نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام عبدالرحمٰن بن مہدی رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات کا تحقیقی جائزہ


امام عبدالرحمٰن بن مہدی رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات کا تحقیقی جائزہ 


اس پوسٹ میں ہم امام عبدالرحمٰن بن مہدی سے مروی  جروحات  کا جائزہ لیں گے جو انہوں نے امام اعظم ابو حنیفہؒ پر کی ہیں۔امام عبدالرحمٰن بن مہدی ، سفیان ثوریؒ کے خاص شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں اور جلیل القدر محدث ہیں۔ اس تحریر میں ہم ان سے منقول اعتراضات و جروحات کو تحقیقی نظر سے پرکھیں گے۔


 اعتراض نمبر 1 : 

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ، ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ قُلْتُ: نَأْخُذُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، مَا يَأْثُرُهُ، وَمَا وَافَقَ الْحَقَّ؟ قَالَ: «لَا وَلَا كَرَامَةَ. جَاءَ إِلَى الْإِسْلَامِ يَنْقُضُهُ عُرْوَةً عُرْوَةً، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ شَيْءٌ»

احمد بن اسحاق بیان کرتے ہیں: ہم سے عبدالرحمٰن بن محمد نے روایت کی، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن عمر نے کہا: میں نے عبدالرحمٰن بن مہدی سے پوچھا: "کیا ہم امام ابو حنیفہ سے وہ آثار (روایات) لیں جو وہ نقل کرتے ہیں، اور وہ باتیں جو حق کے موافق ہوں؟"

انہوں نے جواب دیا: "نہیں، ہرگز نہیں! انہوں نے اسلام کو گویا گرہ در گرہ کھولنے کی کوشش کی ہے، ان سے کوئی چیز قبول نہیں کی جائے گی۔"

(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء - ط السعادة  ، ج 9 ص 10 )

الجواب :

امام عبد الرحمن بن مہدیؒ جیسے جلیل القدر محدث کا یہ قول کہ "امام ابو حنیفہؒ اسلام کو گرہ گرہ کھولنے والے ہیں اور ان سے کچھ قبول نہیں کیا جائے گا" — نہ صرف سخت بلکہ مبالغہ آمیز ہے۔ یہ الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ یہاں اعتدال اور انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا ہے۔ کیونکہ امام ابو حنیفہؒ کی علمی خدمات، فقہی بصیرت، لاکھوں شاگردوں کی تربیت اور امت کے اجتماعی قبولِ عام کو یکسر نظر انداز کرکے انہیں سراسر ناقابلِ قبول قرار دینا، تعصب کے بغیر ممکن نہیں۔اگر کسی عالم یا مجتہد کی رائے میں اختلاف ہو تو منصف ناقد اس کے اجتہاد کی خطا بیان کرتا ہے، لیکن یہ کہنا کہ "ان سے کوئی چیز قبول نہیں" انصاف نہیں بلکہ افراط ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے باب میں یہی حد سے بڑھی ہوئی شدت ابن مہدیؒ کے تعصب کو ظاہر کرتی ہے۔

اس تعصب کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ عبد الرحمن بن مہدیؒ کے اپنے استاد، امام سفیان ثوریؒ، بہت سے فقہی مسائل میں امام ابو حنیفہؒ کے موافق تھے۔ امام ابو سفیان صالح بن مہران فرماتے ہیں کہ امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے صرف 15 مسائل میں اختلاف کیا تھا۔(حوالہ: طبقات المحدثين بأصبهان 218/2، تمام رواة ثقہ ہیں)۔ تو اگر واقعی ابو حنیفہؒ کا فہمِ دین "اسلام کو توڑنے" کے مترادف ہوتا، تو کیا ان کے استاد سفیان ثوریؒ بھی اسی الزام میں شریک قرار پاتے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ابن مہدیؒ کی سختی اصل میں تعصب کا نتیجہ ہے، دلیل کا نہیں۔ فقہی اعتبار سے بھی دیکھیں تو امام ابو حنیفہؒ اور امام سفیان ثوریؒ کے بہت سے مسائل یکساں ہیں۔ اب اگر ابو حنیفہؒ کی فقہ کو سراسر غلط کہا جائے تو لازمی طور پر سفیان ثوریؒ جیسے امام بھی اسی تنقید کی زد میں آئیں گے۔

عقائد کے باب میں بھی معاملہ بالکل واضح ہے۔ امام ابو جعفر طحاویؒ (م 321ھ) نے جو عقیدہ طحاویہ مرتب کیا ہے، وہ امام ابو حنیفہؒ اور ان کے شاگردوں (امام ابو یوسف اور امام محمدؒ) کے عقائد کا نچوڑ ہے۔ یہی عقیدہ آج بھی پوری امت اہل سنت والجماعت میں متفقہ طور پر پڑھایا اور مانا جاتا ہے۔ کیونکہ "عقیدہ طحاویہ" میں جن عقائد کو بیان کیا گیا ہے، ان پر تمام ائمہ اہل السنۃ والجماعۃ کا اتفاق ہے — اور یہی عقائد امام ابو حنیفہؒ، امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ کے تسلیم شدہ عقائد ہیں۔ پس اگر ان عقائد کو حق سے متصادم قرار دیا جائے تو گویا پوری اہل السنۃ والجماعۃ کو اس پردے میں شامل ماننا پڑے گا، جو کہ قطعاً غیر ممکن اور باطل ہے۔۔ لہٰذا جب عقیدہ بھی درست ہے، تو پھر امام ابو حنیفہؒ سے روایت اور فقہ لینے میں کیا رکاوٹ ہے؟

یہاں سے بھی واضح ہو جاتا ہے کہ ابن مہدیؒ کی جرح محض تعصب کی پیداوار ہے، حقیقت کی نہیں۔

اسی بنیاد پر یہ قطعی ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کے عقائد اہل سنت والجماعت کے متفقہ اصولوں کے مطابق ہیں، اور انہیں آج تک امت نے دل سے قبول کیا ہے۔ چنانچہ ابن مہدیؒ سے منقول تمام جروحات انصاف پر مبنی نہیں بلکہ متعصبانہ ہیں۔

اصولِ جرح و تعدیل کے مطابق، متعصب ناقد کی جرح مردود ہوتی ہے۔ چونکہ یہاں امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں کلی انکار اور انتہائی سخت الفاظ استعمال ہوئے ہیں، اس لیے ابن مہدیؒ کی یہ جرح ناقابلِ اعتماد ہے۔

امام عبد الرحمن بن مہدیؒ، چونکہ سفیان ثوریؒ کے قریبی شاگردوں میں سے تھے، اس لیے ان کے مزاج میں بھی وہی رجحان نظر آتا ہے جو ان کے استاد کا تھا۔ امام ثوریؒ کا یہ کہنا کہ "مجھے ابو حنیفہ کی موافقت حق بات میں بھی پسند نہیں"(«العلل» رواية المروزي وغيره ص١٧٢) ایک واضح تعصب کو ظاہر کرتا ہے، اور یہی رنگ ان کے شاگرد عبد الرحمن بن مہدیؒ کے کلام میں بھی جھلکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ متاخرین ائمہ جرح و تعدیل جیسے امام مزیؒ، امام ذہبیؒ اور ابن حجرؒ نے ان سخت جروحات کو کوئی وقعت نہیں دی۔


 اعتراض نمبر 2 : 

٢٧٦ - سَمِعْتُ بُنْدَارًا يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ يَقُولُ: مَا هَبَطَتْ فِتْنَةٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ أَضَرُّ مِنْ أَبِي حَنِيفَةَ

بندار کہتے ہیں: میں نے عبدالرحمٰن بن مہدی کو یہ کہتے ہوئے سنا: "آسمان سے زمین پر کوئی فتنہ ایسا نہیں اترا جو امام ابو حنیفہ سے زیادہ نقصان دہ ہو۔"

(أخبار الشيوخ وأخلاقهم ص 162 ، أحمد بن محمد بن الحجاج، أبو بكر المَرُّوْذِيُّ ت ٢٧٥هـ )

الجواب :

یہ جرح غیر مفسَّر ہے،  اس میں امام ابو حنیفہؒ کی کسی واضح خطا یا غلطی کی نشاندہی نہیں کی گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر امام ابو حنیفہؒ کی ایسی کون سی برائی تھی جس کی بنیاد پر ابنِ مہدی نے انہیں سب سے بڑا فتنہ قرار دیا؟

ہم پہلے تفصیل سے واضح کر چکے ہیں کہ نہ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ میں کوئی خرابی تھی اور نہ ہی ان کے عقائد میں۔ ان کی فقاہت و دیانت پر بڑے بڑے ائمہ نے شہادت دی ہے۔ لہٰذا ایسی مبہم اور غیر مدلل جرح کو کسی طرح بھی معتبر نہیں مانا جا سکتا۔

مزید یہ کہ ابنِ مہدی  متعصب  تھے۔ یہی تعصب ان کے سخت کلام کا اصل سبب ہے۔ اس لیے یہ جرح باطل اور ناقابلِ التفات ہے۔


 اعتراض نمبر 3 : 

أخبرني الأزهري، حدثنا أبو المفضل الشيباني، حدثنا عبد الله بن أحمد الجصاص، حدثنا إسماعيل بن بشر قال: سمعت عبد الرحمن بن مهدي يقول: ما أعلم في الإسلام فتنة بعد فتنة الدجال أعظم من رأي أبي حنيفة.

کہ عبد الرحمن بن مہدی نے کہا کہ دجال کے فتنہ کے بعد سب سے بڑا فتنہ ابو حنیفہ کی رائے ہے۔

الجواب : اس اعتراض  کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں :  "النعمان سوشل میڈیا سروسز"  کی ویب سائٹ پر موجود




 اعتراض نمبر 4 : 

أخبرنا العتيقي، حدثنا يوسف بن أحمد الصيدلاني، حدثنا محمد بن عمرو العقيلي، حدثني زكريا بن يحيى الحلواني قال: سمعت محمد بن بشار العبدي بندارا يقول: قلما كان عبد الرحمن بن مهدي يذكر أبا حنيفة علي إلا قال: كان بينه وبين الحق حجاب.

أخبرنا البرقاني قال: قرأت على محمد بن محمود المروزي - بها - حدثكم محمد بن علي الحافظ قال: قيل لبندار - وأنا أسمع - أسمعت عبد الرحمن بن مهدي يقول: كان بين أبي حنيفة وبين الحق حجاب؟ فقال: نعم! قد قاله لي.

أخبرنا ابن الفضل، أخبرنا ابن درستويه، حدثنا يعقوب، حدثنا محمد بن بشار قال: سمعت عبد الرحمن يقول: بين أبي حنيفة وبين الحق حجاب.


الجواب : اس اعتراض  کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں :  "النعمان سوشل میڈیا سروسز"  کی ویب سائٹ پر موجود






 اعتراض نمبر 5 : 

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ حَدَّثَنَا رُسْتَهْ قَالَ سَمِعت عبد الرَّحْمَن بن مَهْدِيٍّ يَقُولُ وَذَكَرَ أَبَا حَنِيفَةَ فَقَرَأَ لِيَحْمِلُوا أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلا سَاءَ مَا يزرون

محدث ابن حبان نقل کرتے ہیں کہ امام عبد الرحمان بن مہدی رحمہ اللہ کے سامنے امام ابو حنیفہ کا تذکرہ ہوا تو انہوں نے امام ابو حنیفہ کے خلاف قرآن کی آیت پڑھی۔ 

(المجروحين لابن حبان ت زاید 3/72  )

جواب  :  اس اعتراض  کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں :  "النعمان سوشل میڈیا سروسز"  کی ویب سائٹ پر موجود




 اعتراض نمبر 6 : 
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَمْرٍو، ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ قَالَ: شَهِدْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ - وَأَرَادَ أَنْ يَشْتَرِيَ، وَصِيفَةً لَهُ مِنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَغْدَادَ - فَلَمَّا قَامَ عَنْهُ أَخْبَرَ أَنَّهُ، وَضَعَ كُتُبًا مِنَ الرَّأْيِ، وَابْتَدَعَ ذَلِكَ فَجَعَلَ يَقُولُ: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّهِ، وَكَانَ إِذَا أَتَاهُ قَرَّبَهُ وَأَدْنَاهُ، فَلَمَّا جَاءَهُ رَأَيْتُهُ دَخَلَ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ مَرِيضٌ فَسَلَّمَ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ فَقَعَدَ، فَقَالَ لَهُ: «يَا هَذَا مَا شَيْءٌ بَلَغَنِي عَنْكَ. إِنَّكَ ابْتَدَعْتَ كُتُبًا أَوْ وَضَعْتَ كُتُبًا فِي الرَّأْيِ»، فَأَرَادَ أَنْ يَتَقَرَّبَ إِلَيْهِ بِسُوءِ رَأْيِهِ فِي أَبِي حَنِيفَةَ فَقَالَ: يَا أَبَا سَعِيدٍ إِنَّمَا وَضَعْتُ كُتُبًا رَدًّا عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ، فَقَالَ لَهُ: «تَرُدُّ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ بِآثَارِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، وَآثَارِ الصَّالِحِينَ؟» فَقَالَ: لَا. فَقَالَ: «إِنَّمَا تَرُدُّ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ بِآثَارِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، وَآثَارِ الصَّالِحِينَ، فَأَمَّا مَا قُلْتَ فَرَدُّ الْبَاطِلِ بِالْبَاطِلِ. اخْرُجْ مِنْ دَارِي، فَمَا كُنْتُ أَضَعُ أَوْ أَتَّبِعُ حُرْمَةً عِنْدَكَ، وَلَوْ بِكَذَا وَكَذَا»، فَذَهَبَ يَتَكَلَّمُ فَقَالَ لَهُ: «مُحَرَّمٌ عَلَيْكَ أَنْ تَتَكَلَّمَ أَوْ تَتَمَكَّنَ فِي دَارِي فَقَامَ وَخَرَجَ»
عبد الرحمن بن عمر کہتے ہیں: میں عبد الرحمن بن مہدیؒ کے پاس موجود تھا، وہ کسی بغدادی شخص سے ایک باندی خریدنا چاہتے تھے۔ جب وہ شخص چلا گیا تو عبد الرحمن بن مہدیؒ نے بتایا کہ اس نے کچھ "کتب الرأي" (یعنی رائے پر مبنی کتابیں) تصنیف کی ہیں اور بدعت کی ہے۔ پھر عبد الرحمن بن مہدیؒ کہنے لگے: "ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اس کے شر سے"۔
(راوی کہتا ہے) کہ عبد الرحمن بن مہدیؒ کی یہ عادت تھی کہ جب وہ (شخص) ان کے پاس آتا تو اسے قریب بٹھاتے اور عزت دیتے۔ لیکن ایک دن وہ آیا جب عبد الرحمن بن مہدیؒ بیمار تھے، اس نے آ کر سلام کیا مگر عبد الرحمن نے جواب نہ دیا۔ وہ بیٹھ گیا۔ تو عبد الرحمنؒ نے کہا:
"اے شخص! میرے پاس یہ خبر پہنچی ہے کہ تم نے کچھ نئی کتابیں تصنیف کی ہیں یا رائے پر مبنی کتابیں لکھی ہیں؟"
اس نے عبد الرحمن بن مہدیؒ کو خوش کرنے کے لیے امام ابو حنیفہؒ کے خلاف بات کرنا چاہی اور کہا: "اے ابو سعید! میں نے تو یہ کتابیں صرف ابو حنیفہؒ کے رد میں لکھی ہیں۔"
تو عبد الرحمن بن مہدیؒ نے فرمایا: "کیا تم ابو حنیفہؒ کا رد رسول اللہ ﷺ کی احادیث اور صالحین کے آثار سے کرتے ہو؟" اس نے کہا: "نہیں۔"
عبد الرحمن بن مہدیؒ نے فرمایا: "یاد رکھو! ابو حنیفہؒ کا رد صرف رسول اللہ ﷺ کی احادیث اور صالحین کے آثار سے ہوسکتا ہے۔ اور تمہارا یہ کام تو باطل کا باطل کے ساتھ رد ہے۔ اب میری گھر سے نکل جاؤ! تمہارے پاس میری نظر میں کوئی عزت باقی نہیں رہی، چاہے تمہارے پاس کچھ بھی ہو۔"
وہ شخص کچھ کہنے لگا تو عبد الرحمن بن مہدیؒ نے کہا: "میرے گھر میں تمہارا بولنا یا جمنا حرام ہے۔" پھر وہ شخص اٹھا اور باہر چلا گیا۔
(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء - ط السعادة ٩/‏٩ )

الجواب :
یہ واقعہ واضح دلیل ہے کہ امام عبدالرحمٰن بن مہدیؒ خود امام ابو حنیفہؒ کی علمی عظمت کے معترف تھے۔ اس شخص نے جب یہ کہا کہ اس نے امام ابو حنیفہؒ کے رد میں کتاب لکھی ہے، تو ابن مہدیؒ نے نہ صرف اسے جھڑک دیا بلکہ یہ حقیقت بیان کی کہ: "ابو حنیفہؒ کا رد صرف قرآن و سنت اور آثار صالحین کے ساتھ ہو سکتا ہے، محض رائے سے نہیں۔"
یہ جملہ دراصل اس بات کا کھلا اعتراف ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کے دلائل قرآن و سنت پر مبنی اور مضبوط تھے۔ اگر وہ دلائل کمزور یا محض قیاس پر ہوتے، تو ان کا رد عام رائے اور قیاس سے ممکن تھا۔ لیکن جب خود ابن مہدیؒ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کا رد صرف قرآن و سنت کے ساتھ ہی ممکن ہے، تو یہ ان کے اجتہاد اور علمی بنیادوں کی پختگی کی سب سے بڑی گواہی ہے۔
اب اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اس میں امام ابو حنیفہؒ کی باتوں کو بھی "باطل" کہا گیا ہے، تو جواب یہ ہیکہ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ اور عقیدہ دونوں صحیح تھے۔ اگر واقعی ان کی فقہ میں خرابی ہوتی، تو امام سفیان ثوریؒ (جن سے ابن مہدیؒ نے علم لیا) بھی اسی زد میں آتے، کیونکہ ان کے اصول و اجتہاد ، فقہ حنفی قریب قریب تھے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ سفیان ثوریؒ کو بھی جلیل القدر امام مانا جاتا ہے۔
لہٰذا اس واقعے کو امام ابو حنیفہؒ کے خلاف پیش کرنا محض دھوکہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعہ امام ابو حنیفہؒ کی علمی عظمت، ان کے استدلال کی قوت اور ان کے مخالفین کی کمزوری کو بے نقاب کرتا ہے۔



تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...