اعتراض نمبر 73 : کہ ایوب السختیانی نے ابو حنیفہ کو دیکھ کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تتر بتر ہو جاؤ تا کہ وہ اپنی بیماری ہمیں نہ لگا دے۔
اعتراض نمبر 73 :
کہ ایوب السختیانی نے ابو حنیفہ کو دیکھ کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تتر بتر ہو جاؤ تا کہ وہ اپنی بیماری ہمیں نہ لگا دے۔
أخبرنا ابن الفضل، أخبرنا ابن درستويه، حدثنا يعقوب، حدثنا أبو بكر بن خلاد قال: سمعت عبد الرحمن بن مهدي قال: سمعت حماد بن زيد يقول:
سمعت أيوب - وذكر أبو حنيفة - فقال: * (يريدون أن يطفئوا نور الله بأفواههم ويأبى الله إلا أن يتم نوره) * [التوبة 32].
أخبرنا القاضي أبو بكر أحمد بن الحسن الحيري وأبو القاسم عبد الرحمن ابن محمد السراج وأبو سعيد محمد بن موسى الصيرفي قالوا: حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب الأصم، حدثنا محمد بن إسحاق الصاغاني، حدثنا سعيد بن عامر، حدثنا سلام بن أبي مطيع قال: كان أيوب قاعدا في المسجد الحرام، فرآه أبو حنيفة فأقبل نحوه، فلما رآه أيوب قد أقبل نحوه قال لأصحابه: قوموا لا يعرنا بجربه قوموا، فقاموا فتفرقوا.
أخبرنا ابن الفضل، أخبرنا ابن درستويه، حدثنا يعقوب، حدثني الفضل ابن سهل، حدثنا الأسود بن عامر عن شريك قال: إنما كان أبو حنيفة جربا.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ اس کی سند میں سعید بن عامر ہے اور اس کی حدیث میں کچھ غلطیاں ہوتی تھیں۔
جیسا کہ ابن ابی حاتم نے کہا ہے۔
اور سلام بن ابی مطیع کے بارہ میں ابن حبان نے کہا کہ جب یہ روایت میں اکیلا ہو تو اس کو دلیل بنانا جائز نہیں ہے۔
اور حاکم نے کہا کہ غفلت اور کمزور حافظہ کی طرف اس کی نسبت کی گئی ہے۔
اور اس جیسا آدمی اس روایت کے معارضہ کی قوت نہیں رکھتا جو خطیب - نے ص 341 میں پہلے بیان کی ہے اور نہ ہی یہ اس کا مقابلہ کر سکتا ہے جو ابن عبد البر نے ص 125 میں حماد بن زید تک اپنی سند کے ساتھ بیان کیا ہے کہ حماد نے کہا کہ ایوب السختیانی نے کہا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ بے شک اہل کوفہ کے فقیہ ابو حنیفہ حج کا ارادہ رکھتے ہیں۔
پس جب تو اس سے ملے تو اس کو میری طرف سے سلام کہنا اور یہ روایت اس روایت کے بھی خلاف ہے جو ابن عبد البر نے ص 130 میں حماد بن زید سے نقل کی ہے اللہ کی قسم بے شک میں ابو حنیفہ سے اس لیے محبت رکھتا ہوں کہ ایوب کو ان سے محبت ہے۔ اور حماد بن زید نے ابو حنیفہ سے بہت سی احادیث روایت کی ہیں۔ الخ
اور اگر سند میں ذرا سی بھی قوت ہوتی تو کچھ بات ہوتی۔
اور ایوب ان لوگوں میں سے
تھے جن کی طبیعت میں مزاح اور لطیفے ہوتے تھے[1]۔ تو ہم کہیں گے کہ بے شک انہوں نے ان بعض لوگوںسے مزاح کیا ہو گا جو ابو حنیفہ کے بارہ میں اپنی زبان کی حفاظت نہ کرتے تھے اور اس کے بارہ میں کہا کہ وہ خارش کی ایسی بیماری ہے جو متعدی ہوتی ہے اور دوسروں کو لگ جاتی ہے جیسا کہ خطیب نے اس کے بعد شریک سے نقل کیا ہے۔
ایوب کی مراد اس سے یہ تھی کہ وہ اپنی رائے کی طرف بکثرت لوگوں کو کھینچ لاتے تھے اور جو خبر خطیب نے شریک کی طرف منسوب کی ہے اس کی سند میں ابن درستویہ ہے اور آپ اس کا حال جانتے ہیں[2]۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ دیگر محدثین عظام کی طرح امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ بھی ابتداء میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو قیاس کی وجہ سے پسند نہ کرتے تھے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ تب کہ قیاس شرعی باقاعدہ ایک علم بن کر سامنے نہ آیا تھا ۔ تفصیل درج ذیل اقتباس میں ملاحظہ ہو
__________________________
بعض محدثین نے قیاس اور رائے کی وجہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراض وغیرہ کئے۔
جواب:
اول : جس طرح ابتداء میں رواة کے حالات بیان کرنے کو بعض لوگ غیبت سمجھتے تھے ویسے ہی ابتداء میں بعض محدثین قیاس شرعی کو دین میں ذاتی رائے کہہ کر مذمت کرتے تھے ۔
ابتداء میں جب علم قیاس معروف نہ تھا تو محدثین یہ سمجھ رہے تھے کہ قیاس محض رائے ہے اور دین میں رائے کی کوئی اہمیت نہیں ، لیکن جیسے جیسے علم قیاس مدون ہوا اور مشہور ہوا تو بعد کے محدثین قیاس اور رائے کو برا نہ سمجھتے تھے ، یہی وجہ ہیکہ امام شافعی اور امام احمد بھی قیاس کرتے تھے ، قیاس کے منکر اہل ظواہر تھے جن کی فقہ کب کی ختم ہو گئی ۔
حدثني عمرو بن علي وحسن الحلواني كلاهما، عن عفان بن مسلم، قال: كنا عند إسماعيل ابن علية، فحدث رجل عن رجل، فقلت: إن هذا ليس بثبت، قال: فقال الرجل: اغتبته؟ قال إسماعيل: ما اغتابه، ولكنه حكم انه ليس بثبت.
عفان بن مسلم سے روایت ہے، ہم اسمٰعیل بن علیہ کے پاس بیٹھے تھے۔ اتنے میں ایک شخص نے دوسرے شخص سے ایک حدیث روایت کی۔ میں نے کہا: وہ معتبر نہیں۔ وہ شخص بولا: تو نے اس کی غیبت کی۔ اسمٰعیل نے کہا: اس نے غیبت نہیں کی بلکہ حکم لگایا اس پر کہ وہ معتبر نہیں۔
(مقدمہ صحیح مسلم رقم 84)
محدثین نے خود لکھا کہ علم الجرح و التعدیل حدیث نبوی کی حفاظت کا ذریعہ ہے ، غیر عادل راویوں کے عیوب و نقائص بیان کرنا ، دین و شریعت کی حفاظت اور مدافعت کے لیے ضروری ہے ، غیبت نہیں ہے بلکہ ایک دینی فریضہ اور شرعی ضرورت ہے جس کے پورا کرنے پر اجروثواب ملے گا۔
اسی طرح ہم بھی کہتے ہیں کہ قرآن و سنت سے مسائل اخذ کرنے کیلئے فقہاء نے رائے اور قیاس کا بھی سہارہ لیا ورنہ آج فقہ اسلامی مکمل طور پر مدون نہ ہوتا ، روز مرہ کے جدید مسائل پیش آتے اور ان کو حل موجود نہ ہوتا جیسا کہ آج بھی غیر مقلدین جدید فقہی مسائل میں کبھی حنفیوں کے در در جاتے ہیں کبھی شوافع وغیرہ کے ۔ اگر ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور دیگر مجتہدین نے قیاس کو استعمال کر کے دین کو تباہ کیا ہے تو معترض کو چاہیے کہ وہ صرف قرآن و حدیث سے ہی تمام جدید فقہی مسائل کا جواب دیکر امت اور دین اسلام کو مزید تباہ ہونے سے بچائے ، لیکن معترض صرف اعتراض کرنا جانتے ہیں ، مسائل کا حل ان کے پاس نہیں۔
---------------------------------------------------------------
لہذا ابتداء میں امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ سے بعض مذمتی اقوال ملتے ہیں لیکن بعد میں جب غلط فہمی دور ہوئی تو یہی محدث و فقیہ امام ایوب سختیانی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے محبت و عقیدت رکھنے لگے ، امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو فقیہ کہنے لگے ، ان کو تقوی سے متصف کرنے لگے ۔
یاد رہے فقیہ کہنا بھی غیر مقلدین کے نزیک توثیق ہے ۔ مکمل تفصیل اس پوسٹ پر دیکھیں
روایت نمبر 1 :
ابو سلیمان جوزجانیؒ کہتے ہیں کہ میں نے حماد بن زیدؒ کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے حج کا ارادہ کیا، تو میں ایوبؒ کو الوداع کہنے آیا ، انہوں نے کہا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ بندہ نیک ، اہل کوفہ کے فقیہ یعنی ابو حنیفہؒ اس سال سے حج کرنے والے ہیں ، تو جب تمہاری ان سے ملاقات ہوتو انہیں میرا سلام کہنا۔
(تاریخ بغداد : جلد۱۳ : صفحہ ۳۴۱ ، اسنادہ حسن الاجماع شمارہ 9)
روایت نمبر 2 :
امام حمادؒ کہتے ہیں : قسم بخدا ! میں ابو حنیفۃ سے محبت کرتا ہوں ، اس لئے کہ وہ ایوبؒ سے محبت کرتے ہیں ، اور حماد ابن زیدؒ نے امام ابو حنیفہ سے بہت سی حدیثیں روایت کی ہیں ۔
(الانتقاء لابن عبد البر : صفحہ ۱۳۰ ، اس کی سند حسن ہے الاجماع شمارہ 12)
نیز، امام ایوب ؒ کی وفات کے بعد امام حماد ؒ یہ روایت اپنے شاگرد حافظ الحدیث ، سلیمان بن حرب ؒ کو بیان کر رہے ہیں ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ایوب ؒ ، امام ابو حنیفہ اور امام حماد بن زید ؒ کے درمیان حالات خوشگوار تھے۔
نکتہ : یہاں امام اعظم کے بغض میں مبتلاء متعصب غیر مقلد اعتراض کر سکتے ہیں کہ ، ابو حنیفہ رحمہ اللہ ایوب سختیانی سے محبت کرتے تھے ، ایوب سختیانی رحمہ اللہ کو ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے محبت نہ رکھتے تھے
جواب :
امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ کے سب سے خاص شاگرد حماد بن زید رحمہ اللہ ہیں، حماد بن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے اس لئے محبت کرتا ہوں کہ وہ ایوب سختیانی رحمہ اللہ سے محبت کرتے ہیں ، جو شاگرد اپنے استاد کی محبت میں اس درجہ فنا ہو کہ استاد سے محبت کرنے والوں سے محبت کرنے لگے تو ایسے میں کیا یہ ممکن ہے کہ استاد جس سے نفرت کرے، شاگرد اس سے محبت کرے ؟ معلوم ہوا کہ امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ ، امام اعظم رحمہ اللہ سے محبت و عقیدت رکھتے تھے ۔
نکتہ :
امام حماد بن زید رحمہ اللہ کے شاگرد سلیمان بن حرب رحمہ اللہ ، اپنے استاذ سے مدح ابو حنیفہ میں متفق نہ تھے
حَدَّثَنَا سليمان بن حرب حدثنا حماد بن زيد قَالَ: قَالَ ابْنُ عَوْنٍ:نُبِّئْتُ أَنَّ فِيكُمْ صدادين يصدون عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ. قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ:وَأَبُو حَنِيفَةَ وَأَصْحَابُهُ مِمَّنْ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ.
جواب :
یہ اس وقت ہوتا ہے جب شاگرد استاد کی محبت کو اپنی محبت بنا لے اور استاد کی نفرت کو اپنی نفرت بنالے ، ورنہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ شاگرد و استاد میں طویل استفادہ و افادہ کے باوجود ذوق اور منہج کا اختلاف ہوتا ہے ، جیسا کہ محدثین کرام کی سیرت اور سوانح سے واضح ہے۔
چونکہ سلیمان بن حرب اپنے استاد کے اس درجہ شیفتہ اور فریفتہ نہیں ہیں بلکہ ایسا لگتاہے کہ ان کو امام ابوحنیفہ سے تعلق پر اپنے استاد سے ایک درجہ کی ناگواریٔ خاطر ہے، لہذا یہاں پر وہ بات نہیں کہی جا سکتی جو ماقبل میں ذکر ہوئی ہے۔
یہی سلیمان بن حرب نقل کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ سے حماد بن زید محبت کرتے ہیں اور یہی سلیمان بن حرب یصدون عن سبیل اللہ کا مصداق امام ابوحنیفہ اوران کے متبعین کو بنادیتے ہیں، یہی سلیمان بن حرب کہتے ہیں کہ حماد بن زید امام ابوحنیفہ سے بکثرت روایتیں نقل کرتے تھے اوریہی سلیمان بن حرب راہ خدا سے روکنے کا سنگین الزام لگاتے ہیں ،
استاد کعبہ کو چلا اورشاگرد ترکستان کی راہ لے رہاہے ،
ایسے میں کیسے کہا جاسکتا ہے کہ شاگرد کو دیکھ کر استاد کے منہج کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، ہاں وہ شاگرد جس نے استاد کی محبت کو اپنی محبت بنا لیا ہو، اس کےبارے میں ایسا کہہ سکتے ہیں (یعنی شاگرد حماد ، استاد ایوب سختیانی)۔
اور کمال یہ ہے کہ حماد بن زید بصری ہیں، امام ابوحنیفہ کوفی ہیں، ابن عون کہتے ہیں کہ مجھے خبر ملی ہے کہ تم میں بعض لوگ اللہ کی راہ سے روکنے والے ہیں ، تو بصرہ اورکوفہ کی مشہور علمی اور وطنی چپقلش کے ہوتے ہوئے سلیمان بن حرب نے کس منطق اور لیاقت سے اس کو امام ابوحنیفہ پر چسپاں کردیا، یہ تو میری سمجھ سے باہر ہے ، ان کی سمجھ میں آئے توبتائیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر سلیمان بن حرب کے پاس حماد بن زید سے امام ابوحنیفہ کی نفرت کے اظہار کوئی بھی مقولہ ہوتا تو کیا وہ اس کو بتانے سے ، اس کے اظہار سے ذرہ برابر بھی چوکتے ؟، لیکن ان کو اس طرح کا کوئی قول ، مقولہ ملا نہیں تو ایک محتمل قول سے امام ابوحنیفہ کو ہدف بنایا۔
(منقول ، بشکریہ رحمانی صاحب حنفی)
______________________________________
خلاصہ کلام یہ ہیکہ امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ شروع میں غلط فہمی کی وجہ سے امام صاحب سے کچھ خوش نہ تھے لیکن بعد میں ان سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تعریف ثابت ہے ، تفصیل کیلئے دیکھیں النعمان سوشل میڈیا سروسز کی ویب سائٹ پر موجود
[2]۔ قاضی شریک رحمہ اللہ ، یہ خود متکلم فیہ ہیں. کوفہ آنے کے بعد ان کا حافظہ خراب ہو گیا تھا. خود شریک پر محدثین کی کثیر الخطأ، کثیر الغلط و وہم، تغير ، سئی الحفظ، جیسی متعدد جروحات ہیں.
تو ایسے شخص کا کلام امام ابو حنیفہ کے خلاف قبول نہیں ہو سکتا جبکہ متن سے بھی واضح ہے کہ شریک نے انصاف سے کام نہ لیتے ہوئے تعصب کی بنیاد پر جرح کی ہے۔
شريك بن عبد الله بن الحارث بن شريك بن عبد الله
أبو أحمد الحاكم : ليس بالمتين
أبو حاتم الرازي : صدوق، له أغاليط
أبو دواد السجستاني : ثقة يخطئ علي الأعمش
أبو زرعة الرازي : كان كثير الخطأ، صاحب وهم، وهو يغلط أحيانا، فقيل له إنه حدث بواسط بأحاديث بواطيل فقال: لا تقل بواطيل
أبو عيسى الترمذي : كثير الغلط والوهم
أحمد بن شعيب النسائي : ليس به بأس، ومرة: ليس بالقوي
إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني : سيئ الحفظ مضطرب الحديث مائل
ابن أبي حاتم الرازي : صدوق له أغاليط
ابن حجر العسقلاني : صدوق يخطىء كثيرا، تغير حفظه منذ ولي القضاء بالكوفة، وكان عادلا فاضلا عابدا شديدا على أهل البدع، سمع من أبيه ولكن شيئا يسيرا، مرة: مختلف فيه وما له سوى موضع في الصحيح
الدارقطني : ليس بالقوي
يعقوب بن شيبة السدوسي : صدوق ثقة سيئ الحفظ جدا وعن ابن رجب الحنبلي عنه: كتب صحاح وحفظه فيه اضطراب
(النعمان سوشل میڈیا سروسز)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں