نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام یزید بن ہارون ؒ (م ۲۰۶؁ھ) کے نزدیک امام ابو حنیفہ ؒ (م ۱۵۰؁ھ) صدوق اور متقن ہیں۔

 


امام یزید بن ہارون ؒ (م ۲۰۶؁ھ) کے نزدیک امام ابو حنیفہ ؒ (م ۱۵۰؁ھ) صدوق اور متقن ہیں۔

-      مولانا نذیر الدین قاسمی

امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ (م ۴۳۶؁ھ)  فرماتے ہیں کہ :

اخبرنا عمر بن إبراهيم قال ثنا مكرم قال ثنا احمد بن عطية قال ثنا تميم بن المنتصر قال كنت عند يزيد بن هارون فذكر أبا حنيفة فنال إنسان منه فأطرق طويلا قالوا رحمك الله حدثنا فقال كان أبو حنيفة تقيا نقيا زاهدا عالما صدوق اللسان احفظ اهل زمانه سمعت كل من أدركته من أهل زمانه يقول إنه ما رأى أفقه منه۔

ثقہ ، ضابط ، محدث تمیم بن المنتصر ؒ(م ۲۴۵؁ھ)  فرماتے ہیں کہ میں یزید بن ہارون ؒ کے پاس تھا  کہ امام ابو حنیفہؒ کا ذکر ہوا ، تو کسی شخص نے امام صاحب ؒ کی شان میں گستاخی کی ، تو یزید بن ہارون ؒ کافی دیر تک گردن جھکائے ہوئے خاموش بیٹھے رہے۔

لوگوں نے کہا : اللہ آپ پر رحم کرے ، ہم سے حدیث بیان کیجئے ۔

تو یزید بن ہارون ؒ نے کہا کہ : امام ابو حنیفہ ؒ متقن تھے۔

پاکیزہ شخصیت کے مالک تھے ۔

بہت بڑے زاہد اور عالم تھے۔

زبان کے سچے تھے۔

اپنے زمانہ میں سب سے زیادہ حفظ والے تھے۔

میں نے ان کے زمانہ کے ہر اس آدمی جس کو میں نے پایاکہتے ہوئے سنا کہ : ہم نے ان سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا۔ (اخبار ابی حنیفۃ واصحابۃ : ص ۴۸)، اس روایت کے تمام روات ثقہ ہیں ۔ البتہ اس سند میں موجود احمد بن محمد بن المغلس المعروف بہ احمد بن عطیہ الکوفی ؒ (م۳۰۸؁ھ)  ضعیف ہیں ۔

لیکن ان کے کئی متابع موجود ہیں،لہذا اس روایت میں ان پر جرح فضول اور بے کار ہے۔غالباً یہی  وجہ ہے کہ امام ابو القاسم ابن عساکر ؒ (م ۵۷۱؁ھ)  کے نزدیک اس (روایت ) میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (منازل الأئمۃ الأربعۃ للسلماسی: ص ۱۷۰، تاریخ ابن عساکر : ج ۶۴:ص ۴۵)

متابع نمبر ۱ :

ثقہ ، ثبت ، عابد ، متقن ، حافظ الحدیث ، امام یزید بن ہارون ؒ (م ۲۰۶؁ھ) اپنے نزدیک صرف ثقہ سے روایت کرتے تھے، چنانچہ :

لسان المیزان میں حافظ ابن حجرؒ ( م ۸۵۲؁ھ)  نے نقل کیا ہے کہ :

وقال محمود بن غيلان: قلت ليزيد بن هارون: ما تقول في أبي يوسف؟ فقال: أنا أروي عنه۔

محمود بن غیلان ؒ (م ۲۳۹؁ھ) کہتے ہیں کہ میں نے یزید بن ہارون ؒ (م ۲۰۶؁ھ)  سے کہا کہ : آپ امام ابویوسف ؒ کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟  تو یزید بن ہارون ؒ نے کہا : ’’أنا أروي عنه‘‘۔ (لسان المیزان : ج۸:ص۵۱۸)

سلفی عالم ومحدث ، شیخ ابو الحسن مصطفیٰ بن اسماعیل السلیمانی کہتے ہیں کہ

یزید بن ہارون ؒ کا یہ لفظ  ’’أنا أروي عنه‘‘ (میں دو معنوں کا ) احتمال ہے:

(۱)       انکار کے معنی کا احتمال ، کہ کیا میں ابو یوسف ؒ جیسے سے روایت کرسکتا ہوں ؟

(۲)       اقرار کے معنی کا احتمال ، کہ ہاں ! میں نے ابو یوسف ؒ سے روایت کیا ہے، اگر وہ ثقہ نہ ہوتے ، تو میں ان سے روایت نہیں کرتا۔

اور میرے نزدیک پہلے معنیٰ کا احتمال ظاہر ہے، کیونکہ اسی لسان المیزان میں ہے کہ یزید بن ہارون ؒ (م۲۰۶؁ھ) سے روایت ہے کہ ابو یوسف ؒ کی روایت سے استدلال کرنا حلال نہیں ہے۔

خلاصہ یہ کہ ہر صورت میں یزید بن ہارون ؒ کا یہ لفظ’’أنا أروي عنه‘‘ان کا راوی کے سلسلہ میں چھان بین کرنے پر دلالت کرتا ہے۔ (اتحاف النبیل : ج۲ :ص ۱۴۷)

اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام یزید بن ہارون ؒ اپنے نزدیک راوی کے ضعف کے بارے میں چھان بین کرتے اور صرف معتبر اور مقبول سے روایت کرتے تھے۔ [1]

اور امام یزید بن ہارون ؒ (م ۲۰۶؁ھ)  نے امام ابو حنیفہ ؒ (م ۱۵۰؁ھ)  سے روایت لی ہے۔ (تہذیب الکمال : ج۲۹: ص ۴۲۱، سیر : ج۶: ص۶۹۴)

ثابت ہوا کہ امام ابو حنیفہ ؒ (م۱۵۰؁ھ)،حافظ یزید بن ہارون ؒ (م۲۰۶؁ھ)کے نزدیک ثقہ ہیں ۔

متابع نمبر ۲ :

صدوق ، امام ، حافظ ابو محمد الحارثی ؒ (م ۳۴۰؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

            حدثنا السری بن عصام قال سمعت حامد بن آدم یقول حدثنا یزید بن ھارون عن ابی حنیفۃ باحادیث و قال لیتہ کانت اکثر من ھذا۔

حامد بن آدمؒ کہتے ہیں کہ امام یزید بن ہارونؒ(م۲۰۶؁ھ)نے،امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ) سے مروی کئی احادیث ہمیں بیان  کی اور کہا کہ کاش میرے پاس اس سے زیادہ ،ان کی احادیث ہوتی۔(کشف الاثار مخطوطۃ : [FOLIO] نمبر ۱۶۶،مسند ابی حنیفۃ للحارثی : ج۱: ص ۴۳۵)

سند کی تحقیق :

(۱)       امام حارثی ؒ(م۳۴۰؁ھ) صدوق، حافظ الحدیث ہیں۔(مجلہ الاجماع : ش۲:ص۸۹)

(۲)       ابو سہل ،السری بن عصام  بن عبد اللہ بن سہل  البخاریؒ سے ابو بکر محمد بن حامد القواریری البخاریؒ (م۳۴۴؁ھ)، حافظ حارثی ؒ (م۳۴۰؁ھ)،ابو نصر،احمد بن سہل بن حمدویہ البخاریؒ، محمد بن سعید بن محمودؒ وغیرہ نے روایت لی ہے۔ (بحر الفوائد  للکلاباذی : ص ۳۵۰، الرد على من يقول الم حرف لابن مندہ الاصبہانی : ص۵۸،اکمال لابن ماکولا : ج۷: ص ۲۴۹،تلخیص المتشابہ للخطیب : ج۲: ص ۶۲۲)

             لہذا  ابو سہلؒ صدوق ہیں۔(ص:۳۲)

(۳)      حامد بن آدم ؒ جب ثقہ سے روایت کریں،تو ان کی روایت منکر نہیں ہوتی ۔(الکامل :ج۳: ص ۴۰۹)،اور یہاں بھی ثقہ سے روایت کررہے ہے،لہذا یہاں  حامد بن آدم ؒ مقبول ہیں۔

(۴)      حافظ یزید بن ھارون ؒ (م۲۰۶؁ھ) مشہور ثقہ،حافظ اور ثبت ،امام ہیں۔(تقریب)

لہذا یہ سند حسن ہے۔

متابع نمبر ۳ :

صدوق ، امام ، حافظ ابو محمد الحارثی ؒ (م ۳۴۰؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

قال حدثنا عبد اللہ بن عبیداللہ قال حدثنا محمد بن اللیث السرخسی قال حدثنا ابو سعید شیبۃ بن ھشام السرخسی قال حدثنا لبید بن ابی لیبد السرخسی قال سمعت یزید بن ھارون یقول کان ابو حنیفۃ اماماً من ائمۃ المسلمین یقتدی لہ قال ورایتہ یترحم علیہ و یذکرہ بالفضل۔

لبید بن ابی لبید سرخسی ؒ کہتے ہیں میں نے یزید بن ہارونؒ کو کہتے ہوئے سنا کہ امام ابو حنیفہؒ مسلمانوں  کے اماموں میں سے ایک امام ہیں ، جن کی اقتداء کی جاتی ہے، راوی کہتےہیں :اور میں انہیں دیکھا کہ وہ(یزید بن ہارونؒ) ان (امام      ابو حنیفہؒ) کےلئے رحمت کی دعا کر رہے ہیں اور ان کی فضیلت بیان کر رہے ہیں ۔

(کشف الاثار مخطوطۃ : [FOLIO] نمبر ۱۶۶)

سند کی تحقیق :

(ا)        امام حارثیؒ (م ۳۴۰؁ھ)  کی توثیق گزرچکی ۔

(۲)       عبد اللہ بن عبید اللہ سے مراد صدوق، امام ابو عبد الرحمٰن عبد اللہ بن عبد اللہ بن عبید اللہ بن شریح الشیبانی البخاری ؒ (م۳۰۷؁ھ)  ہیں ۔ (الانساب للسمعانی : ج۹:ص ۱۰۹)

(۳)      محمد بن اللیث السرخسی ؒ کا پورا نام محمد بن اللیث بن سعید السرخسیؒ ہے، اور ان کے بارے میں امام شمس الدین ابن الجزریؒ (م ۸۳۳؁ھ)  کہتے ہیں کہ ’’ شيخ معروف ‘‘وہ مشہور ومعروف شیخ ہیں۔(غایۃ النہایۃ لابن الجزری : ج۲ :ص۲۳۴)،  جو کہ ان کے صدوق ہونے کیلئے کافی ہے۔ (مجلہ الاجماع :ش۱۴:ص۵۷)

(۴)       ابو سعید شیبہ بن ہشام السرخسی  ؒ کے حالات نہیں مل سکے ، لیکن چونکہ ان کے متابع عمرو بن حمید موجود ہیں، لہذا اس روایت میں ان پر جرح فضول ہے ۔ [2]

(۵)      لبید بن ابی لبید السرخسی صدوق ہیں۔

ان سے ثقہ،ثبت،امام، حجت،متقن،حافظ الحدیث ،حسن بن علی الحلوانی الخلال ؒ ۲۴۲؁ھ) نے روایت کی ہے۔(الجرح و  التعدیل  لابن ابی حاتم : ج۷: ص ۱۸۱) اور وہ اپنے نزدیک عام طور سے  ثقہ سے روایت لیتے تھے۔[3]

لہذا لبید بن ابی لبید السرخسی ؒ  صدوق ہیں۔

(۶)       یزید بن ھارون ؒ ۲۰۶؁ھ) مشہور ثقہ،حافظ اور ثبت ،امام ہیں۔(تقریب)

لہذا یہ روایت حسن ہے۔

متابع نمبر ۴ :

حافظ المغرب ، امام خطیب بغدادی ؒ (م ۴۶۳؁ھ)  فرماتے ہیں کہ :

أخبرنا الخلال، أخبرنا الحريري أن النخعي حدثهم قال: حدثنا محمد بن علي بن عفان، حدثنا محمد بن عبد الملك الدقيقي قال: سمعت يزيد بن هارون يقول: أدركت الناس فما رأيت أحدا أعقل، ولا أفضل، ولا أروع، من أبي حنيفة۔

امام یزید بن ہارون ؒ کہتے ہیں کہ میں نے  (کئی) لوگوں کو دیکھا ، مگر میں نے امام ابو حنیفہ ؒ سے زیادہ عقلمند، متقن اور افضل کسی کو نہیں دیکھا ۔ (تاریخ بغداد : ج۱۳ : ص ۳۶۱)

روات کی تحقیق :

(۱)       حافظ المغرب ، امام خطیب بغداد ؒ مشہور ثقہ ، حافظ الحدیث ہیں ۔ (کتاب الثقات للقاسم : ج۱ :ص ۴۱۸)

(۲)       حافظ حسن بن محمد ، ابو محمد الخلال ؒ (م ۴۳۹؁ھ) ثقہ، حافظ الحدیث ہیں ۔ (تاریخ الاسلام : ج۹: ص ۵۸۱)

(۳)      علی بن عمرو بن سہل ابو الحسن الحریری ؒ (م ۳۸۰؁ھ) بھی ثقہ راوی ہیں ۔ (تاریخ بغداد : ج۱۲ : ص ۲۲)

(۴)      امام ابن  کاس النخعی ؒ (م ۳۲۴؁ھ) مشہور ، ثقہ ، ائمہ احناف میں سے ہیں۔ (ارشاد القاصی والدانی :ص ۴۴۰)

(۵)      محدث محمد بن علی بن عفان ؒ (م ۲۷۷؁ھ) ثقہ ہیں ۔(رجال الحاكم في المستدرک للشیخ مقبل بن ھادی : ج۲ : ص ۲۶۳,موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله:ج۲ : ص ۶۰۷)

(۶)       محمد بن عبد المالک دقیقی ؒ (م ۲۶۶؁ھ) سنن ابی داؤد و ابن ماجہ کے راوی اور ثقہ ہیں ۔ (تحریر التقریب : رقم ۶۱۰۱)

(۷)     ایزید بن ہارون ؒ (م ۲۰۶؁ھ) مشہور ثقہ، ثبت، حجت، عابد، متقن اور حافظ الحدیث ہیں ۔ (تہذیب التہذیب ، سیر)

معلوم ہوا کہ یہ سند حسن ہے۔

وضاحت :

اس روایت میں امام یزید بن ہارون ؒ  ’’ افعل ‘‘کا صیغہ استعمال کیا ہے، جو کہ امام صاحب کے اعلیٰ درجہ(یعنی ثقہ کے درجہ سے بھی اعلیٰ درجہ)کی توثیق پر دلالت کرتا ہے۔ (مجلہ الاجماع : شمارہ نمبر ۴:ص ۶۵)

متابع نمبر ۵ :

صدوق، خطیب ، امام ابو المؤید محمد الخوارزمی ؒ (م ۶۶۵؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

(أخبرني) يوسف بن عبد الله سبط ابن الجوزي بقراءتي عليه بسفح جبل الصالحين بدمشق قال أخبرني عبد الوهاب بن علي أخبرنا محمد بن أبي منصور أخبرنا ابن خيرون أخبرنا عبد العزيز بن علي الطحان، أخبرنا(ابو یعقوب یوسف بن احمد[4]   أخبرنا)  محمد بن جعفر[5]   أخبرنا أحمد بن منصور الرمادي قال لي يزيد بن هارون ما رأيت أحلم من أبي حنيفة كان إذا بلغه عن رجل أنه نال منه وذكره بسوء بعث إليه برفق وقال غفر الله لك يا أخي فقد وكلتك إلى الله تعالى من يعلم مني خلاف ما قلت

احمد بن منصور الرمادی ؒ  کہتے ہیں کہ مجھ سے یزید بن ہارون ؒ نے کہا کہ  : میں نے امام ابو حنیفہ ؒ سے زیادہ حلم اور بردبار کسی کو نہیں دیکھا، جب آپ کو کسی شخص کے بارے میں معلوم ہوتا کہ اس نے آپ کو برا بھلا کہا اور برائی کے ساتھ آپ کا تذکرہ کیا،تو آپ اس کو نرم جواب بھجواتے  اور کہتے : میرے بھائی اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے، میں آپ (کے معاملہ ) کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں ، جو میرے بارے میں آپ کے قول کے خلاف جانتا ہے۔ (جامع المسانید للخوارزمی :  ج۱ : ص ۶۹)

روات کی تفصیل درجِ ذیل ہے :

(۱)       امام ابو المؤید محمد الخوارزمی ؒ (م ۶۶۵؁ھ)  صدوق ، خطیب اور امام ہیں ۔ (مجلہ الاجماع : شمارہ نمبر ۴ : ص ۳۰)

(۲)      حافظ یوسف بن عبد اللہ ، سبط ابن الجوزی ؒ (۶۵۴؁ھ) مشہور ، صدوق ، امام مؤرخ اور حافظ الحدیث ہیں ۔ (جامع المسانید : ج۱:ص ۵۴، الاجماع : شمار نمبر۳ : ص ۲۷۸)

(۳)      ابو احمد عبد الوہاب بن علی بن علی ؒ (م ۶۰۷؁ھ) بھی ثقہ اور نیک ہیں ۔ (کتاب الثقات للقاسم : ج۶:ص ۵۱۰، مرآۃ الزمان لسبط ابن الجوزی ؒ : ج۲ : ص ۲۲۰)

(۵)      محمد بن ابی منصور ؒ سے مراد ثقہ راوی محمد بن ابی منصور عبد الملک بن الحسن ؒ (م ۵۳۹؁ھ) ہیں ۔ (مرآۃ الزمان لسبط ابن الجوزی : ج۲ : ص ۴۱، ناسخ القرآن لابن الجوزی : ج۱ : ص ۲۳۱، تحقیق محمد اشرف علی الملیباری)

(۵)      حافظ ابو الفضل احمد بن حسن بن خیرون البغدادی ؒ (م ۴۸۸؁ھ) مشہور ثقہ ، امام اور حجت ہیں ۔ (تاریخ الاسلام : ج۱۰ : ص ۵۹۰)

(۶)      عبد العزیز بن علی الازجی الطحان (م ۴۴۴؁ھ) بھی صدوق راوی ہیں ۔ (المنتظم لابن الجوزی ؒ : ج۸:ص ۱۱۹،تاریخ الاسلام : ج۹:ص ۶۵۶، تاریخ بغداد : ج۳ :ص۵۳)

(۷)      ابو یعقوب ، یوسف بن احمد الصیدلانی ؒ (م ۳۸۸؁ھ)بھی صدوق راوی ہیں ۔ (مجلہ الاجماع : ش۳:ص۲۸۴)

(۸)      محمد بن جعفر السامری ؒ (م ۳۲۷؁ھ)  مشہور ، ثقہ ، حافظ الحدیث ہیں ۔ (تاریخ الاسلام : ج۷:ص ۵۳۹، سیر : ج۱۵:ص ۲۶۷)

(۹)      احمد بن منصور الرامی ؒ (م ۲۶۳؁ھ) سنن ابن ماجہ کے راوی اور مشہور ثقہ ، ضابط ،حافظ الحدیث ہیں ۔ (تقریب : رقم ۱۱۳، سیر)

(۱۰)     امام یزید بن ہارون ؒ کی توثیق گزر چکی ۔

لہذا یہ سند بھی حسن ہے ۔ واللہ اعلم

متابع نمبر ۶:

ثقہ ، ثبت امام ابو القاسم عبد اللہ بن ابی العوام ؒ (م ۳۳۵؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

حدثني إبراهيم بن أحمد بن سهل قال: ثنا القاسم بن غسان قال: سمعت إبراهيم بن عبد الله الهروي يقول: سمعت يزيد بن هارون يقول: أدركت ألف رجل من الفقهاء وكتبت عن أكثرهم، ما رأيت فيهم أفقه ولا أورع ولا أحلم من خمسة: أولهم أبو حنيفة۔

امام یزید بن ہارون ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے’’۱۰۰۰‘‘  فقہاء کی جماعت کو پایا اور ان میں سے اکثر سے میں نے روایت لکھی ہے۔

ان میں پانچ ایسے فقیہ ہیں ، جن سے بہتر نہ میں نے کوئی فقیہ دیکھا، نہ ان سے بہتر کوئی متقن دیکھا اور نہ ہی ان سے بہتر حلم اور بردبار دیکھا۔

اور ان پانچ میں سے پہلے امام ابو حنیفہ ؒ ہیں ۔ (فضائل ابی حنیفۃ وأخبارہ ومناقبہ لابی عوام : ص ۵۶)

روات کی تحقیق درجِ ذیل ہے:

(۱)       امام ابو القاسم عبد اللہ بن ابی العوام ؒ (م ۳۳۵؁ھ) مشہور ثقہ ، ثبت ، امام ہیں ۔ (مجلہ الاجماع : شمار نمبر ۲ : ص ۳)

(۲)       ابو احمد،ابراہیم بن احمد بن سہل بن اسحاق الترمذی ؒ صدوق ہیں ۔

کیونکہ امام ابو القاسم ابن ابی العوام ؒ (م ۳۳۵؁ھ) نے ان سے کثرت سے روایت لی ہے، تقریباً  ’’۲۴‘‘ سے زیادہ روایتیں ان سے اپنی کتاب میں نقل کی ہیں ۔ دیکھئے : فضائل ابی حنیفہ وأخبارہ ومناقبہ لابن ابی عوام ۔

اورجب کوئی امام اپنے کسی شیخ  سے کثرت سے روایات نقل کرتا ہے، تو وہ شیخ اس کے نزدیک کم از کم  ثقہ ہوتا ہے۔ (مجمع الزوائد : حدیث نمبر ۸۷۹۰)

لہذا ابراہیم بن احمد بن سہل الترمذی ؒ کم سے کم صدوق ضرور ہیں ۔ واللہ اعلم

(۳)      قاسم بن غسان المروزی ؒ بھی صدوق ہیں ۔  کیونکہ انکو صدوق راوی ابراہیم بن احمد بن سہل ترمذی ؒ نے قاضی کوفہ قرار دیا ہے(فضائل ابی حنیفہ : ص ۶۷)

اور کسی راوی کی اچھی اور نیک شہرت  اس کے صدوق ہونے کیلئے کافی ہے۔ (مجلہ الاجماع :ش۱۴:ص۵۷)

لہذا قاسم ؒ بھی صدوق ہیں ۔

(۴)      ابراہیم بن عبد اللہ الہروی ؒ(م ۲۴۴؁ھ) سنن ترمذی اور ابن ماجہ کے راوی اور صدوق،حافظ الحدیث ہیں ۔ (تقریب التہذیب : رقم ۱۹۳)

(۵)      امام یزید بن ہارون ؒ کی توثیق گزر چکی۔

معلوم ہوا کہ یہ روایت بھی حسن درجہ کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن عبد البر ؒ (م ۴۶۳؁ھ)  اور حافظ مغلطائی ؒ (م۷۶۲؁ھ)  فرماتے ہیں کہ :

امام یزید بن ہارون ؒ نے امام ابو حنیفہ ؒ کی تعریف ومدح اور ان کو پاکیزہ قرار دیا ہے۔ (الانتقاء لابن عبد البر : ص ۱۳۷، اکمال تہذیب الکمال : ج۲۲ :ص ۵۶-۵۷)

خلاصہ کلام :

اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ :

-          اس روایت میں ابن المغلس ؒ پر کلام مردود ہے۔

-         امام یزید بن ہارون ؒ (م ۲۰۶؁ھ)  کے نزدیک امام ابو حنیفہ ؒ (م ۱۵۰؁ھ)  صدوق ، بہترین ، پاکیزہ، متقن ، امام المسلمین اور بےمثال فقیہ ہیں ۔ واللہ اعلم



[1]  امام یزید بن ہارون ؒ (م۲۰۶؁ھ) اور ابن معین ؒ (م۲۳۳؁ھ) کا قول ، جس کو شیخ ابو الحسن السلیمانی نے ذکر کیا ہے، ان کے درمیان راجح تطبیق  یہی ہوگی کہ یزید بن ہارون ؒ اپنے نزدیک صرف ثقہ یا صدوق راوی سے روایت کرتے ہیں ، جبکہ وہ راوی ابن معین ؒ کے نزدیک کمزور اور ضعیف ہوتا ہے۔ واللہ اعلم

[2]  چنانچہ حافظ حارثی ؒ (م ۳۴۰؁ھ) ہی کہتے ہیں کہ :

قال حدثنا علی بن الحسن بن سعد قال حدثنا الشیخ عمرو  قال کان یزید بن ھارون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقال یزید بن ھارون مہ کان ابوحنیفۃ اماماً یقتدی بہ۔

۔۔۔۔ تو یزید بن ہارون نے کہا : خاموش رہو، امام ابو حنیفہؒ امام تھے ، جن کی اقتداء کی جاتی ہے۔ (کشف الاثار مخطوطۃ : [FOLIO] نمبر ۱۶۶،مسند ابی حنیفۃ للحارثی : ج۲: ص ۵۹۵)

سند کی تحقیق:

(۱)         امام حارثیؒ (م ۳۴۰؁ھ) کی توثیق گزرچکی ۔

(۲)         علی بن الحسن بن سعد الھمذانیؒ (م ۳۱۷؁ھ)  بھی ثقہ ہیں ۔ (تاریخ الاسلام : ج۷: ص۳۲۷)

(۳)        عمرو بن حمید،قاضی دینور  بھی اس روایت میں صدوق ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۷:ص ۳۴۲)

[3] امام ابو داود ؒ ۲۷۵؁ھ) فرماتے ہیں کہ وہ رجال کے عالم تھے۔حافظ خلیلیؒ۴۴۶؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’ كان يشبه بأحمد فى سمته و ديانته ‘‘ حسن بن علی الخلال ؒ   طور طریقے اور دیانت داری میں احمد بن حنبلؒ کے مشابہ تھے۔(تہذیب التہذیب : ج۲: ص ۳۰۳)،  اور امام احمد بن حنبل ؒ۲۴۱؁ھ) کا حدیث  میں    اتقان رجال مشہور ہے۔لہذا امام احمد ؒ کے مشابہ ہونے کی وجہ سے،حافظ حسن بن علی الحلوانی الخلال ؒ ۲۴۲؁ھ) بھی عام طور سے اپنے نزدیک صرف ثقہ سے روایت لیتے تھے۔

نیز اس  کی مزید تائید   اس بات سےبھی ہوتی ہے کہ   تہذیب الکمال میں موجود ان کے تمام کے تمام  شیوخ  ثقہ یا صدوق ہیں سوائے ایک کے۔(تہذیب الکمال : ج۶: ص ۲۶۰) واللہ اعلم

[4] جامع المسانید للخوارزمی کے مطبوعہ نسخے میں عبد العزیز بن علی الطحانؒ۴۴۴؁ھ) اور امام احمد بن منصور الرمادی ؒ ۲۶۳؁ھ)کے شاگرد محمد بن جعفر السامری ؒ۳۲۷؁ھ)کے درمیان ابو یعقوب ،یوسف بن احمد الصیدلانیؒ۳۸۸؁ھ) کا حوالہ ساقط ہوگیا،لیکن الانتقاء لابن عبد البر میں محمد السامریؒ کے شاگرد ابو یعقوب ،یوسف بن احمد الصیدلانیؒ۳۸۸؁ھ) کا واسطہ  موجود ہے۔(ص: ۱۳۵)، لہذا ابن علی الطحانؒ اور محمد السامری ؒ کے درمیان ابو یعقوب ،یوسف بن احمد الصیدلانیؒ۳۸۸؁ھ) کا واسطہ ہے۔

[5] احمد بن منصور الرمادی ؒ کے شاگرد  محمد بن جعفر   سے مراد یہاں پر محمد بن جعفر السامری ؒ۳۲۷؁ھ) ہیں،کیونکہ الانتقاء میں رمادیؒ کے شاگرد  محمد بن علی ،ابو علی السامری ؒ ہیں۔(ص:۱۳۵) اور ایک راوی کے دو،دو کنیتیں ہونا کوئی بعید نہیں ہے۔لہذا یہاں پر محمد بن جعفر   سے مراد یہاں پر محمد بن جعفر السامری ؒ۳۲۷؁ھ)  ہی ہیں۔واللہ اعلم


ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر16

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...