نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، جلیل القدر محدث و فقیہ امیر المومنین فی الحدیث امام عبد اللہ ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، 

 جلیل القدر محدث و فقیہ  امیر المومنین فی الحدیث امام عبد اللہ  ابن  مبارک  رحمۃ اللہ علیہ 

  کی نظر میں


 

بسم اللہ الرحمن الرحیم


 امام عبد اللہ ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ جو خود امیر المومنین فی الحدیث ہیں، جو خود جلیل القدر محدث 

و فقیہ ہیں، لیکن اس کے باوجود امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی بہت زیادہ تعریف کرنے والے ہیں۔ 


آپ کی شان دنیا کے سامنے لانے والے ہیں، آپ کی تعریف بھی کرتے ہیں اور اعتراض کرنے 

والوں کو جواب بھی دیتے ہیں… یہاں آپ لوگوں کی خدمت میں کچھ حوالہ جات پیش کر رہے ہیں،  جس سے امام عبداللہ ابن مبارک رحمہ اللہ کی نظر میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی حیثیت واضح ہو  جاتی ہے۔

 امام عبد اللہ ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:


1:- حدثني أبي قال: حدثني أبي قال: حدثني محمد بن أحمد بن حماد قال: حدثني أحمد بن القاسم قال: حدثني ابن أبي رزمة، عن عبدان قال: سمعت عبد الله بن المبارك يقول: إذا سمعتهم يذكرون أبا حنيفة بسوء ساءني ذلك، وأخاف عليهم المقت من الله عز وجل

جب یہ لوگ (جو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض کرتے ہیں) امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا 

تذکرہ برائی سے کرتے ہیں تو مجھے تکلیف ہوتی ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ امام صاحب رحمہ اللّٰہ کی 

مخالفت کرنے کی وجہ سے ان لوگوں پر کہیں اللہ کا عذاب نازل ہی نا جائے 

(فضائل ابی حنیفہ رحمہ  اللہ 76 سند صحیح)


سند کی تحقیق:

1:-محمد بن احمد بن حماد یعنی ابو بشر دولابی رحمہ اللّٰہ ثقہ ہیں ۔ جیسا کہ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کے قول سے واضح ہوتا ہے...

 2:-احمد بن قاسم البرطی بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا (تاریخ بغداد 575/5) 

 3:-(محمد) ابن ابی رزمہ بھی ثقہ ہے جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔  (الکاشف 216)

 4:-عبدان یعنی عبد اللہ ابن عثمان رحمہ اللّٰہ بھی ثقہ ہے جیسا کہ امام ذہبی نے کہا ہے (تاریخ الاسلام 605/5)۔

 

معلوم ہوا اس کی سند صحیح ہے…

 

 

2:-أخبرنا أبو نعيم الحافظ، حدثنا محمد بن إبراهيم بن علي، حدثنا أبو عروبة الحراني قال: سمعت سلمة بن شبيب يقول: سمعت عبد الرزاق يقول: سمعت ابن المبارك يقول: إن كان أحد ينبغي له أن يقول برأيه، فأبو حنيفة ينبغي له أن يقول برأيه.


 اگر کسی مسئلہ میں اپنی رائے سے کچھ کہنے کا حق ( اگر کسی کو ہو تو ) تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللّٰہ 

اس کے اہل (حقدار) ہیں ۔ (تاریخ بغداد)

 

 سند کی تحقیق:-

1:- امام ابو نعیم اصبہانی رحمۃ اللہ علیہ ثقہ ہیں ۔ جیسا کہ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا (سیراعلام النبلاء 453/17)

 2:-محمد بن ابراہیم بن علی رحمہ اللّٰہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ابو نعیم رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے (تاریخ اصبہان 267/2) 

 3:- ابو عروبہ الحرانی رحمہ اللّٰہ نے بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا (تاریخ الاسلام 339/7)

4:-سلمہ بن شبیب رحمہ اللّٰہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللّٰہ نے فرمایا ہے (سیراعلام النبلاء 256/12)

 5:- امام عبد الرزاق رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا (تقریب التہذیب 607)

 

معلوم ہوا کہ اس کی سند صحیح ہے۔




3:- حدثني أبي قال: حدثني أبي قال: حدثني محمد بن جعفر بن أعين قال: سمعت يعقوب بن شيبة يقول: حدثني إسحاق بن أبي إسرائيل قال: سمعت عبد الرزاق يقول: قال عبد الله بن المبارك: إن كان إلى الرأي فهو أشهدهم رأياً يعني: النعمان بن ثابت.


 اگر رائے (اجتہاد) کی بات ہو تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سب سے مضبوط رائے والے ہیں۔

 (فضائل ابی حنیفہ رح  ,  صفحہ  84 , سندہ صحیح)

 

سند کی تحقیق:

 1:-محمد بن جعفر بن اعین ثقہ ہے جیسا کہ امام ذہبی نے بیان کیا ہے (تاریخ الاسلام 1018/6)۔

 2:- یعقوب بن شیبہ رحمہ اللّٰہ ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللّٰہ نے فرمایا (تاریخ الاسلام 451/6) 

 3: اسحاق بن ابی اسرائیل رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے (تاریخ الاسلام 1084/5)

 4:- امام عبد الرزاق بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا (تقریب التہذیب صفحہ 607)

 معلوم ہوا کہ اس کی سند صحیح ہے۔

  

 4:- حدثني أبي قال: حدثني أبي قال: حدثني محمد بن أحمد بن حماد قال: حدثني أحمد بن القاسم البرتي قال: حدثني أبو حفص المروزي قال: سمعت علي بن الحسن بن شقيق يقول: قال عبد الله بن المبارك: قول أبي حنيفة عندنا أثر إذا لم يكن فيه أثر


امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول (اثر) ہمارے ہاں (صحابہ رضی اللہ عنہم کے) اثر کی طرح ہے (جب کوئی  حدیث یا صحابی رضی اللہ عنہ کا اثر نہ ہو)

 (فضائل ابی حنیفہ رحمہ اللہ,  صفحہ 84, اسنادہ صحیح)

 


سند کی تحقیق:

1:- ابوبشر دولابی رحمہ اللہ کی توثیق گزر چکی ہے۔

2:-احمد بن قاسم البرطی رحمۃ اللہ علیہ کا توثیق بھی گذر چکی ہے۔

-:3 ابو حفص مروزی رحمہ اللہ سےیہاں مراد اگر عمر بن احمد بن علی رحمہ اللّٰہ ہیں تو یہ ثقہ ہیں جیسا کہ امام  ذہبی رحمہ اللّٰہ نے فرمایا سیراعلام النبلاء 243/15)

 اور اگر ابو حفص مروازی رحمہ اللّٰہ سے یہاں مراد عمرو بن صالح رحمہ اللّٰہ ہیں تو یہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ابن حبان رحمہ اللّٰہ نے ثقات میں نقل کرنے کے ساتھ اپنی صحیح میں روایات لی ہیں اور امام شعیب الارناوط رحمۃ اللہ علیہ اور البانی رحمہ اللہ نے بھی ان کی احادیث کو صحیح کہا ہے جو ان کے ثقہ ہونے کی دلیل ہے۔

4-علی بن حسن بن شقیق رحمہ اللّٰہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ابن حجر رحمہ اللّٰہ نے فرمایا (تقریب التہذیب  صفحہ 692)

 

 

 

معلوم ہوا کہ سند صحیح ہے

 

 


5:-حدثني أبي قال: حدثني أبي قال: حدثني محمد بن أحمد بن حماد قال: حدثني أحمد بن القاسم البرتي قال: حدثني ابن أبي رزمة قال: سمعت أبا الوزير محمد بن أعين قال: سمعت عبد الله بن المبارك يقول: قرب أبو حنيفة للدنيا، وعرضت عليه خزائن الأرض فأبى، فطلب على القضاء حتى ضُرب أحد عشر أو اثني عشر سوطاً فأبى.


 

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو دنیا کے نزدیک لے جایا گیا اور ان پر زمین کے خزانے پیش کیے گئے 

اور ان  کو (منصب) قضاء (قاضی بننے) کے لئے طلب کیا گیا۔ حتی کہ ان کو گیارہ 11 یا بارہ 12 

کوڑے لگائے  گئے ۔لیکن انھوں نے (ان سب کے لئے ) انکار کر دیا.

 (فضائل ابی حنیفہ رحمہ اللّٰہ ,   صفحہ 70)

 

 

سند کی تحقیق:

1:-امام ابو بشر دولابی رحمۃ اللہ علیہ کی توثیق گزر چکی۔

2:- احمد بن قاسم البرطی رحمۃ اللہ علیہ کا توثیق بھی گزر چکی ہے

 3:- ابن ابی رزمہ رحمہ اللّٰہ کی توثیق بھی بیان کر چکے ہیں۔


 4:-


 محمد بن اعین رحمہ اللّٰہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ابن حجر رحمہ اللّٰہ نے فرمایا ہے (تقریب التہذیب صفحہ 


827)

 

 

معلوم ہوا کہ سند صحیح ہے ۔




6:نَا عبد الوارث بْنُ سُفْيَانَ قَالَ نَا قَاسِمُ بْنُ أَصْبَغَ قَالَ نَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي خَيْثَمَةَ 

قَالَ نَا الْوَلِيدُ بْنُ  شُجَاعٍ قَالَ نَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ كَانَ عبد الله بْنُ الْمُبَارَكِ يَقُولُ إِذَا اجْتَمَعَ هَذَانِ عَلَى  شئ فَتَمَسَّكْ بِهِ يَعْنِي الثَّوْرِيَّ وَأَبَا حَنِيفَةَ



- جب دو آدمی کسی بات پر متفق ہو جائیں تو اسے مضبوطی سے تھام لو .. امام ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کی مراد امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ تھے



( الانتقاء سندہ صحیح,   صفحہ 206 )

 

 

تحقیق سند:-

 1:-  عبدالوارث بن سفیان رحمہ اللّٰہ ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا ہے ( سیر اعلام النبلاء  84/17)

2:- قاسم بن اصبغ رحمہ اللّٰہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ابن عماد حنبلی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے (شذرات الذھب  220/4)

3:- ابوبکر بن ابی خیثمہ رحمہ اللّٰہ یعنی احمد بن زہیر بن حرب رحمہ اللّٰہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا (تاریخ الاسلام 481/6)۔  

4:- ولید بن شجاع بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا (تقریب التہذیب صفحہ 1038)۔

5:- علی بن حسن بن شقیق رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے۔

(تقریب التہذیب صفحہ 692)

معلوم ہوا کہ سند صحیح ہے ۔


 

 

7:- أخبرني أبو القاسم الأزهري، حدّثنا عَبْد الرَّحْمَن بْن عُمَر الخلال، حَدَّثَنَا مُحَمَّد ابن أحمد بن يعقوب، حَدَّثَنَا جدي قال: أملى علي بعض أصحابنا أبياتا مدح بها عبد الله بن المبارك أبا حنيفة:

رأيت أبا حنيفة كل يوم ... يزيد نبالة ويزيد خيرا

وينطق بالصواب ويصطفيه ... إذا ما قال أهل الجور جورا

يقايس من يقايسه بلب ... فمن ذا يجعلون له نظيرا

كفانا فقد حماد وكانت ... مصيبتنا به أمرا كبيرا

فرد شماتة الأعداء عنا ... وأبدى بعده علما كثيرا

رأيت أبا حنيفة حين يؤتى ... ويطلب علمه بحرا غزيرا

إذا ما المشكلات تدافعتها ... رجال العلم كان بها بصيرا


 


میں نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا ہے کہ روزانہ ان کی سمجھ داری اوربھلائی میں اضافہ 


ہی  ہوتا  جا رہا ہے، وہ ثواب والی باتیں کرتے ہیں۔ آگے فرماتے ہیں کہ جب امام ابو حنیفہ 


رحمہ اللّٰہ کو ان  کے  استاد امام حماد رحمہ اللہ کے منصب پر لایا گیا تھا تو ان کے علم کو ٹھاٹھیں 


مارتا  سمندر سمجھا گیا



(تاریخ بغداد  سندہ  صحیح 15/479)

 

 

تحقیق سند:-

 1:- ابوالقاسم الازہری رحمہ اللہ ثقہ ہیں جیسا کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے  (تاریخ بغداد 120/12)

2:- عبدالرحمٰن بن عمر الخلال رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے فرمایا (تاریخ بغداد 608/11)

3:-  محمد بن احمد بن یعقوب رحمہ اللہ ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نقل فرمایا (تاریخ الاسلام 


648/6 ) 


4:-


یعقوب بن شیبہ رحمہ اللہ کی توثیق گزر چکی ہے۔

 


اگرچہ اس سند میں امام ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے اصحاب (اساتذہ) کا نام نہیں لیا گیا لیکن امام  ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے اصحاب ثقہ اور صدوق ہیں جیسے حسن بن ربیع  رحمہ اللہ ، علی بن حسن  بن شقیق  رحمہ اللہ ، عمر بن بشر رحمہ اللہ ، عبدالرحمٰن بن علقمہ رحمہ اللہ ، حاتم بن یوسف رحمہ اللہ وغیرہ… اس کے علاوہ الانتقاء میں بھی شاگرد کی وضاحت ہے، جہاں امام ابن مبارک رحمہ اللہ سے یہ قول حسن بن ربیعہ رحمہ اللہ  نقل کرتے ہیں  جو ثقہ ہیں۔ اگرچہ اس سند کے محمد بن محمد بن شبور کےحالات ہمیں نہیں ملے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ محمد بن احمد بن یعقوب رحمہ  اللہ کی متابعت کر رکھی ہے ۔


غرض یہ سند صحیح ہے ۔

 

 

 

 

8:-أخبرنا الخلال، أخبرنا الحريري أن النخعي حدثهم قال: حدثنا محمد بن علي بن عفان، حدثنا أبو كريب قال: سمعت عبد الله بن المبارك يقول:

وأخبرني محمد بن أحمد بن يعقوب، أخبرنا محمد بن نعيم الضبي، حدثنا أبو سعيد محمد بن الفضل المذكر، حدثنا أبو عبد الله محمد محمد بن سعيد المروزي، حدثنا أبو حمزة - يعني ابن حمزة - قال: سمعت أبا وهب محمد بن مزاحم يقول: سمعت عبد الله بن المبارك يقول: رأيت أعبد الناس، ورأيت أورع الناس، ورأيت أعلم الناس، ورأيت أفقه الناس، فأما أعبد الناس فعبد العزيز بن أبي رواد، وأما أورع الناس فالفضيل بن عياض، وأما أعلم الناس فسفيان الثوري، وأما أفقه الناس فأبو حنيفة، ثم قال: ما رأيت في الفقه مثله.



 میں نے سب سے زیادہ فقاہت رکھنے والا دیکھا ہے، سب سے زیادہ فقاہت رکھنے والے امام 


ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ ہیں .. میں نے ان جیسا فقاہت  وا لا نہیں دیکھا... ( تاریخ بغداد 469/15 )

 

 

 


سند کی تحقیق:-

1:-امام حسن بن محمد الخلال رحمہ اللہ ثقہ ہیں جیساکے امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فمیہ (تاریخ بغداد 


453/8 )

 

 2 :- علی بن عمرو الحریری رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے پڑھایا ہے (تاریخ  بغداد 470/13 )

3:- علی بن محمد بن الحسن رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاہے  (تاریخ بغداد 540/13 ) 

4:- محمد بن علی بن عفان رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے (سیر اعلام النبلاء 27/13 )

5:-  ابو کریب رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا (سیر اعلام النبلاء 394/11)

 


 معلوم ہوا سند صحیح ہے۔

 

 

9:-قَالَ أَبُو يَعْقُوبَ وَأنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يَعْقُوبَ إِجَازَةً قَالَ نَا جَدِّي قَالَ نَا مُحَمَّد بن مُسلم قَالَ سَمِعت اسماعيل ابْن دَاوُد يَقُول كَانَ ابْن الْمُبَارك يذكر عَن أَبى حنيفَة كل خير ويزكيه ويقرضه ويثنى عَلَيْهِ وَكَانَ أَبُو الْحسن الفزازى يَكْرَهُ أَبَا حَنِيفَةَ وَكَانُوا إِذَا اجْتَمَعُوا لَمْ يجترىء ابو اسحق أَنْ يَذْكُرَ أَبَا حَنِيفَةَ بِحَضْرَةِ ابْنِ الْمُبَارَكِ بشئ


امام ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ جب امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ کرتے ذکر آپکی ہر خوبی کا 

ذکر  کرتے اور  آپکی خوب توثیق اور تعریف  کرتے جبکہ ابو اسحاق فزاری رحمۃ اللہ علیہ امام ابو 

حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو پسند نہیں کرتے تھے ۔ لیکن جب یہ لوگ اکھٹے ہوتے تو  ابو اسحاق فزاری 

کی جرات نہیں ہوتی تھی  کہ وہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی کوئی برائی بیان کریں ۔

 
(الانتقاء۔ سند میں کوئی خرابی نہیں  
ہے )


 سند کی تحقیق:-

 1:- محمد بن احمد بن یعقوب رحمہ اللہ کی توثیق بیان کی جا چکی ہے .

2:- یعقوب بن شیبہ رحمہ اللہ کی توثیق بیان کی جا چکی ہے ۔


 3:- محمد بن مسلم رحمہ اللہ ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے نقل فرمایا۔ (تاریخ الاسلام 


 423/6 )  

4:- اسماعیل بن داؤد الجوزی رحمہ اللہ بھی مقبول درجہ کے عالم ہیں، جماعت ثقہ نے ان سے  روایت کی  ہے اور امام ابن عدی رحمہ اللہ نے ان کا علم ہوتے ہوئے بھی  ان کا تذکرہ اپنی کتاب الکامل میں  نہیں کیا،جو  امام ابن عدی رحمہ اللہ کے نزدیک ان کے ثقہ ہونے کی دلیل ہے ۔

 



معلوم ہوا سند صحیح ہے۔ 

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...