نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 100 : کہ عمر بن قیس نے کہا کہ جو حق راستہ چاہتا ہے وہ ابو حنیفہ اور اس کے اصحاب کی مخالفت کرے۔


 اعتراض نمبر  100 : 
کہ عمر بن قیس نے کہا کہ جو حق راستہ چاہتا ہے وہ ابو حنیفہ اور اس کے اصحاب کی مخالفت کرے۔


أخبرنا ابن رزق، أخبرنا ابن سلم، حدثنا الأبار، حدثنا سلمة بن شبيب، حدثنا الوليد بن عتبة قال: سمعت مؤمل بن إسماعيل قال: قال عمر بن قيس: من أراد الحق فليأت الكوفة فلينظر ما قال أبو حنيفة وأصحابه فليخالفهم.

الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ بے شک پہلے یہ بات گزر چکی ہے کہ ابوحنیفہ اور اس کے اصحاب کی بات اعتقاد میں حق ہی ہے، اہل حق اس سے علیحدہ نہیں ہیں۔

 پس آپ اس کا عقیدہ اس کتاب میں دیکھیں جو ابو جعفر الطحاوی نے لکھی ہے پس کیا اس میں کوئی ٹیڑھا پن ہے؟

 اور بہر حال فروعی مسائل تو ائمہ متبوعین نے اس کے بعد اس کے اکثر مسائل میں اس کے ساتھ اتفاق کیا ہے اور کسی امام کے ساتھ اس کے اختلافی مسائل کی تعداد ایک چوتھائی سے زائدہ نہیں ہے۔ 

تو ظاہر ہو گیا کہ جو شخص ابو حنیفہ اور اس کے اصحاب کی اعتقاد میں یا ان مسائل میں مخالفت کرے گا جن میں ائمہ دین میں سے کسی نے اس کے ساتھ نزاع نہیں کیا تو یہ یقیناً حق کی مخالفت ہوگی۔

 اور جس نے کسی واضح دلیل کے بغیر کم فہمی کی وجہ سے ان مسائل میں ان کی مخالفت کی جن میں انہوں نے اختلاف کیا ہے اور ان کو اس کی وجہ سے گمراہی پر شمار کرتا ہے تو ایسا آدمی ان صحیح اور صریح احادیث کی مخالفت کرنے والا ہے جن میں آتا ہے کہ بے شک مجتہد کو درست اور غلطی دونوں حالتوں میں اجر ملتا ہے۔ یا وہ آدمی اس بات سے نا واقف ہے کہ اہل حق کے ہاں مسائل اجتہادیہ کا حکم کیا ہے؟ 

اور اگر فرض کر لیا جائے کہ مجتہد کی غلطی ثابت ہے تو اس کے باوجود غلطی کرنے والے مجتہد کو گناہ گار قرار دینے کا قول گمراہ لوگوں کا ہے۔

 اور رہا معاملہ خبر کی سند کا تو اس میں تینوں ہم پیشہ ابن رزق اور ابن سلم اور الآبار ہیں۔ اور اس میں مومل بن اسماعیل بھی ہے اور وہ بخاری کے نزدیک متروک الحدیث ہے[1] اور بہرحال عمر بن قیس تو اگر وہ المناصر الکوفی ہے تو مومل المکی نے اس کو نہیں پایا ، اور اگر ابو جعفر عمر بن قیس المکی ہے تو وہ منکر الحدیث ہے اور ساقط الاعتبار ہے جیسا کہ اہل جرح و تعدیل میں سے بہت سے حضرات نے ذکر کیا ہے[2]۔

 اور یہ وہی ہے جس کی طرف ابن سعد نے یہ بات منسوب کی ہے کہ بے شک اس نے کسی حاکم کے سامنے امام مالک کے بارہ میں کہا کہ یہ شیخ کبھی غلطی کرتا ہے اور کبھی درست نہیں کہتا۔ 

 تو مالک نے کہا کہ لوگوں کی یہی شان ہے۔ پھر امام مالک کو یہ بات پہنچی کہ اس نے اس بات میں اس کو غافل ثابت کرنے کا ارادہ کیا تھا تو کہا اللہ کی قسم میں اس سے کبھی کلام نہیں کروں گا۔

 اور یہی ہے جس کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ اس نے امام مالک سے یہ بھی کہا اے مالک انت هالک اے مالک تو تو برباد ہے۔رسول اللہ ﷺ کے شہر میں بیٹھ کر بیت اللہ کا حج کرنے والوں کو گمراہ کرتا ہے توں لوگوں کو یہ کہتا ہے کہ افراد کرو۔ اللہ تجھے اکیلا کرے۔ تو مالک کے ساتھیوں نے اس سے گفتگو کرنے کا ارادہ کیا تو امام مالک نے کہا کہ اس سے کلام نہ کرو کیونکہ یہ نشہ آور چیز پیتا ہے۔ الخ۔ جیسا کہ تہذیب التہذیب میں ہے۔

 اور بعض حضرات نے پہلی حکایت کے بارہ میں نسبت کی ہے کہ یہ معاملہ رشید کی موجودگی میں ابو یوسف اور امام مالک کا ہے۔ واللہ اعلم۔ 

علاوہ اس کے یہ بات بھی ہے کہ مومل کی عبارت میں انقطاع ہے۔ اور اس کے بعد جو عمار بن زریق کا قول نقل کیا ہے[3] کہ اس نے کہا کہ تو ابوحنیفہ کی مخالفت کر پس یقینا تو حق پالے گا۔

 تو یہ عمار وہ ہے جو عبد اللہ بن شبرمہ کا چچا زاد ہے جس کے بارہ میں السلیمانی نے کہا کہ وہ رافضی تھا[4]۔ 

اور اس سند میں ایک راوی الاحوص بن الجواب النصبی ہے جو کہ ابن ابی لیلی کے اصحاب میں سے ہے اور وہ ابن معین کے ہاں قوی نہ تھا۔

 اور اس کے ساتھ والی روایت[5] کی سند میں ابن درستویہ ہے جو یعقوب سے روایت کر رہا ہے اور اس نے ابن نمیر سے روایت کی کہ اس نے کہا کہ ہمارے کسی ساتھی نے ہمارے سامنے بیان کیا تو یہ راوی مجہول ہے اور وہ عمار بن زریق سے روایت کرتا ہے جس پر السلیمانی نے جرح کی اور اس کے بعد والی راویت[6] جو البرقانی سے الحسین بن ادریس تک کی سند کے ساتھ ہے اس نے کہا کہ ابن عمار نے کہا کہ جب تو کسی چیز میں شک کرے تو ابوحنیفہ کے قول کو دیکھ۔ اگر تو نے اس کے خلاف کیا تو وہی حق ہو گا۔  یا اس نے کہا کہ برکت اس کے خلاف میں ہے۔ 

اور ابن عمار جو ہے وہ محمد بن عبد الله الموصلی التاجر ہے جس کی کتاب العلل و معرفتہ الشیوخ ہے۔ ابن عدی نے کہا کہ میں نے ابو یعلیٰ کو دیکھا کہ وہ اس کے بارہ میں اچھا قول نہیں کرتے تھے۔ 

اور کہتے تھے کہ اس نے میرے ماموں کے خلاف جھوٹی گواہی دی تھی۔ اور اس کی اہل موصل سے غریب اور مفرد روایات ہیں۔ الخ

اور ابو یعلیٰ الموصلی تو باقی لوگوں کی بہ نسبت اس کو زیادہ جاننے والے تھے اور اس کا اس کے بارہ میں کلام تو دوسروں کے کلام پر فیصلہ کن ہے۔ 

اور الحسین بن ادریس الهروی صاحب التاریخ ہے جس کے بارہ میں ابن ابی حاتم نے اس کی باطل احادیث ذکر کرنے کے بعد کہا کہ میں نہیں جانتا کہ مصیبت اس کی طرف سے ہے یا خالد بن حیاج کی طرف سے ہے۔ الخ۔

 اور الھروی اور خالد دونوں کو ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے مگر وہ ان کے حالات سے ناواقف تھا۔

 اور توثیق میں وہ متسائل ہے اس لیے اس کی توثیق اہل نقد کے ہاں خبر مردود ہے۔ تفصیل کے لیے اللسان کی طرف رجوع کریں۔

 اور اگر فرض کر لیا جائے کہ اس کا ثبوت اس کے قائل سے ہے تو یہ بے تکی بات اس کے قائل کے بارہ میں کمزور دینی کی اطلاع دیتی ہے[7]۔

امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔


[1]۔ مومل بن اسماعیل کے بارے میں تفصیل کیلئے دیکھیں الاجماع شمارہ نمبر 5 جس میں 100 سلفیوں کے حوالہ جات ہیں کہ مومل ضعیف ہیں۔


[2]۔ ٦١٨٧ - عمر بن قيس  المكي سندل

تركه أحمد والنسائي والدارقطني.

وقال يحيى: ليس بثقة.

وقال البخاري: منكر الحديث.

وقال أحمد أيضا: أحاديثه بواطيل.

(ميزان الاعتدال ٣/‏٢١٩)


٢٤٩٤ - عمر بن قيس الْمَكِّيّ وَيعرف ب «سندل» يكنى أَبَا حَفْص مولى بني أَسد بن عبد الْعُزَّى يروي عَن عطاف قَالَ احْمَد لَا يُسَاوِي أَحَادِيثه شَيْئا أَحَادِيثه بَوَاطِيلُ وَقَالَ مرّة مَتْرُوك الحَدِيث وَكَذَلِكَ قَالَ النَّسَائِيّ وَالْفَلَّاس والأزدي وَالدَّارَقُطْنِيّ وَقَالَ يحيى لَيْسَ بِثِقَة وَقَالَ البُخَارِيّ مُنكر الحَدِيث وَقَالَ ابْن حبَان كَانَ يقلب الْأَسَانِيد يروي عَن الثِّقَات مَا لَا يشبه حَدِيث الْأَثْبَات

(الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي ٢/‏٢١٤ )


[3]۔أَخْبَرَنَا بشرى بن عبد الله الرومي، أخبرنا عبد العزيز بن جعفر الخرقي، حدّثنا إسماعيل بن العبّاس الورّاق، حَدَّثَنَا إسحاق بن إبراهيم البغوي.


 وأَخْبَرَنَا أَبُو سعيد مُحَمَّد بْن حسنويه بْن إِبْرَاهِيمَ الأبيوردي، أخبرنا زاهر بن أحمد السرخسي، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ ثابت البزاز، حدثني إسحاق بن إبراهيم ، حدّثنا أبو الجواب قال: قال لي عمار بن زريق: خالف أبا حنيفة فإنك تصيب. وقال بشرى:

فإنك إذا خالفته أصبت

[4]۔ میزان الاعتدال 3/164


[5]۔أخبرنا ابن الفضل، أخبرنا ابن درستويه، حدثنا يعقوب، حدثنا ابن نمير، حدثنا بعض أصحابنا عن عمار بن زريق. قال: إذا سئلت عن شئ فلم يكن عندك شئ، فانظر ما قال أبو حنيفة فخالفه، فإنك تصيب.


[6]۔أخبرنا البرقاني، أخبرنا محمد بن عبد الله بن خمرويه، أخبرنا الحسين بن إدريس قال: قال ابن عمار: إذا شككت في شئ نظرت إلى ما قال أبو حنيفة فخالفته كان هو الحق - أو قال البركة في خلافه.


[7]۔ وہ تمام روایات جن کا مضمون کچھ یوں ہیکہ " کسی مسئلہ میں ابو حنیفہ کا قول دیکھو ، پھر اس قول کی مخالفت میں کوئی قول اپناو گے تو تم صحیح راستے پر ہو گے یا یا تم حق پا لو گے" ، یہ روایات میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف انتہا کا تعصب اور تشدد پایا جاتا ہے کیونکہ 

▪︎اعتراض کرنے والے نے یہ نہیں کہا کہ ، ابو حنیفہ کے قول کو قرآن و سنت (یا دیگر شرعی مآخذ) پر پرکھو یا تولو کہ وہ قول صحیح ہے یا نہیں ، بلکہ یہ کہا کہ ہر حالت میں ابو حنیفہ کی مخالفت کرو ، اب ہر ہر مسئلہ میں ابو حنیفہ کی مخالفت کرنے کو اعتراض کرنے والا صحیح سمجھ رہا ہے ، اور یہ تعصب کی اعلی مثال ہے ، اعتراض کرنے والے کا یہ قول مردود ہے ، کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ، لیکن اگر کسی کو پھر بھی ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ہر ہر مسئلہ میں مخالفت کر کے ، مزعومہ حق بات کو پانا ہے تو ، اس کیلئے ہم ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور اس کے لائق اصحاب کے چند قول پیش کرتے ہیں جیسا کہ الملک العظم سلطان عیسی ایوبی رحمہ اللہ نے لکھا ہیکہ 


قال أبو حنيفة وأصحابه: إن الله تعالى واحد أحد لا شريك له ولا شيء يشبهه قديم بلا ابتداء، دائم بلا انتهاء، لا يفنى ولا يبيد، ولا يكون إلا ما يريد. وإن النبي ﷺ حق، والساعة حق، وإن القرآن كلام الله منه بدأ وإليه يعود بلا كيفية شبها، وإن الجنة والنار مخلوقتان لا يفنيان أبدا، وإن الله يبعث من في القبور. أفترى من خالفهم في هذا يكون حاله؟.

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب نے کہا ہیکہ : 

بے شک اللہ تعالیٰ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور نہ ہی کوئی چیز اس کی مانند ہے۔ 

وہ قدیم ہے، بغیر شروع ہونے کے، دائمی ہے، بغیر ختم ہونے کے، نہ وہ فنا ہوتا ہے اور نہ مٹتا ہے،

 اور جو کچھ بھی ہوتا ہے، صرف وہی ہوتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔

 اور بے شک نبی ﷺ حق ہیں، قیامت حق ہے،

 اور قرآن اللہ کا کلام ہے، جو اس سے شروع ہوا اور اسی کی طرف لوٹتا ہے بغیر کسی شبیہ کے۔

 اور جنت اور دوزخ مخلوق ہیں جو کبھی فنا نہیں ہوں گی،

 اور بے شک اللہ قبروں میں موجود لوگوں کو اٹھائے گا۔

 تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جو (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے) ان اقوال کے مخالف ہیں، ان کا کیا حال ہو گا؟

( السهم المصيب في الرد على الخطيب - ط العلمية ص 83 )

جیسا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ عقیدہ طحاویہ میں لکھتے ہیں 

هذا ذكر بيان عقيدة أهل السنة والجماعة على مذهب فقهاء الملة أبي حنيفة النعمان بن ثابت الكوفي ۔۔۔

 إن الله واحد لا شريك له 

ولا شي مثله 

ولا إله غيره

قديم  بلا ابتداء دائم بلا انتهاء

لا يفنى ولا يبيد

ولا يكون إلا ما يريد ۔۔۔ الخ

لہذا اگر کسی کو ہر ہر مسئلہ میں امام ابو حنیفہ کی مخالفت کرنی ہے تو بہت شوق سے مخالفت کر سکتا ہے۔

مزید یہ کہ فقہی مسائل میں فقہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ، ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ سے بہت مماثلت رکھتی ہے ، پھر کیا سفیان ثوری رحمہ اللہ کی مخالفت بھی کی جائے گی یا جرح اور اعتراض کے نشتر صرف ابو حنیفہ کی ذات کیلئے مختص ہیں ؟ 


فائدہ : قارئین مذکورہ بالا اعتراض سے ملاحظہ کریں کہ ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اصحاب الحدیث ، معاصریں اور مخالفین نے کس بے انصافی اور بے اعتدالی کے ساتھ جروحات اور اعتراضات کئے ہیں ، ہمیں اندھی تقلید کا طعنہ دینے والے لوگ ، خود تعصب  میں کس قدر اندھے ہو چکے ہیں ،  اللہ ہمیں ایسے تعصب میں غرق ہونے سے بچائے ۔ 






مزید تفصیل کیلئے دیکھیں

 " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود

▪︎ ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 75  ، 99 


▪︎سلسلہ امام ابو حنیفہ پر متفرق اعتراضات ، اعتراض نمبر 18


▪︎امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ کی حنفیت 

(باب دوم ) وکیع کا فقہ اہل الرائے کی تعلیم حاصل کرنا 

 مصنف : مولانا ابو حمزہ زیشان صاحب فاضل رائیونڈ

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...