نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام عبداللہ بن مبارک اور امام ابو حنیفہ رحمھم اللہ : متعصبیں کی جانب سے پیش کردہ امام اعظم پر چند متفرق اعتراضات


 امام عبداللہ بن مبارک اور  امام ابو حنیفہ رحمھم اللہ :

متعصبیں کی جانب سے پیش کردہ امام اعظم پر چند متفرق اعتراضات :

1.اعتراض : کتاب الحیل ، امام ابو حنیفہ کی تصنیف ہے ۔

2.ابو حنیفہ حدیث میں مسکین تھا۔ 

3.امام عبداللہ ابن مبارک رحمہ اللہ نے آخری عمر میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ترک کر دیا تھا

4.ابن المبارک نے ایک شاگرد نے پوچھا کیا ابو حنیفہ میں کوئی بدعت تھی، تو جواب دیا ہاں وہ مرجئی تھا۔

5.ابو حنیفہ عالم نہیں تھا

6." عبداللہ بن المبارک اور رفع الیدین کے واقعہ پر ایک نظر "

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اعتراض : کتاب الحیل ، امام ابو حنیفہ کی تصنیف ہے ۔

 01:-امام اہلسنت عبداللہ ابن المبارک(متوفی 181ھ) نے فرمایا:

أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن عبيد الله الحنائي، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن عبد الله الشافعي، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل السلمي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو توبة الربيع بن نافع، قَالَ: حَدَّثَنَا عبد الله ابن المبارك، قال: من نظر في كتاب الحيل لأبي حنيفة أحل ما حرم الله، وحرم ما أحل الله 

(تاريخ بغداد)

جو ابو حنیفہ کی کتاب الحیل کوپڑھ لے تو وہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام کرسکتا ہے۔

جواب : 

النعمان سوشل میڈیا سروسز

کتاب الحیل ہرگز امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کتاب نہیں ہے ، نہ ہی امام صاحب کے لائق شاگردوں کی۔

تمہید :

امام ابو حنیفہؒ پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کردیا۔ اور دلیل کے طور پر امام عبداللہ ابن مبارکؒ کا وہ قول نقل کیا جاتا ہے جسے امام خطیب بغدادیؒ نے نقل کیا ہے۔ آج اس پوسٹ میں ان شاء اللہ اس کی حقیقت جاننے کی کوشش کریں گے کہ کیا کتاب الحیل امام ابو حنیفہؒ کی کتاب ہے؟ کیا واقعی انہوں نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر دیا ہے؟ اور اس کتاب کی سند کیا ہے؟ کیا یہ کتاب ثابت ہے؟

أخبرنا محمد بن عبد الله الحنائي، أخبرنا محمد بن عبد الله الشافعي حدثنا محمد بن إسماعيل السلمي، حدثنا أبو توبة الربيع بن نافع، حدثنا عبد الله بن المبارك. قال: من نظر في كتاب الحيل لأبي حنيفة أحل ما حرم الله، وحرم ما أحل الله.

خطیب بغدادیؒ نے امام ابن مبارکؒ کے حوالے سے نقل کیا کہ امام ابن مبارکؒ نے فرمایا کہ امام ابو حنیفہؒ نے (ان کی طرف منسوب) کتاب الحیل میں اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال اور حلال کردہ چیزوں کو حرام کر دیا ہے (تاریخِ بغداد ۱۵/۵۵۵)۔

جواب:

▪︎1) سب سے پہلی بات کتاب الحیل امام ابو حنیفہؒ کی کتاب نہیں ہے اور نہ ہی ان سے ثابت ہے۔ اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے ان شاء اللہ۔

▪︎2) امام ابن مبارکؒ کے قول سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ امام ابو حنیفہؒ نے یہ کتاب لکھی ہے۔

▪︎3) یہ ممکن ہے کہ امام ابن مبارکؒ نے بطور تعجب یا افسوس کے یہ بات کہی ہو کہ امام ابو حنیفہؒ کی طرف منسوب اس کتاب کو جو شخص پڑھے گا، وہ سمجھے گا کہ امام ابو حنیفہؒ نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر دیا ہے۔

▪︎4) اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ امام ابو حنیفہؒ کے انتقال کے بعد کا ہے۔ کیونکہ امام ابن مبارکؒ سے یہ قول نقل کرنے والے حضرت ابو طوبہ ربیع بن نافعؒ ہیں اور وہ ۱۵۰ ہجری کے لگ بھگ پیدا ہوئے ہیں(سیر اعلام النبلاء ۱۰/۶۵۳) 

اگر ربیع بن نافعؒ نے ۲۰ سال کی عمر میں یہ قول امام ابن مبارکؒ سے سنا تو اس کا مطلب یہ ۱۷۰ ہجری کا واقعہ ہے، یعنی امام ابو حنیفہؒ کے انتقال کے ۲۰ سال بعد کا۔ اور اگر یہ امام ابو حنیفہؒ کی زندگی کا واقعہ ہوتا تو امام ابن مبارکؒ خود اس کتاب کی تصدیق ان سے کرتے کہ کیا آپ نے ایسی کتاب لکھی ہے؟ لیکن تاریخ کی کتابوں میں ایسا کچھ نہیں ملتا۔

▪︎5) اگر یہ واقعہ امام ابو حنیفہؒ کی کتاب ہوتی تو ان کے مخالفین اس موقع کو کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیتے اور اس کتاب کی وجہ سے ان پر ملامت کرتے، لیکن کتابوں میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا، اس کا مطلب یہ کتاب ثابت ہی نہیں۔

▪︎6) سب سے اہم بات امام ابو حنیفہؒ کے شاگردوں میں سے کسی نے بھی اس کتاب کو روایت نہیں کیا، خاص طور پر امام ابو یوسفؒ، امام زفرؒ اور امام محمد بن حسنؒ سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ 

بلکہ امام محمد بن حسنؒ سے اس کتاب کی تردید موجود ہے۔ جیسا کہ امام ذہبیؒ نے اپنی کتاب مناقب ابی حنیفہؒ و صاحبیہ ابی یوسفؒ و محمد بن حسنؒ میں (امام طحاویؒ کی کتاب سے) صحیح سند کے ساتھ امام محمد بن حسنؒ سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا: یہ کتاب یعنی کتاب الحیل ہماری کتابوں میں سے نہیں ہے، اس میں کسی باہر والے (اجنبی شخص) نے باتیں نقل کر دی ہیں

الطَّحَاوِيُّ، سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ أَبِي عِمْرَانَ، يَقُولُ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ سَمَاعَةَ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ الْحَسَنِ، يَقُولُ: «هَذَا الْكِتَابُ يَعْنِي كِتَابَ الْحِيَلِ لَيْسَ مِنْ كُتُبِنَا، إِنَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا»، 

 (مناقب ابی حنیفہؒ ۸۵)۔

☆ یہاں یہ غور کرنے کی بات ہے کہ امام محمد بن حسنؒ نے یہ نہیں کہا کہ کتاب الحیل میری کتاب نہیں، بلکہ کہا کہ یہ ہماری کتاب نہیں، یعنی امام ابو حنیفہؒ کے ساتھ ان کے دیگر شاگردوں کی طرف سے بھی اس کی نفی کر دی۔ نیز امام ابن ابی عمران کا یہ دعویٰ کہ یہ کتاب اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہ نے لکھی یہ بات بھی محل نظر ہے کیونکہ یہ کتاب ان سے بھی  ثابت نہیں۔

▪︎7) امام عبد القادر قرشی رحمہ اللہ نے بھی امام ابو سلیمان جوزجانی رحمہ اللہ (امام محمد رحمہ اللہ کے خاص شاگرد)کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ لوگ امام محمد رحمہ اللہ کے بارے میں جھوٹ کہتے ہیں۔ کتاب الحیل ان کی کتاب نہیں ہے، یہ کسی ورّاق (نقل کرنے والے) نے نقل کی ہے۔ 

(الجوہر المضیئہ 3/576)

▪︎8) بہت ممکن ہے کہ کسی باطل فرقے والے نے یہ کتاب لکھ کر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کی طرف اس کی نسبت کر دی ہو، کیونکہ جب لوگوں کے جھوٹ سے حضور ﷺ کی ذات محفوظ نہیں (لوگ جھوٹی احادیث بیان کرکے اس کی نسبت حضور ﷺ کی طرف کر دیتے ہیں) تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس سے کیسے محفوظ ہو سکتے ہیں۔

▪︎9) یہ کتاب آج موجود نہیں، لیکن فقہ حنفی الحمدللہ موجود ہے۔ کوئی ہے جو دلائل کی روشنی میں ثابت کرے کہ فقہ حنفی کا یہ مسئلہ کفر ہے یا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ثابت کرے کہ انہوں نے اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام اور حرام کردہ چیزوں کو حلال کر دیا ہے؟

▪︎10) اب آتے ہیں اس کی سند کی طرف جو کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے نقل کی ہے۔ 

محمد بن بشر، أبو عبد الله الرقى:

حدث عن خلف بن بيان كتاب الحيل في الفقه لأبي حنيفة، رواه عنه أبو الطيب مُحَمَّد بْن الحسين بْن حميد بْن الربيع الكوفي، وذكر أنه سمعه منه في سنة ثمان وخمسين ومائتين بسر من رأى.

کتاب الحیل کو خلف بن بیان سے روایت کرتا ہے محمد بن بشر ابو عبداللہ الرقی ۔ اور یہ دونوں ہی مجہول الحال ہیں۔ لیجیے جس کتاب کو بنیاد بنا کر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراض کیا جاتا ہے وہ مجہولوں سے مروی ہے۔

 (تاریخ بغداد 440/2)

اس کے علاوہ ابو طیب محمد بن حسین بن حمید (جن پر خود کلام ہے) نے یہ کتاب 258 ہجری میں محمد بن بشر سے سنی، اب اگر محمد بن بشر نے یہ کتاب 50 سال پہلے بھی خلف بن بیان سے سنی(یعنی 208 ہجری) اور خلف بن بیان نے 50 سال پہلے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اسے روایت کیا(یعنی 158 ہجری)، تو اس کا مطلب کیا ان کے انتقال کے بعد یہ کتاب روایت کی گئی؟ (امام ابو حنیفہ متوفی رحمہ اللہ 150ھ)


اب آتے ہیں دیگر اقوال کی طرف۔

حدثني الأزهري، أخبرنا محمد بن العباس قال: حدثنا عبد الله بن إسحاق المدائني، حدثنا أحمد بن موسى الحزامي، حدثنا هدبة - وهو ابن عبد الوهاب - حدثنا أبو إسحاق الطالقاني قال: سمعت عبد الله بن المبارك يقول: من كان عنده كتاب حيل أبي حنيفة يستعمله - أو يفتي به - فقد بطل حجه، وبانت منه امرأته. فقال مولى ابن المبارك: يا أبا عبد الرحمن ما أدري وضع كتاب الحيل إلا شيطان. فقال ابن المبارك: الذي وضع كتاب الحيل أشر من الشيطان.


 - أخبرنا إبراهيم بن عمر البرمكي، أخبرنا محمد بن عبد الله بن خلف الدقاق، حدثنا عمر بن محمد الجوهري، حدثنا أبو بكر الأثرم قال: حدثني زكريا بن سهل المروزي قال: سمعت الطالقاني أبا إسحاق يقول: سمعت ابن المبارك يقول: من كان كتاب الحيل في بيته يفتي به، أو يعمل بما فيه، فهو كافر بانت امرأته، وبطل حجه. قال: فقيل له: إن في هذا الكتاب إذا أرادت المرأة أن تختلع من زوجها ارتدت عن الإسلام حتى تبين، ثم تراجع الإسلام، فقال عبد الله من وضع هذا فهو كافر بانت منه امرأته، وبطل حجه. فقال له خاقان المؤذن: ما وضعه إلا إبليس. قال الذي وضعه عندي أبلس من إبليس.

 امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے امام ابن مبارک رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ امام ابن مبارک رحمہ اللہ سے ان کے شاگرد نے پوچھا کہ یہ کتاب کس نے وضع کی؟ تو امام ابن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس نے یہ کتاب الحیل وضع کی (یعنی لکھی) وہ شیطان سے زیادہ شریر ہے، اور دوسرے قول میں ہے کہ وہ کافر ہے۔ (تاریخ بغداد 556/15)

جواب: پہلی سند میں احمد بن موسی مجہول ہیں، جبکہ دوسری سند میں عمر بن محمد الجوھری ضعیف ہیں جیسے کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے جسے امام ذہبی رحمہ اللہ نے تاریخ الاسلام (391/7) میں نقل کیا ہے۔ لیکن بفرض محال اسے ثابت مانیں تو اب یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہ کتاب واقعی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی ہوتی تو پوچھنے والا یہ بچگانہ سوال کیوں کرتا کہ یہ کس کی کتاب ہے؟ کیونکہ امام ابن مبارک رحمہ اللہ تو پہلے ہی اس کی نسبت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف کر چکے ہوتے اور اگر امام ابن مبارک رحمہ اللہ بھی اسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مانتے تو وہ جواب میں کہتے کہ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کتاب ہے، لیکن انہوں نے یہ جواب نہ دے کر فرمایا کہ یہ کتاب (کسی) شیطان کی کتاب ہے جو کافر ہے… اس سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں:

پہلی: کسی کتاب کا کسی امام کی طرف منسوب ہونا اور اس کتاب کا اس امام سے ثابت ہونا یا اس کتاب کو اس امام کا تسلیم کرنا یہ دو الگ باتیں ہیں۔

دوسری: خود امام ابن مبارک رحمہ اللہ بھی اسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کتاب نہیں مانتے 

تھے… (نہیں تو جواب میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا نام لیتے)

اس کے علاوہ یہاں ایک بات اور غور کرنے لائق ہے کہ اس قول کو نقل کرنے والے ابو اسحاق طالقانی رحمہ اللہ ہیں جن کا انتقال 215 ہجری میں ہوا ہے ( تاریخ الاسلام 264/5) ۔ اب اگر ابو اسحاق طلقانی رحمہ اللہ کی 70 سال عمر مانیں تو اس کا مطلب وہ 145 ہجری کے لگ بھگ پیدا ہوئے ہوں گے اور اگر انہوں نے 20-25 سال کی عمر میں یہ قول سنا ہوگا تو یہ 170 ہجری کی بات معلوم ہوتی ہے جیسا کہ اوپر کے قول میں بھی 170 ہجری ہی آ رہا تھا، تو یہ بات دلیل ہے اس بات کی کہ اس کتاب کا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی زندگی میں کوئی وجود نہیں تھا، ان کے انتقال کے 20 سال بعد کسی نے لکھ کر ان کی طرف منسوب کر دی، اس لیے اسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کتاب کہنا غلط ہے۔

أخبرني محمد بن علي المقرئ، أخبرنا محمد بن عبد الله الحافظ النيسابوري قال: سمعت أبا جعفر محمد بن صالح يقول: سمعت يحيى بن منصور الهروي يقول: سمعت أحمد بن سعيد الدارمي يقول: سمعت النضر بن شميل يقول: في كتاب الحيل كذا كذا مسألة كلها كفر.


ج: اس کے علاوہ  خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے حضرت نضر بن شمیل رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ انہوں نے کتاب الحیل کے مسائل کو کفر کہا۔

 (تاریخ بغداد 556/15)

جواب: پہلی بات اس سند میں امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے استاد محمد بن علی المقری مجہول ہیں۔ اور دوسری بات یہاں یہ بھی ذکر نہیں کہ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کتاب ہے۔

لیکن اگر بفرض اس قول کو ثابت مانیں اور اس سے مراد امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب کتاب الحیل ہی ہے تو یہاں غور کرنے لائق یہ بات ہے کہ حضرت نضر بن شمیل رحمہ اللہ سے یہ قول نقل کرنے والے احمد بن سعید الدارمی رحمہ اللہ ہیں جو 180 ہجری کے بعد پیدا ہوئے ہیں  (سیر اعلام النبلاء 233/12)۔

اگر یہ مانیں تو اگر انہوں نے یہ قول 20 سال میں سنا تب روایت 200 ہجری میں کی گئی یعنی یہ کتاب ،  امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی وفات کے 50 سال بعد منظر عام پر آئی۔

غیر مقلدوں کیلئے شیخ ابن تیمیہ کا حوالہ : 

" اور یہ جائز نہیں ہے کہ وہ حیلے جو متفقہ طور پر حرام ہیں یا کفریہ ہیں ان کی نسبت ائمہ مسلمین میں سے کسی کی جانب کی جائے اور جو کوئی کسی امام کی جانب ان حیلوں کی نسبت کرتا ہے تو وہ اس سلسلے میں خطاوار ہے فقہاء کے اصول سے جاہل ہے  ۔۔۔۔۔۔ ۔علاوہ ازیں اس میں بعض ائمہ کی جانب تکفیر یا تفسیق کی نسبت ہوتی ہےاور یہ جائز نہیں ہے

(فتاوی الکبری 6/85 ، الدلیل علی بطلان التحلیل ص 170 )

اعلام الموقعین 3/233 میں شیخ ابن قیم کا بھی کچھ ایسا ہی کہنا ہے۔

لہذا درج بالا تفصیل سے یہ ثابت ہوتا ہیکہ ، مذکورہ کتاب الحیل امام ابو حنیفہ یا حنفی آئمہ میں سے کسی کی بھی کتاب نہیں ہے۔

مزید تفصیل کیلئے دیکھیں۔

▪︎ تبشیر الناس فی شرح قال بعض الناس ، مولفہ قاضی باقی باللہ زاہد صاحب مدرس جامعہ اشرفیہ لاہور

▪︎ الأصل لمحمد بن الحسن - ت بوينوكالن مقدمة/‏٦٣ — محمد بن الحسن الشيباني (ت ١٨٩)

▪︎كشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون ١/‏٦٩٥ 

▪︎الأبواب والتراجم لصحيح البخاري ٦/‏٦١٨ 

▪︎هدية العارفين ١/‏٤٩ — إسماعيل باشا (ت ١٣٣٩)

مزید تفصیل قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 89 میں دیکھ سکتے ہیں۔

(النعمان سوشل میڈیا سروسز)

یہی جوابات رومن اردو میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں ................................................................................................................................Kya کتاب الحیل Imam Abu Hanifa r.a ki Kitab hai ?

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اعتراض : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ حدیث میں یتیم یا مسکین تھے 

02:-امام اہلسنت عبداللہ ابن المبارک(متوفی 181ھ) نے فرمایا:

ابو حنیفہ حدیث میں مسکین تھا۔ 

حدثنا عبد الرحمن ثنا حجاج بن حمزة قال نا عبدان ابن عثمان قال سمعت ابن المبارك يقول: كان أبو حنيفة مسكينا في الحديث 

(الجرح والتعديل لا ابن أبي حاتم )

جواب : 

تمہید :


النعمان سوشل میڈیا سروسز

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو حدیث میں یتیم کہا ہے۔ جیسا کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے نقل کیا (تاریخ بغداد 574/15) اور جیسا کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے نقل کیا (المجرحین 411/2)۔

أَخْبَرَنَا ابن دوما، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابن سلم، قَالَ: حَدَّثَنَا الأبَّار، قَالَ: حَدَّثَنَا عَليّ بن خشرم، عن عَليّ بن إِسْحَاق التِّرْمِذِي، قَالَ: قَالَ ابن المبارك: كَانَ أَبُو حنيفة يتيما في الحديث.

أَخْبَرَنَا الْبَرْقَانِيّ، قَالَ: قرئ عَلَى عُمَر بن بِشْرَان، وَأَنَا أسمع: حدثكم عَليّ بن الحُسَيْن بن حبان، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْد الله بن أَحْمَد بن شَبُّويَه، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَهْب، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْد الله، هُوَ ابن المبارك، يَقُولُ: كَانَ أَبُو حنيفة يتيما في الحديث.

(تاریخ بغداد ت بشار 574/15)

سَمِعْتُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، يَقُولُ: قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ، «كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ  يَتِيمًا فِي الْحَدِيثِ»

(مختصر قيام الليل وقيام رمضان وكتاب الوتر ١/‏٢٩٦)

وَسَمِعْتُ مُحَمَّدَ بن مَحْمُود النَّسَائِيّ يَقُول سَمِعت عَليّ بن خشرم يَقُول سَمِعت عَلِيَّ بْنَ إِسْحَاقَ السَّمَرْقَنْدِيَّ يَقُولُ سَمِعت بن الْمُبَارَكِ يَقُولُ كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ فِي الْحَدِيثِ يَتِيمًا

(المجروحين لابن حبان ت زايد ٣/‏٧١ )

گویا کچھ لوگوں نے اس سے یہ مطلب نکالا کہ امام ابن مبارک رحمہ اللہ ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو حدیث میں یتیم اور ضعیف مانتے تھے۔ 

حالانکہ "یتیم فی الحدیث" کوئی جرح کا کلمہ نہیں اور اس سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف بھی مراد نہیں، کیونکہ یہ الفاظ کسی راوی کو ضعیف کہنے کے لیے استعمال نہیں ہوتے۔ رہا یہ کہ پھر اس کا کیا مطلب ہے؟ تو جیسی عقیدت اور محبت امام ابن مبارک رحمہ اللہ کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ہے، اس کے مدنظر یہ تعریف کا ہی کلمہ محسوس ہوتا ہے ، جیسا کہ ابن مبارک سے تعریفی اقوال ہم نقل کریں گے اخیر میں۔

کیونکہ پہلی بات یہ ہے کہ جب کسی محدث کے نزدیک اس کا کوئی شیخ یا دوسرا کوئی محدث بہت ہی اونچے درجے کا ہوتا ہے تو وہ اس کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے جو دوسروں کے لیے عام طور پر استعمال نہیں کرتا، جیسے کوئی کہے کہ میں نے ان کی مثل کسی کو نہیں دیکھا، انہوں نے اپنی آنکھ سے اپنے مثل کسی کو نہیں دیکھا، انہوں نے اپنے بعد اپنے جیسا کوئی نہیں چھوڑا وغیرہ۔

اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ "یتیم فی الحدیث" سے مراد امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی حدیث میں مہارت مراد ہے، کیونکہ عربی لغت میں یتیم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس کا کوئی ثانی (مثل) نہ ہو، جیسے "در یتیمہ" کہا جاتا ہے، جیسا کہ امام اسماعیل بن حماد الجوهری رحمہ اللہ اور امام ابن منظور مصری رحمہ اللہ نے نقل کیا 

《وكل شيء فَردٍ بغير نظير فهو يتيم كالدرة اليتيمة》

(الصحاح الجوهری 2064، لسان العرب 464/12)۔

اس کے علاوہ امام ابن منظور مصری رحمہ اللہ نے ہی نقل کیا کہ یتیم ریت کے اکیلے ذرے کو کہتے ہیں، عرب کے ہاں ہر منفرد اور اکیلی چیز کو یتیم کہتے ہیں (لسان العرب 464/12)۔

ان حوالوں سے معلوم ہوا کہ عربوں میں یتیم اکیلے اور یکتا کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اب مطلب یہ ہوا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مثل حدیث میں کوئی دوسرا نہیں تھا، اور اس مراد کی طرف امام ابن مبارک رحمہ اللہ کا صحیح سند سے وہ قول بھی اشارہ کرتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول صحابی رضی اللہ عنہ کے اثر (قول) کی طرح ہے (جب کوئی حدیث موجود نہ ہو)

 [فضائل ابی حنیفہ رحمہ اللہ ]۔

اس کے علاوہ ایک معتبر سند سے امام ابن مبارک رحمہ اللہ سے یہ بھی منقول ہے کہ 

"یہ نہ کہو کہ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے، بلکہ یہ کہو کہ یہ حدیث کی تفسیر ہے" 

(مناقب موفق 307)۔

اس کے علاوہ حضرت علی بن اسحاق رحمہ اللہ نے ہی "يتیماً في الحديث" کے الفاظ نقل کیے ہیں اور انہوں نے ہی "في الحديث يقيم" کے الفاظ بھی نقل کیے ہیں جس کا مطلب ہوتا ہے حدیث میں مضبوط 

 ثنا محمد بن يوسف الفربري ثنا علي بن خشرم ثنا علي بن إسحاق قال: سمعت ابن المبارك يقول كان أبو حنيفة في الحديث يقيم

(الکامل ابن عدی 237/8)۔




ان اقوال کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ "يتیماً في الحديث" سے مراد حدیث میں یکتا اور بےنظیر مراد ہو سکتا ہے، کیونکہ اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ حدیث میں ضعیف ہوتے تو امام ابن مبارک رحمہ اللہ ان کے اقوال کو اتنی اہمیت نہ دیتے۔

رہی بات کہ امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے امام ابن مبارک رحمہ اللہ کے واسطے سے "مسکينا في الحديث" کے الفاظ بھی نقل کیے ہیں، 

حدثنا عبد الرحمن ثنا حجاج بن حمزة قال نا عبدان ابن عثمان قال سمعت ابن المبارك يقول: كان أبو حنيفة مسكينا في الحديث

تو عرض ہے کہ اس کی سند حسن ہے، جبکہ "يتیماً في الحديث" نقل کرنے والی سند صحیح ہے، اور اس معاملے میں ترجیح صحیح سندوں کو دی جائے گی کیونکہ وہ ثقہ راویوں کے واسطے سے منقول ہیں۔ اور اصل الفاظ 《 یتیما في الحديث》 کے ہیں جیسے کہ امام علی بن اسحاق رحمہ اللہ، امام محمد بن مزاحم رحمہ اللہ اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ جیسے ثقہ کی جماعت نے نقل کیے اور یہ ممکن ہے کہ امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ کی سند کے راوی نے یتیما في الحديث کو جرح سمجھا ہو اور پھر روایت بالمعنی بیان کرتے ہوئے یتیما کی جگہ مسکینا الفاظ بیان کر دیا ہو... کیونکہ راویوں میں جو احتیاط اور ضبط احادیث رسول ﷺ بیان کرنے میں پایا جاتا ہے، وہ ضبط دیگر اقوال نقل کرنے میں نہیں پایا جاتا...

لیکن اگر پھر بھی کوئی شخص اس بات کو نہ مانے تو ہم کہیں گے کہ لغت میں مسکین کے معنی الخاضع کے بھی آتے ہیں یعنی تابع دار (تابعدار)، فرمانبردار... جیسا کہ امام ابن منظور مصری رحمہ اللہ نے لسان العرب 216/13 میں نقل کیا ہے۔

اب مسکينا في الحديث کے معنی ہوں گے حدیث کی تابع داری، حدیث میں عاجزی کرنے والے...

لیکن اگر پھر بھی کوئی نہیں مانے تو ہم کہیں گے کہ بہت سے بہت يتيما في الحديث سے یہ مراد ہو گا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ حدیث کی زیادہ اسناد کو جمع کرنے والے نہیں تھے... یعنی جس طرح محدثین ایک حدیث کی کئی کئی اسناد جمع کرتے ہیں، اس طرح کا اہتمام امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے نہیں کیا... لیکن اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا کیونکہ ایک فقیہ کا کام حدیث کی اسناد جمع کرنے کا نہیں ہوتا بلکہ اس حدیث کے متن سے مسائل کا استخراج اور ان کا حل نکالنا اصل مقصد ہوتا ہے۔ جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے مرتبہ سے کون انکار کر سکتا ہے... آپ مجتہد محدث امام ہیں... لیکن اس کے باوجود قلیل الحدیث (حدیث کم بیان کرنے والے) ہیں، جیسا کہ ثقہ امام ابو قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں...

أخبرني محمد بن أحمد بن يعقوب أخبرنا محمد بن نعيم قال سمعت أبا زكريا يحيى بن محمد العنبري يقول سمعت إبراهيم بن أبى طالب يقول سألت أبا قدامة عن الشافعي وأحمد بن حنبل وإسحاق وأبى عبيد فقال اما افهم فالشافعى الا انه قليل الحديث واما اورعهم فاحمد بن حنبل واما احفظهم فاسحاق واما أعلمهم بلغات العرب فأبو عبيد

 (تاریخ بغداد 400/14)۔

جیسا کہ خود امام شافعی رحمہ اللہ کا قول بھی ہے جسے امام بیہقی رحمہ اللہ نے نقل کیا کہ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ سے مناظرے کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ نے ان سے فرمایا کہ جس طرح تمہیں احادیث (کی اسناد) یاد ہیں، اگر مجھے یاد ہوتیں تو میں تمام اہل دنیا پر غالب آ جاتا

لو كنت أحفظ كما تحفظ لغلبت أهل الدنيا

 (مناقب شافعی 153/2)۔

اب اگر یہاں امام شافعی رحمہ اللہ کے قول پر غور کریں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ احادیث کی اسناد کو کثرت سے یاد کرنے والے نہیں تھے، لیکن اس کے باوجود ان کی فقہ کو اللہ نے کیا مقبولیت بخشی، وہ کسی سے چھپی نہیں ہے...

اس کے علاوہ امام ابراہیم بن سعید الجوهری رحمہ اللہ کا قول بھی نقل کرنا بہتر محسوس ہوتا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ہر وہ حدیث جو میرے پاس 100 اسناد سے نہ ہو تو میں اس حدیث میں خود کو یتیم خیال کرتا ہوں

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بن عبد الله الكاتب، أخبرنا إبراهيم بن محمّد ابن يحيى المزكيّ، حدّثنا محمّد بن عبد الرّحمن الدغولي، حدّثنا عبد الله بن جعفر ابن خاقان الْمَرْوَزِيُّ السلمي قَالَ: سألت إِبْرَاهِيم بْن سَعِيد الجوهري عَن حَدِيث لأبي بكر الصديق فقال لجاريته: أخرجي إليّ الجزء الثالث وَالعشرين من مسند أَبِي بكر. فقلت له: لا يصح لأبي بكر خمسون حَدِيثا، من أين ثلاثة وعشرون جزءا؟

فَقَالَ: كل حَدِيث لم يكن عندي من مائة وجه فأَنَا فِيهِ يتيم .

 (تاریخ بغداد 618/8)۔


اس لیے اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بھی ایک حدیث کی مختلف اسناد کو جمع کرنے والے نہیں تھے تو یہ کوئی عیب یا تضعیف کی بات نہیں... کیونکہ فقیہ کا کام مسائل کا استخراج ہے، نہ کہ اسناد کو جمع کرنا... جیسا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا کہ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں حدیث کی معرفت اور اس میں تفقہ پیدا کرنا مجھے صرف اسے یاد کر لینے سے زیادہ محبوب ہے 

 أحمد بن حنبل: معرفة الحديث والفقه فيه أحب إلى من حفظه (منہاج السنہ 428/7)۔

اور جیسا کہ امام علی بن مدینی رحمہ اللہ سے نقل کیا، وہ فرماتے ہیں کہ اشرف ترین علم احادیث کے متون (متن) میں تفقہ پیدا کرنا اور احوال الرواة میں معرفت حاصل کرنا ہے  

 وقال علي ابن المديني: أشرف العلم الفقه في متون الأحاديث، ومعرفة أحوال الرواة.

(منہاج السنہ 428/7)۔

اس لیے اگر يتيما في الحديث سے مراد احادیث کی اسناد کو کثرت سے جمع نہ کرنا مراد ہو تو بھی اس سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف نہیں ہوتی، کیونکہ یتیم فی الحدیث ایک تو جرح کا کلمہ نہیں، دوسرے اسناد کا کم ہونا کوئی اشکال کی بات بھی نہیں۔

تو معلوم ہوا کہ يتيما في الحديث کوئی جرح نہیں... اور اس سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف بھی مراد نہیں۔

مزید تفصیل قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 89 ، 124 میں دیکھ سکتے ہیں۔


یہی جوابات رومن اردو میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں  

........................................ 

Kya Imam Abu Hanifa r.a Hadees me Yateem the?

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اعتراض : امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے آخری عمر میں امام ابو حنیفہ کو ترک کر دیا تھا ۔

 03:-امام اہلسنت عبداللہ ابن المبارک(متوفی 181ھ) نے ابو حنیفہ کو ترک کر دیا تھا ۔

جواب : 

تمہید : 

ایک اعتراض بہت زور شور سے کیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ امام عبداللہ ابن مبارک رحمہ اللہ نے آخری عمر میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ترک کر دیا تھا، یعنی امام ابن مبارک رحمہ اللہ نے آخری عمر میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت نقل کرنا بند کر دیا تھا… آج اس پوسٹ میں ہم ان شاء اللہ یہ دیکھیں گے کہ دلائل کی روشنی میں یہ بات غلط ہے، یعنی یہ ثابت نہیں کہ امام ابن مبارک رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ترک کیا تھا…

اس سلسلے میں جتنے بھی اقوال ہیں، ہم ان سب کا جائزہ لیں گے… اور ہماری تحقیق میں یہ بات ثابت نہیں…

1:- سب سے پہلا قول جو امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے اپنے والد امام ابو حاتم رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ امام ابو حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام عبداللہ ابن مبارک رحمہ اللہ نے آخری (عمر) میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ترک کر دیا تھا… (الجرح والتعدیل 4/449)

ثم تركه ابن المبارك بأخرة سمعت أبي يقول ذلك

جواب: – امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے یہاں یہ بات نہیں بتائی کہ ان تک یہ بات کس ذریعے سے پہنچی ہے، کیونکہ امام ابن مبارک رحمہ اللہ کا انتقال امام ابو حاتم رحمہ اللہ کے پیدا ہونے سے پہلے ہو چکا تھا، اس لیے یہاں یہ معلوم نہیں کہ امام ابو حاتم رحمہ اللہ تک یہ بات کیسے پہنچی… 

نتیجہ : یہ قول حجت نہیں…


2:- امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے امام زکریا ساجی رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا جس میں امام ابن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہم نے (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو) ترک کر دیا… (الانتقاء 292)

وذکر الساجي، عن محمد بن نوح المدائني، عن معلى بن أسد، قلت لابن المبارك: كان الناس يقولون إنك تذهب إلى قول أبي حنيفة، قال: ليس كل ما يقول الناسُ يصيبون فيه، قد كنا نأتيه زمانا ونحن لا نعرفه، فلما عرفناه تركناه

جواب: – اس کی سند میں ایک راوی محمد بن روح المدائنی ہے جو کہ مجہول ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے اور یہ قول بھی ثابت نہیں…

سند میں محمد بن راوح چاہے وہ المدائنی ہو یا العکبری مجہول ہے ، اس کی کوئی توثیق نہیں ہے ، اور امام احمد کا دوست ہونے سے یہ کہاں سے لازم آ گیا کہ وہ حدیث میں ثقہ ہو گا ، پس غیر مقلدین کی من مانی ہے ، دل پر نہ آئے تو واضح ثقہ راوی کو بھی ثقہ نہیں مانتے ، نفس کہے تو ، مجہول کو بھی زبردستی ثقہ لکھ دیتے ہیں ۔

3:- امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے نقل کیا (جس کا خلاصہ یہ ہے کہ) امام ابن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے 400 احادیث لکھیں ہیں، جب عراق واپس جاؤں گا تو انہیں مٹا دوں گا… (تاریخ بغداد 572/15)

أخبرني الحسن بن أبي طالب، أخبرنا أحمد بن محمّد بن يوسف،.

حدّثنا محمّد بن جعفر المطيري- حدّثنا عيسى بن عبد الله الطّيالسيّ، حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيّ قَالَ: سَمِعْتُ ابن المبارك يَقُولُ: صليت وراء أَبِي حنيفة صلاة وفي نفسي منها شيء، قَالَ: وَسَمِعْتُ ابن المبارك يَقُولُ: كتبت عن أَبِي حنيفة أربعمائة حديث إذا رجعت إلى العراق إن شاء الله محوتها.


جواب: – اس قول کی سند میں احمد بن محمد بن یوسف ہے جو کہ ضعیف ہے، ساتھ اس روایت میں وہ اپنے جس شیخ سے روایت کر رہا ہے ان سے روایت کرنے میں بھی کلام ہے… معلوم ہوا یہ قول بھی ثابت نہیں…

أَبُو عَبْدِ اللهِ، أحمد بن المُحَدِّثِ مُحَمَّدِ بنِ يُوْسُفَ بنِ دُوْسْتَ، البَغْدَادِيُّ البزاز

وَاخْتَلَفُوا فِي عَدَالَتِهِ، ضَعَّفَهُ الأَزْهَرِيُّ، وَطَعَنَ ابْنُ أَبِي الفَوَارِس فِي روَايته عَنِ المَطِيْرِي.

وَقَالَ البَرْقَانِيُّ: كَانَ يَسْرُدُ الحَدِيْثَ مِنْ حِفْظِهِ، وَتكَلَّمُوا فِيْهِ،

(سير أعلام النبلاء)

4:- امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ہی علی بن جریر کے واسطے سے دو قول نقل کیے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ علی بن جریر امام ابن مبارک رحمہ اللہ کے پاس آیا تو ان سے کہا کہ تیری وجہ سے لوگوں نے کافر کو امام بنا رکھا ہے، کیونکہ تو (امام ابن مبارک رحمہ اللہ) ان سے (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے) روایت کرتا ہے، اس پر امام ابن مبارک رحمہ اللہ نے (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت کرنے کی وجہ سے) اللہ سے توبہ کی… (تاریخ بغداد 572/15)


أَخْبَرَنَا ابن رزق، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابن سلم، قَالَ: أَخْبَرَنَا الأبَّار، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن المهلب السَّرْخَسِيّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَليّ بن جرير، قَالَ: كُنْت في الكوفة، فقدمت البصرة ويها ابن المبارك، فَقَالَ لي: كيف تركت النَّاس؟ قُلْتُ: تركت بالكوفة قوما يزعمون أن أَبَا حنيفة أعلم من رَسُول الله، ﷺ قَالَ: كفر، قُلْتُ: اتخذوك في الكفر إماما، قَالَ: فبكى حَتَّى ابتلت لحيته، يعني: أَنَّهُ حدث عَنْهُ


 أَخْبَرَنِي مُحَمَّد بن عَليّ المُقْرِئ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن عَبْد الله النَّيْسَابُوري، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَر مُحَمَّد بن صالح بن هانئ، يَقُولُ: حَدَّثَنَا مسدد بن قطن، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن أَبِي عتاب الأعين، قَالَ: حَدَّثَنَا عَليّ بن جرير الأبيوردي، قَالَ: قدمت عَلَى ابن المبارك، فَقَالَ لَهُ رجل: إن رجلين تماريا عندنا في مسألة، فَقَالَ أحدهما قَالَ أَبُو حنيفة، وَقَالَ الآخر: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: كَانَ أَبُو حنيفة أعلم بالقضاء، فَقَالَ ابن المبارك: أعد عَليّ، فأعاد عَلَيْهِ، فَقَالَ: كفر، كفر، قُلْتُ: بك كفروا، وبك اتخذوا الكفر إماما.

قَالَ: ولم؟ قُلْتُ: بروايتك عن أَبِي حنيفة، قَالَ: أستغفر الله من رواياتي عن أَبِي حنيفة

جواب: – یہ قول سند اور متن دونوں لحاظ سے صحیح نہیں… پہلے سند پر بات کرتے ہیں۔ اس کی سند میں راوی عَليّ بن جرير الأبيوردي ہماری تحقیق میں یہ مجہول ہے… اگرچہ اسے امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے الجرح والتعدیل میں صدوق کہا ہے لیکن امام ابو حاتم رحمہ اللہ کا اسے صدوق کہنا بہت عجیب و غریب ہے، کیونکہ امام ابو حاتم رحمہ اللہ اور امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ باوجود اپنے وسیع علم کے نہ اس کا کوئی استاد بتا سکے اور نہ ہی کوئی شاگرد… اور نہ ہی اس راوی کی حدیث کی کسی مشہور کتاب میں کوئی روایت ہے… تو ایک ایسا راوی جس کے نہ استاد کا پتا نہ شاگرد کا نہ کسی (مشہور) حدیث کی کتاب میں اس کی کوئی روایت، پھر وہ کس بنیاد پر صدوق؟

اب کوئی کہے کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے علی بن جریر کا ذکر اپنی کتاب الثقات میں کیا ہے، جواب میں عرض ہے کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ مجہول کو ثقات میں نقل کرنے کے لیے مشہور ہیں، ان کا ثقات میں اس کو نقل کرنا اس کے ثقہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی، جبکہ اس راوی کے واسطے سے کوئی روایت ہی ثابت نہیں تو یہ کیسے ثقہ یا صدوق ہو سکتا ہے… حاصل کلام یہ کہ یہ راوی مجہول ہے اور اس قول کی سند بھی صحیح نہیں…

اس کے علاوہ اس قول کا متن بھی اس قول کو مردود بناتا ہے کیونکہ اس میں ہے کہ (مجہول) علی بن جریر آیا اور ان کے سامنے ایسے انکشافات کیے جو اس (علی بن جریر) کو تو معلوم تھے لیکن امام ابن مبارک رحمہ اللہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد ہوتے ہوئے ان سے بےخبر تھے… اور امام ابن مبارک رحمہ اللہ کے سامنے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو کافر کہتا، ان امام ابن مبارک رحمہ اللہ کے سامنے جن کی زندگی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تعریف کرنے میں گزری، جن امام ابن مبارک رحمہ اللہ جیسی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تعریف کوئی اور نہیں کرتا… جن امام ابن مبارک رحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ جب امام ابن مبارک رحمہ اللہ اور (ثقہ) ابو اسحاق الفزاری کی ملاقات ہوتی تو ابو اسحاق الفزاری کی اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ امام ابن مبارک رحمہ اللہ کے سامنے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کوئی برائی بیان کرے… اب سوچیں ابو اسحاق الفزاری جو ثقہ ہے اور معروف بھی، اس کی تو ہمت امام ابن مبارک رحمہ اللہ کے سامنے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی برائی کرنے کی بھی نہیں ہوتی اور یہ مجہول علی بن جریر سیدھا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو کافر کہتا ہے اور ایسی باتیں کرتا ہے جو خود امام ابن مبارک رحمہ اللہ کو بھی معلوم نہیں، یہی باتیں اس کے متن کو مردود بنانے کے لیے کافی ہیں… ثابت ہوا اس قول کی سند اور متن دونوں صحیح نہیں…

5:- امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ابراہیم بن شماس رحمہ اللہ کے واسطے سے نقل کیا کہ امام ابن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں اپنی کتاب سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی احادیث نکال دوں گا… (تاریخ بغداد 573/15)

أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيم بن مُحَمَّد بن سُلَيْمَان المُؤَدِّب، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْر ابن المُقْرِئ، قَالَ: حَدَّثَنَا سلامة بن محمود القَيْسِيّ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بن حَمْدَوَيْه البِيكَنْدِيّ، قَالَ: سَمِعْتُ الحُمَيْدِيّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيم بن شَمَّاس، يَقُولُ: كُنْت مَعَ ابن المبارك بالثغر، فَقَالَ: لئن رجعت من هذه لأخرجن أَبَا حنيفة من كتبي.

جواب: – اس قول کی سند بھی صحیح نہیں، اس میں خطیب کے استاد ابراہیم بن محمد بن سلیمان مجہول ہیں، اس کے علاوہ سند کے ایک اور راوی سلمہ بن محمود کے بارے میں ہمیں علم نہیں کہ امام ابو بکر ابن مقری رحمہ اللہ کے علاوہ ان سے کسی نے روایت کیا ہو یا انہیں کسی نے ثقہ کہا ہو… معلوم ہوا اس قول کی سند بھی صحیح نہیں…

اوپر آپ نے دیکھا کہ امام ابن مبارک رحمہ اللہ کے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے رجوع کرنے یا انہیں ترک کرنے کے جتنے بھی اقوال ہیں، ان میں سے کوئی بھی صحیح سند سے نہیں یعنی ثابت نہیں…اب صحیح سند سے دو قول ہیں اور آئیں اس کا بھی جائزہ لیتے ہیں...


6:- ابراہیم بن شماس رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ امام ابن مبارک رحمہ اللہ انہیں کتاب سے پڑھا رہے تھے جب بھی (امام) ابو حنیفہرحمہ اللہ کی حدیث آتی تو فرماتے اسے خراش دو (مارک کر دو / مٹا دو) [اس کے کچھ دن بعد امام ابن مبارک رحمہ اللہ کا انتقال ہو گیا]... (تاریخِ بغداد، الثقات ابن حبان)

أَخْبَرَنَا العتيقي، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُوسُف بن أَحْمَد الصَّيْدَلانِي، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن عَمْرو العُقَيْلِيّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن إِبْرَاهِيم بن جناد، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْر الأعين، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيم بن شَمَّاس، قَالَ: سعت ابن المبارك، يَقُولُ: اضربوا عَلَى حديث أَبِي حنيفة.

أَخْبَرَنَا عُبَيْد الله بن عُمَر الواعظ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْد الله بن سُلَيْمَان، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْد الله بن أَحْمَد بن حَنْبَل، يُقَال حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْر الأعين، عن الحَسَن بن الربيع، قَالَ: ضرب ابن المبارك عَلَى حديث أَبِي حنيفة قبل أن يموت بأيام يسيرة.


جواب: – اس عبارت کے کئی جواب دیے جا سکتے ہیں... ہم سلسلہ وار ان کا ذکر کرتے ہیں۔

1:- یہاں یہ واضح نہیں کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے کون مراد ہیں، کیونکہ امام ابن مبارک ررحمہ اللہ کے اساتذہ میں دو ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں۔ پہلے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (نعمان بن ثابت ررحمہ اللہ) اور دوسرے ابو حنیفہ رحمہ اللہ (نشیرہ بن عبداللہ) [تفصیل کے لئے امام ابن حبان رحمہ اللہ کی الثقات، امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ کی الجرح والتعدیل اور امام بخاری رحمہ اللہ کی تاریخ الکبیر دیکھی جا سکتی ہیں]...


اب عبارت سے واضح نہیں کہ یہاں کون مراد ہیں، ممکن ہے یہاں دوسرے ابو حنیفہ رحمہ اللہ  مراد ہوں کیونکہ وہ احادیث میں غلطی کرتے تھے جیسا کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے وضاحت کی ہے...


2:- اگر بالفرض مان بھی لیں کہ یہاں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ ہی مراد ہیں، تب بھی یہ ترک کی دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ ممکن ہے کہ جن احادیث کو امام ابن مبارک رحمہ اللہ نے مٹانے کا حکم دیا ہو، اس کی سند میں اوپر کوئی ضعیف راوی ہو، جس کی بنیاد پر امام ابن مبارک  نے ایسا کہا ہو۔


3:- یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ روایات امام ابن مبارک کے نزدیک ضعیف ہوں یا ان میں کوئی اور علت موجود ہو جو امام ابن مبارک کے نزدیک اسے ضعیف بناتی ہو... کیونکہ یہ ایک طالب علم بھی جانتا ہے کہ ایک حدیث ایک محدث کے نزدیک صحیح ہوتی ہے اور دوسرے محدث کے نزدیک وہی حدیث ضعیف ہوتی ہے...

4:- جب ایک عام راوی کو بھی کوئی محدث ترک کرتا ہے تو اس کی وجہ معلوم ہونی ضروری ہے اور وہ وجہ ترک کرنے کے لئے جائز بھی ہونی چاہیے... یعنی ایسا نہیں کہ ایک محدث بغیر کسی خاص وجہ کے کسی کو ترک کر دے...

یہاں وہ وجہ معلوم نہیں کہ کس بنیاد پر امام ابن مبارک  نے ایسا کہا، کیونکہ امام ابن مبارک کی زندگی امام ابو حنیفہ  کی تعریف کرنے میں گزری، وہ تو کوئی بات بھی امام ابو حنیفہ کے خلاف نہیں سنتے تھے، اور اچانک ان کی احادیث کو مٹانے کا حکم دیں تو یہ بات سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ آخر ایسا کیوں کہا گیا... لیکن وہ وجہ ہی معلوم نہیں...

5:- دوسرے محدثین جب امام ابو حنیفہ  کا یا امام ابن مبارک رحمہ اللہ کا تذکرہ کرتے ہیں تو امام ابن مبارک کو امام ابو حنیفہ  رحمہ اللہ سے روایت کرنے والا بتاتے ہیں، ترک کرنے کا ذکر نہیں کرتے جو یہ بتاتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ بات درست یا ثابت نہیں...

6:- سب سے اہم بات اصحاب ابن مبارک  میں ہمارے علم کے مطابق کوئی بھی امام ابن مبارک ہ کا امام ابو حنیفہ  کو ترک کرنے کی بات نقل نہیں کرتا... یعنی جو امام ابن مبارک  کے ریگولر طلباء ہیں ان میں سے کوئی ترک کی بات نقل نہیں کرتا سوائے ابراہیم بن شماس رحمہ اللہ کے، اور ابراہیم بن شماس رحمہ اللہ امام ابن مبارک رحمہ اللہ کے ریگولر طالب علم نہیں تھے... اگرچہ محدثین نے ابراہیم بن شماس  کو امام ابن مبارک رحمہ اللہ سے روایت نقل کرنے والا لکھا ہے لیکن ہمیں عام اقوال کے علاوہ کوئی حدیث ابراہیم بن شماس  کی امام ابن مبارک رحمہ اللہ کے واسطے سے نہیں ملی...

7:- بلکہ اصحاب ابن مبارک نہ صرف امام ابن مبارک  سے امام ابو حنیفہ کی توثیق و تعریف نقل کرتے ہیں بلکہ ان کے واسطے سے روایات بھی نقل کرتے ہیں...

اب کوئی کہہ سکتا ہے کہ امام ابن مبارک  سے توثیق اور روایات نقل کرنا پہلے کی بات ہوگی جبکہ ابراہیم بن شماس  ان کے آخری دنوں کی بات نقل کر رہے ہیں، اس پر ہم کہیں گے کہ اس عبارت سے ترک کرنے کی بات ثابت نہیں ہوتی... رہی بات کہ امام ابن حبان نے اپنی کتاب المجروحین میں ابراہیم بن شماس سے ترک کرنے کا قول نقل کیا ہے...

وأخبرنا الحسين بن إدريس الأنصاري قال: حدثنا محمد بن علي الثقفي قال : سمعت إبراهيم بن شماس يقول ترك ابن المبارك أبا حنيفة في آخر أمره.

اس کا جواب یہ ہے کہ اس سند کے راوی محمد بن علی الثقفی کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم کہ یہ کون ہیں، اس سند کے علاوہ اس کا تذکرہ ہمیں کہیں نہیں ملا... اور اگر بالفرض اس قول کو صحیح مان بھی لیں تو ہم کہیں گے کہ یہ ابراہیم بن شماس  کا قول ہے، امام ابن مبارک  کا نہیں... اور ابراہیم بن شماس  متعصب ہیں جیسا کہ امام خطیب بغدادی  نے ان کے ترجمے میں نقل کیا...

اور ترک والی بات سوائے ابراہیم بن شماس  کے علاوہ کوئی اور نقل نہیں کرتا... اگر کوئی کہے کہ راجح بات اس کی ہوگی جو امام ابن مبارک  سے ان کا آخری عمل نقل کرے.... اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ یہی بات (امام ابو حنیفہ  کی حدیث مٹا دینے کی) امام ابن مبارک  کے دوسرے شاگرد حسن بن ربیع  سے امام عبداللہ بن احمد رحمہ اللہ نے اپنی کتاب العلل میں بھی نقل کی ہے۔

لیکن اس کے باوجود وہ امام ابن مبارک رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ترک کی بات نقل نہیں کرتے... اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ترک کرنے کی بات ابراہیم بن شماس  نے اپنی طرف سے سمجھ لی ہے، امام ابن مبارک رحمہ اللہ کے ریگولر طلباء یہ بات نہیں کرتے... اس تمام بحث سے ثابت ہوا کہ امام عبداللہ ابن مبارک رحمہ اللہ کا امام ابو حنیفہ کو ترک کرنا ثابت نہیں... آپ سے امام ابو حنیفہ  کی توثیق و تعریف اور روایت کرنا ہی صحیح سندوں سے ثابت ہے۔

مزید تفصیل قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 89 ، 91 ، 120 ، 122 ، 123 میں دیکھ سکتے ہیں۔


..................................................یہی جوابات رومن اردو میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں Kya Imam AbduLLaah Ibn Mubarak r.a ne Imam Abu Hanifa r.a ko Tark Kar Diya Tha?


دلیل : کہ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ترک کرنا ثابت نہیں ۔ 

اسی طرح یہ واقعہ بھی دیکھئے جو ابونصرمروزی نے کتاب الورع میں اسحاق بن راہویہ کے حالات میں نقل کیاہے۔

قال الإمام أبو بكر المروذي  في كتابه الورع:

وحدثنا القاسم بن محمد قال: سمعت إسحاق بن راهويه يقول: كنت صاحب رأي فلما أردت أن أخرج إلى الحج عمدت إلى كتب عبد الله بن المبارك، واستخرجت منها ما يوافق رأي أبي حنيفة من الأحاديث، فبلغت نحو من ثلثمائة حديث ۔۔۔ الخ 

(الورع ص 122 رقم 401 ت سمير الزهيري: وص 75 ط: قديمة 

 القَاسِمُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ الحَارِثِ المروزي کو امام ابو حاتم رازی نے صدوق اور خطیب نے ثقہ لکھا ہے )

اس صحیح سند سے منقول واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ امام اسحاق بن راہویہ شروع میں اہل الرائے کے مذہب پر تھے ۔ انہوں نے عبداللہ بن المبارک  رحمہ اللہ کی کتاب سے امام ابوحنیفہ کی 300 مستدل احادیث تلاش کیں اورپھر وہ بغداد آئے اور  ان کا خیال تھا کہ ان احادیث کا جواب کوئی شخص نہیں دے سکے گا یا وہ اس سے اختلاف نہیں کرے گا اور لاجواب ہوجائے گا۔ وہ گھومتے گھماتے بصرہ پہنچے ان کی ملاقات عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ  (امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کے شاگرد) سے ہوئی ۔ عبدالرحمن بن مہدی نے ان سے پوچھا کہاں کے رہنے والے ہو۔ انہوں نے عرض کیا کہ مرو کا ۔ چونکہ عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ بھی مرو شہر کے رہنے والے تھے اورعبد اللہ بن المبارک رحمہ اللہ سے ابن مہدی  رحمہ اللہ کو بڑی عقیدت تھی تو ابن مہدی رحمہ اللہ نے پوچھا کہ ان کا کوئی مرثیہ وغیرہ تمہیں یاد ہے ؟ تو اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ نے ابو تمیلہ کا مرثیہ پڑھ دیا 

( وفات کے بعد کسی کی تعریف یا خوبیاں بیان کرنا مرثیہ کہلاتا ہے ، 

جبکہ محدث امام أبي تميلة يحي بن واضح الأنصاري ثقہ ہیں

 [سیر 9/211] )

جب وہ مرثیہ میں اس شعر پر پہنچے کہ

و برأي النعمان كنت بصيرا 

 حين تبغى مقايس النعمان

مفہوم :

اور عبداللہ بن مبارک ، امام ابوحنیفہ کی فقہ سے آشنا تھے ، اس میں درک رکھتا تھا۔ 

جب امام ابوحنیفہ کے قیاسی مسائل پیش کئے جاتے تھے۔

یہ سننے کے بعد ابن مہدی نے ابن راہویہ کو روک دیا اور کہا کہ رک جاو ۔بے شک تم نے شعر بگاڑ دیا ہے۔اسحاق بن راہویہ نے کہا کہ اس کے بعد اچھے اشعار ہیں فرمایا کہ اب اس بات کو چھوڑو ۔ تم عبداللہ بن المبارک کی ابوحنیفہ سے روایت کو ابن مبارک کے مناقب میں شمار کرتے ہو ؟ حالانکہ عبداللہ بن المبارک کی عراق میں یہی ایک بھول چوک تھی اور اس کے بعد ابن مہدی کہتے ہیں

ولوددت أنه لم يرو عنه ،

 وأني كنت أفتدي ذلك بعظم مالي .

اور میری شدید خواہش ہے کہ کاش عبد اللہ بن المبارک ابوحنیفہ سے روایت نہ کرتے اور اس کے بدلے میں ،میں اپنے مال کا بڑاحصہ فدیہ بھی دینے کو تیار تھا۔

یہ واقعہ صحیح ہے۔ اوراس میں کئی چیزیں قابل غور ہیں۔


نمبر ایک : 

امام اسحاق بن راہویہ ،  عبداللہ بن المبارک کے شہر کے ہیں ، یعنی مرو۔ ان کو بھی پتہ نہیں کہ عبد اللہ بن المبارک نے امام ابوحنیفہ کو ترک کر دیا ہے۔ اس پر یہ عذر پیش کیا جاسکتا ہے کہ اسحاق بن راہویہ اس وقت نوجوان تھے حصول علم میں مشغول تھے ان کو زیادہ واقفیت نہ رہی ہوگی۔ لیکن ابو تمیلہ تو پختہ کار تھے ،  اور وہ بھی عبداللہ بن المبارک کے ہی شہر کے تھے ان کو تومعلوم ہونا چاہئے تھا کہ عبداللہ بن المبارک نے امام ابوحنیفہ سے ترک تعلقات اور قطع علائق کر دیا ہے۔ لیکن ان کو بھی یہ بات معلوم نہ تھی۔

دوسری بات :

محدث امام ابو تمیلہ کے بعد امام عبدالرحمن بن مہدی جن کو عبداللہ بن المبارک سے بہت محبت تھی ۔ عبداللہ بن المبارک کے امام ابوحنیفہ سے ربط ضبط اور میل جول کو وہ بہت زیادہ ناپسند کرتے تھے (کیونکہ ابن مہدی سفیان ثوری رحمہ اللہ کے شاگرد تھے اور سفیاں ثوری رحمہ اللہ حق بات میں بھی امام صاحب کی موافقت کو تیار نہ تھے ، تفصیل دیکھیں 

 " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 75 ) 

ابن مہدی رحمہ اللہ  کو بھی یہ ترک والی بات معلوم نہ تھی ۔ اگر یہ بات صحیح ہوتی کہ آخر میں عبداللہ بن المبارک نے امام ابو حنیفہ سے قطع تعلق کر لیا ہے تو یہ ابن مہدی کو ضرور پتہ ہوتی اور وہ مرثیہ سنانے کے وقت ابن اسحاق کو ٹوکتے اور کہتے کہ تم غلط کہہ رہے ہو ،  ابن المبارک رحمہ اللہ نے  تو امام ابو حنیفہ کے اقوال سے رجوع کر لیا تھا لیکن ہم ایسا کچھ بھی نہیں دیکھتے ہیں۔

فائدہ :

واضح رہے کہ محدثین نے امام ابوحنیفہ کے مثالب میں چھوٹی اور معمولی درجہ کی باتوں کو بھی اہتمام کے ساتھ بیان کیا ہے تو کیا صرف یہ عبداللہ بن المبارک کے امام ابوحنیفہ سے ترک تعلق کا ہی واقعہ ایسا ہے جو چپ چاپ اور گمنام ہو کر رہ گا ؟ ۔ 

اور اس دور کے بڑے بڑے اور نامور محدثین کو اس کی خبر نہیں ہوئی ؟ اور خبر ہوئی بھی تو چوتھی صدی میں جا کر کچھ لوگوں کو اس کی خبر ہوئی کہ عبداللہ بن المبارک نے امام ابوحنیفہ سے ترک تعلق کر لیا ہے

حاصل کلام : 

اگر عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ترک کیا ہوتا تو یہ کوئی معمولی بات نہ تھی ، کیونکہ دونوں شخصیات رتبہ کے لحاظ سے بہت اعلی ہیں ، اور امیر المومنین فی الحدیث عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ ، اگر امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ترک کر دیتے تو ، یہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی ، لیکن ہمیں ایسا کچھ بھی نہیں ملتا ، نہ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے شہر مرو کے محدثین اس بارے میں کچھ جانتے تھے نہ ہی امام صاحب سے تعصب رکھنے والے بغداد ، کوفہ  ، بصرہ وغیرہ کے محدثین ۔ معلوم ہوا ، عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو ترک کرنے والا افسانہ بعد کے زمانے میں گھڑا گیا ۔

            عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ترک کرنا ثابت نہیں ۔

یہ مضمون مجلہ الاجماع شمارہ 22 ص سے لیا گیا ہے۔ قارئین اس کی پی ڈی ایف فائل دفاع احناف لائبریری سے ڈاونلوڈ کر سکتے ہیں


ابراہیم بن شماسؒ(م۲۲۱؁ھ) کی جس روایت کی بنیاد پر امام ابن ابی حاتمؒ(م۳۲۷؁ھ) وغیرہ ائمہ نےکہا کہ ’’ترکہ ابن المبارک بآخرہ‘‘ ،اس خاص روایت کو ائمہ محدثین بلکہ دیگر کبار اصحاب عبد اللہ بن مبارک ؒنے جھوٹی ،مرجوح،بلکہ خود ابراہیم بن شماسؒ(م۲۲۱؁ھ)  نے اس روایت سے انکار کردیا ہے۔ چنانچہ ثقہ،امام ابو عبد اللہ ابن ابی حفص البخاریؒ(م۲۶۴؁ھ) فرماتے ہیں کہ 

قال ابو اسحاق الخلال صاحب عبد اللہ بن المبارک: بلغنی ان ابراہیم بن شماس یقول : ان عبد اللہ بن المبارک ترک ابا حنیفۃ فغمنی ذلک و انکرت،فجئت الی ابراہیم بن شماس و انا شبہ المغضب فقلت بلغنی عنک انک قلت:عبد اللہ ترک ابا حنیفۃ ،فقال معاذ اللہ ما قلت من ہذا شیئاً۔

 ابو اسحاق الخلال، عبدالله بن المبارک کے شاگرد کہتے ہیں: مجھے پتہ چلا کہ ابراہیم بن شماس کہتے ہیں کہ عبد الله بن المبارک نے ابو حنیفہ کو ترک کر دیا تو مجھے اس سے غم ہوا اور میں نے انکار کیا، پھر میں ابراہیم بن شماس کے پاس گیا اور میں کچھ غصہ میں تھا، میں نے کہا: مجھے آپ کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ آپ کہتے ہیں : عبداللہ نے ابو حنیفہ کو چھوڑ دیا ، تو انہوں نے کہا: اللہ کی پناہ میں نے ایسا کچھ نہیں کہا ۔ 

(مناقب الامام ابی حنیفۃ للزرنجری:ص۱۴۲-۱۴۳،نیز دیکھئےکشف الآثار الشریفۃ :ج۲: ص۲۵۲)☆[۱]

ظاہر یہی ہوتا ہے کہ یہ روایت ابراہیم بن شماس ؒ(م۲۲۱ھ) کا وہم تھا،تب ہی تو انہوں نے اس سے رجوع کر لیا۔

اسی طرح صدوق،حافظ الحدیث،امام ابو محمد الحارثیؒ (م۳۴۰؁ھ) فرماتے ہیں کہ 

قال أبو زيد عمران بن فرينام: سمعت بعض أصحابنا يذكرقال:قيل  لاحمد بن مردويه إن إبراهيم بن شماس يذكر أن عبد اللہ ترك أبا حنيفة فغضب وقال: ُقـل لابراہیم:أن ثالثة وثلاثين كتاباً  من كتب عبد اللہ  تكذبك، فكان ّ تأول على عبد اللہ : ثم أنكر جميع ذلك لما أنكر عليه وصرفه إلى غيره۔

ابوزید عمران بن فرینام کہتے ہیں کہ میں نے ہمارے بعض ساتھیوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ احمد بن مردویہ سے کہا گیا: ابراہیم بن شماس کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مبارک نے ابو حنیفہ کو ترک کر دیا تو وہ ناراض ہو گئے اور کہا: ابراہیم سے کہو : عبد اللہ کی کتابوں میں سے تینتیسویں کتاب تمہاری تکذیب کرتی ہے، پھر وہ عبد اللہ پر تاویل کرتے تھے، پھر جب ان پر نکیر کی گئی تو ان تمام چیزوں کا انکار کر دیا اور اسے دوسرے کی طرف پھیر دیا۔ 

(کشف الآثار الشریفۃ :ج۲:ص۲۵۲)

سند کی تحقیق:

(۱) ابو محمد الحارثیؒ(م۳۴۰؁ھ)صدوق،حافظ الحدیث ہیں،اور

(۲) ابو زید،عمران بن فرینامؒ ثقہ ہیں،جیسا کہ تفصیل گزرچکی۔

(۳) ’’بعض اصحابنا‘‘کی جہالت مضر نہیں،کیونکہ دیگراصحاب عبد اللہؒ نے اس روایت کی تنقید فرمائی ہے،جیساکہ گزرچکا۔

(۴) احمد بن محمد بن موسی،ابو العباس المروزی المعروف بمردویۃؒ(م۲۳۵؁ھ)ثقہ،حافظ الحدیث اورمکثر عن ابن المبارک ہیں۔(تاریخ الاسلام:ج۵:ص۷۶۴،تقریب)

لہذایہ روایت حسن ہے۔واللہ اعلم

غالباً یہی وجہ ہے کہ صدوق،حافظ ابو محمد الحارثی ؒ(م۳۴۰؁ھ) کہتے ہیں کہ 

إن إبراهيم بن شماس كان ظاهرالعداوة لأبي حنيفة، يروي فی أمر أبي حنيفةأشياء  لا تثبت ولا تصح ولا يقبل قوله وقول أمثاله في أبي حنيفة ولا في عبد اللہ ۔۔۔۔۔۔وقد كان أوقع إبراهيم بن شماس في الناس في تأويل تأوله على عبد اللہ: أن عبد اللہ ترك أبا حنيفة حتى انتصب له أصحاب عبداللہ ففسقوه وردوا عليه وكذبوه حتى أنكر ذلك ۔

یقینا ابراہیم بن شماس ابو حنیفہ سے کھلی عداوت رکھتے تھے، اور ابوحنیفہ کے بارے میں بہت سی ایسی چیز میں روایت کرتے تھے جو نہ صحیح ہیں نہ ثابت، اور ان کا اور ان جیسوں کا قول نہ ابو حنیفہ کے بارے میں مقبول ہے نہ ابن مبارک کے بارے میں ، اور ابراہیم بن شماس نے لوگوں کو ایسی تاویل میں مبتلا کر دیا تھا جو انہوں نے عبد اللہ پر کی تھی کہ عبد اللہ نے ابو حنیفہ کو ترک کر دیا، یہاں تک کہ عبد اللہ کے شاگرد ان کے خلاف کھڑے ہوئے ، ان کی تفسیق کی ، ان پر رد کیا، ان کی تکذیب کی یہاں تک کہ انہوں نے ان کا انکار کیا۔ 

(کشف الآثار:ج۱:ص۲۵۱-۲۵۲)

ثقہ،امام ابو عبد اللہ ابن ابی حفص البخاریؒ(م۲۶۴؁ھ)فرماتے ہیں کہ 

’’وبعض الطاعنين والحاسدين يقول: إن عبد اللہ بن المبارك ترك أقاويل أبي حنيفة وترك مسائله وترك الرواية عنه، فقال أبو عبد الله: سمعت  بمكة يذكر هذا الكلام، فأخبرت الحسن بن الربيع -وكان من أصحاب عبدالله بن  المبارک فقْلت هذا الكالم فقال: هؤلاءكذبوا على عبدالله، فإني سمعته قبل موته بثلاثة أيام   يروي عن أبي حنيفة ويذكر مسائل أبي حنيفة، فمن أخبرك غير هذا فلاتصدقه فإنه كذاب‘‘

بعض طعن کرنے والے اور حاسدین کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن المبارک نے ابو حنیفہ کے اقوال ، ان کے مسائل اور ان سے روایت کرنا ترک کر دیا تھا، ابو عبد اللہ کہتے ہیں: میں نے مکہ میں اس کلام کا تذکرہ سنا تو میں نے عبداللہ بن المبارک کے شاگرد الحسن الربیع سے اس کلام کا ذکر کر کے اس کے بارے میں جانا چاہا تو انہوں نے کہا: یہ لوگ عبد اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں، میں نے ان کی  وفات سے تین روز پہلے انہیں سنا وہ ابوحنیفہ سے روایت بیان کر رہے تھے اور ان کے مسائل ذکر کر رہے تھے، پس جو تمہیں اس کے علاوہ کوئی بات بتائے اس کی تصدیق نہ کرو کیونکہ وہ کذاب ہے

(مناقب الامام ابی حنیفۃ لابن ابی حفص بحوالہ مناقب الامام ابی حنیفۃ للزرنجری:ص۱۵۸)

لہذا جب عبد اللہ بن المبارکؒ(م۱۸۱؁ھ) اپنی وفات سے ’’۳‘‘ دن پہلے امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ) سے روایت بیان کی ہے ،ان کے اقوال ذکر کئے ہیں،تو اس سےابراہیم بن شماسؒ(م۲۲۰؁ھ)وغیرہ کی روایت کی حیثیت ظاہر ہوجاتی ہے۔

خلاصہ یہ کہ

- ابراہیم بن شماسؒ(م۲۲۱؁ھ)کی روایت وہم اورخطاء ہے،اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے،بلکہ خود ابن شماسؒ (م۲۲۱؁ھ) نے بھی اپنی روایت سےانکار کردیاتھا۔

- معلی بن اسدؒ(م۲۱۸؁ھ)کی روایت بھی سند اًضعیف ہے،جیسا کہ تفصیل گزرچکی،نیز اگر سند درست بھی ہوجائے ،تو تب بھی کبار اصحاب عبد اللہ مثلاًحافظ ابو اسحاق الخلالؒ (م۲۴۱؁ھ)،حافظ ابو العباس مردویہؒ(م۲۳۵؁ھ) اور حافظ ابو علی ،الحسن بن الربیع البجلیؒ(م۲۲۰؁ھ) وغیرہ نےاس طرح کی روایات کا رد کردیا ہے۔

- بلکہ وفات سے ’’۳‘‘ دن سے پہلے بھی امام عبد اللہ بن مبارکؒ(م۱۸۱؁ھ)نے امام صاحبؒ(م۱۵۰؁ھ)سے روایت بیان کی ہے،لہذاصحیح و راجح یہی ہے کہ امام ابن المبارکؒ(م۱۸۱؁ھ)،امام ابو حنیفہ ؒ(م۱۵۰؁ھ)کو ثقہ ،احفظ الناس اور امام المسلمین سمجھتے تھے،یہاں تک آپؒ کی وفات ہوگئی۔واللہ اعلم

اور اللہ تعالی ہم سے کو اپنے اپنے وقت پر کامل ایمان سے خاتمہ نصیب فرمائیں۔۔آمین۔


(۱) مناقب الامام ابی حنیفۃ للزرنجری میں اگرچہ اس روایت کے شروع میں ثقہ،امام ابو عبد اللہ ابن ابی حفص البخاریؒ(م۲۶۴؁ھ)کا نام لکھا نہیں ہے،لیکن اسی کتاب کے شروع میں صدوق،امام شمس الآئمہ ابو الفضل،بکر بن محمد الزرنجریؒ(م۵۱۲؁ھ) نے ابو عبد اللہ بن ابی حفصؒ(م۲۶۴؁ھ) اور ان کی کتاب مناقب ابی حنیفۃ کا نہ صرف ذکر کیا ،بلکہ اس کتاب کی مکمل سند بھی بیان کردی ہے (ص۱۰۷- ۱۰۸) اور اس کتاب میں اکثر جگہ ان ہی کی کتاب سےاستفادہ بھی کیا ہے،نیز اس باب[روایۃ بعض الآئمۃ عن ابی حنیفۃ وقولہم فیہ] کے شروع میں بھی اکثر جگہ انہوں نے امام ابوعبد اللہ ابن ابی حفص البخاریؒ(م۲۶۴؁ھ) سےیااس سند میں موجود ان کے شیخ کے حوالےسے ہی ائمہ کے اقوال ذکر کئے ہے، (مناقب الامام ابی حنیفۃ للزرنجری : ص ۱۳۰،نیز دیکھئے ۱۳۴،۱۳۵)جس کی واضح مثال یہی ابو اسحاق الخلالؒ(م۲۴۱؁ھ) روایت ہے ،جس میں صاحب کتاب،امام ابو الفضل، الزرنجریؒ (م۵۱۲؁ھ)  نے یہ روایت مناقب ابی حنیفۃ لابن ابی حفص سے ہی ذکر کی ہے ،مگر ان کا نام نہیں لیا،بلکہ ان کے شیخ ابو اسحاق الخلالؒ(م۲۴۱؁ھ) کے حوالے سے روایت نقل کردی ہے ۔لیکن امام ابو محمد الحارثی ؒ (م۳۴۰؁ھ) کی روایت میں امام ابو عبد اللہ ابن ابی حفص البخاریؒ (م۲۶۴؁ھ) کاذکر ہے،دیکھئےکشف الآثار الشریفۃ :ج۲:ص۲۵۲۔

ــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ


04:-امام اہلسنت عبداللہ ابن المبارک(متوفی 181ھ) نے فرمایا

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْخَلِيلِ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ   قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ الْمُبَارَكِ- وَذَكَرَ أَبَا حَنِيفَةَ- فَقَالَ رَجُلٌ: هَلْ كَانَ فِيهِ مِنَ الْهَوَى شَيْءٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، الْأَرْجَاءُ    

 (المعرفة والتاريخ،  يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسي الفسوي، أبو يوسف (المتوفى: 277هـ))

یعنی ابن المبارک نے ایک شاگرد نے پوچھا کیا ابو حنیفہ میں کوئی بدعت تھی، تو جواب دیا ہاں وہ مرجئی تھا۔ـ

(وسند صحیح)

جواب : 

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مرجئہ اہل بدعت سے ذرا بھی تعلق نہ تھا۔ 

اس موضوع پر تفصیل سے پڑھنے کیلئے یہ دو مضامین دیکھیں۔


لنک نمبر 1 :

امام ابوحنیفہ " عقیده اِرجاء " رکهتے تهے

لنک نمبر 2 :

امام اعظم رحمہ اللہ اور الزام ارجاء!

درج بالا مضامین سے یہ بات بخوبی معلوم ہو جاتی ہیکہ امام صاحب باطل فرقہ مرجئہ سے نہ تھے ، اور مرجئہ اہل السنت میں اہل السنت کے بڑے بڑے اہل علم تھے جیسا کہ امام ذہبی نے لکھا ہے 

مسعر بن كدام حجة إمام، ولا عبرة بقول السليماني: كان من المرجئة مسعر وحماد بن أبي سليمان والنعمان وعمرو بن مرة وعبد العزيز بن أبي رواد وأبو معاوية وعمرو بن ذر...، وسرد جماعة. 

قلت: الارجاء مذهب لعدة من جلة العلماء لا ينبغي التحامل على قائله 

( میزان 4/99 )

یہاں سے معلوم ہوا کہ مرجئہ اہل السنت بالکل قابل حجت ہیں ، ان پر اعتراض باطل ہے۔

مزید یہ کہ اگر ارجاء اتنی ہی بری چیز ہے تو خود امام بخاری نے مرجئہ رواہ سے بخاری شریف میں روایات کیوں نقل کیں ہیں ؟ اگر خود امام بخاری نے مرجئہ سے صحیح بخاری میں روایات لی ہیں تو معلوم ہوا کہ ارجاء کی وجہ سے راوی کی عدالت اور توثیق پر کوئی حرف نہیں آتا




مزید تفصیل قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 18 ، 20 ، 21 ، 22  میں دیکھ سکتے ہیں۔

__________

 اعتراض : ابو حنیفہ عالم نہیں تھا

05 :-امام اہلسنت عبداللہ ابن المبارک(متوفی 181ھ) سے انکے شاگرد نے پوچھا:

کیا ابو حنیفہ عالم تھا، ابن المبارک نےجواب دیا:

 سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَاق الثَّقَفِيّ يَقُول سَمِعت أَبَا قُدَامَةَ يَقُولُ سَمِعْتُ سَلَمَةَ بْنَ سُلَيْمَانَ يَقُولُ قَالَ رَجُلٌ لابْنِ الْمُبَارَكِ أَكَانَ أَبُو حَنِيفَةَ عَالِمًا قَالَ مَا كَانَ بِخَلِيقٍ لِذَاكَ تَرَكَ عَطَاءً وَأَقْبَلَ عَلَى أَبِي الْعَطُوفِ

(المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين)

نہیں! وہ عالم ہوتا تو عطاء بن ابی رباع (ثقہ تابعی) کو چھوڑکر ابو العطوف(جرح بن منھال متروک الحدیث، منکر الحدیث اور شرابی) کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔(وسند صحیح)

جواب :

سمعت محمد بن إسحاق الثقفي، يقول: سمعت أبا قدامة، يقول: سمعت سلمة بن سليمان، يقول: قال رجل لابن المبارك: أكان أبو حنيفة عالمًا؟ قال: ما كان بخليق لذاك، ترك عطاءً وأقبل على أبي العطوف.

( المجروحين لابن حبان ت حمدي ٥/‏٢٥٩ )

وسمعت أبا قدامة، يقول: سمعت سلمة بن سليمان، يقول: قال رجل لابن المبارك: أكان أَبُو حنيفة عالما؟ قال: لا، ما كان بخليق لذاك، ترك عطاء وأقبل على أبي العطوف.

(تاريخ بغداد ت بشار ١٥/‏٥٥٨ )

سلمة بن سليمان کہتے ہیں: ایک شخص نے ابن مبارک سے پوچھا کیا امام ابوحنیفه عالم تھے؟ تو ابن مبارک نے کہا: نہیں وہ عالم نہیں تھے۔ اگر وہ عالم ہوتے تو عطاء بن ابي رباح (تابعی) کو چھوڑ کر ابي العطوف (کذاب) کی طرف متوجہ ہوتے؟؟

جواب : 

● اس روایت کی سند صحیح ہے لیکن متن صحیح نہیں ہے ، کیونکہ 

1۔امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کبھی بھی امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کو مکمل یا جزوی طور پر ہرگز ترک نہیں فرمایا ، نہ ہی اس متروک راوی سے باقاعدہ  شاگردی اختیار کی ، جبکہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ امام صاحب  امام عطاء رحمہ اللہ کے باقاعدہ شاگردوں میں سے تھے ، اور مکمل یا جزوی طور پر عطاء رحمہ اللہ کو ترک کرنا یہ دلیل سے خالی ہے ، امام صاحب تو واشگاف الفاظ میں فرماتے ہیں کہ میں نے عطاء سے افضل کسی کو نہیں دیکھا ، لہذا یہ دعوی کہ عطاء کو ترک کر دیا تھا، بے بنیاد ہے ، مزید تفصیل کیلئے دیکھیں النعمان سوشل میڈیا سروسز کی ویب سائٹ پر موجود تانیب الخطیب : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراض نمبر 88۔ 

2۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ عالم بلکہ فقیہوں کے فقیہ اور عالموں کے عالم مانتے تھے جو کہ صحیح سندوں سے ثابت ہے جیسا کہ آپ فرماتے ہیں 

میں نے سب سے زیادہ فقاہت والا ابو حنیفہ کو دیکھا ہے ، میں نے ان جیسا فقیہ کوئی اور نہیں دیکھا(حالانکہ انہوں نے امام مالک ، سفیان ثوری ، عیینہ وغیرہ کو دیکھا ہوا تھا پھر بھی یہ کہنا کہ امام صاحب جیسا فقیہ کوئی نہیں دیکھا ، یہ انتہائی تعریفی اقوال ہیں ، جو جرح و تعدیل میں رائج ہیں)۔

 (تاریخ بغداد ت بشار 15/469 اسنادہ صحیح) 

 اس کے علاوہ بھی امام عبد اللہ بن  مبارک رحمہ اللہ ، امام صاحب کی بہت عزت و تکریم کرتے تھے جیسا کہ ہم آخر میں روایات نقل کریں گے ، لہذا یہ بات کہ ابو حنیفہ عالم نہیں ہیں ، یہ بالکل مردود ہے۔

3۔ امام عطاء بن ابی رباح کی وفات 114ھ میں ہوئی ہے

 (تذکرہ الحفاظ 1/98 )

 جبکہ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کی پیدائش ہی 118ھ میں ہوئی ہے (سیر أعلام النبلاء 8/381 ) ، اور انہوں نے تحصیل علم 20 برس کی عمر سے شروع کیا یعنی 138ھ 

(سير أعلام النبلاء 8/ 379 ، 381) ، اس حساب سے عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا  حضرت عطاء رحمہ اللہ کو ترک کرنے کی روایت ہی مشکوک معلوم ہوتی ہے کہ کیسے عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ اپنی پیدائش سے 4 سال قبل وقات پانے والے کے شاگرد کے بارے میں ایسا دعوی کر سکتے ہیں ؟ 

4۔ امام عطاء رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، کثرت سے روایات نقل کرتے ہیں جو کہ کتاب الآثار اور امام صاحب کی مسانید میں موجود ہیں جبکہ ابو العطوف سے گنتی کی روایتیں ہیں۔ تو اس لحاظ سے یہ دعوی کہ امام صاحب نے امام عطاء بن ابی رباح کو ترک کر دیا تھا ، یہ دعوی اور بھی مشکوک ہو جاتا ہے۔ اور سونے پہ سہاگا یہ کہ خود حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ امام  ابو حنیفہ کے واسطہ سے عطاء بن ابی رباح سے روایت کر رہے ہیں (مسند أبي حنيفة رواية أبي نعيم ١/‏١٣٦ ) تو اگر ترک کر دیا تھا تو  ، عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے خود اسی سند  سے روایت کیوں بیان کی ؟ 

5۔ ابو العطوف سے روایت کرنے سے امام صاحب کا عطاء بن ابی رباح کو ترک کرنا لازم نہیں آتا ، نہ ہی ان پر کوئی تنقیص بنتی ہے ، کیونکہ امام مالک ، شافعی رحمھم اللہ نے بھی متکلم فیہ اور مجروح رواة سے روایت لیں ہیں ، جب ان پر تنقیص نہیں ہے تو ابو حنیفہ پر کیوں ؟ 

 امام حاکم رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر تمام آئمہ کا زبردست دفاع کیا ہے ۔ امام حاکم لکھتے ہیں 

 وَهَذَا مَالِكُ بن أنس أَهْلِ الْحِجَازِ بِلَا مُدَافَعَةٍ رَوَى عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ أَبِي أُمَيَّةَ الْبَصْرِيِّ وَغَيْرِهِ مِمَّنْ تَكَلَّمُوا فِيهِمْ ثُمَّ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيُّ وَهُوَ الْإِمَامُ لِأَهْلِ الْحِجَازِ بَعْدَ مَالِكٍ رَوَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أبى يحى الْأَسْلَمِيِّ وَأَبِي دَاوُدَ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرٍو النَّخَعِيِّ وَغَيْرِهِمَا مِنَ الْمَجْرُوحِينَ

وَهَذَا أَبُو حَنِيفَةَ إِمَامُ أَهْلِ الْكُوفَةِ رَوَى عَنْ جَابِرِ بْنِ يَزِيدَ الْجُعْفِيِّ وَأَبِي الْعَطُوفِ الْجَرَّاحِ بْنِ الْمِنْهَالِ الْجَزَرِيِّ وَغَيْرِهِمَا مِنَ الجروحين ثُمَّ بَعْدَهُ أَبُو يُوسُفَ يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْقَاضِي وَأَبُو عَبْدِ الله محمد بن الحسن الشيبنى حدثا جَمِيعًا عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَةَ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُحَرَّرِ وَغَيْرِهِمَا مِنَ الْمَجْرُوحِينَ وَكَذَلِكَ مِنْ بَعْدِهِمَا أَئِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ قَرْنًا بَعْدَ قَرْنٍ وَعَصْرًا بَعْدَ عَصْرٍ إِلَى عَصْرِنَا هَذَا لَمْ يَخْلُ حَدِيثُ إِمَامٍ مِنْ أَئِمَّةِ الْفَرِيقَيْنِ عَنْ مَطْعُونٍ فِيهِ مِنَ الْمُحدثينَ وَلِلْأَئِمَّةِ  فِي ذَلِكَ غَرَضٌ ظَاهِرٌ وَهُوَ أَنْ يَعْرِفُوا الْحَدِيثَ مِنْ أَيْنَ مَخْرَجُهُ وَالْمُنْفَرِدُ به عدل أو مجروح

خلاصہ : 

امام مالک ، شافعی ، ابو حنیفہ رحمھم اللہ سب نے مجروح رواة سے روایات لیں ہیں ، اور ایسا کام ہر صدی میں ہوتا رہا ہے ہر دور کے علماء کرتے رہے ہیں ، غرض یہ تھی ان آئمہ کی کہ وہ جان سکیں منفرد روایات میں کونسا راوی عادل ہے کونسا مجروح ہے اور یہ حدیث آئی کہاں سے ہے۔ 

(المدخل إلى كتاب الإكليل ١/‏٣١)

قارئین کرام ، غیر مقلدین کا تعصب دیکھیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے معاملے میں وہ اتنا اچھلتے ہیں کہ امام صاحب نے مجروح راوی سے روایت لی ہے اور احناف پر طعن کرتے ہیں  کہ ابو حنیفہ حدیث میں کچھ نہ تھے تبھی مجروح رواہ سے روایات لیں ، جیسا کہ غیر مقلد ارشاد الحق اثری نے اپنی کتاب اعلاء السنن فی المیزان میں لکھا ہے ۔ 

امام صاحب کے شیوخ میں ایک نام ابو العطوف جراح بن منہال ہے۔ جسے امام نسائی، دولابی ابو حاتم،دارقطنی رحمۃ اللہ علیہم نے متروک ،امام یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن الجارود رحمۃ اللہ علیہ نے لیس بشیء ابن المدینی نے لایکتب حدیثہ، ابن سعد رحمۃ اللہ علیہ نے ضعیف کہا ہے ۔۔۔۔ آگے لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ یہاں یہ بات بھی اشارۃ عرض کئے دیتا ہوں کہ علامہ کوثری رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا جراح سے روایت لینے پر اپنے روایتی انداز میں دفاع کیا ہے شائقین اس کی حقیقت التنکیل  میں ملاحظہ فرمائیں۔ ان شاء اللہ علامہ کوثری کی تلبیسات کا پردہ چاک ہو جائے گا۔یہاں وہ تفصیل طویل کا باعث بنے گی 

(اعلاء السنن فی المیزان ،1/ ، 109 108) . 

 جبکہ باقی آئمہ جب مجروح رواہ کا دفاع بھی کرتے ہیں تو ، یہ منافق غیر مقلد نام نہاد اہکحدیث فرقہ  چپ ہو جاتے ہیں ، ان کو سانپ سونگھ جاتا ہے ، زبانوں کو تالا لگ جاتا ہے ۔ 

المجروحین لابن حبان کی جس صحیح سند والی روایت کو لیکر غیر مقلدین نے امام صاحب پر جس طرح سے اعتراض کیا ، اسی کتاب میں امام شافعی رحمہ اللہ کے استاد کا حال بھی دیکھ لیں ۔ 

إبراهيم بن محمد بن أبي يحيى الأسلمي 

مولى أسلم من أهل المدينة، واسم أبي يحيى سمعان، كان مالك وابن المبارك ينهيان عنه، وتركه يحيى القطان وابن مهدي، وكان الشافعي يروي عنه، وكان إبراهيم يرى القدر ويذهب إلى كلام جهم، ويكذب مع ذلك في الحديث.

( المجروحين لابن حبان ت حمدي ٢/‏١٠٢ )

امام شافعی رحمہ اللہ کے اس استاد پر کذاب ، رافضی ،  قدری ، متروک کی جروحات ہیں  ، کئی آئمہ نے ان کو ترک کیا ہے (جیسا کہ ارشاد الحق اثری نے جراح بن منہال کے بارے میں لکھا ، تقریبا وہی جروحات اسی راوی پر ہیں)

(التقريب ٢٤١، فقه الإسلام = شرح بلوغ المرام ٨/‏١٦٨ )

لیکن غیر مقلدین یہاں خاموش ہیں ۔ یہ دوہرا معیار کیوں ؟

دواری بات امام کوثری  نے جراح بن منہال سے روایت لینے پر دفاع کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن امام شافعی رحمہ اللہ نے اس کذاب استاد کا دفاع ضرور کیا ہے ۔ملاحظہ ہو۔

دکتور قلعہ جی لکھتے ہیں

قال ابن حبان: «وأما الشافعي فإنه كان يجالسه في حداثته، ويحفظ منه حفظ الصبي، والحفظ في الصغر كالنقش في الحجر، فلما دخل مصر في آخر عمره فأخذ يصنف الكتب المبسوطة احتاج إلى الأخبار ولم تكن معه كتبه فأكثر ما أودع الكتب من حفظه، فمن أجله ما روى عنه، وربما كنى عنه ولا يسميه. المجروحين»١: ١٠٧«.

وقال الذهبي في الميزان»١/ ٥٨«: قال الربيع: سمعت الشافعي يقول: كان قدريًّا، قال يحيى بن زكريا ابن حيويه، فقلت للربيع: فما حمل الشافعي على الرواية عنه؟ قال: كان يقول: لأن يخر من السماء أحب إليه من أن يكذب. وكان ثقة في الحديث.

وقال الربيع: كان الشافعي إذا قال: حدثنا من لا أتهم، يريد به إبراهيم بن أبي يحيى.

وقال ابن عدي:»ليس بمنكر الحديث، وقد حدث عنه الثوري، وابن جريج، والكبار«، عقب الذهبي بعد ذلك فقال:»الجرح مقدم«.

مفہوم :  امام شافعی نے ایک ایسے شخص (إِبراهيم بن أَبي يحيى الاسلمی) سے روایت کیوں لی جس کے بارے میں ان کے نزدیک کچھ کلام کیا گیا تھا تھا۔ ابن حبان کہتے ہیں کہ الشافعی نے اپنی جوانی میں اس شخص کے ساتھ وقت گزارا اور بچپن میں حاصل کردہ علم کے اثرات کی طرح یہ یادیں ان کے ذہن میں نقش ہوگئیں۔ جب الشافعی مصر میں آئے تو انہیں کتب کی ضرورت پیش آئی اور انہوں نے اپنی یادداشت سے بہت کچھ بیان کیا، جس کی وجہ سے بعض اوقات وہ اس شخص کا نام لیے بغیر اس کا حوالہ دیتے تھے۔

امام ذهبی کے مطابق، الشافعی نے اس شخص کو ایک ایسے  راوی کے طور پر جانا جو کہ جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ ربیع نے ذکر کیا کہ الشافعی کہتے تھے کہ "آسمان سے گرے جانے کو ترجیح دوں گا، بجائے اس کے کہ میں جھوٹ بولوں" ، اور وہ اس راوی کی صداقت پر یقین رکھتے تھے۔ ابن عدی نے بھی کہا کہ وہ حدیث میں ناپسندیدہ نہیں تھے، اور کئی بڑے حضرات نے ان سے روایت کی ہے۔ 

 امام ذهبی نے  ابن عدی کی اس بات پر  تعاقب کیا اور کہا کہ اس راوی پر "جرح" مقدم ہے(یعنی ابن عدی کا  صرف امام شافعی کی وجہ سے تاویل کر کہ اس راوی پر سے جروحات کو کم کرنا ، قابل قبول نہیں) 

(الثقات للعجلي ت قلعجي ١/‏٥٦ )

ذیل کے اقتباس میں بھی یہی بحث کی گئی ہے۔

وفيه إبراهيم بن محمد بن أبي يحيى الأسلمي كذاب. فقد كذبه بشر بن المفضل ويحيى بن سعيد وابن معين والنسائي وعلي بن المديني والدارقطني وابن حبان حتى قال فيه ابن معين:» كان فيه ثلاث خصال، كان كذابًا، وكان قدريًا، وكان رافضيًا إلا أن الإمام الشافعي كان يدافع عنه ويقول: لأن يخر من السماء أحب إليه من أن يكذب وكان ثقة في الحديث.

(تحية المسجد ١/‏٤٣ — محمد ضياء الرحمن الأعظمي ت ١٤٤١)

امام شافعی نے جو اس کذاب راوی کا دفاع کیا ہے ، یہاں غیر مقلدین کیوں کچھ نہیں کہتے ، کیا تنقید کیلئے صرف احناف اور ابو حنیفہ ہی باقی ہیں ، شوافع ، محدث ابن عدی اور امام شافعی پر تنقید غیر مقلد کیوں نہیں کرتے  ؟ 

اسی طرح امام احمد نے عامر بْن صالح الزبيري مديني سے روایت لی ہے  (الكامل في

 ضعفاء الرجال ٦/‏١٥٥ ) جبکہ اسی راوی کو حافظ ابن حجر نے متروک الحدیث کہا ہے  (التقریب ص٢٨٧ ) ، جبکہ  (المجروحين ٢/ ١٨٨) میں ابن حبان نے کہا کہ یہ موضوع روایت بیان کرتا ہے ، امام یحیی بن معین نے کہا کہ یہ کذاب ہے۔

(المجروحين لابن حبان ت حمدي ١٤/‏١٧٩)  امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ امام  احمد بن حنبل پاگل ہو گئے ہیں جو عامر بن صالح سے روایت کرتے ہیں ( الکامل  5 / 83 ) ۔ 

کیا غیر مقلدین اور خصوصا ارشاد الحق اثری امام احمد کے خلاف بھی وہی کچھ طعن کرے گیں جو امام صاحب اور احناف کے خلاف کیا ؟ امام احمد پر تنقید سے  سعودی عرب سے وظیفہ و روزی روٹی بند ہونے کا ڈر ہے ، کہ پھر کون غیر مقلدوں کی کتب کو عربی میں ترجمہ کروا کہ سعودیہ میں پھیلائے گا ، آئے دن ریال کہاں سے آئیں گے .

أخبرنا البرقاني، أخبرنا أبو يحيى زنجويه بن حامد بن حمدان النصري الإسفراييني - إملاء - حدثنا أبو العباس السراج قال: سمعت أبا قدامة يقول: سمعت سلمة بن سليمان قال: قال رجل لابن المبارك: كان أبو حنيفة مجتهدا، قال: ما كان بخليق لذاك، كان يصبح نشيطا في الخوض إلى الظهر، ومن الظهر إلى العصر، ومن العصر إلى المغرب، ومن المغرب إلى العشاء، فمتى كان مجتهدا؟.


سند میں برقانی رحمہ اللہ کے شیخ مجہول ہیں لہذا سند ضعیف ہے ۔

(2) ۔ مذکورہ اعتراض کے بر عکس امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فقیہ

اور مجتہد مانتے تھے (تاریخ بغداد 15/469 سند : صحیح)


مزید تفصیل قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 89 ، 96  میں دیکھ سکتے ہیں۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

06 :-امام اہلسنت عبداللہ ابن المبارک(متوفی 181ھ) نے

فرمایا:

أَخْبَرَنِي الخلال، قَالَ: حَدَّثَنِي عبد الواحد بن علي الفامي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سالم مُحَمَّد بن سعيد بن حماد، قال: قال أَبُو داود سليمان بن الأشعث السجستاني، قال ابن المبارك: ما مجلس ما رأيت ذكر فيه النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قط ولا يصلى عليه إلا مجلس أبي حنيفة،(تاريخ بغداد)

میں نے ایسی کوئی مجلس نہیں دیکھی جس میں رسول اللہ صلی اللہ وسلم، کا ذکر کیا جائے اور ان پر درود نہیں پڑھا جائے ماسوائے ابو حنیفہ کی مجلس  (وسند صحیح)۔

جواب :

یہ روایت منقطع ہے ۔ کیونکہ امام ابو داود (202ھ-275ھ)کی ابن مبارک(متوفی 181ھ)  سے  ملاقات ثابت ہی نہیں ۔

وقال زكريا: سمعت عبدان وعلي بن شقيق كليهما يقولان.

وقال ابن المبارك كنت إذا أتيت مجلس سفيان فشئت أن تسمع كتاب الله سمعته وإن شئت أن تسمع آثار رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سمعتها وإن شئت أن تسمع كلاما في الزهد سمعته. وأما مجلس لا أذكر أني سمعت فيه قط صُلِّيَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فمجلس أبى حنيفة
  جواب : 

سند میں محمد بن عمر الجوہری ضعیف ہیں۔ عمر بن محمد بن عيسى الجوهري کے بارے میں خود خطیب نے لکھا ہے اس کی روایتوں میں نکارت ہوتی ہے ، لہذا اعتراض باطل ہے۔

عمر بن محمد بن عيسى الجوهري هو عمر بن محمد بن عيسى بن سعيد المعروف بالسذابي قال الخطيب في بعض حديثه نكرة

 (تاريخ بغداد ت بشار ج13/ص74) 

مزید تفصیل قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ( تانیب الخطیب )  امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 89 ، 91  میں دیکھ سکتے ہیں۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

07 :-امام اہلسنت عبداللہ ابن المبارک(متوفی 181ھ)  سے ابوحنیفہ نے کہا:

امام ابو محمد ابن قتیبہ دینوری(متوفی276ھ) نے فرمایا:

قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْحَنْظَلِيُّ، وَهُوَ ابْنُ رَاهَوَيْه )المتوفى 238ه)، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ (وكيع بن الجراح (المتوفى 196 ه)ـ أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ قَالَ: مَا بَالُهُ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ كُلِّ رَفْعٍ وَخَفْضٍ؟ أَيُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ؟ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ4: إِنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ إِذَا افْتَتَحَ، فَإِنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ إِذا خفض وَرفع. (تأويل مختلف الحديث)

یعنی حدیث بیان کی اسحاق بن راہویہ(متوفی 238ھ) نے، ان سے انکے شیخ وکیع بن جراح(متوفی 196ھ) سے انہونے فرمایا: ابو حنیفہ نے مزاق اڑاتے ہوئے ابن المبارک سے کہا تجھے کیا ہے کہ نماز میں رکوع کرتے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے ہاتھوں کو اٹھاتا ہے یعنی رفع یدین کرتا ہے کیا اڑنے کا ارادہ ہے۔

امام عبداللہ ابن المبارک نے جواب دیا:اگر تو نماز شروع کرتے وقت جو ہاتھوں کو رفع یدین کرتا ہے ایسا اڑنے کے ارادہ سے کرتا ہے تو میں بھی رکوع کرتے اور رکوع سے اٹھتے وقت ایسا اڑنے کے ارادے سے کرتا ہوں

جواب : 

" عبداللہ بن المبارک اور رفع الیدین کے واقعہ پر ایک نظر "

رفع یدین کا مسئلہ اگرچہ جزئی اور فروعی مسئلہ ہے لیکن بعض محدثین نے اس مسئلہ میں حد سے زیادہ تشدد اختیار کیا اوراس کو فرائض و واجبات تک کی جگہ دے کر رفع یدین نہ کرنے والوں کی نماز تک باطل قراردے دی ، جیسا کہ حمیدی اور بعض دیگر روات سے منقول ہے۔


وَقَدْ رُوِيَ عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ وَذَهَبَ إِلَى ذَلِكَ الْحُمَيْدِيُّ فِيمَنْ لَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ عَلَى حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ الصَّلَاةَ فَاسِدَةٌ أَوْ نَاقِصَةٌ وَرَأَى بَعْضُهُمْ عَلَيْهِ الْإِعَادَةَ

(التمہید لابن عبدالبر 9/226)

اوزاعی سے منقول ہے اورحمیدی کا بھی قول ہے کہ جس نے ابن عمر کی حدیث پر رفع یدین نہیں کیا اس کی نماز فاسد یا ناقص ہے اوربعض نے نماز لوٹانے کی بھی بات کہی ہے۔

لیکن ظاہر ہے کہ یہ قول دلیل سے عاری اور خالی ہے کسی چیز کا مسنون ہونا الگ شے ہے اور کسی چیز کا فرض و واجب ہونا الگ بات ہے۔ مخالف کے زعم اور زور میں سنت کو فرض و واجب قرار دے دینا علمی منہج نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ابن عبدالبر ان حضرات کی رائے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

وَلَيْسَ هَذَا بِصَحِيحٍ عِنْدَنَا لِمَا ذَكَرْنَا لِأَنَّ إِيجَابَ الْإِعَادَةِ إِيجَابُ فَرْضٍ وَالْفَرَائِضُ لَا تَثْبُتُ إِلَّا بِحُجَّةٍ أَوْ سُنَّةٍ لَا مُعَارِضَ لَهَا أَوْ إِجْمَاعٍ مِنَ الْأُمَّةِ۔

اوریہ چیز ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے جیساکہ ہم نے اس کے دلائل ماقبل میں ذکر کئے۔ اس لئے اعادہ کو واجب قرار دینا کسی چیز کو فرض قراردینا ہے اور فرائض دلیل قطعی یا پھر ایسی سنت سے ثابت ہوتے ہیں جس کا کوئی معارض نہ ہو یا اس پر امت کا اجماع ہو ۔

اوزاعی تو اس مسئلہ میں اتنے گرم ہو گئے کہ سفیان ثوری کو ملاعنہ یعنی ایک دوسرے پر لعنت کرنے تک کی دعوت دے ڈالی ۔

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ رُمَيْحٍ ثنا أَبُو نَصْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْمَرْوَزِيُّ بِمَرْوَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ الطَّبَرِيُّ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الشَّاذَكُونِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ يَقُولُ: اجْتَمَعَ الْأَوْزَاعِيُّ وَالثَّوْرِيُّ بِمِنًى، فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ لِلثَّوْرِيِّ " لِمَ لَا تَرْفَعُ يَدَيْكَ فِي خَفْضِ الرُّكُوعِ وَرَفْعِهِ؟ " فَقَالَ الثَّوْرِيُّ ثنا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ " أَرْوِي لَكَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، [ص:118] عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُعَارِضُنِي بِيَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، وَيَزِيدُ رَجُلٌ ضَعِيفُ الْحَدِيثِ وَحَدِيثُهُ مُخَالِفٌ لِلسُّنَّةِ " قَالَ: فَاحْمَارَّ وَجْهُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: " كَأَنَّكَ كَرِهْتَ مَا قُلْتُ " قَالَ الثَّوْرِيُّ: نَعَمْ قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: " قُمْ بِنَا إِلَى الْمَقَامِ نَلْتَعِنُ أَيُّنَا عَلَى الْحَقِّ " قَالَ: فَتَبَسَّمَ الثَّوْرِيُّ لَمَّا رَأَى الْأَوْزَاعِيَّ قَدِ احْتَدَّ "

سنن بیہقی 2/117

اس کے ساتھ امام بخاری نے جزء رفع الیدین میں ترک رفع والوں پرجس غیظ وغضب کا اظہار کیا ہے اس کو نرم لفظوں میں بھی کہیں تو حدود سے متجاوز ہے جب کہ یہ بات واضح ہے کہ رفع یدین اورترک رفع یدین پر صحابہ ایک دوسرے کی نکتہ چینی نہیں کرتے تھے ۔ اورنہ یہ عمومی طور پر علماء فقہاء اورمحدثین کا شیوہ اور طریقہ کار رہاہے کہ وہ ترک رفع کرنے والوں کو مخالف سنت کے نام سے یاد کریں یامخالفت سنت کا طعنہ دیں۔ ابن عبدالبر لکھتے ہیں۔

وَقَدْ أَكْثَرَ أَهْلُ الْعِلْمِ بِالْكَلَامِ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَفَرَطَ بَعْضُهُمْ فِي عَيْبِ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ وَلَا وَجْهَ لِلْإِكْثَارِ فِيهِ

التمہید لابن عبدالبر 9/228

اہل علم نے اس باب میں بہت زیادہ کلام کیا ہے اوران میں سے بعض نے ترک رفع کرنے والوں کے خلاف حد سے تجاوز کیا ہے جب کہ اس کی کوئی ضرورت اوروجہ نہیں ہے۔

اس تعلق سے عمومی طور پر ایک قصہ اور واقعہ ابن المبارک اور امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ والرضوان کا بھی بیان کیاجاتا ہے ۔ دور حاضر کے غیر مقلدین اس واقعہ کو خوب اچھالتے اور نمایاں کرتے ہیں اورایسا سمجھتے ہیں کہ یہ حضرت عبداللہ بن المبارک کی جانب سے امام ابوحنیفہ پر کوئی طنز ،طعن اور تعریض تھا حالانکہ اس واقعہ کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ یہ استاد و شاگرد کے درمیان ایک قسم کی خوش طبعی تھی اوربس !

واقعہ کیا ہے؟

اس واقعہ کو متعدد محدثین نے نقل کیا ہے ذرا ذیل میں ان تمام پر ایک نگاہ ڈالی جائے واقعہ کی جزئیات میں اختلاف ہے۔ ہم اس اختلاف کو ذرا واضح کرتے ہیں کہ کس نے کیسے اور کس طور پر نقل کیاہے۔

امام بخاری نقل کرتے ہیں۔

وَلَقَدْ قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: كُنْتُ أُصَلِّي إِلَى جَنْبِ النُّعْمَانِ بْنِ ثَابِتٍ فَرَفَعْتُ يَدَيَّ فَقَالَ: مَا خَشِيتَ أَنْ تَطِيرَ؟ فَقُلْتُ إِنْ لَمْ أَطِرْ فِي الْأُولَى لَمْ أَطِرْ فِي الثَّانِيَةِ قَالَ وَكِيعٌ: رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى ابْنِ الْمُبَارَكِ كَانَ حَاضِرَ الْجَوَابِ فَتَحَيَّرَ الْآخَرُ

قرۃ العینین برفع الیدین فی الصلاۃ ص 37

عبداللہ بن احمد بن حنبل نقل کرتے ہیں

حَدَّثَنِي أَبُو الْحَسَنِ بْنُ الْعَطَّارِ مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ سَمِعْتُ أَحْمَدَ يَعْنِي ابْنَ شَبُّوَيْهِ، قَالَ: سَمِعْتُ وَكِيعًا، يَقُولُ: " قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لِابْنِ الْمُبَارَكِ: تَرْفَعُ يَدَيْكَ فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ كَأَنَّكَ تُرِيدُ أَنْ تَطِيرَ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ: إِنْ كُنْتَ أَنْتَ تَطِيرُ فِي الْأُولَى فَإِنِّي أَطِيرُ فِيمَا سِوَاهَا، قَالَ وَكِيعٌ جَادَّ مَا حَاجَّهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ "

السنہ لعبداللہ بن احمد بن حنبل ص 276

ابن قتیبہ لکھتے ہیں۔

وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْحَنْظَلِيُّ، وَهُوَ ابْنُ رَاهَوَيْهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ قَالَ: مَا بَالُهُ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ كُلِّ رَفْعٍ وَخَفْضٍ؟ أَيُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ؟

فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: إِنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ إِذَا افْتَتَحَ، فَإِنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ إِذا خفض وَرفع.

تاویل مختلف الحدیث 1/106

ابن حبان نقل کرتے ہیں

- أَحْمد بن الْوَلِيد الْكَرْخِي من أهل سامرا يروي عَن أبي نعيم والعراقيين حَدَّثنا عَنهُ حَاجِب بن أركين وَغَيره ثَنَا مُحَمَّد بن إِسْحَاق الثَّقَفِيّ ثَنَا أَحْمد بن الْوَلِيد الْكَرْخِي ثَنَا أَبُو هِشَام الرِّفَاعِي قَالَ سَمِعت وكيعا يَقُول سَأَلَ بن الْمُبَارك أَبَا حنيفَة عَن رجل يرفع يَدَيْهِ فَقَالَ يُرِيد أَن يطير فَأَجَابَهُ بن الْمُبَارك إِن يطر فِي الثَّانِيَة فَهُوَ يُرِيد أَن يطير فِي الأولى

الثقات لابن حبان 8/45

امام بیہقی سنن کبری میں نقل کرتے ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أنبأ الْحَسَنُ بْنُ حَلِيمٍ الصَّائِغُ، بِمَرْوَ ثنا أَبُو الْمُوَجَّهِ، أَخْبَرَنِي أَبُو نَصْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْخَطَّابِ السُّلَمِيُّ، وَكَانَ رَجُلًا صَالِحًا قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ يُونُسَ، ثنا وَكِيعٌ قَالَ: " صَلَّيْتُ فِي مَسْجِدِ الْكُوفَةِ فَإِذَا أَبُو حَنِيفَةَ قَائِمٌ يُصَلِّي، وَابْنُ الْمُبَارَكِ إِلَى جَنْبِهِ يُصَلِّي، فَإِذَا عَبْدُ اللهِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ كُلَّمَا رَكَعَ وَكُلَّمَا رَفَعَ، وَأَبُو حَنِيفَةَ لَا يَرْفَعُ، فَلَمَّا فَرَغُوا مِنَ الصَّلَاةِ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لِعَبْدِ اللهِ: يَا أَبَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ، رَأَيْتُكَ تُكْثِرُ رَفْعَ الْيَدَيْنِ، أَرَدْتَ أَنْ تَطِيرَ؟ قَالَ لَهُ عَبْدُ اللهِ: يَا أَبَا حَنِيفَةَ قَدْ رَأَيْتُكَ تَرْفَعُ يَدَيْكَ حِينَ افْتَتَحْتَ الصَّلَاةَ فَأَرَدْتَ أَنْ تَطِيرَ؟ فَسَكَتَ أَبُو حَنِيفَةَ " قَالَ وَكِيعٌ فَمَا رَأَيْتُ جَوَابًا أَحْضَرَ مِنْ جَوَابِ عَبْدِ اللهِ، لِأَبِي حَنِيفَةَ

سنن بیہقی 2/117

خطیب بغدادی لکھتے ہیں

أَخْبَرَنَا الخلال، قَالَ: حَدَّثَنَا عبد الله بن عثمان الصفار، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن مخلد، قَالَ: حَدَّثَنَا العباس بن مُحَمَّد، قَالَ: حَدَّثَنَا إبراهيم بن شماس، قال: سمعت وكيعا، يقول: سأل ابن المبارك أبا حنيفة عن رفع اليدين في الركوع، فقال أَبُو حنيفة: يريد أن يطير فيرفع يديه؟ قال وكيع: وكان ابن المبارك رجلا عاقلا، فقال ابن المبارك: إن كان طار في الأولى فإنه يطير في الثانية، فسكت أَبُو حنيفة ولم يقل شيئا

15/530تاریخ بغداد

ابن عبدالبر لکھتے ہیں۔

وَرُوِي عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ صَلَّيْتُ إِلَى جَنْبِ أَبِي حَنِيفَةَ فَرَفَعْتُ يَدَيَّ عِنْدَ الرُّكُوعِ وَعِنْدَ الرَّفْعِ مِنْهُ فَلَمَّا انْقَضَتْ صَلَاتِي قَالَ لِي أَرَدْتَ أَنْ تَطِيرَ فَقُلْتُ لَهُ وَهَلْ مَنْ رَفَعَ فِي الْأُولَى يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ فَسَكَتَ

التمہید لابن عبدالبر9/299

ان کتابوں سے نقل کردہ اقتباس سے یہ بات ظاہر ہے کہ جس نے بھی نقل کیاہے روایت بالمعنی کیا ہے اور ہر ایک نے اپنے اپنے اعتبار سے نقل کیاہے۔

واقعہ کا قدر مشترک امر یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ نے رفع یدین کو اڑنے سے تعبیر کیا اورامام عبداللہ بن المبارک نے تکبیر تحریمہ میں رفع یدین کو بقیہ رفع یدین کے مماثل قراردے کر کہا کہ اگر وہ اڑنا ہے تویہ بھی اڑنا ہے اوراگر وہ اڑنا نہیں ہے تو یہ بھی اڑنا نہیں ہے.

" اختلاف کہاں کہاں پر ہے؟​"

1. "پہلا اختلاف"

عبداللہ بن المبارک کو نماز پڑھتے دیکھ کر امام ابوحنیفہ نے یہ بات کہی تھی یاعبداللہ بن المبارک نے رفع یدین فی الرکوع کے بارے میں سوال کیا تھا تب یہ بات کہی تھی!

تاریخ بغداد اور ثقات ابن حبان میں مذکور ہے کہ ابن مبارک نے رفع یدین کے تعلق سے امام ابوحنیفہ سے سوال کیا تھا۔جس پر امام ابوحنیفہ نے یہ بات کہی ۔

سمعت وكيعا، يقول: سأل ابن المبارك أبا حنيفة عن رفع اليدين في الركوع

15/530تاریخ بغداد

سَمِعت وكيعا يَقُول سَأَلَ بن الْمُبَارك أَبَا حنيفَة عَن رجل يرفع يَدَيْهِ

الثقات لابن حبان8/45

2. "دوسرا اختلاف"

یہ ہے کہ عبداللہ بن المبارک کے جواب پر امام ابوحنیفہ کا ردعمل کیا رہا۔

بخاری کی جزء رفع الیدین اور عبداللہ بن احمد بن حنبل وکیع سے عبداللہ بن المبارک کے جواب کی تحسین نقل کرتے ہیں۔ابن قتیبہ اور ابن حبان کی روایت میں نہ جواب کی تحسین ہے اورنہ سکوت کاذکر ہے۔بیہقی کی روایت میں سکوت کا بھی ذکر ہے اورجواب کی تحسین بھی ہے۔خطیب کی روایت میں فسکت کے بعد ولم یقل شیئا کا اضافہ ہے۔ابن عبدالبر نے صرف سکوت کا ذکر کیا ہے۔

3. تیسرا اختلاف

یہ ہے کہ عبداللہ بن المبارک نے کیا بات کہی تھی کہ 《ان کنت انت تصیر》 یاپھر 《ان لم اطر》

یعنی جواب میں امام ابوحنیفہ کو مخاطب کیا یا اپنے تعلق سے بات کہی۔ یعنی جواب میں انہوں نے یہ کہا

إِنْ لَمْ أَطِرْ فِي الْأُولَى لَمْ أَطِرْ فِي الثَّانِيَةِ

جزء رفع الیدین للبخاری

یاپھر یہ کہا

إِنْ كُنْتَ أَنْتَ تَطِيرُ فِي الْأُولَى فَإِنِّي أَطِيرُ فِيمَا سِوَاهَا

(کتاب السنۃ )

اب قبل اس کے کہ اصل موضوع پر بات کی جائے ۔فورم پر ایک صاحب نے اس واقعہ کا جو ترجمہ یاترجمانی کی ہے وہ دیکھ لیں

( ایک بار مسجد کوفہ میں امام ابن المبارک رحمہ اللہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے ۔ ابن المبارک رحمہ اللہ رفع الیدین کرتے تھے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے نماز سے فارغ ہو کر ابن المبارک رحمہ اللہ سے کہا :

ترفع یدیک فی کل تکبیرۃ کانک ترید ان تطیر

” آپ نماز کی ہر تکبیر ( اس میں تسمیع بھی شامل ہے یعنی رکوع سے اٹھتے وقت ) میں رفع الیدین کرتے ہیں گویا اڑنا اور پرواز کرنا چاہتے ہیں ۔ “

امام ابن المبارک رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے جواب میں کہا :

ان کنت انت تطیر فی الاولیٰ فانی اطیر فیما سواھا

اگر آپ تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرتے ہوئے ارادہ پرواز و اڑان رکھتے ہوں تو میں آپ ہی کی طرح باقی مواقع میں نماز میں پرواز کرنا چاہتا ہوں ۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ امام ابن المبارک رحمہ اللہ کے اس جواب سے اس طرح کی بات رفع الیدین کی بابت کہنے سے ہمیشہ کے لیے خاموش رہے ۔ امام وکیع نے امام ابن المبارک رحمہ اللہ کے اس جواب کی بڑی تحسین و تعریف کی ۔

عبارت تو انہوں نے صرف کتاب السنۃ لعبد اللہ بن احمد بن حنبل کا نقل کیاہے اور ترجمہ میں اپنی جانب سے یہ بڑھادیا ہے کہ

اس جواب اسے طرح کی بات رفع الیدین کی بابت کہنے سے ہمیشہ کیلئے خاموش رہے۔ خاص طور پر یہ لفظ ہمیشہ تو کسی بھی روایت میں نہیں ہے۔جس کی بناء پر یہ بات کہا جائے کہ موصوف نے کسی دوسری کتاب جس کا حوالہ دیاگیاہے اس سے نقل کیا ہو گا۔

قابل ترجیح روایت

اب سوال یہ ہے کہ ان تمام روایات میں سب سے زیادہ قابل قبول روایت کون سی ہوسکتی ہے۔

ایک بات تو یہ ہے کہ ہم امام بخاری کی روایت کو ترجیح دیں لیکن امام بخاری کی عبداللہ بن المبارک سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔لہذا انہوں نے وکیع یا پھر اسحاق بن راہویہ یا پھر کسی دوسرے سے یہ بات سنی ہوگی۔اگر وہ اپنے ماخذ اور مصدر کی صراحت کر دیتے تو ہمارے لئے اندازہ کرناآسان تھا۔

دوسرے طرف اس کے علاوہ بقیہ دیگر محدثین ہیں عبداللہ بن احمد بن حنبل تین واسطوں سے یہ واقعہ نقل کرتے ہیں۔خطیب ابن حبان ،ابن عبدالبر اورزیادہ چار پانچ چھ واسطوں سے یہ روایت نقل کرتے ہیں۔

ہاں صرف ابن قتیبہ ایسے ہیں جو اس کو صرف دو واسطوں یعنی ابن اسحاق اور وکیع سے روایت کرتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سب سے کم واسطوں والی روایت ابن قتیبہ کی ہی ہے۔اور واسطے جتنے زیادہ کم ہوتے ہیں اتنے ہی اس میں غلطیوں کا امکان کم ہوتاہے ورنہ واسطے جتنے زیادہ ہوتے ہیں اس میں حذف و اضافہ کا امکان مزید بڑھ جاتاہے۔اس لحاظ سے دیکھیں تو سب سے کم واسطوں والی روایت ابن قتیبہ کی روایت ہے ۔

وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْحَنْظَلِيُّ، وَهُوَ ابْنُ رَاهَوَيْهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ قَالَ: مَا بَالُهُ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ كُلِّ رَفْعٍ وَخَفْضٍ؟ أَيُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ؟

فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: إِنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ إِذَا افْتَتَحَ، فَإِنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ إِذا خفض وَرفع.

تاویل مختلف الحدیث 1/106

وکیع کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ نے کہا اس شخص کا کیاحال ہے جو ہر اٹھک بیٹھک کے وقت رفع یدین کرتا ہے کیا وہ اڑناچاہتاہے توعبداللہ بن المبارک نے کہاکہ اگر وہ تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرتے ہوئے اڑناچاہتا ہے تووہ دیگر مواقع رفع یدین میں بھی اڑنا چاہتا ہے۔

اس روایت میں نہ امام ابوحنیفہ کی خاموشی کا ذکر ہے ۔ نہ حیرانی کا ذکر ہے اور نہ ولم یقل شیئا مذکور ہے۔ اسی طرح اس روایت میں اس کا بھی اضافہ ہے کہ عبداللہ بن المبارک کی نماز کو دیکھ کر انہوں نے نہیں بلکہ کسی دوسرے فرد کی نماز کو دیکھ کر یہ بات کہی تھی۔

اس طرح اس باب میں تین باتیں ہوگئیں۔

1:عبد اللہ بن المبارک کو رفع یدین کرتے ہوئے دیکھ کر امام ابوحنیفہ نے یہ بات کہی

2:عبداللہ بن المبارک نے امام ابوحنیفہ سے رفع یدین کے تعلق سے سوال کیا تب انہوں نے یہ بات کہی

3:کسی دوسرے شخص کو نماز پڑھتے ہوئے رفع یدین کرتے دیکھ کر امام ابوحنیفہ نے یہ بات کہی

اب بات صرف اتنی ہی رہ جاتی ہے کہ قتیبہ پر جرح وغیرہ کیا گیا ہے لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ اسی کے ساتھ ان کی توثیق بھی ہوئی ہے اور خاص طورپر اس صورت میں جب کہ وہ اس کو ابن اسحق سے روایت کرتے ہیں اور ابن اسحاق سے ان کو خصوصی تعلق تھا۔اور یہ روایت بھی انہوں نے ابن اسحاق سے ہی بیان کیا ہے۔

امام ابوحنیفہ کا رفع یدین کو طیر سے تعبیر کا مقصد کیا تھا؟

دوسری بات یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ نے یہ بات کس طور پر کہی تھی کیا مقصد سنت کا استخفاف تھا یا پھر محض ابن مبارک سے خوش طبعی اوردل لگی تھی جس میں مذاق میں یہ بات کہی گئی۔ہمارے نزدیک امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کی یہ بات محض خوش طبعی کے طور پر تھی۔ اور عبداللہ بن المبارک نے بھی اس کو خوش طبعی سمجھ کر ہی ویساجواب دیا اورپھر عبداللہ بن المبارک کی حاضر جوابی کی تعریف کی۔

ہمارے یہ سمجھنے کی کچھ جوہات ہیں۔

عبد اللہ بن المبارک ابتداء سے ہی امام ابوحنیفہ سے وابستہ تھے اور وہی ان کی ہدایت اور ارتفاع حال کا ذریعہ اورشریک ذریعہ بنے۔

وَعَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: لَوْلا أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَدْرَكَنِي بِأَبِي حَنِيفَةَ وَسُفْيَانَ لَكُنْتُ بِدْعِيًّا "

(مناقب الامام ابی حنیفۃ 30)

عبد اللہ بن المبارک اساتذہ کاحد درجہ ادب و احترام کرتے تھے اوراس کے متعدد واقعات کتابوں میں درج ہیں کہ کس طرح انہوں نے حماد بن زید کی محفل میں طلاب حدیث کی درخواست پر جب حدیث سنائی تو تمام احادیث حماد بن زید کے واسطے سے ہی سنائی۔ اسی طرح سفیان بن عیینہ کی مجلس میں یہ کہہ کر جواب دینے سے منع کردیا کہ ہم کو اکابر کی موجودگی میں کلام کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت امام مالک کی مجلس میں آئے تو اپنے ادب کے ذریعہ ان کو بھی اپنا مداح بنالیا۔

اس کے علاوہ عبداللہ بن المبارک رفع یدین کے سلسلے میں کسی سخت نظریہ کے حامل اور قائل نہ تھے بلکہ عبداللہ بن المبارک تو سفیان ثوری کے شاگردی کے زمانہ میں بھی ترک رفع پر ہی عامل تھے اور وہ رفع یدین کرناچاہتے تھے لیکن ان کو خدشہ لگا رہتا تھا کہ کہیں سفیان منع نہ کردیں لہذا وہ اپنے ارادے سے باز آجاتے لیکن ایک مرتبہ پکا ارادہ کر لیاکہ اب جس چیز کو حق سمجھتا ہوں اس کو کیوں نہ کروں پھر وہ رفع یدین کرنے لگے جس پر سفیان ثوری نے ان کو منع نہیں کیا۔

عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ صَلَّيْتُ إِلَى جَنْبِ سُفْيَانَ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَرْفَعَ يَدَيَّ إِذَا رَكَعْتُ وَإِذَا رَفَعْتُ فَهَمَمْتُ بِتَرْكِهِ وَقُلْتُ يَنْهَانِي سُفْيَانُ ثُمَّ قُلْتُ شَيْءٌ أَدِينُ اللَّهَ بِهِ لَا أَدَعُهُ فَفَعَلْتُ فَلَمْ يَنْهَنِي

(التمہید لابن عبدالبر)

دوسرے یہ غور کیجئے کہ کوفہ وہ شہر ہے جہاں کے تمام افراد ترک رفع پر عامل تھے۔چاہے سفیان ثوری ہوں امام ابوحنیفہ ہوں یاپھر وکیع بن الجراح اس واقعہ کے راوی ہوں سب کے سب ترک رفع یدین پر عامل تھے۔

قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ الْمَرْوَزِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ فِي رَفْعِ الْيَدَيْنِ مِنَ الْكِتَابِ الْكَبِيرِ لَا نَعْلَمُ مِصْرًا مِنَ الْأَمْصَارِ يُنْسَبُ إِلَى أَهْلِهِ الْعِلْمُ قَدِيمًا تَرَكُوا بِإِجْمَاعِهِمْ رَفْعَ الْيَدَيْنِ عِنْدَ الْخَفْضِ وَالرَّفْعِ فِي الصَّلَاةِ إِلَّا أَهْلَ الْكُوفَةِ ۔(تمہید9/213)

لہذا ابن مبارک جن کا علماء و مشائخ کا احترام ضرب المثل ہے وہ اپنے استاد کو جواب دینے میں برابری کا انداز نہیں اپنا سکتے ۔ استاد و شاگرد میں یامعاصرین میں خوش طبعی کی اس طرح کی مثالیں کتابوں میں بہت مل جاتی ہیں۔

قَالَ سَعِيْدُ بنُ مَنْصُوْرٍ: قَدِمَ وَكِيْعٌ مَكَّةَ، وَكَانَ سَمِيْناً، فَقَالَ لَهُ الفُضَيْلُ بنُ عِيَاضٍ: مَا هَذَا السِّمَنُ وَأَنْتَ رَاهِبُ العِرَاقِ?! قَالَ: هَذَا مِنْ فَرَحِي بِالإِسْلاَمِ، فَأَفَحَمَهُ.

سیراعلام النبلاء7/568

سعید بن منصور کہتے ہیں کہ وکیع مکہ آئے (وکیع موٹے تھے) توان سے فضیل بن عیاض نے کہا آپ کو عراق کا راہب(عبادت گزار) کہاجاتا ہے اس کے باوجود یہ موٹاپا (تعجب کی بات ہے)وکیع نے جواب دیا کہ یہ موٹاپن میرے اسلام کی خوشی کی وجہ سے ہے۔تو وکیع نے یہ کہہ کر فضیل بن عیاض کو لاجواب کردیا۔ 

نوٹ: ہوسکتا ہے کہ محض ترجمہ سے بات دوسروں کی سمجھ میں نہ آئے ۔لہذا اس جملہ کی مزید وضاحت کردوں

غم موٹاپا کا دشمن ہے چاہے وہ دین کا غم ہو یا دنیا کا غم ۔تو فضیل بن عیاض کاکہنا یہ تھا کہ آپ کو عراق کا راہب عبادت گزار کہاجاتاہے(اور وکیع تھے بھی ایسے ہی ہمیشہ روزہ رکھتے اورایک رات میں پورا قرآن ختم کرتے تھے) یعنی فکر آخرت آپ پر بہت زیادہ ہے اس کے باوجود یہ موٹاپا کیوں تو وکیع نے جواب دیا کہ فکر آخرت اپنی جگہ لیکن اللہ نے اسلام کی دولت سے نوازا ہے اس کی خوشی ہی اتنی زیادہ ہے کہ دیگر افکار و حزن اس خوشی کے سامنے پھیکے پڑگئے ہیں اوراسی وجہ سے یہ موٹاپا ہے۔


اس میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ کوئی علمی طور پر بات نہیں کی گئی ہے محض خوش طبعی سے فضیل بن عیاض نے ایک بات کہی اور اسی خوش طبعی سے اور ازراہ مزاح وکیع نے جواب دیا اورفضیل بن عیاض کو خاموش کردیا۔

ہمارا کہنا بھی یہی ہے کہ یہی خوش طبعی امام ابوحنیفہ اورعبد اللہ بن المبارک کے سوال جواب میں بھی موجود ہے۔ اوراس کی شہادت اس سے ملتی ہے کہ نہ امام ابوحنیفہ نے ترک رفع کے حق میں دلیل سے بات کہی اورنہ ہی ابن المبارک نے۔ امام ابوحنیفہ نے کثرت رفع یدین کو پرواز سے تعبیر کیا کہ بار بار ہاتھوں کو اٹھا رہے ہیں ایسالگتاہے کہ پرواز کی کوشش کی جارہی ہے اس پر ابن مبارک نے جواب دیاکہ پرواز کی کوشش تو اول مرتبہ کے رفع یدین سے ہی شروع ہوجاتی ہے اور بقیہ رفع یدین اسی پہلے رفع یدین کے اتمام کی کوشش اور تتمہ ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ جو بات خوش طبعی اورمزاح کے طورپر کہی گئی تھی اورجس میں دلیل نام کی کوئی شے خوردبین سے بھی ڈھونڈی نہیں جاسکتی اس میں کفایت اللہ صاحب ترک رفع کے تمام دلائل کا توڑ دیکھ رہے ہیں۔ ویسے انسان جب دل میں ایک خیال قائم کر لے تو ہر چیز اسی کے مطابق دکھنے لگتی ہے۔اگر واقعتا یہ بات ہوتی کہ عبداللہ بن المبارک کے جواب میں ترک رفع کے تمام دلائل کا توڑ موجود ہوتا توپھر خود وکیع کیوں رفع یدین پر عامل نہیں ہوگئے۔ کیاکسی بھی سیرت اور ترجمہ کی کتاب میں اس کا اشارہ ملتاہے کہ وکیع نے کبھی رفع یدین کیاہو ۔اورجب یہ بات ثابت ہے کہ وکیع ترک رفع پر ہی عامل تھے جیساکہ دیگر کوفی حضرات تو پھر وکیع نے ترک رفع کے تمام دلائل کا توڑ ملنے کے باوجود کیوں رفع یدین شروع نہیں کردیا۔ کیا اس بات سے ان کی ثقاہت وعدالت مشتبہ نہیں ہو جائے گی۔

"امام ابو حنیفہ نے یہ بات کس کے متعلق کہی تھی؟​"

امام ابوحنیفہ نے رفع یدین کو پرواز سے تعبیر کیا اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ سوال صرف اتنا تشنہ رہ جاتا ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن المبارک کو رفع یدین کرتے دیکھ کر اس کو پرواز سے تعبیر کیایا پھر کسی تیسرے شخص کو رفع یدین کرتے دیکھ کر اس کو پرواز سے تعبیر کیا۔

اگرکسی تیسرے شخص کی بات ہے تو یہ واضح ہے کہ بسا اوقات عوام الناس حدود شرعی کا خیال نہیں رکھتے۔اور جس چیز کی جتنی حد ہے اس سے بڑھا کر اس کو کرتے ہیں۔ جیساکہ ہم آج بھی دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو کان سے لگاناضروری سمجھتے ہیں کچھ لوگ کاندھوں سے سر تک اونچا کر لیتے ہیں۔ہاتھ باندھنے میں بھی اسی قسم کی بے اعتدالی دیکھنے کو ملتی ہے کچھ لوگ ناف کے نیچے کو مزید نیچے کر دیتے ہیں اورکچھ سیدھے سینے پر ہاتھ باندھتے ہیں اورکچھ لوگ وفور جوش میں سینے سے آگے بھی پہنچ جاتے ہیں تواس قسم کی تمام باتیں حدود شرعی سے متجاوز ہیں اگرکوئی سینے پر ہاتھ باندھنے والے کو یا پھر سینے سے بھی اوپر ہاتھ باندھنے کو کسی چیز سے تعبیر کرتا ہے تویہ تعبیر حدود شرعی سے تجاوز کی ہوگی نہ کہ حدود شرعی کی۔ مثلا ایک شخص انتہائی جلدی جلدی نماز پڑھا رہاہے تواس کو نماز چور کہا جا سکتا ہے تویہ جملہ نماز چور نماز کی توہین نہیں ہے بلکہ نمازی نے غیرشرعی طریقہ پر جو نماز پڑھی ہے اس کو بیان کرنے کیلئے ہے۔

اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ نے اشعار کو مثلہ کہاہے اس کی توجیہہ امام طحاوی نے یہ کی ہے کہ امام ابوحنیفہ نے نفس اشعار کو مثلہ کرنا نہیں کہا ہے کیونکہ وہ تو سنت ہے لیکن لوگوں نے اس میں جو بے اعتدالیاں شروع کردی تھیں اس کو انہوں نے مثلہ سے تعبیر کیاہے۔

یہی توجیہہ ہم یہاں بھی کرنا چاہیں گے کہ امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ والرضوان نے مذکورہ شخص کو جب رفع یدین میں بے اعتدالی کرتے دیکھا تو اس کو طیر یعنی پرواز سے تعبیر کیا۔عبداللہ بن المبارک نے اس پر کہا کہ یہ پرواز تو اس نے تکبیر تحریمہ سے ہی شروع کررکھا ہے۔ اگراس تناظر میں اس کو دیکھا جائے تو نہ کسی طنز کی بات ہے نہ تعریض کی بات ہے اور نہ ہی کسی چھینٹا کشی کی بات ہے بلکہ عبداللہ بن المبارک کی یہ بات امام ابوحنیفہ کی محض تائید و توثیق ہی ثابت ہوتی ہے۔

اوراگر بات یہ ہو کہ امام ابوحنیفہ نے عبد اللہ بن المبارک کو رفع یدین کرتے دیکھ کر یہ بات کہی تھی جیسا کہ کچھ روایات میں مذکور ہے توبھی اس سلسلے میں یہ واضح رہے عبداللہ بن المبارک ابتداء میں رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔رفع یدین کرنے کا داعیہ پیدا ہوتا تھا لیکن اس خوف سے کہ سفیان ثوری منع کریں گے وہ رک جاتے تھے لیکن بعد میں یہ سوچ کر کہ جس چیز کو میں حق سمجھتا ہوں اس کو کیوں نہ کروں۔ انہوں نے رفع یدین کرنا شروع کردیا۔ اورسفیان ثوری نے ان کو منع نہیں کیا کیونکہ ظاہر سی بات ہے کہ رفع یدین کرنا نہ کرنا افضیلت کی بات ہے ۔ کفر و اسلام کا معرکہ تو نہیں ہے۔ہو سکتا ہے کہ اسی رفع یدین کے ابتداء کے بعد انہوں نے پہلی مرتبہ امام ابوحنیفہ کے سامنے نماز پڑھ کررفع یدین کیاہو اور جب انسان کسی چیز کو ابتداء میں کرتا ہے تو اس کی حدود کو ملحوظ نہیں رکھ پاتا۔اوراکثر و بیشتر اس سے بے اعتدالی اس سے ہوجاتی ہے۔


کبھی بے اعتدالی کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ہاتھوں کو جتنا اورجیسا اٹھانا چاہئے اس سے کم یا زیادہ اٹھاتاہے اور کبھی بے اعتدالی کی صورت یہ ہوتی ہے کہ رفع یدین جتنے اورجیسے مقامات پر کرنے چاہئے اس سے بھی زیادہ مقامات پر رفع یدین کرناشروع کردے۔

اس مقام پر کون سی بات ہوئی تھی ۔جہاں تک مجھے لگتاہے کہ انہوں نے تکبیر تحریمہ رکوع میں جاتے ہوئے اوررکوع سے اٹھتے ہوئے کے علاوہ دیگر تکبرات کے مواقع پر بھی رفع یدین شروع کیا تھا جیسا کہ اس کا اشارہ امام ابوحنیفہ کے جملہ

ترفع یدیک فی کل تکبیرۃ کانک ترید ان تطیر

(کتاب السنۃ)

تَرْفَعُ يَدَيْكَ فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ

(جزء رفع الیدین)

مَا بَالُهُ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ كُلِّ رَفْعٍ وَخَفْضٍ 

(تاویل مختلف الحدیث)

سے بھی ملتا ہے کہ انہوں نے مطلقا رفع یدین نہیں بلکہ رفع یدین کی کثرت کی جانب بات کی ہے کہ ہر تکبیر کے ساتھ رفع کیا جا رہا ہے اور ہر اٹھتے بیٹھے وقت رفع یدین ہو رہا ہے اسی کو انہوں نے شاید طیر سے تعبیر کیاہے۔ ہر اٹھتے بیٹھے وقت رفع یدین کرنا بعض محدثین کا مسلک بھی رہاہے۔ ایسالگتا ہے کہ ابتداء میں عبداللہ بن المبارک نے ہر مقام پر رفع یدین شروع کیا تھا جس کو دیکھ کر امام ابوحنیفہ نے طیر سے تعبیر کیا۔

واضح رہے کہ رفع یدین میں بے اعتدالی اورمستحقہ مقام کے علاوہ رفع یدین کو حدیث میں اذناب خیل شموس سے بھی تعبیر کیا گیا ہے یعنی سرکش گھوڑوں کی دم سے۔ ابن عبدالبر اس سلسلے میں لکھتے ہیں۔

وَقَدِ احْتَجَّ بَعْضُ الْمُتَأَخِّرِينَ لِلْكُوفِيِّينَ وَمَنْ ذَهَبَ مَذْهَبَهُمْ فِي رَفْعِ الْيَدَيْنِ بِمَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بن عُلَيَّةَ الْقَاضِي بِدِمَشْقَ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ اثْنَتَيْنِ وَسِتِّينَ وَمِائَتَيْنِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ الضَّرِيرُ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم مالي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيَكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلِ شَمْسٍ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ وَهَذَا لَا حُجَّةَ فِيهِ لِأَنَّ الَّذِي نَهَاهُمْ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ الَّذِي كَانَ يَفْعَلُهُ لِأَنَّهُ مُحَالٌ أَنْ يَنْهَاهُمْ عَمَّا سَنَّ لَهُمْ وَإِنَّمَا رَأَى أَقْوَامًا يَعْبَثُونَ بِأَيْدِيهِمْ وَيَرْفَعُونَهَا فِي غَيْرِ مَوَاضِعِ الرَّفْعِ فَنَهَاهُمْ عَنْ ذَلِكَ وَكَانَ فِي الْعَرَبِ الْقَادِمِينَ وَالْأَعْرَابِ مَنْ لَا يَعْرِفُ حُدُودَ دِينِهِ فِي الصَّلَاةِ وَغَيْرِهَا وَبَعَثَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعَلِّمًا فَلَمَّا رَآهُمْ يَعْبَثُونَ بِأَيْدِيهِمْ فِي الصَّلَاةِ نَهَاهُمْ وَأَمَرَهُمْ بِالسُّكُونِ فِيهَا

(التمہید 9/222)

لہذا اگر امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ والرضوان نے رفع یدین میں بے اعتدالی کو دیکھ کر اس کو طیر سے تعبیر کیا تو یہ بھی ایک لحاظ سے حدیث کی ہی موافقت ہوئی ہے۔جیساکہ حدیث میں رفع یدین میں بے اعتدالی کو" سرکش گھوڑوں کی دموں" سے تعبیر کیا گیا ہے۔

یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ امام ابوحنیفہ نے جس چیز کو طیر سے تعبیر کیاہے وہ نفس رفع یدین نہیں بلکہ کثرت رفع یدین ہے۔ جس کو بیشتر محدثین حضرات منسوخ یا حدیث ابن عمر سے مرجوح مانتے ہیں لہذا اگر منسوخ چیز پر عمل کرنے کو امام ابوحنیفہ نے طیر سے تعبیر کر دیا تواس میں شور مچانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

یہاں تک تو ہماری بحث اس بات پر تھی کہ اس روایت کا کیا مطلب نکل سکتا ہے اور امام ابوحنیفہ کے قول کا کیا محمل اور پہلو ہے۔

تفصیلی جواب قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 56 ، 89  میں دیکھ سکتے ہیں۔


ـــــــــــــــــــــــــــــــ۔ــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 08: قاضی عیاض مالکی (القاضي عياض بن موسى اليحصبي (المتوفى: 544هـ) ) نے لکھا ہے:

من أهل المشرق  -عبد الله بن المبارك

قال الشيرازي(أبو اسحاق إبراهيم   الشيرازي المتوفى476 هـ.

 ) تفقه بمالك والثوري، وكان أولاً من أصحاب أبي حنيفة ثم تركه ورجع عن مذهبه. قال ابن وضاح: ضرب آخراً في كتبه على أبي حنيفة ولم يقرأه للناس.

(ترتيب المدارك وتقريب المسالك)

سب یعنی شافعیوں کے شیخ ابو اسحاق شیرازی نے فرمایا ہے امام عبداللہ ابن المبارک نے امام مالک اور ثوری سے فقہ حاصل کیا اور ابتداء میں ابو حنیفہ کے اصحاب میں سے تھے، اور پھر انہیں چھوڑ دیا اور انکے مذہب سے رجوع کرلیا ، محمد بن وضاع قرطبی نے کہا ا نہوں نے اپنی کتابوں میں سے ابو حنیفہ کی روایات قلم زر کردیا تھا اور انہیں لوگوں کو سناتے بھی نہیں تھے۔

جواب : 

شافعی مقلد کا بے سند قول خصوصا غیر مقلدوں کیلئے کس طرح حجت بن سکتا ہے ، ہاں چونکہ کوئی صحیح روایت غیر مقلدوں کے پاس تھی ہی نہیں ، اس لئے انہوں نے قاضی عیاض کے حوالے سے لکھا۔

گر قول مقلد ہی کا ماننا ہے تو امام ابو الولید  باجی رحمہ اللہ نے تو امام عبداللہ بن مبارک کو اصحاب ابو حنیفہ کے تعلق سے لکھا ہے 

قَالَ الْقَاضِي أَبُو الْوَلِيدِ  وَعِنْدِي أَنَّ هَذِهِ الرِّوَايَةَ غَيْرُ صَحِيحَةٍ عَنْ مَالِكٍ؛ لِأَنَّ مَالِكًا  عَلَى مَا يُعْرَفُ مِنْ عَقْلِهِ وَعِلْمِهِ وَفَضْلِهِ وَدِينِهِ وَإِمْسَاكِهِ عَنْ الْقَوْلِ فِي النَّاسِ إلَّا بِمَا يَصِحُّ عِنْدَهُ وَثَبَتَ لَمْ يَكُنْ لِيُطْلِقَ عَلَى أَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ مَا لَمْ يَتَحَقَّقْهُ وَمِنْ أَصْحَابِ أَبِي حَنِيفَةَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَقَدْ شُهِرَ إكْرَامُ مَالِكٍ لَهُ وَتَفْضِيلُهُ إيَّاهُ،

المنتقى شرح الموطإ ، أبو الوليد الباجي جلد 7 صفحہ 300

جب کہ عبداللہ بن مبارک سے ترک والے موضوع پر اوپر بیان ہو چکا ہے


ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، 

 جلیل القدر محدث و فقیہ  امیر المومنین فی الحدیث امام عبد اللہ  ابن  مبارک  رحمۃ اللہ علیہ 

  کی نظر میں


 

بسم اللہ الرحمن الرحیم


 امام عبد اللہ ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ جو خود امیر المومنین فی الحدیث ہیں، جو خود جلیل القدر محدث 

و فقیہ ہیں، لیکن اس کے باوجود امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی بہت زیادہ تعریف کرنے والے ہیں۔ 


آپ کی شان دنیا کے سامنے لانے والے ہیں، آپ کی تعریف بھی کرتے ہیں اور اعتراض کرنے 

والوں کو جواب بھی دیتے ہیں… یہاں آپ لوگوں کی خدمت میں کچھ حوالہ جات پیش کر رہے ہیں،  جس سے امام عبداللہ ابن مبارک رحمہ اللہ کی نظر میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی حیثیت واضح ہو  جاتی ہے۔

 امام عبد اللہ ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:


1:- حدثني أبي قال: حدثني أبي قال: حدثني محمد بن أحمد بن حماد قال: حدثني أحمد بن القاسم قال: حدثني ابن أبي رزمة، عن عبدان قال: سمعت عبد الله بن المبارك يقول: إذا سمعتهم يذكرون أبا حنيفة بسوء ساءني ذلك، وأخاف عليهم المقت من الله عز وجل

جب یہ لوگ (جو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض کرتے ہیں) امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا 

تذکرہ برائی سے کرتے ہیں تو مجھے تکلیف ہوتی ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ امام صاحب رحمہ اللّٰہ کی 

مخالفت کرنے کی وجہ سے ان لوگوں پر کہیں اللہ کا عذاب نازل ہی نا جائے 

(فضائل ابی حنیفہ رحمہ  اللہ 76 سند صحیح)


سند کی تحقیق:

1:-محمد بن احمد بن حماد یعنی ابو بشر دولابی رحمہ اللّٰہ ثقہ ہیں ۔ جیسا کہ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کے قول سے واضح ہوتا ہے...

 2:-احمد بن قاسم البرطی بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا (تاریخ بغداد 575/5) 

 3:-(محمد) ابن ابی رزمہ بھی ثقہ ہے جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔  (الکاشف 216)

 4:-عبدان یعنی عبد اللہ ابن عثمان رحمہ اللّٰہ بھی ثقہ ہے جیسا کہ امام ذہبی نے کہا ہے (تاریخ الاسلام 605/5)۔

 

معلوم ہوا اس کی سند صحیح ہے…

 

 

2:-أخبرنا أبو نعيم الحافظ، حدثنا محمد بن إبراهيم بن علي، حدثنا أبو عروبة الحراني قال: سمعت سلمة بن شبيب يقول: سمعت عبد الرزاق يقول: سمعت ابن المبارك يقول: إن كان أحد ينبغي له أن يقول برأيه، فأبو حنيفة ينبغي له أن يقول برأيه.


 اگر کسی مسئلہ میں اپنی رائے سے کچھ کہنے کا حق ( اگر کسی کو ہو تو ) تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللّٰہ 

اس کے اہل (حقدار) ہیں ۔ (تاریخ بغداد)

 

 سند کی تحقیق:-

1:- امام ابو نعیم اصبہانی رحمۃ اللہ علیہ ثقہ ہیں ۔ جیسا کہ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا (سیراعلام النبلاء 453/17)

 2:-محمد بن ابراہیم بن علی رحمہ اللّٰہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ابو نعیم رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے (تاریخ اصبہان 267/2) 

 3:- ابو عروبہ الحرانی رحمہ اللّٰہ نے بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا (تاریخ الاسلام 339/7)

4:-سلمہ بن شبیب رحمہ اللّٰہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللّٰہ نے فرمایا ہے (سیراعلام النبلاء 256/12)

 5:- امام عبد الرزاق رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا (تقریب التہذیب 607)

 

معلوم ہوا کہ اس کی سند صحیح ہے۔




3:- حدثني أبي قال: حدثني أبي قال: حدثني محمد بن جعفر بن أعين قال: سمعت يعقوب بن شيبة يقول: حدثني إسحاق بن أبي إسرائيل قال: سمعت عبد الرزاق يقول: قال عبد الله بن المبارك: إن كان إلى الرأي فهو أشهدهم رأياً يعني: النعمان بن ثابت.


 اگر رائے (اجتہاد) کی بات ہو تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سب سے مضبوط رائے والے ہیں۔

 (فضائل ابی حنیفہ رح  ,  صفحہ  84 , سندہ صحیح)

 

سند کی تحقیق:

 1:-محمد بن جعفر بن اعین ثقہ ہے جیسا کہ امام ذہبی نے بیان کیا ہے (تاریخ الاسلام 1018/6)۔

 2:- یعقوب بن شیبہ رحمہ اللّٰہ ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللّٰہ نے فرمایا (تاریخ الاسلام 451/6) 

 3: اسحاق بن ابی اسرائیل رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے (تاریخ الاسلام 1084/5)

 4:- امام عبد الرزاق بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا (تقریب التہذیب صفحہ 607)

 معلوم ہوا کہ اس کی سند صحیح ہے۔

  

 4:- حدثني أبي قال: حدثني أبي قال: حدثني محمد بن أحمد بن حماد قال: حدثني أحمد بن القاسم البرتي قال: حدثني أبو حفص المروزي قال: سمعت علي بن الحسن بن شقيق يقول: قال عبد الله بن المبارك: قول أبي حنيفة عندنا أثر إذا لم يكن فيه أثر


امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول (اثر) ہمارے ہاں (صحابہ رضی اللہ عنہم کے) اثر کی طرح ہے (جب کوئی  حدیث یا صحابی رضی اللہ عنہ کا اثر نہ ہو)

 (فضائل ابی حنیفہ رحمہ اللہ,  صفحہ 84, اسنادہ صحیح)

 


سند کی تحقیق:

1:- ابوبشر دولابی رحمہ اللہ کی توثیق گزر چکی ہے۔

2:-احمد بن قاسم البرطی رحمۃ اللہ علیہ کا توثیق بھی گذر چکی ہے۔

-:3 ابو حفص مروزی رحمہ اللہ سےیہاں مراد اگر عمر بن احمد بن علی رحمہ اللّٰہ ہیں تو یہ ثقہ ہیں جیسا کہ امام  ذہبی رحمہ اللّٰہ نے فرمایا سیراعلام النبلاء 243/15)

 اور اگر ابو حفص مروازی رحمہ اللّٰہ سے یہاں مراد عمرو بن صالح رحمہ اللّٰہ ہیں تو یہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ابن حبان رحمہ اللّٰہ نے ثقات میں نقل کرنے کے ساتھ اپنی صحیح میں روایات لی ہیں اور امام شعیب الارناوط رحمۃ اللہ علیہ اور البانی رحمہ اللہ نے بھی ان کی احادیث کو صحیح کہا ہے جو ان کے ثقہ ہونے کی دلیل ہے۔

4-علی بن حسن بن شقیق رحمہ اللّٰہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ابن حجر رحمہ اللّٰہ نے فرمایا (تقریب التہذیب  صفحہ 692)

 

 

 

معلوم ہوا کہ سند صحیح ہے

 

 


5:-حدثني أبي قال: حدثني أبي قال: حدثني محمد بن أحمد بن حماد قال: حدثني أحمد بن القاسم البرتي قال: حدثني ابن أبي رزمة قال: سمعت أبا الوزير محمد بن أعين قال: سمعت عبد الله بن المبارك يقول: قرب أبو حنيفة للدنيا، وعرضت عليه خزائن الأرض فأبى، فطلب على القضاء حتى ضُرب أحد عشر أو اثني عشر سوطاً فأبى.


 

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو دنیا کے نزدیک لے جایا گیا اور ان پر زمین کے خزانے پیش کیے گئے 

اور ان  کو (منصب) قضاء (قاضی بننے) کے لئے طلب کیا گیا۔ حتی کہ ان کو گیارہ 11 یا بارہ 12 

کوڑے لگائے  گئے ۔لیکن انھوں نے (ان سب کے لئے ) انکار کر دیا.

 (فضائل ابی حنیفہ رحمہ اللّٰہ ,   صفحہ 70)

 

 

سند کی تحقیق:

1:-امام ابو بشر دولابی رحمۃ اللہ علیہ کی توثیق گزر چکی۔

2:- احمد بن قاسم البرطی رحمۃ اللہ علیہ کا توثیق بھی گزر چکی ہے

 3:- ابن ابی رزمہ رحمہ اللّٰہ کی توثیق بھی بیان کر چکے ہیں۔


 4:-


 محمد بن اعین رحمہ اللّٰہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ابن حجر رحمہ اللّٰہ نے فرمایا ہے (تقریب التہذیب صفحہ 


827)

 

 

معلوم ہوا کہ سند صحیح ہے ۔




6:نَا عبد الوارث بْنُ سُفْيَانَ قَالَ نَا قَاسِمُ بْنُ أَصْبَغَ قَالَ نَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي خَيْثَمَةَ 

قَالَ نَا الْوَلِيدُ بْنُ  شُجَاعٍ قَالَ نَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ كَانَ عبد الله بْنُ الْمُبَارَكِ يَقُولُ إِذَا اجْتَمَعَ هَذَانِ عَلَى  شئ فَتَمَسَّكْ بِهِ يَعْنِي الثَّوْرِيَّ وَأَبَا حَنِيفَةَ



- جب دو آدمی کسی بات پر متفق ہو جائیں تو اسے مضبوطی سے تھام لو .. امام ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کی مراد امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ تھے



( الانتقاء سندہ صحیح,   صفحہ 206 )

 

 

تحقیق سند:-

 1:-  عبدالوارث بن سفیان رحمہ اللّٰہ ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا ہے ( سیر اعلام النبلاء  84/17)

2:- قاسم بن اصبغ رحمہ اللّٰہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ابن عماد حنبلی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے (شذرات الذھب  220/4)

3:- ابوبکر بن ابی خیثمہ رحمہ اللّٰہ یعنی احمد بن زہیر بن حرب رحمہ اللّٰہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا (تاریخ الاسلام 481/6)۔  

4:- ولید بن شجاع بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا (تقریب التہذیب صفحہ 1038)۔

5:- علی بن حسن بن شقیق رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے۔

(تقریب التہذیب صفحہ 692)

معلوم ہوا کہ سند صحیح ہے ۔


 

 

7:- أخبرني أبو القاسم الأزهري، حدّثنا عَبْد الرَّحْمَن بْن عُمَر الخلال، حَدَّثَنَا مُحَمَّد ابن أحمد بن يعقوب، حَدَّثَنَا جدي قال: أملى علي بعض أصحابنا أبياتا مدح بها عبد الله بن المبارك أبا حنيفة:

رأيت أبا حنيفة كل يوم ... يزيد نبالة ويزيد خيرا

وينطق بالصواب ويصطفيه ... إذا ما قال أهل الجور جورا

يقايس من يقايسه بلب ... فمن ذا يجعلون له نظيرا

كفانا فقد حماد وكانت ... مصيبتنا به أمرا كبيرا

فرد شماتة الأعداء عنا ... وأبدى بعده علما كثيرا

رأيت أبا حنيفة حين يؤتى ... ويطلب علمه بحرا غزيرا

إذا ما المشكلات تدافعتها ... رجال العلم كان بها بصيرا


 


میں نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا ہے کہ روزانہ ان کی سمجھ داری اوربھلائی میں اضافہ 


ہی  ہوتا  جا رہا ہے، وہ ثواب والی باتیں کرتے ہیں۔ آگے فرماتے ہیں کہ جب امام ابو حنیفہ 


رحمہ اللّٰہ کو ان  کے  استاد امام حماد رحمہ اللہ کے منصب پر لایا گیا تھا تو ان کے علم کو ٹھاٹھیں 


مارتا  سمندر سمجھا گیا



(تاریخ بغداد  سندہ  صحیح 15/479)

 

 

تحقیق سند:-

 1:- ابوالقاسم الازہری رحمہ اللہ ثقہ ہیں جیسا کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے  (تاریخ بغداد 120/12)

2:- عبدالرحمٰن بن عمر الخلال رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے فرمایا (تاریخ بغداد 608/11)

3:-  محمد بن احمد بن یعقوب رحمہ اللہ ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نقل فرمایا (تاریخ الاسلام 


648/6 ) 


4:-


یعقوب بن شیبہ رحمہ اللہ کی توثیق گزر چکی ہے۔

 


اگرچہ اس سند میں امام ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے اصحاب (اساتذہ) کا نام نہیں لیا گیا لیکن امام  ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے اصحاب ثقہ اور صدوق ہیں جیسے حسن بن ربیع  رحمہ اللہ ، علی بن حسن  بن شقیق  رحمہ اللہ ، عمر بن بشر رحمہ اللہ ، عبدالرحمٰن بن علقمہ رحمہ اللہ ، حاتم بن یوسف رحمہ اللہ وغیرہ… اس کے علاوہ الانتقاء میں بھی شاگرد کی وضاحت ہے، جہاں امام ابن مبارک رحمہ اللہ سے یہ قول حسن بن ربیعہ رحمہ اللہ  نقل کرتے ہیں  جو ثقہ ہیں۔ اگرچہ اس سند کے محمد بن محمد بن شبور کےحالات ہمیں نہیں ملے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ محمد بن احمد بن یعقوب رحمہ  اللہ کی متابعت کر رکھی ہے ۔


غرض یہ سند صحیح ہے ۔

 

 

 

 

8:-أخبرنا الخلال، أخبرنا الحريري أن النخعي حدثهم قال: حدثنا محمد بن علي بن عفان، حدثنا أبو كريب قال: سمعت عبد الله بن المبارك يقول:

وأخبرني محمد بن أحمد بن يعقوب، أخبرنا محمد بن نعيم الضبي، حدثنا أبو سعيد محمد بن الفضل المذكر، حدثنا أبو عبد الله محمد محمد بن سعيد المروزي، حدثنا أبو حمزة - يعني ابن حمزة - قال: سمعت أبا وهب محمد بن مزاحم يقول: سمعت عبد الله بن المبارك يقول: رأيت أعبد الناس، ورأيت أورع الناس، ورأيت أعلم الناس، ورأيت أفقه الناس، فأما أعبد الناس فعبد العزيز بن أبي رواد، وأما أورع الناس فالفضيل بن عياض، وأما أعلم الناس فسفيان الثوري، وأما أفقه الناس فأبو حنيفة، ثم قال: ما رأيت في الفقه مثله.



 میں نے سب سے زیادہ فقاہت رکھنے والا دیکھا ہے، سب سے زیادہ فقاہت رکھنے والے امام 


ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ ہیں .. میں نے ان جیسا فقاہت  وا لا نہیں دیکھا... ( تاریخ بغداد 469/15 )

 

 

 


سند کی تحقیق:-

1:-امام حسن بن محمد الخلال رحمہ اللہ ثقہ ہیں جیساکے امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فمیہ (تاریخ بغداد 


453/8 )

 

 2 :- علی بن عمرو الحریری رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے پڑھایا ہے (تاریخ  بغداد 470/13 )

3:- علی بن محمد بن الحسن رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاہے  (تاریخ بغداد 540/13 ) 

4:- محمد بن علی بن عفان رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے (سیر اعلام النبلاء 27/13 )

5:-  ابو کریب رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا (سیر اعلام النبلاء 394/11)

 


 معلوم ہوا سند صحیح ہے۔

 

 

9:-قَالَ أَبُو يَعْقُوبَ وَأنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يَعْقُوبَ إِجَازَةً قَالَ نَا جَدِّي قَالَ نَا مُحَمَّد بن مُسلم قَالَ سَمِعت اسماعيل ابْن دَاوُد يَقُول كَانَ ابْن الْمُبَارك يذكر عَن أَبى حنيفَة كل خير ويزكيه ويقرضه ويثنى عَلَيْهِ وَكَانَ أَبُو الْحسن الفزازى يَكْرَهُ أَبَا حَنِيفَةَ وَكَانُوا إِذَا اجْتَمَعُوا لَمْ يجترىء ابو اسحق أَنْ يَذْكُرَ أَبَا حَنِيفَةَ بِحَضْرَةِ ابْنِ الْمُبَارَكِ بشئ


امام ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ جب امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ کرتے ذکر آپکی ہر خوبی کا 

ذکر  کرتے اور  آپکی خوب توثیق اور تعریف  کرتے جبکہ ابو اسحاق فزاری رحمۃ اللہ علیہ امام ابو 

حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو پسند نہیں کرتے تھے ۔ لیکن جب یہ لوگ اکھٹے ہوتے تو  ابو اسحاق فزاری 

کی جرات نہیں ہوتی تھی  کہ وہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی کوئی برائی بیان کریں ۔

 
(الانتقاء۔ سند میں کوئی خرابی نہیں  
ہے )


 سند کی تحقیق:-

 1:- محمد بن احمد بن یعقوب رحمہ اللہ کی توثیق بیان کی جا چکی ہے .

2:- یعقوب بن شیبہ رحمہ اللہ کی توثیق بیان کی جا چکی ہے ۔


 3:- محمد بن مسلم رحمہ اللہ ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے نقل فرمایا۔ (تاریخ الاسلام 


 423/6 )  

4:- اسماعیل بن داؤد الجوزی رحمہ اللہ بھی مقبول درجہ کے عالم ہیں، جماعت ثقہ نے ان سے  روایت کی  ہے اور امام ابن عدی رحمہ اللہ نے ان کا علم ہوتے ہوئے بھی  ان کا تذکرہ اپنی کتاب الکامل میں  نہیں کیا،جو  امام ابن عدی رحمہ اللہ کے نزدیک ان کے ثقہ ہونے کی دلیل ہے ۔

 



معلوم ہوا سند صحیح ہے۔ 

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...