امام عبدالرحمٰن بن مہدی رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات کا تحقیقی جائزہ
اس پوسٹ میں ہم امام عبدالرحمٰن بن مہدی سے مروی جروحات کا جائزہ لیں گے جو انہوں نے امام اعظم ابو حنیفہؒ پر کی ہیں۔امام عبدالرحمٰن بن مہدی ، سفیان ثوریؒ کے خاص شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں اور جلیل القدر محدث ہیں۔ اس تحریر میں ہم ان سے منقول اعتراضات و جروحات کو تحقیقی نظر سے پرکھیں گے۔
اعتراض نمبر 1 :
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ، ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ قُلْتُ: نَأْخُذُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، مَا يَأْثُرُهُ، وَمَا وَافَقَ الْحَقَّ؟ قَالَ: «لَا وَلَا كَرَامَةَ. جَاءَ إِلَى الْإِسْلَامِ يَنْقُضُهُ عُرْوَةً عُرْوَةً، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ شَيْءٌ»
احمد بن اسحاق بیان کرتے ہیں: ہم سے عبدالرحمٰن بن محمد نے روایت کی، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن عمر نے کہا: میں نے عبدالرحمٰن بن مہدی سے پوچھا: "کیا ہم امام ابو حنیفہ سے وہ آثار (روایات) لیں جو وہ نقل کرتے ہیں، اور وہ باتیں جو حق کے موافق ہوں؟"
انہوں نے جواب دیا: "نہیں، ہرگز نہیں! انہوں نے اسلام کو گویا گرہ در گرہ کھولنے کی کوشش کی ہے، ان سے کوئی چیز قبول نہیں کی جائے گی۔"
(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء - ط السعادة ، ج 9 ص 10 )
الجواب :
امام عبد الرحمن بن مہدیؒ جیسے جلیل القدر محدث کا یہ قول کہ "امام ابو حنیفہؒ اسلام کو گرہ گرہ کھولنے والے ہیں اور ان سے کچھ قبول نہیں کیا جائے گا" — نہ صرف سخت بلکہ مبالغہ آمیز ہے۔ یہ الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ یہاں اعتدال اور انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا ہے۔ کیونکہ امام ابو حنیفہؒ کی علمی خدمات، فقہی بصیرت، لاکھوں شاگردوں کی تربیت اور امت کے اجتماعی قبولِ عام کو یکسر نظر انداز کرکے انہیں سراسر ناقابلِ قبول قرار دینا، تعصب کے بغیر ممکن نہیں۔اگر کسی عالم یا مجتہد کی رائے میں اختلاف ہو تو منصف ناقد اس کے اجتہاد کی خطا بیان کرتا ہے، لیکن یہ کہنا کہ "ان سے کوئی چیز قبول نہیں" انصاف نہیں بلکہ افراط ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے باب میں یہی حد سے بڑھی ہوئی شدت ابن مہدیؒ کے تعصب کو ظاہر کرتی ہے۔
اس تعصب کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ عبد الرحمن بن مہدیؒ کے اپنے استاد، امام سفیان ثوریؒ، بہت سے فقہی مسائل میں امام ابو حنیفہؒ کے موافق تھے۔ امام ابو سفیان صالح بن مہران فرماتے ہیں کہ امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے صرف 15 مسائل میں اختلاف کیا تھا۔(حوالہ: طبقات المحدثين بأصبهان 218/2، تمام رواة ثقہ ہیں)۔ تو اگر واقعی ابو حنیفہؒ کا فہمِ دین "اسلام کو توڑنے" کے مترادف ہوتا، تو کیا ان کے استاد سفیان ثوریؒ بھی اسی الزام میں شریک قرار پاتے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ابن مہدیؒ کی سختی اصل میں تعصب کا نتیجہ ہے، دلیل کا نہیں۔ فقہی اعتبار سے بھی دیکھیں تو امام ابو حنیفہؒ اور امام سفیان ثوریؒ کے بہت سے مسائل یکساں ہیں۔ اب اگر ابو حنیفہؒ کی فقہ کو سراسر غلط کہا جائے تو لازمی طور پر سفیان ثوریؒ جیسے امام بھی اسی تنقید کی زد میں آئیں گے۔
عقائد کے باب میں بھی معاملہ بالکل واضح ہے۔ امام ابو جعفر طحاویؒ (م 321ھ) نے جو عقیدہ طحاویہ مرتب کیا ہے، وہ امام ابو حنیفہؒ اور ان کے شاگردوں (امام ابو یوسف اور امام محمدؒ) کے عقائد کا نچوڑ ہے۔ یہی عقیدہ آج بھی پوری امت اہل سنت والجماعت میں متفقہ طور پر پڑھایا اور مانا جاتا ہے۔ کیونکہ "عقیدہ طحاویہ" میں جن عقائد کو بیان کیا گیا ہے، ان پر تمام ائمہ اہل السنۃ والجماعۃ کا اتفاق ہے — اور یہی عقائد امام ابو حنیفہؒ، امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ کے تسلیم شدہ عقائد ہیں۔ پس اگر ان عقائد کو حق سے متصادم قرار دیا جائے تو گویا پوری اہل السنۃ والجماعۃ کو اس پردے میں شامل ماننا پڑے گا، جو کہ قطعاً غیر ممکن اور باطل ہے۔۔ لہٰذا جب عقیدہ بھی درست ہے، تو پھر امام ابو حنیفہؒ سے روایت اور فقہ لینے میں کیا رکاوٹ ہے؟
یہاں سے بھی واضح ہو جاتا ہے کہ ابن مہدیؒ کی جرح محض تعصب کی پیداوار ہے، حقیقت کی نہیں۔
اسی بنیاد پر یہ قطعی ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کے عقائد اہل سنت والجماعت کے متفقہ اصولوں کے مطابق ہیں، اور انہیں آج تک امت نے دل سے قبول کیا ہے۔ چنانچہ ابن مہدیؒ سے منقول تمام جروحات انصاف پر مبنی نہیں بلکہ متعصبانہ ہیں۔
اصولِ جرح و تعدیل کے مطابق، متعصب ناقد کی جرح مردود ہوتی ہے۔ چونکہ یہاں امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں کلی انکار اور انتہائی سخت الفاظ استعمال ہوئے ہیں، اس لیے ابن مہدیؒ کی یہ جرح ناقابلِ اعتماد ہے۔
امام عبد الرحمن بن مہدیؒ، چونکہ سفیان ثوریؒ کے قریبی شاگردوں میں سے تھے، اس لیے ان کے مزاج میں بھی وہی رجحان نظر آتا ہے جو ان کے استاد کا تھا۔ امام ثوریؒ کا یہ کہنا کہ "مجھے ابو حنیفہ کی موافقت حق بات میں بھی پسند نہیں"(«العلل» رواية المروزي وغيره ص١٧٢) ایک واضح تعصب کو ظاہر کرتا ہے، اور یہی رنگ ان کے شاگرد عبد الرحمن بن مہدیؒ کے کلام میں بھی جھلکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ متاخرین ائمہ جرح و تعدیل جیسے امام مزیؒ، امام ذہبیؒ اور ابن حجرؒ نے ان سخت جروحات کو کوئی وقعت نہیں دی۔
اعتراض نمبر 2 :
٢٧٦ - سَمِعْتُ بُنْدَارًا يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ يَقُولُ: مَا هَبَطَتْ فِتْنَةٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ أَضَرُّ مِنْ أَبِي حَنِيفَةَ
بندار کہتے ہیں: میں نے عبدالرحمٰن بن مہدی کو یہ کہتے ہوئے سنا: "آسمان سے زمین پر کوئی فتنہ ایسا نہیں اترا جو امام ابو حنیفہ سے زیادہ نقصان دہ ہو۔"
(أخبار الشيوخ وأخلاقهم ص 162 ، أحمد بن محمد بن الحجاج، أبو بكر المَرُّوْذِيُّ ت ٢٧٥هـ )
الجواب :
یہ جرح غیر مفسَّر ہے، اس میں امام ابو حنیفہؒ کی کسی واضح خطا یا غلطی کی نشاندہی نہیں کی گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر امام ابو حنیفہؒ کی ایسی کون سی برائی تھی جس کی بنیاد پر ابنِ مہدی نے انہیں سب سے بڑا فتنہ قرار دیا؟
ہم پہلے تفصیل سے واضح کر چکے ہیں کہ نہ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ میں کوئی خرابی تھی اور نہ ہی ان کے عقائد میں۔ ان کی فقاہت و دیانت پر بڑے بڑے ائمہ نے شہادت دی ہے۔ لہٰذا ایسی مبہم اور غیر مدلل جرح کو کسی طرح بھی معتبر نہیں مانا جا سکتا۔
مزید یہ کہ ابنِ مہدی متعصب تھے۔ یہی تعصب ان کے سخت کلام کا اصل سبب ہے۔ اس لیے یہ جرح باطل اور ناقابلِ التفات ہے۔
اعتراض نمبر 3 :
أخبرني الأزهري، حدثنا أبو المفضل الشيباني، حدثنا عبد الله بن أحمد الجصاص، حدثنا إسماعيل بن بشر قال: سمعت عبد الرحمن بن مهدي يقول: ما أعلم في الإسلام فتنة بعد فتنة الدجال أعظم من رأي أبي حنيفة.
کہ عبد الرحمن بن مہدی نے کہا کہ دجال کے فتنہ کے بعد سب سے بڑا فتنہ ابو حنیفہ کی رائے ہے۔
أخبرنا العتيقي، حدثنا يوسف بن أحمد الصيدلاني، حدثنا محمد بن عمرو العقيلي، حدثني زكريا بن يحيى الحلواني قال: سمعت محمد بن بشار العبدي بندارا يقول: قلما كان عبد الرحمن بن مهدي يذكر أبا حنيفة علي إلا قال: كان بينه وبين الحق حجاب.
أخبرنا البرقاني قال: قرأت على محمد بن محمود المروزي - بها - حدثكم محمد بن علي الحافظ قال: قيل لبندار - وأنا أسمع - أسمعت عبد الرحمن بن مهدي يقول: كان بين أبي حنيفة وبين الحق حجاب؟ فقال: نعم! قد قاله لي.
أخبرنا ابن الفضل، أخبرنا ابن درستويه، حدثنا يعقوب، حدثنا محمد بن بشار قال: سمعت عبد الرحمن يقول: بين أبي حنيفة وبين الحق حجاب.
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ حَدَّثَنَا رُسْتَهْ قَالَ سَمِعت عبد الرَّحْمَن بن مَهْدِيٍّ يَقُولُ وَذَكَرَ أَبَا حَنِيفَةَ فَقَرَأَ لِيَحْمِلُوا أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلا سَاءَ مَا يزرون
محدث ابن حبان نقل کرتے ہیں کہ امام عبد الرحمان بن مہدی رحمہ اللہ کے سامنے امام ابو حنیفہ کا تذکرہ ہوا تو انہوں نے امام ابو حنیفہ کے خلاف قرآن کی آیت پڑھی۔
(المجروحين لابن حبان ت زاید 3/72 )
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں