یہی ہے کہ نزول بلا سے پہلے تعویذ لٹکانا مکروہ نہین جیساکہ فقہ حنبلی کی کتابوں سے ظاہر ہے) (الفروع و تصحیح الفروع 248/3)
3: امام ابن تیمیہ ؒ تعویذ کے قائل ہونے کے ساتھ ساتھ تعویذ کے جواز پر جو روایات آئی ہیں ان سے استدلال بھی کیا ہے دیکھیے (مجموع الفتاوی 19/64)
4: امام ابن قیم ؒ نے بھی امام مالک ؒ کا قول نقل کیا ہے کہ: امام احمد سے تعویذات کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کے ان میں کوئی حرج نہیں۔
( زادالمعاد 572)
امام مالک ؒ کا مذہب
1: مالکی مذہب کے فقیہ ابو الولید محمد بن احمد ابن رشد القرطبی متوفی 520ھ نے لکھا ہے ۔
بیماری میں دم اور تعویذ وہی جائز ہے جو صرف کتاب اللہ کے موافق ہو۔ (البیان والتحصیل 118/17)
2: اسی کتاب میں امام مالک ؒ کا موقف لکھا ہے کہ۔
بچوں، مریض، حمل والیوں، گھوڑوں اور دوسرے جانوروں کے گلوں میں تعویذات لٹکانا جبکہ قرآنی تعویذات ہوں یا معلوم ہو کہ اللہ کے ذکر اور اس کے ناموں کے تعویذات ہین اور مرض سے شفاء حاصل کرنے کے لیے لٹکایا جائے یا بدنظری اور بیماری سے بچنے کے لیے لٹکایا جائے اس کے جائز ہونے میں اہل علم کا اختلاف ہے اس مسئلے میں امام مالک کا ظاہر قول یہ ہے کہ ایسے تعویذات لٹکانے کی اجازت ہے۔ ( ایضاً 439/1)
3: ابن جریر طبری نے امام مالک کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اگر قرآنی تعویذ کو کسی لوہے کے خول یا چمڑے کے اندر ڈال کر سی لیا جائے اور حائضہ عورتوں یا بچوں کو پہنایا جائے تو کوئی حرج نہیں ۔ اس کے جائز ہونے کی دلیل حضرت عمرو بن شعیب کی روایت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ہے کہ رسول اللہ ہ انھیں گھبراہٹ سے بچنے کے لیے دعا کے یہ کلمات سکھاتے تھے : أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ أَن يَحْضُرُونَ . حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اپنے بالغ لڑکوں کو یہ دعا سکھاتے تھے اور نابالغوں کے گلوں میں لکھ کر لٹکا دیتے تھے۔ امام ابوداؤد اور ترمذی نے اس کو روایت کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔
(المجموع شرح المهذب 70/2)
4: فقہ مالکی کے مشہور فقیہ ابو القاسم محمد بن احمد ابن جزی الغرناطی المالکی 741ھ نے یہ لکھاہے۔
قرآن اور ذکر والے تعویزات کو اگر چمڑے میں سی کر مریضوں اور بچوں کے گلوں میں لٹکائیں تو ایسا کرنا جائز ہے صرف دھاگے میں باندھ کر لٹکانے میں بھلائی نہیں۔ ایسا ہی قرافی نے نقل کیا ہے۔ مریض کے جسم میں لٹکانا جائز ہے اسی طرح مرض اور نظر سے بچنے کے لیے صحیح آدمی کے جسم میں لٹکانا جمہور کے نزدیک جائز ہے (القوانین الفقھیۃ 295)
5: امام قرافی مالکی نے لکھا ہے کہ امام مالک اور فقہاء مالکیہ کا قول یہ ہےکے مرض و صحت دونوں حالتوں میں تعویذ لٹکانا جائز ہے (الذخیرۃ 327/13)
6: قاضی عیاض مالکی ؒ بھی تعویذ کو جائز مانتے ہیں۔ (فتح الباری 12/371)
7: امام ابن عبدالبر مالکی ؒ فرماتے ہیں کے امام مالک نے کہا کہ بیمار کے گلے میں برکت کے طور پر تعویذ ڈالنے میں کوئی حرج نہیں۔
(التمھید 17/161)
8: امام قرطبی ؒ 671ھ فرماتے ہیں کہ جس نے قرآن مجید کو اپنے گلے میں لٹکایا تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسکی حفاظت فرمائے اور اسکو کسی اور کے سپرد نہیں کریں گے کیونکہ قرآن سے شفاء حاصل کرنے میں اللہ پر توکل ہوتا ہے اور اسی کی طرف رغبت ہوتی ہے۔
(تفسیر القرطبی 13/162)
امام شافعی کا مذہب
1: امام شافعی ؒ کا مذہب بھی یہی ہے کہ قرآنی کلمات اور ذکر و دعا پر مشتمل تعویذات کا لٹکانا جائز ہے۔ امام شافعی کی کتاب الام میں ہے کہ امام شافعی سے سوال کیا گیا کہ دم اور جھاڑ پھونک کرنا کیسا ہے تو انہوں نے کہا کوئی گناہ نہیں اگر آدمی کتاب اللہ یا معروف زکر اللہ سے دم کرے
(الام 241/7)
2: شارح صحیح مسلم امام نووی ؒ نے امام احمد بن حسین بیہقی شافعی کے حوالے سے یہ لکھا ہے:
جن حدیثوں میں تعویذات لٹکانے سے منع کیا گیا ہے وہاں منع سےمراد یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت کی طرح اس نظریہ سے تعویذ لٹکائے کہ تعویذ خود بیماری کو دور کرے گا تو یہ ناجائز بلکہ کفر ہے لیکن اس نظریہ سے لٹکانا کے اللہ کے ذکر سے برکت حاصل ہوگی اور اللہ ہی شفاء عطا فرمائے گا کیونکہ اس کے سوا کوئی مصیبت کو دور کرنے والا شفا دینے والا نہیں تو تعویذ لٹکانے میں کوئی گناہ نہیں ان شاءاللہ تعالیٰ۔ (المجموع شرح المھذب 66/9)
3: حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ ’’ فتح الباري‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :
’’علماء نے دم اور تعویذ کے جواز پر
اجماع کیاہے ، جب ان میں درج ذیل شرائط پائی جائیں:
۱:- وہ اللہ کے کلام ،اسماء یا اس کی صفات پر مشتمل ہو ں۔
۲ :- وہ عربی زبان یاپھر ایسی زبان میں ہوں جس کا معنی سمجھ میں آتا ہو ۔
۳ :- یہ یقین رکھنا کہ اس میں بذاتِ خود کوئی اثر نہیں ، بلکہ مؤثر حقیقی اللہ جل شانہ کی ذات ہے۔
( فتح الباری ،ج: ۱۰ ، ص: ۱۹۵ ، ط: دار الفکر بیروت )
4: امام نووی نے امام عثمان بن عبداللہ ابن الصلاح شافعی 643ھ کے ایک فتوے کو نقل کرتے ہوئے یہ لکھا ہے ۔
ترجمه: جن تعویذات میں قرآن لکھا ہوا ہو اُن کو عورتوں ، بچوں اور مردوں کے گلوں میں لٹکانا جائز ہے۔ اُن کو موم جامہ کر لیا جائے یا چمڑے وغیرہ میں رکھ کر سی لیا جائے اور عورتوں اور غافل لوگوں کو خصوصا تاکید کر دیا جائے کہ انھیں پہن کر بیت الخلا نہ جائیں۔ صحیح یہ ہے کہ اگر تعویذ کو موم جامہ کر لیا جائے یا کپڑے وغیرہ میں لپیٹ لیا جائے تو اُس کو پہن کر بیت الخلاء جانا مکروہ نہیں۔ اس پر منع وارد نہیں۔ (المجموع 84/2)
امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کا مذہب
1: فقہ حنفی کی معتبر کتاب رد المختار میں مجتبی کے حوالے سے یہ لکھا ہے کہ شفاء کے لیے قرآنی تعویذ کو گلے میں لٹکانا جائز ہے یا نہیں اس میں اختلاف ہے پھر یہ لکھا ہے کہ یہ عمل آجکل جاری ہے اور اس کے جواز پر احادیث و آثار موجود ہیں ( رد المختار ج 6 ص 364)
2: امام محمد ؒ رقیہ یعنی جھاڑ پھونک اور تعویذات وغیرہ کی اجازت کی روایات نقل کرکے لکھتے ہیں۔
ہم اسکو لیتے ہیں ہیں کہ رقیہ ، جھاڑ پھونک اور تعویذات وغیرہ جبکہ ذکر اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ہوں جائز ہیں اور یہی قول امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ہے (موطا امام محمد 374)
حاصل کلام یہ ہے کہ چاروں مذاہب کے ائمہ کے نزدیک بھی قرآنی تعویذ لکھنا لکھوانا اور جسم میں باندھنا جائز ہے جن حدیثوں میں تعویذ باندھنے کو حرام یا شرک کہا گیا ہے اس سے وہ تعویذ مراد ہے جس میں شرکیہ کلمات ہوں یا زمانہ جاہلیت کی طرح اس میں جادو منتر کے الفاظ ہوں۔
علماء اہلحدیث کے اقوال سے تعویذ کے جواز کا ثبوت:
قارئین کرام ہم نے آثارِ صحابہ و تابعین اور ائمہ اربعہ کے مذاہب سے ثابت کیا کے قرآنی تعویذ لٹکانا جائز ہے اب ہم آپکو غیر مقلدین کے اپنے گھر سے کچھ حوالے پیش کرنے جا رہے ہیں جو تعویذ کے جواز کے قائل ہیں۔
1: غیر مقلدین کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
تعویذ لکھ کر گلے میں ڈالنا جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں بعض تابعین نے اس میں اختلاف کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کے یہ جائز ہے۔ (فتاوی نذیریہ 298/3)
2: غیر مقلدین کے مجدد نواب صدیق حسن خان صاحب نے اس مسئلہ پر کتاب " الداء والدواء کتاب التعویذات " نام کی پوری کتاب لکھی ہے اس میں لکھتے ہیں : تعویذ لکھ کر باندھنے اور دم کرنے میں کوئی حرج نہیں اس کی اصل حدیثِ پاک میں ہے ۔
(کتابُ التعویذات صفحہ نمبر 85)
3: غیر مقلدین کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں:
مسئلہ تعویذ میں اختلاف ہے راجح یہ ہے کے آیات یا کلمات صحیحہ جو ثابت ہوں ان کا تعویذ بنانا جائز ہے ہندو ہو یا مسلمان۔ صحابہ کرام نے ایک کافر بیمار پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا۔
( فتاوی ثنائیہ 329/1)
4: حافظ عبداللہ بہاولپوری صاحب لکھتے ہیں:
قرآن و حدیث کا لکھا ہوا تعویذ جائز ہے۔
(خطبات بہاولپوری 126/3)
5: غیر مقلدین کے محدث العصر حافظ عبداللہ روپڑی بھی تعویذ لکھ کر دیتے تھے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
غیر مسلم کو تعویذ دیا جا سکتا ہے مگر آیات قرانیہ نہ لکھی ہوں میں (عبداللہ روپڑی) اسکا ترجمہ لکھ کر دے دیتا ہوں یا کچھ اور۔
(فتاوی اہلحدیث 201/1)
6: غیرمقلدین کے مولوی صوفی عبداللہ صاحب دم کرتے تعویذ لکھ کر دیتے اور کہتے پہن لو یا باندھ لو شِفاء ہوگی اور شِفاء مل جاتی اور اپنی بات اللہ سے منوا لیتے ۔ (صُوفی عبد اللہ صفحہ نمبر 404)
7: غیرمقلدین کے مشہور مؤرخ جناب مولوی اسحاق بھٹی صاحب لکھتے ہیں : مولوی معین الدین لکھوی تعویذات دیتے عاشقوں کا ہجوم ہوتا اور بہت پیسہ کماتے تھے ۔
(بزم ارجمنداں صفحہ نمبر 46)
8: قرآنی آیات پر مشتمل تعویذات کو تمیمہ کہنا قرآن و سنت کی ہتک ہے اس پاکیزہ کلام کو یہ بُرا نام دینا غُلو ہے۔ اور لکھا کے تعویذ کا مسئلہ اختلافی ہے۔
(سُنن ابُو داود جلد 4 صفحہ 47 زبیر علی زئی غیر مقلد اہلحدیث)
جماعت اہلحدیث کا ایک گروہ جن میں اکثر ان کے اکابرین شامل ہیں وہ قرآنی تعویذات کو تمائم کے حکم سے مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے اسے جائز کہتے ہیں جبکہ عصر حاضر کا دوسرا گروہ اسکا شدت سے رد کرتا ہے اور اسکو حرام بلکہ شرک و بدعت کہتا ہے۔ گویا اہلحدیث کا وہ گروہ جو اسے جائز قرار دیتا ہے دوسرے گروہ کے نزدیک مشرک و بدعتی ہیں۔
لیکن اہل حدیث حضرات سے کچھ بعید نہیں ہے کہ وہ اپنے ہی بزرگوں کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہہ دیں کہ ہاں ابن تیمیہ ؒ اور ابن اقیم نے تعویذ لٹکانے کو جائز کہہ کر شرک کی تائید کی ہے۔
دیکھئے وہابی مولوی اپنے شیخ ابن تیمیہ اور ابن القیم کے تعلق سے کیا لکھتے ہیں:
حافظ ابن القیم ؒ نے ابن تیمیہ ؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ سے بھی تعویذ کا جواز بیان کیا ہے مگر کتاب وسنت سے دلیل کوئی نہیں دی ، ظاہر ہے کسی کی آراء اور اقوال سے ہمارا گھر پورا نہیں ہوتا۔ کم از کم مسلک اہل حدیث رکھنے والوں کی زبان سے یہ راگ بے سُرا معلوم ہوتا ہے“ ۔ ( تعویذ اور دم ص ۱۹)
ان متشدت غیرمقلدین کا فتوی صرف ان کے اپنے علماء و اکابرین پر ہی نہیں بلکہ امت کے بڑے بڑے محدثین فقہاء ائمہ اربعہ اور صحابہ و تابعین پر بھی پڑتا ہے۔
جیساکہ اہل حدیث مولوی نے لکھا ہے: حضرت عائشہ اور کچھ تابعین سے بھی تعویذ کے حق میں اقوال مروی ہیں مگر یہ شے لائق اعتنا نہیں ۔ احادیث کی موجودگی میں ہمیں کسی کے اقوال کی ضرورت نہیں۔ غیروں کا سہارا لینا صرف مقلدوں کو زیب دیتا ہے۔ (ایضا)
قارئین کرام! دیکھئے کس جرات اور بے باکی کے ساتھ ایک غیرمقلد نام نہاد اہلحدیث نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور تابعین کرام ؒ کو ”غیر“ ٹھہرا کر دبے انداز میں انھیں مشرک بنا دیا۔ پھر اُس پر ملمع سازی کرتے ہوئے یہ لکھا کہ ”ہم اہل حدیث تو نبی ﷺ کی حدیث کے مقابلے میں پوری کائنات کو خاطر میں لانے کےروادار نہیں۔" ( تعویذ اور دم ص17)
تعویذ کو مطلقاً شرک قرار دے کر ان غیر مقلدین نے صحابہ و تابعین کو بھی نہیں بخشا۔
اللہ امت مسلمہ کو ان کے شر سے بچائے آمین۔
⚔️جوازِ تعویذ پر وکٹورین ابوحمزہ کے جھوٹ اور دجل و فریب سے لبریز تحریر کا پردہ چاک ⚔️
قارئین کرام ابوحمزہ بدزبان نے ہماری تعویذ سے متعلق ایک تحریر کا جواب لکھا جسے اگر کوئی شخص تعصب کی عینک اتار کر غور سے پڑھ لے تو دل سے کہے کہ لَّعْنَةَ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ کیونکہ جناب نے اس تحریر میں انتہاء درجے کے جھوٹ اور دجل و فریب سے کام لیا ہے۔ مگر افسوس انکی اندھی اور متعصب عوام پر جن کو جو بھی پڑھایا جائے یہ اس پر آنکھ بند ایمان لے آتے ہیں۔ اور خود کو غیرمقلد کہنے والے یہ لوگ خود ذرا بھی تحقیق نہیں کرتے۔
تو چلیئے وکٹورین بدزبان انسان کی اس تحریر کا آپریشن شروع کرتے ہیں۔
_____________________________________
🔹شیخ ابن الباز کے فتوی سے معلوم ہوا۔
01:-ایسا تعویذ جسمیں جنات کے نام لکھے ہوئے ہوں، یا حرف مقطعات تو یہ شرک الاصغر ہے اور یہ سمجھنا کہ اللہ کے حکم کے بغیر یہ کچھ کرسکتا ہے تو یہ شرک الاکبر ہے۔
02:-ایسا تعویذ جسمیں قرآنی ایات لکھی ہوئی ہوں اسکو حرام قرار دینے والو کے پاس مضبوط دلائل ہیں۔
03:- ایک تو جھاڑپھونک والی روایت کی تخصیص ہے، مگر تعویذ کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔
04:- احادیث کا عموم اسکے شرک ہونے پر دلیل ہے۔
05:-قرآنی ایت لکھ کر لٹکانے پر کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے۔
_____________________________________
◾جواب:
سب سے پہلے تو ابوحمزہ صاحب نے سلفی عالم بن باز ؒ کا ایک فتوی نقل کیا اور پھر اس سے پانچ نتائج اخذ کیے۔ آپ بن باز کی تحریر پڑھ لیں یا جناب کے اخذ کردہ نتائج آپکو ان میں نہ قرآن سے کوئی دلیل دکھائی دے گی نہ حدیث سے بس بن باز نے کہہ دیا کے تعویذ کے جواز پر کوئی دلیل نہیں ہے تو نہیں ہے انہوں نے کہہ دیا کے احادیث کے عموم سے تعویذ شرک ہے تو بس شرک ہے۔ ہاں اگر یہی عالم یہاں اسکے برعکس کچھ کہہ دیتے تو یہ لوگ انکو جوتے کی نوک پر رکھنے میں ذرا بھی وقت نہ لیتے۔ جیساکہ غیرمقلدین کے اپنے اکابر محدث عبداللہ روپڑی نے نواب صدیق صاحب کا قول نقل کیا ہے لکھتے ہیں "دم،تمیمہ،تولہ کی ذات شرک نہیں ہے بلکہ بعض قسمیں شرک ہیں تو حدیث عموم پر کیسے محمول ہو سکتی ہے" (,فتاوی اہلحدیث 1 ص 195) کیا ابوحمزہ اپنے اس محدث اور مجدد کا قول مانے گا یا عربی سلفی عالم کا ؟ دونوں میں سے کس کو جوتے کی نوک پر رکھنا چاہے گا ؟
افسوس کے خود کو غیرمقلدین کہنے والے دعوی تو علی فہم سلف کا کرتے ہیں مگر جب بات قبول کرنے کی آئے تو اسلاف کا فہم بھی چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے فرقہ کے اکابرین کے اقوال بھی چھوڑ کر چودھویں صدی کے سلفیوں کے اقوال لیتے ہیں۔
_____________________________________
🔹(تعویز گنڈوی بدعتی جی ایک لمبی لاحاصل بحث لکھی کہ تمائم اور تعویذ میں فرق ہے۔
یعنی اسکا مطلب ہےکہ اگر کوئی اپنے گلے میں شیطان کی کھوپڑی، سمندر کے منکے ، ہڈیاں، یا بلی کی لیت، یا گائے کا گوبر وغیر لٹکائے تو یہ تمائم ہے۔۔الخ۔
اسکا جواب ہے کہ شرک شیطانی کی کھوپڑی میں نہیں بلکہ اسکو لٹکانے کے مقصد میں ہے، اور بدعتی تمائم لٹکائے یا اسکا نام بدل دے، مقصد تو ایک ہی ہے اسلئے یہ بالکل حرام ہے۔(جسطرح انسان خمر یعنی شراب پیئے یا، وسکی، بڑانڈی یا واٹکا استعمال کریں مقصد اسکا ایک ہی ہوتا ہے، نام بدل دینے سے مقصد نہیں بدل جاتا۔۔۔)
_____________________________________
◾جواب الجواب:
قارئین کرام میری تحریر کا آغاز تعویذ اور تمیمہ کے فرق پر ہوا تھا کیونکہ غیرمقلدین تمیمہ اور تعویذ میں فرق نہیں کرتے جوکہ اس اختلاف کی ایک اہم وجہ ہے۔ جس پر میں نے محدثین اور اہل لغت سے بیس حوالے نقل کیے تھے لیکن وکٹورین ابوحمزہ صاحب ان تمام کو ایسے ہضم کر گئے جیسے انکو کچھ دکھا ہی نہیں۔ اور علماء و محدثین اور اہل لغت کے ان اقوال کے مقابلے میں جناب نے اگر کچھ پیش کیا بھی تو صرف اپنا ذاتی قیاس۔ افسوس قرآن و حدیث علی فہم سلف کے دعوے دار کو جب اسلاف سے دکھایا گیا کے امام زھری ؒ لکھتے ہیں کے "جس نے تعویذ کو تمیمہ کہا وہ غلطی پر ہے" عطاء ؒ المتوفہ 114ھ نے کہا "جو تعویذ قرآن مجید سے لکھا جائے اسے تمیمہ شمار نہیں کیا جائے گا۔" اور مزید کئی حوالے پیش کیے تو جواب میں انکے پاس قیاسات کے سوا کچھ نہیں۔
ابوحمزہ کی اس جہالت کا جواب:
تمائم اور تعویذ دونوں کو ایک سمجھنا لغات کی کتب، سلف کے اقوال اور احادیث نبویہ سے ناواقفیت کی واضح دلیل ہے۔
تمائم اور تعویذ میں فرق صرف ہم نے نہیں کیا بلکہ اس پر اسلاف سے کئی حوالے نقل کیے ہیں۔ آپ نے ان سب کو چھوڑ کر اپنے قیاس سے جو جواب دیا اس پر دلیل کیا ہے ؟
اور قرآنی آیات والے تعویذ کو شیطان کی کھوپڑی ۔۔۔گوبر وغیرہ سے تشبیہ دینا دونوں کو ایک ترازو میں تولنا صرف اور صرف غیر مقلدین کا ہی شیوہ ہے ۔
اور جناب نے اپنے اس قیاس پر مثال بھی کیا خوب دی۔
شراب کی اقسام بتا کر فرماتے ہیں۔۔جب مقصد ایک ہے تو سب حرام۔ جبکہ ذرا بھی علم رکھنے والا یہ بخوبی جانتا ہے کے شراب کی جتنی مرضی اقسام گنوا دی جائیں ان سب میں علت و حرمت ایک ہی ہے یعنی نشہ ۔۔
اور تعویذ اور تمائم میں واضح فرق شرکیہ اور غیر شرکیہ کا ہے ایک طرف قرآنی آیات، اللہ کے نام اور دعا ماثورہ ہیں جبکہ دوسری میں شرکیہ کلمات اور غیراللہ سے مانگنا موجود ہے۔ جبکہ ابوحمزہ صاحب دونوں کو ایک ہی ترازو میں تولنے پر تلے ہیں بلا یہ کہاں کا انصاف ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
🔹الجواب: ابن باز نے اوپر فرمایا ہے کہ "تعویذ" کے جواز پر کوئی شرعی دلیل اور تخصیص موجود نہیں ہے، اور "رقی" یعنی جھاڑ پھونک کو پہلے حدیث میں ممنوع قرار دیا گیا ہے اسکی تخصیص دوسری صحیح حدیث سے ثابت ہے۔
___________________________________
◾لو جی پھر سے بن باز کی تقلید شروع ہو گئی۔۔
بن باز نے کہا دلیل نہیں ہے تو نہیں ہے۔۔ غیرمقلدین کے باقی بڑے بڑے اکابرین اگر قبول کریں کے جواز ثابت ہے (جو کے آگے حوالے دوبارہ آئیں گے) تو وہ سب جوتے کی نوک پر اور بن باز کی تقلید سر چڑ کر بولے۔ اور طعنے ہمیں اندھی تقلید کے دیے جاتے ہیں افسوس۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
🔹تعویز گنڈوی بدعتی جی حدیث نبوی صلی اللہ وسلم پر جھوٹ باندھتے ہوئے لکھتا ہے۔
قارئین ذرا غور فرمائیں قرانی آیات اور ادعیہ ماثورہ سے دم کے جائز ہونے میں تو کسی کو اختلاف نہیں جبکہ یہاں دور جاہلیت کے دم کو بھی آپ صلی اللہ وسلم نے جائز قرار دیا بشرطیکہ شرکیہ کلمات نہ ہوں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دم اور تعویذ میں اصل وجہِ منع کفر و شرک ہے، جب یہ نہ ہو تو وہ دم اور تعویذ جائز ہے۔
الجواب: یعنی یہ بدعتی شیطان جو نبی صلی اللہ وسلم کے دم کو جائز قرار دینے سے تعویذ کے جواز پر استنباط کررہا ہے جسکو صراحت سے شرک قرار دیا گیا ہے۔
109 - حَدَّثَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ يَقُلْ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ»(صحيح البخاري)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
◾جواب الجواب:
وکٹورین ابوحمزہ نے میری اس عبارت کو نبی کریم ﷺ پر جھوٹ بتایا اور وعید پر دو عدد احادیث بھی نقل کر دیں۔ چلیں میں آپ کو دکھاتا ہوں کے ابوحمزہ کا یہ الزام کس کی طرف جاتا ہے۔
جس عبارت کو ابوحمزہ نے نبی کریم ﷺ پر جھوٹ کہا یہی عبارت غیرمقلدین وکٹورین اہلحدیث کے محدث عبداللہ روپڑی صاحب نے فتاوی اہلحدیث میں نواب صدیق حسن سے یوں نقل کی ہے۔۔
"حدیث مذکور میں تین چیزیں ذکر ہوئی ہیں رقیہ، تمیمہ، تولہ یعنی دم، تعویذ اور عمل حب۔ حدیث میں ان تینوں پر شرک کا حکم لگایا گیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ نفس ان تینوں کا شرک ہے یا ان کی کئی اقسام ہیں جیسے بعض شرک ہیں بعض غیرشرک ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ نفس دم یعنی ذات دم کی یا ذات تعویذ یا ذات عمل حب کی شرک نہیں بلکہ ان کی بعض قسمیں شرک ہیں اور اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔
"عوف بن مالک سے روایت ہے کہ ہم جاہلیت میں دم کیا کرتے تھے رسول اللہ ﷺ سے ہم نے دریافت کیا تو فرمایا اپنے دم مجھ پر پیش کرو جب دم میں شرک نہ ہو تو کوئی حرج نہیں"
اس کی ہم معنی اور بھی کئی احادیث ہیں جو مشکوۃ وغیرہ میں موجود ہیں۔ اور یہ صرف جاہلیت کے دموں کے متعلق ہیں اور جو دم قرآن و حدیث کے ہیں وہ ان کے علاوہ ہیں۔ ان سے معلوم ہوا کہ نفس دم مراد نہیں بلکہ اس کی بعض قسمیں(کلمات شرکیہ) مراد ہیں۔ اور جب اس کی بعض قسمیں مراد ہوئیں تو باقی دو ( تمیمہ ،تولہ) میں بھی بعض مراد ہونگی کیونکہ جیسے دم کی بعض قسمیں شرکیہ ہیں بعض غیر شرکیہ ہیں اسی طرح باقی دو کا حال ہے پس تفریق کی کوئی وجہ نہیں۔ اسی لیےجو جواز کے قائل ہیں انہوں نے حدیث مذکورہ کو شرکیہ تعویذوں پر محمول کیا ہے جیسا کے نواب صاحب کی عبارت میں اسکی تصریح ہے" (فتاوی اہلحدیث اول صفحہ 192)
روپڑی صاحب کی عبارت ختم ہوئی۔
قارئین کرام جس طرح ہم نے حدیث نقل کر کے ثابت کیا تھا کے نفسِ تعویذ، مراد نہیں بلکہ انکی شرکیہ اقسام مراد ہیں بلکل وہی بات روپڑی صاحب نے نواب صاحب سے نقل کی اور انہوں نے بھی اس حدیث سے یہی ثابت کیا ہے۔
اب یہاں ہم سب بخوبی واقف ہیں کے ابوحمزہ کو اپنے اصول یاد آجائیں گے اور یہاں وہ اپنے محدث العصر اور مجدد العصر کو جوتے کی نوک پر رکھ دیں گے۔ ورنہ چاہئے تو تھا کے جیسے انہوں نے بن باز کے بلا دلیل قول کو قبول کر لیا اس کے برعکس یہاں اپنے محدث العصر و مجدد نواب کے اس قول کو قبول کریں جوکہ انہوں نے حدیث سے ہی استدلال کیا ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا نہ کبھی ہوا ہے نا آج ہونا ہے مگر میں ابوحمزہ سے صرف اتنا کہوں گا کے جوتے کی نوک پر رکھنے سے پہلے ذرا ایک بار کہہ دینا کے محدث روپڑی اور نواب صاحب نے بھی رسول اللہ پر جھوٹ بول دیا۔ 😜 جیسا منہ ویسی چپیڑ ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
🔹 01:-تعویز گنڈوی بدعتی جی کا محمد بن اسحاق بن یسار کی معمعن روایت سے استدلال،
الجواب01: یہاں تعویز گنڈوی بدعتی نے سند چھپا کر بدترین خیانت کا ثبوت دیا ہے کیونکہ اوپر بیان کردہ سند کا راوی محمد بن اسحاق بن یسار راوی ہے جس پر نئے دور کی مفتریاں سخت جروحات کرتے ہیں۔شعیب الارنوووط حنفی نے بھی سنن ابوداود میں اس رویت کو تدلیس کی علت سے ضعیف قرار دیا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
◾جواب الجواب:
کوئی خیانت نہیں کی گئی ہماری تحریر عوامی طرز پر تھی جس میں کسی بھی روایت کی نہ سند لگائی گئی ہے نا ہی عربی متن الا ماشاءاللہ۔ اور نہ ہی کوئی سکین پیش کیا گیا مگر ابوحمزہ نے جب بحث چھیڑ ہی دی ہے تو اب ہم اس کا اسنادی بحث والا شوق بھی پورا کر دیں گے اور سکین لگانے والا شوق بھی۔
ابوحمزہ نے مذکورہ روایت کے جواب میں کہا ہے کہ اس کی سند میں محمد بن اسحاق ہے جس پر اھل السنہ احناف نے جرح کی ہے اور شعیب الارناوط ؒ نے بھی اسکو سنن ابوداؤد میں ضعیف کہا ہے۔ الخ
ابو حمزہ کی خیانت
عادت سے مجبور ابوحمزہ خیانت کیے بغیر نہیں رہ پایا شعیب الارناوط نے اس حدیث کو صحیح لغیرہ قرار دیا ہے البتہ مذکورہ سند کو محمد بن اسحاق کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف کہا ہے۔ سکین حاضر ہے۔
دوسری بات یہ کہ احناف اگرچہ ابن اسحاق پر محدثین کی جرح پیش کرتے ہیں پر جیسا کہ محدثین نے تصریح کر رکھی ہے لیکن خصم پر حجت تامہ ہے اگرچہ ہمیں ابن اسحاق کی ثقاہت کی وجہ سے بھی رتی برابر کا فرق نہیں پڑتا اسکے باوجود بھی غیر مقلدین کو منہ کی کھانی پڑتی ہے تاھم مسلک پرستی میں اسکی خیانت بالکل ظاھر ہے
پھر ابوحمزہ مزید لکھتا ہے کے اس کی سند میں چونکہ محمد بن اسحاق مدلس ہے اور عمرو بن شعیب سے عنعنہ کررہا ہے لہذا یہ اہلحدیث کے اصول پر بھی ضعیف ہے۔ الخ
1...محمد ابن اسحاق بن یسار کی تدلیس کا جواب
عمرو بن شعیب ابن اسحاق کا مشھور شیخ ہے اور ابن اسحاق ان سے بکثرت روایات نقل کرنے والے تلمیذ ہیں اور مدلسین کی یہی عادت ہوتی ہے کہ اپنے معروف شیوخ سے تدلیس نہیں کرتے۔
وہ جن سے تدلیس کر جاتے وہ وہ اکثر و بیشتر انکے معروف شیوخ نہیں ہوتے تو اس لحاظ سے قوی امکان اس بات کا ہے کہ ابن اسحاق نے عمرو بن شعیب سے تدلیس نہیں کی۔
چنانچہ امام ذہبی ابن اسحاق کے ترجمہ میں ایک سند ذکر کرکے لکھتے ہیں۔
ﺣﺪﺛﻨﻲ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﺩﻳﻨﺎﺭ، ﻋﻦ ﺃﻳﻮﺏ، ﻋﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺷﻌﻴﺐ: (ﻓﻲ ﺳﻠﻒ ﻭﺑﻴﻊ ، *ﻭﻫﻮ ﻣﻦ ﺃﺭﻭﻯ اﻟﻨﺎﺱ ﻋﻦ ﻋﻤﺮﻭ* (سیر اعلام النبلاء للحافظ الذھبی جلد 7 صفحہ 44)
یعنی ابن اسحاق لوگوں میں سب سے زیادہ روایت کرنے والا ہے عمرو بن شعیب سے۔
2... شواھد سے تقویت:
اس حدیث کے چند شواھد بھی موجود ہیں جن میں کچھ ضعف خفیف کے ساتھ ہے لیکن اھل علم کو یہ بات معلوم ہے کہ اس قدر ضعف سے روایت کو تقویت پہنچتی ہے اور روایت حسن تک آجاتی ہے جیسے کہ مشھور عربی محقق شعیب ارناووط نے بھی اسکی تفصیل میں مسئلہ ھذا کے مضمون کے اوپر مطابق دیگر روایات کی تخریج و تفصیل کرتے ہوئے اس پر صحیح لغیرہ کا حکم لگایا ہے
3...غیر مقلدین کے مشھور علماء سے حدیث کی تصحیح
غیر مقلد اھل حدیث علماء نے بھی اس حدیث سے استدلال کرکے اسکو صحیح و ثابت گردانا ہے جن میں ۔
1۔ عبدالرحمان محدث مبارکپوری (فتاوی نذیریہ جلد سوم صفحہ 299)
2۔ شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری (فتاویٰ ثنائیہ جلد دوم صفحہ 154)
3۔ حافظ محدث عبداللہ روپڑی (فتاوی علمائے حدیث جلد اول 189)
4۔ شیخ الکل نذیر حسین دہلوی( فتاوی نذیریہ جلد سوم صفحہ 298)
5۔ مناظر اسلام سید طالب الرحمن (تعویذ کی شرعی حیثیت ص 48)
جیسے علماء شامل ہیں۔
تاہم اگر اس روایت کو ضعیف بھی مان لیا جائے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اسکا تعلق فضائل سے ہے اور فضائل میں ضعیف حدیث بھی حجت ہے۔ اور تعویذ کا تعلق بھی دنیوی علاج معالجہ سے ہے۔ ہاں جو اسے شرک قرار دیتے ہیں دلیل انکے ذمے بنے گی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
◾ تابعین کے اقوال پر ابوحمزہ کی جروحات کا جواب:
1) سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی روایت پر اعتراض :
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي عِصْمَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ عَنِ التَّعْوِيذِ، فَقَالَ: «لَا بَأْسَ إِذَا كَانَ فِي أَدِيمٍ»
اعتراض : ابی عصمہ ضعیف راوی ہے۔
جواب :
سعید بن المسیب رحمہ اللہ سے اسی مضمون کی صحیح سند بھی موجود ہے ذیل میں اسکو قارئین کے لئے پیش کرتے ہیں بمع متابعات۔
1۔ عَبْدُ الرَّزَّاقِ [ ثقة حافظ ] ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَعْمَرٌ [ ثقة ثبت ] قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلْقَمَةُ بْنُ أَبِي عَلْقَمَةَ [ ثقة ] قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ الْمُسَيِّبِ [ثقة ]، عَنِ الِاسْتِعَاذَةِ تَكُونُ عَلَى الْحَائِضِ وَالْجُنُبِ؟ فَقَالَ: «لَا بَأْسَ بِهِ إِذَا كَانَ فِي قَصَبَةٍ أَوْ رُقْعَةٍ يَجُوزُ عَلَيْهَا»
سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے ناپاک مرد اور عورت کے تعویذ کے پہننے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں ، جبکہ وہ زیور میں بند ہو یا کپڑے میں جو اس کو محفوظ کر دے۔
(مصنف عبدالرزاق 1/346)
یہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی شرط پر صحیح ہے ۔ الحمد اللہ۔
◾2۔ وأخبرنا زاهر بن أحمد ، أخْبَرَنا أحمد بن محمد بن شعبة الحافظ، حَدَّثَنا محمد بن إسماعيل الصائغ، حَدَّثَنا عفان، حَدَّثَنا شعبة، عَن أبي عصمة وعيسى الأزرق أنهما سمعا رجلا من المدينة قال: سألت سعيد بن المسيب عن التعويذ فقال: لا بأس إذا كان في شيء يواريه
سعید بن مسیب سے تعویذ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں ، جبکہ وہ ایسی چیز میں ہو جو اس کو چھپا دے۔
(فضائل القرآن للمستغفری جلد 1 صفحہ 224)
سند کی تحقیق
1۔زاهر بن أحمد
[ الإمَامُ، العَلاَّمَةُ، فَقِيْهُ خُرَاسَانَ، شَيْخُ القُرَّاءِ وَالمُحَدِّثِيْنَ،]
2۔أحمد بن محمد بن شعبة الحافظ
[کبار الحفاظ ]
(تاریخ الاسلام ج 4 ص 114 )
3۔محمد بن إسماعيل الصائغ
[صدوق]
4۔عفان بن مسلم بن عبد الله
[ثقة ثبت]
5۔شعبة بن الحجاج
[ثقة حافظ متقن عابد]
6۔ابی عصمہ ضعیف ہیں لیکن یہاں ان کی متابعت عیسی الازرق رحمہ اللہ کر رہے ہیں
7۔عیسی الازرق
ذكره ابن حبان في كتاب " الثقات " [تهذيب الكمال (23/ 58)]
وثق [الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة (3/ 584)]
مقبول [تقريب التهذيب (1/ 773)]
8۔سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ
ثقة
نیز اس کی ایک اور سند بھی ملاحظہ ہو
◾3۔ أخبرنا أبو علي زاهر بن أحمد، أخْبَرَنا الدغولي حدثني محمد بن دلويه المراز، حَدَّثَنا عمار بن عبد الجبار، حَدَّثَنا شعبة حدثني رجلان من أهل خراسان أحدهما يقال له: أبو عصمة والآخر عيسى أنهما سمعا رجلا من أهل مكة أو المدينة يقول: سألت ابن المسيب عن التعويذ فقال: إذا كان في أديم أو نحوه فلا بأس به.
سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے تعویذ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں ، جب وہ چمڑے یا اس جیسی چیز میں ہو۔
(فضائل القرآن للمستغفری جلد 1 صفحہ 223 ، 224)
سند کی تحقیق:
سند میں زاهر بن أحمد ، شعبہ ، عيسى الازرق ، أبو عصمة
سعید بن مسیب رحمھم اللہ کا تذکرہ پہلے ہو چکا۔
ابو العباس الدغولي
ثقة
(الارشاد للخلیلی ج 3 ص 953)
محمد بن دلويه المراز
ثقة
(الثقات لابن قطلوبغا 8/283 )
عمار بن عبد الجبار
ثقة
(کتاب الثقات 8/518
الجرح والتعدیل 6/394)
اس میں رجل من اھل المدینة مجھول ہے لیکن یہ متابعت میں ہے
اگرچہ صحیح سند کے لئے متابعت کی ضرورت ہوتی بھی نہیں لیکن یہاں پر متابعت سے مزید تقویت مل رہی ہے بحمد اللہ۔
◾4۔ امام نووی شافعی رحمہ اللہ " المجموع " 9/74 میں اور امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمہ اللہ "مرقاة الصعود إلى سنن أبي داود" 3/410 لکھتے ہیں کہ امام بیھقی رحمہ اللہ نے صحیح سند سے نقل کیا ہیکہ
عن سعيد بن المسيب يأمر بتعليق القرآن وقال لا بأس به
(السنن الكبرى - البيهقي - ج ٩ - الصفحة ٣٥١)
5۔غیر مقلد زبیر علی زئی بھی مانتا تھا کہ سعید بن مسیب قرآنی تعویذ کے جواز کے قائل تھے۔
" قرآنی اور غیر شرکیہ عبارات لکھ کر لٹکانے کے بارے میں سلف صالحین کے درمیان اختلاف ہے۔ سیدنا سعید بن المسیب رحمہ اللہ اسے جائز سمجھتے تھے۔ (دیکھئے السنن الکبریٰ للبیہقی 9/ 351 وسندہ صحیح) "
الاتحاف الباسم شرح موطا امام مالک صفحہ نمبر 387 (حدیث نمبر 5307 وتفقہ)
زبیر علی زئی بھی مانتا تھا کہ سعید بن مسیب قرآنی تعویذ کے جواز کے قائل تھے بلکہ علی زئی نے السنن الکبری والی بیھقی کی پیش کردہ سند کو صحیح قرار دیا۔
◾خلاصہ : سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے تعویذ کے جواز پر روایت ثابت ہے لہذا ابو حمزہ بد زبان کا اعتراض باطل ہے۔
2) ابن جریج کی تدلیس پر غیر مقلد ابو حمزہ بد زبان کو اس کے گھر سے جواب
_______________________________
🔹اعتراض : ابن جریج عن عطاء کی سند ضعیف ہے ۔
_______________________________
◾جواب:
حوالہ نمبر 1۔
ابن جریج کی تدلیس: امام حمیدی رحمہ اللہ کی ذکر کردہ پہلی مثال (ابن جریج عن عطاء) کی توضیح یہ ہے کہ عطاء بن ابی رباح سے ان کی روایت سماع پر محمول کی جائے گی۔ (التاریخ الکبیر لابن أبي خیثمۃ، ص: ۱۵۷، تحت رقم: ۳۰۸) بلکہ عطاء سے روایت کرنے میں یہ أثبت الناس ہیں۔
(مقالاتِ اثریہ صفحہ 236 : غیر مقلد محمد خبیب احمد رفیق )
یاد رہے اس کتاب پر غیر مقلد کے محقق جناب ارشاد الحق اثری فیصل آبادی کی تقریظ ہے۔
حوالہ نمبر 2۔
غیر مقلدوں کے محدث العصر زبیر علی زئی لکھتے ہیں:
عنعنه ابن جريج عن عطاء محمولة علي السماع [الفتح المبین : ص 102]۔
حوالہ نمبر 3:
ایک اور مقام پر مزعومہ محدث العصر علی زئی صاحب لکھتے ہیں
" ابن جریج کی عطاء سے روایت قوی ہوتی ہے چاہے سماع کی تصریح ہو یا نہ ہو "
(مقالات جلد 6 صفحہ 77)
حوالہ نمبر 4:
غیر مقلدوں کے محدث اعظم شیخ ناصر الدین البانی یورپی لکھتا ہے:
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين لولا أن ابن جريج قد عنعنه , لكن قد روى ابن أبى خيثمة بإسناده الصحيح عن ابن جريج قال: " إذا قلت: قال عطاء , فأنا سمعته منه , وإن لم أقل: سمعت ".قلت: وهذه فائدة عزيزة فاحفظها فإنى كنت فى غفلة منها زمنا طويلا , ثم تنبهت لها , فالحمد لله على توفيقه.[إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل 5/ 202]۔
حوالہ نمبر 5:
غیر مقلد ، ابو الفوزان کفایت اللہ سنابلی بھی ایسا ہی لکھتا ہے
سند میں ابن جریج گرچہ مدلس ہیں لیکن امام عطاء سے ان کا عنعنہ سماع پر محمول ہوتا ہے
(عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ، ایک وضاحت )
حوالہ نمبر 6۔
غیر مقلدوں کے محقق جناب ارشاد الحق اثری فیصل آبادی :
" ابن جریج کا عطاء سے عنعنہ سماع پر محمول ہوتا ہے۔ "
(توضیح الکلام 506)
_______________________________
🔹3) حضرت امام ابو جعفر باقر رحمہ اللہ سے جواز تعویذ پر اعتراض کا جواب:
_______________________________
حدثنا أبو بكر قال حدثنا يحيى بن آدم عن أبان بن ثعلب عن يونس بن حباب قال: سألت أبا جعفر عن التعويذ يعلق على الصبيان، فرخص فيه.
اعتراض : يونس بن حباب ضعیف ہے
◾جواب :
امام باقر رحمہ اللہ سے جواز تعویذ کی روایت درج ذیل صحیح سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا أبو بكر ( ثقة ) قال حدثنا عبيد الله (ثقة ) عن حسن (ثقة ) عن جعفر ( صدوق فقيه إمام ) عن أبيه ( صدوق فقيه إمام ) أنه كان لا يرى بأسا أن يكتب القرآن في أديم ثم يُعَلِّقُهُ
امام جعفر صادق اپنے والد امام باقر کے بارے میں کہتے ہیں کہ: وہ قرآنی آیت کو چمڑے پر لکھنے اور گلے میں لٹکانے میں کچھ حرج خیال نہیں کرتے تھے -
( مصنف ابن ابی شیبہ 23893)
سند میں حسن سے مراد حسن بن صالح بن حئی ہیں جیسا کہ محقق نے لکھا ہے۔
4) حضرت ضحاک اور ابن سیرین رحمہ اللہ سے جواز تعویذ۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْأَزْرَقُ، عَنْ جُوَيْبِرٍ، عَنِ الضَّحَّاكِ: «لَمْ يَكُنْ يَرَى بَأْسًا أَنْ يُعَلِّقَ الرَّجُلُ الشَّيْءَ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ إِذَا وَضَعَهُ عِنْدَ الْغُسْلِ وَعِنْدَ الْغَائِطِ»
اعتراض : جُوَيْبِر ضعیف ہے
جواب : اس روایت کا متن کہ " قرآن کو تعویذ بنا کر لٹکانے میں کوئی حرج نہیں " ، کے دیگر قوی شواھد موجود ہیں
شاہد نمبر 1۔
حدثنا أبو بكر ( ثقة ) قال حدثنا عبيد الله (ثقة ) عن حسن (، ثقة ) عن جعفر ( صدوق فقيه إمام ) عن أبيه ( صدوق فقيه إمام ) أنه كان لا يرى بأسا أن يكتب القرآن في أديم ثم يُعَلِّقُهُ
امام جعفر صادق اپنے والد امام باقر کے بارے میں کہتے ہیں کہ: وہ قرآنی آیت کو چمڑے پر لکھنے اور گلے میں لٹکانے میں کچھ حرج خیال نہیں کرتے تھے -
( مصنف ابن ابی شیبہ 23893)
5) شاہد نمبر 2۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ [ ثقة ] قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ [ ثقة ]، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ [ ثقة ]:
«أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى بَأْسًا بِالشَّيْءِ مِنَ الْقُرْآنِ
محمد بن سیرین کے بارے میں ہے کہ: وہ قرآنی تعویذ میں کچھ حرج نہ سمجھتے تھے -
اعتراض : إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ ضعیف ہے ۔
جواب: امام ابو حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کی احادیث لکھی جائیں گی۔
( تہذیب التہذیب 1/332)
امام عدی رحمہ اللہ کہتے ہیں
مگر اس کی احادیث لکھی جائیں گی۔
( تہذیب التہذیب 1/332)
لہذا ثابت ہوا کہ اسماعیل بن مسلم المکی کی روایات بطور شواہد و متابعات لکھی جا سکتی ہیں۔
شاہد نمبر 3۔
امام مجاہد رحمہ اللہ کی روایت پہلے بیان ہو چکی ۔
عن سعيد بن المسيب يأمر بتعليق القرآن وقال لا بأس به
۔ لہذا حضرت ضحاک اور ابن سیرین رحمھم اللہ کی یہ روایات قابل قبول ہیں۔
_______________________________
🔹 09:-تعویز گنڈوی بدعتی نے اسکے بعد لمبی بحث لکھی اور جہاں پر علماء نے جھاڑ پھونک سے علاج کیا ہے اسکو بھی اس مفتری نے تعویذ لٹکانے پر استدلال کرتے ہوئے کئے علماء کے اقول بلاوجہ کاپی پیسٹ کردے، ان سب کے جواب دینا یہاں فضول ہے۔
01:-بدعتی کا استدلال تعویذ لکھ کر اسکو جسم کے ساتھ لٹکانے پر ہے، اس پر اسنے کسی مالکی، حنبلی یا شافعی سےکوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔
02:-جو بدعتی جی نے اقول نقل کئے ہیں ہو سب کے سب الرقی یعنی جھاڑ پھونک کرنے پر مشتمل ہیں اسلئے انکا یہاں استدلال مردود ہے۔
03:-امام مالک کی طرف منسوب کوئی بھی قول بے سند ہے جسطرح عورت سے وطی فی الدبر کا قول بےسند ہے۔
04:-شیخ االاسلام امام ابن تیمیہ سے تعویذ لٹکانا ثابت نہیں،۔۔۔الخ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
◾جواب:
ابوحمزہ نے ایک بار پھر بڑی ہٹ دھرمی سے جھوٹ بول دیا کے ہم نے اپنی سابقہ تحریر میں مالکی، حنبلی، یا شافعی سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ اور جو کچھ پیش کیا وہ دم درود سے متعلق تھا ناکہ تعویذ سے متعلق۔
قارئین کرام ہماری جوابی تحریر پہلے ہی بہت طول پکڑ چکی ہے ورنہ ہم یہاں دوبارہ وہ اقوال نقل کر دیتے جن میں صریح الفاظ میں لٹکانے والے تعویذ کا ذکر ہے لیکن اسکی ضرورت نہیں آپ اس تحریر کو دوبارہ دیکھ لیں اور اس میں ائمہ اربعہ والا باب دیکھیں آپ کو وہاں صرف ائمہ ثلاثہ سے متعلق دس سے زائد حوالے تعویذ کے ہی ملیں گے دم درود سے متعلق صرف دو سے تین اقوال ہونگے جن کو بنیاد بنا کر ابوحمزہ نے باقی تمام حوالہ جات کو ہضم کر لیا۔ اور صرف امام احمد ؒ سے متعلق اقوال پر جرح کی۔
سابقہ تحریر دیکھنے کے بعد آپ پر ابوحمزہ کا یہ جھوٹ بھی عیاں ہو جائے گا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
🔹اسکے بعد علماء اہلحدیث کی عبارت سے دھوکہ دینے والے پوسٹ کاجواب۔
🔹10:-تعویز گنڈوی بدعتی
علماء اہلحدیث کے اقوال سے تعویذ کے جواز کا ثبوت:
1: غیر مقلدین کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی۔۔۔۔الخ......
الجواب:سید نزید حسین دھلوی پہلے حنفی مسلک پر قائم تھے اور حدیث پر عمل نہیں کرتے تھے جیسا کہ ثناء اللہ امرتسری نے خود تصریح فرمادی ہے، کتاب کا اسکین پوسٹ کے ساتھ۔
باقی میاں نزیر حسین دہلوی کی عبارت اسطرح ہے۔کسی نے پوچھا تعویذ لکھنا اور گلے میں ڈالنا کیسا ہے تو موصوف نے فقہ حنفی کی کتابوں سے جواب دیا۔
فأباحہ عطاء ومجاھد وأبو قلابۃ،وکرھہ النخعي والبصري۔کذا في خزانۃ الفتاویٰ۔فقد ....الخ
تو عرض ہے کہ یہ انکا فتویٰ احناف کے دور کا ہے۔ اسلئے اہلحدیث پر حجت نہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
◾جواب الجواب:
علمائے اہلحدیث کی عبارات سے دھوکہ ہم نے دیا یا ابوحمزہ نے وہ تو یہ پوری تحریر پڑھ کر عوام کو بخوبی معلوم ہو جائے گا ۔۔۔۔
ابوحمزہ کذاب نے لکھا ہے کہ یہ فتوی میاں صاحب کے حنفی دور کا ہے مگر اس پر دلیل کوئی پیش نہ کی۔ یہ ابوحمزہ پر لازم ہے کے وہ اس فتوے کو حنفی دور کا ثابت کرے۔ فتاوی نذیریہ مرتب کرنے والے اہلحدیث علماء ہیں۔
اگر ابوحمزہ کہتا ہے کہ چونکہ یہ فتوی فقہ حنفی کی کتب سے دیا گیا ہے اس لیے یہ حنفی دور کا ہوا تو جناب سے گزارش ہے
کہ اسی فتاوی نذیریہ میں عبدالرحمان مبارکپوری کا فتوی بھی اسی مسئلہ پر موجود ہے اور اتفاق سے انہوں نے بھی مسئلہ فقہ حنفی سے ہی بتایا ہے تواب ابوحمزہ یہ بتائے کے مبارکپوری بھی پہلے حنفی تھے کیا۔ 🤔
مبارکپوری صاحب ایک سوال کے جواب میں ابن عمرو ؓ والی روایت نقل کر کے لکھتے ہیں: اس روایت کے تحت شراح حدیث لکھتے ہیں کے جس تعویذ میں اللہ کا نام لکھا ہو قرآن کی کوئی آیت لکھی ہو یا کوئی دعا ماثورہ لکھی ہو ایسے تعویذ کا بالغ لڑکوں کے گلے میں لٹکانا درست ہے ملا علی قاری مرقاۃ میں اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔الخ
سکین ضرور ملاحظہ فرمائیں ۔
ہو سکتا ہے ابوحمزہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکو بھی حنفی بنا دے مگر اس پر لازم ہوگا کے وہ دلیل سے ثابت کرے کے میاں صاحب اور مبارکپوری کب اہلحدیث ہوئے اور یہ فتوی کس وقت انہوں نے دیا اور بعد میں انہوں نے اگر تعویذ کو شرک و بدعت کہا ہے تو وہ بھی پیش کرے۔
قارئین کرام آپ کو شائد یہ دیکھ کر حیرت ہو کے اہلحدیث علماء فتوی فقہ حنفی سے کیسے دے رہے ہیں تو آپکے علم میں اضافہ کرتا چلوں کے فتاوی نذیریہ، فتاوی علمائے حدیث وغیرہ میں صرف یہی نہیں بلکہ جابجا فقہ حنفی کے حوالے موجود ہیں اتنا ہی نہیں ان غیرمقلدین کے مدارس میں بھی فقہ حنفی ہی پڑھائی جاتی ہے۔ جی ہاں غیرمقلدین کے محدث حافظ گوندلوی صاحب اسکی وجہ لکھتے ہیں۔
"اسی طرح اہلحدیث حنفیہ کی طرف بنسبت شافعیہ کے زیادہ مائل ہیں یہی وجہ ہے کہ انکی درسگاہوں میں فقہ حنفی موجود ہے۔ بٹالوی صاحب خود کو حنفی اہلحدیث کہلواتے تھے اور میاں نذیر حسین دہلوی صاحب کی فتاوی جات کا اکثر حصہ فقہ حنفی کی کتب سے ماخوذ ہے۔ (الاصلاح ج 1 ص 154)
گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے 😅
محدث گوندلوی صاحب فرما رہے ہیں کے ہم حنفیت کی طرف مائل ہیں اور میاں نذیر صاحب کے فتاوی کا اکثر حصہ فقہ حنفی سے ماخوذ ہے۔ اور غیرمقلدین کو اہلحدیث نام الارٹ کرانے والے محمد حسین بٹالوی بھی خود کو حنفی اہلحدیث کہتے تھے یہی بات تاریخ اہلحدیث کے مولف ڈاکٹر بہاوالدین نے بھی لکھی ہے کے میاں صاحب اہلحدیث کے سردار بھی تھے اور حنفی بھی کہلاتے تھے اور بہاوالدین صاحب اپنا عمل بھی لکھتے ہیں کے میں بھی جب مسئلہ قرآن و حدیث سے نہ ملے تو فقہ حنفی سے استدلال کرتا ہوں (تاریخ اہلحدیث 1 ص 204) سکین بھی حاضر ہے۔
اور اتنا ہی نہیں اہلحدیث کے مدارس میں بھی فقہ حنفی پڑھائی جاتی ہے۔
میرا ابوحمزہ کذاب کو ایک اہم مشورہ ہے ۔
اب سے آپکو کوئی بھی مقلد آپکے کسی بھی عالم کا کوئی بھی حوالہ پیش کرے آپ اسکو فورا کہہ دینا کے ہمارے مدارس میں چونکہ فقہ حنفی پڑھائی جاتی ہے اس لیے ہمارے علماء سارے حنفی مقلد ہیں لہذا ہم ان علماء کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری 😜
_____________________________________________
🔹11:-تعویز گنڈوی بدعتی نے لکھا:
2: غیر مقلدین کے مجدد نواب صدیق حسن خان صاحب نے اس مسئلہ پر کتاب " الداء والدواء کتاب التعویذات " نام کی پوری کتاب لکھی ہے .....الخ
الجواب: نواب صدیق حسن بھوپالی قنوجی کی یہ کتاب انکے ابتدائی دور کی کتابوں میں سے تھی جسکا رد انہونے خود فرمادیا ہے۔ا ور انہونے الدين الخالص للقنوجي
میں لکھا:
باب تعویذ اور گنڈے اور جھاڑ پھونک جیسے شرکہ فعل کا رد:
اسمیں افضل ترک تعویذ ہے وہ تعویذ جسکو بعض علماء نے بوجہ ثبوت جائز قرار دیا ہے ۔
____________________________________
◾جواب الجواب:
قارئین کرام ابوحمزہ صاحب کا دعوی دیکھیں اور ان کے بھونڈے قسم کے جوابات دیکھیں۔
جدید غیرمقلدین کے دعوے کے مطابق تعویذ مطلقاً شرک ہے چاہے قرآنی ہو یا غیر قرآنی جیسا کے کتاب (دم اور تعویذ صفحہ 5) پر غیرمقلد لکھتا ہے "تعویذ فی نفسہ شرک ہے خواہ اس میں شرکیہ افعال پائے جائیں یا نہ پائیں جائیں" اور ابوحمزہ نے بھی ہر عبارت کے شروع میں تعویذ کو جائز کہنے والوں کو بدعتی لکھ رکھا ہے تو ایک طرف انکا دعوی تعویذ کے شرک و بدعت اور حرام ہونے کا ہے اور جناب اپنے اکابرین کے دو ٹوک فتوے کو ہضم کر کے ان سے احتیاط کا قول دکھا رہے ہیں۔ ابوحمزہ سے گزارش ہے کے اگر نواب صاحب نے اپنی اس کتاب کا رد صریح الفاظ میں کیا ہو تو دکھائیں یا تعویذ کو شرک و بدعت لکھا ہو تو وہ بھی دکھائیں ۔
آپ کبھی نہیں دکھا سکتے چلیے ہم آپکو دکھا دیتے ہیں کے نواب صاحب نے اگرچہ ترک کو افضل کہا ہے مگر وہ تعویذ کے جواز کے قائل ہیں۔ اور اپنی کتاب کے بارے میں نواب صاحب نے اپنی حیات پر لکھی کتاب میں خود اسکا ذکر ان الفاظ سے کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
"اذکار دفع کرب اور ادعیہ دافعیہ اسقام و مرض مجرب ہیں۔ اور ان کے استعمال کا طریقہ اہل علم و ولایت نے بیان کر دیا ہے۔ میں نے بھی اس باب میں ایک مختصر رسالہ "کتاب الداءوالدواء" نامی لکھا ہے جو سارے جہاں کے عزائم ورقی و اعمال کا بدل ہو سکتا ہے نصوص کتاب اللہ و سنت رسول ﷺ سے منصوص اور مشائخ و علماء کے مجربات پر مشتمل ہے۔"
(خوخ نوشت سوانح حیات نواب سید محمد صدیق حسن خان صفحہ 217)
لو جی نواب صاحب نے تو اپنی کتاب کی تعریفوں کے پل باندھ دیے جبکہ ابوحمزہ دھوکے باز اپنی فطرت سے مجبور عوام کو نواب صاحب کا تعویذ سے متعلق افضل ترک والا قول دکھا کر اس سے یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے کے نواب صاحب نے اپنی کتاب کا رد کر دیا۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
عبارات کو توڑ مروڑ کر کئی کی بات کئی پر فٹ کرنا ابوحمزہ دھوکے باز کی فطرت ہے۔ ورنہ اہلحدیث کے محدث عبداللہ روپڑی نے بھی نواب صاحب سے نقل کیا ہے کے وہ اگرچہ تعویذ کے جواز کے قائل تھے مگر پرہیز کو افضل سمجھتے تھے۔ (فتاوی اہلحدیث 1 صفحہ 193) سکین حاضر ہے۔
لہذا ثابت ہوا کے نواب صاحب تعویذ کے جواز کے قائل تھے اسکو شرک و بدعت ہرگز قرار نہیں دیتے تھے جیسے وکٹورین جدید اہلحدیث کرتے نظر آتے ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
🔹12:-تعویز گنڈوی بدعتی نے لکھا:
3: غیر مقلدین کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں:
مسئلہ تعویذ میں اختلاف ہے راجح یہ ہے کے آیات یا کلمات صحیحہ جو ثابت ہوں ان کا تعویذ بنانا جائز ہے ہندو ہو یا مسلمان۔ صحابہ کرام نے ایک کافر بیمار پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا۔
( فتاوی ثنائیہ 329/1)
الجواب: ثناء اللہ امرتسری کی عبارت کو توڑ موڑ کر پیش کرنا یہی تو حنفی کا دجل اور فریب ہے۔
مولانا سے پوچھا گیا کہ تعویذ گنڈے کرنا قرآن سے جائز ہے یا نہیں تو جواب دیا: تعویذ گنڈے کرنا حدیث میں منع آیا ۔۔۔الخ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
◾جواب الجواب:
لو جی صاف صریح دو ٹوک الفاظ میں موجود فتوی نقل کیا تھا ابوحمزہ کذاب اسکو توڑ مروڑ اور دجل و فریب بتا رہا ہے۔ یہ بھی بتا دیتے کے توڑ مروڑ اور دجل کہاں کیا ہے ؟ پوری عبارت آپ نقل کر دیتے ؟ جواب کیوں نہیں دیا ہماری نقل کردہ عبارت کا . ؟ ہماری عبارت جلد اول صفحہ 329 پر من و عن موجود ہے سکین لگا دیتے ہیں اس دفعہ تاکہ فرار کی کوئی راہ نہ رہے جناب کے پاس۔ اور جہاں تاک بات ہے ابوحمزہ کے نقل کردہ فتوے کی تو یہ جلد دوم 154 سے لی گئی ہے اور قارئین کرام ذرا عبارت پر غور فرما لیں اور انصاف سے بتائیں کے دجل و فریب سے ابوحمزہ نے کام لیا ہے یا ہم نے۔ ابوحمزہ نے فتوی نقل کر دیا امرتسری کا لیکن انکی تشریح کو ہضم کر گیا ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کے فتوی امرتسری کا ہو اور تشریح ابوحمزہ صاحب کے کتاب البطن سے ہو ؟ ہمیں ابوحمزہ کی جھوٹ دجل و فریب سے لبریز تحریریں پڑھنے والی عوام پر بھی افسوس ہوتا ہے کے وہ اسکے بنائے گئے سکین پر غور کیوں نہیں کرتے۔ ابوحمزہ نے جو فتوی نقل کیا ہے اس کی تشریح میں خود ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں: " وہ تعویذات اور گنڈے شرعاً ناجائز اور ممنوع ہیں جن میں شرکیہ الفاظ ہوں یا جن کے معنے معلوم نہ ہوں اللہ کے اسماء حسنیٰ اور آیات قرآنی و ادعیہ ماثورہ کے ساتھ تعویز کرنا اور گلے میں لٹکانا بلاشک جائز و درست ہے۔" (فتاوی ثنائیہ جلد دوم صفحہ 154) ابوحمزہ کا دیا ہوا سکین ہی ملاحظہ فرما لیں۔
اس سے ثابت ہوا کے عبارات میں توڑ مروڑ کرنا جھوٹ اور دجل و فریب ابوحمزہ کے رگ رگ میں سمایا ہوا ہے ۔۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
🔹13:-تعویز گنڈوی بدعتی نے لکھا:
4: حافظ عبداللہ بہاولپوری صاحب لکھتے ہیں:
قرآن و حدیث کا لکھا ہوا تعویذ جائز ہے۔
(خطبات بہاولپوری 126/3)
الجواب:عبداللہ بہاولپوری کا یہ شاذ قول ہے جسکے ساتھ انہونے کوئی شرعی دلیل بطور حوالہ پیش نہیں کی، اور اپنے اس قول کا انہونے خود رسائل بہاولپوری میں رد کردیا ہے اور لکھتے ہیں۔
اب ہم اصلی اور خالص اہلحدیث نہیں رہے(جو دلیل سے بات کریں) اور ہم خواب غفلت میں پڑگئے ہیں اور صرف نام کے اہلحدیث رہ گئے ہیںَ(پس حافظ صاحب نے اپنے تفردات کا خود رد کردیا ہے، اسلئے انکا حوالہ فضول ہے)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
🔹جواب الجواب:
یہ پڑھ کر میں ہنسو یا روؤں 😅 قارئین کرام اس کذاب ابوحمزہ کی خیانت کا اعلی معیار ملاحظہ فرمائیں یہاں تو جناب نے دجل و فریب کی تمام حدود کو پار کر دیا ہے۔ پہلے تو جناب نے بہاولپوری صاحب کے فتوے کو جوتے کی نوک پر رکھ دیا یہ کہہ کر کے انہوں نے کوئی دلیل نہیں لگائی اور پھر ان کا ایک قول بھی نقل کیا جو انہوں نے ابوحمزہ جیسے غیرمقلدین کے بارے میں لکھا ہے فرماتے ہیں: ہم نام کے اہلحدیث ہیں کام کے اہلحدیث نہیں۔
یہ قول نقل کر کے ابوحمزہ نے ثابت کر دیا کے عبداللہ بہاولپوری کے نزدیک تعویذ جائز نہیں۔ 🤣 یا شائد بہاولپوری اہلحدیث نہیں رہے ۔۔ توبہ اتنا بڑا دھوکہ۔
قارئین کرام ہونا تو یہ چاہئے تھا کے کم از کم یہاں ابوحمزہ بجائے کوئی جھوٹ یا دجل سے کام لینے کے کہہ دیتے کے ہمارے بہاولپوری صاحب بھی گنڈوی بدعتی ہو گئے ہیں مگر انہوں نے یہاں بھی فضول کی تاویلیں کر کے انکو بچانے کی کوشش کی لیکن یہاں پر بھی یہ پہلے کی طرح پھنسیں ہیں۔۔ جی ہاں جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے ۔ بہاولپوری صاحب کا یہ قول "ہم نام کے اہلحدیث ہیں کام کے نہیں" اپنی موجودہ اہلحدیث جماعت کے بارے میں ہے ناکہ صرف اپنی ذات کے بارے تو اگر آپ نے اسکو قبول کرنا ہی ہے تو اپنے حق میں بھی کریں صرف اتنا ہی نہیں ہم آپ کو ایسے مذید اقوال بھی دکھا دیتے ہیں۔
عبداللہ بہاولپوری صاحب اپنے جدید فرقے کی حقیقت واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
اس میں شک نہیں اہلحدیثوں کا موجودہ کردار بڑا ہی گندہ ہے (خطبات بہاولپوری 214)
اور ایک جگہ لکھتے ہیں:
آج ہمارا کردار یہودیوں والا ہو گیا ہے آج دنیا میں ذلت ہمارا مقدر ہے ہماری یہ ذلت و رسوائی ہماری دو عملی اور منافقانہ کردار کی وجہ سے ہے۔ (رسائل بہاولپوری 569)
یہ دوسرا قول ذرا دیکھیں بلکل ابوحمزہ کے کردار پر پورا اترتا ہے۔ عبارات میں کانٹ چھانٹ اور توڑ مروڑ کرنا جھوٹ دجل و فریب اور منافقت سے کام لینا اور پھر ہم جیسوں سے ذلیل ہونا اسکی پرانی عادت ہے۔
تو قارئین نے دیکھا کے بہاولپوری صاحب نے صاف الفاظ میں یہ اقوال اپنی جماعت کے بارے میں نقل کیے ہیں جن میں سے ایک قول اٹھا کر ابوحمزہ نے بہاولپوری صاحب کی ہی ذات پر فٹ کر دیا اور اسکو تعویذ والے فتوے میں انکا تفرد ثابت کرنا چاہا واہ کیا ہی نرالے اصول ہیں ابوحمزہ صاحب کے 😅
یہاں بھی میں ابوحمزہ کو ایک مشہور دینا چاہوں گا وہ یہ کہ میں ابوحمزہ کو انکے دیگر علماء کے چند ایسے ہی اقوال پیش کر دیتا ہوں اور ان سے توقع کرتا ہوں کے جب بھی کوئی مقلد ان پر کوئی اعتراض کرے یہ جواب میں کہہ دے کے چونکہ ۔۔
اہلحدیث کا کردار بہت گندہ ہے ۔
اہلحدیث کا کردار یہودیوں والا ہے۔
اہلحدیث منافق ہیں ۔۔
اہلحدیث جھوٹے ہیں۔۔
اہلحدیث رافضیوں کے خلیفہ ہیں۔۔
اہلحدیث علم سے عاری ہیں ۔۔
اہلحدیث گستاخ ہیں ۔
اہلحدیث بے ادب ہیں۔
اہلحدیث صرف نام کے اہلحدیث ہیں کام کے نہیں۔
اکثر اہلحدیث چھوٹے رافضی ہیں۔
اہلحدیثوں کی مت ماری گئی ہے۔
لہذا میں ابوحمزہ انکا قول جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں 🤣
مذکورہ اقوال زریں کے سکین مطالبہ پر فراہم کر دیے جائیں گے۔۔۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
🔹14:-تعویز گنڈوی بدعتی نے لکھا:
5: غیر مقلدین کے محدث العصر حافظ عبداللہ روپڑی بھی تعویذ لکھ کر دیتے تھے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
غیر مسلم کو تعویذ دیا جا سکتا ہے مگر آیات قرانیہ نہ لکھی ہوں میں (عبداللہ روپڑی) اسکا ترجمہ لکھ کر دے دیتا ہوں یا کچھ اور۔
(فتاوی اہلحدیث 201/1)
الجواب: عبداللہ روپڑی کا نام لے کر اس مفتری نے بہت جھوٹ بولا ہے۔بلکہ محدث روپڑی نے لکھا ۔۔۔ الخ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
◾جواب الجواب:
ابوحمزہ کذاب نے ایک بار پھر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میری پیش کردہ دو اور دو چار کی طرح صریح عبارت کو بڑے دھڑلے سے جھوٹ بول دیا اور حسب معمول عبداللہ روپڑی کا ترک افضل والا قول پیش کردیا ۔ حلانکہ یہ قول بھی اسکے کسی کام کا نہیں کیونکہ نا ہی روپڑی صاحب نے تعویذ کو بدعت کہا نہ شرک۔ اور ابوحمزہ نے یہاں بھی اپنی فطرت کے مطابق دجل و فریب سے کام لیا۔ میری پیش کردہ عبارت کو صرف جھوٹ بول کر وہاں سے کنارہ کر لیا یہ بھی کیا خوب طریقہ اپنایا ہے جناب نے کے بس جو بھی لکھا ہو اسکو جھوٹ بول دو اور کوئی اور قول توڑ مروڑ کر پیش کر کے جان چھڑا لو مگر یہ دھوکے باز بھی کیا یاد رکھے گا کے آخر کس سے پالا پڑا ہے۔ میں اپنے سابقہ دلائل پر سکین لگا دیتا ہوں تاکہ عوام دیکھ سکیں کے میں نے جھوٹ بولا ہے یا روپڑی صاحب کی عبارت من و عن نقل کی ہے۔ اور جس عبارت کی ابوحمزہ بات کر رہا ہے یہ بھی پوری پیش کر دیتا ہوں تاکہ اس کذاب کا یہ جھوٹ بھی عیاں ہو جائے ۔
قارئین کرام اسکا سکین ذرا ملاحظہ فرمائیں اسکا پہلا صفحہ فتاوی اہلحدیث جلد 1 اور صفحہ 189 ہے تو دوسرا صفحہ کونسا ہونا چاہئے ؟ 190 مگر نہیں آپ دیکھ سکتے ہیں کے دوسرا صفحہ اس نے 196 لگا رکھا ہے یعنی درمیان کے چھ صفحات جناب ہضم کر گئے۔ لیکن کیوں ؟ کیوں کے ان صفحات میں عبداللہ روپڑی صاحب نے بڑی وضاحت کے بعد واضح تعویذ کو جائز لکھا ہے اور یہی قول نواب صاحب سے بھی نقل کیا ہے البتہ آخر میں صرف اتنا عرض کیا کے پرہیز کرنا افضل ہے۔ لکھتے ہیں "اس تفصیل سے معلوم ہوا کے صرف شرک والی صورتیں منع ہیں باقی جائز ہیں ہاں پرہیز افضل ہے" (ص193)
تو ابوحمزہ نے اپنی دجل و فریب والی صفت کا یہاں بھی بھرپور استعمال کیا اور بیچ کے صفحات کو غائب کر دیا۔
عبداللہ روپڑی صاحب کی مکمل عبارت میں اوپر نقل کر چکا ہوں دوبارہ لگانے کی ضرورت نہیں البتہ سکین ضرور لگا دیتا ہوں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
🔹15:-تعویز گنڈوی بدعتی نے لکھا:
6: غیرمقلدین کے مولوی صوفی عبداللہ صاحب دم کرتے تعویذ لکھ کر دیتے اور کہتے پہن لو یا باندھ لو شِفاء ہوگی اور شِفاء مل جاتی اور اپنی بات اللہ سے منوا لیتے ۔ (صُوفی عبد اللہ صفحہ نمبر 404)
الجواب: اہلحدیث کے ساتھ اٹھنے بیٹھے سے کوئی اہلحدیث نہیں بن جاتا بالکل یہی حال اس عبداللہ غزنوی نامی صوفی کا ہے جسکے بارے میں ایک طرف اسحاق بھٹی نے روایت میں لکھا کہ اسکا باپ اسکا دادا اسکا بیٹا اور اسکا پوتا یہ چاروں اہلحدیث سے نفرت کرتے اور اسکو وہابی کہہ کر مخاطب کرتے یعنی اس صوفی کے خاندان کا اہلحدیث سے عقیدہ میں اختلاف تھا، اور قندھار کے قاضی نے اس صوفی کے بارے میں لکھا: یہ باطن میں نسبت اویسی کا حامل تھا، طریقہ نقشبندیہ میں قدم رکھا اور طریقہ سیرو سلوک کی تکمیل کی اور سلسلہ نبوریہ (جسکے نام پر کراچی کی بنوری مسجد دیوبندی ہے) میں مجاز ہوئے۔توعرض ہے کہ صوفی عبداللہ عزنوی کی فضول عبارات اپنے لوگوں کو بیوقوف بنانے کیلئے تو کام آجائینگے علم کے میدان میں انکی کوئی وقعت نہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
◾جواب الجواب:
لعنۃ اللہ علی الکذبین۔ کیا کہیں ایسے لوگوں کے بارے جسے اپنے اکابرین کے متعلق اتنا بھی علم نہ ہو کے صوفی عبداللہ الگ ہیں اور عبداللہ غزنوی الگ شخصیت ہیں اور منہ اٹھا کر چل دیے اپنے اکابرین کا دفاع کرنے 😅 مطلب اب کیا کہے بندہ اس ابوحمزہ نامی جاہل اعظم کو جسے اتنا بھی علم نہیں کے یہ دونوں شخصیات الگ الگ ہیں۔
آپکو کیا لگتا ہے جناب نے یہ اتنا بڑا بلنڈر جو کیا ہے یہ جہالت کے سبب کیا ہے یا اسکو جھوٹ بولنے کی عادت ہے ؟
جتنے جھوٹ ابوحمزہ صاحب نے اس ایک تحریر میں بولے ہیں اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم تو یہی کہیں گے کے جناب نے یہاں بھی جھوٹ سے کام لیا ہے کیونکہ ابوحمزہ نے صوفی محمد عبداللہ پر جو اسحاق بھٹی صاحب کی کتاب سے سکین پیش کیا جس کا عنوان ہے "صوفی صاحب کی مسلک اہلحدیث سے وابستگی" اس میں موجود عبارت سے ابوحمزہ کذاب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کے "چونکہ صوفی عبداللہ کے دادا اور والد اہلحدیث کے مخالف تھے پوتے اور بیٹے پر بھی اسکا اثر تھا۔وہ اہلحدیث کو وہابی کہا کرتے تھے" یہ عبارت صفحہ نمبر 79 سے تو نقل کر دی مگر کیا ابوحمزہ نے اسی کتاب کا صفحہ 78 اور 80 پڑھنے کی زحمت نہیں کی ہوگی ؟ مذکورہ عبارت کے صرف ایک صفحہ پیچھے اور ایک صفحہ آگے کیا لکھا ہے وہ ہم آپکو دکھا دیتے ہیں۔
صفحہ 78 پر مورخ اسحاق بھٹی صاحب لکھتے ہیں کہ۔
ملک محمد سبحان اور ا ن کے بیٹے قادربخش فقہی مسلک کے اعتبار سے حنفی تھے۔ ملک قادر بخش کے دو بیٹے اہل حدیث ہوگئے تھے۔ ایک سب سے بڑے محمد سلطان(یعنی صوفی عبد اللہ) اور دوسرے ان سے چھوٹے رحمت اللہ …مسلک اہل حدیث پہلے صوفی عبد اللہ رحمہ اللہ نے اختیار کیا تھا، جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ پھر ان سے اثر پذیر ہوکر ملک رحمت اللہ اہل حدیث ہوئے۔ (ایضاً، ص:78)
اور جو عبارت ابوحمزہ نے نقل کی اسی عبارت کا آخری حصہ بھی اگلے صفحے سے ملاحظہ فرمائیں۔
"اب ان کا شعور نئی کروٹ لے چکا تھا اور فہم جاگ اٹھا تھا اور وہ پکے اہل حدیث ہوگئے تھے۔ کسی قسم کا خوف ان کے دل میں نہیں رہا تھا۔ (أیضا : ص:۸۰۔۸۱)"
لو جی ابوحمزہ ایک بار پھر کذاب ثابت ہوا۔
قارئین کرام اسحاق بھٹی صاحب نے صفحہ 78 پر صوفی عبداللہ کے والد اور دادا کے نام بھی لکھے ہیں یعنی ملک سبحان اور انکے بیٹے قادر بخش۔
جبکہ ابوحمزہ نے کمال خیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عبارت ادھوری پیش کی اور آگے عبداللہ غزنوی کا سکین ساتھ چپکا دیا۔ اور ہٹ دھرمی تو دیکھیں جناب کی کے صوفی صاحب کو حنفی ثابت کرنے کے چکر میں پورے غزنوی خاندان کو بھی حنفی بنا ڈالا 😢
جس عبداللہ غزنوی کو انہوں نے صوفی عبداللہ بنا کر پیش کیا ان کا تذکرہ عبدالرشید عراقی نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ یہ عبداللہ غزنوی والد تھے عبدالجبار غزنوی کے جوکہ والد تھے داؤد غزنوی کے۔ عراقی صاحب نے اس پورے غزنوی خاندان کو اہلحدیث علماء کی فہرست میں شامل کیا ہے۔
اتنا ہی نہیں "کرامات اہلحدیث" نامی کتاب میں بھی آپکو ان دونوں حضرات کی کرامات الگ الگ دیکھنے کو ملیں گی۔
تو ہم نے ثابت کیا کے صوفی عبداللہ بن قادر بخش الگ شخصیت ہیں جبکہ عبداللہ غزنوی بن محمد بن محمد شریف الگ ہیں۔
اور یہ سب اہلحدیث ہیں سکین بھی ملاحظہ فرمالیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
🔹16:-تعویز گنڈوی بدعتی نے لکھا:
8: قرآنی آیات پر مشتمل تعویذات کو تمیمہ کہنا قرآن و سنت کی ہتک ہے اس پاکیزہ کلام کو یہ بُرا نام دینا غُلو ہے۔ اور لکھا کے تعویذ کا مسئلہ اختلافی ہے۔
الجواب شیخ زبیر علی زئی کی عبارت سے تعویذ گنڈے پر دلیل نہیں پکڑی جاسکتی ۔۔۔الخ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
◾جواب الجواب:
زبیر علیزئی کی عبارت سے تعویذ پر دلیل پکڑی ہی کب ہے۔ اس عبارت کو نقل کرکے صرف اتنا ہی لکھا تھا کے بقول انکے۔ "قرآنی آیات پر مشتمل تعویذات کو تمیمہ کہنا قرآن و سنت کی ہتک ہے اس پاکیزہ کلام کو یہ بُرا نام دینا غُلو ہے۔" لیکن ابوحمزہ نے جو سکین لگایا اس میں یہ بھی واضح طور پر لکھا ہے کہ "راجح یہی ہے کہ قرآنی و غیر شرکیہ تعویذ شرک یا بدعت نہیں ہے۔ مگر ابوحمزہ نے یہاں بھی دھوکہ دہی سے کام لیتے ہوئے اس لائین کو چھوڑ کر باقی اپنی مطلب کی عبارت پر سرخی لگا دی۔ سکین دیکھیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
🔹پوری تحقیق سے ثابت ہوگیا کہ تعویذ اگر شرکیہ کلمات پر مشتمل ہوگا تو اسکو لٹکانے سے شرک ثابت ائیگا۔ اور تعویذ اگر قرآنی ایت پر مشتمل ہے تو اسکو لکھ کر لٹکانے پر کوئی دلیل احناف کے پاس موجود نہیں،۔۔۔۔الخ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
نام نہاد تحقیق کا تو مکمل پوسٹمارٹم ہو چکا ہے البتہ تعویذ کا تعلق دنیوی علاج معالجہ سے ہے اور جائز و مباح کاموں میں دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ دلیل ان کے ذمے ہے جو اسکو شرک، بدعت اور حرام قرار دیتے ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
🔹اسکے بعد تعویذ گنڈے کا رد صحیح احادیث سے اور صحابہ اور تابعین کے اقول سے پوری سند کی تحقیق کے ساتھ دوسری پوسٹ میں لگایا جائیگا، ان شاء اللہ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تمیمہ اور تعویذ میں فرق ہم دلائل سے ثابت کر چکے ہیں ۔ جس کا تمہاری طرف سے کوئی جواب نہیں ایا سوائے بھونڈے قیاسات کے۔
ہمارا پوری ذریت غیر مقلدیت کو چیلنج ہے صرف ایک صحیح روایت پیش کر دے جس میں قرآنی تعویذ کا لفظ ہو اور اسے شرک کہا گیا ہو۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
◾خلاصہ کلام:
قارئین کرام ابوحمزہ کذاب نے اپنی جوابی تحریر میں بہت سے جھوٹ بولے اور دجل و فریب سے کام لیا جیسا کہ:
1۔ شعیب الارناوط ؒ پر جھوٹ کے انہوں نے روایت کو ضعیف کہا۔
2۔ ہماری سابقہ تحریر میں ائمہ ثلاثہ سے متعلق دلائل پر جھوٹ کے اس میں سب روایات رقیہ پر مبنی ہیں۔
3۔ میاں نذیر حسین سے متعلق جھوٹ کے انکا فتوی حنفی دور کا ہے۔
4۔ نواب صدیق حسن صاحب پر جھوٹ کے انہوں نے اپنی کتاب الداء والدوا کو رد کر دیا۔
5۔ ثناء اللہ امرتسری کی واضح عبارت کا انکار اور ہم پر جھوٹ کا الزام۔
6۔ میاں صاحب کی واضح عبارت کا انکار اور ہم پر جھوٹ کا الزام۔
7۔ اپنے عالم عبداللہ بہاولپوری کی عبارت میں کمال درجہ کی خیانت اور اسکو تعویذ کے رد میں فٹ کردیا۔
8۔ محدث روپڑی کی عبارت پیش کرنے میں زبردست قسم کی خیانت۔ سکین کے دو صفحات لگائے اور بیچ سے چھ صفحات ہضم کر گئے جہاں انکا دو ٹوک موقف تھا۔
9۔ صوفی عبداللہ پر جھوٹ کے وہ حنفی تھے جبکہ ابوحمزہ کی اپنی پیش کردہ عبارت سے انکا اہلحدیث ہونا ثابت ہوا۔
10۔ صوفی عبداللہ اور عبداللہ غزنوی کو ایک بنا ڈالا اسکو اب جھوٹ کہیں یا ابوحمزہ کی انتہاء درجہ کی جہالت ہم آپ پر چھوڑتے ہیں 😅
ایک تحریر میں اتنے سارے جھوٹ۔
لہذا ہم ابوحمزہ جھوٹ اور خیانت کی دکان سے مطالبہ کرتے ہیں کے اگلی تحریر میں ان گنت جھوٹ لکھتے وقت اپنے ان سابقہ جھوٹوں سے رجوع ضرور ریکارڈ کرا لینا۔
اور ہاں دوبارہ سے خوامخواہ کی تاویلیں اور دجل و فریب کی ضرورت نہیں اس میں آپ پہلے ہی ناکام ثابت ہو چکے ہیں۔
النعمان سوشل میڈیا سروسز
النعمان سوشل میڈیا سروسز
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں