اعتراض نمبر 53 کہ ابو حنیفہ نے حدیث کو مسجع اور ولاء کے بارہ میں حضرت عمر کے فیصلہ والی روایت کو قول شیطان کہا۔
اعتراض نمبر 53
کہ ابو حنیفہ نے حدیث کو مسجع اور ولاء کے بارہ میں حضرت عمر کے فیصلہ والی روایت کو قول شیطان کہا۔
أخبرنا أبو بكر البرقاني قال: قرأت على محمد بن محمود المحمودي - بمرو - حدثكم محمد بن علي الحافظ، حدثنا إسحاق بن منصور، أخبرنا عبد الصمد عن أبيه قال: ذكر لأبي حنيفة قول النبي صلى الله عليه وسلم " أفطر الحاجم والمحجوم " فقال: هذا سجع.
وذكر له قضاء من قضاء عمر - أو من قول عمر - في الولاء فقال:
هذا قول شيطان.
أخبرنا ابن رزق، أخبرنا أحمد بن جعفر بن سلم، حدثنا أحمد بن علي الأبار، حدثنا محمد بن يحيى النيسابوري - بنيسابور - حدثنا أبو معمر عبد الله بن عمرو بن أبي الحجاج، حدثنا عبد الوارث قال: كنت بمكة - وبها أبو حنيفة - فأتيته وعنده نفر، فسأله رجل عن مسألة، فأجاب فيها، فقال له الرجل: فما رواية عن عمر بن الخطاب؟ قال: ذاك قول شيطان. قال: فسبحت، فقال لي رجل: أتعجب؟ فقد جاءه رجل قبل هذا فسأله عن مسألة فأجابه. قال: فما رواية رويت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم " أفطر الحاجم والمحجوم "؟ فقال: هذا سجع. فقلت في نفسي: هذا مجلس لا أعود فيه أبدا
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ پہلی سند خطیب کے علاوہ باقی راویوں کے لحاظ سے بے غبار ہے اور اس کا راوی عبد الصمد جو ہے وہ ابن الوارث العنبری ہے اور طبع ثانیہ کے حاشیہ لکھنے والے نے غلط کہا ہے کہ وہ ابن حبیب الازدی ہے اور اس نے اس کو کمزور ثابت کرنا شروع کر دیا۔
اور بے شک عبد الصمد کے باپ عبد الوارث نے ابو حنیفہ سے براہ راست یہ نہیں سنا تو درمیان میں انقطاع ہے اور اس نے یہ بھی بیان نہیں کیا کہ کس نے اس سے ذکر کیا؟
اور نہ اس کا ذکر کیا کہ اس نے کس سے سنا ہے؟
اور نہ یہ بیان کیا کہ وہ خود اس واقعہ میں موجود تھا۔
تو اس جیسی بات ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جاتی ہے۔ اور اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلہ کا معاملہ ہے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے پس بے شک اس نے اس کی سند ذکر نہیں کی اور نہ ہی یہ بیان کیا ہے کہ وہ فیصلہ یا قول کیا تھا تا کہ معلوم کیا جا سکتا کہ کسی راوی نے تو اس فیصلہ کو گھڑ کر حضرت عمر پر نہیں ڈال دیا۔
اور کتنے ہی لوگوں نے نبی کریم ﷺ پر بے بنیاد باتیں ڈال دیں چہ جائیکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر ڈالیں۔ اور اگر ہم ان چیزوں کو بیان کرنا شروع کریں جو ابوحنیفہ نے حضرات صحابہ کرام اور بالخصوص حضرت عمر کی شان میں فرمائی ہیں ایسی روایات سے جو سندوں کے ساتھ لکھی گئی ہیں تو ہماری کلام بہت طویل ہو جائے گی۔
اور ابو حنیفہ ہی تو ہیں جو اقوال صحابہ کو حجت مانتے ہیں اور جب کسی مسئلہ میں صحابہ کے اقوال مختلف ہوں تو وہ ان سے ہٹ کر کسی قول کو نہیں لیتے بلکہ ان ہی میں سے کسی ایک کو اختیار کرتے ہیں۔ حالانکہ جو لوگ ابو حنیفہ کو فقہ کی طرف منسوب کرتے اور خود کو حدیث کی طرف منسوب کرتے ہیں ، ان کی اکثریت بھی اس کے خلاف کرتی ہے جیسا کہ خطیب اور اس کے ساتھیوں کا اس بارہ میں طریق واضح ہے۔
اور ابو حنیفہ ہی ہیں کہ جب ابو جعفر منصور نے ان سے پوچھا کہ اس نے علم کن لوگوں سے حاصل کیا ہے تو انہوں نے کہا حماد عن ابراہیم کہ حماد اور ابراہیم کے واسطہ سے حضرت عمر بن الخطاب اور علی بن ابی طالب اور عبد اللہ بن مسعود اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کے اصحاب سے حاصل کیا ہے جیسا کہ خود خطیب نے سند کے ساتھ ص 334 میں نقل کیا ہے۔
تو کیا اس کے بعد تصور کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے حضرت عمر کے فیصلے یا قول کو قول شیطان کہا ہو۔
انہوں نے اس کا مصداق راویوں میں سے ہی کوئی مراد لیا ہو گا جنہوں نے اس (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) کی طرف اس جھوٹے قول یا فیصلہ کو منسوب کیا ہو گا۔
اور یہ اس صورت میں ہے جبکہ
فرض کر لیا جائے کہ یہ الفاظ ان سے ثابت ہیں۔
علاوہ اس کے یہ بات بھی ہے کہ 《افطر الحاجم والمحجوم 》 والی حدیث کو تو بہت سے محدثین ثابت مانتے ہی نہیں ان میں سے ابن معین بھی ہیں۔ تفصیل کے لیے ، نصب الرایہ دیکھیں[1]۔
اور جو اس حدیث کو ثابت مانتے ہیں تو ان کے نزدیک بھی یا تو منسوخ ہے اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود روزہ کی حالت میں حجامت (سینگی لگوانا) کروائی تھی[2]۔
اور یا ان حضرات کے نزدیک یہ حدیث موول ہے اور اس کا معنی یہ ہوگا کہ ان دونوں (حاجم اور مجوم) نے اپنے آپ کو افطار کے لیے پیش کیا۔
پس حاجم تو اس لیے کہ وہ خون کو چوستا ہے (تو ہو سکتا ہے کہ کچھ ذرات اندر چلے جائیں) اور محجوم اس لیے کہ سینگی لگوانے کی وجہ سے اس پر کمزوری طاری ہو جاتی ہے۔ (اور پھر روزہ بعض دفعہ برداشت نہیں ہوتا)[3]۔
اور جو آدمی خبر کے صرف ظاہری الفاظ کو لیتا ہے اور اس کی صحت یا اس کے شیخ یا اس کی تاویل کی چھان بین نہیں کرتا تو وہ اسی آدمی کی طرح ہے جو اپنی زبان پر مسجع کلام ( مقفی کلام جاری کرتا ہے ) بغیر اس کے کہ وہ اس کا مفہوم سمجھتا ہو۔
اور یہی حال دوسری خبر کا ہے اس لیے کہ اس کی انتہا بھی عبد الوارث کے ہاتھ میں ہے اور اس روایت میں بھی ہے کہ سائل نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول کے بارہ میں پوچھا مگر یہ ذکر نہیں کیا کہ وہ قول کونسا تھا۔
تو خطیب نے دوسری سند پیش کر کے انقطاع کو پیوند لگانے کی (ناکام) کوشش کی ہے مگر یہ کہاں فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
اور سند میں اس کے بعد ابن رزق اور ابن سلم اور الآبار اور ابو معمر القدری ہیں اور ان کا تذکرہ پہلے کئی مرتبہ ہو چکا ہے[4]۔ اور ان دونوں خبروں کو رد کرنے کے لیے یہی کافی ہے کہ جو قول حضرت عمر کی طرف منسوب کیا گیا ہے وہ قول دونوں خبروں میں نا معلوم ہے۔
سند بھی اور متناً بھی[5]۔ اور بہر حال وہ روایت جو ابو حنیفہ کی طرف منسوب کی گئی ہے [6] کہ جب ایک شخص نے ان کے سامنے کہا کہ الوضوء نصف الایمان وضو نصف ایمان ہے" تو انہوں نے کہا کہ توضاً مرتين حتى تستكمل الایمان تو دو دفعہ وضو کر لے تا کہ تیرا ایمان مکمل ہو جائے۔
تو اس کی سند میں یحی بن آدم ہے۔ جس نے ابو حنیفہ کو نہیں پایا اور اس نے جو نقل کیا ہے اس میں انقطاع ہے سند متصل نہیں ہے۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ نصب الرایہ ت محمد عوامہ جلد 2 ، ص 472 تا 483
[2]۔ بخاری 5694 ، ترمذی 775
[3]۔ صحیح البخاري 1940۔
موطأ إمام مالك ، الصیام، باب ماجاء فی حجامة الصائم، حدیث: 276، 275
[5]۔《 افطر الحاجم والحجوم》 کو سجع(شاعری) کہا ہی نہیں جاسکتا ۔ کیونکہ سبح ایک عبارت سے نہیں ہوتا ۔ پے در پے کئی عبارتیں ہوتی ہیں ۔ معلوم ہوا یہ واقعہ مشکوک ہے ۔
دوم یہ کہ 《 افطر الحاجم والمحجوم》 والی حدیث ہی منسوخ ہے ، بلکہ امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے اس کو باطل کہا ہے (علل رقم 732) جو کہ سجع سے زیادہ سخت لفظ ہے تو سب سے پہلے ان پر گستاخی کا فتوی لگایا جائے ۔ لیکن وہاں لوگوں کی زبانوں کو تالا لگ جائے گا۔
رہا معاملہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول کا تو، وہ قول کون سا تھا ؟ جب خود راوی نے وہ قول ذکر ہی نہیں کیا ، بس معلوم ہوا وہ
قول یا تو من گھڑت تھا یا اس لائق ہی نہ تھا کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول کہلاتا ۔
کتنے ہی جھوٹے راوی جھوٹی باتیں گھڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضوان اللہ علیہ اجمعین پر باندھ دیتے ہیں ، یہاں بھی ایسا ہوا ہے ، اسی لئے امام
ابو حنیفہ نے کہا ہیکہ یہ قول شیطان (یعنی جھوٹے راوی) کا ہے اور اس کا قول کا حضرت عمرؓ سے کوئی تعلق نہیں ۔
مثلا کوئی جھوٹی حدیث بیان کرے تو، ہم یہی کہے گے یہ اس جھوٹے انسان کی بات ہے اور یہ حدیث نبوی نہیں ہے ۔ اب صرف ہمارا دشمن اور حاسد ہی یہ تصور کر سکتا ہیکہ ہم نے حدیث کو جھٹلایا جبکہ حقیقت میں ہم نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے والے کو جھٹلایا ہے جو قابل تعریف ہے ۔
(النعمان سوشل میڈیا سروسز)
[6]۔أخبرنا محمد بن عبد الملك القرشي، أخبرنا أبو العباس أحمد بن محمد بن الحسين الرازي، حدثنا أبو عمرو محمد بن يعقوب بن إبراهيم النيسابوري سمعت أبا عبد الله محمد بن نصر المروزي يقول: سمعت إسحاق يقول قال: قال يحيى بن آدم: ذكر لأبي حنيفة هذا الحديث: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الوضوء نصف الإيمان " قال:
لتتوضأ مرتين حتى تستكمل الإيمان. قال إسحاق: فقال يحيى بن آدم: الوضوء نصف الإيمان، يعني نصف الصلاة، لأن الله تعالى سمى الصلاة إيمانا، فقال: * (وما كان الله ليضيع إيمانكم) * [البقرة 143] يعني صلاتكم، وقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لا تقبل صلاة إلا بطهور " فالطهور نصف الإيمان على هذا المعنى. إذ كانت الصلاة لا تتم إلا به. قال أبو عبد الله. قال إسحاق: قال يحيى بن آدم: وذكر لأبي حنيفة قول من قال لا أدري نصف العلم. قال: فليقل مرتين لا أدري حتى يستكمل العلم. قال يحيى وتفسير قوله لا أدري نصف العلم، لأن العلم إنما هو أدري ولا أدري، فأحدهما نصف الآخر.
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں