نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 99 : کہ عبد الرحمن بن مہدی نے کہا کہ ابوحنیفہ اور حق کے درمیان پردہ حائل ہے۔


 اعتراض نمبر 99 : 
کہ عبد الرحمن بن مہدی نے کہا کہ ابوحنیفہ اور حق کے درمیان پردہ حائل ہے۔


أخبرنا العتيقي، حدثنا يوسف بن أحمد الصيدلاني، حدثنا محمد بن عمرو العقيلي، حدثني زكريا بن يحيى الحلواني قال: سمعت محمد بن بشار العبدي بندارا يقول: قلما كان عبد الرحمن بن مهدي يذكر أبا حنيفة علي إلا قال: كان بينه وبين الحق حجاب.


أخبرنا البرقاني قال: قرأت على محمد بن محمود المروزي - بها - حدثكم محمد بن علي الحافظ قال: قيل لبندار - وأنا أسمع - أسمعت عبد الرحمن بن مهدي يقول: كان بين أبي حنيفة وبين الحق حجاب؟ فقال: نعم! قد قاله لي.


أخبرنا ابن الفضل، أخبرنا ابن درستويه، حدثنا يعقوب، حدثنا محمد بن بشار قال: سمعت عبد الرحمن يقول: بين أبي حنيفة وبين الحق حجاب.

الجواب :

 میں کہتا ہوں کہ اگر حق سے مراد حق تعالی کی ذات ہے تو کون ہے کہ جس کے اور حق کے درمیان پردہ نہیں ہے اور اگر حق سے مراد مسائل کا درست ہونا ہے تو اعتقاد میں اس کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ اس کا خلاف گمراہی نہ ہو (یعنی اس کے بیان کردہ مسائل حق ہیں اور ان کا خلاف گمراہی ہے) اور بہر حال فروعی مسائل تو باقی ائمہ متبوعین کے فقہ میں مشغول ہونے سے پہلے ہی اس نے بھی اور اس کے دیگر اصحاب اصول نے اصول وضع کیے اور اپنے دلائل کے ساتھ فروعی مسائل نکالے۔ 

اور وہ (باقی ائمہ ) فقہ کے تین تہائی مسائل میں اس کے ساتھ موافق ہیں جیسا کہ ان کتابوں میں ہے جو ان اختلافی مسائل پر لکھی گئی ہیں۔ 

ان میں ائمہ کے اتفاقی مسائل کے مقامات اور اختلاف کے مقامات پڑھے پڑھائے جاتے ہیں۔ اور فقہ کے باقی ایک چوتھائی مسائل میں اختلاف مسلسل ہے۔ پس مطلقا یہ کہنا کہ اس کے اور حق کے درمیان پردہ حائل ہے تو یہ بے تکی بات ہے جو سراسر بے اعتبار ہے اس کو ساقط کرنے کی جانب ضرورت ہی نہیں۔ 

اور اگر حق سے مراد بعض معمولی حصہ ہے جس کے بارہ میں مختلف کا نظریہ ہے کہ ابو حنیفہ نے اس میں غلطی کی ہے تو اس کے بارہ میں بات کرنے کی گنجائش ہے۔

 علاوہ اس کے یہ بات بھی ہے کہ پہلی اور دوسری سند میں ایک راوی بندار ایسا ہے کہ پہلے لوگوں نے اس کے بارہ میں کلام کیا ہے اور یہاں تک کہا ہے کہ وہ متہم بالکذب اور حدیثوں کا چور تھا۔ پھر متاخرین نے اس کی

روایات سے منتخب کر کے لینے کا عمل اختیار کیا اور تیسری سند میں اس کے ساتھ ساتھ ابن

درستویہ بھی ہے۔ (جس کا تذکرہ پہلے ہو چکا ہے۔) [1]


امام کوثری کا کلام مکمل ہوا





[1]۔ امام عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ کا یہ  کہنا کہ امام  ابوحنیفہ اور حق کے درمیان پردہ حائل تھا ، غیر مفسر اور غیر واضح قسم کا اعتراض ہے ۔ 


اول : وحی کا نزول بند ہو چکا ہے ، تو کیسے امام عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ کو معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہ اور  حق (اگر اس سے مراد اللہ کی ذات باری تعالی ہے) کے درمیان کوئی پردہ حائل ہے ۔ معلوم ہوا ، ابن مہدی کا یہ قول ، اس تعلق سے درست نہیں۔


دوم : اگر حق سے مراد اعتقادی مسائل ہیں ،تو اس صورت میں عقیدہ طحاویہ میں درج عقائد پر تمام اہل السنت والجماعت کے آئمہ کا اتفاق ہے ، اور عقیدہ طحاویہ کے ابتداء میں ہی اعلان ہیکہ یہ عقیدے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ اور امام محمد بن حسن الشیبانی رحمہ اللہ کے ہیں ۔  لہذا اگر اعتقادی مسائل کی وجہ سے حق اور ابو حنیفہ کے درمیان کوئی پردہ ہے تو ، اس پردہ میں جملہ اہل السنت والجماعت شامل ہو جاتے ہیں ، لیکن ابن مہدی رحمہ اللہ کی مراد یہ بھی نہیں ہو سکتی۔


سوم : اگر حق سے مراد فروعی مسائل ہیں تو ، یہاں ہم آئمہ ثلاثہ کی بات فی الحال نہیں کرتے ۔ خود امام ابن مہدی کے استاد جناب امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی فقہ کی بات کرتے ہیں ، جن کی فقہ ، فقہ حنفی سے بہت زیادہ مماثلت رکھتی تھی ، پھر اعتراض اکیلے ابو حنیفہ پر نہیں ، بلکہ ابن مہدی کے استاد محترم کے سر بھی آئے گا ، معلوم ہوا ، ابن مہدی کی مراد یہ بھی نہیں ہو سکتی۔ 


حاصل کلام : امام ابن مہدی چونکہ سفیان ثوری رحمہ اللہ کے خاص شاگردوں میں سے تھے ، لہذا ان کی طبیعت اور مزاج اپنے استاذ جیسا تھا ، جیسے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے حق بات پر بھی ابو حنیفہ کی موافقت پسند نہیں ، تو یہی تعصب ان کے شاگرد عبدالرحمن بن مہدی کے اندر بھی تھا ، جبھی انہوں نے ایک غیر مفسر قسم کی جرح کی ۔ اسی لئے متاخر آئمہ جرح و تعدیل نے ابن مہدی رحمہ اللہ کی اس غیر مفسر جرح کو کچھ بھی وقعت نہیں دی۔


مزید تفصیل کیلئے دیکھیں

 " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود

▪︎ ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 75 


▪︎سلسلہ امام ابو حنیفہ پر متفرق اعتراضات ، اعتراض نمبر 18


▪︎امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ کی حنفیت (باب دوم ) وکیع کا فقہ اہل الرائے کی تعلیم حاصل کرنا 

 مصنف : مولانا ابو حمزہ زیشان صاحب فاضل رائیونڈ

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...