نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امامِ اعظم ابوحنیفہؒ – فہمِ حدیث کے امام – ائمہ محدثین کی شہادتوں کی روشنی میں



امامِ اعظم ابوحنیفہؒ – فہمِ حدیث کے امام

 ائمہ محدثین کی شہادتوں کی روشنی میں


علمِ دین کے سمندر میں دو موجیں ہمیشہ سے بہہ رہی ہیں — ایک وہ جو روایت سے جڑتی ہے، اور دوسری وہ جو درایت سے۔ روایت کا تعلق الفاظ سے ہے، اور درایت کا تعلق معانی سے۔

امام اعظم ابوحنیفہؒ ان خوش نصیب ہستیوں میں سے ہیں جنہوں نے روایت کو درایت کے نور سے روشن کیا، اور فقہِ اسلامی کی بنیاد ایسی مضبوط رکھی کہ بعد کے ائمہ و محدثین اُن کے اجتہادی اصولوں کے معترف ہوئے۔ یہ حقیقت نہ صرف فقہائے احناف کا دعویٰ ہے بلکہ ائمہ محدثین کی شہادتوں سے بھی واضح طور پر سامنے آتی ہے۔ ذیل میں ہم چند مستند روایات سے امام ابو حنیفہؒ کے علمی مقام اور ان کے فقہی اجتہاد کی بنیادوں کا جائزہ لیتے ہیں۔


1. امام وکیع بن الجراحؒ کا اعلان – فقہ کی ضرورت اور ابو حنیفہؒ کی برتری

وکیع بن الجراحؒ فرماتے ہیں:

أخبرني الحسن بن محمد بن الحسن الخلال نا محمد بن العباس الخزاز نا أبو بكر بن أبي داود نا علي بن خشرم قال: سمعت وكيعا غير مرة يقول: " يا فتيان تفهموا فقه الحديث، فإنكم إن تفهمتم فقه الحديث لم يقهركم أهل الرأي ".

وکیع رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر تم حدیث کی فقہ کو حاصل کر لو(حدیث میں تفقہ حاصل کر لو یا حدیث کی فہم / سمجھ حاصل کر لو) اور اس کو سیکھ لو تو فقہاء تم پر غالب نہیں آسکیں گے(اس زمانے میں محدثین اس بارے میں بہت کمی کا شکار تھے ، کئی احادیث زبانی یاد ہونے کے باوجود مسئلہ اخذ کرنے میں فقہاء سے پیچھے رہ جاتے تھے)۔

(    نصيحة أهل الحديث ص 41 ، الفقيه والمتفقه 2/161 سلفی محقق عمرو عبدالمنعم سلیم کے مطابق اس کی سند صحیح ہے شرف اصحاب الحدیث و نصيحة أهل الحديث ص 257 ، ایک اور سلفی عادل العزازی الفقيه والمتفقه 2/161 میں اس روایت کے بارے میں کہتے ہیں رجالہ ثقات یعنی اس روایت کے رجال ثقات ہیں ، نیز فرقہ اہلحدیث کے زبیر علی زئی کے مطابق ابوبکر بن ابی داود ثقہ ہیں (مجلہ الحدیث رقم 84 میں صفحہ 26 تا 39))

اسی بات کی ہمیں ایک اور روایت میں امام وکیع سے مزید وضاحت ملتی ہے۔

" لو أنكم تفقهتم الحديث وتعلمتموه ، ما غلبكم أصحاب الرأي، ما قال أبو حنيفة في شئ يحتاج إليه إلا ونحن نروي فيه بابا " .

  امام وکیع رحمۃ اللہ علیہ ایک دن حدیث کے طلبہ کو فرمانے لگے  کہ اگر تم حدیث کی فقہ کو حاصل کر لو اور اس کو سیکھ لو تو فقہاء تم پر غالب نہیں آسکیں گے  امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے جس بھی ضروری مسئلے کے بارے میں کچھ کہا ہے ہم اس میں ایک پورا باب روایت کرتے ہیں۔ (   نصيحة أهل الحديث  ص 41 سند میں النعالی پر کلام ہے لیکن پہلی روایت سے تقویت پا کر یہ سند بھی قابل اعتماد ہو جاتی ہے ، نیز سلفی محقق عادل العزازی نے اس روایت کی تحقیق میں لکھا ہے رجالہ ثقات الفقيه والمتفقه 2/162 ، چونکہ شواہد میں ضعیف روایات بھی قابل قبول ہیں  جیسا کہ غیر مقلدوں کے فتاوی راشدیہ کتاب الطہارت ص 246 پر شواہد و متابعات میں ضعیف روایات پیش کی گئی ہیں۔)


امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے جس بھی ضروری مسئلے کے بارے میں کچھ کہا ہے ہم اس میں ایک پورا باب روایت کرتے" ہیں" یہ الفاظ امام ابو حنیفہؒ کی اجتہادی عمق پر مہرِ تصدیق ہیں۔ امام وکیعؒ، جو نہ صرف امامِ حدیث ہیں، یہ فرما رہے ہیں کہ: “امام ابو حنیفہؒ کے ہر مسئلے کی پشت پر احادیث کا پورا ذخیرہ موجود ہے۔” یہ کلمات صرف تعریف نہیں، بلکہ ایک علمی فیصلے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ یہ ایک ایسے محدث کی زبان سے ادا ہوئے جو خود اصولِ روایت میں امام تھا۔


2. محدثِ کبیر سفیان بن عیینہؒ کی مجلس سے ایک تاریخی گواہی

روایت ہے کہ علی بن خشرمؒ بیان کرتے ہیں:

سَمِعْتُ أَبَا الطَّيِّبِ الْكَرَابِيسِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ يَزِيدَ الْمَرْوَزِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ خَشْرَمٍ يَقُولُ: كُنَّا فِي مَجْلِسِ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ فَقَالَ: " يَا أَصْحَابَ الْحَدِيثِ تَعَلَّمُوا فِقْهَ الْحَدِيثِ لَا يَقْهَرُكُمْ أَصْحَابُ الرَّأْيِ، مَا قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ شَيْئًا إِلَّا وَنَحْنُ نَرْوِي فِيهِ حَدِيثًا أَوْ حَدِيثَيْنِ، قَالَ: فَتَرَكُوهُ، وَقَالُوا: عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ عَمَّنْ؟ (معرفة علوم الحديث للحاكم ١/٦٦  سند لا باس به ہے  راوئ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ خَالِدٍ الْمَرْوَزِيُّ سے أبو طیب کرابیسی، أبو ولید فقیہ، إبراهيم بن محمد بن رجاء الوراق، یحیی بن محمد بن عبد اللہ بن العنبری، أبو عمرو بن حمدان نے روایت کی ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ راوی صدوق درجہ کا ہے. دوم : علی بن خشرم اسی طرح کی روایت وکیع سے بھی کرتے ہیں    نصيحة أهل الحديث ص 41 ، الفقيه والمتفقه 2/161  ، لہذا شواہد کی بناء پر بھی یہ روایت قابل حجت ہے ))

سفیان بن عیینہؒ، جو جرح و تعدیل میں حجت ہیں، اور جن کی روایت بخاری و مسلم دونوں میں موجود ہے، اپنے شاگردوں کو تنبیہ کرتے ہیں کہ:

“اے اہلِ حدیث! حدیث کا فہم حاصل کرو تاکہ اہلِ رائے تم پر غالب نہ آجائیں۔ امام ابو حنیفہؒ نے جو بھی بات کہی، ہم اس کے بارے میں ایک یا دو حدیثیں روایت کرتے ہیں۔” 

یہ جملہ تاریخِ فقہ میں ایک فیصلہ کن شہادت ہے۔ اس سے تین بنیادی نکات ظاہر ہوتے ہیں:

(الف) امام ابو حنیفہؒ کا ہر اجتہاد حدیث کی بنیاد پر تھا

سفیان بن عیینہؒ خود گواہی دے رہے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ کے ہر قول کی جڑ کسی نہ کسی حدیث میں موجود ہے۔ یہ اس اعتراض کی جڑ کاٹ دیتا ہے جو بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ “رائے سے” بات کرتے تھے۔

(ب) اہلِ حدیث کے لیے نصیحت کہ وہ فقہ سے غافل نہ ہوں

سفیان بن عیینہؒ نے اپنے شاگردوں کو دراصل اس خطرے سے خبردار کیا کہ اگر وہ فقہ الحدیث کو نہیں سمجھیں گے تو وہ ان اہلِ رائے سے مغلوب ہو جائیں گے جو حدیث کو صرف روایت نہیں بلکہ سمجھ کر استعمال کرتے ہیں۔

(ج) فہم و درایت کو ترک کرنے کا نقصان

روایت کے آخر میں آتا ہے کہ: “پھر بعض اہلِ حدیث نے ان کی نصیحت کو چھوڑ دیا اور صرف اسناد کے مباحث میں الجھ گئے۔” یہ بات ایک فقہی انحراف کی نشاندہی ہے کہ حدیث کے ظاہری پہلو پر توجہ زیادہ اور اس کے فہم و تطبیق پر کم دی جانے لگی۔

 علمی  نکات

مندرجہ بالا روایات سے درج ذیل اصولی نتائج حاصل ہوتے ہیں:

1. یہ دونوں روایات اس حقیقت کی روشن شہادت ہیں کہ امامِ اعظم ابو حنیفہؒ کے تمام اجتہادات کا سرچشمہ احادیثِ نبویہؐ ہی تھیں، اور اُن کے ہر فقہی قول کی پشت پر نصِ شرعی کی روشنی موجود تھی۔ چنانچہ جب سفیان بن عیینہؒ اور وکیعؒ جیسے جلیل القدر محدثین خود اس امر کی تصدیق کر رہے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ نے کوئی بات ایسی نہیں کہی جس کے بارے میں حدیث موجود نہ ہو، تو اس سے یہ اصولی حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ ہر حنفی مقلد دراصل دلیل کے بغیر نہیں بلکہ دلیل کے واسطے سے عمل کرتا ہے، چاہے وہ دلیل اُس کے علم میں ہو یا نہ ہو۔ شریعت نے عوام الناس پر یہ ذمہ داری نہیں رکھی کہ وہ ہر مسئلے میں خود تحقیق کریں اور ہر حکم کی حدیث جانیں، بلکہ قرآن نے واضح فرمایا: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (النحل: 43) یعنی “اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ علم سے پوچھ لو۔” پس جب اہلِ علم میں امام ابو حنیفہؒ جیسے مجتہد شامل ہوں، جن کے بارے میں خود ائمہ محدثین گواہی دیتے ہیں کہ وہ ہر مسئلے میں حدیث کی بنیاد پر بات کرتے تھے، تو شرعاً یہ ثابت ہو گیا کہ حنفی مقلد کا عمل دلیل سے منقطع نہیں بلکہ دلیل ہی کے تسلسل سے وابستہ ہے، اگرچہ وہ دلیل اُس کے علم و فہم میں براہِ راست نہ ہو۔

2. ابو حنیفہؒ حدیث سے غافل نہیں بلکہ حدیث کے فقیہ تھے۔ وہ روایت کی ظاہریت پر نہیں رکتے تھے بلکہ حدیث کے فہم، مفہوم، اور مقصدِ شریعت تک پہنچتے تھے۔ ائمہ محدثین خود اُن کے متبعِ  تھے۔ سفیان بن عیینہؒ اور وکیعؒ جیسے محدثین امام ابو حنیفہؒ کے علم کو تسلیم کرتے ہیں۔ جب وکیعؒ اور سفیانؒ جیسے محدثین یہ کہتے ہیں کہ ابو حنیفہؒ کے ہر قول کے پیچھے حدیث ہے، تو آج کسی کے لیے یہ کہنا کہ “امام ابو حنیفہ حدیث سے ناواقف تھے” علمی بددیانتی کے سوا کچھ نہیں۔ اہلِ رائے  حقیقت میں وہ اہلِ فہم تھے۔ امام ابو حنیفہؒ کا منہج “اہلِ الرائے” کہلاتا ہے، لیکن یہ رائے محض عقلِ ظاہری نہیں بلکہ عقلِ منورہ بالشریعة تھی، یعنی وہ عقل جو نصوصِ شرعیہ سے روشنی لیتی ہے۔

قارئین دیکھیں :  "النعمان سوشل میڈیا سروسز"  کی ویب سائٹ پر موجود


پیش لفظ: سلسلۂ تعریف و توثیقِ امام ابو حنیفہؒ : علمِ حدیث کے اُفق پر چمکتا ستارہ: تابعی، ثقہ، ثبت، حافظ الحدیث، امام اعظم ابو حنیفہؒ


تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 3 :امام اعظم ابوحنیفہ ؒ (م۱۵۰؁ھ) امام سفیان بن عیینہ ؒ (م ۱۹۸؁ھ) کی نظر میں


امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ کی حنفیت


نتیجہ 

 ائمہ محدثین نے خود اُن کی فقہی بصیرت کو تسلیم کیا، اور اُن کے منہج کو اہلِ درایت کا منہج قرار دیا۔ لہٰذا، آج کے دور میں جو لوگ محض تقلیدِ مخالفت کے جذبے سے اُن پر اعتراض کرتے ہیں، انہیں یہ جان لینا چاہیے کہ ان کے اعتراضات کو خود محدثینِ امت نے ردّ کر دیا تھا۔ امام ابو حنیفہؒ دراصل فقہ الحدیث کے امام ہیں،  وہ فقہ کو “فنِ فہمِ حدیث” سمجھتے تھے 



تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ   نے   امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب:  اسلامی تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ و علم میں ایسی بے مثال شخصیت تھے جن کی عظمت اور مقام پر محدثین و فقہاء کا بڑا طبقہ متفق ہے۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر بعد کے ادوار میں چند محدثین بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح منقول ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے امام الحدیث جیسے جلیل القدر عالم، امام اعظم جیسے فقیہ ملت پر کلام کرتے نظر آتے ہیں؟ تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے بارے میں زیادہ تر وہی روایات پہنچیں جو ضعیف، منقطع یا من گھڑت تھیں، اور یہ روایات اکثر ایسے متعصب یا کمزور رواة سے منقول تھیں جنہیں خود ائمہ حدیث نے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ یہی جھوٹی حکایات اور کمزور اساتذہ کی صحبت امام بخاری کے ذہن میں منفی تاثر پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ اس مضمون میں ہم انہی اسباب کو تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ امام ابو حنیفہ پر ا...