اعتراض نمبر 2 امام ابو حنیفہ اور ان کے والد نصرانی پیدا ہوئے تھے۔
أنبأنا محمد بن أحمد بن رزق، أخبرنا محمد بن العباس بن أبي دهل الهروي، حدثنا أحمد بن محمد بن يونس الحافظ، حدثنا عثمان بن سعيد الدارمي قال: سمعت محبوب بن موسى يقول: سمعت ابن أسباط يقول: ولد أبو حنيفة وأبوه نصراني.
امام ابو حنیفہ اور ان کے والد نصرانی پیدا ہوئے تھے۔
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ امام ابو حنیفہ اپنی ولادت کے وقت دین میں اپنے باپ کے تابع تھے پس اگر یہ بات صحیح بھی ہو تو کسی مسلمان کو اس کی وجہ سے عار دلانا تو جاہلیت کے دور کی کاروائی ہے اور صحابہ و تابعین میں کتنے ہی ایسے ہیں جن کے باپ مشرک یا نصرانی یا یہودی یا مجوسی تھے اور ایک شخص کو اس سے بھی کم درجہ کی عار دلانے کی وجہ سے نبی کریم نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ بیشک تو ایسا آدمی ہے جس میں جاہلیت پائی جاتی ہے۔ [ إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ ]اگر امام صاحب کے بارے میں یہ درست بھی ہوتا تو عار دلانا درست نہ تھا تو جب یہ بات صحیح ہی نہیں بلکہ کھلا جھوٹ ہے تو پھر عار دلانا کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟ اور اگر ہم کھلے تعصب اور خفیہ ہیر پھیر کے باوجود خطیب کو ثقہ مان لیں تو اس روایت میں اس کے شیخ ابن رزق کو پاتے ہیں کہ اس کے پاس خطیب کا آنا جانا اس کے اندھا اور بوڑھا ہو جانے کے بعد شروع ہوا اور اس جیسے آدمی سے جو افراط پایا جاتا ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے نیز اس کی سند میں جو عثمان بن سعید ہے، وہ بھی قابل اعتراض ہے۔ مجسم ہے (اللہ تعالیٰ کے لیے جسمیت کا قائل ہے اور اس کی بے گناہ ائمہ کے ساتھ دشمنی کھلا معاملہ ہے اور وہ اللہ تعالی کے لیے اٹھنا بیٹھنا اور حرکت کرنا اور اس کا بوجھل ہونا اور اس کے لیے استقرار مکانی (کہ ایک جگہ میں اس کا قرار ہے اور اس کی حد بندی وغیرہ کھلے لفظوں میں ثابت کرتا ہے اور اس جیسا آدمی جو اللہ تعالی کے بارے میں جاہل ہے، وہ اس لائق ہی نہیں کہ اس کی روایت قبول کی جائے۔ اور اس کا شیخ محبوب بن موسی جو ہے، وہ ابو صالح الفراء ہے جو حکایات کو جمع کرنے والا ہے، جس کے بارے میں ابو داؤد نے فرمایا کہ اگر یہ کتاب سے پیش نہ کرے تو اس کی حکایات قبول نہیں کی جا سکتیں اور اس کا شیخ یوسف بن اسباط تو کم عقل صوفیاء میں سے تھا۔ اس کی کتابیں دفن کر دی گئی تھیں اور وہ اختلاط کا شکار تھا۔ اور معاملہ اس پر ٹھہرا کہ اس سے دلیل نہیں پکڑی جا سکتی۔ نیز یہ سند اس سند کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتی ہے جو خود خطیب نے اس کے قریب نقل کی ہے جس میں ہے کہ امام ابو حنیفہ کے والد ثابت مسلمان پیدا ہوئے تھے چہ جائیکہ ایسی بات ابو حنیفہ کے بارے میں کہی جائے کہ وہ مسلمان پیدا نہیں ہوئے تھے تو اس جیسی روایت کو اس ثقہ اور ثابت راویوں کی روایت کے معارضہ میں لانا بے شرمی کی بات ہے جس کو خود خطیب نے اور دوسرے حضرات نے لکھا ہے اور امام ابو حنیفہ کے دادا نعمان بن قیس بن المرزبان بن زوطی بن ماہ نہروان کے دن حضرت علی کا جھنڈا اٹھانے والے تھے یعنی ان کے لشکر میں شریک ان کے علم بردار تھے۔ جیسا کہ اس کا
ذکر خطیب" کے ہم عصر الفقیہ المورخ ابو القاسم علی بن محمد السمنائی نے اپنی کتاب روضہ القضاة میں کیا ہے اور وہ مصر کے دار الکتب میں موجود ہے۔ اور امام ابو حنیفہ کے دادا کے زمانے میں امام صاحب کے والد کے لیے حضرت علی کا دعا کرنا تو ان حقائق میں سے ہے جن کو خطیب نے اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔ اس نے ص ۳۲۵ میں قاضی ابو عبد اللہ الحسین بن علی الصیمری ، عمربن ابراھيم المقری ، مکرم بن احمد ،احمد بن عبيد الله بن شاذان المروزي قال حدثنی ابی عن جدی تک اپنی سند بیان کر کے روایت نقل کی کہ شاذان المروزی نے کہا کہ میں نے اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں اسماعیل بن حماد بن نعمان بن ثابت بن النعمان بن المرزبان فارس کے آزاد آباؤ اجداد کی نسل سے ہوں۔ اللہ کی قسم ہم پر کبھی غلامی کا دور نہیں آیا اور پھر آگے خبر بیان کی۔ اور یہاں میں نے صرف خبر کا ابتدائی حصہ نقل کیا ہے تا کہ تمام مطبوعہ نسخوں میں سند کی جو غلطی ہے اس کی تصحیح ہو جائے۔ پس ابو حنیفہ اور ان کے والد دونوں مسلمان پیدا ہوئے تھے اور ان کا دادا بھی مسلمان تھا بلکہ ان کے آباؤ اجداد میں تو کوئی نصرانی ہے ہی نہیں اس لیے کہ بیشک وہ تو اوپر سے نیچے تک نسب میں فارسی نسل سے ہیں اور اس بات کو باقی لوگوں کی بہ نسبت خطیب زیادہ جانتا ہے (مگر اس کے باوجود اس نے من گھڑت روایت ذکر کر دی ہے) ہم اللہ تعالیٰ سے سلامتی مانگتے ہیں۔
![]() |
اعتراض نمبر 2: امام ابو حنیفہ اور ان کے والد نصرانی پیدا ہوئے تھے۔ |
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں