نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام ابوحنیفہؒ (م۱۵۰؁ھ) امام مالک بن انس ؒ (م۱۷۹؁ھ) کے نزدیک ثقہ ہیں ۔

 


امام ابوحنیفہؒ (م۱۵۰؁ھ) امام مالک بن انس ؒ (م۱۷۹؁ھ) کے نزدیک ثقہ ہیں ۔


-مولانا نذیر الدین قاسمی

امام مالک بن انسؒ ۱۷۹؁ھ)  ثقہ راوی سے ہی روایت کرتے ہیں ، چنانچہ :

امام احمد بن حنبلؒ ۲۴۱؁ھ)  کہتے ہیں کہ : ’’ کل من رویٰ عنہ مالک فھو ثقۃ ‘‘ ہر وہ راوی جس سے امام مالکؒ روایت کریں ، وہ ثقہ ہے۔ (سوالات ابن ہانی للامام احمد : رقم ۲۳۶۷)

امام ابن عدیؒ ۳۶۵؁ھ)  کہتے ہیں کہ امام مالک ؒ ثقہ یا صدوق سے ہی روایت کرتے ہیں (الکامل : ج۶: ص ۲۰۷) امام یحییٰ بن معین ؒ ( م ۲۳۳؁ھ) فرماتے ہیں کہ ابو امیہ عبد الکریم کےعلاوہ ، ہر وہ راوی جس سے امام مالک ؒ روایت کریں ، وہ ثقہ ہے۔

حافظ ابن حجرؒ ۸۵۲؁ھ) نے بھی تہذیب التہذیب کے مقدمہ میں یہی بات کہی ہے۔

غیر مقلدین کے شیخ البانیؒ اور شیخ ابو الحسن السلیمانی کا بھی یہی موقف ہے۔ ( سلسلہ احادیث صحیحہ : جلد۱: صفحہ ۶۳۹، اتحاف النبیل : جلد۲: صفحہ ۱۰۹)

معلوم ہوا کہ امام مالک بن انس ؒ  ۱۷۹؁ھ) ثقہ راوی سے ہی روایت کرتے تھے۔ اورامام مالک ؒ نے امام ابو حنیفہ ؒ سے روایت لی ہے۔

چنانچہ :

۱ –          صدوق [1] امام ابو المؤید محمد بن محمود الخوارزمیؒ ۶۶۵؁) نے امام مالک ؒ ۱۷۹؁ھ) کو امام ابو حنیفہ ؒ ۱۵۰؁ھ) کے شاگردوں میں شمار کیا ہے۔ (جامع المسانید : جلد۲ : صفحہ ۵۵۹)

۲ –         ثقہ [2]، ثبت امام ابو محمد عبد القادر القرشی ؒ ۷۷۶؁ھ)  نے بھی امام مالک ؒ ۱۷۹؁ھ) کو امام  ابو حنیفہ ؒ ( م ۱۵۰؁ھ) کے شاگردوں میں شمار کیا ہے۔ (الجواہر المضیہ : جلد۱:صفحہ ۵۴۶) اور کہا کہ : ’’ کان یسألہ ویأخذ بقولہ سرا، ویسمع منہ متنکراً ‘‘۔  (آپ ان سے پوچھتے بھی تھے ، اور غیر اعلانیہ طور پر آپ کا قول اختیار کرتے تھے اور بھیس بدل کرآپ سے سنتے بھی تھے)۔

۳ –       ثقہ [3]، حافظ الحدیث امام محمد بن یوسف الصالحی الدمشقی ؒ ۹۴۳؁ھ) بھی امام مالک ؒ ۱۷۹؁ھ)  کو امام ابوحنیفہ ؒ ۱۵۰؁ھ)  کا شاگرد بتایا ہے، اور کہتے ہیں کہ ’’ أنہ روی عن الإمام أبی حنیفۃ وروی الإمام أبوحنیفۃ عنہ‘‘ امام مالکؒ نے امام ابو حنیفۃ ؒ سے روایت کیا ہے اور امام ابو حنیفہ ؒ نے امام مالک ؒ ۔(عقودالجمان  : صفحہ ۱۵۱)

۴ –        امام ابراہیم بن محمد بن دقماق ؒ ( م ۸۰۷؁ھ)  کہتے ہیں کہ ’’ مالک بن انس کان یأخذ بقولہ ویسمع منہ ‘‘ امام مالک ؒ ، امام ابو حنیفہ ؒ کے قول اختیار کرتے تھے اور ان سے روایت سنتے تھے۔ (نظم الجمان مخطوطہ پیرس [فرانس]  : جلد۱ : فولیو نمبر : ۲۸)

۵ –        حجت، امام ابن حجر ہیثمی ؒ ۹۷۴؁ھ) نے تسلیم کیا ہے کہ امام مالک ؒ نے امام ابو حنیفہؒ سے روایت کیا ہے اور کہا ’’ھذان الإمامان من جملۃ الآخذان عنہ ‘‘ یہ دونوں ائمہ (امام لیث بن سعد ؒ اور امام مالک ؒ ) ان لوگوں میں سے ہیں ، جنہوں نے امام ابو حنیفہ ؒ سے روایت لی ہے ۔ (الخیرات الحسان : صفحہ ۲۶)

اور بطور مثال مالک عن ابی حنیفۃ  کی سند سے ایک روایت پیش خدمت ہے۔

امام ، حافظ طلحہ بن محمد الشاہد ؒ ۳۸۰؁ھ)  فرماتے ہیں کہ :

عن أحمد بن محمد  (عن عبد الله بن أحمد بن بهلول قال هذا كتاب جدي إسماعيل بن حماد فقرأت فيه)  عن سفيان عن مالك عن أبي حنيفة عن أبان بن أبي عياش عن إبراهيم عن علقمة عن  عبد الله ابن مسعود رضي الله عنه قال لم يقنت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في الفجر قط إلا شهراً واحداً لأنه حارب حياً من المشركين فقنت يدعو عليهم۔ (مسند ِ امام ابو حنیفۃ لطلحۃ بن محمد بحوالہ جامع المسانید : جلد۱ : صفحہ ۳۲۴)

اس روایت کے روات کی تحقیق درجِ ذیل ہیں  :

۱ –         امام حافظ طلحہ بن محمد الشاہد ؒ  ۳۸۰؁ھ)  صدوق اور عادل ہیں ۔

امام ذہبی ؒ فرماتے ہیں کہ :  ’’ الشیخ ، العالم ، الأخباري ، المؤرخ ‘‘ حافظ طلحہ بن محمد ؒ   شیخ ، عالم ، اخباری اور مؤرخ ہیں ۔ (سیر اعلام النبلاء : جلد۱۶: صفحہ ۳۹۶)

ابو طاہر محمد بن حسین بن سعودؒ ۴۴۸؁ھ)  قاضی ابو القاسم علی بن ابی علی  محسن ؒ  ۴۴۷؁ھ) امام خطیب البغدادی ؒ ۴۶۳؁ھ)  امام ابو نصر ابن ماکولاؒ ۴۷۵؁ھ) اور امام ابو سعد السمعانی ؒ ۵۶۲؁) وغیرہ نے آپ کو ’’ معدل ‘‘ قرار دیا ہے ۔ ( المتفق والمفترق : جلد۳ : صفحہ ۱۵۰۱، تاریخ ابن عساکر : جلد ۶: صفحہ ۲۶۰، تاریخ بغداد : جلد۳: صفحہ ۲۹۸، تہذیب المستمرلابن ماکولا : صفحہ ۲۱۳، الانساب للسمعانی : جلد۵: صفحہ ۳۸۷)

’’ معدل ‘‘ کے بارے میں نامور غیر مقلد عالم مولانا ارشاد الحق اثری نے بحوالہ امام سمعانی ؒ ۵۶۲؁ھ)  لکھاہے : المعدل اس راوی کا نام ہے جس کی تعدیل اور تزکیہ بیان ہوا ہو اور اس کی شہادت مقبول ہو۔ (مقالات : ج۲ : ص ۲۶۹، ۲۶۸) نیز مولانا اثری نے زبیر علی زئی (جنہوں نے اسی طرح کے ایک اور راوی پر بھی یہی اعتراض کیا تھا)کے رد میں لکھا ہے : المعدل کسی ضعیف کا لقب نہیں بلکہ اس کا لقب ہے جو عادل اور قابل قبول ہو، تو اس کی عدالت اور توثیق کا انکار محض مجادلہ ہے۔ (ایضاً)

معلوم ہوا کہ یہ لقب خود غیرمقلدین کے نزدیک راوی کی توثیق اور اس کے قابل وقبول  ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

امام ابو مؤید محمد بن محمود الخوارزمی ؒ ۶۶۵؁ھ) نے ان کو امام، حافظ ، ثقہ ، ثبت اور عادل قرار دیا ہے۔ (جامع المسانید : جلد۲ : صفحہ ۴۸۷، جلد۱: صفحہ ۴)

 علامہ زرکلی ؒ فرماتے ہیں کہ :

طلحة بن محمَّد بن جعفر الشاهد، أبو القاسم: مؤرخ، من أهل بغداد  له (أخبار القضاة)

وهو من رجال الحديث، صحيح السماع، إلا أنه كان معتزليا داعية، فترك أهل الحديث الرواية عنه۔

طلحہ بن محمد ؒ اہل بغداد میں سے ایک مؤرخ ہیں ، اور ان کی کتاب اخبار القضاۃ کے نام سے ہے اور وہ رجالِ حدیث میں سے ہیں ، اور  ان کا سماع صحیح ہے، مگر وہ اعتزال کی طرف بلانے والے تھے، اسلئے محدثین نے ان کی روایت کو ترک کردیا ۔ (الاعلام للزرکلی : جلد۳ : صفحہ ۲۲۹)

             اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ حافظ طلحہ ؒ ۳۸۰؁ھ) عادل مؤرخ اور صدوق راوی ہیں اور ان پر ان کے اعتزال کی وجہ سے کلام کیا گیا ہے ۔

۲ –        امام ابو العباس احمد بن محمد بن سعید ابن عقدہ ؒ ۳۳۲؁ھ)  مشہور حافظ الحدیث اور ارکان الحدیث میں سے ہیں ۔

ان کے بارے میں تفصیل درج ذیل ہے :

بعض ائمہ نے ان کے بارے میں جرح بلکہ ان پر جھوٹ اور حدیث گھڑنے کی تہمت لگائی ہے۔ لیکن کئی ائمہ ان پر کئے گئے جروحات کے جوابات دئے ہیں ۔

چنانچہ :

حافظ حمزہ سہمی ؒ ۴۲۷؁ھ)   کہتے ہیں کہ :

’’ ما یتھم مثل أبی العباس بالوضع إلا طبل ‘‘

ابو العباس جیسے شخص پر وہی حدیث گھڑنے کا الزام لگاسکتا ہے ، جس کو کچھ آتا جاتا نہ ہو ، امام دارقطنی ؒ ۳۸۵؁ھ)  نے یہاں تک کہدیا کہ :

’’ أشھد أن من اتھمہ  بالوضع  فقد کذب ‘‘

میں شہادت دیتا ہوں  کہ جو کوئی ابو العباس ابن عقدہ ؒ پر وضع حدیث کی تہمت لگائے، وہ جھوٹا ہے۔

اسی طرح ، حافظ ذہبیؒ نے کہا :

’’ ما علمت ابن عقدۃ اتھم بوضع حدیث أما الإسناد فلا أدری ‘‘

میں نہیں جانتا کہ ابن عقدۃ ؒ پر حدیث کا متن گھڑنے کا الزام لگایا گیا ہے، جہاں تک سند کی بات ہے ، تو میں نہیں جانتا ۔  تقریباً یہی بات  حافظ ابن عبد الہادی ؒ ( م ۷۴۴؁ھ)  نے بھی کہی ہے ۔ (طبقات علماء حدیث : جلد۳: صفحہ ۳۱)

حافظ ابن حجرؒ ۸۵۲؁ھ)  ان کے رد میں کہتے ہیں کہ :

قلت أنا: وَلا أظنه كان يصنع في الإسناد إلا الذي حكاه ابن عَدِي وهي الوجادات التي أشار إليها الدارقطني

میں نہیں سمجھتا کہ انہوں نے کوئی سند گھڑی ہے، البتہ ابن عدیؒ نے پائے گئے نسخوں کی بات کہی ہے ، جس کی طرف دارقطنیؒ نے اشارہ کیا ہے ۔ (ان کی وجہ سے ان پر کلام ہے)

معلوم ہوا کہ ابن عقدہؒ پر نہ حدیث کے متن گھڑنے کا الزام صحیح ہے اور نہ ہی سند گھڑنے کا ۔  اور ان پر کلام دراصل ان ’’ وجادات ‘‘ [نسخوں] کی وجہ سے ہوا۔

نوٹ :

ابن عدیؒ نے وجادات والی بات ابو بکر ابن ابی غالب ؒ سے نقل کی ہے اور حافظ الحدیث ، امام قاسم بن قطلوبغا ؒ نے ابوبکر ابن  ابی غالب ؒ کی بات کا رد کیا اور ان کو ثقات میں شمار کیا ہے۔ (کتاب الثقات للقاسم : جلد۲: صفحہ ۳۰)[4]

ابن عقدہؒ کے بارے میں شیخ ابو الطیب  المنصوری  بھی کہتے ہیں کہ :

’’ حافظ عجيب، إِلَّا أنّه لا يحتج به لكثرة المناكير في حديثه للوجادات ‘‘۔

عجیب حافظ الحدیث ہیں، مگر یہ کہ ان سے احتجاج درست نہیں ہے، اس لئے کہ وجادات کی وجہ سے ان کی روایتوں میں کثرت سے منکر حدیثیں پائی جاتی ہیں ۔ (الدلیل المغنی : صفحہ ۱۲۸)

امام خلیلی ؒ ۴۴۶؁ھ)  نے ان پر موجود کلام  اور وضاحت سے پیش کیا کہ :

’’ في حديثه نظر، فإنه يروي نسخاً عن شيوخ لا يُعْرَفُوْن، ولا يتابع عليها ‘‘

ان کی حدیث قابل غور ہے، اس لئے کہ وہ نسخے ایسے شیوخ سے  روایت کرتے ہیں  جو مجہول ہوتے ہیں  اور نہ ہی ان میں ان کی متابعت ہوتی ہے۔ (الارشاد : جلد۲: صفحہ ۵۷۹)

غالباً انہیں  نا معلوم شیوخ کی وجہ سے ہی ان کی روایت کو امام دارقطنیؒ نے منکر کہا ہے ۔ ( لسان المیزان : جلد۱: صفحہ ۶۰۳)

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ۸۵۲؁ھ)  ایک اور کتاب میں کہتے ہیں کہ :

أبو العباس الهمداني هو ابن عقدة  حافظ كبير، إنما تكلموا فيه بسبب المذهب، ولأمور أخرى ولم يُضَعَّف بسبب المتون أصلا. فالإسناد حسن۔

ابو العباس الہمدانی ؒ ، وہ ابن عقدہ ؒ ہیں ، بڑے حافظ الحدیث ہیں ، ان پر (ان کے) مذہب  اور دیگر امور کی وجہ سے کلام کیا گیا ہے ، جبکہ متون حدیث کی وجہ سے ان کی تضعیف ہر گز نہیں کی گئی ، پس یہ سند حسن ہے۔ (التلخیص الحبیر : جلد۱ : صفحہ ۲۳۹)

ایک جگہ مزید وضاحت سے فرماتے ہیں کہ :

’’ وأما أبو العباس بن عقدة فكان من كبار الحفاظ، حتى قال الدارقطني: أجمع أهل الكوفة أنه لم يكن بها من زمن ابن مسعود أحفظ منه، ولم يتهم بالكذب، وإنما كان يعاب بالتشيع، وكثرة رواية المناكير، لكن الذنب فيها لغيره. ‘‘

جہاں تک ابو العباس ابن عقدہؒ کی بات ہے ، تو وہ بڑے حفاظ حدیث میں ہیں ، یہاں تک کہ امام دارقطنیؒ نے کہا کہ : اہل کوفہ کا اجماع ہے کہ ابن مسعود ؓ کے زمانہ سے (ان کے زمانہ تک) ابن عقدہ ؒ سے زیادہ حافظہ والا کوئی نہیں ہوا ،  ان پر جھوٹ کی تہمت نہیں لگائی گئی ، البتہ ان کے شیعہ ہونے اور کثرت سے منکر روایتیں بیان کرنے کا عیب ان پر لگایا گیا ، لیکن اس میں خطا اور غلطی دوسرے کی وجہ سے ہے۔ (موافقۃ الخبر الخبر : جلد۲: صفحہ ۱۱۱)

حافظ ؒ کے اس کلام سے معلوم ہوا کہ ان کی روایات میں مناکیر کا ذمہ دار اوپر کا راوی ہے ، نہ کہ ابن عقدہؒ۔

امام ابو محمد عبد الغنی المصری ؒ ۴۰۹؁ھ)  کہتے ہیں کہ :

’’ كان حمزة الكناني يحدث عنه ويحسن القول فيه ‘‘

حافظ حمزہ الکنانی ؒ ۳۵۷؁ھ)   ان سے روایت کرتے اور ان کے بارے میں اچھی بات کہتے تھے ۔ (اطراف الغرائب  الدارقطنی للإمام القیسرانی : جلد۱: صفحہ ۴۶)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ :

۱ –         امام ابن عقدہ ؒ ( م۳۳۲؁ھ)  پر نہ حدیث کے متن گھڑنے کا الزام صحیح ہے اور نہیں سند گھڑنے کا ۔

۲ –         ان پر کلام وجادات [نسخوں] کی وجہ سے ہوا ہے۔

۳ –        کیوں کہ وہ وجادات کو مجہول شیوخ سے بیان کرتے تھے، جن کی وجہ سے ان کی روایات کو مناکیر میں شمار کیا جانے لگا۔

۴ –        نیز ، ان وجادات سے بیان کرنے میں ابن عقدہ ؒ منفرد تھے، یعنی ان وجادات [نسخوں] کا ذکر ابن عقدہؒ ہی کرتے تھے ، ان کے علاوہ کوئی اور ان وجادات کا ذکر نہیں کرتا تھا۔

جامع المسانید کی روایت میں ابن عقدہؒ کا کیا مقام ؟

لیکن اس جامع المسانید للخوارزمی کی روایت میں ابن عقدہؒ صدوق ہیں ، کیونکہ :

۱ –         ابن عقدہؒ نے یہاں اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہ ؒ کی کتاب کا ذکر اپنے صدوق شیخ ، عبد اللہ بن احمد بن بہلول الکوفی الأزدی ؒ [5] سے نقل کیا ہے ، لہذا یہاں اس نسخے کو ذکر کرنے میں ان کے شیخ صدوق اور مقبول ہیں ۔

۲ –        اس نسخے (یعنی اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہ ؒ کی کتاب ) کا ذکر امام ابن عقدہؒ کے علاوہ احمد بن یحییٰ ؒ اور صدوق قاضی عمر الاشنانی ؒ ۳۳۹؁ھ)  نے بھی کیا ہے۔ (مسند ابی حنیفہ بروایۃ الحارثی [6] : جلد۱ : صفحہ ۲۹۱، جامع المسانید : جلد۱ : صفحہ ۳۰۶، مسند ابی حنیفہ لابن خسرو : جلد۱ : صفحہ ۱۹۷)

یعنی اس کتاب کو ذکر کرنے میں امام ابن عقدہ ؒ ( م۳۳۲؁ھ)  کے متابع امام احمد بن یحییٰ ؒ ۳۳۸؁ھ) [7]  موجود ہیں۔

لہذا اس روایت ابن عقدہؒ پر وجادات کے سلسلہ میں اعتراضات باطل اور مردود ہیں اور وہ اس روایت میں صدوق ہیں ۔ واللہ اعلم

۳ –       عبد اللہ بن احمد بن بہلول ؒ بھی صدوق ہیں ۔ [8]

عبد اللہ بن احمد بن بہلول الکوفی الأزدیؒ سے امام ابن عقدہ ؒ ۳۳۲؁ھ) ، امام ابونصر احمد بن یحییٰ ؒ ۳۳۸؁ھ)  قاضی عمر اشنانی ؒ ۳۳۹؁ھ)  اور امام ابن کاس النخعیؒ ۳۲۴؁ھ)  وغیرہ نے روایت کی ہے۔ (اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ : صفحہ ۵۷،۵۸، تاریخ ِ بغداد : جلد۱۳ : صفحہ ۳۵۹، طبعہ علمیہ ، مسند امام ابی حنیفہ بروایت حارثی : جلد۱ : صفحہ ۲۹۱، جامع المسانید : جلد۱ : صفحہ ۳۰۶، مسند ابی حنیفہ لابن خسرو: جلد۱ : صفحہ ۱۹۷)

اور امام ابن عقدۃ ؒ ۳۳۲؁ھ)  نے ایک روایت میں ان کو ’’ قاضی ‘‘ قرار دیا ہے۔ (مسند امام ابی حنیفہ بروایۃ  حارثی : جلد۲ : صفحہ ۸۹۰)، معلوم ہوا کہ عبد اللہ بن بہلول ؒ کی بحیثیتِ قاضی دینی شہرت تھی ، جو کہ ان کے عادل اور صدوق ہونے کے لئے کافی ہے۔ (اضواء المصابیح : صفحہ ۲۵۱، التمہید لابن عبد البر : ج۱: ص ۲۸)

لہذا ابن بہلول ؒ بھی صدوق ہیں ۔

۴ –       اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہؒ ۲۱۲؁ھ) مشہور فقیہ ، قاضی اور ثقہ راوی ہیں۔ [9]

 تفصیل کیلئے دیکھئے مجلہ الاجماع : شمارہ نمبر ۱۲: صفحہ ۲۳،

لہذا اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہ ؒ ۲۱۲؁ھ) بھی ثقہ ہیں ۔

۵ –        سفیان بن عیینہ ؒ ۱۹۸؁ھ) صحیحین کے راوی اور مشہور ثقہ ، حافظ الحدیث  اور حجت ہیں ۔ (تقریب : ۲۴۵۱)

(میزان الاعتدال : جلد۲: صفحہ ۱۷۱، المختلطین للعلائی : صفحہ ۴۵)

۶ –        امام مالک بن انسؒ ۱۷۹؁ھ) مشہور ثقہ ، حافظ الحدیث  اور امام دار الہجرہ ہیں ۔ (تقریب : رقم ۶۴۲۵)

۷ –        امام ابو حنیفہ ؒ ۱۵۰؁ھ)  مشہور ثقہ ، حافظ الحدیث اور ثبت، فقیہ ہیں ۔  (ان کی توثیق آنے والے شماروں میں آئےگی،انشاءاللہ )

الغرض ثابت ہوا کہ امام مالکؒ ۱۷۹؁ھ) نے امام ابو حنیفہ ؒ ۱۵۰؁ھ) سے روایت لی ہے۔

ایک دوسری روایت سے تائید :

ایک دوسری روایت بھی اس بات کی تائید کرتی ہے کہ امام مالکؒ ۱۷۹؁ھ)  نے امام ابو حنیفہ ؒ ۱۵۰؁ھ) سے روایت لی ہے ، چنانچہ :

امام ابو القاسم عبد اللہ بن احمد ابن ابی عوام ؒ ۳۳۵؁ھ)  فرماتے ہیں کہ :

حدثني يوسف بن أحمد المكي قال: حدثنا محمد بن حازم الفقيه قال: حدثنا محمد بن علي الصائغ بمكة قال: حدثنا إبراهيم بن محمد الشافعي: أنه قال: أخبرني عبد العزيز بن محمد الدراوردي قال: كان مالك بن أنس ينظر في كتب أبي حنيفة وينتفع بها۔

عبد العزیز بن محمد الدراوردی ؒ کہتے ہیں کہ امام مالک بن انس ؒ ،امام ابو حنیفہ ؒ کی کتابوں میں غور کرتے اور اس سے فائدہ اٹھاتے تھے ۔ (فضائل ابی حنیفہ واخبارہ ومناقبہ لابن ابی عوام : صفحہ ۲۳۵)

سند کے روات کی تحقیق :

۱ –         امام ابو القاسم عبد اللہ بن احمد ابن ابی عوام ؒ ۳۳۵؁ھ) ثقہ و ثبت، امام ہیں ۔ (الاجماع : شمار نمبر ۲: صفحہ۳ )

۲ –        محدث یوسف بن احمد بن یوسف المکی ؒ ۳۸۸؁ھ)  بھی صدوق ہیں ۔ (الاجماع : شمارہ نمبر ۳: صفحہ۲۸۴)

۳ –        محمد بن حازم ؒ کو خود محدث یوسف بن احمد المکی ؒ ۳۸۸؁ھ)  نے فقیہ قرار دیا ہے ، جو کہ ان کی دینی شہرت ہے، جس سے ان کا صدوق ہونا ظاہر ہے ، دیکھئے  ( صفحہ :۵۷)

۴ –       محمد بن علی الصائغی المکی ؒ ۲۹۱؁ھ)  بھی ثقہ ہیں ۔ (ارشاد القاصی والدانی : صفحہ ۵۹۴)

۵ –        ابراہیم بن محمد الشافعی ؒ ۲۳۸؁ھ)  سنن نسائی اور ابن ماجہ کے راوی اور صدوق ہیں ۔ (تقریب : رقم ۲۳۵)

۶ –        عبد العزیز بن محمد الدراوردی ؒ ۱۸۷؁ھ) صحیحین کے راوی اور صدوق ہیں ۔ (تقریب : رقم ۴۱۱۹)

۷ –       امام مالک بن انس ؒ ۱۷۹؁ھ) کی توثیق گزر چکی ۔

معلوم ہوا کہ اس کی سند حسن ہے۔

اور اس روایت میں ہے کہ امام مالک ؒ ۱۷۹؁ھ) امام صاحب ؒ ۱۵۰؁ھ)  کی کتابوں سے فائدہ اٹھاتے تھے ، یہ بھی اس بات  کی طرف اشارہ ہے کہ امام مالک ؒ نے ، امام صاحب ؒ سے روایت لی ہے، کیونکہ عامۃً شاگرد ہی استاد کی کتابوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ واللہ اعلم

تصویر کا دوسرا رخ :

امام مالک بن نس ؒ (م ۱۷۹؁ھ) سے مروی بعض روایت کا حکم :

امام مالک بن انس ؒ ۱۷۹؁) سے بعض دیگر روایات مروی ہیں ، جن کو خطیب ؒاور شیخ مقبل بن ہادی ؒ وغیرہ نے ذکر کیا ہے، جس میں امام صاحب ؒ کے بارے میں امام مالک ؒ کی دوسری رائے نظر آتی ہے ، مگر وہ تمام روایات قابل قبول نہیں ہیں ، کیونکہ :

۱ –         متأخرین ائمۂ جرح و تعدیل نے ان روایات پر اعتماد نہیں کیا اور نہ ہی ان کو اپنی کتاب میں نقل کیا ہے، دیکھئے : مجلہ الاجماع: شمار نمبر۵: صفحہ ۱۰۴۔

۲ –        یہ روایات ان روایات ے بھی خلاف ہیں ، جن میں امام مالک ؒ نے امام صاحب ؒ کی تعریف فرمائی ہے ، جیسا کہ گزر چکا ۔

۳ –        ائمہ عظام نے ان روایات کو مجروح قرار دیا ہے ، چنانچہ :

ا :           صدوق [10]،فقیہ  ، عالم مجاہد ، ادیب ، فاضل معزز اور عادل بادشاہ عیسیٰ بن ابی بکر ؒ ۶۲۴؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

هذا لا يصلح أن يصدر عن مالك، لأن مالكا رضى الله عنه كان يثنى على أبى حنيفة وهو ما رواه الخطيب. قال: أنبأنا البرقاني أنبأنا أبو العباس بن حمدان لفظا حدثنا محمد بن أيوب حدثنا أحمد بن الصباح قال سمعت الشافعي محمد بن إدريس قال قيل لمالك بن أنس: هل رأيت أبا حنيفة؟ قال نعم رأيت رجلا لو كلمك في هذه السارية أن يجعلها ذهبا لقام بحجته۔

یہ اس لائق نہیں کہ امام مالک ؒ سے صادر ہو ، اس لئے کہ امام مالک ؒ ۱۷۹؁ھ)  امام ابو حنیفہ ؒ  ( م ۱۵۰؁ھ)  کی تعریف کرتے تھے ، اور تعریف کی روایت وہ ہے، جس کو خطیب ؒ [11]نے روایت کیا ہےکہ :

امام مالک ؒ سے کہا گیا کہ : کیا آپ نے امام ابو حنیفہؒ کو دیکھا ہے ؟

تو امام مالک ؒ نے جواب دیا کہ : ہاں ! میں ایک ایسے آدمی کو دیکھا ہے کہ جو اگر تم سے اس ستون کے بارے میں بحث کرے ، کہ وہ اس کو سونے کا ثابت کر دے گا ، تو وہ دلیل سے اسے سونے کا ثابت کرے گا۔ (السہم المصیب : صفحہ ۷۰، طبعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت ، مع تاریخ بغداد)[12]

 

ب :       امام ، قاضی ، محدث ابو الولید الباجی ؒ ۴۷۹؁ھ)  نے بھی امام مالک ؒ سے مروی ان روایات کو غیر صحیح قرار دیا ہے۔ ( المنتقیٰ : جلد۷: صفحہ ۳۰۰) [13]

ج :        حافظ المغرب امام ابن عبد البر ؒ ۴۶۳؁ھ)  نے بھی ان روایات کے مرجوح ہونے کی طرح اشارہ کیا ہے ، چنانچہ ، حافظ المغرب ؒ کہتے ہیں کہ ’’وروى ذَلِكَ كُلَّهُ عَنْ مَالِكٍ أَهْلُ الْحَدِيثِ وَأَمَّا اصحاب مَالك من أهل الرأى فَلَا يروون من ذَلِك شَيْئا عَنْ مَالِكٍ‘‘ وہ تمام کی تمام روایات امام مالک ؒ سے محدثین نے بیان کی ہیں اور جہاں تک امام مالک ؒ کے فقہاء شاگردوں کی بات ہے ، تو انہوں ان روایات میں کوئی روایت بھی امام مالک ؒ سے نقل نہیں کی۔ (الانتقاء : صفحہ ۱۵۰-۱۵۱)

لہذا امام مالک ؒ سے مروی وہ روایات جس میں امام صاحب کے بارے میں ان کی دوسری رائے نظر آتی ہے، غیر صحیح اور غیر مقبول ہے۔

اور صحیح یہی ہے کہ امام ابو حنیفہؒ ۱۵۰؁ھ)  امام مالک ؒ ۱۷۹؁ھ)  کے نزدیک ثقہ ہیں ۔ واللہ اعلم



[1]  دیکھئے : الاجماع شمارہ نمبر ۴: صفحہ۳۰۔

[2]  دیکھئے :  عقود الجمان : ص۴۰ ۔

[3]  دیکھئے :  فهرس الفهارس:ج۲: ص ۱۰۶۲۔

[4]  امام صاحب کے الفاظ ہیں :

وقال ابن عدي : صاحب معرفة، وحفظ، وتقدُّم في الصنعة، رأيت مشايخ بغداد يسيئون الثناء عليه، ولولا أني شرطت أن أذكر كلَّ من تُكُلِّمَ فيه لم أذكرْه للفضل الذي كان فيه والمعرفة ثم لم يسق له شيئاً منكراً وذكر في ترجمة العطاردي  أن ابن عقدة سمع منه ولم يحدث عنه لضعفه عنده.

قلت: وهذا يرد ما حكي عن ابن أبي غالب من أنه يُسَوِّي النسخ.

[5]  ان کی توثیق آگے آرہی ہے۔

[6]  امام ابو محمد الحارثی ؒ ۳۴۰؁ھ)  کی توثیق کے لئے الاجماع : شمارہ نمبر ۲ : صفحہ۱۰۹ ۔

[7]  احمد بن یحییٰ ؒ سے مراد راجح قول میں ثقہ ، امام ابو نصر احمد بن محمد بن احمد بن محمد بن یحییٰ النیساپوری ؒ  ۳۳۸؁ھ)  ہیں  جو کہ کثیر السماع اور نیساپوری کے فقیہ ہیں ۔ (الروض الباسم : جلد۱ : صفحہ ۲۷۳)،  کیونکہ حافظ حارثی ؒ نے عامۃ اپنے مسلک کے ائمہ سے سماع کیا ہے ، جیسا کہ ان کی کتاب سے ظاہر ہے۔

[8]  تمام مسانید ابی حنیفہ میں ابن عقدہ ؒ نے جہاں کہیں اسماعیل بن حماد ؒ کی کتاب سے امام صاحب کی روایت ذکر کی ، وہاں پر ابن عقدہ ؒ کے شیخ ، عبد اللہ بن احمد بن بہلول ؒ ہی ہیں ۔  دیکھئے :  مسند ابی حنیفۃ لابن ابی نعیم : صفحہ ۷۵، مسند ابی حنیفہ للحارثی : جلد۱ : صفحہ ۱۲۵، مسند ابی حنیفہ لابن خسرو : جلد۲ : صفحہ ۴۹۶، مسند ابی حنیفہ للحافظ طلحہ، بحوالہ جامع المسانید : جلد۲ : صفحہ ۱۲۴)  اور بعض جگہ ابن بہلول ؒ اور ان کے ’’جد‘‘ اسماعیل بن حماد ؒ کی کتاب کے ذکر کی تکرار کی وجہ سے  ، ان حضرات کا ذکر ساقط کردیا ہے ، جیسا کہ محدثین کی عادت ہوتی ہے۔

لہذا قارئین سے گزارش ہے کہ وہ نوٹ کرلیں کہ یہاں اس روایت کی سند میں ابن بہلول ؒ اور ان کے ‘’جد‘‘ اسماعیل بن حماد ؒ کی کتاب  کا ذکر موجود ہے اور محض تکرار کی وجہ سے ان کا ذکر حذف کردیا گیا ۔ واللہ اعلم

نیز، اسی کتاب جامع المسانید میں امام خوارزمی ؒ ۶۶۵؁ھ) نے کئی جگہ حافظ طلحہ ؒ کی مسند سے ابن عقدہؒ کے طریق سے ابن بہلول اور ان کے ’’جد‘‘ کا ذکر کیا ہے، مثلاً دیکھئے :

(أخرجه) الحافظ طلحة بن محمد في مسنده (عن) أبي العباس بن عقدة (عن) عبد الله بن أحمد بن بهلول (عن) جده إسماعيل بن حماد بن أبي حنيفة (عن) أبيه (عن) أبي حنيفة رضي الله عنه۔(جامع المسانید : جلد۱ : صفحہ ۴۰۷، ۴۱۰، ۵۲۵) وغیرہ ۔

لہذا اس روایت میں بھی ابن بہلول اور ان کے’’جد‘‘ کی کتاب کا ذکر موجود ہے۔ واللہ اعلم

[9]  سند میں چونکہ اسماعیل بن حمادؒ ۲۱۲؁ھ)  کی کتاب کا ذکر ہے ، اس لئے ان کی توثیق بھی ذکر کردی گئی ۔

[10]  مرآۃ الزمان لسبط ابن الجوزی : جلد۲۲: صفحہ ۲۸۵، تاج التراجم : صفحہ ۲۲۵، تاریخ الاسلام : جلد ۱۳ : صفحہ ۷۷۷۔

[11]   خطیب کی  روایت کے تمام روات ثقہ اور سند صحیح ہے۔ واللہ اعلم

[12]  امام ابن ابی حاتم ؒ (م ۳۲۷؁ھ) کی تاویل اور اس کا  رد :

امام مالک ؒ کے قول :

 ’’ رأيت رجلا لو كلمك في هذه السارية أن يجعلها ذهبا لقام بحجتہ ‘‘ کی تاویل کرتے ہوئے ، امام ابن ابی حاتم ؒ ( ۳۲۷؁ھ)  کہتے ہیں کہ  ’’أنه كان يثبت على الخطأ ويحتج دونه ولا يرجع إلى الصواب إذا بان له ‘‘ وہ خطا پر اڑے رہتے  ،  اس کے دفاع میں حجت کرتے ، اورصحیح بات معلوم ہوجانے کے بعد بھی اس کی طرف رجوع نہ کرتے تھے۔(تاریخ بغداد )

 لیکن ابن ابی حاتم ؒ کی یہ تاویل صحیح نہیں ہے ، کیونکہ :

۱ –            اصول ہے کہ ایک روایت دوسری روایت کی وضاحت کرتی ہے، جس کا اقرار خود غیر مقلدین کرچکے ہیں ۔ (نور العینین  : صفحہ ۱۲۰، دین الحق : جلد۱ : صفحہ ۳۶۲)

اورامام  ابن  کاس النخعی  ۳۲۴؁ھ)  کی روایت میں الفاظ ہے کہ ’’میں نے امام ابو حنیفہ ؒ جیسا نہیں دیکھا ‘‘۔(عقود الجمان: ص ۱۹۰)،  اور یہ الفاظ راوی کے  اعلی درجہ کی ثقات پر دلالت کرتے ہیں ، دیکھئے  مجلہ الاجماع : شمارہ  ۴: ص ۶۵۔

۲ –          امام ذہبی ؒ (۷۴۸؁ھ)  اور یحییٰ بن ابراہیم  السلماسیؒ ۵۵۰؁ھ)  نے امام مالک ؒ کی اس روایت کو امام ابو حنیفہ ؒ   کی تعریف میں ذکر کیا ہے ۔ (مناقب الامام ابو حنیفہ للذہبی : صفحہ ۳۱، منازل ائمہ اربعہ : صفحہ ۱۷۳) ،  بلکہ یحییٰ بن ابراہیم السلماسیؒ ۵۵۰؁ھ) نے باب باندھا :’’فی ثناء الأئمہ علیہ ومدح الناس لہ  ‘‘ اور سب سے پہلے امام مالک ؒ کے اسی قول کو ذکر کیا ہے ۔

۳-          صدوق فقیہ ، مجاہد، ادیب فاضل ِ معزز اور عادل بادشاہ عیسیٰ بن ابی بکر ؒ ۶۲۴؁ھ) ابن ابی حاتمؒ کی تاویل کے رد میں فرماتے ہیں  کہ : ’’ وهذا القول من مالك في حق أبى حنيفة أقرب إلى المدح منه إلى الذم وأظهر‘‘ ۔ (امام مالک ؒ کا یہ قول ،امام ابو حنیفہ ؒ کے حق میں ، بنسبت مذمت کہ، مدح کے زیادہ قریب اور ظاہر ہے ۔ ( السہم المصیب : صفحہ ۷۱، طبعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت مع تاریخ  بغداد)

لہذا ابن ابی حاتم ؒ کی تاویل غیر صحیح ہے۔

[13]  امام ابو الولید الباجی ؒ ۴۷۹؁ھ)  فرماتے ہیں کہ :

وعندي أن هذه الرواية غير صحيحة عن مالك؛ لأن مالكا - رضي الله عنه - على ما يعرف من عقله وعلمه وفضله ودينه وإمساكه عن القول في الناس إلا بما يصح عنده وثبت لم يكن ليطلق على أحد من المسلمين ما لم يتحققه ومن أصحاب أبي حنيفة عبد الله بن المبارك، وقد شهر إكرام مالك له وتفضيله إياه، وقد علم أن مالكا ذكر أبا حنيفة بالعلم بالمسائل وأخذ أبو حنيفة عنه أحاديث وأخذ عنه محمد بن الحسن الموطأ وهو مما أرويه عن أبي ذر عبد بن أحمد - رضي الله عنه -، وقد شهر تناهي أبي حنيفة في العبادة وزهده في الدنيا، وقد امتحن وضرب بالسوط على أن يلي القضاء فامتنع،

وما كان مالك ليتكلم في مثله إلا بما يليق بفضله ولا نعلم أن مالكا تكلم في أحد من أهل الرأي وإنما تكلم في قوم من أصحاب الحديث من جهة النقل، وقد روي عنه أنه قال: أدركت بالمدينة قوما لم تكن لهم عيوب فبحثوا عن عيوب الناس فذكر الناس لهم عيوبا وأدركت بها قوما كانت لهم عيوب سكتوا عن عيوب الناس فسكت الناس عن عيوبهم فمالك يزهد الناس عن العيوب ومن أين يبحث في عيوب الناس وكيف يذكر الأئمة بما لا يليق بفضله، وقد ذكرت في كتاب فرق الفقهاء ما نقل عنه من ذلك وبينت وجوهه، والله أعلم وأحكم۔

اور میرے نزدیک یہ روایت امام مالکؒ سے صحیح (ثابت) نہیں ، اس لئے کہ امام مالکؒ جواپنی  عقل مندی ، علم ، فضیلت ، دینداری  اپنے نزدیک صحیح اور ثابت   چیز کے علاوہ کسی کے بارے میں کوئی بات کہنے سے احتیاط کرنے میں معروف ہیں ، وہ کسی مسلمان کے بارے میں کوئی ایسی بات کہنے والے نہیں تھے جو ان کے نزدیک متحقق نہ ہو، امام ابوحنیفہؒ کے شاگردوں میں سے عبد اللہ بن المبارکؒ بھی ہیں ، اور یہ مشہور ہے کہ امام مالکؒ ان کا اکرام واحترام  کرتے تھے ، اور یہ بات معلوم ہے کہ امام مالک ؒ نے امام ابوحنیفہ  کا تذکرہ مسائل کے علم کے ساتھ کیا ہے، اور امام ابو حنیفہؒ نے ان سے حدیثیں لی ہیں ، نیز امام محمدبن الحسن  ؒ نے بھی ان سے مؤطا اخذ کی ہے،جسےمیں ابو ذر عبد بن احمد ؓ کے واسطے سے رویت کرتا ہوں ، امام ابو حنیفہ ؒ انتہائی عبادت گزاری اور دنیا سے زہد میں مشہور تھے، آپ حکومت کے عتاب کا شکار ہوئے، عہدہ قضاء قبول کرنے کیلئے آپ کو کوڑے لگائے گئےمگر آپ نے انکار کیا  ۔

امام مالک ؒ آپ جیسے شخص کے بارے میں وہی بات کہہ سکتے ہیں جو آپ کے فضل کے لائق ہو ، ہمیں نہیں معلوم کہ امام مالکؒ نے فقہاء میں سے کسی کے بارے میں کلام کیا ہو، ہاں البتہ بعض محدثین کے بارے میں نقل حدیث کے اعتبار سے کلام کیا ہے ،آپؒ سے مروی ہے آپ نے فرمایا : میں نے مدینہ میں ایسے لوگوں کو دیکھا جن میں کوئی عیب نہیں تھا ، انہوں نے لوگوں کے عیب تلاش کئے تو لوگوں نے  (خود ) ان کے عیوب بیان کئے ، اور ایسے لوگوں کو بھی پایا جن میں عیوب تھے ، مگر انہوں نے لوگوں کے عیوب بیان نہیں کئے تو لوگوں نے بھی ان کے عیبوں کا تذکرہ نہ کیا ، تو امام مالک ؒ تو  لوگوں کو دوسروں کے عیوب دیکھنے سے روک رہے ہیں ،وہ خود کیسے لوگوں کے عیوب تلاش کریں گے ، اور ائمہ کیسے آپ کے بارے میں ایسا تذکرہ کرسکتے ہیں جو آپ کے شایان شان نہ ہو،’’فرق الفقہاء ‘‘ نامی کتاب میں،  میں نے آپ کے بارے  میں ائمہ کے اقوال کا تذکرہ  کیا ہے اور ان کی وضاحت بھی کی ہے۔(المنتقیٰ : جلد۷: صفحہ ۳۰۰)



ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر14

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...