نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 4: امام ابو حنیفہ نبطی تھے۔


 اعتراض 4 
 امام ابو حنیفہ نبطی تھے۔ 

أخبرنا محمد بن أحمد بن رزق، أخبرنا أحمد بن جعفر بن محمد بن سلم الختلي، حدثنا أحمد بن علي الأبار، حدثنا عبد الله بن محمد العتكي البصري، حدثنا محمد بن أيوب الذارع قال: سمعت يزيد بن زريع يقول: كان أبو حنيفة نبطيا.


الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ یہ جمہور کی روایت کے خلاف ہے۔ اور بیشک روایات ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اس نظریہ کو مضبوط کرتی ہیں کہ امام ابو حنیفہ فارسی النسب تھے۔ عراق کے اصل باشندوں آرامین میں سے نہ تھے۔ اور النبط نون کے فتحہ کیساتھ ہے اور اس کے بعد باء ہے اور عراق کے اصل باشندوں کو آرامیوں کہا جاتا ہے۔ اور کبھی نبطی عراقی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اگر چہ وہ ان میں سے منحدر الدم (کہ اوپر سے نیچے تک تمام کے تمام عراقی) نہ ہو جیسا کہ یہ بات سمعانی کی کتاب انساب سے سمجھی جاتی ہے اور جس شخص نے یہ جھوٹی خبر نقل کی تاکہ وہ ان کے نسب میں طعن کرے تو وہ ہمیشہ سے جاہلیت کے طور طریقہ پر ہے اور لوگ برابر ہیں ان کے درمیان درجہ اور فضیلت صرف تقویٰ کی وجہ سے ہے۔ اور اس روایت کے راوی ابن رزق کا حال (دوسرے اعتراض { امام ابو حنیفہ اور ان کے والد نصرانی پیدا ہوئے تھے}میں) پہلے بیان ہو چکا ہے۔ اور الآبار ان راویوں میں سے تھا جن کو دعلج بن احمد البغدادی نامی ایک تاجر وظیفہ دیتا تھا۔ پھر وہ اصول و فروع میں اس کے مخالفین پر غلبہ کے لیے وہ کچھ لکھتے جو اس کو پسند ہوتا ، پس آبار کا قلم کرایہ کا ہے اور اہل حق کے آئمہ کی غیبت میں اس کی زبان تیز تھی۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں اس کی انتہا درجہ کی عداوت اور تعصب پھچاننے کے لیے مطالعہ کرنے والوں کے لیے وہی حصہ کافی ہے جو ان روایات میں ہے جو خطیب نے اس سے کی ہیں اور جرح و تعدیل والوں کے نزدیک متعصب مختلف کی روایت مردود ہوتی ہے تو اس روایت کا کیا حال ہو گا جس کو وہ مجہول بلکہ کذاب راویوں سے روایت کرے جیسا کہ آپ اس روایت کو دیکھ رہے ہیں۔ تو اس راوی کا سقوط پہچاننے میں قارئین کرام کسی چیز کی طرف محتاج نہیں ہیں۔ البتہ اس کی وہ روایات قبل اعتبار ہوں گی جو امام صاحب کی امامت اور امانت کو ثابت کرتی ہیں (اس لیے کہ متعصب کی روایت حق میں معتبر اور مخالفت میں مردود ہے) فَكَفى اللهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتال (پس کفایت کی اللہ تعالٰی نے مومنوں کی لڑائی سے)

اور اس روایت کے راوی العتکی اور الذراع دونوں مجہول ہیں اور دعلج اعتقاد اور فقہ میں ابن خزیمہ کے مذہب پر تھا اور ابن خزیمہ کا اعتقاد کتاب التوحید سے ظاہر ہے جو کئی سال پہلے مصر میں طبع ہو چکی ہے اور اسی کے بارے میں تفسیر کبیر والے (امام رازی) نے لیس کمثله شئ کی تفسیر کرتے ہوئے کہا کہ وہ کتاب الشرک ہے۔ پس نہ وہ پسندیدہ ہے اور نہ قابل قدر

اعتراض نمبر 4: امام ابو حنیفہ نبطی تھے۔





تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...