الحافظ ، العلم ، الحجة یحیی بن زکریا بن ابی زائدہ کی نگاہ میں امام ابو حنیفہ
یحیی بن زکریا جن کو امام ذہبی رحمہ اللہ نے الحافظ ، العلم ، الحجة جیسے القاب سے یاد فرمایا یے اور امام ابو حاتم رازی ، ابن حبان ، احمد بن حنبل ، یحیی بن معین ، امام نسائی ، امام علی بن مدینی ، یعقوب بن شیبہ ، امام ذہبی ، ابن حجر سب نے ان کو ثقہ کہا ہے۔ وہ امام ابو حنیفہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں، جانتے ہیں :-
815 - حدثنا أبي قال: ثنا أبي قال: حدثني محمد بن أحمد بن حماد قال: حدثني محمد بن حماد مولى بني هاشم قال: ثنا محمد بن سليمان قال: قال يحيى بن زكريا بن أبي زائدة وعمرو بن ثابت: ما رأينا أحداً ترك علم أبي حنيفة تورعاً.
( فضائل أبي حنيفة ، سند حسن )
محمد بن سليمان لوين یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدة اور عمرو بن ثابت کا قول نقل کرتے ہیں کہ :
ہم نے کبھی کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جس نے امام ابو حنیفہؒ کا علم اس وجہ سے چھوڑا ہو کہ وہ دین میں زیادہ پرہیزگار یا محتاط بننا چاہتا ہو۔
وضاحت:
یعنی ہم نے کسی محدث یا فقیہ کو نہیں دیکھا جس نے ابو حنیفہ کا علم (اس خیال سے ) چھوڑ دیا ہو کہ وہ ( علم ) تقویٰ کے خلاف ہے۔"
دوسرے الفاظ میں کہیں تو امام ابو حنیفہ کا علم اتنا معتبر تھا کہ جو ایک بار امام ابو حنیفہ اور انکی مجلس سے جڑ جاتا تو ان سے مستفید ہوئے بغیر نہیں رہتا . گویا کہ یحییٰ بن زکریا نے گواہی دی کہ امام ابو حنیفہؒ کا علم اتنا معتبر، نافع ، فائدہ مند اور دین کے اصولوں کے مطابق تھا کہ کوئی بھی سچا، نیک، اور پرہیزگار شخص یہ نہیں کہتا تھا کہ "میں امام ابو حنیفہؒ کی بات اس لیے نہیں مانتا کہ میں زیادہ دین دار بننا چاہتا ہوں۔" یعنی جو بھی ان کے علم سے ہٹتا تھا، وہ کسی اور وجہ سے ہٹتا ہوگا — جیسے فکری اختلاف یا ذاتی نظریہ، یا تعصب — لیکن تقویٰ یا دینداری کی وجہ سے یا امام ابو حنیفہ میں کسی عیب یا ضعف کی وجہ سے کسی نے بھی امام ابو حنیفہؒ کا علم نہیں چھوڑا یا امام صاحب کو ترک نہیں کیا۔
فائدہ - یہ جو اعتراض کیا جاتا ہے کہ امام عبد اللہ بن مبارک، امام ابو عبد الرحمن المقرئ، امام حفص بن غياث وغیرہ نے امام ابو حنیفہ کو ترک کر دیا تھا تو دلائل کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ غلط باتیں ہیں. دلائل یہ یہی ثابت ہوتا ہے کہ کہ محدثین امام ابو حنیفہ سے اپنی آخری عمر تک احادیث روایت کرتے رہے.
نتیجہ:
امام ابو حنیفہؒ نہ صرف ایک بڑے فقیہ اور اسلامی قانون دان تھے، بلکہ ان کا علم اتنا مضبوط اور اصولوں کا پابند تھا کہ پرہیزگاری کرنے والے اکابر علماء بھی ان پر اعتماد کرتے تھے۔یہ روایت ان کے علم کی عظمت، قبولیت اور دینی ہم آہنگی کا واضح ثبوت ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں