نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 70 : کہ عبد الرحمن بن مہدی نے کہا کہ دجال کے فتنہ کے بعد سب سے بڑا فتنہ ابو حنیفہ کی رائے ہے۔


 اعتراض نمبر 70 : 
کہ عبد الرحمن بن مہدی نے کہا کہ دجال کے فتنہ کے بعد سب سے بڑا فتنہ ابو حنیفہ کی رائے ہے۔



أخبرني الأزهري، حدثنا أبو المفضل الشيباني، حدثنا عبد الله بن أحمد الجصاص، حدثنا إسماعيل بن بشر قال: سمعت عبد الرحمن بن مهدي يقول: ما أعلم في الإسلام فتنة بعد فتنة الدجال أعظم من رأي أبي حنيفة.


الجواب :

 اس میں راوی جو الازہری ہے وہ ابو القاسم عبید اللہ بن احمد السوادی ہے اور اس کا شیخ ابو المفضل محمد بن عبد الله الشیبانی ہے جس کی وفات 387ھ میں ہوئی۔لوگ ان سے احادیث لکھتے رہے پھر اس کا جھوٹ ظاہر ہو گیا تو انہوں نے اس کی حدیث کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جیسا کہ تاریخ الخطیب ص 467 ج 5 میں ہے[1] اور وہ وہاں کہتا ہے کہ حدثني عنه ابو القاسم الازھری اور یہ دلیل ہے اس بات کی کہ خطیب کمزور دین والا تھا اس لیے کہ ایک جگہ اپنی تاریخ میں ایک آدمی کو بدترین قسم کا جھوٹا قرار دیتا ہے اور پھر اس کے واسطہ سے اس شر انگیز قصہ کو ناقلین کے ہاں محفوظ کے زمرہ میں روایت کرتا ہے۔ خطیب کی امانت اسی طرح کی ہے۔  اور ابوا المفضل الشیبانی کو جھوٹا قرار دینا تو اہل نقد کے ہاں اتفاقی مقام ہے[2]۔

 اور اسماعیل بن بشر قدری ہے اور وہ تقدیر ماننے والوں سے دشمنی رکھتا تھا[3] تو جس سند میں اس جیسا آدمی ہو وہ روایت ثابت نہیں ہوتی اور ابوالمفضل جیسا آدمی اس قول کو ابن مھدی کی طرف منسوب کرتا ہے تو یہ اسی طرح ثابت نہیں ہو سکتا جس طرح وہ قول ثابت نہیں ہو سکتا جو ابو نعیم نے الحلیہ میں رستہ کی سند سے منسوب کیا ہے۔  اور رستہ کے بارہ میں بحث آگے آرہی ہے۔


امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔

[1]. مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عبيد الله، أبو المفضل الشيباني الكوفي

وكان يروي غرائب الحديث، وسؤالات الشيوخ. فكتب الناس عنه بانتخاب الدارقطني، ثم بان كذبه فمزقوا حديثه، وأبطلوا روايته. وكان بعد يضع الأحاديث للرافضة

قَالَ لي الأزهري: وقد كان الدارقطني انتخب عليه وكتب الناس بانتخابه على أبي المفضل سبعة عشر جزءا. وظاهر أمره أنه كان يسرق الحديث.

(تاریخ بغداد 3/86 ط العلمیہ)


[2] قال الأزهري: كان يحفظ، وكان كذابًا دجالًا.

وقال حمزة السهمي: كان يضع الحديث، كتبت عنه، وله سمت ووقار.

قال العتيقي: توفي في ربيع الآخر، وكان كثير التخليط.

(تاریخ الاسلام ت بشار 8/624)

وقال العتيقي: كان كثير التخليط.

وقال أبو العلاء الواسطي: كان حسن الهيئة جميل الظاهر نظيف اللبسة، وسمعت الدارقطني سئل عنه فقال: يشبه الشيوخ.

وقال حمزة بن محمد بن طاهر: كان يضع الحديث وقد كتبت عنه وكان له سمت ووقار 

(لسان الميزان ت أبي غدة ٧/‏٢٥٣)


[3]۔ الاسم: إسماعيل بن بشر بن منصور

الكنية: أبو بشر، وفي تهذيب الكمال: أبو ليث

النسب: السليمي, البصري

المذهب العقدي: قدري


وقال الآجري: سألت أبا داود عنه فقال: صدوق، وكان قدريا [تهذيب التهذيب (1/ 144)]

وقال أبو عبيد الآجري: سألت أبا داود عن إسماعيل بن بشر بن منصور فقال: صدوق، وكان قدريا حدثنا بحديث ابن عباس « إن زنى فبقدر ». فقال: هذا له تفسير [إكمال تهذيب الكمال (2/ 155)]

صدوق، تكلم فيه للقدر [تقريب التهذيب (1/ 137)]


ابن مہدیؒ سے منقول  جروحات انصاف پر مبنی نہیں بلکہ متعصبانہ ہیں۔ امام عبد الرحمن بن مہدیؒ، چونکہ سفیان ثوریؒ کے قریبی شاگردوں میں سے تھے، اس لیے ان کے مزاج میں بھی وہی رجحان نظر آتا ہے جو ان کے استاد کا تھا۔ امام ثوریؒ کا یہ کہنا کہ "مجھے ابو حنیفہ کی موافقت حق بات میں بھی پسند نہیں"(«العلل» رواية المروزي وغيره ص١٧٢) ایک واضح تعصب کو ظاہر کرتا ہے، اور یہی رنگ ان کے شاگرد عبد الرحمن بن مہدیؒ کے کلام میں بھی جھلکتا ہے(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء - ط السعادة  ، ج 9 ص 10)۔

 اصولِ جرح و تعدیل کے مطابق، متعصب ناقد کی جرح مردود ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متاخرین ائمہ جرح و تعدیل جیسے امام مزیؒ، امام ذہبیؒ اور ابن حجرؒ نے ان سخت جروحات کو کوئی وقعت نہیں دی۔مزید تفصیل کیلئے دیکھیں  "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود 


اعتراض نمبر58 : امام عبدالرحمٰن بن مہدی رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات کا تحقیقی جائزہ

تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ   نے   امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب:  اسلامی تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ و علم میں ایسی بے مثال شخصیت تھے جن کی عظمت اور مقام پر محدثین و فقہاء کا بڑا طبقہ متفق ہے۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر بعد کے ادوار میں چند محدثین بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح منقول ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے امام الحدیث جیسے جلیل القدر عالم، امام اعظم جیسے فقیہ ملت پر کلام کرتے نظر آتے ہیں؟ تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے بارے میں زیادہ تر وہی روایات پہنچیں جو ضعیف، منقطع یا من گھڑت تھیں، اور یہ روایات اکثر ایسے متعصب یا کمزور رواة سے منقول تھیں جنہیں خود ائمہ حدیث نے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ یہی جھوٹی حکایات اور کمزور اساتذہ کی صحبت امام بخاری کے ذہن میں منفی تاثر پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ اس مضمون میں ہم انہی اسباب کو تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ امام ابو حنیفہ پر ا...